مولانا انور شاه کاشمیری ؒ كے درس حدیث کی خصوصیات

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ  کی علمی زندگی کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تصنیف کے میدان کے آدمی نہیں تھے ،آپ کا اصل میدان تدریس تھا، اس لیے ان کے علمی ورثہ  کے طور پر جتنی بھی کتب ملتی ہیں ان میں سے اکثر امالی و تدریسی تقریرات کی شکل میں ہیں ، جن کو ان کے بعد ان کے جلیل القدر شاگردوں نے  ترتیب و تدوین سے آراستہ کیا ۔ ایک موقع پر ان کے ایک شاگرد مفتی محمود صاحب نانوتوی ؒ نے فرمایا:

"ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے زیادہ کامیاب کوئی مصنف اور حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ سے بڑھ کر کوئی مدرس پیدا نہیں ہوا۔"1

گویا شاہ صاحب ؒ میدان تدریس کے شاہ سوار تھے ۔ انہوں نے اپنا میدان مطالعہ چونکہ قدیم کتب کو بنائے رکھا اس لیے اگر کوئی کتاب تصنیف بھی کی تو اس میں وہی پرانا اسلوب واضح نظر آتا ۔  ایک موقع پر انہوں نے اپنی کوئی تالیف اپنے استاد حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کو سنائی تو انہوں  نے اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہا:

"شاہ صاحب اس کی شرح بھی لکھ دیجئے تاکہ اساتذہ بھی اس سے استفادہ پر قادر ہو سکیں" 2

اسی لیے ان کےہمہ جہت  کام کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ان کے درس حدیث کی خصوصیات کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے ۔ ذیل میں ہم ان کے درس کی نمایاں خصوصیات کا تذکرہ کریں گے ۔

تفصیل واطناب

اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب ؒ کو مضبوط قوت حافظہ سے نوازا تھا ، اس کے ساتھ ان کا مطالعہ بھی کافی وسیع اور متنوع  تھا ۔ حدیث کی تشریح میں وہ علوم و فنون میں اپنی پوری مہارت  کو استعمال کرتے ۔  اسی وجہ سے درس صرف درس حدیث ہی نا ہوتا بلکہ متنوع علوم کا مجموعہ ہوتا جن کو حدیث کی مراد متعین کرنے کے لیے آپ انتہائی سلیقہ سے استعمال کرتے ۔ یہی نہیں بلکہ ان علوم کے مباحث خلافیہ میں بھی مجتہدانہ رائے رکھتے ۔ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں :

"میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ جیسے حدیث کے متعلق شاہ صاحب ؒ کے درس میں گر کی باتیں معلوم ہوتی رہتی تھیں ، ایسی باتیں جن سے تاثرات میں غیر معمولی انقلاب پیدا ہو جاتا تھا ، یہی حال دوسرے علوم و فنون کے متعلق تھا ۔ درس تو ہوتا تھا حدیث کا لیکن شاہ صاحب کی ہمہ گیر طبیعت  نے معلومات کا جوگرانمایہ قیمتی سرمایہ ان کے اندر جمع کر دیا تھا ، وہ ان کے اندر سے بے ساختہ چھلکتا رہتا تھا۔"3

مولانا انظر شاہ مسعودی ؒ ان کے درس حدیث کا شاہ ولی اللہ ؒ کے درس حدیث سے موازنہ  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"شاہ ولی اللہ ؒ کا طریق درس حدیث کی ضروری وضاحت سے زیادہ نہیں تھا ۔ مولانا گنگوہی ؒ اور مولانا نانوتوی ؒ نے اس میں فقہ حنفی کے مآخذ کی نشاندہی کا اضافہ کیا ، لیکن مولانا کشمیری قدس سرہ العزیز نے عام درس گاہی طریق درس میں یکسر انقلاب برپا کیا ۔ آپ نے حدیث کی شرح و تفصیل میں صرف و نحو ، فقہ و اصول فقہ ، معانی و بلاغت ، اسرار و حکم ، سلوک و تصوف ، فلسفہ و منطق ، سائنس و عصری علوم کا ایک گرانقدر اضافہ ، رجال کی بحثیں ، مصنفین و مولفین کی تاریخ و سوانح ، تالیفات و تصنیفات پر نقد و تبصرہ آپ کے درس کا ایک امتیاز تھا ۔ اس کے نتیجہ میں درسی تقریریں بجائے مختصر ہونے کے طویل ہو گئیں ۔" 4

اس کے ساتھ آپ کا مقصد  ذہین طلبہ کو مطالعہ کے ذوق و سلیقہ سے روشناس کروانا بھی ہوتا تھا ۔ آپ درس کے دوران کتب کا ایک انبار اپنے ساتھ رکھتے اور مختلف مباحث میں طلبہ کو اصل کتاب کے حوالے کتاب سے دکھاتے تاکہ طلبہ علی وجہ البصیرہ اس سے واقفیت کے ساتھ اس کتاب سے اس کا مطالعہ بھی کر سکیں ۔ مولانا گیلانی ؒ اس ضمن میں رقم طراز ہیں :

"وہ اپنے عہد کے طلبہ کی علمی بے بضاعتیوں  کا اندازہ کر کے تکلیف اٹھا کر علاوہ موضوع درس کے چند خاص امور کا تذکرہ التزاما اپنے درس میں ضرور فرمایا کرتے تھے ، مثلا جن مصنفین کی کتابوں کا حوالہ دیتے ان کی ولادت و وفات کے سنین کے ساتھ ساتھ مختصر حالات اور ان کی علمی خصوصیت ، علم میں ان کا خاص مقام کیا ہے ؟ ان امور پر ضرور تنبیہ کرتے چلے جاتے ۔ یہ ان کا ایسا اچھا طریقہ تھا ، جس کی بدولت شوقین اور محنتی طلبہ ان کے حلقہ درس میں شریک ہو کر علم کے ذیلی سازو  سامان سے مسلح ہو جاتے تھے یا کم از کم مسلح ہونے کا ڈھنگ ان کو آ جاتا تھا ۔" 5

درس کی ان خاصیت کے پیش نظر شاہ صاحب ؒ کے بہت سے شاگردوں کو بطور دلیل کے پیش کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے ان کے درس سے استفادہ کیا اور ایک ہی وقت میں متنوع  تحقیقات و معلومات کے حاصل ہونے کی وجہ سے ان کے علمی حوصلوں میں وسعت ، گہرائی و گیرائی پیدا ہوئی اور مستقبل میں انہوں نے علمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ۔ شاہ صاحب کے اسلوب درس کی اس افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  قاری محمد طیب صاحب ؒ اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں :

"حضرت ممدوح کی اس تبحر پسندی اور ذوق زیادۃ علم کا نتیجہ یہ تھا کہ طلبہ میں بھی وہی ذوق تبحر پیدا ہونے لگا ۔ ہر طالب علم کوشش کرتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تحقیق کے ساتھ مسئلہ کی تہہ تک پہنچے ۔ اس دور میں ہر چھوٹے بڑے کا یہ ذہن بن گیاتھا اور اس کے آثار زمانہ طالب علمی ہی میں نمایاں ہونے لگے تھے۔

چنانچہ اس زمانہ کے متعدد طلباء دورہ حدیث نے اچھے اچھے قابل قدر رسالے اور مضامین سے اپنے علمی تبحر کا ثبوت دیا ۔ میں نے ادب و تاریخ کے سلسلہ میں رسالہ " مشاہیر امت" لکھا۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم (سابق مفتی اعظم پاکستان ) نے " ختم النبوۃ فی القرآن " اور " ختم النبوۃ فی الحدیث" کا رسالہ دو جلدوں میں مرتب کیا۔ مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی  نے " کلمۃ السر فی حیوۃ روح السر" لکھا ۔ مولانا بدر عالم میرٹھی نے بھی کئی رسالے لکھے اور تقریبا دو تین سال کے عرصہ میں احاطہ دار العلوم سے اٹھارہ ، انیس رسالے شائع ہوئے ۔

یہ درحقیقت وہی ذوق تھا جو حضرت ممدوح کے درس حدیث سے طلبہ لے کر اٹھتے تھے اور علمی طور پر اپنے اندر زمانہ طالب علمی ہی میں ایک ایسی قوت محسوس کرنے لگتے تھے کہ گویا وہ تمام علوم و فنون پر حاوی ہیں اور علم ان کے اندر سے خود بخود ابھر رہا ہے ۔ وہ کتب بینی محض عنوان بیان تلاش کرنے کے لیے کر رہے ہیں ۔"6

اس انداز تدریس سے ذی فہم و ذی استعداد طلبہ ہی کما حقہ مستفید ہو سکتے تھے ، دوسرے اور تیسرے درجے کے طلبہ اگرچہ اس طرح فائدہ حاصل نا کر پاتے لیکن  متعلقہ علوم و معارف کو سن لینا اور ایسے مباحث پر یک گونہ اطلاع حاصل کر لینا بھی کسی نعمت سے کم نا تھا ۔ اس انداز تدریس کو نبھانا بھی ہر استاد و معلم کے بس کی بات نہیں ہوتی ، جس قوت حافظہ ، استحضار علوم اور قوت بیان کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی ۔  مولانا  محمد انظر شاہ صاحب ؒ اسی کیفیت کومولانا حسین احمد مدنی ؒ کے ایک قول کے حوالے سے  یوں  بیان کرتے ہیں :

"دار العلوم کے وہ طلبہ جو دوسرے مدارس کی تعلیم سے متاثر ہو کر طویل درسی تقریریوں کی افادیت میں کچھ شبہ محسوس کرتے  رہے فراغت کے بعد جب انہیں دینی خدمات کا  موقع ملا اور نت نئے دینی فتنوں کے مقابلہ کے لیے اپنی علمی توانائیوں سے کام لینا ضروری ہوا تو اس کا اعتراف کیا کہ درس میں مختلف عنوانات کے تحت اساتذہ کے افادات ہمارے لیے کارآمد ہوئے ، بھلا آپ خود ہی سوچئے کہ ایک طریق تعلیم کے نتیجہ میں صرف متعلقہ کتاب کا حل دوسری جانب فن کی تعلیم اور تیسری طرف مختلف فنون کا افادہ ، ان تینوں طریقوں میں جامع شخصیتیں تیار کرنے کے لیے کون سی صورت مفید و کارگر ہے !   ظاہر ہے کہ جماعت میں موجود طلبہ کی ایک بڑی تعداد میں بعض وہ فہیم طلبہ بھی ہوں گے جو ان مختلف فنون پر پھیلی ہوئی تقریروں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے رہیں ، رہ گئے دوسرے اور تیسرے درجہ کے طالب علم ، یقین ہے کہ وہ بھی اس اجتہادی طرقی تعلیم سے کلیۃ محروم نہیں رہے ، سنی سنائی اور کانوں میں پڑی ہوئی باتیں کسی نہ کسی وقت ان کے لیے بہرحال کار آمد ہوتی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ تعلیم کے اس اچھوتے طرز کو نبھانے کے لیے جامع شخصیتیں مطلوب ہیں جنہیں وسعت علم کے ساتھ حفظ و یادداشت کی غیر معمولی صلاحیتیں بھی حاصل ہوں ، اس راہ کی دشواریوں کا مجھے سب سے پہلے احساس " ترمذی شریف " کے ابتدائی سبق میں ہوا جس میں اپنے استاذ اکبر مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے یہ الفاظ کانوں میں پہنچے :

" مرحوم حضرت شاہ صاحب  کشمیری ؒ نے طویل تقریروں کی بنیاد ڈال کر ہم ایسوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ، وہ اپنے بے پناہ علوم اور زبردست قوت حافظہ کی بناہ پر اس طریقہ کو نبھاتے لیکن جو ان صفات سے خالی ہیں وہ ضیق محسوس کرتے ہیں ۔" 7

