شخصیات
جارج برنارڈشا کی پیشِین گوئی
― حامد میر
جارج برنارڈ شا کو شیکسپیئر کے بعد انگریزی کا دوسرا بڑا ڈرامہ نگار اور ادیب کہا جاتا ہے۔ جارج برنارڈ شا کو 1925ء میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ وہ جنگ کا مخالف تھا اور برطانوی حکومت کی پالیسیوں کا ناقد بھی تھا۔ جارج برنارڈشا نے اپنی زندگی میں ایک ایسی پیشِین گوئی کی جس پر مسلمان بہت فخر کر سکتے ہیں لیکن فخر کے ساتھ ساتھ یہ پیشِین گوئی سب سے زیادہ غور و فکر کا تقاضا بھی مسلمانوں سے کرتی...
’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘
― مولانا فضل الرحمٰن
میرے والد محترم شیخ الحدیث و التفسیر، مفتی اعظم، قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ اپنے عہد کے جامع الصفات والکمالات انسان تھے، وہ محاسن و کمالات کی جملہ خوبیوں سے مزین تھے۔ قدرت نے انہیں صورتاً حسن وجاہت سے نوازا تھا تو سیرتاً ان کو اخلاقِ حمیدہ سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عظیم انسان پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہوتے رہیں گے لیکن بعض شخصیات بارگاہِ ایزد تعالیٰ سے اپنے ساتھ ایسی خصوصیات و کمالات لے کر پیدا ہوتی ہیں جن کی تمام حیات مستعار انسانیت کی خدمت اور ان کی فلاح میں گزرتی ہے، وہ اپنے دلوں میں...
پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمود سے ایک اہم انٹرویو
― مجیب الرحمٰن شامی
مولانا مفتی محمود راولپنڈی میں ہوں تو ان کا قیام جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ میں رہتا ہے۔ بالائی منزل کے ایک حجرے میں۔ ۲۲ اگست کو ان سے ٹیلیفون پر بات ہوئی اور ملاقات کے لیے ساڑھے نو بجے رات کا وقت مقرر ہوا۔ جامعہ اسلامیہ پہنچا تو مفتی صاحب عشاء کی نماز ادا کر رہے تھے۔ میں برادران عزیز مختار حسن اور سعود ساحر کے ہمراہ انتظار کی لذت میں ڈوبنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ جناب صبح صادق کھوسو تشریف لے آئے۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ کھوسو صاحب کا ذہن توانا، لہجہ والہانہ اور تیور مجاہدانہ تھے۔ وہ ۱۹۵۶ء سے جمعیۃ العلمائے اسلام میں شامل ہیں اور کل انہیں وزیر...
مولانا ولی الحق صدیقی افغانی کی رحلت
― شاہ اجمل فاروق ندوی
۵؍ذوالحجہ ۱۴۴۵ھ / ۱۲؍جون ۲۰۲۴م کو افغانستان سے یہ افسوس ناک خبر آئی کہ یادگارِ اسلاف اور سرزمینِ افغانستان پر باعثِ برکات مولانا ولی الحق صدیقی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی ولادت افغانستان کے صوبے ننگرہار کے علاقے سرخرود میں ۱۳۴۷ھ / ۱۹۲۷م میں ہوئی تھی۔ اس طرح انھوں نے تقریباً سو سال عمر پائی۔ ان کا خاندان اہل علم و فضل کا خاندان تھا۔ ان کے والد گرامی مفتی عبدالحق صدیقی اور چچا مولانا عبدالخالق صدیقی دونوں مستند عالم تھے۔ اسی طرح ان کے دادا قاضی صاحب گل صدیقی بڑے عالم اور پر دادا جناب احمد گل صدیقی بھی معتبر شخصیت...
خلیفۂ ثانی سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
― سید سلمان گیلانی
ہے روم کا میدان بھی میدان عمرؓ کا۔ ایران کی بھی فتح ہے فیضان عمرؓ کا۔ اب کعبے کے اندر ہی ادا ہوں گی نمازیں۔ روکے تو کوئی اب یہ ہے اعلان عمرؓ کا۔ ہیں نام عمرؓ سن کے لرزتے وہ ابھی تک۔ کفار پہ ہے دبدبہ ہر آن عمرؓ کا۔ اکرام دل و جان سے ایماں کی قسم ہے۔ کرتا ہے اک صاحبِ ایمان عمرؓ کا۔ تب سے نہ ہوا خشک ابھی تک یہ سنا ہے۔ ہے جب سے مِلا نیل کو فرمان عمرؓ کا۔ یہ دیکھ علیؓ نے کسے داماد بنایا۔ اے دشمنِ دیں نام تو پہچان عمرؓ کا۔ مداح ہے اصحابؓ کا ہر ذاکرِ حق گو۔ ہر شاعرِ برحق ہے حدی خوان عمرؓ کا۔ روضے میں رہوں یاروں کے ہمراہ میں تاحشر۔ اللہ نے پورا کیا ارمان...
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہ
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
اقبال نے جدید فلسفہ و سائنس پر جس علم الکلام کی بنیاد رکھی، اپنی دقت و پیچیدگی کی وجہ سے صرف خواص اہل علم کا ایک طبقہ ہی اس سے مستفید ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مزید دو اسباب کی بنا پر فکرِ اقبال کی توضیح زیادہ بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہو سکی: ایک تو اقبال کی شاعری کے سحر حلال نے عوام و خواص کو اس طرح مسحور کیا کہ ان کی توجہ ’’خطبات‘‘ کی طرف ملتفت نہ ہو سکی۔ دوسرے، ’’خطبات‘‘ میں اقبال کی ایسی تجدد پسندانہ آرا سامنے آئیں ،جو راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے براہ راست طور پر متصادم تھیں اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست خود مولانا سید سلیمان ندوی تھے،...
مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدمات
― مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
سندھ مردم خیز بھی ہے تو زر خیز بھی۔ سر زمین سندھ میں ہر دور میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہی علماء میں مولانا در محمد پنہور رحہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ بیک وقت مدرس، مفتی، مصنف حق گو اور فی البدیہ شاعر بھی تھے۔ نام و نسب: مولانا در محمد پنہور بن حاجی امام بخش پنہور 1903ء سڈر عالیوال تحصیل میہڑ ضلع دادو میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت: آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے گوٹھ کے مکتب سے حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے حصول کے لئے اس وقت کے جید عالم دین حضرت مولانا الاہی بخش ایری کے ہاں گوٹھ بانہوں لاکھیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جہاں پر ابتدائی کتب اردو،...
جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
― ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
3 اکتوبر 2010ء کو مولانا زاہد الراشدی کے یہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ریفرنس بسلسلہ ناگہانی رحلت جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ میں میری تقریر کی تحریری شکل ماہنامہ الشریعہ میں شائع ہوئی تھی۔ سفاک ارضی عصر رواں کی بندشوں میں کسے ہوئے کسی اتفاق ہی کا نتیجہ ہے کہ 18 دسمبر 2023ء کو انہی کے بھائی جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی رحمہ اللہ کی ناگہانی رحلت پر اب کی بار مجھے دو جگہ منعقدہ ریفرنس میں تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلا ریفرنس کورنگ ٹاؤن اسلام آباد میں مرحوم پروفیسر افتخار بھٹہ کے گھر اتوار 31 دسمبر صبح 10 بجے تھا۔ بستی کے سینکڑوں...
مولانا مفتی محمودؒ
― مجیب الرحمٰن شامی
پیشانی کشادہ، مطلعِ انوار، آنکھیں روشن، زندہ وبیدار، ابھرتے ہوئے مسکراتے رخسار، گندمی رنگ میں سرخی کے آثار، سر کے بال پٹے دار، ڈاڑھی پھیلی ہوئی باوقار، سیاہی پر سپیدی ژالہ بار، شانے چوڑے اور مضبوط مردانہ وار، ناک ستواں، قد میانہ، جسم گھنا، ایک شجرِ سایہ دار، پر ُسکون جیسے دامنِ کوہسار، لباس سے سادگی آشکار، کندھوں پر مستقل رومال کہ جسدِ خاکی کا حاشیہ بردار، دمِ گفتگو، دلیل کی گفتار، دمِ جستجو، فرض کی پکار، آرام سے ہر لحظہ انکار، مطمحِ نظر اسلامی اقدار، عوامی حقوق کا پاسدار، ان کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار، وزیر اعلیٰ، مگر چٹائی سے...
جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ
― ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
غالباً ۲۰۰۹ء کے گرما کی بات ہے، جسٹس محمود احمد غازی نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: "سید سلمان ندوی پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ کچھ احباب کو گھر عشائیے پر بلاتے ہیں۔ ذرا اچھا وقت گزر جائے گا"۔ پھر مجھے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری, پروفیسر فتح محمد ملک اور سید سلمان ندوی کو میری طرف سے عشائیے پر مدعو کریں۔ ڈاکٹر یوسف فاروقی، غزالی آپ اور میں تو ہوں گے ہی۔ یوں یہ کل 7 افراد ہو جائیں گے۔ آپ کسی اور کو بلانا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔" میں نے جسٹس امجد علی صاحب کا نام تجویز کیا۔ جسٹس صاحب کے قانونی فہم نے تو مجھے کبھی متاثر نہیں کیا...
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریب سے خطاب
― ادارہ
عزت مآب (لارڈ ماؤنٹ بیٹن)! میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی طرف سے اور اپنی طرف سے شاہِ برطانیہ کا ان کے مہربان پیغام کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آگے بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ میں فطری طور پر ان کے جذبات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ان کی ہمدردی اور حمایت کی یقین دہانی کیلئے شکر گزار ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ برطانوی قوم اور خود برطانوی سربراہ کیلئے ہماری طرف سے خیر سگالی جذبات اور دوستی کا پیغام پہنچائیں گے۔ میں پاکستان کے مستقبل کیلئے آپ کے خیر سگالی اور نیک خواہشات کے اظہار کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہماری یہ مسلسل...
رفتید، ولے نہ از دلِ ما!
― ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
3 جمادی الثانی 1445ھ (18 دسمبر 2023ء) کو استاذِگرامی پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی، رکن شریعت اپیلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان، کا انتقال ہوا۔ ان کے ساتھ تقریباً 3 دہائیوں کا تعلق تھا جس میں انھوں نے میرے مشفق مربی اور مرشد کا کردار ادا کیا۔ ان کی وفات کی خبر نے بہت دکھی کیا، لیکن ہم کہیں گے وہی جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ 3 دہائیوں کا قصہ چند صفحات میں نہیں بیان کیا جاسکتا لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ ان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر تھوڑی سی گفتگو ضرور ہو تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو کہ کیسے اساطین تھے جو ہم نے کھو...
ڈاکٹر محمد الغزالیؒ
― محمد آصف محمود ایڈووکیٹ
ہمارے استاد، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے جج، جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ جو ڈاکٹر محمد الغزالی کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں میں کس بندہ آزاد کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔ جو نہیں جانتے وہ البتہ کبھی جان ہی نہیں پائیں گے کہ یہ کیسا عالی مرتبت انسان تھا جواس دنیا سے اٹھ گیا۔ڈاکٹر غزالی پر لکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔یہ ایک کوہ کنی ہے اور ہم جیسوں میں کوئی فرہاد نہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ڈاکٹر غزالی کا شاگرد تھا۔ ایم اے انگریزی کی کلاس میں انہوں نے ہمیں ّ اسلام اور جدید مغربی فکرْ کا مضمون پڑھایا تھا۔ ہم حیران اور بے زار...
ڈاکٹر محمد الغزالیؒ
― مراد علی
ڈاکٹر محمد الغزالی کا پہلا تعارف ڈاکٹر محمود احمد غازی کے برادر خورد کے طور پر ہوا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی اسلام آباد وارد نہیں ہوئے۔ 2015ء میں اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد دوسرے ماہ، اپریل کے مہینے میں شریعہ اکیڈمی میں جہاد کے موضوع پر دو روزہ ورک شاپ تھا، جس میں پہلے دن کا ایک سیشن غزالی صاحب چیئر کر رہے تھے یہی ان کی پہلی براہ راست زیارت...
حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۲)
― مولانا محمد بھٹی
مبحث کا قانونی پہلو: نفسِ مسئلہ کی مقدور بھر تنقیح کے بعد لازم ہے کہ اس کے مضمرات و اطلاقات کا جائزہ لیا جائے۔ عنوان ہذا کا کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی حسن و قبح کی کوئی تکلیفی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں،اور اشاعرہ سوال کی کایا کلپ کر دیتے ہیں۔معتزلہ کا کہنا ہے کہ جو چیز حسَن یا قبیح ہے وہ واجب،مندوب،مباح یا حرام بھی ہے جبکہ اشاعرہ حسن و قبح کو حکم کا ضمنی پہلو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو چیز واجب،مندوب،مباح یا حرام ہے وہ حسن یا قبیح بھی ہے۔گویا اشاعرہ حکم کو اخلاقیات(حسن و قبح) پر مقدم قرار دیتے ہیں...
حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۱)
― مولانا محمد بھٹی
بیشتر انسانی افعال اخلاقی اقدار سے استناد کرتے ہیں لیکن یہ اقدار کس پہ تکیہ کرتی ہیں؟ اس سوال کو جواب آشنا کرنے کے لیے کی گئیں کاوشوں نے کئی ایک دبستانِ علم اور مکاتبِ فکر کو جنم دیا ہے۔ ہماری علمی روایت کی بیشتر مذہبی و علمی جدلیات کا محور و مدار بنا رہنے والا حسن و قبح کا مسئلہ بھی اسی سوال کے جواب کی ایک کوشش تھی۔یہ مسئلہ ان چند کلامی مسائل میں سے ایک ہے جن کی صراحی آج بھی معنویت سے لبالب ہے کیونکہ انسان کو ہر آن اقدار کا مسئلہ درپیش ہے۔جب تک انسان 'زندہ' ہے اقدار یا حسن و قبح کا سوال بھی زندہ ہے کیونکہ فطرتِ انسانی کے کلبلاتے اقتضاءات ہی اسے...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۵)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی خدمات کا ایک بڑا دائرہ اسلامی فکر ہے اور دوسرا بڑا دائرہ اسلامی معاشیات ہے۔ اسلامی معاشیات پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی متعدد کتابیں ہیں، جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں: اسلام کا معاشی نظام۔ اسلام کا نظریہ ملکیت۔ غیرسودی بینک کاری۔ مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق۔ معاش، اسلام اور مسلمان۔ انشورنس، اسلامی معیشت میں۔ اسلام کا نظام محاصل، قاضی ابویوسف کی کتاب الخراج کا اردو ترجمہ۔ اسلام میں عدل اجتماعی، سید قطب شہید کی العدالۃ الاجتماعیۃ کا اردو ترجمہ۔ آپ نے انگریزی زبان میں بھی اسلامی معاشیات سے متعلق متعدد...
طہٰ حسین: مغرب پرستی سے اسلام پسندی تک
― مولانا ابو الحسین آزاد
بیسویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہوتے اور پھر واپس اسلام پسندی کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا۔ جن میں ایک بڑا نام طہ حسین کا بھی ہے۔اس عبقری ادیب اور عالمی شہرت کے حامل مفکر کا نام اب اردو دنیا کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ ان کی متعدد کتب کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں لیکن عرب دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی ان کے متعلق بہت سے ذہنوں میں مختلف طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انھیں ملحد، مستشرق، دین دشمن اور متجدد جیسے القابات سے یاد کرتی ہے۔دوسری طرف...
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات :ایک تجزیاتی مطالعہ (۲)
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
قدم عالم کا قول: شاہ صاحب کا قدم عالم کا تصور بھی ان کے تفردات میں شما رہوتا ہے۔التفہیمات الالہیۃ میں لکھتے ہیں: ( العماء) لیست عین الذات من کل وجه ولا غیرھا من کل وجه وانھا قدیمة بالزمان حادثة بالذات من جھة انھا موجودة بالذات الالھیة۔ ’’عما ء نہ تومن کل وجہ عین ذات (قدیم) ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔وہ زمان کے لحاظ سے قدیم اور ذات کے لحاظ سے حادث ہے۔ایک حیثیت سے وہ ذات الہیہ کے ساتھ (دائمی طورپر) موجود ہے‘‘۔ اپنے اس خیال کوشاہ صاحب نے’’ الخیرالکثیر‘‘ میں بھی موکد کرنے کی کوشش کی ہے۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ شاہ صاحب نے یہ تصورپوری طرح غوروفکر...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۴)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
فکر اسلامی کی ازسر نو تشریح کی ضرورت: ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مولانا مودودیؒ کے نام اپنے ایک خط میں اپنی تحریر ”معاصر اسلامی فکر“ کے حوالہ سے بدلتے ہوئے حالات میں فکر اسلامی سے متعلق مختلف امور ومسائل کی از سر نو تعبیر وتشریح پر بھی زور دیتے ہیں: ”ڈیڑھ دو سال پہلے آپ کی خدمت میں ”معاصراسلامی فکرکے چند توجہ طلب پہلو“ کے عنوان سے ایک مقالہ بھیجا تھا، جس کے ذریعہ آپ کے سامنے یہ احساس پیش کرنا مقصود تھا کہ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کی تشریح وتعبیر کے ذیل میں بہت سے امور پر تحریک کا موقف ازسرنو تعیین وتشریح کا طالب ہے، جب تک یہ کام نہیں انجام...
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
اصحاب علم نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر و شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن متعدد ایسے پہلو ہیں جن پر تفصیلی وتحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ان میں سے ایک پہلو شاہ صاحب کے کلامی تفردات کا ہے۔ ان کا مطالعہ دو وجہوں سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے: ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاہ صاحب، جیسا کہ شبلی نے لکھا ہے ،دور زوال وانحطاط کی سب سے عظیم و عالی دماغ شخصیت ہیں۔(۱) دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی اسلامی فکری روایت پر شاہ صاحب کی فکرونظر کے نقوش دوسری کسی شخصیت کے مقابلے میں زیادہ گہرائی کے ساتھ مرتسم ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں شاہ صاحب سے قبل بر صغیر ہند...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے فکر کی ایک امتیازی خصوصیت فکری گہرائی اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ فکر میں موجود کلیئرٹی، وضاحت اور عصری معنویت ہے۔ ڈاکٹر صدیقی زمینی حقائق پر نصوص کی روشنی میں آزادانہ غوروفکر کرتے تھے اور آزادانہ رائے قائم کرتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک قدآور فکری رہنما تھے لیکن انہوں نے مولانا مودودی یا ابتدائی تحریکی مفکرین کی کھینچی ہوئی لائن کا خود کو کبھی اسیر نہیں بنایا، اس سلسلہ میں ان کے اندر زبردست خوداعتمادی اور جرأت مندی دیکھنے کو ملتی...
مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)
― مولانا طلحہ نعمت ندوی
مولانا کے بقول شیخ نے اپنی کتابوں میں جن کلی امور پرسیر حاصل بحثیں فرمائی ہیں ،ان میں علم کا مسئلہ بھی ہے ، جس کی تعبیر موجودہ اصطلاح میں تھیوری آف نالج (Theory of Knowledge) کے الفاظ سے کی جاتی ہے ، یعنی دین سے بغاوت کا وہ حصہ جو علم کے جھوٹے دعویٰ پر مبنی ہے ، شیخ لوگوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ خود اس علم اور دانش کی کیاحقیقت ہے ، ہم یہ جانتے ہیں ، وہ جانتے ہیں ،اور اپنے اسی جاننے کی بنیاد پر نہ سوچنے والوں کے قلوب میں دین کا جو احتقار پیدا ہوتا ہے ، شیخ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ خود یہ جاننا کیا چیز ہے ، اور تمہارے اس جاننے...
مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)
― مولانا طلحہ نعمت ندوی
یہ عنوان مختصر ہے لیکن تہ داراور وسیع المعانی، ایک طرف شیخ اکبر ابن عربی کی جامع ومعرکہ آرا شخصیت ،ایک طرف بر صغیر کے نامور عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی ، جنہیں خود ان کے رفیق دیرینہ مولانا عبدالباری ندوی نے وقت کاابن عربی قرار دیا تھا، وہ ابن عربی کے عاشق تھے بلکہ عاشق زار ، ان کے ذکر پر بے اختیار ہوجاتے، جب جب نام سنتے یا ان کے انتساب سے کسی کا نام ان کے کانوں میں پڑتا تو پھڑک اٹھتے،کاش کہ ان کے سدا بہار وپرفیض قلم سے ابن عربی کے احوال وافکار اور ان کے خیالات وآراء کی توضیح مرتب شکل میں ہوگئی ہوتی، ابن عربی پر اس دور میں برصغیر میں جیسا...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۲)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے علمی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور اجتماعی زندگی بھی گزاری اور خاص طور پر ہندوستان کی اسلامی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی کے سلسلہ میں نہ صرف فکرمند رہا کرتے تھے بلکہ ملت کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجز پر بہت ہی واضح اور جرأتمندانہ موقف بھی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی سے متعلق ایک واضح پروگرام اور نقشہ کار رکھتے تھے، اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر بہت ہی شدومد کے ساتھ کیا کرتے...
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ: تعارف و خدمات
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمات، فکر اور مشن کے تعارف کے لیے ’’بزم شیخ الہند‘‘ کے نام سے ہم کچھ دوستوں نے جن میں حضرت مولانا قاری محمد یوسف عثمانی، ہمارے بھائی عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر رفقاء بھی شامل تھے ،بہت پہلے ایک کام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت فکری نشستیں ہوا کرتی تھیں، پھر زمانے کے ساتھ ساتھ کام ٹھنڈا پڑ گیا۔ اب ہمارے بہت باذوق ساتھی حافظ خرم شہزاد صاحب جو ما شاء اللہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ فکر بھی ہیں اور صرف متفکر نہیں بلکہ فکر دلانے والے بھی ہیں۔...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۱)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے، بہت کم عمری میں تحریک سے وابستہ ہوئے اور تادم زیست وابستہ رہے، لیکن یہ وابستگی کوئی عام سی وابستگی نہ تھی، بلکہ آخر دم تک تحریک اور امت کے لیے غیرمعمولی حد تک فکرمند رہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک عظیم ماہرِ اسلامی معاشیات تھے اور عالمی سطح پر انہوں نے اسلامی معاشیات کے حوالہ سے نہ صرف ایک پہچان بنائی تھی، بلکہ دنیا بھر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا تھا۔ عالم اسلام کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ بھی اسی سلسلہ میں ان کی خدمات کے اعتراف...
مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ اور اُن کی دینی خدمات
― پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق غازی
مولانا محمد علی صدیقیؒ ( 12 مارچ 1910تا 16 دسمبر 1992) المعروف مولانا محمد علی کاندھلوی یکم ربیع الاول ۱۳۲۷ ہجری بمطابق 12 مارچ 1910عیسوی بروز پیر ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ کے محلہ مولویاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام علی احمد رکھا جب کہ آپ کے والد گرمی پیار سے آپ کو حیدر کہتے تھے۔ بعد میں آپ محمد علی کے نام سے پکارے جانے لگے۔ مولانا ؒ چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بھائیوں کے نام بالترتیب حکیم محمد عمر، حکیم محمد عثمان اور مولانا بشیر احمد ہیں۔ مولاناؒ کے والدِ گرامی کا نام مولانا حکیم صدیق احمدؒ تھا۔ آپ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی...
مولانا مودودی کے جہادی تصورات
― احمد حامدی
مراد علی صاحب کو اللہ تعالی نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہنا ان میں سے ایک ہے۔ مراد علی، مولانا مودودی اور ان کے کام کے ساتھ اس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی سے متعلق مواد دیوانہ وار جمع کرتے رہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے کام سے واقف بھی ہیں اور واقفیت میں اضافہ کرتے رہنے کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔ طویل اقتباسات کو یاد رکھنا اور مولانا کی آرا کو آج کے مسائل پر لاگو کرتے رہنا ان کی ایک اور خوبی ہے اور فیس بک پر موجود لوگ اس سلسلے میں ان کی کاوشوں سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کو اس حال میں قریب...
ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار
― محمد یونس قاسمی
ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی میں Avecena's Psychology پر شاندار مقالہ لکھا جس پر انہیں 1949 میں ڈی فل کی ڈگری سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1962 میں...
مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کی صحافت
― محمد اویس سنبھلی
بلند پایہ مصنف، مفسر قرآن، تعلیم و تربیت اور خدمت دین کے مثالی پیکر، صاحب طرز صحافی، نیزگمشدہ بہار کی آخری یادگار مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ۲۳/جنوری ۲۰۲۲ء کو طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی آزاد ہندوستان کے اُن اہم دینی علماء سے تھے جنہوں مسلمانوں کی فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آزادی کے محض ۱۱-۱۰/ برس بعد جو سنگین مسائل مسلمانوں کے سامنے آکھڑے ہوئے، اس کا تصور، آج کے حالات میں بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے سخت ترین حالات میں جن علماء اور دانشوران قوم نے مسلمانوں کی بروقت اور صحیح رہنمائی...
مسلح تحریکات اور مولانا مودودی کا فکری منہج
― محمد عمار خان ناصر
اس گفتگو میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ عصر حاضر کے ایک معروف اور بلند پایہ مسلمان مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جو مذہبی سیاسی فکر پیش کی اور ریاست و سیاست ، سیاسی طاقت اور مذہب کے اجتماعی مقاصد کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو افکار پیش کیے ہیں، اس پورے نظامِ فکر کا آج کے دور میں ایک نمایاں اور بہت معروف رجحان ، جس کو ہم مذہبی عسکریت پسندی کا عنوان دیتے ہیں، اس کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، موجودہ دور میں پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں جو تشدد اور عسکریت پر مبنی فکر دکھائی دیتی ہے اور غلبۂ دین...
مولانا وحید الدین خاںؒ
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے...
مولانا وحید الدین خانؒ
― مولانا محمد وارث مظہری
مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے...
قائد اعظم کا اسلام
― خورشید احمد ندیم
قائداعظم ایک امیر آدمی تھے۔اتنے امیر کہ 1926ء میں ان کا شمار جنوبی ایشیا کے دس سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ان کے چار مکانات کی قدر اگر آج کے حساب سے متعین کی جائے تو 1.4 سے 1.6ارب ڈالر بنتی ہے۔ قائد اعظم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ''محمدعلی جناح...دولت‘جائیداد اور وصیت‘‘ اس سوال کا جواب دیتی ہے۔یہی نہیں‘ان کی دولت اورجائیداد کی مکمل تفصیل بھی۔قائد کا تمام سرمایہ‘آمدن‘ جائیدادسب دستاویزی ہیں۔ان کی شخصیت کی طرح‘ شفاف ریکارڈ کے ساتھ۔یہ کتاب پڑھے کئی ماہ گزر چکے لیکن ہنوز سرہانے دھری...
پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی کی یاد میں
― ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
یادش بخیر، کوئی پچیس سال ہوتے ہیں راقم جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ میں فضیلت کا طالب علم تھا۔جامعہ کے ادارہ علمیہ نے ایک علمی مذاکرہ ”مدارس اسلامیہ کے نصاب میں اصلاح “جیسے کسی موضوع پرکیاتھا۔پہلے سیشن میں مولاناسلطان احمداصلاحی نے اپنے مقالہ میں دارالعلوم دیوبند،ندوة العلماء،مدرسۃ الاصلاح ،جامعۃ الفلاح اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سب پر تیزوتندمگرمدلل تنقیدکرڈالی ۔مقالہ ختم ہوتے ہی ایک اورفاضل کھڑے ہوئے اور فاضل مقالہ نگارکی تنقیدوں پر اعتراضات کی دندان شکن بوچھارکردی۔یہ دوسرے فاضل تھے ہمارے ممدوح پروفیسریاسین مظہرصدیقی...
مولانا انور شاه کاشمیری ؒ كے درس حدیث کی خصوصیات
― ڈاکٹر حافظ محمد رشید
مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ کی علمی زندگی کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تصنیف کے میدان کے آدمی نہیں تھے ،آپ کا اصل میدان تدریس تھا، اس لیے ان کے علمی ورثہ کے طور پر جتنی بھی کتب ملتی ہیں ان میں سے اکثر امالی و تدریسی تقریرات کی شکل میں ہیں ، جن کو ان کے بعد ان کے جلیل القدر شاگردوں نے ترتیب و تدوین سے آراستہ کیا ۔ ایک موقع پر ان کے ایک شاگرد مفتی محمود صاحب نانوتوی ؒ نے فرمایا: " ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے زیادہ کامیاب کوئی مصنف اور حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ سے بڑھ کر کوئی مدرس پیدا نہیں ہوا ۔" گویا شاہ صاحب ؒ میدان تدریس کے شاہ سوار تھے...
شیخ الہندؒ کا قومی و ملی انداز فکر
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے یہ انتہائی سعادت کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں ان کے افکار و تعلیمات کے فروغ کے لیے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں حاضری، بزرگوں کی زیارت اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بات میرے لیے دوہری سعادت کی ہے کہ اپنے دو مخدوم و محترم بزرگوں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید رابع ندوی دامت برکاتہم کے زیرسایہ اس مجلس میں گفتگو کا اور ان کی برکات اور دعاؤں کے ساتھ کچھ عرض کرنے کا شرف مل رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کانفرنس کے...
حنفی مذہب کی تفہیم وتوجیہ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا مسلک
― ڈاکٹر حافظ محمد رشید
برصغیر پاک و ہند میں جن شخصیات کو علمی میدان میں امتیازی مقام حاصل ہے، ان میں مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ بھی شامل ہیں ۔ ان کا بے مثال حافظہ ، وسعت مطالعہ ، مسائل کا استحضار ، دلائل کا تجزیہ و محاکمہ کرنے کی صلاحیت اور دین متین کی حفاظت و صیانت اور ترویج و اشاعت کے لیے تڑپ شاید اپنی مثال آپ ہے ۔ علم سے لگاو اور مطالعہ کی لگن پیدائشی طور پر ان کے وجود میں گوندھ دی گئی تھی جس کا ظہور اس جہان فانی میں ان کے آخری سانس تک ہوتا رہا ۔ اپنے عہد میں انہیں جن بڑے مسائل کا سامنا تھا، ان میں ائمہ احناف پر استخفاف حدیث کا الزام لگا کر ان کی مساعی جمیلہ کی بے قدری...
امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی (۲)
― مولانا سمیع اللہ سعدی
شیعہ ابن جریر اور اس کی تاریخی حقیقت شیعہ کتب کی روشنی میں۔ اہلسنت کی کتب کی روشنی میں درج بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ابن جریر شیعہ کی شخصیت محض "افسانوی" ہے، ابوعثمان المازنی کے ایک شاگرد ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم الطبری کو ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبری بنا دیا گیا ۔اور اس بے چارے کے ذمے ایسی کتب لگ دی گئیں ،جن کا ذکر کتب رجال سے لیکر فہارس الکتب تک ان (ابو عثمان المازنی کے شاگرد)کے حالات میں نہیں ملتا ۔اسی وجہ سے شیعہ کتب میں بھی ابن جریر کے ذکر کے حوالے سے خاصا تضاد پایا جاتا ہے ،ہم پہلے اس تضاد کا ذکر کرتے ہیں ،پھر اس تضاد...
مولانا امین عثمانی ؒ: حالات وخدمات اور افکار
― ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
حالیہ دنوں میں علماء حق اٹھتے جاتے ہیں اور ان کا کوئی متبادل بھی نظرنہیں آتا۔دو ستمبر2020کواسلامی فقہ اکیڈمی انڈیاکے سیکریٹری جنرل مولاناامین عثمانی بھی اس دارفانی کوخیربادکہہ گئے ۔ذیل کی سطورمیں مختصراًان کے حالات زندگی اورخدمات کا ایک جائزہ پیش کیاجارہاہے۔ مولاناامین عثمانی، اس عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوپانی پت(ہریانہ ) میں آبادتھا۔ان کے اجدادتصوف کے چشتی سلسلہ سے وابستہ تھے اوربہارکے مشہورصوفی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کی شہرت سن کران سے استفادہ کے لیے بہارچلے گئے تھے۔ان کے خاندان میں ڈاکٹرمحسن عثمانی کے علاوہ طیب عثمانی...
امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی
― مولانا سمیع اللہ سعدی
امام ابن جریر طبری عہد عباسی کے معروف مورخ و مفسر گزرے ہیں ۔اسلامی علوم کے زمانہ تدوین سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علوم اسلامیہ پر گہرے اثرات ڈالنے والوں میں سر فہرست ہیں ۔گرانقدر تصنیفات چھوڑیں ،جن میں خاص طور پر صحابہ و تابعین کے اقوال سے مزین ایک ضخیم تفسیر "جامع البیان عن تاویل آی القران "المعروف تفسیر طبری اور حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لیکر اپنے زمانے تک کی مبسوط تاریخ "تاریخ الا مم و الملوک" اپنے موضوع پر بنیادی کتب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ تفسیر و تاریخ کے میدان میں آنے والے تقریبا تمام نامور مصنفین نے ان کتب کو ماخذ بنایا ۔امام ابن جریر...
مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور معاصر دنیا کا فہم
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
( ۱۸ ۔اگست ۲۰۱۹ء کو پریس کلب ایبٹ آباد میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو) ۔ بعد الحمد والصلٰوۃ۔ سیمینار کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔ مجھ سے پہلے فاضل مقررین نے حضرت سندھیؒ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اپنے ذوق کے مطابق اظہار خیال کیا ہے اور مجھے بھی چند معروضات آپ حضرات کے گوش گزار کرنی ہیں۔ مولانا سندھیؒ کا بنیادی تعارف یہ ہے کہ وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے قافلہ کے اہم ترین فرد تھے،...
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۴)
― مراد علوی
مولانا مودودی نے "مدافعانہ جنگ"پر تفصیلی بحث کے بعد اس کے مصرف پر بحث اٹھائی ہےکہ کیا یہ مقصود بالذات ہے یا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ آپ کے نزدیک دفاع بے مصرف نہیں بلکہ ایک اہم فریضہ کے لیے ناگزیر وسیلہ ہے۔ اس فریضے کو انھوں نے ''اصلی خدمت" سے موسوم کیا ہے۔ چناں چہ مولانا کے نزدیک ''مدافعانہ جنگ'' مقصود بالذات نہیں بلکہ مسلمانوں کو ''اصلی خدمت''جیسے اہم فریضہ ادا کرنے اور اجتماعی قوت مٹنے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے تاکہ اس کے ذریعے مسلمان اندرونی اور بیرونی فتنوں سے محفوظ رہ کر اصلی خدمت کی ادائیگی کے قابل ہوسکے۔ اگر اجتماعی قوت...
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۳)
― مراد علوی
مولانا مودودی کا نظریۂ جہاد بنیادی طور پر آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ ہے ۔ اس وجہ سے اس پر سیاسی فکر کا گہرا ثر ہے۔ بالخصوص آپ کا تصورِ ''مصلحانہ جنگ'' اسی سے وجود پذیر ہوا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ مولانا کی فکر کا جائزہ تاریخی اعتبار سے لیا جانا چاہیے، یعنی یہ کہ مولانا کی آرا میں میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔ زیرِ بحث موضوع میں ہمارے پیشِ نظر سب سے اہم تحریر مولانا کی کتاب''سود'' کا تیسرا ضمیمہ ہے جسے انھوں نے نومبر 1936ء میں لکھا تھا۔ اس میں مولانا نے جہاد کے حوالے سے اپنی قانونی پوزیشن کو واضح کیا ہے، لیکن اس کے بعد لکھی گئی تحریروں میں...
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۲)
― مراد علوی
جاوید احمد غامدی کاموقف:
عمار خان ناصر صاحب نے ” جہاد ایک مطالعہ“ میں مولانا کی فکرِ جہاد کے بارے میں اگر چہ لکھا ہے کہ مولانا کی فکرِ جہاد میں ارتقا پایا جاتا ہے، لیکن آگے انھوں نے ” الجہاد فی الاسلام“ اور ” تفہیم القرآن“ کی تعبیرات کو تضاد اور پریشان خیالی سے موسوم کیا ہے۔2 مولانا نے ”الجہاد فی الاسلام“ میں ”مصلحانہ جہاد“ کے تصور کو جس اساس کھڑا کیا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو حکومتیں غیر الٰہی بنیادوں پر کھڑی ہیں، ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اس نظریے اور مولانا کی بعد کی تحریروں میں عمار صاحب کو توافق اور یکسوئی...
“مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات” پر ایک تبصرہ
― صدیق احمد شاہ
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا شمار جدید مذہبی سکالرز میں ہوتا ہے۔ ان کی عمرکم ہے، لیکن فکری و علمی کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس علم بھی ہے اور قاری بھی۔ بہت Prolificلکھاری ہیں، لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں۔ یہ خود بھی میرے ممد و حین میں سے ہیں اور ان کی کتابیں اور تحقیقی اور فکری مضامین ہمہ وقت میرے مطالعہ میں رہتی ہیں۔ جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں تو موضوع کی کھائیوں اور گہرائیوں کو آشکارا کرنے کا فن خوب سر انجام دیتے ہیں۔ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ چونکہ مولانا وحیدالدین خان کے افکار و نظریات پر ہے تو اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر...
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (١)
― مراد علوی
مولانا مودودی نے سب سے پہلے اپنا نظریہ جہاد ''الجہاد فی الاسلام" [طبع اوّل : دسمبر ١٩٣٠ء]میں پیش کیا تھا۔ جب یہ کتاب قسطوں کی صورت میں ''الجمعیۃ'' میں شائع ہو رہی تھی، اس وقت مولانا کی عمر بائیس سال اور پانچ ماہ تھی۔1 جب دارالمصنفین اعظم گڑھ سے کتاب شائع ہوئی، اس وقت مولانا کی عمر ستائیس سال کی قریب تھی۔ تاہم مولانا کی فکر اس دور ہی سے ایک نامیاتی کل نظر آتی ہے ۔ اس ضمن میں سب سے ضروری امر یہ ہے کہ جس وقت مولانا یہ کتاب لکھ رہے تھے، اس دور کے سیاسی منظر نامے کو ملحوظ رکھا جائے ۔ مسلمان برطانوی استعمار (١٩٤٧ء-١٨٥٨ء) کی ستم رانیوں اور سقوطِ...
مولانا سید محمد میاں دیوبندی، عظیم مورخ اور مفکر
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جمعیۃ علماء ہند کے قیام کو ایک صدی مکمل ہونے پر انڈیا میں صد سالہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اور جمعیۃ کے بزرگ اکابر کی یاد میں مختلف سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔ دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے سرگرم راہنما، مؤرخ اور مفکر حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کے حوالہ سے منعقدہ سیمینار کی مناسبت سے حضرت ی کے ساتھ عقیدت اور چند ملاقاتوں کے تاثرات پر مشتمل کچھ گزارشات قلمبند ہوگئیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کا نام پہلی بار طالب علمی کے دور میں اس وقت سنا جب میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم...
مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی کی تصنیف ’’تخلیق عالم‘‘
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نحمده تبارك وتعالى ونصلي ونسلم على رسوله الكريم وعلٰی آلـه وأصحـابه وأتباعه أجـمعين۔ حضرت مولانا عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بزرگوں میں سے تھے جن کی ساری زندگی دینی تعلیم و تدریس میں گزری اور انہوں نے اپنی اگلی نسل کو بھی دینی خدمات کے لیے تیار کیا اور ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ علماء لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو تاریخ میں تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار کا ایک مستقل عنوان رکھتا ہے۔ انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے تعلیم حاصل کی اور...
1-0 (0) |