شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے احقر کی پہلی ملاقات چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہوئی۔ اس کے بعد مسلسل تعلق قائم رہا۔ میں کافی عرصہ تک حضرت کے ترجمہ وتفسیر کے درس اور بخاری شریف کے سبق کا سماع کرتا رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ نشر واشاعت میں ملازمت اختیار کر لی جو ۱۳ سال تک جاری رہی۔ اس دوران حضرت شیخ الحدیث اور حضرت صوفی صاحب سے استفادہ کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ یہاں اس دوران اپنے مشاہدے میں آنے والی چند باتیں اور تاثرات تحریر کیے جا رہے ہیں۔
۱۔ جس دن میں نے ملازمت اختیار کی، اس سے اگلے دن حضرت شیخ نے مجھے بلا کر بہت سی باتیں سمجھائیں اور خاص طور پر فرمایا کہ اگر میری اولاد میں سے بھی کوئی آپ سے ادھار کتاب مانگے تو نہ دینا یا میری وجہ سے رعایت یا لحاظ کا معاملہ نہ کرنا، میں ہرگز کسی بات کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
۲۔ حضرت شیخ الحدیثؒ علم کے سمندر اور ہر فن مولا تھے۔ احقر نے ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب سے عرض کیا کہ اس وقت علم حدیث کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق حضرت شیخ سے بڑا محدث اس وقت کوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ یہ بات میں اللہ کو حاظر وناظر جان کر کہہ رہا ہوں، نہ کہ ان کے ساتھ اپنی رشتہ داری کی وجہ سے۔ یہی سوال احقر نے مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم سے کیا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ جنی دیا بچیا! میں نے بہت پہلے حضرت کو محدث اعظم مان لیا تھا۔ پھر ایک واقعہ سنایا کہ ۱۹۵۳ء کے لگ بھگ قادیانیوں کی طرف سے کچھ سوالات شائع کیے گئے جن کے جوابات ہماری جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت نے دینے تھے۔ اس سلسلے میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا اور یہ طے پایا کہ جو آدمی بھی لکھ سکتا ہے، وہ اپنے جوابات لکھ کر لائے تاکہ ان کا جائزہ لیا جا سکے۔ میں بھی اجلاس میں شریک تھا اور میں نے یہ رائے پیش کی کہ ان سوالات کے جوابات میرے استاذ حضرت شیخ الحدیثؒ ہی دے سکتے ہیں۔ پھر میں اجلاس میں طے ہونے والی بات کے مطابق خود گکھڑ حاضر ہوا اور حضرت شیخ کو اس پر آمادہ کیا۔ چونکہ قادیانیوں کی کتب زیادہ تر ختم نبوت کے دفتر میں تھیں، اس لیے جوابات لکھنے کے لیے دفتر میں قیام کرنے کی بھی ضرورت تھی۔ حضرت شیخ ایک دن اس کام کے لیے دفتر تشریف لے گئے تو میں موجود نہیں تھا اور دفتر کا ناظم حضرت کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے حضرت سے کہا کہ کیا آپ لکھنے کے لیے کاغذ قلم وغیرہ ساتھ لائے ہیں؟ حضرت اس پر واپس تشریف لے گئے اور اپنی جیب سے کاغذ قلم وغیرہ خرید کر دوبارہ دفتر گئے اور تین دن تک جوابات کے سلسلے میں کام کرتے رہے۔
جب مقررہ تاریخ پر اجلاس ہوا تو اس میں سب نے اپنے اپنے تحریر کردہ جوابات پیش کرنے تھے اور آپس میں بحث ومباحثہ کے بعد یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ کس کے جوابات سب سے بہتر ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کے بڑے بڑے علما، مفتیان کرام اور مناظر حضرات بھی موجود تھے جن میں مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ اور علامہ محمد یوسف بنوریؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مختلف حضرات کے جوابات پڑھ کر سنائے جاتے اور پھر ان پر تنقید کی جاتی۔ زیادہ تر حضرت شیخ الحدیثؒ ہی تنقید فرماتے تھے۔ جب مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کا مضمون پڑھ کر سنایا گیا تو اس میں زیادہ تر مواد امام سیوطیؒ کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا۔ حضرت شیخ نے غالباً اس میں نقل کردہ روایات کی اسنادی حیثیت پر تنقید کی تو مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، جو حضرت شیخ کے استاذ بھی تھے، غصے میں آ گئے اور فرمایا کہ اگر سیوطیؒ جیسا محدث بھی معتبر نہیں تو اور کون ہوگا؟ بہرحال آخر میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے لکھے ہوئے جوابات پڑھے گئے اور حضرت نے کہا کہ اس پر تنقید کریں، لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اجلاس میں وہی جوابات منظور کر لیے گئے۔
یہ واقعہ سنا کر مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ نے فرمایا کہ میں نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھاکہ حضرت استاذ سے بڑا محدث اس وقت او رکوئی نہیں ہے۔
۳۔ جب شیعہ کی تکفیر کے بارے میں ایک استفتا پورے ملک کے علما کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت شیخ نے اس پر تائیدی دستخط کیے جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس کے حق میں نہیں تھی۔ حضرت شیخ نے احقر سے کہا کہ: صوفی اپنے موقف کا پکا ہے اور میری بات تسلیم نہیں کرتا۔ تم صوفی کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہو، اسے سمجھاؤ کہ وہ اپنی رائے رکھے، لیکن ایک ہی ادارے سے متضاد قسم کی باتیں عوام کے سامنے نہیں آنی چاہییں۔ اس سے لوگ برا تاثر لیں گے کہ بڑا بھائی کچھ کہتا ہے اور چھوٹا کچھ۔
حضرت صوفی صاحب کی رائے یہ تھی کہ کسی گروہ کو مطلقاً تکفیرکا نشانہ بنانا درست نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جو شخص مثلاً شیخین کی تکفیرکا قائل ہو، سیدہ عائشہ پر تہمت لگاتا ہو یا قرآن کومحرف مانتا ہو، وہ کافر ہے۔ ایک موقع پر مولانا عزیز الرحمن صاحب مرحوم نے حضرت صوفی صاحب سے اس پر بحث کی کہ اس وقت کوئی شیعہ ایسا نہیں جو امامت کو اپنا بنیادی عقیدہ نہ مانتا ہو تو پھر تکفیر کے لیے تخصیص کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن حضرت صوفی صاحب یہی اصرار کرتے رہے کہ بس یہ کہنا چاہیے کہ جو شخص فلاں فلاں عقیدہ رکھتا ہو، وہ کافرہے۔ اسی طرح حضرت جلسے جلوسوں میں کافر کافر کے نعرے لگانے کو بھی پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو طریقہ اس سے پہلے ہمارے بزرگوں کا چلا آرہا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ *
۴۔ ایک مرتبہ احقر نے حضرت شیخ سے گزارش کی کہ آپ نے ’’تنقید متین‘‘ میں لکھا ہے کہ میں نور وبشر کے مسئلے پر ایک مستقل کتاب لکھوں گا، مگر ابھی تک نہیں لکھی۔ آپ نے علم غیب، حاظر ناظر اور مختار کل میں سے ہر مسئلے پر دو دو کتابیں لکھی ہیں، لیکن نور وبشر پر ایک بھی نہیں لکھی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں کاروباری آدمی نہیں ہوں۔ میں نے جو لکھا ہے، وہ ضرورت کے تحت اور عقیدہ کی اصلاح کے لیے لکھا ہے۔ میری دیگر کتابوں میں نور وبشر کا مسئلہ تفصیل سے آ چکا ہے اور الگ کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی مختلف کتابوں سے مواد جمع کر کے ایک یکجا مرتب کر دیا جائے؟ حضرت نے فوراً اجازت مرحمت فرما دی اور احقر نے مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی صاحب کے ساتھ مل کر ’’نور وبشر‘‘ کے نام سے ایک الگ کتاب مرتب کر دی۔
۵۔ جب ملک میں عورت کی حکمرانی کے جواز وعدم جواز کی بحث چلی تو مدرسہ نصرۃ العلوم کے دار الافتاء کے پاس بھی یہ سوال آیا۔ اس وقت دار الافتاء کے صدر مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ نے اس سلسلے میں حضرت صوفی صاحب سے مشورہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ جب تک آپ شیخ الحدیث صاحب سے مشورہ نہ کر لیں، فتویٰ نہ لکھیں۔ اگلے دن جب حضرت شیخ اسباق سے فارغ ہو کر صوفی صاحب کے پاس چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے تو مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ اور مولانا مفتی عبد الشکور کشمیری مدظلہ دونوں حاضر ہوئے اور جہاں تک مجھے یاد ہے، حضرت تھانویؒ کا ’’امداد الفتاویٰ‘‘ بھی ساتھ لے آئے۔ حضرت شیخ نے دیکھتے ہی فرمایا: ’’امداد الفتاویٰ کو ہاتھ بھی نہ لگانا۔ حضرت تھانویؒ نے آپ حضرات کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔‘‘ پھر دونوں مفتی حضرات کو فتویٰ کے متعلق ہدایات دیں اور حکم دیا کہ جب تک لکھ کر مجھے دکھا نہ لیا جائے، فتویٰ جاری نہ کیا جائے۔
۶۔ ایک مرتبہ میں نے دریافت کیا کہ جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ کے حضرات کہتے ہیں کہ مولانا سرفراز صاحب نے اپنی کتاب ’’راہ سنت‘‘ میں تحریف کر دی ہے، کیونکہ پہلے ایڈیشنوں میں انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ
’’شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب خطیب راول پنڈی پر پشاور میں اور شیخ التفسیر حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری گجراتی پر منڈی بہاؤ الدین میں قاتلانہ حملہ ہوا۔‘‘
لیکن بعد میں یہ عبارت نکال دی گئی۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کو تحریف نہیں کہتے۔ مصنف کو اپنی زندگی میں حق ہوتا ہے کہ وہ کتاب میں جیسے چاہے، رد وبدل اور کمی بیشی کرے اور ہمیشہ اس کی آخری بات کا اعتبار ہوتا ہے۔ فرمایا کہ میں نے ’’راہ سنت‘‘ میں عرض حال لکھتے ہوئے حضرت شیخ القرآن اور سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری کے بارے میں یہ لکھا تھا، لیکن جب شاہ صاحب نے علماے دیوبند سے الگ راہ نکالی اور اس پر محاذ آرائی شروع کر دی تو بہت سے احباب نے مشورہ دیا کہ یہ عبارت حذف کر دی جائے، اس لیے میں نے اکابر علما کے مشورے سے یہ عبارت نکال دی ہے۔
۷۔ ایک مرتبہ احقر نے عرض کیا کہ بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ آپ نے ’’گلدستہ توحید‘‘ کی طبع اول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے کفر وایمان سے متعلق جو کچھ لکھا تھا، اس سے رجوع کر لیا ہے کیونکہ اگلے ایڈیشنوں میں وہ عبارت موجود نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، گلدستہ توحید کی طبع اول میں، میں نے یہ بات لکھی تھی، لیکن پھر مولانا محمد علی جالندھریؒ یا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ (حضرت نے دونوں بزرگوں میں سے ایک کا نام لیا) نے فرمایا کہ یہ بات آپ کو لکھنے کی ضرورت نہیں، اسے کتاب سے نکال دیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات غلط ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ بات غلط ہے، لیکن یہ ہمارا حکم ہے، اس لیے میں نے اکابر کا حکم سمجھتے ہوئے وہ عبارت کتاب سے نکال دی۔ (گلدستہ توحید، طبع دوم کے ص ۲۱ پر اس کی وضاحت موجود ہے۔)
۸۔ ایک دفعہ احقر نے حضرت صوفی صاحب سے سوال کیا کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولانا سرفراز صاحب، قاضی شمس الدین صاحب کے شاگرد ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ فرمایا کہ استاذ نہیں، وہ تو ہمارے استاذ الاستاذ ہیں۔ میں یہ سمجھا کہ حضرت نے اس سوال کا برا منایا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے وضاحت چاہی تو فرمایا کہ ہمارے استاذ مفتی عبد الواحد صاحبؒ تھے اور ان کے استاذ قاضی شمس الدین صاحبؒ تھے۔ اس طرح قاضی صاحب ہمارے استاذ الاستاذ ہوئے۔ پھر میں نے پوچھا کہ مفتی صاحب نے قاضی صاحب سے کیا پڑھا تھا؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ دونوں بزرگ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد ہیں۔ قاضی صاحب نے ایک کتاب شاہ صاحب سے پڑھی ہوئی تھی جو مفتی صاحب نے نہیں پڑھی تھی تو انھوں نے نسبت قائم کرنے کے لیے قاضی صاحب سے کہا کہ آپ مجھے یہ کتاب پڑھا دیں۔ اسی طرح ایک کتاب قاضی صاحب نے بھی مفتی صاحب سے پڑھی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے استاذ بھی تھے اور شاگرد بھی۔ فرمایا کہ ہم قاضی صاحب کا ادب واحترام اپنے اساتذہ ہی کی طرح کرتے ہیں۔ وہ ہمارے بزرگ تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
۹۔ حضرت صوفی صاحب نے دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کا یہ واقعہ سنایا کہ ہم دونوں بھائی علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے صاحبزادے مولانا ازہر شاہ قیصرؒ سے ملاقات کی غرض سے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔ وہاں بہت ہجوم تھا اور ملاقات کے لیے لوگوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ ہم بھی لائن میں لگ گئی، لیکن کافی تاخیر ہو گئی۔ شیخ الحدیث صاحب کے گھٹنوں میں درد بھی تھا۔ مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ صوفی! میں ایک نسخہ آزماتا ہوں، ہو سکتا ہے کامیاب ہو جائے۔ پھر انھوں نے اپنی جیب سے ایک چٹ نکال کر اس پر لکھا کہ ’’احسن الکلام‘‘ اور ’’عمدۃ الاثاث‘‘ کا مصنف آیا ہے اور آپ کے دروازے پر ملاقات کے لیے کھڑا ہے۔ اندر آنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ جو صاحب دروازے پر کھڑے تھے، انھوں نے وہ چٹ جا کر ان کو دے دی۔ حضرت نے جب چٹ پڑھی تو فوراً ہمیں اندر بلا لیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور شیخ صاحب کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کون بزرگ آئے ہیں۔ شاہ صاحب نے حضرت شیخ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے کے امام الموحدین تشریف لائے ہیں۔ یہ احسن الکلام اور عمدۃ الاثاث کے مصنف ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ان کا یہ کہنا تھا کہ لوگ ملنے کے لیے اس طرح لپکے کہ ہمیں جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔
۱۰۔ حضرت شیخ نے ایک مرتبہ ذکر فرمایا کہ میں نے مشکوٰۃ شریف کی ایک کاپی سالہا سال کی محنت سے تیار کی تھی جس میں زمانہ طالب علمی میں حضرت مولانا عبد القدیر صاحبؒ سے سنے ہوئے درسی افادات بھی شامل تھے اور پھر میں نے دوران تدریس اپنے مطالعے سے اس میں بہت سے اضافے بھی کیے تھے۔ فرمایا کہ ایک دفعہ یہ کاپی مجھ سے صوفی نے لے لی اور اس سے کوئی آدمی مانگ کر یا چرا کر لے گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے کاپی کے بارے میں پوچھا تو صوفی نے آرام سے کہہ دیا کہ وہ تو گم ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ تم نے تو بس زبان ہلا دی کہ گم ہو گئی ہے اورمیری سالہا سال کی محنت ضائع ہو گئی۔ اس پر صوفی کہنے لگا کہ ’’چلیں جو بھی لے کر گیا ہے، وہ پڑھے گا ہی نا! تو آپ کو ثواب ہوگا۔‘‘ فرمایا کہ میں اسی لیے اسے ’’صوفی‘‘ کہتا ہوں۔
۱۱۔ ایک دفعہ حضرت شیخ کے پاس ایک عورت آئی جس کے گھر میں جنات کے اثرات تھے۔ اس نے تعویذ مانگا تو حضرت نے کہا کہ بی بی، تعویذ لینا ہے تو لے لے، لیکن میں جنات کا عامل نہیں ہوں۔ وہ خاتون اصرار کر کے تعویذ لے گئی، لیکن اس سے جنات اور چڑ گئے اور اس کے گھر میں پاخانہ اور گندگی پھینکنا شروع کر دی۔ وہ تعویذ واپس لے آئی اور کہا کہ اس سے تو معاملہ زیادہ خراب ہو گیا ہے۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ میں نے تو پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ میں جنات کا عامل نہیں ہوں۔
۱۲۔ ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب مدرسے کے صحن میں دھوپ سینکنے کے لیے چارپائی پر تشریف فرما تھے کہ قاضی عصمت اللہ صاحب تشریف لائے۔ میں نے حضرت کو بتایا تو باوجودیکہ حضرت سے اٹھا نہیں جا رہا تھا، اٹھ کر ان کا استقبال کرنے کی کوشش کی۔ پھر بڑے اکرام اور محبت سے انھیں بٹھایا اور خصوصی طو رپر گھر سے پر تکلف چائے منگوائی۔ قاضی صاحب بھی بڑے مودبانہ انداز میں حضرت کے پاس بیٹھے رہے۔ حضرت صوفی صاحب نے ان سے فرمایا کہ آپ کے والد مولانا قاضی نور محمد صاحبؒ ہمارے بزرگ تھے اور اہل اللہ تھے۔ آپ ان کی اولاد ہیں، آپ ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ خاتمہ ایمان پر ہو۔ قاضی نور محمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے صوفی صاحب رونے لگ گئے۔ پھر قاضی صاحب کو رخصت کرنے کے لیے اٹھنے لگے تو قاضی صاحب نے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دیے اور کہا کہ حضرت، آپ تشریف رکھیں، لیکن صوفی صاحب ان کو مدرسے کے گیٹ تک رخصت کر کے آئے۔
۱۳۔ حضرت صوفی صاحب فروعی اختلافی مسائل کے بارے میں تشدد کو بالکل پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ہمارے ساتھی قاری عبید الرحمن صاحب سے، جو مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں، پوچھا کہ بھئی، وہاں تمہارے ساتھ کوئی سختی والا معاملہ تو نہیں ہوتا؟ پھر فرمایا کہ بابا، وہاں کے ماحول میں رفع یدین کر لیا کرو۔ کوئی حرج کی بات نہیں۔ حضرت صوفی صاحب نے ’’نماز مسنون‘‘ لکھی تو اس کا ایک نسخہ مولانا امین صفدر اوکاڑوی کو بھی بھیج دیا۔ مولانا اوکاڑویؒ نے بتایا کہ اسی دن میرے پاس ایک پروفیسر صاحب آئے تو میں نے کتاب مطالعے کے لیے انھیں دے دی۔ وہ کچھ دنوں کے بعد کتاب لے کر آئے اور کہا کہ آپ تو رفع یدین اور آمین بالجہر وغیرہ کے متعلق بہت سخت موقف رکھتے ہیں، جبکہ اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں اور دونوں کی گنجایش موجود ہے۔ اوکاڑوی صاحب کہتے تھے کہ یہ کتاب مدرسہ نصرۃ العلوم کی چار دیواری کے اندر رہنی چاہیے، عوام تک نہیں جانی چاہیے۔ اوکاڑوی صاحب مجھے کہتے تھے کہ صوفی صاحب ان مسائل کے بارے میں بہت نرم ہیں۔ تم حضرت کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہو، حضرت کو ’’پکا‘‘ کرنے کی کوشش کرو۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو کہا کہ غیر مقلدین کی طرف سے ہمارے خلاف جو بھی کتاب یا رسالہ لکھا جائے، وہ حضرت تک پہنچایا کرو۔
۱۴۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے پوچھا کہ آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ شاعری کا بڑا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ حضرت کی اپنی ایک بیاض بھی تھی جو حضرت نے اپنے دوسرے مسودات کے ساتھ حاجی محمد فیاض صاحب کے سپرد کر دی تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تو نہیں، البتہ استاد (حضرت شیخ الحدیث صاحب) اس فن کے بڑے ماہر ہیں۔ اس پر ایک واقعہ سنایا کہ جب ہم دار العلوم دیوبند میں پڑھتے تھے تو ہر سال دیوبند میں بیت بازی کا ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا جو ہمیشہ لکھنو سے آنے والے ایک بابا جی جیت جایا کرتے تھے۔ ہمارے استاذ (مولانا اعزاز علی صاحبؒ یا مولانا مفتی ریاض الدین صاحبؒ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے۔ اس پر مولانا سرفراز صفدر صاحب مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ جب مقابلہ ہوا تو لکھنو والے بابا جی نے عربی، فارسی، اردو وغیرہ کے اشعار پڑھنے شروع کر دیے۔ وہ جس زبان کے اشعار پڑھتے، شیخ صاحب بھی اسی زبان میں اس کے مقابلے میں شعر پڑھتے۔ آخر حضرت شیخ نے اپنی مادری زبان ہندکو میں شعر پڑھنا شروع کر دیے جس پر وہ بابا جی لاجواب ہو گئے اور شیخ نے مقابلہ جیت لیا۔ اس پر اساتذہ کی طرف سے بھی حضرت کو بہت داد اور انعام ملا اور لکھنو والے بابا جی نے بھی ان کی شعری مہارت کو تسلیم کیا۔
۱۵۔ حضرت صوفی صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ دار العلوم دیوبند کے قیام کے دوران ایک مرتبہ رات کے وقت گھنٹی بجی اور اعلان ہوا کہ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ تشریف لائے ہیں۔ سب طلبہ ان کے پاس جمع ہو گئے۔ حضرت کی شخصیت کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا اور کوئی ان سے بات کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ ایک طالب نے حضرت سے کہا کہ کوئی نصیحت فرما دیں۔ حضرت کچھ دیر خاموش رہے، پھر ایک دم کہا: ’’موت ہے، موت ہے، موت ہے۔‘‘ اس کے بعد وضاحت کی کہ نصیحت تو قرآن کی صورت میں بہت پہلے آ چکی ہے۔ اب نئی نصیحت کیا کروں! جب قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرتے تو پھر تو موت کے سوا کوئی نصیحت نہیں۔
صوفی صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ پیر صبغت اللہ بختیاری سفر میں حضرت سندھی کے ساتھ تھے۔ پیر صاحب جبہ قبہ اور چوغا پہنے رکھتے تھے جبکہ حضرت سندھی چست لباس پہنتے تھے۔ انھوں نے دیوبند کے اسٹیشن سے ریل پر سوار ہونا تھا۔ جب گاڑی مختصر وقفے کے لیے رکی تو حضرت سندھی تو فوراً دوڑ کر سوار ہو گئے جبکہ پیر صاحب اپنا لباس سنبھالتے رہے اور مشکل ہی سے سوار ہو سکے۔ اس پر حضرت سندھی نے انھیں وہیں بے نقط سنانا شروع کر دیں کہ اس دور میں ایسے بھاری بھرکم لباس کے ساتھ کیسے دنیا میں کام کر سکو گے!
۱۶۔ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے سب سے پہلے مربی اور دیوبندیت سے ہمیں روشناس کرانے والی شخصیت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی تھی۔ ہم ان کا احسان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہم سیاسی طور پر مفتی محمود صاحبؒ کے موقف کی تائید کرتے ہیں، لیکن جو لوگ حضرت ہزاروی کی ذات پر طعن اور الزام طرازی کرتے ہیں، وہ بہت زیادتی کرتے ہیں۔ حضرت ہزاروی تو ایسے تھے کہ ایک مرتبہ ہم ان کے گھر گئے تو ان کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا، حتیٰ کہ صابن بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک پروگرام پر جانا تھا اور حضرت کے پاس ایک ہی جوڑا تھا۔ میں ان کے ساتھ دوکان پر گیا جہاں سے انھوں نے ادھار صابن خریدا۔ پھر میرے کہنے کے باوجود خود ہی اپنا پہنا ہوا لباس اتار کر اسے دھویا اور خشک ہونے کے بعد اسے ہی پہن کر جس پروگرام کے لیے جانا تھا، اس کے لیے روانہ ہو گئے۔
۱۷۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وہ کتنے بڑ ے آدمی تھے اور کس درجے پر فائز تھے۔ فرمایا کہ وہ مرد قلندر تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ میں مری میں مقیم تھا کہ مولانا عبید اللہ انور بھی وہاں آئے اور میرا پتہ چلنے پر میری قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔ وہاں ان سے ملنے کے لیے بہت سے لوگ اور عقیدت مند آ گئے جنھوں نے مری کے لوگوں کے طریقے کے مطابق کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر کثرت سے نذرانے پیش کیے۔ اب جو بھی نذرانہ آتا، مولانا عبید اللہ انور اسے میرے سپرد کر دیتے، حتیٰ کہ میرا کمرہ نذرانوں سے بھر گیا، لیکن انھوں نے کسی چیز کو کھول کر دیکھا تک نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ پھر جب رخصت ہونے لگے تو مجھے اس سارے سامان کا امین بنا دیا اور کہا کہ آپ اپنی صواب دید کے مطابق اسے مستحقین میں تقسیم کر دیں۔ ہم نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں نقد رقم، سونا چاندی اور بہت سی قیمتی چیزیں تھیں جو ہم نے تقسیم کر دیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے ایسا پیر نہیں دیکھا۔
راقم نے حضرت مولانا عبید اللہ انور کی بیعت کی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت شیخ سے نئی بیعت کے لیے کہا تو حضرت نے فرمایا کہ مرنے سے بیعت نہیں ٹوٹتی اور میں بیعت ثانی کا قائل نہیں۔ آپ کے مرشد جو اوراد ووظائف آپ کو بتا گئے ہیں، ان کا معمول جاری رکھیں۔ حضرت صوفی صاحب کو علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا انورؒ نے آپ کو کیا وظیفہ بتایا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ فرماتے تھے کہ ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہا کرو۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ یہ بہت بڑا وظیفہ ہے، اسے معمولی نہ سمجھنا۔
۱۸۔ میں نے صوفی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ کسی کے خلیفہ بھی ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ بلیک میلنگ نہیں کرتا۔ میں حضرت مدنی کا مرید ہوں، لیکن خلیفہ کسی کا نہیں ہوں۔ فرمایا کہ ہم نے بیعت سے پہلے بے شمار بزرگوں اور پیروں کی زیارت کی، حتیٰ کہ تھانہ بھون میں حضرت تھانویؒ کی زیارت کے لیے بھی حاضر ہوئے لیکن کہیں دل کا اطمینان نہیں ہوا۔ آخر اللہ نے دل میں یہ خیال ڈالا کہ اپنے استاد ہی کی بیعت کر لو۔ فرمایا کہ مولانا عبیداللہ انورؒ نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ کچھ عرصہ ہمارے طریقے کے مطابق اوراد ووظائف کر لیں، میں آپ کو خلافت دے دیتا ہوں، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔
۱۹۔ میں نے حضرت صوفی صاحب سے پوچھا کہ یتیمۃ البیان میں مولانا یوسف بنوریؒ نے مولانا ابو الکلام آزادؒ کو ملحد اور زندیق لکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ زیادتی ہے۔ اسی طرح مولانا ادریس کاندھلویؒ نے عین اس وقت جب مسلم لیگ او رکانگریس کی سیاسی کشمکش چل رہی تھی، مولانا آزاد کی تفسیر پر تنقید شائع کر کے زیادتی کی۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ مولانا آزاد عظیم انسان تھے۔ میری ان سے ایک ملاقات ہوئی ہے۔ جب ہم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے تو کچھ دوست ان سے ملاقات کے لیے دہلی میں ان کے دفتر گئے۔ وہاں ملاقات کے لیے بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ ہم نے بتایا کہ ہم دیوبند کے طالب علم ہیں تو انھوں نے سب سے پہلے ہمیں اندر بلایا۔ گفتگو میں انھوں نے ہمیں انگریز کے خلاف نصیحتیں کیں اور جب ہم نے ایک کاپی پر ان سے آٹو گراف مانگا تو اس میں بھی یہی لکھا کہ کبھی انگریز کو اپنا خیر خواہ نہ سمجھنا۔ مولانا نے ہمیں چائے بھی پلائی اور ہمیں رخصت کرنے کے لیے اٹھ کر دروازے تک ہمارے ساتھ آئے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ شخص علم کا بہت قدردان ہے۔
۲۰۔ میں نے عرض کیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنا شجرۂ نسب مولانا آزاد سے ملاتے ہیں کہ میں نے مولانا مودودیؒ سے استفادہ کیا ہے اور مولانا مودودیؒ نے مولانا آزادؒ سے۔ فرمایا کہ مودودی صاحبؒ کے دس صفحے ابوالکلامؒ کی دس سطروں کے برابر بھی نہیں ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ جب مولانا حسین احمد مدنی او ر مولانا آزاد اکٹھے چلتے تھے تو مولانا آزاد ہمیشہ ان سے چار پانچ قدم پیچھے رہتے تھے، کبھی ان سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔
۲۱۔ جس زمانے میں حضرت صوفی صاحب فجرکے بعد درس قرآن دیا کرتے تھے، ان کے کمرے کی الماری مختلف تفاسیر رکھی ہوتی تھیں جن کا حضرت مطالعہ کیا کرتے تھے۔ میں اس الماری کی صفائی کیاکرتا تھا۔ ان کتابوں میں دوسری تفاسیر کے علاوہ تفسیر عثمانی بھی پڑی ہوتی تھی۔ میں نے ایک دن حضرت سے اس تفسیر کے متعلق پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ بابا! یہ مختصر تفسیروں میں بہترین تفسیر ہے۔ بعض جگہ بڑی بڑی تفسیروں میں وہ نکتے کی بات نہیں ملتی جو اس میں مل جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت درس قرآن کے لیے جن کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، ان میں مودودی صاحب کی تفہیم القرآن اور پرویز صاحب کی مفہوم القرآن وغیرہ بھی شامل تھیں۔ میں نے حضرت سے ان کتابوں کے مطالعے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ عوام کو تو ہم منع کرتے ہیں، لیکن اہل علم کو، جو صحیح اور غلط بات کا فرق سمجھتے ہیں، ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ ان میں بھی بعض اوقات ایسی کام کی باتیں مل جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتیں۔
۲۲۔ ایک مرتبہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے عرض کیا کہ مختلف آیات کی تشریح میں ہمارا بریلوی حضرات سے جو اختلاف ہے، کیا اس کے تصفیے کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ کسی ایک مستند تفسیر مثلاً روح المعانی یا مظہری وغیرہ کو معیار قرار دے لیا جائے اور ہر جگہ دونوں فریق اس میں درج تشریح کو قبول کریں؟ حضرت نے فرمایا کہ نہ بابا نہ، اس طرف بالکل نہیں جانا۔ ہر تفسیر میں کہیں نہ کہیں ایسی بات مل جاتی ہے جس سے بریلوی حضرات کی تائید ہوتی ہے۔
۲۳۔ ایک دفعہ میں نے حضرت صوفی صاحب سے مولانا اللہ یار خان چکڑالوی کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ دیوبندی تھے؟ حضرت نے فرمایا کہ بالکل نہیں۔ ان کو حیض (صوفیا کی اصطلاح میں کشف وغیرہ) زیادہ آنا شروع ہو گیا تھا اور ہمارے اکابر ان کے ہاں تصوف کے اس رنگ سے نالاں تھے۔
۲۴۔ روزے کی حالت میں انجکشن لگوانے سے متعلق حضرت صوفی صاحب کی رائے مفتیان کرام کی عام رائے سے مختلف تھی اور حضرت اسے روزے کے لیے ناقض سمجھتے تھے۔ حضرت نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک تفصیلی مقالہ تحریر کیا جو ’’مقالات سواتی‘‘ میں شامل ہے۔ حضرت نے یہ مقالہ ملک کے تمام بڑے مفتیان کرام کو بھیجا اور ان سے ان کی رائے طلب کی، لیکن مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی اور مفتی عبد الستار صاحب کے علاوہ کسی نے جواب نہیں دیا۔ یہ مقالہ تنقید کے لیے حضرت شیخ الحدیث صاحب کو بھی دیا گیا تھا۔ حضرت نے اسی مقالے پر اپنا مختصر تبصرہ یوں تحریر کیا کہ: ’’صوفی کی تحریر عمدہ ہے۔ احقر کا مسلک جمہور والا ہے۔‘‘ مولانا عبد القیوم ہزاروی صاحب نے فرمایا کہ صوفی صاحب کے دلائل وزنی ہیں، لیکن میں اکیلے صوفی صاحب کا فتویٰ نہیں مانتا۔ اگر دو تین اور مفتی اس کی تائید کر دیں تو پھر میرا موقف بھی یہی ہے۔ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ مفتیوں نے میری بات کو اہمیت نہیں دی۔ مفتی عبد الستار صاحب تو میری بات ہی نہیں سمجھے جبکہ مفتی جمیل احمد صاحب بات تو سمجھ گئے ہیں، لیکن انھوں نے جواب بہت مختصر لکھا ہے۔ فرمایا کہ دیکھنا، آج نہیں تو کل ان حضرات کو میرے موقف پرہی آنا پڑے گا۔
۲۵۔ حضرت صوفی صاحب کسی علمی غلطی کو قبول کرنے میں بالکل تردد ظاہر نہیں فرماتے تھے، بلکہ بات سمجھ میں آنے پر فوراً تسلیم کر لیتے تھے۔ حضرت نے ’’فیوضات حسینی‘‘ کا ترجمہ شائع کیا تو ایک جگہ اس کے متن کی ایک عبارت کا ترجمہ بلاارادہ چھوٹ گیا۔ عبارت یہ تھی کہ ’’اول ما خلق اللہ نوری‘‘ کی روایت کے بارے میں شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے۔ اس پر بریلوی عالم مولانا ابو داؤد محمد صادق نے تحریف کا الزام لگایا تو حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ بخدا، ہم نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، غلطی سے ہو گیا ہے، اس لیے اس کو فوراً ٹھیک کر دو۔ چنانچہ اس وقت جو ایڈیشن دستیاب ہے، اس میں مذکورہ عبارت کا ترجمہ شامل ہے۔
اسی طرح ’’مقالات سواتی‘‘ میں حضرت صوفی صاحب کا جو مضمون مودودی صاحب کے بارے میں شائع ہوا ہے، اس میں ایک جگہ حضرت نے ’’خلافت وملوکیت‘‘ کے حوالے سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا نوازی کے الزام کا ایسے انداز میں ذکر کیا تھا جو ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں اس طرح نہیں ملتا۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ یہ بات اصل کتاب میں تو یوں نہیں ہے تو فرمایا کہ مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، ا س سے یہی اخذ ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اخذ کرنے میں تو پھر بھی کمی بیشی کا امکان ہے تو فرمایا کہ اچھاتم اصل کتاب کو سامنے رکھ کر اس عبارت کو ٹھیک کر دو۔ چنانچہ حضرت کے کہنے پر ہم نے اصل کتاب کی روشنی میں عبارت درست کر کے حضرت کو دکھا دی۔
۲۶۔ حضرت صوفی صاحب فرماتے تھے کہ مودودی صاحب کا ترجمہ قرآن بڑا آسان اور عام فہم ہے، البتہ ان کی تفسیر میں گڑبڑ ہے۔ فرماتے تھے کہ اس سے بھی زیادہ آسان اور بہتر ترجمہ مولانا محمد علی کاندھلوی کا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ میری مولانا مودودی کے ایک معتقد سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ آپ مولانا حسین احمد مدنی کا شاگرد ہونے کی وجہ سے مولانا مودودی کی مخالفت کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ حاشا وکلا، ہرگز ایسا نہیں ہے۔ ہم مودودی صاحب کی باتوں کو واقعی قابل اعتراض سمجھتے ہیں اور اگر وہ ان باتوں سے رجوع کر لیں تو ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔
۲۷۔ ایک مرتبہ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ میرا زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ غیر مقلد حضرات اپنے مسلک یا جماعت کا فائدہ دیکھے بغیر دین یا علم کا کوئی کام نہیں کرتے، جبکہ ہمارے بزرگ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے اور دین اور علم کی خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک مرتبہ اہل حدیث عالم مولانا خالد گرجاکھی نے علامہ ابن حزم کی کتاب ’’جوامع السیرۃ‘‘ شائع کی تو میں بڑا حیران ہوا کہ اس سے ان کو کیسے دلچسپی پیدا ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ اس میں بھی یقیناًان کے مسلک کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوگا۔ میں نے یہ سمجھنے کے لیے پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تو واقعی اس میں دو تین باتیں ایسی موجود تھیں جس سے ان کے مسلک کی تائید ہوتی تھی۔ فرمایا کہ نصرۃ العلوم کے کتب خانے میں جو نسخہ موجود ہے، اس پر میرے نشانات لگے ہوں گے۔
ذیل کے واقعات راقم نے ماسٹر محمد صدیق صاحب کی زبانی سنے ہیں۔ ماسٹر محمد صدیق صاحب کی عمر اس وقت ۷۵ سال کے قریب ہے۔ وہ کافی عرصہ گکھڑ میں رہے ہیں، اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور حافظ محمد یوسف صاحب گکھڑویؒ کے شاگرد ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ بھی ان کا عقیدت واحترام پر مبنی بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ یہ واقعات انھی کی زبانی یہاں درج کیے جا رہے ہیں:
۲۸۔ ایک مرتبہ ہمارے ہاں کوئی تقریب تھی جس کے لیے ہم نے مولانا سرفراز صاحب اور ان کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا اور دعوت نامہ پر ’’بیگم مولانا محمد سرفراز خان صفدر‘‘ کے الفاظ لکھے۔ جب میں دعوت نامہ لے کر حاضر ہوا تو مولانا نے ’’بیگم‘‘ کا لفظ کاٹ کر ’’زوجہ‘‘ لکھ دیا اور فرمایا کہ صدیق صاحب! بیگم بڑے آدمیوں کی بیوی کو کہتے ہیں، ہم تو چھوٹے ہیں۔
۲۹۔ ایک مرتبہ میں نے مسئلہ رفع یدین کے متعلق سوال کیا تو مولانا نے فرمایا کہ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ رفع یدین کرنے اور نہ کرنے، دونوں کے حق میں احادیث موجود ہیں۔ چونکہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے امام نہ کرنے کے قائل ہیں، اس لیے ہم رفع یدین نہیں کرتے۔
۳۰۔ ایک مرتبہ گکھڑ میں بریلوی حضرات نے علم غیب اور حاظر ناظر وغیرہ مسائل پر بہت چیلنج بازی کی اور مولانا عبد الصبور ہزاروی اور مولانا ابو النور بشیر (کوٹلی لوہاراں والے) کو مناظرے کے لیے بلایا گیا۔ مولانا سرفراز صاحب نے جواب میں ان سے فرمایا کہ مسئلہ علم غیب اور حاظر ناظر پر میں خود مناظرہ کروں گا جبکہ دوسرے چھوٹے موٹے مسائل پر حافظ محمد یوسف صاحب مناظرہ کریں گے۔ جب مولانا نے یہ اعلان کیا تو بریلوی حضرات چپ ہو گئے اور مناظرہ کی طرف نہیں آئے۔
۳۱۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ اور لاہور سے کچھ اہل حدیث علما قراء ۃ خلف الامام کے موضوع پر مولانا سرفراز صاحب سے مناظرہ کرنے کے لیے گکھڑ پہنچ گئے، لیکن حضرت نے فرمایا کہ میری صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مناظرہ نہیں کر سکتے تھے یا معاذ اللہ ان کے پاس علم نہیں تھا، کیونکہ میں نے ’’احسن الکلام‘‘ پڑھی ہوئی ہے۔ استغفر اللہ، ہم ایسی بات مولانا کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن معلوم نہیں کہ واقعتا اس دن ان کی طبیعت ناساز تھی یا وہ اس موضوع پر مناظرہ کرنے کو ویسے ہی پسند نہیں کرتے تھے۔
۳۲۔ حضرت اپنی تقریر میں اکثر یہ جملہ بڑے خاص انداز میں فرمایا کرتے تھے کہ ’’سمجھ آئی؟‘‘ یہ جملہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔
۳۳۔ ایک مرتبہ میں کافی عرصے کے بعد مولانا سرفراز صفدر سے ملاقات اور تعویذ لینے کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم میں حاضر ہوا۔ جب حضرت گاڑی سے باہر نکلے تو میں آگے بڑھ کر ملا اور پوچھا کہ حضرت! مجھے پہچانا ہے؟ حضرت ہنس پڑے اور فرمایا کہ ’’صدیق! ایہہ وی کوئی گل اے کہ تینوں بھل جاواں؟‘‘ (صدیق، یہ بھی کوئی بات ہے کہ تمھیں بھول جاؤں؟)
۳۴۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں، میں جوان تھا اور ہم نے دن رات مولاناسرفراز صاحب کے ساتھ کام کیا۔ ہم مولانا کا جوش اور ولولہ دیکھ کر حیران ہو جاتے تھے جو ہم نوجوانوں کے جوش کو مات دیتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