مشکل یا متعارض روایات کو حل کرنے کا اسلوب

مشکل یا متعارض احادیث میں شاہ صاحب ؒ شرح حدیث کا مدار کسی ایک لفظ یا کسی ایک طریق و سند کو نہیں بناتے تھے بلکہ اس حدیث کے تمام الفاظ اور طرق کو اکٹھا کرتے اور ان میں سے شارع علیہ السلام کے الفاظ کی جستجو کر کے اسے مدار شرح قرار دیتے۔ اس باب میں ان کی رائے یہ تھی کہ روایات میں روایت بالمعنی عام ہے ، اور احکام کا دارو مدار حضور اکرم ﷺ کے الفاظ ہیں ۔ اس لیے اگر ان الفاظ میں سے حضور ﷺ کے الفاظ کی تعیین ممکن ہو تو انہیں کو مدار شرح بنایا جائے گا ۔ مختلف اسناد و الفاظ میں سے شارع کے الفاظ کی تعیین وہ فصاحۃ و روعۃ الفاظ پر رکھا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ ایک نقطہ یہ بیان فرماتے کہ حدیث کے راویوں کا اتقان جتنا زیادہ بڑھتا جائے گا اتنا ہی زیادہ روایت باللفظ کا امکان زیادہ ہوگا ۔ اسی وجہ سے جس محدث نے راویوں کے اتقان و ثقاہت کا زیادہ خیال رکھا ہوگا اس کی نقل کردہ روایت میں  فصاحۃ و بلاغۃ اور رونق الفاظ کا عنصر بھی زیادہ اور نمایاں ہوگا اور ہم ان الفاظ کے بارے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ  اس افصح العرب شخصیت کے الفاظ ہیں جن کو جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے ۔  اسی لیے ان کے ہاں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی نقل کردہ روایت کے الفاظ میں یہ رونق و فصاحت سنن کی روایت کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے ۔  اس لیے وہ متعارض یا مشکل احادیث میں کسی ایک خاص لفظ یا کسی خاص سند کو مدار تشریح نہیں بناتے تھے بلکہ مجموعی طور پر ان سب الفاظ و طرق کو دیکھ کر ان سب کو تشریح میں جمع کرتے ہوئے ایسی تعبیر کرتے جو اطمینان قلب اور شرح صدر کا باعث بن جاتی ۔  ان کے ہاں مذاہب میں بہت سے اختلافات کسی خاص لفظ یا کسی خاص سند یا طریق کو مدار قرار دینے سے ہی پیدا ہوتے ہیں 8

علماء متقدمین کا احترام

درس حدیث میں شاہ صاحب ؒ جب کبھی متقدمین کے اقوال میں سے کسی قول پر تنقید کرتے تو پہلے ان کی جلالت شاہ اور عظمت کا اعتراف کرتے ، ان کی خصوصیات کا ذکر کرتے اور ان کی خدمات دینیہ کو سراہتے ۔ پھر ان کے اقوال پر اپنی رائے پورے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیان فرمایا کرتے ۔ اس حوالے سے قاری طیب صاحب ؒ لکھتے ہیں :

"غرض ایجابی و سلبی دونوں قسم کے علوم کی نیرنگیاں حلقہ درس کو ایک رنگین گل دستہ بنائے ہوئے تھیں ،م جس میں رنگ رنگ کے علمی پھول چنے ہوتے تھے ، تفنن علوم کی رنگینیوں کے ساتھ آپ کے درس میں ایک خاص شوکت بھی ہوتی تھی ، کلام میں تمکن اور قوت الفاظ میں شوکت و حشمت اور کلام کے وقت حضر ت ممدوح کی ہیئت کذائی کچھ ایسے انداز کی وہ اجتی تھی جیسے کوئی بادشاہ اپنا حاکمانہ فرمان سنا رہا ہے ۔ بالخصوص ائمہ مجتہدین کے متبعین علماء کے کلام پر بحث و تنقید چھڑ جاتی تو اس وقت معارضانہ اور ناقدانہ کلام کی شوکت اور بھی زیادہ ابھری ہوئی دکھلائی دیتی تھی ، نگاہیں تیز ہو جاتیں ، آواز قدرے بلند ہو جاتی اور گردن اٹھا کر بولتے تو ایک عجیب پر شوکت اور رعب افزاء کلام معلوم ہوتاتھا۔

بعض مواقع پر مثلا حافظ ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیم ؒ کے تفردات کا ذکر آتا تو پہلے ان کے علم و فضل اور تفقہ و تبحر کو سراہتے ، ان کی عظمت و شان بیان فرماتے ، اور پھر ان کے کلام پر بحث و نظر سے تنقید فرماتے ، جس میں عجیب متضاد کیفیات جمع ہوتی تھیں ، ایک طرف ادب و عظمت اور دوسری طرف رد و قدح یعنی بے ادبی اور جسارت کے ادنیٰ سے ادنیٰ شائبہ سے بھی بچتے اور رجح اور صواب میں کتمان صواب سے بھی دور رہتے کبھی کبھی علمی جوش میں آ کر برنگ مزاح بھی رد و قدح فرماتے تھے ، جو بجائے خود ہی ایک مستقل علمی لطیفہ ہوتا تھا۔"9

اس کی ایک بہت عمدہ مثال مولانا یوسف بنوری ؒ نے ذکر کی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ " التفسیر الکبیر " کا تذکرہ کرتے ہوئے امام فخر الدین الرازی ؒ کی بہت تعریف کیا کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں اس رائے کا اظہار کرتے کہ امام فخری الدین رازی ؒ قرآن کریم کے مشکل مقامت میں کھب جاتے ہیں اور بڑی متین تحقیقات اور بڑی مضبوط تدقیقات پر قاری کو متنبہ کر دیتے ہیں ۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے  کہ وہ کسی مشکل پر متنبہ تو ہو جاتے ہیں لیکن اس کی ایسی وضاحت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے کہ جس سے اطمینان قلب حاصل ہو جائے ۔ مولانا بنوری ؒ کہتے ہیں کہ تفسیر کبیر کے بارے میں عام طور پر جو قول مشہور ہے کہ "فيہ کل شئی الا التفسیر" ، اس کے بارے میں میں نے شاہ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے  اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :" کسی راوی مزاج شخص کا قول ہے " ۔ گویا تفسیر کبیر اور امام فخر الدین الرازی ؒ کا اس طرح دفاع کیا ۔ مولانا بنوری کی عبارت یوں ہے :

وكان يثني علي "مفاتيح الغيب" اي "التفسير الكبير" للامام فخر الدين خطيب الرازي، ويقول: ان الامام يغوص في علوم القرآن و مشكلاتہ، لم ار مشكلا من معضلاتہ الا والامام تنبہ لہ، غير انہ ربما لا يظفر بما يقنع بہ النفوس الصاديۃ وتنشرح بہ الصدور الصافيۃ۔ فہكذا كان الشيخ رحمہ اللہ ينبہنا علي تلك التحقيقات المتينۃ  والتدقيقات الرصينۃ۔  سالتہ عما قيل في تفسير الامام: " فيہ كل شيئ الا التفسير" كما حكاہ الشيخ جلال الدين السيوطي في " اتقانہ" - فقال : لعلہ قول من غلب عليہ الروايۃ ۔ كان يريد رحمہ اللہ كانہ قول محدث ہمہ استطراد الروايات من الاخبار والآثار فقط ۔ من غير ملاحظۃ الي سائر مزايا التنزيل العزيز ۔ و لفظہ بالارديۃ : " كسي راوي مزاج شخص كا قول ہوگا "  وبلغني انہ قال مرۃ:  ذالك القول ظلم في حق الامام۔10

اسی اسلوب کی ایک مثال شاہ صاحب ؒ کا حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ کے بارے میں رویہ ہے ،   ایک طرف ان کی شرح بخاری " فتح الباری " کے تناظر میں وہ ان کو پورے احترام و محبت کے ساتھ  " حافظ الدنیا " کا لقب دیا کرتے تھے  اور دوسری طرف ان کی آراء پر جابجا تنقید بھی کرتے ہیں اور اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ حافظ ابن حجر نے کئی مقامات پر اپنے مسلک  و مذہب کی رعایت  وحمایت میں ہر صحیح و خطاء کو قبول کر لیا ہے ۔11 گویا احترام و عقیدت اپنی جگہ لیکن جہاں علمی دیانت کا مقام ہو وہاں تنقید کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔   

درس میں علماء کا مزاج و درجہ بیان کرنا

وسعت مطالعہ کے سبب شاہ صاحب ؒ کو مختلف علماء کے مزاج کا اندازہ تھا اور علمی مسائل میں ان کے درجات بھی متعین کرتے تھے ، اس درجہ بندی اور مزاج شناسی کی بنیاد پر ان سے مروی احادیث یا کسی حدیث کی تشریح میں ترجیح قائم کرتے ۔ فیض الباری و دیگر کتب میں اس کی جا بجا مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔

  کسی بھی کام کی ابتداء میں اللہ کا نام ذکر کرنے کے بارے میں مشہور حدیث ہے :

كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالً لَا يُبْدَأُ فِيہ بِذِكْرِ اللَّہ أَقْطَعُ 12

امام بخاری ؒ نے کتاب کا آغاز بسم اللہ کے ساتھ کیا ہے ، اس کی تشریح میں مذکورہ بالا حدیث کا ذکر کرتے ہوئے شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے ، کسی روایت میں حمد کا ذکر ہے اور کسی میں اسم اللہ کا ۔ لیکن اس اضطراب کے باوجود شیخ ابو عمرو ابن الصلاح نے اس کو حسن قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد وہ شیخ ابو عمرو ابن الصلاح کا موازنہ امام نووی ؒ کے ساتھ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وخَالَ بعضُہم التعارض، وظن اختلاف الألفاظ اختلاف الحديث. والحال أن الحديث واحد، ومع اضطراب كلماتہ حسَّنہ الحافظ الشيخ أبو عمرو بن الصَّلاح، وھو شيخ الإمام النووي، دقيقُ النَّظر، واسع الاطِّلاع، وليس صاحبہ النووي مثلہ في الحديث.13

اسی طرح ایک جگہ علامہ شامی ؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں :

واعلم أن ابن نُجَيْم أفقہ عندي من الشَّامي لِمَا أری فيہ أن أمارات التفقُّہ تَلُوح، والشَّامي مُعَاصِرٌ للشاہ عبد العزيز رحمہ اللہ تعالی، وھو أفقہ أيضًا عندي من الشَّامي رحمہ اللہ تعالی، وكذا شيخ مشايخنا رشيد أحمد الكَنْكُوہِي - قُدَّسَ سرُّہ - أفقہ عندي من الشَّامي.14

اس ضمن میں مولانا یوسف بنوری ؒ رقم طراز ہیں :

انہ كلما ذكر كتابا او مؤلفا في صدد النقل ، فكان يكشف عن منزلتہ في العلم و خصائصہ، قلما يجدہا الناظر في كتب الطبقات و التراجم  بغايۃ من الانصاف ، من غير غض عن قدرہ ، او اطراء في شانہ ، ليكون بصيرۃ للطلبۃ ، و وسيلۃ الي العلم الصحيح۔15

درس میں سال بسال تنوع

شاہ صاحب ؒ کا مطالعہ عام مدرسین جیسا نہیں تھا کہ سبق پڑھانے سے پہلے سبق کی تیاری کے لیے درسی کتب یا زیادہ سے زیادہ انہیں کتب کی کوئی شرح دیکھ لی اور طلبہ کے سامنے بیان کر دی، ایسے مطالعہ سے استاد کے سبق میں وقت کے ساتھ مباحث کی یکسانیت پید اہو جاتی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ، اس کی ایک وجہ ان کا مسائل کو موضوع بنا کر ان کے حل کے لیے مطالعہ کرنا تھا ۔ گویا سبق پڑھانا ہے یا نہیں پڑھانا ، مطالعہ جاری تھا ۔ اسی وجہ سے ان کے درس میں سال بسال مباحث کے تنوع کے ساتھ ترقی بھی دیکھنے میں آتی تھی ۔ گویا مطالعہ کی وجہ سے جن مسائل میں رائے بنتی یا بدلتی اگلے سبق میں اس کا اظہار فرما دیا کرتے تھے ۔ اسی وجہ دے ہر سال کے درس میں یکسانیت کی بجائے تنوع کی کیفیت نمایاں ہوتی تھی ۔ قاری طیب صاحب ؒ فرماتے ہیں :

"ایک مرتبہ فرمایا کہ میں درس کے لیے کبھی مطالعہ نہیں کرتا ہوں ، مطالعہ کا مستقل سلسلہ ہے اور درس کا مستقل۔ اس لیے ہر سال درس میں نئی نئی تحقیقات آتی رہتی تھیں ۔"16

ایک اور جگہ فرماتے ہیں :

"کتب درسیہ اور بالخصوص کتب حدیث کے فنی مباحث طبیعت ثانیہ بن چکے تھے اور ہمہ وقت کے مطالعہ سے ان میں روز بروز بسط و انبساط کی کیفیات پیدا ہوتی چلی جا رہی تھیں اور مباحث درس گھٹنے یا قائم رہنے کے بجائے خود ہی یوما فیوما بڑھتے رہتے تھے تو انہیں جزوی مطالعہ سے بڑھانے کے کوئی معنی بھی نہ تھے بلکہ شاید یہ مقررہ جزوی مطالعہ علوم کے بڑھتے ہوئے بسط میں کچھ نہ کچھ حارج اور حد بندی ہی کا سبب بن جاتا۔"17

مولانا یوسف بنوری ؒ شاہ صاحب ؒ کے مطالعہ کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

لم يكن دابہ في المطالعۃ كاكثر علماء ھذا العصر من ان يطالعوا الكتب عند الافتقار اليہا في الفتوي او التاليف او التدريس ، فيراجعون  فيما يحتاجون اليہا من ذالك الموضوع خاصۃ، او يتفقدون ما ارادوہ من مظانہ ، بل كان دابہ في المطالعۃ انہ كلما تيسر لہ كتاب، مخطوطا كان او مطبوعا ، سقيما كان او سليما ، في موضوع علمي ، اي موضوع كان، من اي مصنف كان ، فياخذہ و يطالعہ من اولہ اولي الآخر بتمامہ ، من غير ان يبقي شيئا او يذر، نعم كان حل جہدہ و مسعاہ في ان يطالع كتب المتقدمين ثم كتب اكابر المحققين من القرون الوسطي۔18

ایک جگہ شاہ صاحب ؒ کے اس ذوق مطالعہ اور اس کے نتیجہ میں تحقیقات میں تبدیلی کو قرآن کریم کے حوالے سے اس طرح واضح کرتے ہیں :

و ربما كان يبقي سنين في التامل في بعض المشكلات حتي يبلغ الي درك البحر فيخرج اللآلي المكنونۃ ، وكان من شريف دابہ اذا عن لہ مشكل من مشكلاتہ يتوخي لحلہ اسفار اعيان من الامۃ الذين لہم عنايۃ قويۃ بامثال ھذہ العويصات ، فان فاز بشيئ احال عليہ في مذكرتہ ، و الا فكان يطيل الفكر و يرسل النظر ويبعد الغور و التامل ، فاذا سنح لہ سانح او بدا بارح قيدہ ، فاجتمعت في "مذكرتہ الخاصۃ بالقرآن" مادۃ جمۃ غزيرۃ۔19

رجال کے تذکرہ میں اسلوب

حدیث کی تشریح میں رجال کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ صاحب ؒ کا ایک الگ اسلوب تھا ، ان کے ہاں حدیث کے مقبول ہونے میں رجال پر جرح و تعدیل کے باب میں متعدد وجوہات کی بنا پر ائمہ رجال کے ہاں اعتدال قائم نہیں رہا ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو حدیث اپنے مسلک کے خلاف ہو اس کے رجال کی خوب چھان پھٹک کی جاتی ہے اور کسی نا کسی طرح اس کے رجال میں سے کسی کو مجروح قرار دے دیا جاتا ہے ، اور کبھی اپنے مفید مطلب حدیث کے رجال سے ناروا چشم پوشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ اس لیے وہ رجال پر جرح و تعدیل کو حدیث کی مقبولیت کے لیے حتمی سبب نہیں سمجھتے تھے ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ ان کے اس اسلوب کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں :

منہا : انہ كان يلخص الكلام في رجال الحديث ان كان لذكرہا حاجۃ في الباب، او فائدۃ يستحسن ذكرہا، وكان لا يطيل الكلام في الجرح و التعديل حيث كان يقول : و لم اكثر من نقل كلامہم في الرجال ، وما فيہ من كثرۃ القيل و القال ، لانہ ليس عندي كبير ميزان في الاعتدال ، و بعضہم يسكت عند الوفاق و يجرح عند الخلاف ، و اذا ديعت نزال، وھذا صنيع لا يشفي و لا يكفي ، و انما ہو سبيل الجدال ، نعم ، اعتنيت بتعيينہم و معرفتہم عينہم ، فيستطيع الناظر من المراجعۃ و يتمكن من تخمير رايہ لا بالمسارعۃ۔20

اس معاملہ میں ان کا موقف یہ تھا کہ جس حدیث کی سند اصطلاحا ٹھیک ہو اور اس پر سلف کا عمل بھی ہو خواہ کچھ لوگوں کا عمل ہی کیوں نا ہو ۔تو ایسی حدیث صحیح ہے اس میں اگر عدم صحت کی کوئی علۃ بیان کی جا رہی ہے تو اس کو نہیں سنا جائے گا ۔ فرماتے ہیں :

و الناس فيہ علي آرائہم يتعللون في ما لم ياخذوا بہ و يناضلون عما اخذوا بہ ، و الذي ينبغي ان يعتقد فيہ ان ما صح سندہ اصطلاحا ثم وجد عمل بعض السلف بہ  فہو صحيح في الواقع لايسمع فيہ اعلال و تعلل۔21

حدیث کی تشریح میں دور از کار تاویلات سے اجتناب

حدیث کی تشریح میں شاہ صاحبؒ کا مزاج یہ تھا کہ شارع کی مراد و مقصود کو سامنے رکھتے اور اس کے مطابق حدیث کا محل متعین کرنے کی کوشش کرتے ۔ حدیث کی تشریح میں دو از کار تاویلات کو پسند نہیں کرتے تھے اور جہاں عام طور پر طول طویل ابحاث کے ذریعہ حدیث کی تشریح میں کھینچا تانی کا رواج تھا وہاں "لا يعبا بہ" يا "ھذا من سقط الكلام" کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔ اس کی  مثال یوں ہے ۔

 بسم اللہ سے ابتداء کی بحث میں اس حدیث کی تشریح میں عام طور پر جو ابحاث کی جاتی ہیں ان کا تذکرہ کر کے فرماتے ہیں :

وما يُذكر من حمل الابتداء بالحقيقي في لفظ، وبالإضافي في لفظ، أو العرفي، فلا يُعبأ بہ، لأن مدارَ ذلك علی تعدُّد الحديث. وذِكَرُ الاحتمالات التِّسْعۃِ من بين صحيح وباطل ھہنا كلہا من سَقْط الكلام.22

اختلافی مسائل میں منشاء الخلاف معلوم کرنے کا اہتمام

تدریس  حدیث میں شاہ صاحبؒ اختلافی مسائل میں اختلاف کی بنیاد اور منشا کو بیان کرتے اور پھر اس کی بنیاد پر فریقین کے دلائل کا محاکمہ کر کے اپنی رائے کا اظہار فرماتے تھے ۔ اکثر اوقات ان کی رائے وہی ہوتی جو فقہاء احناف نے بیان کی ہے لیکن اگر کہیں فریق مخالف کی دلیل میں مضبوطی محسوس کرتے تو ان کی رائے کو اپنانے میں بھی کوئی مضائقہ محسوس نہ کرتے ۔ اور بہت سی جگہ پر اپنی ایسی رائے پیش کرتے جو اختلاف کو ختم کرنے یا کم کرنے کا باعث ہوتی ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

