ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا شمار جدید مذہبی سکالرز میں ہوتا ہے۔ ان کی عمرکم ہے، لیکن فکری و علمی کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس علم بھی ہے اور قاری بھی۔ بہت Prolificلکھاری ہیں، لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں۔ یہ خود بھی میرے ممد و حین میں سے ہیں اور ان کی کتابیں اور تحقیقی اور فکری مضامین ہمہ وقت میرے مطالعہ میں رہتی ہیں۔ جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں تو موضوع کی کھائیوں اور گہرائیوں کو آشکارا کرنے کا فن خوب سر انجام دیتے ہیں۔ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ چونکہ مولانا وحیدالدین خان کے افکار و نظریات پر ہے تو اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر کی کتاب بھی زیرِ مطالعہ رہی ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں وحیدالدین خان کے افکار پر لکھی جانے والی کتابوں میں غالبایہ واحد کتاب ہے جس کی زبان علمی ہے اور مواد تحقیقی و فکری۔ ورنہ اب تک وحیدالدین خان کے بارے میں جو تنقیدی کتب منظر عام پر آئی ہیں، جس کی نمائندہ مثال محسن عثمانی ندوی کی "وحیدالدین خان علماءاور دانشوروں کی نظر میں" اور خالد متین کی "وحیدالدین خان: ایک اسلام دشمن شخصیت" جیسی کتابیں ہیں، ان میں آ پ کو جس چیز سے واسطہ پڑے گا، وہ تحقیق کم اور "ادبی گالیاں" زیادہ ہیں۔
تعصب، جماعتی عصبیت اور تنقیص کی جاری مار دھاڑ میں ڈاکٹر حافظ زبیر کی یہ کتاب علمی انتقاد اور تحقیقی ذوق کی ڈکار محسوس ہوتی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کتاب میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو راقم کے نزدیک قابلِ گرفت ہیں۔ اور وہ مصنف ہی کیا جس کی تحریر میں مسئلے نہ ہوں۔ میری اس مختصر تحریر کا مقصدبھی وحید الدین خان پر ڈاکٹر زبیر کی علمی تنقید کا محاکمہ کرنا ہے۔ فی الحال میں اپنا مقدمہ اس کتاب کے ماحصل اور حاصل پر مرکوز رکھنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر زبیر کے اس کتاب کا اگر ماحصل دیکھا جائے تو وہ ایک ہی چیز بنتی ہے کہ وحیدالدین ایک خود پسند، برخود غلط اور اپنے زعم میں ایک یکتا شخصیت ہیں، ساتھ میں نفسیاتی عوارض کا بھی شکار ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
"بلکہ صحیح تر تجزیہ یہ ہے کہ اُن کے ساتھ کچھ نفسیاتی پرابلم ہیں جنہوں نے اُنہیں تخیلات کی اس دنیا تک پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں نہیں بلکہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک شمار کر رہے ہیں" (مولانا وحیدالدین خان: افکار و نظریات (لاہور: مکتبہ العالمین ۴۱۰۲) ۷۶۱۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مولانا وحید الدین خان کی تحریروں سے یہ چیزیں ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ ڈاکٹر زبیر صاحب کا دعویٰ ہے؟
اقلیم تجزیہ و تحلیل کے پُر خار راستوں کا میرے جیسا نا بلد مسافر کم سے کم اتنا ضرور کہہ سکتا ہے کہ مولانا وحیدالدین خان کو پڑھنے کے بعد میرا مطالعہ مجھے بالکل اس سمت کے مختلف لے گیا ہے جس سمت پر ڈاکٹر زبیر صاحب رواں ہیں، بلکہ مجھے تو یہ تک محسوس ہوتا ہے کہ وحیدالدین خان صاحب قربانی کا وہ بکرا ہے جس کی کوئی ماں نہیں جو اس کی خیر منا سکے ۔ وجہ یہ ہے کہ جب سکالر نہ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور نہ کسی مخصوص جماعت سے ، تو پھر وہی ہوتا ہے جو وحیدالدین کے ساتھ ہو رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بعض موضوعات بہت ادق ہوتے ہیں اس میں سیاق و سباق اور ربط و ترتیب کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وحیدالدین خان زیادہ لکھنے والے ہیں۔ ایک ہی موضوع پر اس کے خیالات اُس کے رسائل، کتابوں، آرٹیکلز اور ویب سائیٹ پر بکھرے ہوتے ہیں۔ اُن کے ہاں خیالات و افکار کی رنگا رنگی اور تنوع ہے اس کی فکری بنت اور ذہنی بیخ و بن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی موضوع پر اُن کے چیدہ چیدہ اور بکھرے خیالات کو ایک مخصوص تسلسل و اتصال دیا جائے، اس کے بعد اُن کا اصل نقطہ نظر سامنے آجاتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ڈاکٹر زبیر صاحب کو یہی سہو ہوا ہے ۔ اس کتاب میں کئی غلطیاں ہیں، جہاں پر ڈاکٹر صاحب نے سیاق و سباق کا خیال نہیں رکھا۔ خان صاحب کی کئی ایسی تحریریں ہیں کہ اگر ڈاکٹر صاحب اس کو دریافت کر پاتے تو اُن کا نتیجہ مختلف ہوتا ۔ خان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں امت مسلمہ کے احیاءکی تحریک باہمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءملت کی یہ تحریکیں ننانوے فیصد کی حد تک اسی پہلو پر چل رہی ہے جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کی سماجی پہلووں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے، کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میں مصروف ہے ، کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کر رہا ہے وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربہ میں پایا کہ عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کا کام کوئی نہیں کررہا ۔ اس لئے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (Supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابل عمل ہے۔ احیاءملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پا رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک پراسس (Process) کی ہے، اس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اس پراسس کا ایک حصہ ہے ، یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیم کار کا معاملہ ہے۔ اس پراسس کے مختلف اجزاءمیں کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ کر رہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے، ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیئے، حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر پر ضرورت ہے، تنقید حدیث کے الفاظ میں (المومن مرآة المومن) ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے کے اصول کی تکمیل ہے علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقاءکا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہو گا کہ علمی تنقید باقی نہیں رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقاءکا عمل رُک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پید اہو جائے گا جو کسی گروہ کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔" (بحوالہ الرسالہ مارچ 2007، 142-3)۔
ذرا سریع الفہمی کے ساتھ دیکھا جائے تو جو شخص اپنے مشن کو امت کے احیائی پر اجیکٹ میں محض ایک تتّمہ (Supplement) سمجھتا ہو کیا یہ شخص اس خوش بینی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک ہی منفرد شخصیت کا حامل ہے؟ کیا یہ ایسا شخص بر خود غلط اور احساس برتری کا شکار ہو سکتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر زبیر صاحب کا موقف ہے؟
ایک دوسری مثال لیجئے- یو ٹیوب پر خان صاحب کی ویڈیو موجود ہے جس میں بڑی وسیع الصدری کے ساتھ جاوید احمد غامدی کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں اور اپنے آپ کو جاوید احمد غامدی کا شاگرد بتاتے ہیں۔ بھلا ہم عصری اور خصوصا ہمسری کے حسد سے ڈاکٹر زبیر بھی خوب واقف ہوں گے کہ یہ کس طرح سر چڑھ کے نہیں بلکہ قطب مینار چڑھ کے بولتا ہے، لیکن مولانا وحیدالدین خان حسد اور تعصب کے اس سیم و تھور کو گورکن کے حوالے کر کے اپنے ہی ہمعصر اور ہمسرکو اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کتاب کے اس ماحصل سے بصد احترام بہت اختلاف ہے۔ ذرا خان صاحب کے فکری اہرام کی کشادگی اور کھلا پن دیکھئے کہ ا پنے سب سے بڑے مبینہ مخالف مولانا ابوالحسن علی ندوی کی وفات پر اُن کو "صدی کی شخصیت" قرار دیتے ہیں۔ اور الرسالہ کے کئی صفحات اُن کی تعریف و توصیف میں سیا ہ کر دیتے ہیں (بحوالہ الرسالہ ، مارچ 23-24, 2000) ۔ میرے ناتواں فہم میں جو شخص اپنے مشن اور اپنی پوری فکری حاصل کو امت کے حق میں ایک تتّمہ سمجھتاہو، اپنے ساتھیوں اور علمی رفیق کو اپنا استاد سمجھتا ہو، اور جو اپنے علمی مخالف کو صدی کی شخصیت قرار دیتا ہو، اُس پر ایسے الفاظ کا اطلاق کچھ زیادہ جچتا نہیں جو ڈاکٹر زبیر صاحب نے اُن کے لئے استعمال کئے ہیں۔