غالباً ۲۰۰۹ء کے گرما کی بات ہے، جسٹس محمود احمد غازی نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: "سید سلمان ندوی پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ کچھ احباب کو گھر عشائیے پر بلاتے ہیں۔ ذرا اچھا وقت گزر جائے گا"۔ پھر مجھے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری, پروفیسر فتح محمد ملک اور سید سلمان ندوی کو میری طرف سے عشائیے پر مدعو کریں۔ ڈاکٹر یوسف فاروقی، غزالی آپ اور میں تو ہوں گے ہی۔ یوں یہ کل 7 افراد ہو جائیں گے۔ آپ کسی اور کو بلانا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔" میں نے جسٹس امجد علی صاحب کا نام تجویز کیا۔ جسٹس صاحب کے قانونی فہم نے تو مجھے کبھی متاثر نہیں کیا تھا لیکن پلاٹوں کا جال اٹھائے جب انتظامیہ نے عدلیہ کا قلعہ فتح کرنے کا ارادہ کیا تو جسٹس صاحب نے بلا تامل دور سطری خط لکھ دیا: "میرا اپنا مکان موجود ہے۔ مجھے مزید کسی پلاٹ کی حاجت نہیں"۔ تب سے انہوں نے مجھے اپنا بندہ بے دام بنا لیا۔ ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ کی خواہش پر یہ تمام شرکا وقت مقررہ پر ان کے گھر واقع جی الیون میں تشریف لائے جہاں ساڑھے تین گھنٹے کی دلفریب نشست ہوئی۔
اس رات علم و دانش کے یہ چوٹی کے نمائندہ رتن حالات حاضرہ، علم و ادب، امت مسلمہ اور پاکستان جیسے موضوعات پر بلا تکان گفتگو کرتے رہے۔ شروع ہی میں مجھے میری قوت مشاہدہ نے ٹہوکا مار کر ڈاکٹر غزالی صاحب کی طرف متوجہ کر دیا۔ پھر میں دیگر کی طرف واجبی سا لیکن اصلا انہی کی طرف متوجہ رہا۔ اس رات ہر شخص نے کسی نہ کسی موضوع پر رائے دی, باہم اختلاف کیا, دیگر کو کسی نئے پہلو سے روشناس کرایا, دلائل کے ذریعے اسے نظر انداز کرنے کا داعیہ پیش کیا۔ لیکن صاحب ! اس رات میں نے غزالی صاحب کو سنا بھی تو کس انداز میں، ملاحظہ کیجیے ! "اچھا" ؟ "جی ہاں" ! "کیا واقعی" ؟ "ارے واہ, بھئی کیا کہنے" ! "آپ کا خیال صائب ہے، میرا کچھ کہنا تو محل نظر ہی ہوگا"۔ "جی آپ درست فرما رہے ہیں۔" حتی کہ کسی نے نظریں ملا کر براہ راست مخاطب ہو کر بھی ان کی رائے لینے کی کوشش کی تو اسے ہلکے سے قہقہے ساتھ یوں جواب ملا: "بھئی واہ! آپ کا استفسار ہے تو لائق توجہ, لیکن میں نے اس موضوع پر کبھی غور نہیں کیا۔ بھائی صاحب (غازی صاحب) سے پوچھ لیتے ہیں۔ وہ جانتے ہوں گے"۔
اپنے علم اور قوت مدرکہ کے اعتبار سے ڈاکٹر غزالی مرحوم ان شرکائے مجلس میں سے متعدد سے کہیں آگے تھے، کہیں بہتر تھے۔ لیکن مجلسی زندگی کا خوب ادراک رکھنے والے جسٹس غزالی مرحوم کے نزدیک اظہار رائے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہوا کرتا تھا کہ بڑوں کے سامنے لب کشائی نہ کی جائے۔ مذکورہ مجلس کے تمام شرکا غزالی صاحب سے عمر میں بڑے تھے۔ جسٹس صاحب کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں سے احباب واقف ہوں گے۔ استغنا، خودداری، دبنگ انداز گفتگو، صاحبان اختیار سے کوسوں دوری، علم و دانش کی رفعتوں سے معموری، حسن بیان، تلفظ کی باریکیوں پر نظر، لب و لہجے پر قدرت، الفاظ پر گرفت، یہ سب خصائص اپنی جگہ لیکن ان کا یہ پہلو بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ مجلس میں وہ بڑے بھائی کے سامنے خاموشی کو ردائے حکمت و دانش بنا کر اس کے پیچھے جا چھپتے کہ اسی میں عافیت ہے۔
ان کی ہفت رنگ شخصیت کا ایک وہ پہلو ہے جس کا مشاہدہ شاید میں ہی کر سکا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ جس رنگ کا میں اب ذکر کرنے جا رہا ہوں، وہ شاید ہی کسی اور کے علم میں ہوگا۔ اور وہ ہے ان کی غیر معمولی اور بے پناہ ذہانت۔ کئی احباب یہ جملہ پڑھ کر مسکرا دیں گے لیکن کتنی غیر معمولی ذہانت؟ یہ میں ہی آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ان کا دماغ، یوں سمجھ لیجئے، کمپیوٹرائزڈ دماغ تھا جس کی کوئی اور مثال میرے پاس نہیں ہے۔ یونیورسٹی ہال میں شیخ الازہر کی فی البدیہہ تقریر جاری تھی۔ ڈاکٹر غزالی بغیر نوٹس لیے ترجمہ کیے جا رہے تھے۔ کیا کیا بتاؤں, شیخ الازہر بے تکان بولے جا رہے تھے اور مجال ہے، غزالی صاحب نے ترجمہ کرتے وقت کسی شوشے کامے کو بھی نظر انداز کیا ہو۔ شیخ الازہر نے دو مواقع پر ۱۰ - ۱۲ اکابر کے نام پورے آداب و القاب کے ساتھ لیے لیکن مجال ہے کہ ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر غزالی نے کوئی نام آگے پیچھے کیا ہو یا کسی کا کوئی لقب, کنیت, عہدہ یا کوئی معمولی سا جزو ادا ہونے سے رہ گیا ہو۔ جس ترتیب سے شیخ الازہر نے نام ادا کیے، کسی معمولی فرق کے بغیر غزالی صاحب نے اسی ترتیب سے سب نام جوں کے توں دہرا دیے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ریاضی کے منضبط فارمولے پر کوئی مشین بول رہی ہے ایک حرف کم نہ آدھا بیش۔
کم و بیش ساڑھے ۴ عشروں پر محیط ہمارے تعلقات ہمیشہ بصورت دھوپ چھاؤں رہے، تعلقات جن میں گاہے کبیدگی آ جاتی اور کبھی تعطل کا شکار ہو جاتے۔ شکر رنجی تو ہماری سلام دعا کا ہمیشہ جزو لاینفک رہی۔ پچھلے سال ڈاکٹر شافعی پر میری ایک تحریر انہیں کیا پسند آئی کہ پڑھتے ہی فون کیا اور ۲ گھنٹے ۴۸ منٹ تک انہوں نے میری معلومات میں وہ وہ اضافے کیے کہ اللہ دے اور بندہ لیتا جائے۔ آخر میں پوچھا: "میری یہ گفتگو ریکارڈ کر رہے ہیں نا آپ"؟ میں نے کہیں کہہ دیا: "جناب اجازت کے بغیر میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں"؟ فوراً خفا ہو گئے اور یہ کہہ کر فون جھٹکے سے بند کر دیا: "تو گویا میں ایسے ہی بولتا رہا، آپ اتنی باتیں یاد رکھنے والے کہاں"؟ اور مجھے ٹھنڈی چھاؤں سے نکل کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا ہونا پڑا۔ بس یہی ہمارے تعلقات کی دھوپ چھاؤں ہوا کرتی تھی۔ لیکن چند دن بعد مجھے برستے بادل کا سایہ پھر مل گیا۔ ۶ نومبر ۲۰۲۲ء کو ان کا واٹس ایپ ان کے اپنے مخصوص انداز میں یوں تھا: "۔۔۔۔چلیں یوں کریں جب فرصت ملے آ جائیے۔ کل مجھے اے ایف آئی سی میں اینجیو گرافی کے لیے داخل ہونا ہے۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ کچھ دیر قیام و طعام ہوگا۔ پھر کلام ہوگا۔ ہلکا پھلکا ملام بھی رہے گا۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھونسلوں میں منام ہوگا"۔
موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں بغیر اجازت لیے فورا انہیں فون کر گزرا اور ذرا زور دے کر کہا: "میں اے ایف آئی سی میں رات کو آپ کے ساتھ قیام کروں گا"۔ خیال تھا کہ یوں خوب باتیں کرنے کا موقع ملے گا, مان گئے۔ لیکن اگلے دن تحریک انصاف کے مظاہروں کے باعث راستے بند ہو گئے، مجھ سے راستوں کا احوال پوچھتے رہے۔ پھر واٹس ایپ یوں ملا: "اب چونکہ صورت حال ایمرجنسی کی ہے۔ اس لیے کل کا پروگرام منسوخ"۔ لیکن اپنی صحت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی سوئی وہیں شافعی صاحب پر جوں کی توں اٹکی ہوئی تھی۔ ۱۲ نومبر کو ان کا واٹس ایپ اپنے متعلق یا اپنی خیر خیریت پر نہیں، یوں تھا: "شافعی صاحب پر اگلا مضمون کب آئے گا؟"
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