و منہا انہ كان عني بمنشاء الخلاف بين الامۃ ، ولا سيما في المسائل التي تتكرر علي رؤوس الاشہاد ، فكان يذكر في ھذا الصدد امورا تطمئن بہا القلوب۔23

اغلاط پر متنبہ کرنا

دوران مطالعہ شاہ صاحب ؒ کو اگر کسی کتاب میں کوئی غلطی محسوس ہوتی تو درس میں اس کی وضاحت کرتے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے کہ یہاں یہ لفظ مجھے پہلے ہی غلط محسوس ہو رہا تھا ، پھر مسلسل مطالعہ کے دوران فلاں کتاب میں میرے گمان کی تصدیق ہو گئی ۔  اس کی بہت سی مثالیں جا بجا ان کی کتب میں بکھری ہوئی ہیں ۔ ایک مثال ملاحظہ کریں ۔

وھناك سہوٌ ينبغي أَنْ يَتَنبَّہ عليہ النَّاظر، وھو أن الحنفيۃ عند تقرير الاضطراب في حديث القُلتين قالوا: إنہ رُوي عن ابن عمر أربعين قُلۃ. ہكذا وجدناہ في «فتح القدير» أيضًا، وكنت أظنَّ أن الصحيحَ ابن عمرو وسقط الواو من الناسخ وحينئذ يَخِفُّ الاضطراب، حتی إذا طُبع كتاب البيہقي وجدناہ فيہ عن ابن عمرو بن العاص، ففرحتُ منہ فرحَ الصائم عند الإِفطار. فھذا سہوٌ قد تسلسل في الكتب فلا تَغْفُلْ عنہ، والأمر كما قلنا.24

یہاں ایک سہو ہے مناسب ہے اس پر ناظر متنبہ ہو جائے ۔ وہ یہ کہ احناف قلتین کی حدیث میں اضطراب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :  کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے چالیس گھڑے منقول ہیں ۔ فتح القدیر میں ہم نے اسے اسی طرح پایا ۔ اور میرا گمان تھا کہ  صحیح ابن عمرو رضی اللہ عنہ ہے اور واو کاتب سے گر گیا ہے ، اس طرح اضطراب کم ہو جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب علامہ بیہقی کی کتاب چھپی تو ہم نے اس میں ابن عمروبن العاص ہی پایا ۔ چنانچہ مجھے  افطار کے وقت روزہ دار کی طرح کی خوشی ہوئی ۔ پس یہ سہو ہے جو کہ کتب میں مسلسل آرہی ہے ،سو اس سے غافل نہ ہو ، معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیاہے ۔

محدث کے مزاج کے مطابق ترجمۃ الباب کی تشریح

شاہ صاحب ؒ  حدیث کی کتاب خصوصا امام بخاری کی جامع پڑھاتے ہوئے مولف کتاب کے مزاج کے مطابق ترجمۃ الابواب کی وضاحت کیا کرتے تھے ، اور ان کی بتائی ہوئی وضاحت یا تعبیر پھر کئی جگہ پر لاگو ہوتی ۔  مثلا امام بخاری ؒ نے ابواب کے شروع میں "البدء"  کا لفظ استعمال کیا ہے ، اس سے ان کی کیا مراد ہے ؟ جیسے بدء الاذان میں کیا یہ مراد ہے کہ اذان کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ حالانکہ وہ اس میں اذان کے سارے احکامات کو لاتے ہیں ، یا یہ مراد ہے کہ یہاں سے اذان کے مجموعی مسائل کی ابتداء ہو رہی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے کہ جہاں امام بخاری ؒ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں وہاں ان کی مراد مجموعی مسائل کی ابتداء کرنا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں :

وما سنح لي بعد الإمعان في صنيعہ، والنظر إلی نظائرہ، كبدء الأذان وبدء الحيض، أن البَدء عندہ لا يختصُ بالحصۃ الابتدائيۃ، بل يعتبر مما يضاف إليہ لفظ البدء بما فيہ من أحوالہ أولًا، ثم يضاف إليہ لفظ البدء ثانيًا، ثم يُسأل عنہ أن بدء ہذا المجموع كيف كان؟ وحينئذٍ فيندرج تحتہ جميع أحوالہ، وہكذا فعل المصنف رحمہ اللہ تعالی فيما بعد أيضًا. فقال: «بدء الأذان، وبدء الحيض»، ثم لم يقتصر علی أول الحال فقط، بل ذكر حالہما من الأول إلی الآخر، ففہمت من صنيعہ أنہ لا يريد من لفظ البدء البدايۃ في مقابل النہايۃ، بل بدؤہ بعد أن لم يكن، ووجودہ من كَتْم العدم، فہو سؤال عن ہذا الجنس بتمامہ، أنہ كيف بدأ؟
فالحاصل: أن معناہ، السؤال عن جنس الوحي، وجنس الأذان، وجنس الحيض، أنہ كيف جاء من كتم العدم إلی ساحۃ الوجود؟ وحينئذٍ معناہ كونہ بعد أن لم يكن، لا بدايتہ قبل نہايتہ، وہذا التصرف في لفظ البدء مستفادٌ من كلام المصنف رحمہ اللہ تعالی نفسہ، لا أني تصرفت في كلامہ، وصرفتہ عن ظاہرہ۔25

تشریح میں اختصار لیکن مواد میں اکثار

 درس حدیث میں شاہ صاحب ؒ کی کوشش یہ ہوتی کہ زیر بحث موضوع میں زیادہ سے زیادہ مواد جمع کر دیں ،  بیان و تشریح کی طرف توجہ کم تھی ۔ رفتہ رفتہ یہی عادت ان کی تدریس و تالیف میں فطرت ثانیہ بن گئی ۔ یعنی الفاظ  و بیان میں اختصار اور مواد میں کثرت۔ ان کی اسی عادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا اشرف علی التھانوی ؒ کہا کرتے تھے کہ شاہ صاحب ؒ کے کلام میں ایسے جملے ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک کی تشریح پوری پوری کتاب کی متقاضی ہے۔26

مولانا یوسف بنوری ؒ اس عادت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

انہ كان يہمہ اكثار المادۃ في الباب ، دون الاكثار في بيانہا و ايضاحہا، كانہ يضن بعلمہ المضنون ۔ ثم ان  ہذا الايجاز في اللفظ ، و الغزارۃ في المادۃ اصبح لہ دابا في تدريسہ و تاليفہ و كان كما قال علي رضي اللہ عنہ : ما رايت بليغا قط الا ولہ في القول ايجاز ،  و في المعاني اطالۃ، و حكاہ ابن الاثير۔27

درس میں طلبہ کی علمی و تحقیقی تربیت کا اہتمام

شاہ صاحب ؒ کے درس حدیث کی ایک بہت اہم خصوصیت طلبہ حدیث کی علمی و تحقیقی تربیت کا اہتمام کرنا بھی تھی۔ وہ جہاں طلبہ کی علمی مواد کی طرف راہنمائی کرتے رہیں ان کو صحیح تنقید کاطریقہ بھی سکھاتے ۔ بسا اوقات وہ دوران درس کوئی مسئلہ ذکر کرتے اور پھر اس پر علمی نقد فرماتے ۔ اس سے طلبہ کو علمی نقد کا صحیح طریقہ سمجھ میں آتا ۔ اس نقد کی سب سے بڑی خوبی متقدمین علماء کے احترام میں اعتدال کا رویہ تھا ۔  فیض الباری کے مقدمہ میں مولانا محمد یوسف بنوری ؒ لکھتے ہیں :

انہ كان ربما يذكر اشياء و ينقدہا نقدا علميا ، و يدل الطلبۃ علي منہاج النقد العلمي ، ويضع لہم اساسا لذالك ، ثم يستدرك ذالك ، تنبيہا لہم بمزيۃ كلام اہل العلم و الاحتياط عن الخوض في شانہم بما تابي جلالۃ قدرہم۔28

اسی طرح طلبہ کی تربیت کی غرض سے ہی آپ ؒ زیر درس حدیث کے موضوع سے متعلق بنیادی علوم کے ساتھ موضوع سے مناسبت رکھنے والے دیگر علوم کو بیان کرنے کا اہتمام بھی کرتے ۔ اس سے طلبہ ان دیگر علوم کی مبادیات سے بھی واقف ہو جاتے جو حدیث کی تشریح کے تناظر میں اہم سمجھے جاتے تھے ۔  مولانا یوسف بنوری ؒ لکھتے ہیں :

 انہ كان لا يقتنع بذكر ما يختص بالموضوع ، بل ربما كان يذكرامورا لمناسبۃ دقيقۃ بينہا و بين الموضوع ، حرصا علي بيانہا افادۃ للطلبۃ۔29

احکام کے مصالح اور حکمتوں کا بیان

شاہ صاحب ؒ حدیث کی تعبیر و تشریح میں جا بجا احکام کی حکمتوں کو واضح کرتے ہیں تاکہ سامع کے دل میں اطمینان کی کیفیت پیدا ہو جائے ۔ اس کی مثال جزیہ کی بحث ہے کہ جس میں انہوں نے بعض لوگوں کے جزیہ کو ظلم کہنے پر جزیہ کی حکمت بیان کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ جزیہ تو غیرمسلم آبادی کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ، اس سے ان حفاظت یقینی ہوتی ہے ، وہ تھوڑے سے پیسے ادا کرتے ہیں اور بڑے بڑے دشمنوں کے خلاف اسلامی حکومت کی حفاظت سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ گویا یہ ان پر ظلم نہیں ہے بلکہ ان پر احسان ہے ۔ فرماتے ہیں :

واعلم أن بَعْضَ مَنْ لا دينَ لہم، ولا عَقْل، ولا شيء زعموا أنَّ الجِزيۃَ ظُلْمٌ، ہيہات ہيات؛ وہل عَلِموا قَدْر الجِزْيۃ؟ ہو دِرْہمٌ علی فقرائہم، وأربعۃُ دراہِمَ علی أغنياتہم، وليس علی نسوانہم وصبيانہمم شيءٌ، ثم ہل عَلِموا قَدْرَ ما يُؤخذ من المسلمين، فہو أضعافُ ذلك، يؤخذ منہم العُشرُ، والزكاۃُ، والصدقاتُ، والجباياتُ الأخری، بخلاف أہل الذِّمۃ، ثُم ہل علموا أن ما نأخذُہ منہم نكافئہم بأضعافہ، نجعلُ دماءہم كدمائنا، وأعراضَہم كأعراضنا، نحفظ أموالہم، ونناضِلُ أعداءہم. فلو وازيت ما يُؤخذ من المسلمين بما يُؤخذ منہم، لعَلِمت أن المأخوذَ من أہل الذمۃ أقلُ قليل، مما نأخذُ من المسلمين. فَمَنْ ظنَّ أن الجزيۃ ظُلْم، فقد سَفِہ نفسہ.30

صحیح بخاری کی تدریس میں شاہ صاحبؒ کا اسلوب

شاہ صاحب ؒ نے دار العلوم دیوبند میں جب تدریس کا آغاز کیا تو ابتداء میں ان کے ذمہ جامع ترمذی اور صحیح بخاری کی تدریس ہوتی تھی ، ان دو کتابوں میں انہوں نے مباحث حدیث کو اس طرح تقسیم کیا ہوتا کہ احادیث احکام کی تحقیق، ائمہ کرام کے مذاہب  اور دلائل کا استیعاب اور ان میں راجح و مرجوح کی وضاحت وہ درس ترمذی میں کر دیا کرتے۔ آخری عمر میں جب ان کی تدریس کا مرکز صحیح بخاری ہو گئی تو یہ سارے مباحث وہ درس بخاری میں بیان کرنے لگے ۔ اس لیے ان کے درس حدیث کی کچھ خصوصیات کو سمجھنا تدریس بخاری کے اسلوب کو سمجھنے پر موقوف ہے ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ نے فیض الباری کے مقدمہ اور " نفخۃ العنبر" میں اس اسلوب پر روشنی ڈالی ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔

  • بخاری کے درس میں شاہ صاحب ؒ احادیث احکام کی تشریح میں وہ تمام مباحث کو ذکر کرتے ہیں جو حدیث کی تشریح کے لیے ضروری ہیں ۔
  • حدیث کی تشریح میں شروحات بخاری میں سے بہت عمدہ عبارات نقل کرتے ، اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ شروحات ان کے سامنے کھلی پڑی ہیں اور وہ ان میں سے دیکھ کر یہ عبارات بیان کر رہے ہیں ۔ ان کی زیادہ توجہ مشکلات الحدیث کی طرف ہوتی ۔ صحیح بخاری کی حدیث کے حوالے سے جب کوئی اشکال پیش آتا تو کتاب کھول کر اس کو طلبہ کے سامنے پڑھتے جس سے اشکال رفع ہو جاتا ، اس کے ساتھ اپنے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر اشکال دور کرنے کے لیے بہت نفیس ابحاث اپنی طرف سے شامل کرتے تھے ۔
  • مباحث میں شروحات میں سے نقل عبارات پر زیادہ زور نہیں تھا بلکہ اکثر اوقات شارحین کے کلام کی تلخیص بیان کر تے اور مزید تفصیل کے لیے طلبہ کو ان کتب کی طرف مراجعت کی تلقین کرتے ۔
  • تدریس بخاری کے دوران بہت سے مواقع پر امام بخاری کی مراد واضح کرتے ہوئے فرماتے کہ امام بخاری ؒ کی یہ بات  محقق متقدمین کے مطابق ہے ، لیکن متاخرین  ان متقدمین کے درمیان ہونے والے مباحث کی روح سے ہی واقف نہیں ہے اس لیے ان کے اور امام بخاری کے مدارک میں نمایاں فرق ہے ، اسی لیے انہوں نے امام بخاری ؒ کے کلام کی وہ تاویل کی کہ جس سے امام بخاری بالکل بری ہیں ۔ ایسے مواقف کا شاہ صاحب  خصوصی اہتمام فرماتے اور دیگر علماء کی غلطی واضح کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ۔
  • تدریس بخاری کے دوران ترجمۃ الابواب کی خصوصیت کے ساتھ تشریح کرتے ہوئے ترجمۃ الباب کا مقصد ، احادیث باب کے ساتھ  ان کا تعلق اور امام بخاری ؒ کا اس باب میں اختیار کردہ مسلک یا رائے بھی ضرور  بیان کرتے ۔ 31
  • تدریس بخاری کے دوران شاہ صاحب ؒ امام بخاری ؒ کی طرف کسی چیز کی غلط نسبت دور کرے میں بہت اہتمام کیا کرتے تھے ، اس کی ایک مثال نجاست کے باب میں امام بخاری ؒ کی طرف امام ابو داود ظاہری ؒ کا مذہب اختیار کرنے کی نسبت ہے ، شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ جب امام بخاری ؒ کے بارے میں کسی ایک جزئی مسئلہ میں کسی کی موافقت معلوم ہوتی ہے تو لوگ اجمالی طور پر اس امام کی پیروی کی نسبت کر دیتے  ہیں۔ حالانکہ یہاں مقصود صرف اسی ایک مسئلہ میں موافقت ہی ہوتی ہے ، نہ کہ تمام اصول و فروع میں موافقت ۔ نجاست کے مسئلہ میں بھی ایسا ہی ہوا لیکن لوگوں نے ان کے ظاہری ہونے نسبت کر دی ۔ 32

اس اسلوب کا فائدہ بیان کرتے ہوئے مولانا یوسف بنور ی ؒ لکھتے ہیں :

فہذہ مميزات درسہ لصحيح البخاري ، لا تجد بعضہا في درس غيرہ ۔ ومن اجل ذالك كل من  كان ضليعا في العلوم ، واسع الاطلاع ، حديد الذہن ، قوي الحافظۃ ، ثاقب الفكر ، كان يقوم من عندہ بحظ وافر  و بصيرۃ نافذۃ۔33

"یہ ان کے درس بخاری کے امتیازات ہیں ، آپ ان میں سے کچھ کسی اور کے درس میں نہیں پائیں گے ۔ اسی وجہ سے ہر وہ آدمی جو علوم سے بھر پور ہو ، اور اس کی اطلاعات وسیع ہوں ، ذہن رسا ہو ، حافظہ مضبوط ہو، صائب الرائے ہو ، تو وہ ان کے  پاس سے علم کا  بڑا حصہ اور  ایسی بصیرت لے کر اٹھتا ہے جو معاملات کو سمجھنے میں مدد گار ہوتی ہے۔"


حوالہ جات

  1.   محمد انظر شاہ مسعودی ، مولانا ،(1927ء-2008ء) نقش دوام : ص:305، ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان ، پاکستان ، 1426ھ
  2.   نقش دوام : ص:306
  3.   مناظر احسن گیلانی ، مولانا ،(1892ء-1956ء) احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ، ص؛ 76، ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان ، 1425 ھ
  4.   نقش دوام ، ص: 155
  5.   احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ، ص: 81-82
  6.  مضمون  حضرت قاری محمد طیب ؒ ، عبد الرحمان کوندو، الانور ،   ص: 274، ندوۃ المصنفین ، اردو بازار ، جامع مسجد دہلی ، 1979ء
  7.   نقش دوام ، ص: 156
  8.    نفحۃ العنبر ، ص:61
  9.   حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 264
  10.   نفحة العنبر ، صؒ 40-41
  11.   نفحة العنبر ، ص: -50 49
  12.   الدارقطني ،بو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار البغدادي (المتوفی: 385هـ)،  سنن الدارقطني (1/ 428)، الناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت - لبنان 1424 هـ - 2004 م ، عدد الأجزاء: 5
  13.   فيض الباري علی صحيح البخاري (1/ 77)
  14.    فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 307)
  15.   فيض الباري على صحيح البخاري ج:1، ص:16
  16.    حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 267
  17.   حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 267
  18.   نفحة العنبر ، ص: 36
  19.   نفحة العنبر ، ص: 41
  20.   نفحۃ العنبر ، ص: 284  و فيض الباري ، ج: 1، ص: 16
  21.   محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)،  نيل الفرقدين  مع حاشیۃ بسط الیدین فی مسئلۃ رفع الیدین ، ص: 135، مجموعۃ رسائل الکاشمیری ،ج: 1، المجلس العلمی ، کراچی ، پاکستان ، 2004ء
  22.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 78)
  23.   فيض الباري على صحيح البخاري، ج: 1/ 16
  24.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 359)
  25.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 78)
  26.    فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1/ 16
  27.     فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1/ 16
  28.   فيض الباري علي صحيح البخاري ،  1/ 16
  29.   فيض الباري علي صحيح البخاري ،  1/ 16،  نفحۃ العنبر،  ص:284
  30.   فيض الباري على صحيح البخاري (4/ 240)
  31.   فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1، ص: 17
  32.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 428)
  33.   فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1، ص: 17


شخصیات

(مارچ ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter