مبحث کا قانونی پہلو1
نفسِ مسئلہ کی مقدور بھر تنقیح کے بعد لازم ہے کہ اس کے مضمرات و اطلاقات کا جائزہ لیا جائے۔ عنوان ہذا کا کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی حسن و قبح کی کوئی تکلیفی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں،اور اشاعرہ سوال کی کایا کلپ کر دیتے ہیں۔معتزلہ کا کہنا ہے کہ جو چیز حسَن یا قبیح ہے وہ واجب،مندوب،مباح یا حرام بھی ہے جبکہ اشاعرہ حسن و قبح کو حکم کا ضمنی پہلو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو چیز واجب،مندوب،مباح یا حرام ہے وہ حسن یا قبیح بھی ہے۔گویا اشاعرہ حکم کو اخلاقیات(حسن و قبح) پر مقدم قرار دیتے ہیں اور معتزلہ مزعومہ اخلاقیات کو حکم پر سبقت دیتے ہیں۔معتزلہ کے ہاں اخلاقیات تکلیفی و شرعی احکام کی اصل ہیں جبکہ اشاعرہ کے نزدیک معاملہ معکوس ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اہل سنت والجماعت_اشاعرہ و ماتریدیہ_کا متفقہ موقف یہ ہے کہ کسی بھی شے کے ایجاب(واجب کرنے) اور تحریم(حرام ٹھہرانے) کا حتمی اختیار صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔2
معتزلہ کا موقف:
گزارش ہے کہ معتزلہ کا موقف اصولی سطح پر نہایت خجستہ و بے ضرر معلوم ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی اطلاقات و مضمرات کو کھنگالا جائے تو اس کا بھیانک رخ بے حجاب ہو جاتا ہے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ جن وجوہِ عائدہ کی بنا پر کوئی فعل برا یا بھلا ٹھہرتا ہے وہی وجوہ عائدہ فعل کو واجب حرام یا مباح بھی ٹھہراتی ہیں۔یعنی موجبِ اصلی وجوہ عائدہ ہیں اور عقل یا شریعت کا کام بس ان احکام موجَبہ پر دلالت یا ان کی نشاندہی کرنا ہے۔ظلم اس لیے حرام ہے کہ وہ ظلم ہے،عقل یا شرع محض اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ان کے نزدیک نفسِ وجوب میں حکم ربی کو کوئی دسترس نہیں ہے۔ نماز کا وجوب کنندہ بھی حکم ربی نہیں بلکہ نماز سے حاصل ہونے والی عظیم منفعت ہے،حکم ربی محض اس کے وجوب سے ہمیں آگاہ کرتاہے۔مزید براں،اگر ان منافع کا علم عقل کے ذریعے حاصل ہو جائے تو وہی علم اس کے وجوب پر دلالت کے لئے کافی ہوگا،حکم ربی کی کوئی ضرورت نہ رہے گی۔قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں:
"لو علمنا بالعقل ان لنا فی الصلاة نفعا عظیما،وانها تؤدی بنا الی ان نختار فعل الواجب و نستحق بها الثواب،لعلمنا وجوبها عقلا"
"اگر ہم بذریعہ عقل یہ جان لیں کہ نماز میں عظیم منفعت ہے،یہ ہمیں فعلِ واجب(شکر منعم) کی ادائیگی کی طرف لے جاتی ہے اور اس کے ذریعے ہم ثواب کے حق دار ٹھہرتے ہیں تو ہم بذریعہ عقل ہی اس کا واجب ہونا بھی جان لیں گے"3
یعنی معتزلہ کے نزدیک نماز کا وجوب کنندہ بھی خدا تعالی نہیں،وجوہ عائدہ ہیں۔خدا نے تو محض اس مخفی وجوب کی نشاندہی کی ہے۔قاضی عبدالجبار خداوند متعال کے وجوب کنندہ ہونے،نہ ہونے بابت ایک استفسار کا جواب دیتے ہوئے حاکمیتِ باری تعالی کےمتعلق کچھ یوں جرات آزماتے ہیں:
"الغرض بقولهم ان الله اوجب،أنه اعلمنا وجوب الواجب،او مكننا من معرفته بنصب الأدلة"
"ان(امت) کا یہ کہنا کہ "اللہ نے(فلاں فعل) واجب کیا ہے" تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے ہمیں واجب کے وجوب سے آگاہ کیا ہے یا پھر دلائل قائم کر کے وجوب کی پہچان ہمارے لیے ممکن بنا دی ہے"4
یعنی خدا تعالی کسی فعل کو واجب نہیں کرتا بلکہ پہلے سے واجب شدہ فعل سے ہمیں محض آگاہ کرتا ہے۔معتزلہ کے اسی موقف کو عموما یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ معتزلہ عقل کو موجب/حاکم قرار دیتے ہیں۔گو کہ براہ راست تو وہ عقل کو وجوب کنندہ یا حاکم نہیں ٹھہراتے تاہم غور کیا جائے تو اس موقف کے نہاں خانوں میں حاکمیتِ عقل ہی دبکی ہوئی ہے۔کیونکہ جب یہ کہا جائے کہ 'وجہ عائد کے واجب کردہ فعل کا علم،شرع کے ساتھ ساتھ عقل پر بھی موقوف ہے اور بعض افعال کے وجوب و حرمت پر عقل کی رہ نمائی ہی کافی ہے' تو یہ بالواسطہ عقل کو ہی موجِب/حاکم قرار دینے کے مترادف ہے۔بالفرض اگر عقل کو موجب نہ بھی قرار دیا جائے جب بھی ان کے ہاں عقل جداگانہ طور پر میں مدارِ تکلیف اور ماخذ دین تو بہرحال رہتی ہے،کیونکہ ان کے مطابق حکم تک رسائی میں عقل بدونِ شریعت بھی ایک کارگر قوت ہے۔گزارش ہے کہ متذکرہ بالا موقف معتزلہ کی عقلی خودسری کا بھرپور اظہار ہے اور اپنے مآل میں شریعت اسلامی کو marginalize کر دینے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ بھرپور استدلالی قوت کے ساتھ تردید اعتزال کے اکھاڑے میں قدم زن ہوئے اور شریعت اسلامی کے تفوق کا دفاع کیا۔عصرِ رواں کے متجددین بھی فطرت و عقل کے مبحث میں اسی معتزلی جسارت کا اعادہ کر رہے ہیں گو کہ ان کا ایسا کرنا یکسر مختلف تاریخی موثرات سے اثرپذیری کا نتیجہ ہے۔
ماتریدی زاویۂ نظر:
معتزلہ کے برعکس ماتریدی موقف اس اصول پر استوار ہے کہ موجب و حاکم صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ماتریدیہ وجوہ عائدہ کو موجب یا حاکم نہیں کہتے اور نہ عقلی حسن و قبح کو مدار تکلیف ٹھہراتے ہیں۔وہ وجوب کو دو حصوں(نفسِ وجوب اور وجوبِ ادا) میں تقسیم کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انسان میں وجوب کی اہلیت بوقتِ تخلیق ہی موجود ہوتی ہے،اسی پل انسان پر اللہ تعالی کی طرف سے بنیادی احکام واجب کر دیے جاتے ہیں۔ماتریدیہ کے اس موقف کی اساس عہد الست ہے۔وہ کہتے ہے ہیں کہ بوقت تخلیق ہی اللہ تعالی نے انسان کے شانوں پر بارِ امانت لاد دیا ہے۔قاضی ابو زید دبوسیؒ(م:۴۳۰ھ) رقم طراز ہیں:
"ان الذمة عبارة عن العهد فى اللغة،فالله تعالى لما خلق الانسان لحمل امانته و اكرمه بالعقل و الذمة حتى صار بها اهلا لوجوب الحقوق له و عليه"
"ازروئے لغت ذمہ عہد کو کہتے ہیں، سو اللہ تعالی نے جب انسان کو تخلیق کیا تو (اسی پل) اس پر بارِ امانت لاد دیا اور اسے عقل و ذمہ کے ذریعے عزت بخشی تاآنکہ وہ ان کے ذریعے حقوق و فرائض کے وجوب کا اہل بن گیا"5
البتہ پیدائش کے بعد صغر سنی کے عذر کی بنا پر اس واجب کی ادائیگی انسان سے ساقط ہو جاتی ہے کیونکہ حکم کی ادائیگی کے لئے شریعت کی طرف سے ادائیگی کا مطالبہ ضروری ہے اور شرعى مطالبے کا مخاطب بننے کے لئے عقلی تمییز اور بدنی قوت کا ہونا ناگزیر ہے۔یعنی حکم تو بوقتِ الست ہی انسان کے ذمہ میں واجب ہے لیکن اس کی ادائیگی جبھی لازم ہوگی جب شریعت فرد سے اس کا مطالبہ کرے گی۔ممکن ہے قارئین کی سطحِ ذہن پر اصولی ہم آہنگی سے متعلق یہ سوال ابھرے کہ پھر حسن و قبح کے عقلی ہونے کا ثمرہ کیا برآمد ہوا؟ گزارش ہے کہ ماتریدیہ حسن و قبح کی پہچان، جسے قاضی ابو زید دبوسی تمییز سے تعبیر کرتے ہیں، کو حکم شرعی کا مخاطب بننے کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔یعنی عقلی حسن و قبح کسی شے کو قانونا واجب یا حرام نہیں ٹھہراتا بلکہ انسان کو شریعت کا مخاطب بننے کے قابل کر دیتا ہے۔گویا بھلے برے کی تمیز کا ملکہ حاصل ہو جانے کے بعد انسان مخاطبِ شریعت بننا qualify کر جاتا ہے۔ چونکہ ان کے نزدیک حسن و قبح بلا کسی گہرے سوچ و بچار کے، محض بداہتِ عقل سے ہی حصارِ معلومیت میں آ جاتا ہے لہذا جیسے ہی کوئی شخص سنِ تمیز میں قدم رکھے گا تو خو بہ خود شریعت کا مخاطب بن جائے گا۔
اسی طرح ماتریدیہ عرفانِ حسن و قبح کے عقلی ملکہ کو بوقتِ تخلیق اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ احکام پر دلالت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔گویا بذریعہ عقل معلوم ہونے والا حسن و قبح دراصل انہی احکام واجبہ کی یاد دہانی ہے جو بوقتِ الست واجب کیے گئے۔ با ایں ہمہ محض اس عقلی دلالت سے کسی حکم کی ادائگی لازم نہیں ہو گی بلکہ اس حکم کی ادائیگی یا بالفاظ دگر قانونی حیثیت ازروئے شرع ہی لازم و متعین ہو گی۔6 حسن و قبح کے عقلی ہونے کا مفاد بس اسی قدر ہے کہ اس سے آدمی شریعت کا مخاطب بننے کی اہلیت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو اشاعرہ و معتزلہ دونوں کے روبرو ماتریدیہ کا موقف زیادہ متوازن، عمیق اور بصیرت افروز ہے۔
اشعری موقف:
دریں باب اشعری موقف گزشتہ مواقف کی طرح نہایت دوٹوک ہے۔اشعری نظام میں حکم و وجوب کے معاملہ میں نبی اور شریعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔نبی کی آمد سے پیشتر وہ کسی حکم کے قائل نہیں ہیں۔ان کے نزدیک موجب/حاکم محض اللہ تعالی کی ذات ہے اور حکم/وجوب محض سمع و شریعت سے معلوم ہوتا ہے چنانچہ شریعت سے ماقبل بندے کے لئے کوئی حکم نہیں ہے۔يہی موقف امام فخرالدین رازیؒ "المحصول" میں یوں ضبط قرطاس فرماتے ہیں:
"ان قبل الشرع ما ورد خطاب الشرع-فوجب ان لا یثبت شیئ من الاحکام لما ثبت:ان الاحکام لاتثبت الا بالشرع"
"شریعت سے ماقبل چونکہ خطاب شرعی کا ورود نہیں ہوا چنانچہ لازم ہے کہ کوئی بھی حکم ثابت نہ ہو کیونکہ یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ احکام صرف شریعت سے ہی ثابت ہوتے ہیں"7
عرفانِ باری تعالی
انسان پر اولین واجب کیاہے؟اس سوال کے جواب میں تینوں کلامی مکاتبِ فکر یک زبان ہو کر گویا ہوتے ہیں کہ معرفتِ خداوندی کے لئے آیاتِ الہی میں غور و فکر كرنا انسان پر واجبِ اولیں ہے۔فرد پر یہ لازم ہے کہ وہ انفس و آفاق میں موجود خدا کی نشانیوں پر غور و فکر کر کے خدا کا عرفان حاصل کرے۔لیکن جب یہ استفسار کیا جائے کہ انسان پر یہ نظر و فکر واجب کرنے والا کون ہے تو ہر سہ فریق حسبِ اختلافِ اصول،مختلف جوابات ارزاں کرتا ہے۔اشاعرہ کے نزدیک عرفان خدا کے لئے نظر و فکر کا موجب اللہ تعالی ہے اور یہ وجوب شرع سے ہی ثابت ہوتا ہے۔لہذا اگر کسی شخص کو نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو تو اس سے معرفتِ خداوندی بابت بھی کوئی پرسش نہ ہوگی۔معتزلہ کے نزدیک اس غور و فکر کو واجب ٹھہرانے والی وجہ شکرِ منعم ہے جس کا حسن ہونا بذریعہ عقل معلوم ہے لہذا عرفان خدا کے لئے انفس و آفاق میں غور و فکر کا وجوب بھی عقلا ثابت ہوتا ہے۔
ماتریدی اصولی نظام کی رو سے بظاہر اس مسئلہ کا جواب یوں ہونا چاہیے تھا کہ غور و فکر کا موجب اللہ تعالی ہے اور اس واجب کی ادائیگی شرع کے مطالبے سے لازم ہوتی ہے۔لیکن یہاں امام ابوحنیفہؒ کا ایک قول آڑے آ جاتا ہے کہ غور و فکر کی ادائیگی حکمِ شریعت کی غیر موجودگی میں بھی واجب ہے اور اس سے بے اعتنائی کا کوئی عذر مسموع نہیں ہے۔قاضی ابو زید دبوسیؒ اس قول کو اصولی سانچے میں موزوں کرنے کے لئے اس کی توجیہہ یوں فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے ادائیگی کو بذریعہ عقل لازم نہیں ٹھہرایا بلکہ آپ کی مراد دراصل یہ ہے کہ خدا تعالی نے انسان کو جا بہ جا پھیلی آیات الہی کی صورت میں جو دلائل اور نظر و فکر کے لئے جو مہلت عنایت کی ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی عدم تفکر کا عذر تراشے تو اس کا عذر خدا کے ہاں قابلِ قبول نہ ہوگا8۔قاضى صاحب ایک اور مقام میں اس مسئلہ کو قدرے بسط کے ساتھ موضوعِ سخن بناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معرفتِ باری تعالی کا نفسِ وجوب تو بوقت تخلیق ہی ثابت ہے تاہم چونکہ انسان اہواء و شہوات کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر اس واجب کو فراموش کر بیٹھتا ہے،اس لیے بذریعہ شرع اس واجب کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔گویا نبی کے ذریعے واجب کی ادائیگی کا مطالبہ غافل کو تنبیہ کیے جانے کی مانند ہے۔اس مطالبہ کا مطلب دراصل خوابِ غفلت میں مگن انسان کو جھنجوڑ کر بیدار کرنا ہوتا ہے۔
مزید براں آپ فرماتے ہیں کہ تصویر کے لئے مصور کا ہونا اور عمارت کے لئے کسی معمار کا ہونا بدیہی حقیقت ہے جسے بغیر کسی خارجی راہنمائی کے انسان بُوجھ لیتا ہے۔ایسے ہی زمین و آسمان کا بھی کسی خالق کی تخلیق ہونا ایک بدیہی امر ہے۔عرفان باری تعالی کے معاملہ میں یہ بداہتِ عقلی دراصل نبی کی تنبیہہ کے ہی قائم مقام ہے۔پس جس انسان کے پاس عقل بھی ہو اور مہلت بھی ہو،پھر اس کی عقل اسے خواب غفلت سے بیدار بھی کر رہی ہو اسے کیسے یہ عذر دیا جا سکتا ہے کہ اس نے گوناگوں عجائب سے لدے اور بوقلموں غرائب سے اٹے گیتی و گگن تو دیکھے لیکن یہ نہ جان سکا کہ ان کا کوئی مصور و خالق بھی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ بداہتِ عقلی کا یہ جھنجوڑنا نبی کے جھنجوڑنے کے ہی قائم مقام ہے۔اب بھی اگر وہ خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہو تو یہ حجت اور دلیل کے استخفاف اور اس شخص کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں،ایسے ہٹ دھرم کے لئے کوئی عذر بروز قیامت کیونکر مسموع ہوگا؟!9
شکرِ منعم کا قضیہ
جیسا کہ سابقہ سطور میں مرقوم ہوا کہ معتزلہ عرفانِ خدا کے وجوب کی بنیاد شکر منعم کو بناتے ہیں۔دریں باب معتزلی موقف کی جڑیں ان کے تصور حسن و قبح میں ہی پیوست ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انواع و اقسام کی نعمتوں سے محظوظ ہوتے شخص سے عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ منعِم کا شکر بجا لائے۔عقل شکر کو اچھا اور واجب ٹھہراتی ہے اور ناسپاسی کو قبیح اور حرام جانتی ہے۔لہذا شکر کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ عرفانِ منعم کی جستجو کی جائے اور جانا جائے کہ آخر کون ذات ہے جو یہ انعامات ہم پر ارزاں کر رہی ہے۔ہرچند کہ عقلی حسن و قبح کے استرداد کے بعد شکر منعم کے وجوب پر الگ سے بحث کی زیادہ حاجت نہیں رہتی،با ایں ہمہ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر امام رازی نے اس معتزلی موقف کی بھی خوب خبر لی ہے۔آپ شکر منعم کے عقلی وجوب کی تردید کے لئے برسبیل تنزل عقلی حسن و قبح کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقلا شکر منعم کی تمام تر سرگرمی بے معنی ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ شکر منعم کے وجوب میں اگر کوئی خارجی غرض اور فائدہ مضمر نہ ہو تو ایسے بے غرض فعل کو عقلی (Rational) بنیادوں پر لازم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایسا فعل عقلا ایک فعلِ عبث ہے جو معتزلہ کے نزدیک قبیح ہے اور اگر اس سے کوئی غرض براری مقصود ہے تو لازمی طور پر وہ غرض یا تو کسی منفعت کا حصول ہے یا پھر کسی پیش آمدہ مضرت سے خلاصی،اور یہ دونوں موہوم ہیں۔کیونکہ اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے اور اس بات كا قوی احتمال موجود ہے کہ وہ بندے کو بغیر شکرگزاری کے بھی منفعت بخش دے اور شکرگزاری کے باوجود مضرت سے دوچار کردے،نیز اگر منفعت کا حصول قطعی بھی ہو تو بھی عقل منفعت کی تحصیل کو واجب و لازم نہیں ٹھہراتی۔اسی طرح اگر شکرگزاری سے مقصود مضرت کو دور کرنا ہو،بایں معنی کہ ناشکری کی صورت میں بندے کو کسی افتاد کا یقین ہو اور وہ شکر کے ذریعے اس کو ٹالنا چاہتا ہو تو یہ بھی موہوم امر ہے،کیونکہ ناشکری کی صورت میں عذاب و سزا سے دوچار ہونے کا جزم و یقین جبھی ممکن ہے جب مشکور کے لئے سپاس گزاری راحت افزا اور ناسپاسی رنج افزا ہو ،جبکہ خدا تو راحت و رنج سے بے نیاز ذات ہے۔لہذا ناشکری پر افتاد کا ٹوٹ پڑنا کوئی لازمی امر نہیں ہے بلکہ شکرگزاری کے باوجود عذاب و سزا کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔بنابریں بہر صورت شکر منعم ازروئے عقل ایک لایعنی سرگرمی قرار پاتی ہے۔
امام صاحب کی حصری تقسیم پر یہ سوال وارد ہوا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ شکر محض شکر ہونے کی وجہ سے واجب ہو،اس کو اغراض یا منفعت و مضرت سے لازمی طور پر نتھی کرنا کیوں ضروری ہے؟اگر غور کیا جائے تو یہ اشکال ایک داخلی تضاد کا شکار ہے۔معترض فعل کے عقلی(Rational) ہونے پر بھی مصر ہے اور اسے بے غرض بھی منوانا چاہتا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں کہ از روئے عقل یہی تقسیم ممکن ہے کہ فعل یا تو جلب منفعت پر مبنی ہو یا پھر اس میں دفع مضرت پوشیدہ ہو کہ عقل صرف منفعت کی اور لپکتی اور مضرت سے بھاگتی ہے۔اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ شکر محض شکر ہونے کی بنا پر ہی حسن و واجب ہے تو اس کا معتزلہ کے ہاں بھی منتہائی مطلب یہی ہے کہ شکرگزاری مدح و اجر کا تقاضا کرتی ہے اور ناسپاسی مذمت و عقاب کا حقدار ٹھہراتی ہے۔یہ شکر اور عدم شکر پر منفعت ومضرت کا ترتب نہیں تو اور کیا ہے؟ امام صاحب کے انتقاد پر یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ یوں تو پھر شرعا بھی شکر خداوندی کا واجب ہونا بے کار بلکہ قبیح ٹھہرتا ہے۔ مگر گزارش ہے کہ اگر عقلی حسن و قبح کو کسوٹی بنایا جائے تو بات یقینا ایسی ہی ہے لیکن یہاں امام صاحب اپنا موقف بیان نہیں فرما رہے بلکہ معتزلی موقف کی داخلی ناہمواری کو عیاں کر رہے ہیں۔امام صاحب کا مقصود فریق مخالف کے بنیادی مقدمہ کو برسبیلِ تنزل مان کر اسے اس کے موقف اور اصول کی باہمی کھٹ پٹ اور آپسی ان بن کا احساس دلانا ہے۔10
افعالِ الہیہ پر اخلاقی قیود کا اطلاق
جیسا کہ پیش ازیں مرقوم ہوا کہ معتزلہ اپنے تصورِ اخلاقیات میں آفاقیت کا رنگ بھر کے اسے خدائی افعال تلک وسعت بخشتے اور انسانی عقل سے معلوم شدہ مزعومہ اخلاقیات کو خدا پر وارد کرتے ہیں۔معتزلہ کی یہ اخلاقی توسیع اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آیا خدا تعالی ان مزعومہ قبائح پر قادر ہے یا پھر خدا کا دامانِ قدرت ایسے افعال کے کر گزرنے سے تہی ہے۔اس سوال کی جواب ارزانی معتزلہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ایک گروہ ایسے افعال پر خدائی قدرت کا ہی انکار کر دیتا ہے جبکہ دوسرا گروہ یہ تو اقرار کرتا ہے کہ خدا ان قبائح پر قادر ہے لیکن اس کا ماننا ہے کہ خدا کی بے نیازی ایسے افعال سے گریز پائی کی متقاضی ہے۔اسی اختلاف کو قاضی عبدالجبار معتزلی یوں سپرد قرطاس کرتے ہیں:
"حكى عن النظام والأسوارى والجاحظ أن وصفه تعالى بالقدرة على الظلم والكذب و ترك الاصلح محال.............والذى يذهب اليه شيوخنا أبو الهذيل واكثر اصحابه وابو على وابو هاشم رحمهم الله أنه تعالى يوصف بالقدرة على ما لو فعله لكان ظلما و كذبا وان كان تعالى لا يفعل ذلك لعلمه بقبحه و باستغنائه عن فعله"
"نظام(م:۲۲۱ھ)،اسوارى(م:۲۴۰ھ) اور جاحظ(م:۲۵۵ھ) سے یہ موقف منقول ہے کہ خدا تعالی کو ظلم و کذب اور ترک اصلح پر قادر قرار دینا محال ہے۔۔۔۔اور ہمارے شیوخ یعنی ابو ہذیل(م:۲۳۵ھ)، ان كے اكثر أصحاب، ابو علی جبائی(م:۳۰۳ھ) اور ابو ہاشم(م:۳۲۱ھ) نے یہ موقف اپنایا ہے کہ خدا تعالی ظلم و کذب ایسے افعال پر قدرت سے موصوف تو ہے تاہم وہ ان کے قبح سے آگاہ ہونے اور ان سے بے نیاز ہونے کی بنا پر ان کو انجام نہیں دیتا"11
اخلاقی اقدار کی معروضیت و اصولیت کی نفی پر ایستادہ اشعری نظام میں معتزلی موقف اور اس کا پیدا کردہ قدرت و عدم قدرت کا سوال بے معنی ہے۔کیونکہ جب حسن و قبح کسی شے کی ذاتی و خانہ زاد خاصیت نہیں بلکہ خدائی حکم کا ہی اطلاقی اظہار ہے تو پھر خدا کے حق میں کسی شے کو اخلاقی طور پر قبیح ٹھہرانے کی سرگرمی مکمل طور پر لایعنی ہو جاتی ہے۔اشعری نظام کی رو سے خدائی افعال بابت معتزلی موقف 'بناء الفاسد علی الفاسد' کا شاخسانہ ہے۔اشاعرہ کا دوٹوک اور بے لاگ موقف یہ ہے کہ خدا پر مزعومہ اخلاقی اقدار کو وارد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خدا موردِ اخلاقیات نہیں منبعِ اخلاقیات ہے۔اشاعرہ کے نزدیک جس طرح خدا کا حکم کردہ فعل لازماً حسن ہے اسی طرح خدا کا اختیار کردہ فعل بھی لازمی طور پر حسن ہے۔امام رازیؒ "نهایة العقول" میں اسی اشعری پوزیشن کو کچھ یوں ارقام فرماتے ہیں:
"انا لانسلم انه یقبح من الله شیئ،بل کل ما یفعله فهو صواب وحسن،وهذا بناء علی نفی الحسن و القبح العقلیین"
"ہم اللہ تعالی سے کسی قبیح کا صدور تسلیم نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی جو کچھ بھی کرتا ہے وہ صواب اور بھلا ہوتا ہے۔ ہمارا یہ موقف عقلی حسن و قبح کی نفی پر مبنی ہے۔"12
عدل، رعایتِ اصلح اور غرض و علت:
مناسب ہو گا کہ خدا تعالی کی نسبت معتزلہ کی طرف سے گھڑے گئے عدل اور رعایتِ اصلح ایسے مخصوص تصورات بارے راہِ سخن نکالی جائے کیونکہ یہ دونوں تصورات بھی معتزلی حسن و قبح کے خم سے ہی چھلکے ہیں۔بھلا کون ناہنجار ہے جو خدا کی عدل گستری سے مجالِ انکار پاتا ہے،مگر سوال یہ ہے کہ معتزلہ عدل سے مراد کیا لیتے ہیں۔اس سوال کا جواب ارزاں کرتے ہوئے 'المغنی' میں قاضی عبدالجبار معتزلی کا کہنا ہے کہ عدل ہر اس فعل کو کہا جاتا ہے جو غیر کی نفع رسانی یا ضرر رسانی کے پیش نظر انجام دیا جائے۔بعد ازاں وہ ضرر رسانی کے ساتھ 'علی وجہ یحسن' کی قید کا اضافہ فرماتے ہیں یعنی وہ ضرر ظلماً نہ ہو بلکہ کسی گزشتہ جرم کی پاداش میں ہو۔مزید فرماتے ہیں کہ خدائی افعال پر بھی عدل کا اطلاق اسی بنا پر کیا جاتا ہے کہ خدا انہیں مخلوق کے فائدہ یا ضرر کے لئے انجام دیتا ہے۔13رہی 'اصلح للعباد' کی رعایت،تو اس سے معتزلہ کی مراد خدا کا اپنے تمام تر افعال میں بندوں کی بہتری کو پیشِ نگاہ رکھنا ہے۔ان کے نزدیک یہ بات خدا کے لائق نہیں کہ وہ کفر و معاصی کو معرضِ تخلیق میں لا کر بندوں کو عصیان کا موقع فراہم کرے۔ لہذا وہ کفر و عصیان پر مبنی أفعال کا خالق بندوں کو قرار دیتا ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو عدل اور رعایت اصلح پر مبنی معتزلی موقف کی تہہ میں معروضیتِ حسن و قبح کے سنگ بہ سنگ ایک اور اصل بھی کارفرما ہے،وہ یہ کہ خدائی افعال کسی نہ کسی غرض اور علت سے منسلک ہوتے ہیں۔وہ غرض یا تو منفعتِ عباد ہے یا مضرتِ عباد علی وجہ یحسن یا پھر رعایتِ اصلح للعباد!
امام رازیؒ ان مخصوص معتزلی تصورات کے محاکمہ سے پیشتر ان کی اسی اصولی بنیاد کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔آپ کا فرمانا ہے کہ خدائی أفعال معلل بالعلۃ نہیں ہوتے، ان کو کو اغراض و علل(اصلح وغیرہ) پر موقوف قرار دینا ذاتِ باری تعالی کے نقص کو مستلزم ہے،کیونکہ جب بھی کوئی فعل غرض براری کے لئے انجام دیا جاتا ہے تو لازمی طور پر فاعل کے لئے اس غرض کا بر آنا اولی اور بہتر ہوتا ہے کیونکہ اگر غرض کا پورا ہونا اور نہ ہونا دونوں اس کے لئے برابر ہوں تو وہ 'غرض' نہیں کہلائی جا سکتی۔اب اگر یہ مان لیا جائے کہ خدائی افعال اغراض و علل پر مبنی ہیں اور بندے کی منفعت یا مضرت خدا کی اغراض ہیں تو اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ ان اغراض کا بر آنا خدا کی لئے بہتر اور اولی ہے۔یہ نتیجہ بارگاہِ خداوندی میں نقص کو مستلزم ہے کیونکہ یہ کہنا کہ ان اغراض کا پورا ہونا خدا کے لئے بہتر ہے دراصل یہ ماننا ہے کہ ان اغراض کے بر آنے سے خدا کو ایک گونہ ایسی بہتری اور اولویت نصیب ہوئی ہے جس سے وہ پہلے محروم تھا۔یہ بات خدا تعالی کی اکملیت کے منافی اور اس كے نقص کے مترادف ہے جو اس ذاتِ ستودہ صفات کے حق میں محال ہے۔
مزید براں آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ رب تعالی کسی نہ کسی غرض کے پیش نظر فعل انجام دیتا ہے تو دریں صورت دو احتمال ابھرتے ہیں۔ یا تو خدا فعل کو وسیلہ بنائے بغیر اس غرض کے حصول پر قادر ہے یا نہیں، اگر قادر ہے تو پھر فعل کو وسیلہ بنانا عبث ہے اور اگر قادر نہیں تو یہ عدمِ قدرت عجزِ خدا کو مستلزم ہے جو کہ محال ہے۔14 دریں باب مشہور اشعری متکلم قاضی ابوبکر باقلانی(م: ۴۰۳ھ) کی دلیل ذکر کر دینا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ أغراض کی نسبت اس ذات کی طرف درست ہوتی ہے جو جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت کا حاجت مند ہو اور جلبِ منفعت و دفعِ مضرت کی نسبت اس ذات کی طرف درست ہوتی ہے جس پر آلام و لذات کا گزران ممکن ہو۔ خدا تعالی آلام و لذات سے مبرا اور جلبِ منفعت و دفعِ مضرت سے منزہ ہے۔
آپ مزید فرماتے ہیں کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ افعالِ الہیہ کسی علت، باعث یا محرک پر موقوف ہوتے ہیں تو بتایا جائے کہ خلقِ عالم کا فعل جس علت، باعث یا محرک پر موقوف ہے وہ حادث ہے یا قدیم؟ اگر یہ کہا جائے کہ قدیم ہے تو عالم کا بھی قدیم ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب علت قدیم ہے تو لازما معلول بھی قدیم ہوگا کہ علت و معلول میں تخلف جائز نہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ خلقِ عالم کی علت حادث ہے تو لازم ہے کہ اس کے حدوث کی بھی کوئی علت ہو اور پھر اس علت کے حدوث کی بھی کوئی علت ہو۔ یہ سلسلہ لانہایۃ تک وسعت پذیر ہو گا جو کہ محال ہے؛ نتیجتا عالم کا وجود ہی محال ٹھہرے گا۔15گزارش ہے کہ خدائی افعال کا کسی علت و غرض پر موقوف نہ ہونا اصلاً {لا یسئل عما یفعل} اور {فعال لما یرید} ایسی آیاتِ قرآنیہ کا مدلول ہے۔امام رازی کے عقلی دلائل کا مقصد دراصل اس مدلولِ قرآنی اور عقیدۂِ حقہ کے گرد دفاعی حصار قائم کر کے معتزلہ کی خودسر عقل کو اس کی 'اوقات' سے آگاہ کرنا ہے۔
افعالِ باری تعالی کے مبنی بر اغراض و علل ہونے کو مسترد کر دینے کے بعد امام صاحب کے لئے یہ سوال نمودار ہوتا ہے کہ اگر خدائی افعال کسی غرض و علت کا شاخسانہ نہیں ہیں تو پھر احکام میں مصلحت اور دورانِ قیاس علت تلاشنے کی تمام تر سرگرمی کا کیا معنی ہے؟دراں حالیکہ اشعری فقہاء بھی خدائی احکام کے مخصوص اوصاف کو حکم کی علت قرار دے کر حکم کو متعدی کرتے ہیں۔امام صاحب 'نہایة العقول' میں اس شبہہ کو فرو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر چند ہمارا ماننا ہے کہ خدائی افعال معلل بالاغراض نہیں ہوتے اور خدا کا مطمح نظر مصالحِ عباد کی رعایت نہیں ہوتا تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدائی احکام سے مصالحِ عباد کی تکمیل بھی نہیں ہوتی۔یہ عین ممکن ہے کہ کسی فعل و حکم سے خدا کی غرض مصلحت کی رعایت نہ ہو لیکن اس کے باوجود معتد بہ احکام مصلحتِ عباد کے مطابق ہوں۔16 البتہ خدا کے لئے کسی مصلحت کی رعایت واجب نہیں ہے؛ وہ مختارِ کل جو چاہے کر گزرے۔علتِ قیاسی سے متعلق اشکال کو رفع کرتے ہوئے امام صاحب اصول فقہ پر اپنی مایہ ناز تصنیف "المحصول" میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیاس میں بروئے کار لائی جانے والی اصطلاح 'علت' سے مراد حکم کے پیچھے کارفرما کوئی غرض یا داعیہ نہیں بلکہ اس سے ایسا وصفِ معرِّف مراد ہےجو نص سے ثابت شدہ حکم کی نوع کے دیگر افراد کی پہچان کرواتا ہے۔17یعنی قیاسی علت حکمِ خداوندی کا باعث نہیں ہوتی بلکہ یہ محض ایک علامت و نشانی ہوتی ہے جس کا کسی اور شے میں پایا جانا انسان کو اس شے سے متعلق حکم شرعی سے آگاہ کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر علت ایسی علامت ہے جو حکم کے دیگر اطلاقات کو ظاہر کرنے میں معاونت کرتی ہے۔یہ اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ حکم کن کن چیزوں کو شامل ہے۔ جیسے سود کی علت احناف کے نزدیک قدر مع الجنس ہے۔ یہ قدر مع الجنس حکمِ حرمت میں موثر نہیں ہے بلکہ ایک ایسا معرف ہے جو اس حکم کے دیگر اطلاقات کی پہچان کروا رہا ہے؛ جس شے میں قدر مع الجنس کا تحقق ہو گا اس میں سود پایا جائے گا اور اسی پر حرمت کا حکم کا اطلاق ہوگا۔
وجودِ شر اور عدلِ الہی:
معروضی و آفاقی حسن و قبح پر مبنی معتزلی نظامِ اخلاقیات کے لئے پہلے ہی قدم پر ایک اچنبھا یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر حسن و قبح اشیاء کی ذاتی و واقعی صفات ہیں اور خدا تعالی ان قبائح سے پاک و منزہ ہے تو پھر سینہ گیتی پر موجود شر کو کس نے پیدا کیا؟اس سوال نے معتزلہ کے لئے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی کیفیت پیدا کر دی،اگر خدا کو شر کا خالق بتائیں تو اپنا موقف زمیں بوس ہوتا ہے،بصورتِ دیگر تعمیمِ قدرت پر حرف آتا ہے۔بایں ہمہ،معتزلہ نے اپنے مخصوص تصورِ تنزیہہ کو ترجیح دیتے ہوئے قدرتِ خداوندی پر حرف گیری کو قبول کر لیا۔انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا ازخود خالق ہے،خدا کے دستِ قدرت کو تخلیقِ افعال میں کوئی دخل نہیں۔گویا بارش سے بچتے پرنالے تلے جا کھڑے ہوئے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ بندے کو افعال کی انجام دہی کی مستقل قدرت حاصل ہے اور بندہ اپنی اسی مستقل قدرت کے ذریعے شر کو معرِض وجود میں لاتا ہے۔گزارش ہے کہ تخلیقِ شر کا معتزلی جواب دراصل تحدیدِ قدرت کی جسارت ہے۔مجوس کو یہی سوال درپیش ہوا تو انہوں نے یزداں کو نسبتِ قبح سے بچانے کے لئے 'اہرمن' کی صورت میں دوسرا خدا گھڑ لیا۔معتزلہ نے خدا کی یکتائی پر تو آنچ نہ آنے دی مگر خدا پناہ کہ اسی یکتا خدا کو گویا اپاہج قرار دے دیا۔ملامت کا دغدغہ اور بات کی پچ بھی کیا کیا رنگ دکھاتے ہیں۔
معتزلہ کے برعکس اہل سنت کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ عالم ممکنات میں خدا کے ارادے اور تخلیق کے بنا کوئی بھی شے معرضِ وجود میں نہیں آ سکتی اور نہ ہی کوئی بندہ ارادہ الہیہ سے بالکلیہ آزاد اور مستقل قدرت کا حامل ہے بلکہ اس کی قدرت ہر آن قدرت الہیہ سے وابستگی کا دم بھرتی اور اس کا فعل ہر پل بارگاہِ حق سے اذنِ وجود پاتا ہے۔گزارش ہے کہ خلقِ افعال بابت معتزلی موقف دو گونہ مفروضہ جات پر مبنی ہے۔اول یہ کہ حسن و قبح اشیاء کی خانہ زاد خصوصیت ہے اور دوسرا یہ کہ جو فعل بندوں کے لئے قبیح ہے وہی خدا کے لئے بھی قبیح ہے۔امام رازیؒ نے ان دونوں مفروضہ جات کو بہ یک قلم مسترد کیا ہے۔پہلا فرضیہ تو تنقید کی چھلنی سے ہو گزرا، دوسرے کے متعلق آپ کا فرمانا ہے کہ خدا پر انسانی اخلاقیات کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اپنے اس موقف کو آپ ایک مثال سے موید فرماتے ہیں،آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو یہ جانتے ہوئے ایک مکان میں بند کر دے کہ وہ ایک دوسرے سے غلط کاری میں ملوث ہو سکتے ہیں اور اپنے اس فعل کی جواز سازی کے لئے یہ حیلہ گھڑے کہ میں نے ان کو اس لیے یکجا کیا ہے تا کہ یہ صبر سے کام لیں اور ثواب کے سزاوار ہوں،تو کوئی بھی ذی شعور اس شخص کے اس فعل کو حسن نہیں کہے گا لیکن خدا اگر اپنے بندوں کو اسی ڈھب پر ایک جگہ محصور کر دے تو کوئی بھی خردمند اس خدائی فعل کو قبیح گرداننے کی جسارت نہیں سكتا۔18معلوم ہوا کہ یہ فرضیہ سراسر غلط ہے کہ جو انسان کے لئے قبیح وہی خدا کے لئے بھی قبیح ہے۔گزارش ہے کہ خلقِ افعال یا خلق شر کا معتزلی نظریہ جہاں براہ راست مسئلہ حسن و قبح سے متعلق ہے وہیں ان کے تصورِ عدل و اصلح سے بھی کسبِ فیض کرتا ہے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ خدا کا خالقِ شر ہونا ترکِ اصلح کو مستلزم ہے۔ترک اصلح کی قباحت کا بے اساس و بے بنیاد ہونا گزشتہ سطور میں بیان کیا جا چکا ہے۔
معتزلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خدائی عدل کا تقاضا ہے کہ وہ کفر و عصیان کو وجود ہی نہ بخشے،بصورت دیگر خدا کا ظالم ہونا لازم آئیگا کہ وہ خود ہی کفر و عصیان کو تخلیق کرتا ہے اور پھر بندوں کو اس کے اختیار پر مبتلائے عذاب بھی کرتا ہے۔امام صاحب اپنی شہرہ آفاق تفسیر "تفسیر کبیر" میں سورة الانبياء كى آیت مبارکہ {فلا تظلم نفس شیئا} کی تفسیر کے ذیل میں اس معتزلی شبہہ کو يوں فرو کرتے ہیں:
"الظلم ھو التصرف فی ملك الغير وذلك في حق الله تعالى محال لانه المالك المطلق"
"ظلم غیر کی ملکیت میں تصرف سے عبارت ہے اور یہ اللہ تعالی کے حق میں محال ہے کیونکہ وہ مالک مطلق ہے"19
امام صاحب کے نزدیک خدا تعالی کے لئے ظلم کے روا یا ناروا ہونے کا اخلاقی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ خدا کے حق میں ظلم سرے سے ہی محال ہے کہ ظلم تو غیر کی ملکیت میں بے جا تصرف کا نام ہے اور جملہ مخلوق اللہ تعالی ہی کی ملک ہے،وہ مالک مطلق جس سے جیسا چاہے معاملہ فرمائے،اس کا ہر معاملہ عدل سے لبالب ہے۔یہیں سے اشاعرہ کا تصور عدل بھی ہویدا ہو جاتا ہے۔امام رازی نے "لوامع البینات" میں اللہ تعالی کے اسم عدل کی جو توضیح کی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک اللہ تعالی کی ذات پر اسم عدل کا اطلاق،کسی اخلاقی معنی کی بجائے خالصتا لغوی(Lexical) معنی میں ہوتا ہے۔خدا کے عدل ہونے سے مراد اس کی ذات کا بایں معنی معتدل و متوازن ہونا ہے کہ وہ ایسے جملہ نقائص سے پاک ہے جو اس کے خدا ہونے کے وجودی معنی میں خلل انداز ہوں۔مزید براں آپ کا فرمانا ہے کہ افعال الہیہ پر عدل کا اطلاق اس معنی میں ہے کہ وہ ظلم پر مبنی نہیں ہوتے۔20یعنی امام صاحب دراصل عدل کو ظلم کی نقیض کے طور پر لیتے ہیں۔گویا آپ کے ہاں خدائی افعال پر عدل کا اطلاق،کوئی اخلاقی حکم نہیں بلکہ خدا تعالى پر اطلاقِ ظلم کے عقلی استحالہ کا بیان ہے۔
چونکہ ہمارا براہ راست موضوعِ بحث خلقِ افعال نہیں،حسن و قبح ہے،لہذا خلق افعال کی تفصیلی کھود کرید سے گریز کرتے ہوئے اس سلسلہ میں اختصارا عرض ہے کہ دریں باب معتزلہ کا موقف خلق و کسب کے التباس پر مبنی ہے۔افعال کا خالق بے شک خدائے قادر ہے مگر افعال کا کاسب بندہ ازخود ہے اور جزا و سزا کا ترتب کسبِ فعل پر ہوتا ہے نہ کہ خلقِ فعل پر!
حکمت الہیہ:
مبحث حسن و قبح میں حکمت الہیہ کی بحث ازبس اہمیت کی حامل ہے۔ہر سہ کلامی فریق کا تصورِ حسن و قبح اس کے تصورِ حکمت کا صورت گر ہے۔بلکہ خدائی افعال بابت ماتریدی زاویہ نظر تو مکمل طور پر ان کے تصورِ حکمت سے وابستہ ہے۔گزارش ہے کہ تینوں مکاتب فکر کے تصور ہائے حکمت باہم ایسی مخاصمانہ چسپیدگی رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا فہم دوسرے کی تفہیم سے مشروط ہے۔معتزلہ حکمت کو عدل ہی کے معنی میں لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا تعالی کے حکیم ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہ مخلوق کے نفع یا کسی ایسے ضرر کے لئے فعل انجام دے جو کسی سابقہ جرم پر سرزنش کے طور پر ہو۔21حکمت و عدل کے اس تصور کا تفصیلی استرداد پیش ازیں تحرير کیا جا چکا ہے۔معتزلہ کے برعکس،ماتریدیہ کا تصورِ حکمت منفعت و مضرت ایسی اغراض پر بنا نہیں کرتا۔ماتریدیہ حکمت کو خدا کی صفت تکوین کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔امام ابومنصور ماتريدیؒ اپنی گراں مایہ تصنیف "کتاب التوحید" میں حکمت کی تعریف کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:
"تاویل الحکمة الاصابة،وهو وضع كل شيئ موضعه"
"حکمت کا معنی اصابت ہے اور اصابت،شے کو اس کی مناسب جگہ میں رکھنے کا کا نام ہے"22
امام ماتریدی نے اسی تصور حکمت کو بنیاد بنا کر معتزلہ کے تصور اصلح و عدل کا انتقاد سپرد قلم کیا ہے۔آپ کے مطابق خدا کے تمام افعال مبنی بر حکمت و عدل ہوتے ہیں اگرچہ انسانی عقل بعض افعال کی حکمت کے ادراک سے قاصر ہی کیوں نہ ہو۔ اس جہانِ رنگ و بو کے حیطۂ عدم سے معرض وجود میں آنے کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
"لزم القول بضرورة العقل لجواز کون العالم لا عن شیئ و خروج فعله علی الحکمة،وان عجزت عقول حکماء العالم عن ادراکها لخروج وجه الحكمة عن نهاية قوة عقولها"
" اس جہان کے عدم سے وجود میں آنے کو ممکن ٹھہرانا خدائی فعل کو مبنی بر حکمت قرار دینا ضرورتِ عقلی کا تقاضا ہےاگرچہ جہان بھر کے خردمندوں کی عقلیں،دلیلِ حکمت تک بار نہ پا سکنے کی بنا پر اس کے ادراک سے قاصر ہوں۔"23
قاضی ابو زید دبوسیؒ حکمت کی مراد عاقبت حمیدہ بیان کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ خدائی افعال کے مبنی بر حکمت ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ خیر انجام ہوں،یعنی ان افعال سے خدائی عظمت اور کبریائی جھلکتی ہو۔24گزارش ہے کہ قاضی صاحب کی بیان کردہ مراد امام ماتریدی کے اجمال کی تفصیل ہے۔ دونوں مرادات کو ایک کینوس میں یکجا کیا جائے تو ماتریدی نظام میں حکمت کا تصور کچھ یوں نکھر کر ہمارے روبرو ہوتا ہے کہ حکمت خدائی افعال_جو ماتریدیہ کے نزدیک صفتِ تکوین کا مظہر ہیں_میں ایسی اصابت، درستی، استواری اور پختگی کا نام ہے جو خیر انجامی یا عاقبت حمیدہ پر منتج ہو۔گویا خیر انجامی اسی وقت متوقع ہے جب افعال میں اصابت،استواری اور پختگی پائی جائے،اور اس اصابت و پختگی سے مراد یہ ہے کہ ہر شے اپنے مناسب مقام پر رکھ دی جائے۔ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ حکمت خدا کے ہر ہر فعل کا جزوِ لاینفک ہے،حتی کہ شر کی پیدائش بھی حکمت الہیہ سے خالی نہیں؛ کیونکہ وہ حوادث جو بظاہر شر دکھتے ہیں انجام کار کے اعتبار سے ان میں طرح طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ آفات سماوی کبھی عذاب کا تازیانہ بن کر دنیا کو بدکاروں سے پاک کرتی ہیں تو کبھی آزمائش کی گھڑی بن کر ایمان والوں کی بلندیِ درجات کا باعث ہوتی ہیں، نیز انہی آفات سے خدا کی صفت قہاریت و جباریت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ رہی بات خدا کے تخلیق کردہ انسانی أفعال کی تو یہ بات بھی پیش پا افتادہ ہے کہ کسی انسان کا مبنی بر شر فعل دیگر انسانوں کے لئے مختلف پہلوؤں سے رحمت و یافت کا سبب بن جاتا ہے۔معتزلہ اور ماتریدیہ کے تصور حکمت میں ایک فرق تو یہی ہے کہ معتزلہ فعل کے انجام سے پہلو تہی کر کے اس کے فوری نتائج کی بنا پر اسے سراپا شر قرار دیتے ہیں اور پھر خدا تعالی کی قدرت سے اس کو خارج کر دیتے ہیں؛ جبکہ فعل کو دیکھنے کا ماتریدی زاویہ قدرے وسعت کا حامل ہے کہ وہ انجام و عواقب کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی بظاہر شر سے خیر کا پہلو دریافت کر لیتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ معتزلہ اصلح للعباد کے نام پر حکمت کو فرد مرکز بنا ڈالتے ہیں کہ خدائی حکمت کا تقاضا ہے کہ ہر ہر فرد کی مصلحت اس کی انفرادی حیثیت میں ملحوظ رکھی جائے جبکہ ماتریدیہ من حیث المجموع انسانیت کی مصلحت یا خیر کو مد نظر رکھتے ہیں نیز خدا تعالی کی صفات کے اظہار کو عاقبت حمیدہ یا خیر انجامی کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔
اسی مبحث میں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا خدا تعالی معاذاللہ براہ راست اخلاقی قبائح کا مرتکب ہو سکتا ہے؟ یقینا ہر اہل ایمان کا جواب نفی میں ہو گا۔ ماتریدیہ بھی اپنے تصور حکمت کے تحت خدا سے قبائح کے صدور کا انکار کرتے ہیں۔وہ خدا پر کسی شے کے واجب ٹھہرانے کو تو رد کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بات خدا تعالی سے مستبعد ہے کہ وہ أفعال شنیعہ کا مرتکب ہو کیونکہ ان میں کوئی حکمت یا عاقبت حمیدہ نہیں پائی جاتی جبکہ خدائی افعال تو حکمت و دانائی کے عکاس اور عظمت و جلال کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ دریں باب اشاعرہ کا موقف پیشتر بیان ہو چکا ہے۔
بعد از تمہید اب ہم امام رازیؒ کے حاصلاتِ فکر کی طرف عود کرتے ہیں تا آنکہ دریں باب اشعری و ماتریدی اختلاف کا مکمل منظر نامہ اپنے اطلاقات سمیت عیاں ہو جائے۔امام رازیؒ "لوامع البینات" میں اللہ تعالی کے اسم حکیم کی شرح کرتے ہوئے اس کے اشتقاقی اختلاف کو پیش نگاہ رکھ کر دو معنی بیان فرماتے ہیں۔آپ کے نزدیک حکیم اگر حکمت سے مشتق ہو تو اس کا معنی ایسی ذات ہے جو معلومات کا خوب خوب ادراک رکھتی ہے اور بایں معنی حکیم سے مراد خدا تعالی کا علیم ہونا ہے۔گویا حکمت دراصل واجب تعالی کے کمالِ علم کا ہی نام ہے۔"المطالب العالیہ" میں بھی آپ نے حکمت کے اسی معنی کو اختیار فرمایا ہے۔اسم حکیم کا دوسرا معنی بیان کرتے ہوئے آپ کا فرمانا ہے کہ افعال باری تعالی کی وساطت سے خدا پر حکیم کا اطلاق مصدرِ 'اِحکام' کے تحت ہوتا ہے۔دریں صورت خدا کے حکیم ہونے سے مراد اس کے فعلِ تخلیق میں پختگی،انتظام اور حسنِ تدبیر کا پایا جانا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
"انما المراد منه حسن التدبير فى وضع كل شيئ موضعه"
(افعال میں حکمت) سے یہی مراد ہے کہ ہر شے کو اس کے مناسب مقام میں رکھنے کی بابت بہترین تدبیر کرنا"25
امام صاحب کے متذکرہ بالا کلام میں اگرچہ ماتریدیہ سے ان کا اصولی اتفاق جھلکتا ہے تاہم اگر بیان کردہ دونوں معانیِ حکمت کو اشاعرہ کے اصولی چوکھٹے میں موزوں کیا جائے تو آپ کا تصورِ حکمت کچھ یوں ممتاز ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک افعال الہیہ کا الہی علم و ارادے کے مطابق ہونا حکمت ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اشاعرہ تکوین کو اللہ تعالی کی علی حدہ صفت کی بجائے فعل الہی قرار دیتے ہوئے اسے علم و ارادہ الہیہ سے نتھی کرتے ہیں۔چنانچہ تکوین میں درستی اور پختگی بھی دراصل اللہ تعالی کے علم و ارادہ سے تطابق کا نام ٹھہرتی ہے۔امام رازی کا یہ فرمانا کہ حکمت کا ایک معنی کمال علم ہے،اسی طرف اشارہ کناں ہے کہ افعال میں حکمت دراصل اسی کمالِ علم کا کرشمہ ہے۔یعنی اللہ تعالی چونکہ علیم ہے بنابریں شے کے لئے مناسب وہی مقام ہے جو علم الہی میں معلوم و متعین ہے،عقلِ انسانی اس معلومِ الہی تک بار نہیں پا سکتی۔ اس کے برعکس ماتریدیہ افعال کے ذاتی حسن و قبح کے قائل ہونے اور کچھ افعال کے حسن و قبح کو عقلا معلوم ماننے کی بنا پر بعض اشیاء کے 'مناسب مقام' کو بھی بذریعہ عقل معلوم مانتے ہیں اور خدا سے اس کا خلاف،حکمت کے منافی خیال کرتے ہیں۔کافر کی ممکنہ بخشش کو خلافِ حکمت اور شانِ خداوندی سے بعید تر قرار دیتے ہوئے امام ابو منصور ماتریدیؒ کی مذکور ذیل توجیہ اسی موقف کا اظہار ہے:
"ان العفو عن الکافر عفو فی غیر موضع العفو"
"کافر کو معاف کر دینا عفو کو اس کے(مناسب) مقام سے ہٹا دینا ہے"26
مختصر یہ کہ ماتریدیہ کے نزدیک بعض اشیاء و افعال کا 'مناسب مقام' عقل سے معلوم کیا جا سکتا ہے جبکہ امام رازیؒ کے نزدیک 'مناسب مقام' وہی ہے جس پر اللہ تعالی کسی شے کو براجمان کر دے۔آپ کا فرمانا ہے:
"من تصرف فی ملک نفسہ فاي فعل فعله کان حکمة و صوابا"
جو اپنی ملک میں تصرف کرے وہ جو بھی فعل سرانجام دے وہ مبنی بر حکمت اور درست ہی ہوتا ہے"27
ماحصل یہ کہ اشاعرہ کے نزدیک حکیم وہ ذات ہے جو اپنے علم و اردے کے مطابق فعل سرانجام دے سکے جبکہ سفیہ وہ ہے جو اپنے علم و ارادے کے مطابق فعل انجام دینے سے قاصر ہو۔ “موضعِ کل شئی” وہی ہے جو خدا تعالی کے علم اور ارادے میں ہے اور حکیم ہونا اسی کا نام ہے کہ اپنے اس علم و ارادے کے مطابق ہر شے کو اس کے موضع میں رکھ دے۔ ماتریدی اور اشعری نزاع کی تفہیمِ مزید کے لئے 'مومن کے خلود جہنم' کے مسئلہ پر غور بھی مفید رہے گا۔ماتریدیہ کے نزدیک خدا اگرچہ اس امر پر قادر ہے کہ کسی مومن کو ہمیشک باش جہنم رسید کر دے لیکن ایسا کرنا سراسر ظلم اور خلافِ حکمت ہوگا؛ خدا ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس کے افعال پُر از حکمت ہوتے ہیں۔ اس مثال سے "وجوب علی اللہ" بابت ماتریدی موقف بھی مزید نکھر کر سامنے آجاتا ہے کہ وہ خدا پر بندے کی جہت سے کچھ واجب نہیں ٹھہراتے بلکہ قبائح سے پاکی کو اقتضائے حکمت قرار دیتے ہیں۔اسی موقف کو بعض مشائخ ماتریدیہ نے "خدا پر وجوب" اور "وجوب از روئے خدا / وجوب از روئے حکمت" کے مابین خطِ امتیاز کھینچ کر نمایاں کیا ہے۔پانچویں صدی ہجری کے معروف ماتریدی متکلم امام ابوشکور السالمیؒ(م:۴۶۰ھ) "وجوب از روئے حکمت" کی ماتریدی تعبیر کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"والوجوب من الحکمة يكون على وجه المجاز،والغرض منه نفي القبح من اللہ تعالی عند اهل السنة والجماعة"
"وجوب ازروئے حکمت، مجازی طور پر (بولا) جاتا ہے اور اہل سنہ(ماتریدیہ) کے ہاں اس سے محض جناب باری تعالی سے قبائح کی نفی کرنا مقصود ہوتا ہے"28
ماتریدیہ کے برعکس،اشاعرہ کا ماننا ہے کہ اگر خدا کسی مومن کو بلا جرم و تعدی ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنا دے تو بھی یہ ظلم اور خلاف حکمت نہ ہو گا کیونکہ ایک تو ایسا کرنا دراصل اپنی ہی ملک میں تصرف ہے اور مالک کا اپنی ملک میں کسی بھی طرح کا تصرف ظلم یا خلاف حکمت شمار نہیں کیا جا سکتا، دوسرا یہ کہ اگر خدا ایسا کرے تو یقینا وہ اپنے علم و ارادے کے مطابق ایسا کرے گا اور یہی دراصل حکمت کا تقاضا ہے۔لیکن یہاں یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ کیا خدا ایسا کرے گا؟ اس کا تشفی بخش جواب ہمیں امام رازیؒ کی درج ذیل عبارت سے مہیا ہوتا ہے:
"فرب شیئ یعلم انه يجوز ذلك من الله تعالى و ان كنا نعلم قطعا أنه لا يفعله والدليل عليه جملة الامور العادية،فاني قاطع على ان اللہ قادر علی قلب الجماد حيوانا،فاذا خرجت عن داري جوزت أن يقلب الله تعالى من الأواني ولآلات اناسا فاضلين او سباعا ضارية موذية و مع ذلك فانا نعلم قطعا انه ما فعل ذلك فاذا لم يلزم هناك تجويز الوقوع زوال القطع بعدم الوقوع فلم لا يجوز هاهنا مثله؟!"
"کتنے ہی ایسے افعال ہیں جن کا اللہ تعالی سے صدور ممکن ہونا معلوم ہے تاہم ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ اللہ ایسے افعال کا ارتکاب نہیں کرے گا۔بطور دلیل امور عادیہ کو ہی لے لیجئے کہ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالی بے جان چیزوں کو جیتے جاگتے حیوان بنا دینے پر قدرت رکھتا ہے،سو جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو اس بات کو ممکن قرار دیتا ہوں کہ اللہ تعالی گھر میں موجود برتنوں اور دیگر آلات کو انسانوں یا موذی و خطرناک درندوں میں بدل سکتا ہے،با ایں ہمہ ہمارا اس بات پر بھی پختہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں کیا ہوگا۔سو جب اس صورت میں محض امکانِ وقوع سے عدمِ وقوع کا پختہ یقین زائل نہیں ہوتا تو دریں باب ایسا کیوں نہیں سکتا؟!"29
گزارش ہے کہ ماتریدیہ اور اشاعرہ کی علمی کشاکشی سنیت و ضلالت کا نزاع نہیں بلکہ دائرہ سنیت میں رہتے ہوئے زاویہ نگاہ کا معمولی اختلاف ہے۔تکوین کو خدا تعالی کی مستقل صفت قرار دیا جائے یا پھر اسے علم و ارادہ الہیہ کا ضمنی پہلو گردانا جائے اس سے کسی قطعی عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔اسی طرح ظلم و جور کو ازروئے حکمت شانِ خداوندی سے کوسوں دور ٹھہرایا جائے یا پھر مخبرِ صاڈق کی دان کردہ قطعیت(certainty) کی بنا پر اسے مستبعد قرار دیا جائے،اس سے بھی کسی قطعی عقیدہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔اس کے برعکس معتزلہ کا موقف صراحتا قدرت باری تعالی کے عقیدہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ماتریدی و اشعری زاویہ نگاہ کے اختلاف پر معروف اشعری عالم علامہ تاج الدین سبکی(م:۷۷۱ھ) کا بیان قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے،آپ فرماتے ہیں:
"ان الخلاف الیسیر بیننا و بین الحنفیة فى مسائل معدودة غير طائلة لا يقتضى تكفيرا ولا تبديعا."
"معدودے چند مسائل میں ہمارے اور احناف(ماتریدیہ) کے مابین معمولی اختلاف ایک دوسرے کو کافر یا بدعتی قرار دینے کا تقاضا نہیں کرتا"30
صداقتِ خدا، ثقاہتِ رسول اور وثاقتِ وعد:
معروضیتِ حسن و قبح کو رد کرنے کے ساتھ ہی اشاعرہ کا سامنا صداقتِ ربانی بابت ایک ناقابلِ مفر سوال سے ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر حسن و قبح افعال کی ذاتی خصوصیت نہیں اور خدا کے لئے کسی بھی فعل کا کر گزرنا اس کے حق میں بھلا ہے تو اس کا ناگزیر نتیجہ یہی ہے کہ خدا کے حق میں دروغ گوئی بھی بھلی اور ممکن ہے۔دریں صورت کوئی شخص کیوں کر خدا کے وعد و وعید کا وثوق کرے اور مذہبی اخبار کی سچائی کیوں کر اس کے دل میں گھر کرے؟یہی سوال قدرے مختلف انداز میں ثقاہت رسول سے بھی متعلق ہے،وہ یوں کہ جب خدا کا ہر فعل بھلا ہے تو لازما کسی جھوٹے مدعی رسالت کے ہاتھ پر خدا کی طرف سے بہ طور تصدیق معجزہ کا ظہور بھی بھلا اور ممکن ہونا چاہیے۔دریں صورت نبی اور متنبی کے مابین مابہ الامتیاز کیا ہو گا؟
امام رازیؒ پہلے سوال سے تعرض کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ کذب و صدق،کلام کی دو مختلف کیفیات ہیں اور کلام باری تعالی خدا کا فعل نہیں بلکہ خدا کی صفت ہے۔لہذا جب أفعال الہیہ پر اخلاقی حسن و قبح کا سوال وارد نہیں تو اس صفت پر تو بطریق اولی اخلاقی حسن و قبح کا سوال وارد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اخلاقیات سراسر افعال سے متعلق ہوتی ہیں۔جب یہ بات طے ہو چکی تو اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ خدا کے کلام کا کذب پر مشتمل ہونا سرے سے ہی محال ہے؛ لیکن کسی اخلاقی حکم کی بنا پر نہیں نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ:
"ان کلامه قائم بنفسه، ويستحيل الكذب فى كلام النفس على من يستحيل عليه الجهل، اذ الخبر يقوم بالنفس على وفق العلم والجهل على الله تعالى محال"
"اللہ تعالی کا کلام،کلام نفسی ہے اور هر اس ذات کے کلام نفسی میں کذب محال ہے جس کا جاہل ہونا محال ہے کیونکہ کلام نفسی علم کے موافق ہوتا ہے اور جہل اللہ تعالی پر محال ہے(لہذا اس پر کذب بھی محال ہے)"31
گزارش ہے کہ کلام نفسی سے ایسا کلام مراد ہے جو حروف و اصوات سے منزه ہو۔تقریبِ فہم کے لئے اس کو مَن ہی مَن میں کی گئی خود کلامی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔اہل سنت کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفتِ کلام حروف و اصوات سے مبرا ہے۔بعدہ عرض ہے کہ امام صاحب کے مطابق کلام نفسی اور علم باہم اس طرح متلازم ہیں کہ گویا کلام نفسی علم کا پرتو ہو۔اب اگر یہ مان لیا جائے کہ کلام نفسی کذب پر مشتمل ہے تو یہ ماننا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے کہ خداوند متعال جہل سے متصف ہے،جبکہ خدائی اور جہالت باہم یک نگر (mutually exclusive) ہیں،جو جاہل ہو اس کا خدا ہونا ممکن نہیں اور جو خدا ہو اس کا جاہل ہونا ممکن نہیں۔کیونکہ علم ایسی صفت ہے جو خدا کے وجودی معنی یعنی اس کے خدا ہونے کو مکمل و اکمل کرتی ہے۔اب اگر خدا میں جہل کو ممکن مانا جائے تو گویا اس کے خدا ہونے میں نقص کو مانا جا رہا ہے۔یوں بات جمعِ نقیضین کی طرف بڑھ جاتی ہے کہ خدا،خدا ہے بھی اور نہیں بھی۔مختصر یہ کہ خدا کے کلام میں کذب کا امکان محال ہے کیونکہ کذب جہل کو مستلزم ہے۔ یاد رہے کہ یہ استحالہ کسی اخلاقی اصول کی بنا پر نہیں بلکہ خدائی میں نقص کے محال ہونے کی بنا پر ہے۔
گزارش ہے کہ بات یہاں مکمل نہیں ہوتی، امام صاحب کا یہ جواب ایک اور سوال کو جنم دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ تو مان لیا کہ کلام نفسی میں کذب محال ہے لیکن کلام مسموع،جو ہم سنتے سناتے اور پڑھتے پڑھاتے ہیں،تو بحالہ امکانِ کذب سے مملو ہے؟ اسی سوال کے ہمراہ مذکورہ بالا ثقاہتِ نبوت اور وثاقتِ وعد و وعید کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ مدعی کاذب کے دست باطل پرست پر معجزہ کا اظہار تو تاحال خدا کے لئے ممکن ہی ٹھہرتا ہے۔امام صاحب ان دونوں سوالوں کے جواب میں اسی اصول کا اعادہ فرماتے ہیں کہ امکانِ وقوع عدمِ وقوع کی قطعیت کے منافی نہیں ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے افعال ہیں جن کا کر گزرنا اللہ تعالی کے لئے ممکن ہے لیکن ہمیں کامل جزم اور پختہ یقین ہے کہ وہ ذات ستودہ صفات ایسا نہیں کرے گی۔محض عقلی امکان کا پایا جانا جزم و یقین کا خون نہیں کرتا کیونکہ کسی فعل کے امکان سے مراد محض یہی ہے کہ اللہ تعالی اس فعل پر قادر ہے۔32
امام رازیؒ نے معجزہ کے سوا بھی اثبات نبوت کا طریقہ بیان فرمایا ہے،جو آپ کے نزدیک معجزاتی اثبات سے بڑھ کر معقول اور کارگر ہے۔آپ کا فرمانا ہے کہ معجزہ کی طرح ناقصین کو کامل بنا دینے کی نبوی اہلیت بھی نبوت کی دلیل ہے،جو اثبات مدعا میں معجزے سے بڑھ کر اثر آفرینی کی حامل ہے۔جیسا کہ پیش ازیں ذکر کیا کہ امام صاحب کے نزدیک انسانی کمال سے مراد انسان کی قوت نظریہ اور قوت عملیہ کا اس درجہ کمال کو پا لینا ہے کہ وہ اشیاء کی راست حقیقت(خدا کے ماسوا کا فانی و محدث ہونا) سے آگاہ اور عمل خیر کے ملکہ سے مالا مال ہو جائے۔آپ کے نزدیک اس کمال کا لازمی نتیجہ حق سے ہمہ تن اعتناء اور مخلوق سے مکمل استغناء ہے۔کمالِ انسانی کی مراد کو قیدِ تحریر میں لانے کے بعد آپ نے کمال و نقص کے اعتبار سے انسانی سلسلہ مراتب(hierarchy) کو حسب ذیل سپرد قلم فرمایا ہے:
۱- عامة الناس،جو سراسر ناقص ہیں۔
۲- اولیاء، جو خود تو کامل ہیں تاہم دوسروں کی تکمیل ان کے بس سے باہر ہے۔
۳- انبیاء،جو خود بھی کامل ہیں اور دوسروں کی تکمیل پر بھی قادر ہیں۔
آپ اپنی بات کو مبرہن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانوں میں کمال و نقص شدت و ضعف کے مختلف مدارج میں پائے جاتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انسان درجہ انسانیت سے اس قدر فروتر ہوتے ہیں کہ بہائم ان پر پھٹکار کریں اور بعض ایسے کامل تر ہوتے ہیں کہ فرشتے ان پر ناز کریں۔جس طرح ناقص تر انسانوں میں سے بعض ضال کے ساتھ ساتھ مضل بھی ہوتے ہیں جو دیگر ہم جنسوں کو نقص کی اتھاہ گہرائیوں میں ٹھیلتے ہیں۔اسی طرح یہ ضروری ہے کہ کامل تر انسانوں میں رشد و ہدایت کے ایسے پیکر موجود ہوں جو دیگر ہم جنسوں کو اوج انسانیت کی طرف گامزن کریں۔غور کیا جائے تو امام صاحب کی دلیل نہ صرف کسی مخصوص دعوائے نبوت کی تصدیق کو شامل ہے بلکہ ضرورتِ نبوت کا بھی احاطہ کرتی ہے۔امام صاحب کے مطابق اثبات رسالت کے اس طریقہ کی کارگری حق اور عملِ خیر کے پیشگی ادراک سے مشروط ہے۔33لیکن سوال یہ ہے اگر حق اور عمل خیر کا ادراک ماقبلِ نبی ممکن ہے تو پھر نبی کی کیا حاجت؟ اغلب یہ ہے کہ حق اور خیر کے پیشگی ادراک سے امام صاحب کی مراد اس کا ظنی اور جزوی ادراک ہے جیسے ایک تشنہ لب کو پانی کا ادراک ہوتا ہے۔گویا حق اور خیر کا کج مج تصور تو انسانی شعور میں پیوست ہوتا ہے لیکن وہ دولتِ یقین سے قطعی محروم ہوتا ہے کیونکہ شعور کے زائدہ تصورات اول و آخر شک میں گھرے ہوتے ہیں۔یقین کی خلقی طلب ہی انسان کو انبیاء کے در پر سر نیاز خم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔انبیاء کے سوا کوئی راہنما انسان کو دولت یقین سے مالا مال کر کے اوج انسانیت تک کی رہبری نہیں کر سکتا۔امام صاحب کے اس کلام ہدایت التیام سے ناقدین کا یہ شبہ بھی کافور ہو جاتا ہے کہ اشعری منہجِ اخلاقیات انسان کو اخلاقی داعیات و اقتضاءات سے تہی دامن اور ایک میکانکی وجود باور کرواتا ہے۔یہ تنقیدی نتیجہ سطحی اور پایاب مطالعہ کی پیداوار ہے۔اشاعرہ کے نزدیک انسانی فطرت میں اخلاقی داعیات اور اقتضاءات ضرور موجود ہیں مگر انہیں کرید کر سامنے لانے پر انسان ازخود قادر نہیں ہے۔یہ داعیات بے قرار سوال کی صورت میں نمودار ہوتے اور جواب نہ پا کر نفسی مالوفات میں جا دبکتے ہیں۔شریعت انہیں اقتضاءات کو کریدتی اور انہیں جوابی اظہار فراہم کرتی ہے یہی وجہ کہ ہدایات و احکام شرع کو دیکھ کر ہر سلیم الفطرت ان پر یوں ٹوٹتا ہے جیسے کسی دشت میں سرگرداں خاک بسر شدتِ تشنگی میں نخلستان کی اَور لپکتا ہے۔
بیانِ طریق کے بعد امام صاحب اس سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ نبوی رہبری کی نوعیت کیا ہوگی؟امام صاحب فرماتے ہیں کہ ناقصین کی تکمیل کا طریقہ نہ تو محض فلسفیانہ ہے اور نہ ہی محض خطیبانہ(rhetoric)۔آپ کے مطابق اگر نبی محض فلسفیانہ دلیل و برہان پر انحصار کرے تو اس صورت میں مقصود پس منظر میں چلا جائے گا اور مجادلہ و مناقشہ کا بازار گرم ہو جائے گا۔لہذا ضروری ہے کہ دلیل کے دستوں کے متصل ہی ترغیب و ترہیب کے اسلحہ سے لیس خطیبانہ آہنگ کی کمک بھی دستیاب ہو۔34گزراش ہے کہ اثبات نبوت اور ضرورت نبوت کے طریق ثانی کی متذکرہ بالا علمی تشکیل کے ڈانڈے امام غزالی کے افکار سے ہوتے ہوئے جاحظ اور ابن سینا سے جا ملتے ہیں۔چونکہ یہ ہمارا براہ راست موضوع نہیں ہے لہذا تطویل سے اجتناب کرتے ہوئے سلسلہ تحریر کو یہیں قطع کر دینا مناسب ہو گا۔ آغازِ مضمون میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ اخلاقی اقدار کس سے استناد کرتی ہیں؟ امام رازیؒ کی تحریرات کی روشنی میں اس کا جواب قارئین کے رو بہ رو ہو چکا ہے۔اس دراز سلسلہ میں مبحثِ حسن و قبح کے خاصے اہم گوشے احاطۂِ تحریر میں آ چکے ہیں۔ یقینا مسئلہ کے بعض ضمنی پہلو ہنوز تشنۂ بیان ہیں مگر کیا کیجئے کہ امام رازی کی اقلیمِ علم غیر مختتم اور ہمارا رہوارِ قلم تھکن سے چورہے۔دست بہ دعا ہوں کہ خداوند متعال امام فخرالدین رازیؒ کے تصدق خاکسار کی اس ادنی کاوش کو توشۂ آخرت بنا دے۔آمین
حواشی
- اگرچہ حکم شرعی پر قانون کا اطلاق بوجوہ محلِ نظر ہے تاہم یہاں لسانیاتی مجبوری کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے کہ عموما فعل کے وجوبی، صوابدیدی، اولی یا ممنوع ہونے کی حیثیت کو اس کی قانونی حیثیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
- گو یہ بات کلامی و اصولی کتب میں صراحت کے ساتھ مرقوم ہے تاہم اس کی نمایاں جھلک اصولیین کی طرف سے حکم شرعی کی بیان کردہ تعریف میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ حکم شرعی افعالِ عبد کے متعلق اللہ تعالی کے خطاب کا نام ہے۔
- قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۶۴ https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
- ايضا ج۶-۱،ص۶۵
- ابو زید عبیداللہ بن عمر الدبوسی،تقویم الادلہ فی اصول الفقہ(مکتبہ عصریہ،بیروت،۲۰۰۶)ص۴۳۲
- ايضا،ص۴۳۲،۴۳۳،۴۳۴،۴۳۵،۴۶۵
- امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،۱۹۹۲)ج۱،ص۱۵۹،۱۶۰
- ابو زید عبیداللہ بن عمر الدبوسی،تقویم الادلہ فی اصول الفقہ(مکتبہ عصریہ،بیروت،۲۰۰۶)،ص۴۵۹
- ايضا،ص۴۶۲،۴۶۳
- امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،۱۹۹۲)،ج۱،ص۱۴۷-۱۵۴
- قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۱۲۷،۱۲۸ https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۲،ص۱۰
- قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۳۸ https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۳،ص۲۹۰،۲۹۱/الاربعين فى اصول الدين(دارالکتب العلمیہ،بیروت،۲۰۰۹)،ص۲۴۵
- قاضی ابوبکر محمد بن طیب باقلانی، کتاب تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل ( موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، ۱۹۸۷)، ص ۵۰،۵۱،۵۲
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول (دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)، ج۳،ص۲۸۸
- امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه (موسسة الرساله، بيروت،۱۹۹۲ )، ج۵،ص۱۳۵
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۳،ص۲۹۵،۲۹۶
- امام فخرالدین رازی،تفسیر کبیر(دارالفکر،بیروت،۱۹۸۱)،ج۲۲،ص۱۷۷
- امام فخرالدین رازی،لوامع البینات شرح الاسماء الحسنہ والصفات (المطبعہ الشرفیہ، مصر،۱۳۲۳ھ)، ص۱۸۴
- قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۴۸،۴۹ https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
- امام ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی،کتاب التوحید(دارالاسلام،لاہور،۲۰۱۴)،ص۱۶۴
- امام ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی،کتاب التوحید(دارالاسلام،لاہور،۲۰۱۴)،ص۲۹۷
- ابو زید عبیداللہ بن عمر الدبوسی،تقویم الادلہ فی اصول الفقہ(مکتبہ عصریہ،بیروت، ۲۰۰۶)، ص۴۶۶،۴۶۷
- امام فخرالدین رازی،لوامع البینات شرح الاسماء الحسنہ والصفات(المطبعہ الشرفیہ،مصر،۱۳۲۳ھ)،ص۲۰۹،۲۱۰
- امام ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی،کتاب التوحید(دارالاسلام،لاہور،۲۰۱۴)،ص۴۵۹
- امام فخرالدین رازی،لوامع البینات شرح الاسماء الحسنہ والصفات(المطبعہ الشرفیہ، مصر، ۱۳۲۳ھ)، ص۲۱۰
- امام ابو شکور سالمی،التمہید فی بیان التوحید(مرکزالبحوث الاسلامیہ،استنبول،۲۰۱۷)ص۲۷۶
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۲،ص۷۴
- تاج الدین ابو نصر عبدالوہاب بن علی السبکی،السیف المشہور فی شرح عقیدة ابی منصور (شعبہ الہیات،جامعہ مرمرہ، استنبول، ۲۰۰۰)ص۱۲
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول (دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)، ج۲،ص۳۳۷
- امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول (دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)، ج۲،ص۷۱،۳۳۰،۳۳۱
- امام فخرالدین رازی،المطالب العالیہ من العلم الالہی(دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۹۹۹)، ج۸،ص۶۱،۶۲
- امام فخرالدین رازی،المطالب العالیہ من العلم الالہی(دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۹۹۹)،ج۸،ص۶۹