دینی حلقوں میں عدم برداشت کی موجودہ کیفیت نئی نسل کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بن رہی ہے۔بات بات پہ فتوے، تنقیدات ، الزامات اور تہمتوں کی اس روش نے ذہنی ارتداد کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ ہمارے سنجیدہ اہل علم کواس معاملہ میں باہم سوچ وبچار کے بعد ایسی مشترکہ پالیسی طے کرنی چاہیے جس کے باعث ایسے معاملات کی راہ روکی جاسکے ۔کوئی رائے دینے،کچھ کہنے اور لکھنے سے پہلے اس کے تمام مثبت ومنفی پہلوؤں پر نظر رکھنی چاہیے۔فوائد اور نقصانات اگر مدنظر ہوں تو امید ہے کہ اختلافات کی صورتیں کم ہی پیدا ہوں گی ۔محض شخصی اور ذاتی مقاصد ومفادات کے حصول کی خاطر کسی رائے کے اظہار میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑناچاہیے۔ دوسروں کو جبراً قائل کرنے کے بجائے صبراً مائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ہمارے اکابر اپنے اصاغر کی اصلاح اس انداز میں کریں کہ وہ محسوس کریں کہ جیسے والد اپنے بیٹے کی اصلاح کرتا ہے ایسے ہی یہ بزرگ ہماری اصلاح فرمارہے ہیں ۔
تنقید اور جارحانہ اندازِ اصلاح ، اصلاح کی بجائے فساد کا سبب بنتا ہے ۔ہم محض جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی باتیں لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ہم نے کیا کر دیا ہے ؟اور جب پانی سر سے گذ رجاتا ہے تو پھرسوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔سانپ گذر جائے تولکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو۔اسی طرح لکھتے ہوئے بھی ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے، تقریرسے زیادہ تحریر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر ہمارے اندر یہ احسا س پید ا ہوجائے کہ ہم نے بولے جانے والے ایک ایک کلمہ اور لکھے جانے والے ایک ایک لفظ کا اللہ رب العزت کے سامنے جواب دینا ہے تو ہماری زبان اور قلم بہت ہی محتاط ہو جائیں۔
ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہماری منفی تحریروں کے نقصانات کتنے زہریلے مرتب ہوتے ہیں ۔ہمارا مخالف اور مخاطب تو جواثر لے وہ تو ہے ہی مگر اس طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا کہ دین دشمن افراد اور جماعتوں کے پاس ہمارا تمام ریکارڈمحفوظ ہورہاہے اور وقت آنے پر وہ ہماری نسلوں کو ہم ہی سے نہیں بلکہ دین اسلام سے بدظن اوربرگشتہ کرنے کے لیے استعمال کریں گے، جیساکہ ’’تاریخ احمدیت ‘‘لکھ کر قادیانیوں نے کیا ہے اور منکرینِ حدیث اپنی کتابوں میں کررہے ہیں۔صرف مذہب کا سرطان۔(مرتب:کوثر جمال)،تاریک اجالے،حقیقی علماء اور جعلی علماء ۔احتساب یا انقلاب ، حقیقی عبادت جعلی عبادت ۔(مرتب:مشتاق احمد)اور پسِ نوشت (ڈاکٹر پرویز پروازی) کا دیکھناہی اس حوالہ سے ہماری آنکھیں کھولنے اور غفلت کی چادر اتارنے کے لیے کافی ہو گا۔
پورے ملک میں چند گنی چنی شخصیات کے استثناء کے بعد ہمارے ہاں کون ہے جواس نہج پر سوچ کر بولے اور لکھے ؟ ہم پہلے جذبات کی رَو میں بہہ کر ایسی باتیں اور فتوے تحریر کر جاتے ہیں اور بعد میں ان کی وضاحتیں پیش پیش کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے ۔آغاز ایک تحریر سے ہوتا ہے اور اختتام ایک کتاب پر جاکے ہوتا ہے ۔کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ فتویٰ پہلے دے دیا جاتا ہے اور فریق ثانی سے متعلق دلائل وشوائد بعد میں اکٹھے کئے جاتے ہیں۔
کراچی کی ایک بہت بڑی علمی شخصیت نے ایک تنظیم کے خلاف فتویٰ تحریر فرمانے کے بعدمردان کے ایک عقیدت مندکو تحریر کیا کہ فتویٰ تومیں نے دے دیا ہے مگر ان سے متعلق بنیادی معلومات بھی مجھے نہیں ہیں۔آپ براہ مہربانی ان سے متعلق بنیادی معلومات مجھے فراہم کریں۔۔۔ ہمارے ایک انتہائی قابل احترام ’’کالم نگار‘‘دوست نے ایک دفعہ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ العالی سے استفسار کیا تھا کہ حضرت ! ہم جب لکھتے ہیں تو بار بار کانٹ چھانٹ کرنی پڑتی ہے، تین چار دفعہ کی ریاضت کے بعد کہیں جاکے ’’کالم ‘‘ مکمل ہوتا ہے جب کہ آپ کو بارہا دیکھا کہ آپ لکھنے بیٹھتے ہیں اورایک ہی نشست میں اپنا ’’کالم‘‘ مکمل کرلیتے ہیں اوراس میں کہیں کانٹ چھانٹ بھی نہیں کرتے ، تو اس کی وجہ کیا ہے ؟مولانا زاہد الراشدی صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا بھائی! آپ لکھنے کے بعد سوچتے ہیں اور میں لکھنے سے پہلے سوچتا ہوں ۔دوسری طرف وہ ہیں کہ ’’کالم ‘‘ہی نہیں ’’فتویٰ‘‘ ارشاد فرمانے کے بعد سوچتے ہیں بلکہ بعض تو فتویٰ جاری کرنے کے بعد بھی نہیں سوچتے ۔۔۔! انا للّٰہ و انا الیہ راجعون.
پھر نوبت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ فریقین میں تبادلہ دلائل کا نہیں الزامات واعتراضات کا ہوتا ہے ۔ اوریہ الزامات و اعتراضات بھی علمی نہیں ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ہم اُسے تحریر کاحسن سمجھتے رہتے ہیں کہ جتنا کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالیں گے اتناہی تحریر میں زور پڑے گااورا دب کی چاشنی بڑھے گی ہمیں یہ احساس سرے سے نہیں ہوتا کہ ایسا کرکے ہم کسے خوش کررہے ہیں اورہماری ان تحریروں سے کل فائدہ کون اٹھائے گا؟
ابھی تک ہماری ماضی کی تحریروں سے ہی گلوخلاصی نہیں ہوئی، پہلے ہی اعتراضات وجوابات کا سلسلہ تھمنے نہیں پایا کہ اب مزید نئے نئے مسائل نے جنم لیناشروع کردیا ہے اوراس کی سب سے بڑی وجہ فریقین میں عدم برداشت اور عدم حوصلہ ہے۔ ہر فرد ، ہرادارہ ، ہرجماعت یہی سمجھتی ہے کہ جوہماری رائے ہے وہی ’’اقرب الی الحق‘‘ ہے اور اب تو بات اقرب سے ہٹ کر ’’عین الحق‘‘ تک پہنچ گئی ہے کہ جو میں کہتاہوں ، جو میرا نظریہ ہے ، جو میری سوچ ہے ، جو میں لکھتا ہوں ، وہی حق ہے، صحیح یہ ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ باطل، لغو اور غلط ہے۔ انا ولاغیری ہی آج ہمار انعرہ ہے۔ اسی سوچ اور نظریے نے آج ہمیں جس مقام پر لاکھڑا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسے معاملات میں شیطان اوراس کے چیلے ہمارے سامنے ایسے ایسے دلائل لا کر رکھ دیتے ہیں کہ پھرہم رکنے اور ٹھہرنے کا نام تک نہیں لیتے اورایک دوسرے پر ایسے تابڑ توڑ حملے کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔
خدا را ہمارے اکابرومعاصر اپنے اس عمل پر نظر ثانی فرمائیں اور امت کے اس بکھرے شیرازے کو مزید انتشار وافتراق کی دلدل میں نہ دھکیلیں۔اکابرکے ساتھ ساتھ اصاغر کوبھی اس کا احسا س کرنا چاہیے کہ:
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ بھی نہیں
الخیر مع اکابرکم، البرکۃ مع اکابرکم اور البرکۃ مع اکابرکم اہل العلم کا سنہری اصول ہمارے سامنے رہناچاہیے ، اکابر اُمت سے جب ہم کٹیں گے تو پھر ایک آوارہ پتاّ ہی ہو کررہ جائیں گے، ہوا جدھر چاہے گی ہمیں لے جائے گی اور چلو اُدھر کوجِدھر کی ہواہو، کا مصداق بن کر رہ جائیں گے۔پتاّ شاخ کے ساتھ جُڑا ہی اچھالگتا ہے۔ جو پتا شاخ سے ٹوٹ کر گر جائے وہ پھر پاؤں تلے ہی روندا جاتا ہے ۔ یہ نعرہ ، یہ سوچ ، یہ فکر ، یہ نظریہ اور یہ انداز قطعی مناسب نہیں ہے کہ ہم کہتے پھریں ،اکابر کون ہوتے ہیں ؟ ہم اکابر کو نہیں مانتے ۔۔۔ ہمیں اکابر کی راہ نہیں اپنانی ۔۔۔ اور بعض تو اپنی تقاریر میں یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ موجودہ اکابر کی سوچ اور نظریہ ہمارے جوتے کی نوک پر۔۔۔۔۔۔! یہ تمام الفاظ ، یہ نظریہ اور یہ سوچ ہمار ے ’’باغیانہ پن ‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہماری ذاتی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ہماری تمام تر عزت ، وقار ، مرتبہ اور مقام اپنے اکابر ہی کا مرہون منت ہے، اکابر ہی سے وابستگی میں ہماری بقا کا رازمضمر ہے ۔ اگرہم اپنے اکابر سے بغاوت کریں گے اور ان سے کٹ کر زندگی گذاریں گے تو پھر:
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
ہمارا مقصو د یہ باور کرانا بھی نہیں ہے کہ اکابر ’’معصوم‘‘ ہیں ۔ان کی ہربات کوآنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیا جائے۔ جہاں ہمیں ان کی رائے اور مؤقف سے اختلاف ہووہاں انتہائی متانت، شائستگی اور ادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان سے اختلاف رائے کیا جائے اورا س میں اندازجارحانہ اور گستاخانہ نہ ہو۔ جہاں کہیں کسی معاملہ میں اختلاف ہوتو آپس میں مل بیٹھ کر ان معاملات کو حل کر لینا چاہیے ،رسائل وجرائد اور کانفرنسوں میں ان اختلافات کو نہیں اچھالنا چاہیے ۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اکابرکا مؤقف ہماری رائے کے موافق نہیں اور ہماری سوچ ، فہم اور دانست کے مطابق صحیح نہیں ہے اوروہ بھی اپنے مؤقف کی غلطی کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر خاموشی سے ان سے علٰیحدگی اختیار کرلی جائے اوران اختلافات کو مزید ہوا نہ دی جائے ۔
ہمیں اپنی رائے منوانے پراصرار نہیں کرناچاہیے ،ہم اس کے مکلف قطعاً نہیں ہیں کہ ڈنڈے اور گولی کے زور پر اپنے مؤقف کو منوائیں، جومانتا ہے مانے ، نہیں مانتا نہ مانے ۔ہمارے ذمہ صرف اتنی بات ہے کہ اپنے اس مؤقف اور رائے کی وضاحت ان کے سامنے کردیں ا ور بس۔۔۔!
ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اُچھالنے کے بجائے اگر اصلاح کا پہلو سامنے رکھا جائے تو امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے اور ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ ہماری اس درخواست کو درخور اعتنا سمجھاجائے گا اور اس سے بے اعتنائی نہیں برتی جائے گی ۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’الحامد‘‘ لاہور)