ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے فکر کی ایک امتیازی خصوصیت فکری گہرائی اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ فکر میں موجود کلیئرٹی، وضاحت اور عصری معنویت ہے۔ ڈاکٹر صدیقی زمینی حقائق پر نصوص کی روشنی میں آزادانہ غوروفکر کرتے تھے اور آزادانہ رائے قائم کرتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک قدآور فکری رہنما تھے لیکن انہوں نے مولانا مودودی یا ابتدائی تحریکی مفکرین کی کھینچی ہوئی لائن کا خود کو کبھی اسیر نہیں بنایا، اس سلسلہ میں ان کے اندر زبردست خوداعتمادی اور جرأت مندی دیکھنے کو ملتی ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کا رخ اور مستقبل

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا احساس تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان کا سیاسی محاذ پر غیرضروری جھکاؤ تحریک کے مستقبل اور تحریک کے بنیادی مشن اور بنیادی فکر کو متأثر کردے گا، چنانچہ مولانا مودودی کے نام شکاگو سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں ڈاکٹر صدیقی نے جماعت اسلامی پاکستان کی موجودہ صورتحال کا بہت ہی بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور کچھ عملی قسم کے مشورے دیے ہیں، یہ خط اکتوبر 1972 کا ہے، اس کے درج ذیل اقتباسات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:

”دوسرا مسئلہ آپ کے ملک میں تحریک اسلامی سے متعلق ہے۔ روزمرہ سیاست سے تعلق اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ عام خاص سب کی نظر میں وہ طویل المیعاد اصولی حیثیت باقی نہیں رہی جو تحریک کا مابہ الامتیاز بھی تھی اور جس سے اونچے نتائج کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ جو بنیادی کام صبر کے ساتھ مسلسل کیے چلے جانا چاہیے تھا ان پر بھی اتنی متلاطم سیاست میں الجھنے سے اثر پڑنا لازم ہے۔ گزشتہ دو سال کے واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام ابھی بہت بنیادی قسم کی اصلاح وتربیت کے محتاج ہیں۔ عام افراد معاشرہ کو تقلید جامداور لیڈروں کے اندھے اتباع سے نکال کر خود سوچنے سمجھنے پر آمادہ کرنے اور جذباتی رسمی اسلام کی جگہ شعوری اسلام سے آراستہ کیے بغیرہم ان کی طرف سے اس سے مختلف رویے کی توقع نہیں کرسکتے جو انتخابات اور پھر حالیہ بحران میں سامنے آیا۔ اسلامی صفات حسنہ سے پہلے اور ان کی ضروری بنیادکے طور پر خود انسانی صفات پر زور دینے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ یہ کام تعلیم، حفظان صحت، اور معاش سے متعلق دوسرے ضروری کاموں کے ساتھ اگر گاؤں اور محلہ کی سطح پر آپ کے کارکنوں کے ذریعہ انجام پائے تب شائد وہ ٹھوس عوامی base بن سکتا ہے جو کسی بڑی اور گہری تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔“

آگے جماعت اسلامی پاکستان کی صورتحال اور اس کے تبدیل ہوتے رخ پر اپنا احساس درج کراتے ہوئے دنیا بھر کی اسلامی تحریکات پر ایک مختصر لیکن بہت ہی گہرا اور معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، اور پھر فکری محاذ پر توجہ دینے کا مشورہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مجھے یہاں (شکاگو) پاکستان کی تحریک سے وابستہ دوستوں کی اکثریت پر اب بھی سیاست ہی غالب نظر آئی، اس سے اور زیادہ توجہ اس بات کی طرف ہوئی کہ اپنی اسٹریٹجی میں بنیادی ترمیم کی ضرورت ہے، مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں پوری اسلامی دنیا میں اب کسی مشاہد کو تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں وہ امنگیں نہیں محسوس ہوتیں جو پندرہ برس پہلے تھیں۔ اپنے معاشرے کی کمزوریوں کا نئے سرے سے جائزہ لے کر مرض کی دوبارہ تشخیص کرنے اور علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے چند ماہ ہوئے ایک علمی ضرورت کے تحت آپ کی بعض بنیادی تصانیف بالخصوص سیاسی کشمکش حصہ سوم، تجدید واحیائے دین، اور تعلیمات وغیرہ کا مطالعہ پھر سے کیا تھا، میرا خیال ہے کہ وہ تجزیہ بڑی حد تک صحیح سمت میں تھا اور اسی سے میں یہ رائے اخذ کرتا ہوں کہ آج پاکستان میں تحریک کو یک گونہ کم سیاسی بناکر زیادہ مفید کام ہوسکتا ہے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 54)

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسین کے نام

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے مجموعہ خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1987کے آس پا س کے زمانے میں جدہ قیام کے دوران آپ کی سید منور حسین صاحب سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سے متعدد ملاقاتیں اور گفتگوئیں رہیں، ایک ملاقات میں ہوئی گفتگو کے حوالے سے ڈاکٹر صدیقی منور حسین صاحب کے نام اپنے مکتوب میں اسلامی انقلاب کے لیے سیاسی محاذ پر تبدیلی کی ضرورت سے متعلق ان کے موقف پر اپنے کچھ سوالات پیش کرتے ہیں، اس مکتوب سے جہاں منور حسین صاحب اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی رجحان اور اپروچ کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ڈاکٹر صدیقی کی فکری اپروچ اور ان کے رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے، لکھتے ہیں:

”آپ کی بعض باتوں نے سوچنے کی راہیں کھولی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مراسلت کے ذریعہ تبادلہ خیال جاری رہے، جیسا کہ عرض کیا تھا کہ ہماری سوچ یہ رہی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے دو محاذوں پر گہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے، فکری (ملاحظہ ہو تنقیحات کا مضمون نشان راہ اور رسالہ تعلیمات) اور اخلاقی (ملاحظہ ہو تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں نیز بناؤ بگاڑ)، آپ کی بات نے مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ ایک محاذ سیاسی بھی ہے۔ دو سوال پیدا ہوتے ہیں، سیاسی محاذ سے ہمارا مفہوم کیا ہے، اور یہ کہ اس محاذ کی اہمیت مذکورہ بالا دو محاذوں کی نسبت سے کیا ہے۔ یہ کس درجہ پر ہے۔ ان دونوں کے ہم پلہ ہے یا ان کے مقابلے میں ثانوی، دوسرے درجہ کا محاذ۔ان سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ انبیاء کے طریقہ انقلاب میں سیاست یا سیاسی محاذ پر کام کو کوئی مقام حاصل رہا ہے تو وہ کیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اس کے نظائر کیا ہیں وغیرہ۔

ہماری آپ کی گفتگو تو کراچی کے فسادات یا پاکستان کے حالیہ واقعات کے محدود سیاق میں ہوئی تھی، لیکن مذکورہ بالا سوال ایک اور وجہ سے اہم ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی صفوں میں ایرانی انقلاب کے بعد مولانا مودودی کے فکر (بالخصوص طریقہ انقلاب کی نسبت سے) پر تنقیدیں بھی کی گئی ہیں اور اسے غیرحقیقت پسندانہ، غیرتاریخی اور خیالی قرار دیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا سوال کے جواب میں اس بحث میں بھی مدد ملے گی، اگرچہ اصلاً اس کے اٹھانے والوں کا منشا اسلامی طریقہ انقلاب میں طاقت کے استعمال کا مقام متعین کرنا ہے۔ عام طور پر سیاسی عمل حصول اقتدار کی کوشش pursuit of power ہے۔ اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے اوپر کے سوالات کا جواب ضروری دیں۔ مولانا مودودی نے پاکستان آکر جو طریقے اختیار کیے یا جو ان کی مرضی سے جماعت اسلامی نے اختیار کیے، اسے اسلامی حکمت عملی کا نام دیا گیا، جو یقینا فکری اور اخلاقی محاذوں پر ایک اضافہ ہے۔ ہماری آپ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ سیاسی محاذ یا سیاسی عمل اور اس حکمت عملی میں اگر فرق ہو تو واضح کریں، نہ ہو تو دونوں کو ایک قرار دینے کی دلیل دیں۔“(حوالہ سابق، صفحہ: 215-216)

 مسلم تاریخ کا مطالعہ اور اسلامی موقف کی تعیین

عموماً اسلامیات اور مسلم تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یا اس پر لکھنے والے مصنفین مسلم تاریخ اور اسلامی موقف کے درمیان فرق نہیں کرپاتے، چنانچہ تاریخی غلطیوں کی تاویل کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے اور اسے اسلامی موقف ثابت کرنے یا کم از کم اسلامی موقف سے غیرمتصادم ثابت کرنے پر سارا زور لگادیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس سلسلہ میں بہت ہی واضح موقف رکھتے تھے، وہ اسلامی موقف کی تعیین یا اسلام کے فہم کے سلسلہ میں تاریخ کو حوالہ بنانے کے بالکل بھی روادار نہ تھے، چنانچہ ابونصر محمد خالدی کے ایک خط کے جواب میں بہت صاف طور پر لکھتے ہیں:

”آپ کے یہاں ایک خاص بات نظرآتی ہے جس سے اتفاق مشکل ہے، مسلمانوں کی تاریخ کو اسلام کے فہم کا ذریعہ بنانا، بلکہ اس پر قاضی اور حاکم بنانا، کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ ملوکی ہو یا جمہوری، آمری ہو یا متغلبانہ، ہر حکومت مرضی ئ الٰہی کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ وہ حکومت مرضی ئ الٰہی کے مطابق ہے جو (۱) امرہم شوری بینہم (۲)اذا تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ ورسولہ (۳) ما آتاکم منہ فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا، نیز ماکان لمومن ولا لمومنة اذا قضی اللہ ورسولہ امرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم، کے مطابق قائم ہو، اور اس کے مطابق حکمرانی کرے۔ خلافت کا انعقاد بھی شورائی ہو اور وہ چلے بھی انہی بنیادوں پر۔ اللہ کی کتاب اور رسول خدا کی سنت تاریخ پر قاضی ہے۔ اسی کی روشنی میں مسلمانوں کی تاریخ کو evaluate کرنا اور اس میں اسلامی اور غیراسلامی رجحانات واعمال اور اداروں کی نشاندہی کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کے برعکس۔ میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ تاریخ کے مطالعہ کا ایک بڑا حاصل حقیقت پسندی realismکا پیدا ہونا ہے، جو idealism میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھنے کو قرآن وسنت سے کوئی ”سلطان“ نہیں حاصل ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 82)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ابونصر محمد خالدی کے نام ایک دوسرے مکتوب میں مطالعہ تاریخ سے متعلق اپنا ذاتی موقف کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”تاریخ اسلام سے میری دلچسپی سراسر حال کے لیے سبق حاصل کرنے اور درپیش مسائل میں رہنمائی حاصل کرنے کی حد تک ہے، علمی اور اکیڈمک دلچسپی بالکل نہیں ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 93)

اجتہاد اور  ازسرنو غوروفکر کی ضرورت

اسلامی تاریخ کے مطالعہ پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں بنیادی اور کلی ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے دورجدید کے پیداکردہ مسائل پر ازسرنو غوروفکر کے عمل کو آگے بڑھانا ہے، قانون کے میدان میں کام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے بھی اجتہاد اور مختلف علوم اور مختلف مسائل پر ازسرنو غوروفکر کی طرف توجہ دلاتے ہیں، میکانکل ریسرچ یا محض تشریح، تفسیر اور تہذیب وتنقیح کے کام کے بجائے بامقصد ریسرچ پر زور دیتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ حالات کے تناظر میں ڈاکٹر صدیقی کے اس موقف کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے جبکہ ہماری یونیورسٹیز میں میکانکل ریسرچ کا رواج بڑھتا جارہا ہے، ڈاکٹر صدیقی کا ذیل کا اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

”اسلامی تاریخ کا ان شاء اللہ تفصیلی مطالعہ ہوگا، اور واقعہ یہ ہے کہ جاری ہے۔ معاشی امور اور عام اجتماعی مسائل کے سلسلہ میں خاص توجہ رہے گی، لیکن دور جدید نے ہمارے لیے جو مسائل پیدا کردیے ہیں ان کے ضمن میں مجھے اس طرف سے بہت زیادہ رہنمائی یا inspiration کی امید نہیں ہے۔ حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ بنیادی اور کلی ہدایات کو سامنے رکھ کر ایک دم نئے سرے سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ مجھے قانون کے میدان میں کام کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات وسیع معنی میں کہہ رہا ہوں، جس کے تحت معاشی وسیاسی زندگی کے مروجہ اداروں اور ہیئتوں کی اسلامی تشکیل نو کا کام آجاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم متجددین یا اسلام کو حالات کے مطابق ڈھالنے والے کہہ کر رد کردیتے ہیں وہ دراصل ایک حقیقی دباؤ اور ایک واقعی challengeکا جواب ہیں۔ ان کو رد کرکے ہم اس دباؤ اور چیلنج کو نہیں دفن کرسکتے۔ وہ اپنی جگہ پر ہے۔ اس کا ہماری طرف سے صحیح اقدام اور جواب کی شکل میں ردعمل نہ ہوا تو نتائج اسلام کے لیے بہت تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے میں mechanical research، اپنے مآخذ کی تشریح وتفسیر اور تہذیب وتنقیح سے زیادہ اہم، ہر اس کام کو سمجھتا ہوں جس کا اس اجتہاد سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہو، جس کے ذریعہ ہی اس وقت اسلام کا واقعی احیاء ونفاذ ممکن ہے، البتہ یہ کام بھی جاری رہنے چاہئیں“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 83)

انتہاپسندانہ رجحانات اور اسلامی تحریکات

جدید دور کی اسلامی تحریکات کے سامنے ایک بڑا چیلنج انتہاپسندانہ رجحانات کا بھی ہے، یہ رجحانات کس طرح فروغ پاتے ہیں، ان کا پس منظر کیا ہے اور ان کی بنیاد کیا ہوتی ہے، اسلامی تحریکات کا عموماً ان کے تعلق سے کیا رویہ ہوتا ہے، اور نئے عالمی نظام میں ان رجحانات کے لیے عملاً کہاں تک گنجائش موجود ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس پر بہت ہی مختصر لیکن فکرانگیز گفتگو کی ہے۔

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی امریکہ میں مقیم ایک بڑے اسلامی اسکالر ہیں، اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے تاسیسی صدر رہے، لیکن 1981میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد ان کا اس تنظیم سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا۔ آپ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے بھتیجے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی مرحوم احمداللہ صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 12 اپریل 1995 میں لکھتے ہیں: 

”بہت سی باتیں سوچنے کی ہیں۔ اس وقت دو اشوز پر loud thinking کرنا چاہتا ہوں۔ اسلامک موومنٹس جو1930سے 1940 میں شروع ہوئیں (اخوان، جماعت اور ان جیسی دوسری تحریکیں جو بالآخر اقتدار اسلامیین کے ہاتھوں میں لانے کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے) ایک ایسے حال میں ہیں کہ کسی progress کی امید نہیں رہی۔ اس کی تفصیل بعد میں۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بطن سے بعض ایسے گروہ پیدا ہوگئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے liability بن چکے ہیں۔ یہ کھل کر ان کو condemnنہیں کرتے، بلکہ ان کے فالوورس میں ان گروہوں کے لیے کافی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ یہ گروہ طاقت کے استعمال کے ذریعہ مقاصد حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ دوسروں کے لیے ان میں کوئی tolerance نہیں۔ زیادہ تر ہر مسئلہ میں شدت والی راہ اختیار کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے صدی کی ابتدا میں اٹھنے والی تحریکیں اس مفروضے پر چلی تھیں کہ اپنے ملک کی غالب اکثریت کو ساتھ لے لیا جائے تو مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ گلوبلائزیشن نے اس مفروضے کو ختم کردیا، جب تک world opinion کو ساتھ نہ لیا جاسکے کسی جگہ مقصد نہیں حاصل ہوسکتا۔ خاص کر dependent ملکوں میں کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بناسکتا، نہ economically نہ culturally۔ اپنے مقاصد کے ایسے interpretationکی ضرورت ہے جو اتصالات اور معلومات میں انقلاب کو اور انسانوں کے بدلے ہوئے حوصلوں کو سمجھ کر کیا گیا ہو۔ possiblities کی طرف سے غافل ہوکر priorities مقرر کرنا لاحاصل ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 289)

جہاد وقتال سے متعلق غیرمعتدل رویوں کی نشاندہی

برصغیر کی تحریکات اسلامی میں جہاد سے متعلق عموماً تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، ایک مولانا مودودی کا، دوسرا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا اور تیسرا مولانا عبدالعلیم اصلاحی کا۔

ڈاکٹر صدیقی مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور مولانا عبدالعلیم اصلاحی علیہ الرحمہ کی تعبیراتِ جہاد سے بالکل بھی متفق نہ تھے۔ ڈاکٹرصدیقی کا موقف تقریباً وہی تھا جو ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی ”جہاد اور روح جہاد“ اور ”جہاد اور آیات جہاد“ میں بیان کیا گیا ہے، اور علامہ یوسف القرضاوی نے بہت ہی تفسیل کے ساتھ ”فقہ الجہاد“ میں پیش کیا ہے، چنانچہ آپ اس موضوع پر ڈاکٹر سبحانی اور علامہ قرضاوی کی کتابوں کوبہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مولانا عبدالعلیم اصلاحی صاحب مرحوم ایک عرصہ تک جماعت اسلامی ہند کے رکن اور جماعت کی مرکزی مجلس نمائندگان کے ممبر رہے، مولانا اصلاحی جہاد کے سلسلہ میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، اور کئی پہلووں سے جہاد پر آپ کا موقف مولانا مودودی کے موقف کے مقابلے میں بہت سخت اور آگے کا تھا، آپ نے اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں جو طلبہ اور نوجوانوں کے ایک مخصوص گروہ کے درمیان ایک زمانے میں کافی مقبول بھی ہوئیں، ڈاکٹر صدیقی اپنے ایک مکتوب میں مولانا عبدالعلیم اصلاحی مرحوم کی جہاد سے متعلق کتاب کے سلسلہ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

”مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے اپنی ایک تازہ کتاب بھجوائی ہے، جہاد پر۔ پوری دنیا میں کسی کافر حکومت کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان پر حملہ کرکے ان کو ہٹانا ہے۔ جہاد کے لیے امیرالمومنین کا ہونا ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ہی فیصلہ کرے، چھوٹے مسلمان گروہ ایسے حالات میں جیسے کہ آج کل ہیں، اپنے کو جہاد کے لیے آرگنائز کرسکتے ہیں، بلکہ واجب ہے کہ کریں۔ مکی دور اب irrelivant ہے۔“

آگے اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”سوچنے کی دوباتیں ہیں: (۱) جدید دنیا میں طاقت کے استعمال کی جو limitationsہیں، خاص طور پر چھوٹے گروہوں کے لیے، اور اس پروسیس کو خفیہ طور پر ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرنے کے جو implications ہیں ان سے ہمارے یہ لکھنے والے کیوں اتنے غافل ہیں۔ (۲) دین کے تقاضوں، واجبات کو کتابوں اور زیادہ تر individual historical precedents کی اپنی مخصوص تعبیر کی بنیاد پر متعین کرنا، اس کے علی الرغم کہ اس کے عملی زندگی میں کیا نتائج مرتب ہوں گے، یہ طریقہ فکر ہمیں کہاں لے جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان باتوں سے چشم پوشی کرتے رہنے نے ہمیں brinkپر پہنچا دیا ہے، we must do something۔“ (حوالہ سابق، صفحہ 290)

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی کے نام ایک اور خط میں اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ بات کہ اس وقت تک جہاد، قتال کرنا ہے جب تک کافر حکومت کہیں بھی ہو اور اسے نص قرآنی ”حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ“سے مستنبط کرنا غور طلب ہے۔ جن ملکوں میں ڈیموکریسی اور آزادیئ مذہب ہے (پوری مغربی دنیا) ان پر منطبق کیجیے، تو ہماری اب تک کی تعبیر absurdمعلوم ہوتی ہے۔ یہاں کوئی بادشاہ یا سردار قبیلہ نہیں، جو انکار کردے تو اس کو لڑکر ہٹادینا عام لوگوں کو دعوت یا ان کو قبول دعوت کا موقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ عوام کو دعوت کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ عوام دعوت قبول کرلیں تو حکومت بدلنے کا راستہ کھلا ہوا ہے، پھر لڑائی کیوں اور کس سے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں، ہماری زندگیاں اور ہمارے بہت سے interpretationلوگوں کے قبول اسلام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر عوام کسی ملک کے دعوت نہ قبول کریں تو پھر لڑ کر وہاں اسلامی حکومت قائم کرنی ضروری ہے، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 290-291)

عصر حاضر میں دین کی دعوت

جدید دنیا میں دعوت دین کا طریقہ کار اور منہاج کیا ہوگا، اور اس سلسلہ میں کون کون سے اسلوب اختیار کیے جاسکتے ہیں، یہ ایک تفصیلی بحث ہے، جس پر مختلف مصنفین اور داعیوں نے اپنے اپنے تجربات، مطالعات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف پہلووں سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے جماعت اسلامی کیرلا کے سابق امیرمرحوم کے سی عبداللہ صاحب کے ایک مقالہ بعنوان ”غیرمسلموں میں براہ راست دعوت“ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں دونکات پیش کیے ہیں، پہلا نکتہ اسلوب دعوت سے متعلق ہے اور دوسرا نکتہ دعوت اوراس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں سے متعلق ہے، اسلوب دعوت سے متعلق لکھتے ہیں:

”عصر حاضر کے مزاج کو سمجھ کر ہم نے دنیوی مسائل کے حل کو بھی آخرت کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بنایا اور اس میں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ”میری اطاعت کرو“ صرف نبی مرسل کی دعوت کی شان ہوتی ہے، ہم اس کی نقل نہیں کرسکتے۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ’دعوت کیسے دی جائے‘ کے جواب صرف کتابوں میں تلاش کرنے کے بجائے مخاطب فرد اور قوم اور دنیا کو دیکھ سمجھ کر طے کرنا چاہیے اور ماضی کے دعوتی تجربوں سے بھی سیکھنا چاہیے۔“ 

 آگے دعوت دین اور اس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

”واقعہ یہ ہے کہ نہ تو مخالفت کی شدت اس بات کی دلیل ہے کہ دعوت ٹھیک طرح دی جارہی ہے، نہ مخالفت نہ ہونے سے لازماً یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دعوت ٹھیک طرح نہیں دی جارہی ہے۔ حق وباطل اور حکمت اور خلاف حکمت انداز کے معیار قرآن وسنت، تاریخ اور آج کے عملی تجربے سے اخذ کیے جانے چاہئیں۔ میرے خیال میں ان میں سے کوئی بات شدت مخالفت کو معیار حق اور حکمت دعوت کی کسوٹی بنانے کی تائید نہیں کرتی“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 286-287)

حقیقت پسندی کی طرف دعوت

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مرحوم ڈاکٹر صدیقی کے دیرینہ رفیق تھے، آپ ثانوی درسگاہ رام پور کے مایہ ناز فارغین میں شمار ہوتے تھے،آپ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوری کے ایک مؤثر رکن تھے، ڈاکٹر فریدی ایک عرصے تک ماہنامہ زندگی نو کے مدیر رہے، اس دوران ڈاکٹر صدیقی سے وہ مختلف فکری اور نظریاتی امور ومسائل پر رائے مشورہ لیتے رہا کرتے تھے۔

ڈاکٹرفریدی مرحوم کے نام ایک خط میں بدلتے ملکی وعالمی منظرنامے کے تناظر میں جماعت اسلامی ہند کی پالیسی وپروگرام میں ترجیحات کے تعین کے مسئلہ پر دوٹوک الفاظ میں لکھتے ہیں:

”میں سمجھتا ہوں کہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اگر تحریک نے بھی اپنے اولویات (priorities) درست نہ کیں اور اہم تر کاموں کو مرکز توجہ نہ بنایا تو بالکل ناقابل اعتناء اور Irrelevent ہوکر رہ جائے گی“۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جذباتی اپروچ اور جذباتی اپیل والے اسلوب کے سخت ناقد تھے، چنانچہ ڈاکٹر فریدی کے نام ایک خط میں جذباتی اپیل کے بعض مروجہ طریقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حقیقت پسندی اور موجود کے سچے اعتراف والی اپروچ اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”بعض جذباتی اپیل کے طریقے اس صدی کے شروع سے ایسے استعمال کیے جارہے ہیں کہ جن کا شروع میں فائدہ تھا، مگر اب منفی اثر ہوتا ہے، وہ آپ کی تحریر میں اب بھی پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اپنی بڑائی اور بہتری دوسروں سے زیادہ صالح، لائق، ہوش مند، دردمند ہونے کا احساس، اس کی توثیق اور اس احساس برتری کو مزید راسخ کرکے اس کی بنیاد پر اپیل، لہٰذا تم ہی انسانیت کو بربادی سے بچاسکتے ہو، مہربانی کرکے آگے بڑھو۔ عملاً اس طرح سے آگے تو کوئی نہیں بڑھتا، البتہ نفس موٹا ہوتا ہے، احساس برتری کی افیون عملی دنیا کی ذلت، کمزوری، لاچاری، خودکردار کی کمزوری اور اخلاقی زوال سے چشم پوشی میں مددگار ہوتی ہے اور بس۔

اس کے بجائے حقیقت واقع کی بنیاد پر مسلمانوں کو ان کی موجودہ صورتحال، مادی اور اخلاقی پستی کا خطرناک سطح تک پہنچ جانا، دکھلانے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھانے کی کہ اسلام کی دعوت اور خود اسلامی زندگی گزارنے والوں کے لیے اس حالت کو بدلنا ضروری ہے۔

دوسروں کی مظلومیت، کرپشن، اخلاقی زوال وغیرہ پر بھی بعض اوقات تبصرہ اس طرح آتا ہے کہ پڑھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ اپنوں میں بھی یہ مرض عام ہے، اس سے بھی بالواسطہ صرف مسلمانوں کی اَنا کی تشفی ہوتی ہے، قوت عمل میں اضافہ نہیں ہوتا۔“  (حوالہ سابق، صفحہ: 278-279)

علم وتحقیق کے کام میں معروضیت

علمی اور تحقیقی کاموں میں بھی ڈاکٹر صدیقی معروضیت، حقیقت پسندی اور موجود کے صحیح صحیح اعتراف پر زور دیا کرتے تھے، ڈاکٹر طاہر بیگ صاحب سابق اسسٹنٹ پروفیسر ملیشیا یونیورسٹی نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمت میں مسلمان ملکوں کے درمیان تجارتی تعاون کے موضوع پر ایک مقالہ بغرض اصلاح ارسال کیا تھا، ڈاکٹر صدیقی اس مقالے پر قدرے تفصیلی نوٹس چڑھانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”آخر میں میرا اجمالی تأثر یہ ہے کہ یہ پورا مقالہ ایک ایسے جذباتی ریسرچ کی عکاسی کرتا ہے (اور اس موضوع پر شائع شدہ دوسرے مقالے اور کتابیں بھی اس میں شریک ہیں) جو انیسویں صدی کے آخر، بیسیوں صدی کے ابتدائی نصف کی اسلامی اور Pan Islamic تحریکوں کی پیداوار تھا، جس کے قدم حقائق وواقعات میں کم، خواہشات اور تمناؤں میں زیادہ راسخ تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف دنیا کی بلکہ اسلامی حلقوں کی حالت کافی بدل چکی ہے، اور گزشتہ رجحانات وخیالات پر نظرثانی کی ضرورت ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 241-242)

ہندوستانی مصنف حفظ الرب صاحب کی کتاب ”نظام سرمایہ داری اور اسلامی معاشیات“ کے حوالے سے مصنف کے نام ڈاکٹر صدیقی کے مکتوب میں بھی یہ اپروچ بہت واضح طور پر نظر آتی ہے، کئی پہلووں پر توجہ دلانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”آپ کا یہ دعوی کہ صرف سود کے خاتمہ اور زکوۃ کے نفاذ سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوکر عدل وانصاف ہی نہیں ترقی وخوش حالی کی ضمانت حاصل ہوجائے گی، درست نہیں ہے۔ افسوس کہ آپ نے دورجدید میں ان مسائل پر اسلامی معاشیات دانوں کی تحریریں بھی نہیں دیکھی ہیں کہ معتدل رائے قائم کرسکیں۔ موجودہ دنیا کے معاشی اور مالی مسائل بہت پیچیدہ ہیں، ان کا تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ بے شک سود کا خاتمہ اور زکوۃ کا نفاذ ان مسائل کے حل کے لازمی ارکان ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اور کیا کرنا ہے۔ رہے ہندوستانی مسلمان، اور مسلمان ممالک کے مسلمان تو ان کا اصل مسئلہ پسماندگی ہے۔ ان کے کرنے کا پہلا کام ہنر سیکھنا، محنت کرنا، ایجاد واختراع، ترقی اور معاشی قوت کا حصول، اور بالآخر دنیا میں اپنی موجودہ کمزوری، لاچاری اور کسمپرسی کی حالت جو ان کو بھیک مانگنے اور دوسروں کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کرتی رہتی ہے، سے نکل کر عزت نفس کے ساتھ خودکفیل بلکہ دوسروں کو دینے والے بننے کی کوشش کرنا ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 139-140)

خواتین سے متعلق صحیح علمی اپروچ

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے خطوط میں ایک خط مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے نام بھی ملتا ہے۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ایک عرصے تک ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ رہے، ’اسلام کا نظریہ جنس‘ سلطان اصلاحی مرحوم کی معروف تصنیف ہے۔ مولانا سلطان اصلاحی کے نام اپنے ایک مکتوب میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم اس کتاب پر اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے متعدد اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جس میں ایک اہم مسئلہ خواتین سے متعلق موقف اور اپروچ کا بھی ہے، لکھتے ہیں:

”کتاب کا لہجہ بدلنا ضروری ہے۔ ہمارے مصنفین نے ابھی تک جو ادب اسلام اور عورت کے عنوان سے پیش کیا ہے اس سے پڑھنے والا یہ تأثر قائم کرتا ہے کہ خدائے تعالی نے دنیا مردوں کے لیے بنائی ہے۔ رہیں عورتیں تو وہ بھی مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مگر کتاب اللہ صاف کہتی ہے کہ تکلیف شرعی مرد کی طرح عورت کے لیے بھی ہے۔ قیامت میں وہ اکیلی مستقل بالذات جواب دہ ہوگی اور وہ خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملاً میں مرد کی طرح برابر کی مخاطب ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آپ کی تحریر اس تأثر کو کم نہیں کرتی بلکہ اسی مزاج میں بہتی نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب مرد ہیں۔ رہی مسلمان عورت تو اس کا ذکر اس طور پر تو آتا ہے کہ اس سے کس طرح مسلمان مرد لطف اندوز ہو مگر اس کے آگے اس سے تخاطب مفقود ہے، کیوں؟ اللہ تعالی نے تو ”وانتم لباس لہن“ کہہ کر بات پوری کی ہے۔

صفحہ 74 پر ایک آدھ جگہ انسان کا لفظ استعمال ہوا، مگر یہاں بھی سیاق سے انسان کے معنی مرد ہی کے بنتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ آپ مسلمان عورت سے مخاطب ہوتے اور بتاتے کہ وہ اس مودۃ اور رحمۃ کو کیسے حاصل کرسکتی ہے اور کیسے دے سکتی ہے، جس کا قرآن سورہ 30 آیت 21 میں ذکر ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ پچھلی صدی یا اس صدی کے شروع تک مسلما ن علماء جب کتاب لکھتے تھے تو غیرشعوری مفروضہ یہ ہوتا تھا کہ اسے پڑھنے والے صرف مرد ہوں گے۔ مسلمان عورتیں یا تو ناخواندہ ہوتی تھیں یا علمی کتب ان کی دسترس سے باہر تھیں۔ بیسویں صدی کے آخر میں یہ صورتحال نہیں رہی۔ مزیدبرآں اب آپ کی کتاب مغرب کی وہ خواتین بھی پڑھیں گی جن کو اپنی اس رائے کے حق میں دلیل چاہیے کہ اسلام عورت کو برابر کے انسان کا درجہ نہیں دیتا“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 157-158)

مغربی معاشرت پر تنقید میں توازن

امریکہ، یوروپ اور مغربی تہذیب ومعاشرت پر تنقید اردو مصنفین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، اس موضوع پر قلم اٹھانے والے اکثر افراد یا تو ثانوی حوالوں پر اعتماد کرتے ہیں یا پھر سنی سنائی باتوں کو اپنی تحریروں کا حصہ بنالیتے ہیں، چنانچہ یہ تنقیدیں اپنے اندر کئی قسم کی کمزوریاں رکھتی ہیں، ان تحریروں میں حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہوتا، معروضیت نہیں پائی جاتی، اکیڈمک معیارات پر پوری نہیں اترتیں اور پھر ان سے ایک قسم کا منفی رجحان پروان چڑھتا ہے جو بہرحال کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوتا۔ مولانا سلطان اصلاحی مرحوم کے نام مذکور بالا مکتوب کے آخر میں ڈاکٹر صدیقی امریکہ اور مغربی دنیا کے طرز معاشرت پر تنقید کے سلسلہ میں توازن اور معروضیت اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”آپ کا پورا باب اوّل غیرمتوازن ہے۔ اس باب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اسلام کی تعلیمات متعلقہ جنس کے بیان کے لیے مغرب اور امریکہ کی بے راہ روی سے آغاز کیوں ضروری ہے؟ جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا اس سے امریکہ کی زندگی کا یک طرفہ غیرمتوازن نقشہ سامنے آتا ہے جس سے ان لوگوں کی نظر میں تحریر کا وقار گرتا ہے جو توازن کے ساتھ رائے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح کی تحریروں کا گزشتہ دنوں زوال کے شکار مسلمانوں کی اَنا کی تسکین مقصد رہا ہے۔ اس سے وہ اپنی خرابیاں اور کمزوریاں بھول جاتے ہیں اور جن کے قدموں کے نیچے پامال ہورہے ہیں ان کو گمراہ اور تباہی کے گڈھے کی طرف تیزی سے بڑھنے والا یقین کرکے تھوڑی تسلی ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی تحریروں کا کوئی ایجابی عمل موضوع زیربحث میں سمجھ میں نہیں آتا“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 159)

(جاری)


شخصیات

(مارچ ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter