مراد علوی

کل مضامین: 5

مولانا مودودی کا تصّورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۴)

مولانا مودودی نے "مدافعانہ جنگ"پر تفصیلی بحث کے بعد اس کے مصرف پر بحث اٹھائی ہےکہ کیا یہ مقصود بالذات ہے یا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ آپ کے نزدیک دفاع بے مصرف نہیں بلکہ ایک اہم فریضہ کے لیے ناگزیر وسیلہ ہے۔ اس فریضے کو انھوں نے ''اصلی خدمت" سے موسوم کیا ہے۔ چناں چہ مولانا کے نزدیک ''مدافعانہ جنگ'' مقصود بالذات نہیں بلکہ مسلمانوں کو ''اصلی خدمت''جیسے اہم فریضہ ادا کرنے اور اجتماعی قوت مٹنے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے تاکہ اس کے ذریعے مسلمان اندرونی اور بیرونی فتنوں سے محفوظ رہ کر اصلی خدمت کی ادائیگی کے قابل ہوسکے۔ اگر اجتماعی قوت...

مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۳)

مولانا مودودی کا نظریۂ جہاد بنیادی طور پر آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ ہے ۔ اس وجہ سے اس پر سیاسی فکر کا گہرا ثر ہے۔ بالخصوص آپ کا تصورِ ''مصلحانہ جنگ'' اسی سے وجود پذیر ہوا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ مولانا کی فکر کا جائزہ تاریخی اعتبار سے لیا جانا چاہیے، یعنی یہ کہ مولانا کی آرا میں میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔ زیرِ بحث موضوع میں ہمارے پیشِ نظر سب سے اہم تحریر مولانا کی کتاب''سود'' کا تیسرا ضمیمہ ہے جسے انھوں نے نومبر 1936ء میں لکھا تھا۔ اس میں مولانا نے جہاد کے حوالے سے اپنی قانونی پوزیشن کو واضح کیا ہے، لیکن اس کے بعد لکھی گئی تحریروں میں...

مولانا مودودی کا تصّورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۲)

جاوید احمد غامدی کاموقف: عمار خان ناصر صاحب نے ” جہاد ایک مطالعہ“ میں مولانا کی فکرِ جہاد کے بارے میں اگر چہ لکھا ہے کہ مولانا کی فکرِ جہاد میں ارتقا پایا جاتا ہے، لیکن آگے انھوں نے ” الجہاد فی الاسلام“ اور ” تفہیم القرآن“ کی تعبیرات کو تضاد اور پریشان خیالی سے موسوم کیا ہے۔2 مولانا نے ”الجہاد فی الاسلام“ میں ”مصلحانہ جہاد“ کے تصور کو جس اساس کھڑا کیا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو حکومتیں غیر الٰہی بنیادوں پر کھڑی ہیں، ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اس نظریے اور مولانا کی بعد کی تحریروں میں عمار صاحب کو توافق اور یکسوئی...

مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (١)

مولانا مودودی نے سب سے پہلے اپنا نظریہ جہاد ''الجہاد فی الاسلام" [طبع اوّل : دسمبر ١٩٣٠ء]میں پیش کیا تھا۔ جب یہ کتاب قسطوں کی صورت میں ''الجمعیۃ'' میں شائع ہو رہی تھی، اس وقت مولانا کی عمر بائیس سال اور پانچ ماہ تھی۔1 جب دارالمصنفین اعظم گڑھ سے کتاب شائع ہوئی، اس وقت مولانا کی عمر ستائیس سال کی قریب تھی۔ تاہم مولانا کی فکر اس دور ہی سے ایک نامیاتی کل نظر آتی ہے ۔ اس ضمن میں سب سے ضروری امر یہ ہے کہ جس وقت مولانا یہ کتاب لکھ رہے تھے، اس دور کے سیاسی منظر نامے کو ملحوظ رکھا جائے ۔ مسلمان برطانوی استعمار (١٩٤٧ء-١٨٥٨ء) کی ستم رانیوں اور سقوطِ...

توہینِ رسالت کی سزا اور مولانا مودودی کا موقف

عصرِ رواں میں مولانا مودودی کا شمار ان اہلِ علم میں ہوتا ہے جن کے ساتھ تحقیق کے نام پر اکثر لوگوں نے بے حد ناانصافی کی ہے۔ مولانا کے منتسبین اسلامی قانون اور روایت سے وہ شغف نھیں رکھتے جتنی دلچسپی دیگر امور میں رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بعض طے شدہ امور میں مولانا کے چاہنے والے تردد کا شکار ہیں۔ اس کے بنیادی وجوہ میں خود مولانا کے تحریکی لٹریچر کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جس کی وجہ سے ابھی تک ان پر بہت سارے مسائل واضح نہ ہوسکے۔ مولانا کی جانب نسبت رکھنے کا اخلاقی تقاضا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ نہ سہی، واجبی واقفیت حاصل کی جائے۔تاہم دلچسپی...
1-5 (5)