جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

3 اکتوبر 2010ء کو مولانا زاہد الراشدی کے یہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ریفرنس بسلسلہ ناگہانی رحلت جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ میں میری تقریر کی تحریری شکل ماہنامہ الشریعہ میں شائع ہوئی تھی۔ سفاک ارضی عصر رواں کی بندشوں میں کسے ہوئے کسی اتفاق ہی کا نتیجہ ہے کہ 18 دسمبر 2023ء کو انہی کے بھائی جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی رحمہ اللہ کی ناگہانی رحلت پر اب کی بار مجھے دو جگہ منعقدہ ریفرنس میں تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلا ریفرنس کورنگ ٹاؤن اسلام آباد میں مرحوم پروفیسر افتخار بھٹہ کے گھر اتوار 31 دسمبر صبح 10 بجے تھا۔ بستی کے سینکڑوں مرد و زن شریک ہوئے۔ ڈاکٹر محمد الغزالی کے صاحبزادے اور میں نے مرحوم کی خوبصورت یادوں کی خوشبو سے محفل کو معطر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا ریفرنس پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی نے ادارے میں منعقد کیا جہاں سے مرحوم محترم اور میں بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔ اس موقع پر جسٹس غزالی مرحوم کے اہل خانہ، ان کے متعدد رفقا کی اور میری معروضات شامل رہیں۔ دونوں تقاریب میں میری گفتگو کی ذرا بہتر شکل اس خیال کے ساتھ بطور شہادت پیش خدمت ہے کہ مرحوم کی زندگی کا ہر گوشہ محفوظ ہو کر بعد میں آنے والوں کے کام آ سکے:

محترم سامعین! عشروں قبل غالباً‌ اردو ڈائجسٹ میں ایک سائنس فکشن پڑھا تھا۔ ایک شخص کو کوئی ایسا مرض لگ گیا جس کا علاج محققین کے اندازے میں 100 سال بعد ممکن تھا۔ مریض صاحبِ حیثیت تھا، لہٰذا معالجوں نے تجویز کیا کہ ہم تمہیں بے ہوش کر کے تمہارا جسم منجمد کر دیتے ہیں۔ علاج دریافت ہونے پر ہوش میں لا کر تمہیں ٹھیک کر دیا جائے گا۔ مریض مان گیا۔ طویل قانونی و طبی مراحل کے بعد اسے لٹا کر بے ہوش کیا جانے لگا تو وہ اچانک بھاگ کھڑا ہوا۔ دوڑ بھاگ کر پکڑے جانے پر پوچھا گیا کہ بھائی مسئلہ کیا ہے، تو اس نے چیخ و پکار مچا دی: 

’’اے لوگو! مجھ بے عقل کو ابھی اسی وقت مرنے دو. میں یہ کیوں نہ سوچ سکا کہ آج مجھ 50 سالہ مریض کے پاس درجنوں تیماردار کھڑے ہیں۔ 100 سال بعد 150 سالہ شخص کو پہچاننے والا کوئی ایک بھی نہیں ہوگا، تو میں جی کر کروں گا کیا؟ یہ سمجھا سکو تو کر دو بے ہوش, ورنہ مجھے مرنے دو۔۔۔۔۔۔ مجھے مرنے دو۔۔۔۔ مجھے مرنے دو۔‘‘

معزز سامعین! 18 دسمبر کی کو رات 11 بج کر 21 منٹ پر، وہ ہمارے سامنے بیٹھے، جناب ڈاکٹر وقار مسعود نے گھٹی گھٹی آواز میں مجھے فون کیا۔ وہ جسٹس غزالی رحمہ اللہ کی رحلت کی تصدیق کرنا چاہ رہے تھے۔ آزردہ خاطر تصدیق تو میں نے کرنا ہی تھی لیکن ذہن میں جو فی البدیہہ جواب آیا تھا وہ اس وقت دینا ممکن نہیں تھا۔ وہ جواب میں انہیں آج سنائے دیتا ہوں۔ میں نے جس عہد میں زندگی گزاری، میں جن ستاروں کی ضوفشانی کے سہارے صحرائے زیست میں راستہ تلاش کیا کرتا تھا، علم و ادب کے جن قطب مناروں اور انسان دوست فرشتوں سے میں استفادہ کرتا رہا، جناب وہ تو ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ اب اس شوریدہ سر بستی میں زندہ رہ کر میں نے کیا کرنا ہے۔ جسٹس ڈاکٹر محمود غازی، ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر انوار صدیقی، ڈاکٹر ممتاز، جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور ہائے ہائے! برادر بزرگ ڈاکٹر محمد میاں صدیقی بھی جب خاک نشین ہو گئے تو میں زندہ ہوں تو کیوں:

جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں

وہ تو اللہ کریم نے وسعتِ افلاک سے کوئی نور بھری لہر بھیج دی جس نے جھنجوڑا اور ڈانٹ کر تسلی دی: 

"نادان! ابھی قحط الرجال کہاں؟ پروفیسر عطا اللہ چوہدری, ڈاکٹر انیس احمد, ڈاکٹر یوسف فاروقی, بیرسٹر فرخ کریم قریشی, ڈاکٹر طاہر منصوری اور پروفیسر حامد شریف کیا تمہاری دل جوئی کو کافی نہیں ہیں؟‘‘

نہ ہوئے لسانیات کے بے تاج بادشاہ، وہی اپنے آج کے ممدوح جسٹس غزالی مرحوم۔ فرمایا کرتے تھے: 

"لفظ کے مفہوم کا تو ابلاغ ہو سکتا ہے، اس کا متبادل نہیں ہوتا۔ متبادل کی اپنی شناخت، اپنا استعمال اور اپنا نسبی شجرہ ہوتا ہے"۔

 آج زندہ ہوتے تو میں یہ ٹکڑا لگا دیتا کہ انسان کا بھی کوئی متبادل نہیں ہوتا، اور ان سے پوچھتا کہ آپ کا متبادل لاؤں تو کیسے اور کہاں سے کہ جب لفظ اور انسان کا متبادل ہوتا ہی نہیں۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

 "رشتوں میں صرف باپ، اور دیگر میں صرف استاد ہی وہ دو شخص ہیں جو بیٹے اور شاگرد کو زندگی کی دوڑ میں اپنے سے ایک قدم آگے دیکھنا چاہتے ہیں"۔

 میں علم و تقویٰ میں تو خیر ان سے کیونکر آگے نکل پاتا۔ معلوم نہیں ان کی آنکھوں میں کوئی ریڈار لگا تھا، یا کوئی مخفی قوت انہیں پہلے خبر دے دیا کرتی تھی۔ 42 سالہ مسلسل اور براہ راست تعلق میں ان سے ہزاروں مرتبہ آمنا سامنا ہوا لیکن خواہش اور بھرپور کوشش کے باوجود میں انہیں سلام میں پہل کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکا۔ بسا اوقات کہ جب انہیں خدشہ ہوتا کہ پہل کرنے میں شاید وہ کامیاب نہ ہو پائیں تو دور ہی سے باآواز بلند تجوید کے ساتھ السلام علیکم کانوں میں اچھال دیتے تھے۔

آپ نے جسٹس غزالی مرحوم کی حق گوئی و بے باکی کا بہت کچھ سن رکھا ہوگا۔ بعض افراد شاید اس کے چشم دید گواہ بھی ہوں۔ تاریخ سے البتہ گزارش ہے کہ اپنے صفحات میں ایک شہادت میری بھی مرقوم کر لے۔ آنجناب اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر حسن عبداللطیف شافعی کے غیر معمولی مداح تھے۔ کوئی سوا سال قبل میں نے ڈاکٹر شافعی کے احوال پر ایک اخباری مضمون لکھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے پڑھا تو اصرار کر کے مزید مضمون لکھوائے اور مرتے دم تک مصر رہے کہ مزید لکھوں اور لکھوں بھی تو ڈاکٹر شافعی کے علمی مرتبے پر۔ یہ ذرا ناممکنات میں سے تھا۔ انہی دنوں انہوں نے دو گھنٹے 48 منٹ فون کر کے مجھے علاوہ ازیں بے پناہ معلومات دیں۔ ان میں سے ایک بات ڈاکٹر شافعی کے بارے میں تھی۔ لیکن ان کی بے باکی سمجھانے کے لیے پہلے مجھے چند دیگر واقعات کا سہارا لینا ہوگا۔

ڈاکٹر شافعی اسلامی یونیورسٹی کے چار سال صدر رہے۔ صدر جامعہ یونیورسٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز 4 سال ہی کے لیے مقرر کرتا ہے۔ 4 سال پورے ہوئے تو بورڈ کا اجلاس نہ ہو سکا۔ یوں ڈاکٹر شافعی قائم مقام صدر جامع قرار پائے۔ 6 سال بعد بورڈ کا اجلاس ہوا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ روایت کے مطابق ڈاکٹر شافعی کے پچھلے دو سال کی توثیق کر کے انہیں مزید 2 سال کے لیے صدر جامعہ مقرر کر دیا جاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اجلاس میں ڈاکٹر شافعی کے پچھلے 2 سالوں کی توثیق تو کرا دی لیکن اگلے 2 سال کے لیے ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کو صدر جامعہ بنا دیا۔ اب آئیے واپس ڈاکٹر غزالی مرحوم کی طرف آتے ہیں۔ اسی مذکورہ طویل ترین فون پر اس بابت انہوں نے اپنے سگے بھائی کے بارے میں جو رائے دی وہ انہی کے الفاظ اور انداز بیان میں کچھ یوں تھی۔

"صاحب میں نے تو اس موقع پر بھائی صاحب (ڈاکٹر غازی مرحوم) سے کہہ دیا تھا کہ شافعی صاحب کے ہوتے ہوئے آپ کو یہ عہدہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے تھا. شافعی صاحب کے چھ سالہ عہد صدارت میں بھلا بتائیے، صاحب کیا عملاً‌ وہی صدر جامعہ نہیں تھے جبکہ ذمہ داری کلیتاً شافعی صاحب کی تھی۔ بھائی صاحب مرحوم بقیہ دو سال بھی یوں ہی گزر جانے دیتے۔ شافعی صاحب جس رنجیدگی کے ساتھ مصر واپس گئے تھے، وہ کس سے پوشیدہ ہے؟ بھائی صاحب کو شافعی صاحب کے ہوتے ہوئے یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا"۔

مرحوم کو جواب دینا میرے حسبِ حال نہیں تھا۔ لیکن میرے خیال میں صورت یوں رہی کہ منصب کے اعتبار سے ڈاکٹر غازی بورڈ کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور شاید ہوئے بھی نہیں۔ بطور ممبر نیشنل سیکیورٹی کونسل یا وفاقی وزیر کے بطور وہ کئی سال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام رہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ کسی دیگر حیثیت میں وہ بورڈ کے اس اجلاس میں شریک ہوئے یا نہیں،  دونوں صورتوں میں اپنی تقرری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جب فیصلہ ہو گیا تو ان کے منصب قبول نہ کرنے پر یونیورسٹی کا کوئی صدر نہ ہوتا کیونکہ بورڈ کا دوبارہ اجلاس فی الفور بلانا ناممکن تھا، لہٰذا مجھ خاکسار کی رائے میں ڈاکٹر غازی صاحب کا عمل "مباحات زیست" میں سے ایک مباح ہی تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر غزالی رحمہ اللہ کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ آپ نے کر لیا ہوگا۔ وہ غازی صاحب مرحوم کی وفات کے 13 سال بعد بھی ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے رہے جو ان کے دل و دماغ سے پھوٹ رہا تھا۔ ان کا اپنا ذخیرہ الفاظ لگی لپٹی سے خالی تھا۔

دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو اپنے قریب کہیں انہی جیسے صالحین، مستغنی اور ماہرین لسانیات کے جلو میں جگہ دے، آمین۔

شخصیات

(الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۴

احکام القرآن،عصری تناظر میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)
ڈاکٹر محی الدین غازی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
مجیب الرحمٰن شامی

چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز
ملی مجلس شرعی

بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

فقہ الصحابہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک
آرمی ریکگنیشن

جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز
ادارہ

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس
ادارہ

’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘
مولانا محمد اسامہ قاسم

Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter