’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر طاہر مسعود سے انٹرویو)

عرفان احمد

میں 1957ء میں سابق مشرقی پاکستان کے شہرراج شاہی میں پیداہوا۔ میرے والد صاحب کتابوں کے تاجر تھے۔ راج شاہی میں اُن کی کتابوں کی تقریباً تین دکانیں تھیں۔ میں نے جب سکول جانا شروع کیاتو میرے راستے میں ہی ہماری کتابوں کی دکان تھی۔ اُس کانام اُردو لابئریری تھا تو میں سکول کی واپسی پراُس دکان میں ٹھہرتا تھا۔ اُس کے پچھلے حصے میں ایک میز پر کتابیں رکھی ہوتی تھیں۔ اُس پربیٹھ جاتا تھا اورکتابیں نکال کے اُن کامطالعہ کرتارہتا تھا۔ تواُس زمانے میں وہاں رسائل بھی آتے تھے،اخبارات بھی آتے تھے۔ اردو ڈائجسٹ کی بڑی شہرت تھی۔ اُس کامطالعہ کرتا تھا۔ پھروہ ادبی رسائل جن میں نقوش وغیرہ اس طرح کے رسائل وغیرہ آتے تھے، اُن کابھی مطالعہ کیاکرتا تھا۔اردو کاجوداستانی ادب ہے جیسے طلسم ہوشرباوغیرہ تواُن کامطالعہ میں نے اُسی لائبریری میں کیا تھا۔ گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا وہاں پہ، تو اُس سے یہ ہواکہ میری اردو بہت اچھی ہوگئی۔ اسکول میں بعض اوقات یہ ہوتا تھا کہ جب میں نویں جماعت میں تھا تودسویں جماعت میں طالب علموں کوشرمندہ کرنے کے لیے اردو کے استاد نے کسی لفظ کے معنی پوچھنے ہوتے تھے تووہ مجھے بلاتے تھے۔ مجھے بُلاکے پوچھتے تھے کہ بتاؤ ان کو۔ تو اُسی اسکول سے میں نے میٹرک کیا۔ پھر جب وہاں ہنگامے شروع ہوئے توجولائی 1971ء میں ہی ہمارا گھر نذرآتش کردیا گیا۔ بڑی مشکل سے ہماری جان بچی۔ 1971ء میں ہم کراچی آگئے۔ یہاں جامعہ ملیہ کالج سے جو ڈاکٹر محمود حسین صاحب کاقائم کردہ تھا، انٹرمیڈیٹ کیا اورپھر اُس کے بعدمیں نے آنرزاور ایم اے کی تعلیم جامعہ کراچی سے حاصل کی ۔

ہمارے والدین مہاجرتھے۔ میرے دادا ڈاکخانہ میں ملازم تھے۔ ویسے مجھے گلہ ہی رہا کہ سکول کے زمانے میں مجھے کوئی ایسا استاد نہیں ملاجومجھے پڑھنے لکھنے کی طرف لائے۔ یہ جوکچھ میں نے پڑھا، اپنے شوق سے، کتابوں کے ملنے کی وجہ سے۔ چونکہ گھرمیں کتابیں آتی تھیں، رسائل آتے تھے تواُن کامطالعہ کیا کرتاتھا۔

کالج میں ہمارے ایک پروفیسر تھے وحید اﷲ نظمی صاحب جوسیاسیات کے استاد تھے اورایک پروفیسر عطاء اﷲ حسینی صاحب جواسلامک اسٹڈیز کے استاد تھے۔ ان اساتذہ سے میں کافی متاثر رہا۔ یہ وسیع المطالعہ لوگ تھے۔ ان کے پاس لائبریری بھی اچھی تھی۔ عطاء اﷲ حسینی کالج میں ہی رہائش پذیر تھے۔ میں اُن کے گھرجایاکرتا تھا۔ اُن کے گھرمیں ایک اچھی خاصی لائبریری تھی۔ کتابیں بڑی ترتیب اور سلیقے سے سجی ہوتی تھیں۔ میں اُن سے کتابیں لیتا تھا۔ باقاعدگی سے جایاکرتا تھا، کیونکہ کالج میں اُس زمانے میں ہنگامے بہت زیادہ ہوتے تھے تومیں اُس وقت لائبریری چلاجایاکرتا تھا اورلائبریری میں بیٹھ کر وہاں کتابیں پڑھا کرتا تھا۔

میرا رجحان زیادہ تر ادب کی طرف تھا اورمیری مطالعاتی زندگی کی ابتدا بھی ادب ہی سے ہوئی تھی۔ اُس میں خاص طور پرافسانے (Short stories)۔ ناولوں کا بھی بڑا مطالعہ کیا، مثال کے طور پر کرشن، منٹو، بیدی کے افسانے۔ پھربعد میں آگے چل کر قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی کہانیوں نے مجھے بہت Inspireکیا۔ اسکول کے زمانے میں، میں نے لکھنا شروع کردیا۔ ایک واقعہ ہے جس کی یاد اب بھی مجھے شرمندہ کرتی ہے۔ لکھنے کاشوق مجھے اسکول کے زمانے سے ہی تھا، لیکن یہ نہیں سمجھ آتا تھا کہ کیا لکھو ں توایک بہت پرانا رسالہ مجھے اپنی لائبریری سے ملاتو اُس میں ایک کہانی مجھے بہت پسند آئی تووہ کہانی نکال کر میں نے ایک رسالہ نکلتا تھا ’’نقاد‘‘، اُسے بھیج دی۔ وہ کہانی اس رسالے نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی۔ نقادمیں پہلے احمد ندیم قاسمی کاافسانہ تھا، پھرمیری کہانی تھی۔ اب جب چھپ کر رسالہ آیا تومجھے اندیشہ پیداہوا کہ جس رسالے سے میں نے بھیجا ہے، اب اگرکسی کی نظر اس پرپڑگئی توکیا ہوگا اوراگر میری چوری پکڑی گئی تومیراحشر کیاہوگا؟ میں اسکول میں آٹھویں جماعت کاطالب علم تھا۔ اُس زمانے میں میری بڑی واہ واہ ہوگئی کہ اس کاافسانہ چھپا ہے تومیں نے اُس رسالے کوجس سے افسانہ نقل کیاتھا، اُس کوجلا دیا، لیکن اس سے میرے اندر ایک شرمندگی، ایک غلطی کااحساس پیداہوا کہ میں نے یہ غلط کیا ہے اورسوچا کہ مجھے خود لکھنا چاہیے تھا ۔

پھر میں نے ایک کہانی لکھی۔ اسی ادارے سے ایک اوررسالہ نکلتا تھا ’’آداب عرض‘‘ جس میں سچی کہانیاں چھپتی تھیں۔ اُس میں کہانی لکھ کر بھیجی۔ ہمارے پڑوس میں ہی ایک Love affair ہوا تھا۔ اُس میں کچھ واقعات وغیرہ ایسے تھے جومجھ تک پہنچے تومیں نے اُس کوایک افسانوی پیرایے کارنگ دے دیا اور ’’آداب عرض‘‘ میں ارسال کیا۔ اُس سے میرے اندر اعتماد پیداہوا کہ میں خود بھی لکھ سکتا ہوں۔ پھراُس کے بعد میں نے خود لکھنا شروع کیا۔ 

اُسی زمانے میں کچھ شاعری پڑھنی شروع کی۔ شاعری پڑھنے کے سلسلے میں واقعہ یہ ہوا کہ میرے چھوٹے چچا تھے جومیڈیکل کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اُن کے پاس ایک چھوٹی سی الماری تھی، اُن میں کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دن میں اُن کی غیرموجودگی میں اُس الماری کوکھول کروہ کتابیں دیکھ رہا تھا تو اُس میں ایک شعری مجموعہ مجھے ملا ’’تلخیاں‘‘ ساحر لدھیانوی کا۔ اُسے جومیں نے پڑھا تومیرے توہوش اڑگئے۔ نظم غزل کے ہرشعر پر میں نہال ہوگیا۔ تواُس سے مجھے کچھ شعر کہنے کاشوق ہوا۔ پھرمیں نے کچھ شعرکہنے شروع کیے اوروہاں ایک شاعر تھے، اُن سے اصلاح بھی لی۔ میں نے مشاعروں میں غزلیں وغیرہ بھی پڑھنی شروع کیں۔ اُس زمانے میں ایک رسالہ نکلتا تھا ’’چاند‘‘ اُس میں شاعری کی پیروڈی چھپتی تھی تواُس طرح کی پیرڈوی میں نے بھی لکھ کربھیجی۔ اس طرح سے لکھنے لکھانے کاشوق پروان چڑھا۔

زمانہ طالب علمی میں مجھے قرۃ العین حیدر کے دوناولوں نے بہت متاثر کیا۔ اُن میں ایک ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘اور دوسرا ’’آگ کادریا‘‘ ہیں۔ اسی طرح میں ’’اُداس نسلیں‘‘ سے بھی بہتُ متاثر ہوا اورایک عزیز احمدکاناول ’’کیسی بلندی کیسی پستی‘‘، کرشن چندر کاناول ’’شکست‘‘، اس طرح کے ناول تومیں نے بہت پڑھے، لیکن قرۃ العین حیدرسے میں بہت متاثرہوا۔ ’’اداس نسلیں‘‘ کے بارے میں کچھ نقادوں کاخیال ہے کہ عبداﷲ حسین نے کردارنقل کیے ہیں قرۃ العین حیدر کے ناولوں سے، جبکہ عبداﷲ حسین کاکہنا ہے کہ وہ قرۃالعین حیدر کو قابل ذکر ناول نگار نہیں سمجھتے۔ لکھنے والا کسی سے متاثر ہوسکتا ہے، مثلاً انتظار حسین نے یہ لکھا کہ میں کرشن چندر سے بہت متاثر تھا اور انہی کے انداز میں لکھنے کی کوشش کیاکرتا تھا توہر لکھنے والے اپنے عہد کے لکھنے والے سے متاثر توہوتا ہے۔ ’’اداس نسلیں‘‘ عبداﷲ حسین کاپہلا ناول تھا۔ اب اُن کے اوربھی بہت سے ناول آئے ہیں، اب وہ اُس کے اثرات سے نکل آئے ہیں۔ اردو کے اگردس اچھے ناول چنے جائیں تو پہلا ناول ’’آگ کادریا‘‘ ہے۔ بعض لوگوں نے امراؤجان ادا کو اچھا ناول قراردیاہے۔پہلے دس میں عزیز احمد کے ناول، منشی پریم چند، خدیجہ مستورکاناول ’’آنگن‘‘ بھی آئیں گے۔ فضل احمدکریم فضلی نے ایک ناول’’ خون جگر ہونے تک‘‘ لکھا تھا۔ انہوں نے دوناول لکھے۔ ایک ’’سحرہونے تک‘‘، ایک ناول مشرقی پاکستان کے پس منظر میں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جوتنقید لکھی گئی ہے، اُس میں اس کاذکر ذرا کم کم ملتا ہے۔ حیرت ہے کہ نقادوں نے اُن کونظرانداز کیا۔ 

اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں لکھنے والوں نے تکنیک باہر سے لی ہے۔ مثلاً کرشن کے جوافسانے ہیں مثلاً ’’دوفرلانگ لمبی سٹرک’’ ہے، ’’زندگی کے موڑ پہ‘‘، ’’بالکونی‘‘ اس طرح کے جوافسانے ہیں، وہ بالکل نئی تکنیک میں لکھے گئے ہیں، اس لیے اُن افسانوں نے بہت چونکا یا اورپڑھنے والے اور ادبی حلقے بہت متاثر ہوئے۔ وجہ یہ ہے کہ کرشن کامطالعہ مغربی ادب کابہت اچھا تھا۔ مغربی فکشن کاانہوں نے بہت مطالعہ کیا تھا۔ یہ ناول ،افسانہ یہ ساری اصناف ہی دراصل مغرب سے آئی ہیں۔ شعور کی رو کاذکر کیاجاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ورجینیا وولف کے زیر اثر شعور کی رو کی تکنیک میں کہانیاں لکھیں، لیکن قرۃ العین حیدر اس سے انکار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے جب یہ لکھا، تب میں نے ورجینیا وولف کونہیں پڑھا تھا اوراپنے طور پرمیں نے یہ چیزیں لکھی تھیں۔ اس حد تک ٹھیک ہے کہ بعض تکنیکیں مغرب سے آئی ہیں، لیکن یہ کہ سارے کاساراسرقہ ہے،یہ غلط ہے۔ یہ طبع زاد افسانے ہیں، اُن کے موضوعات، اُن کے کردار یہ ساری کی ساری اپنی ہے۔ 

’’تلخیاں‘‘ کی نظمیں مجھے زبانی یادہوگئیں ۔اس کے بعدمیں نے غالب کوسکول کے زمانے ہی پڑھا، لیکن جدیدشاعروں میں جس نے مجھے متاثر کیا، اُن میں منیر نیازی ہیں۔ منیرنیازی کاشعری مجموعہ ’’جنگل میں دھنک‘‘ جو ہے، اُس میں مجھے اک ایسی جھلک نظرآئی کہ جس کے تناظر میں مجھے دنیا بڑی منفرد نظرآئی۔ میں نے ان کے دوسرے شعری مجموعے بھی پڑھے، لیکن ظاہر سی بات ہے، اس سے میں یہ تونہیں کہتا کہ وہ فیض سے بڑے شاعر ہیں، اس لیے کہ فیض کے نام میں زیادہ کشش اور زیادہ تاثیر ہے اوروہ منیرنیازی سے بڑے شاعر ہیں، لیکن وہ شعرا جوہمارے عہد میں تھے، زندہ تھے اورلکھ رہے تھے، اُن میں سے منیرنیازی میں زیادہ طاقت، اُن کی سوچ میں زیادہ انفرادیت نظرآئی۔ ناصرکاظمی کے کلام نے بھی متاثر کیا، احمدمشتاق کی بعض غزلیں بہت اچھی ہیں، لیکن زیادہ تردلچسپی مغربی فکشن سے، افسانے سے اور ناولوں سے رہی۔ ’’راجہ گدھ‘‘ پرمیں نے ایک مضمون بھی لکھا، اس ناول نے مجھے بہت متاثر کیا۔ جب میں نے اس کامطالعہ کیاتومیں کئی دنوں تک بہت ہی Depression کاشکار رہا۔ اُن کے کردار مجھے haunt کرتے رہے۔ میں نے ’’راجہ گدھ‘‘ اپنے تحریر کردہ مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ راجہ گدھ میں جو فلسفہ بیان کیا گیا ہے، وہ سارے کا سارا اشفاق احمدکافلسفہ ہے۔ مصنفہ تو اس کی بانو قدسیہ ہیں۔ جیسے رزق کاجوفلسفہ ہے، رزق حرام کا جوفلسفہ بیان کیا گیا ہے، اشفاق احمد نے بعض مذاکروں میں جن خیالات کااظہار کیا تھا، وہ سب کے سب وہی ہیں۔ گویا یہ ناول اشفاق احمد صاحب کے فیض تربیت کانتیجہ ہے۔

کالج لائف تک تومیں ادبی مطالعہ ہی کرتا رہا۔ اُس زمانے میں کتابوں سے دلچسپی بہت زیادہ تھی۔ اُس زمانے میں پیسے بھی نہیں ہواکرتے تھے، کتابیں خریدنے کا بڑامسئلہ رہتا تھا۔ یہاں ایک دکان ہواکرتی تھی ’’کتاب محل‘‘، اس دکان کے مالک قسطوں پرکتابیں دیاکرتے تھے۔ ان سے میں کتابیں خریدتا رہتا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان سے کراچی آنے کے بعدمعاشی حالات بڑ ے خراب ہوگئے تھے۔ والد صاحب کاانتقال ہوگیا تھا اورجودوست احباب تھے، وہ بھی اسی طرح معاشی تنگی کاشکار تھے۔ کتابوں کے مطالعے میں ادب کے بعد فلسفے کی کچھ کتابوں سے دلچسپی رہی۔ فلسفہ مجھے ہمیشہ بہت مشکل لگا۔ فلسفیانہ مسائل پر میری گرفت کبھی بھی نہیں ہوسکی اورنفسیات پربھی کتابیں پڑھتا رہا۔ تاریخ پرکتابیں پڑھتا رہا۔ دراصل میرا منظم مطالعہ کبھی نہیں رہا۔ جو جو چیزیں ہاتھ لگتی گئیں، پڑھتا رہا۔

زمانہ طالب علمی میں جس دینی اسکالر نے متاثر کیا، وہ مولانامودودی صاحب تھے۔ اُن کی کتابیں میں نے پڑھیں۔ اُن میں جیسے ’’خلافت وملوکیت‘‘ ہے۔ بعد میں دوسری کتابیں پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں احتیاط کادامن چھوڑ دیا گیاہے اور بہت سی چیزوں کوجس طرح رقم کیا گیا ہے، اگرنہ کرتے توزیادہ بہتر تھا۔ اُس کے علاوہ اُن کی دوسری کتابیں جیسے ’’سود‘‘ ہے، ’’معاشیات اسلام‘‘ ہے، ’’اسلام اورجدید معاشی نظریات‘‘ ہے اور ’’پردہ‘‘ ہے، وہ ساری کی ساری کتابیں میں نے پڑھیں۔ ان کتابوں نے میرے خیالات کو، میری فکرکو مذہب کی طرف موڑنے میں بڑا اہم کردار اداکیا اور پھر آگے چل کرمیں نے جب اُن کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ پڑھی تواُس سے میرے اندرایک انقلاب آیا اوریہ داڑھی جو آپ دیکھ رہے ہیں اورنمازکی پابندی، اس میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کابہت اہم کردار ہے۔ اس کے پڑھنے سے پہلے دل میں یونہی ایک خیال سا آیاکہ کتابیں بہت پڑھتا رہتا ہوں، لیکن اگرقیامت کے دن اﷲ مجھ سے سوال کرے گا کہ ایک کتاب میں نے بھی تمہارے لیے اتاری تھی، تونے اُسے پڑھا کیوں نہیں تواس کا میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اس خیال کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے ’’تفہیم القرآن‘‘ کامطالعہ کرنا چاہیے، قرآن کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ توتفہیم کا ایک کمال تواُس کاترجمہ ہی ہے جسے انہوں نے قرآن حکیم کی ترجمانی کہا ہے۔ اُس ترجمے کوپڑھنے کے دوران مجھ پریہ کیفیت طاری ہوگئی تھی کہ میں اسے پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ تفہیم القرآن کوکہوں گا کہ میری زندگی کارخ بدلنے میں اس نے بڑا اہم کردار اداکیا۔

’’تفہیم القران‘‘ سے میرے اندر ذوق پیداہوا کہ میں دوسری تفاسیر کوبھی پڑھوں اورپھر میں نے ’’تفسیر عثمانی‘‘، مفتی محمدشفیع صاحب کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھیں۔ اس طرح قرآن فہمی کاذوق مولانا مودودی صاحب کی تفہیم القرآن سے پیدا ہوا اورپھرمیرا مطالعہ دینی کتابوں کی طرف مڑگیا اور میں نے دینی کتابیں پڑھیں۔ شکیب ارسلان کی ’’اسباب زوال امت‘‘، امیر علی کی ’’روح اسلام‘‘ اور دوسری بہت سی دینی کتابیں پڑھیں۔ پھر مجھ میں تصوف کا ذوق پیدا ہوا تو میں نے تصوف پر بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس میں خاص طور پر مولانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ اور دیگر کتابیں شامل ہیں۔ جدید ذہنوں کو متاثر کرنے میں مولانا مودودی کی تحریریں اور قلم بہت متاثرکن ثابت ہوتا ہے،لیکن دین کی اصل تفہیم میں اوردین کے لحاظ سے اعمال کی تربیت میں اور تزکیہ نفس کے عمل میں مولانا کی تحریریں اتنی موثر ثابت نہیں ہوتیں جتنی مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمدشفیع صاحب کی تحریریں ثابت ہوتی ہیں۔

سیرت کے حوالے سے شبلی نعمانی اورعلامہ سیدسلیمان ندوی کی جو کتاب ہے، میرے خیال میں شاید اس سے زیادہ اچھی سیرت عربی میں بھی نہ لکھی گئی ہو۔ سیرت پرایک کتاب جومجھے بہت اچھی لگی، مولانا وحیدالدین کی ایک کتاب ہے’’ پیغمبر انقلاب‘‘۔ سیرت پر چھوٹی سی کتاب ہے جس میں انہوں نے حضورؐ کی حیات طیبہ کوبہت اچھے طریقے سے قلم بند کیا ہے۔ ’’محسن انسانیت‘‘ کوبھی پڑھا ہے۔ 

ادب میں روسی افسانوی اور ناولوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر ٹامسٹائی، دوستوفیسکی، گورکی، گوگول وغیرہ کی کتابیں زمانہ طالب علمی میں ہی پڑھ ڈالی تھیں۔ طنز ومزاح میں پطرس سے لے کر ابن انشا تک، یوسفی، کرنل محمد خان تک سب کی تحریر یں میری نظروں سے گزری ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ پطرس کے بعد اگرکسی نے مجھے متاثر کیاتو ابن انشانے کیا۔یوسفی صاحب کی لوگ بہت تعریف کرتے اوربہت متاثر ہوتے ہیں۔ اُن کے جملے بڑے quote کیے جاتے ہیں، لیکن یوسفی صاحب کاجومزاح ہے، وہ مجھے بڑی محنت کے بعد بنایاہوا مزاح لگتا ہے۔ جملہ تراشنے میں وہ بڑی محنت کرتے ہیں،سوچتے ہیں اورسوچ کرمزاحیہ جملہ وضع کرتے ہیں، لیکن ابن انشاء کے اندر بڑی برجستگی ہے اور ان کا مزاح بہت بے ساختہ مزاح ہے۔ ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ دیکھ لیں یاجو اُن کے کالموں کامجموعہ ہے ’’خمار گندم‘‘ یا ’’آپ سے کیا پردہ‘‘ وغیرہ، اُن میں جوبات ہے، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اور مزاح کے اعتبار سے جوبے ساختہ مسکراہٹ ہے، وہ کسی اور میں نظر نہیں آئی۔

کالموں میں ابن انشا کے کالم مجھے بہت پسند آئے اورعطاء الحق قاسمی کے کالموں کی پہلی کتاب ’’روزن دیوار سے‘‘ مجھے بہت اچھی لگی۔عبدالقادر حسن کا کالموں کا جو مجموعہ ہے، ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ وہ بھی اچھا ہے۔ جاوید چودھری کے کالم بھی بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ادب کے میدان میں قرۃ العین حیدرکاہی نام لوں گا اور اُس کے بعد انتظار حسین صاحب کا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں مصنفوں کے موضوعات کافی حدتک ملتے جلتے ہیں۔ جیسے ہجر ت کامسئلہ یااخلاقی اقدار کامسئلہ، لوگوں کے رویوں کے بدلنے کامسئلہ ہے۔

بہت سی کتب نے اپنے اپنے وقت میں مجھ پراثرات مرتب کیے۔ ’’خداکی بستی‘‘ بھی بہت اچھی لگی، یہ شوکت صدیقی کا ناول ہے۔ شوکت صدیقی ہمارے بڑے اہم ناول نگار ہیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’کیمیاگر‘‘ میں جو پہلی کہانی ہے، وہ بہت طاقت ور اور متاثر کر دینے والی ہے۔ 

صبح فجرنمازکے بعد اخبارات کامطالعہ کرتاہوں۔ گھر میں توتین اخبارات کا مطالعہ کرتاہوں، لیکن اپنے شعبے کی لائبریری میں جاکر کچھ دوسرے اخبارات کودیکھتا ہوں، مثلاً جیسے نوائے وقت،Nation وغیرہ میرے گھر آتا ہے، جنگ اورایکسپریس ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں جاکر دیکھتا ہوں۔ 

دوران سفر ہمیشہ ہی ہلکے پھلکے لٹریچر کامطالعہ کرتا ہوں۔ خاص طورپرافسانے یاسفرنامے میں نے پڑھے ہیں اور مجھے بہت اچھے بھی لگے ہیں۔ ’’دھنک پرقدم‘‘، ’’سات سمندر پار‘‘ وغیرہ۔ آپ بیتی اورسوانح عمریاں بھی پڑھی ہیں۔ آب بیتیوں میں سررضا علی کا ’’اعمال نامہ‘‘ بہت اچھی لگی۔ ابھی حال میں ہی میں نے انتظار حسین کی یادداشتیں ’’چراغوں کا دھواں‘‘ بھی مجھے پسند آئی اور آپ بیتیوں میں خواجہ حسن نظامی کی آپ بیتی مجھے اس لیے اچھی لگی کیونکہ اُس میں بڑی سچائی ملتی ہے۔ اپنے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں بڑامنافق آدمی ہوں۔ اُس سچائی نے مجھے متاثرکیا۔ ایسی آپ بیتیاں ذراکم لکھی گئی ہیں جس میں اپنے آپ کوexposeکیاگیا ہو۔ اس سلسلے میں روسو کی آپ بیتی ’’اعترافات‘‘ کی بڑی شہرت ہے۔ پھر یہ روایت بھی چل نکلی کہ آپ بیتی میں آدمی اپنے بارے میں سچ بولے، جیسے کشور ناہیدنے آپ بیتی لکھی ہے ’’بری عورت کی کتھا‘‘۔ اُس میں اُس نے اپنے بارے میں اوراپنے معاصرین کے بارے میں بہت زیادہ صاف گوئی کامظاہرہ کیا ہے۔ مختارمسعود کی کتاب ’’آواز دوست‘‘ بہت پسند آئی۔ اُس میں ایسی نثر لکھی گئی تھی جوہمارے ہاں کم لکھی جاتی ہے۔ اُن کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ بھی بڑی اچھی کتاب ہے، انقلاب ایران پر بڑی موثر کتاب ہے۔ شیخ منظور الہٰی کی ’’درِ دل کشا‘‘ بھی بہت اچھی کتاب ہے۔

مطالعہ کاایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اگرسنجیدہ تحریروں کایاعلمی تحریروں کامطالعہ کرتے ہیں تواُس کاطریقہ یہ ہے کہ آپ باقاعدہ نوٹس لیں یعنی منظم مطالعہ تواسی کوکہتے ہیں۔ میں جب علمی مطالعہ کرتاہوں تو ضرورت محسوس کرتاہوں، نوٹس وغیرہ لے لیتا ہوں، اس لیے کہ پڑھنے کے بعدساری چیزوں کوذہن میں رکھنا بہت مشکل ہوتاہے اورپھر اُس کے لیے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ میں دوبارہ اُن کوپڑھوں۔ مثلاً علامہ اقبال کے بارے میں، میں نے پڑھا کہ ابن عربی کی کتاب کاتیرہ مرتبہ انہوں نے مطالعہ کیا۔ شمس الرحمان فارقی صاحب نے کہیں لکھا کہ بعض چیزیں میں چارچار ،پانچ پانچ مرتبہ پڑھتا ہوں ۔اُس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ تفہیم کی خاطر اورحافظے میں محفوظ رکھنے کے لیے علمی کتابوں کالوگ کئی بارمطالعہ کرتے تھے۔ نہرو نے اندراگاندھی کوجوخطوط لکھے ہیں، اُن میں انہوں نے لکھا ہے کہ مطالعہ کے بعد اگروہ آپ کے ذہن میں محفوظ نہیں رہتا تویہ ایسے ہی ہے جیسے گھاس کھودنا۔

قرۃ العین حیدر کوپڑھنے کے بعدمیری بہت تمنا تھی کہ اُن سے ملوں۔ چنانچہ 1993ء میں جب ہندوستان گیا توگوکہ میرا یہ علمی سفرتھا، میں اپنے PHDکے مطالعے کے لیے گیا تھا یعنی اپنے تحقیقی مقالے ’’اردوصحافت انیسویں صدی میں‘‘ کی تحقیق کے سلسلے میں گیا تووہاں ایک سیمینار میں بھی شرکت کی، لیکن بعد میں، میں نے اُسے اپنے علمی سفرمیں تبدیل کرلیا۔ نہ گھوما پھرا اور نہ کسی سے ملاقات کی، بس لائبریروں کی خاک چھانتا پھرا۔ ہندوستان کے پانچ چھ شہر گھومے یعنی کلکتہ میں، لکھنو میں گھوما۔ اُس میں دو چیزیں میں نے اپنی خواہش سے کیں۔ ایک توتاج محل دیکھا اور دوسرا قرۃالعین حیدرسے ملاقات کی۔ ابوالکلام قاسمی جواردو کے بہت اچھے نقاد ہیں، اس ملاقات میں میرے ہمراہ تھے۔ وہ مجھے قرۃ العین سے ملوانے کے لیے اُن کے فلیٹ میں لے گئے جہاں میں نے اپنی محبوب مصنفہ سے ملاقات کی۔ 

میری بہت دیرینہ خواہش رہی کہ میں اپنے بچوں کے اندربھی مطالعے کاذوق پیداکروں چنانچہ اُن کوکتابیں خریدکردینے کاسلسلہ شروع کیا، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹیلی ویژن اورکمپیوٹر دوچیزوں کی وجہ سے مجھے اس کوشش میں ناکامی کاسامنا کرنا پڑا اورمیرے بچے ٹیلی ویژن اورکمپیوٹرمیں جتنی دلچسپی لیتے ہیں، اتنی غیرنصابی کتابوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مثلاً جب میرے بچے چھوٹے تھے تومیں انہیں کہانیاں پڑھ کرسنایا کرتاتھا اورجب وہ بڑے ہوگئے اورمیں نے اُن کوکہانیاں اورکتابیں دیں اورتلقین کی کہ بھئی ان کوپڑھو توانہوں نے ان کوپڑھنے کے بجائے ٹیلی ویژن دیکھنے کوترجیح دی اوراس کا مجھے بڑا قلق ہے کہ میں اپنے بچوں کے اندر وہ ذوق مطالعہ پیدانہیں کرسکا۔ میری لائبریری میں تقریباً 4 یا 5 ہزارکتابیں ہوں گی اوراب مسئلہ کتابوں کورکھنے کا ہے۔ جگہ نہیں ہے گھر میں، اس وجہ سے بڑے اختلاف رہتے ہیں۔ بیگم کہتی ہیں کہ گھر میں جگہ نہیں ہے اورآپ کتابوں پہ کتابیں لائے جاتے ہیں۔ رکھیں گے کہاں؟ اس وجہ سے نئی کتابوں کاراستہ رُک گیا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ میں جومیرا کمرہ ہے، اُس میں بھی میرے پاس اچھی خاصی کتابیں ہیں۔ 

میں نے محسوس کیاہے کہ کتاب دیکھتے ہی آدمی کاذوق مطالعہ بیدار ہوجاتاہے اور پھر وہ کتاب فوراً طلب کرلیتا ہے اورکتاب ایسی چیز ہے کہ جسے تقاضا کیے بغیر لوگ بہت کم لوٹاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر کتابوں کی واپسی کاتقاضا کریں تو برامان جاتے ہیں۔ کسی اورچیز کومانگنے میں تو شاید تکلف ہوتا ہو، لیکن کتاب مانگنے میں کوئی تکلف نہیں کرتا۔ میں اپنے کتب خانے کی طرف یہاں آنے والوں کوذراکم ہی لے جاتاہوں کیونکہ ان میں سے جب کوئی کتاب مانگتا ہے تودل پہ چھری سی چل جاتی ہے، کیونکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ کتاب واپس نہیں آئے گی۔ میرے کتب خانے سے بہت اچھی اچھی کتابیں چوری ہوئی ہیں۔ مثلاً جب میں دلی گیا تھا تووہاں سے خشونت سنگھ کاناول ’’دلی‘‘ لے کر آیا تھا انگریزی ورژن۔ اس طرح کافکا کی کتابوں کا ایک ترجمہ لے کر آیا تھا۔ اسی طرح منیر مسعود کی کہانیوں کا مجموعہ، وہ سب کتابیں مجھے یادہیں، لیکن وہ میرے کمرے سے غائب ہوگئی ہیں۔ 

ادبی مطالعے کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس سے زبان سے آشنائی پیداہوتی ہے اور انسان زبان کے مختلف اسالیب کے بارے میں سیکھتا ہے اور دوسری بات یہ کہ چیزوں کودیکھنے کے Perspectiveمیں تبدیلی آتی ہے کہ چیزوں کوکس رنگ میں دیکھنا چاہیے، چیزوں کو کس طرح محسوس کرنا چاہیے۔ بہترانسان بننے میں ادبی مطالعہ بہت اہمیت کاحامل ہے۔ ادبی مطالعہ نہ ہوتو انسان کی شخصیت ادھورے پن کا شکار ہو جاتی ہے جب کہ ادبی مطالعے سے آدمی باطنی طورپر بہت Rich ہوتا ہے، بہت زیادہCultural Behaviourاُس کے اندر پیداہوتا ہے۔ اُس کے اندر شائستگی آتی ہے اور نتیجتاً وہ بہتر انسان بنتا ہے اور اس کے لیے ادب کامطالعہ کرنا بہت ضروری ہے اور آج جتنی بے چینی اور سفاکی آپ کونظرآتی ہے، جوایک بے روح مادیت پسندی نظرآتی ہے، اُس کی وجہ بھی میراخیال یہی ہے کہ لوگ ادب کامطالعہ نہیں کرتے یا پھر ادب سے اُن کا رشتہ کمزور پڑ گیا ہے۔ 

ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ ساقی فارقی صاحب کی کتاب آئی ’’آپ بیتی پاپ بیتی‘‘ اسے پڑھ کرمجھے بہت غصہ آیا، بڑی کراہت محسوس ہوئی اورایک احساس ہواکہ کیاکوئی آدمی اس طرح کی بھی باتیں لکھ سکتاہے۔

باقی زندگی کے لیے تفاسیر اورسیرت کی کتابیں لوں گا۔فوری طور پر کوئی نام ذہن میں نہیں آرہے ہیں۔

مشاہدات و تاثرات

(اپریل ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter