ضبط و ترتیب: حافظ خرم شہزاد
(بزم شیخ الہند گوجرانوالہ کے زیر اہتمام یکم نومبر ۲۰۲۲ء کو اِفتتاحی ماہانہ فکری نشست سے گفتگو)
بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمات، فکر اور مشن کے تعارف کے لیے ’’بزم شیخ الہند‘‘ کے نام سے ہم کچھ دوستوں نے جن میں حضرت مولانا قاری محمد یوسف عثمانی، ہمارے بھائی عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر رفقاء بھی شامل تھے ،بہت پہلے ایک کام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت فکری نشستیں ہوا کرتی تھیں، پھر زمانے کے ساتھ ساتھ کام ٹھنڈا پڑ گیا۔ اب ہمارے بہت باذوق ساتھی حافظ خرم شہزاد صاحب جو ما شاء اللہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ فکر بھی ہیں اور صرف متفکر نہیں بلکہ فکر دلانے والے بھی ہیں۔ انہوں نے اس کام کے شروع کرنے کا ارادہ کیا اور ویسے بھی ہمارے ساری فکر اور جدوجہد کی بنیادی علمی، فکری اور تحریکی شخصیت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز ہیں تو میں نے مشورہ دیا کہ انہی کے نام سے دوبارہ کام مناسب رہے گا۔ اب بزم شیخ الہندؒ کو دوبارہ متحرک کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے، حافظ خرم شہزاد صاحب اور ان کے رفقاء مبارک باد اور شکریے کے مستحق بھی ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کام اب اگلی نسل کو منتقل ہو رہا ہے اور یقینا یہ باعث مسرت اور سعادت بات ہے ۔ آج اس بزم کی پہلی ماہانہ فکری نشست ہے جس میں موضوعِ بحث حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو بنایا گیا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کا تاریخ میں تعارف دو حوالوں سے ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد مذہبی حلقوں کی جو نئی تقسیم ہوئی تھی اس میں دیوبندی مکتبۂ فکر کا بانی اور نقطۂ آغاز کہا جاتا ہے۔ ۱۸۵۷ء اور یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے پہلے ہمارے ہاں مسلم معاشرے میں جو مذہبی دائرہ بندی تھی اس کے عنوانات اور تھے، ۱۸۵۷ء کے بعد جہاں اور بہت سی باتیں تبدیل ہوئیں تو اس کے ساتھ ہمارے مذہبی حلقوں کے دائروں کا تعارف بھی تبدیل ہوگیا۔
دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث مکتبۂ فکر ۱۸۵۷ء کے بعد کی ایجاد ہیں اس سے پہلے ان ناموں سے ہمارا کوئی تعارف نہیں تھا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد سارے ملک اور قوم نے سارے معاملات کا آغاز زیرو پوائنٹ سے کیا تھا اور یہاں اس وقت تین چار فکری حلقے بن گئے تھے۔ ایک فکری حلقہ علی گڑھ کی صورت میں سر سید احمد خان مرحوم کا تھا۔ ایک مکتبہ فکر دیوبندی کہلایا جس کا آغاز ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے ہوا تھا، اور ایک مکتبہ فکر بریلوی کہلایا جو اسی دور کے ایک بزرگ تھے انہوں نے اپنا ایک فکری اور اعتقادی تعبیرات کا دائرہ متعین کیا اور وہ بریلوی کہلائے۔ اسی طرح سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک کے بعد اہل حدیث کے عنوان سے کچھ حضرات نے اپنا تشخص الگ کیا ہے۔ مسائل کا اختلاف تو ہوتا ہی ہے مگر یہ سوچ اور فکر کا اختلاف ہے۔ یہ نئے تعارف ہیں ،علی گڑھ، دیوبند ، بریلوی اور اہل حدیث ۱۸۷۵ء کے بعد کی تقسیم ہے اور اس میں جو ایک مستقل مکتب فکر علمی، فکری ، تحریکی اور سیاسی مکتبہ فکر جو دیوبندی کہلاتا ہے اس کے بانی، امام، زیرو پوائنٹ، اور نقش اول دو تین شخصیات ہیں ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور ان کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ہیں۔ حضرت نانوتویؒ کا ایک تعارف تو یہ ہے کہ ان سے اور مولانا گنگوہیؒ سے دیوبندی مکتبہ فکر کا آغاز ہوتا ہے۔
تاریخ میں ان کا دوسرا تعارف یہ ہے کہ وہ ایک نئے تعلیمی نظام کی بنیاد تھے اور ایک تعلیمی نظام کا آغاز ان سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ۱۸۵۷ء میں سب مدارس ختم ہوگئے تھے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے کچھ باقی رکھے ہوئے تھے لیکن انگریزوں نے باقی سارے مدارس ختم کر دیے تھے کوئی ایک مدرسہ اور وقف بھی باقی نہیں رہا تھا، از سر نو زیرو پوائنٹ سے کام شروع ہوا تو دیوبند میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۸۶۶ء میں مدرسہ قائم ہوا، اس کے بانیوں میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒکے علاوہ حاجی عابد حسینؒ اور مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ بھی تھے۔ چونکہ یہ زیادہ متعارف تھے اس لیے تاریخ مولانا نانوتویؒ کادارالعلوم کے بانی کا تعارف کرواتی ہے کہ ایک تعلیمی نظام کا آغاز ان سے ہوتا ہے۔
ان کا ایک تاریخی تعارف ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینا بھی ہے ،اس کا تھوڑا سا پس منظر عرض کر دیتا ہوں کہ ہوا یوں کہ ۱۷۵۷ء سے بہت پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اس سے پہلے کی آئی ہوئی تھی اور وہ ایک تجارتی کمپنی تھی، برطانیہ ،فرانس اور ہالینڈ کی الگ الگ کمپنیاں تھیں جو اس زمانے میں کام کر رہیں تھی۔ ان کی آپس میں چپقلش بھی تھی لیکن ان میں برٹش برطانیہ والی ایسٹ انڈیا کمپنی آگے بڑھی ہے ۔ یہ مستقل ایک موضوع ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیسے قائم ہوئی ،کیسے اجازت ملی، کیسے آگے بڑھی اور کیا کام کیا؟ لیکن ۱۷۵۷ء میں بنگال میں نواب سراج الدولہ شہیدؒ وہاں کے حکمران تھے ،اُن سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی چپقلش ہو گئی کچھ ٹیکسوں، پابندیوں اور کچھ قوانین کی بنیاد پر! تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بغاوت کر دی اور اس کے نتیجے میں کمپنی کو کامیابی ہوئی، سراج الدولہ شہید ہوئے اور بنگال پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں ان کے حوصلے بڑھے، بنگال کے بعد انہوں نے میسور، اور لکھنؤ پر قبضہ کیا اور لمبی جنگیں ہوئیں۔
اس کا ایک درمیان کا پوائنٹ یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے بڑھتے جب دہلی زد میں آگیا تو اس وقت مغلوں میں شاہ عالم ثانی کی بادشاہت اور حکومت تھی، جب انہوں نے دہلی کو خطرے میں محسوس کیا کہ کمپنی کی پیشرفت یہاں تک آگئی ہے کہ اب اگلا ٹارگٹ دہلی ہوگا تو پھر مذاکرات ہوئے اور مذاکرات میں وہی ہوا جو کچھ مذاکرات میں ہوا کرتا ہے۔ مذاکرات اور گفتگو میں آپس میں ایک معاہدہ طے پایا، معاہدے میں شاہ عالم ثانی نے انڈیا کے مالیاتی نظام ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیا۔ وہ تقسیم یہ تھی کہ بادشاہ تو شاہ عالم ہی رہیں گے ،بادشاہت بھی مغلوں کی رہے گی، سکہ اور نام بھی ان کا چلے گا لیکن مالیاتی کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کرے گی۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں جیسے آج کل بھی یہی ہے کہ نام اور ٹائٹل ہمارا ہے اور مالیاتی کنٹرول آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے۔
بالکل یہی پریکٹیکل شکل یہ تھی جو آج آئی ایم ایف کی ہے کہ مالیاتی کنٹرول اُن کے ہاتھ میں ہے اور باقی نظام ہمارے نام پر ہے۔شاہ عالم ثانی کا کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا، اس کے تحت شاہ عالم بادشاہ ہے، اس کا اس عنوان سے اعلان ہوا کہ’’زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ یہ تین جملے تھے اور اس کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا نمائندہ بٹھا دیا۔ اس اعلان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین اور ہمارے علمی اور دینی حلقے کے امام حضرت شاہ عبد العزیز محدثِ دہلویؒ نے فتویٰ دے دیا کہ اب ہندوستان دارالحرب ہوگیا ہے اور جہاد فرض ہوگیا ہے اور اس کے خلاف بغاوت اور خروج کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور پھر اعلان کر کے اسی نظم کے تحت بالاکوٹ کی جنگ ہوئی ہے اس نتیجہ میں انہوں نے پشاور پر قبضہ کیا اور پھر وہ مظفر آباد جا رہے تھے تو راستے میں رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ نے گھیرے میں لے کر شہید کر دیا۔ ۱۸۳۱ء کی بالاکوٹ کی جنگ ہو چکی تھی اور اس کے بعد حالات اتنے دِگرگوں ہو گئے کہ دہلی کے مرکز کے بڑے بزرگ شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور اس کے بعد بغاوت، خروج اور جہاد کی جو نئی آبیاری ہوئی ہے یعنی ۱۸۳۱ء سے لے کر ۱۸۵۷ء تک درمیان کے عرصے میں ملک بھر میں تیاری ہوتی رہی، مختلف مقامات پر بنگال، صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) پنجاب میں بھی جس نے بعد میں ۱۸۵۷ء کی اجتماعی شکل اختیار کر لی تھی۔
اس کی تفصیلات کا موقع نہیں، میں صرف یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ ۱۸۵۷ء کا معرکہ پورے ملک میں ہوا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی تھی، اس میں اِس حلقے نے بھی شاملی کے محاذ پر حصہ لیا تھا۔ اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ جب جنرل بخت خان نے بغاوت کر دی تو اِس حلقے کے لوگوں نے تھانہ بھون میں آپس میں مشاورت کی اور اس میں ایک ترتیب طے پائی کہ’ ہم نے بھی بغاوت کرنی ہے اور جہاد کرنا ہے‘ تو اس میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو امیر المومنین بنایا گیا جو اس وقت شیخ المشائخ تھے، اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو جنگ کے لیے کمانڈر انچیف اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو قاضی القضاۃ بنایا گیا۔ ایک سسٹم طے کیا اور اس کے تحت بغاوت ہوئی ،جنگ لڑی اور شاملی کا محاذ فتح ہوا ۔ میں نے الحمد للہ وہ مقام دیکھا ہے ،ہم جب آخری بار دیوبند کے پروگرام میں انڈیا گئے ہیں تو مولانا اللہ وسایا صاحب ،اللہ پاک سلامت رکھے ہمارے بڑے باذوق بزرگ ہیں ، تھوڑا بہت ذوق میرا بھی ہے۔ تو ہم نے وہ سارے ایس او پیز سے نکل کر شاملی کا محاذ بھی دیکھا ہے ، تھانہ بھون بھی دیکھا ہے، مولانا اللہ وسایا نے اس کی تفصیل لکھی ہے۔ تو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ناکام ہو گئی تھی۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس وقت سب کچھ انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا، مدارس بند کر دیے اور سارا سسٹم ختم کر دیا تھا۔
اس کے بعد دیوبند سے پرائیویٹ سطح پر مدرسے کا آغاز ہوا۔ پہلے مدارس کی پوزیشن یہ ہوتی تھی کہ نواب صاحبان، بادشاہ اور ریاستیں علماء کو جاگیریں دے دیتی تھی اور وہ مدرسہ بناتے تھے ۔لیکن ۱۸۷۵ء میں ہم بالکل زیرو پوائنٹ پر جا کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اس وقت جو پہلا مدرسہ بنا ہے وہ ۱۸۶۶ء میں دیوبند میں مدرسہ عالیہ کے نام سے ان میں حاجی عابد حسین، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہم بھی تھے ۔اس مدرسے کا بانی بھی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا تاریخ میں تعارف تین حوالوں سے ہے، جنگ آزادی میں کردار کے حوالے سے ،دیوبندی مکتبہ فکر اور دارالعلوم دیوبند کے بانی کے حوالے سے ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی خدمات کے دائرے اور بھی بہت سے ہیں، بنیادی طور پر وہ ایک متکلم تھے۔ یعنی وقت کے فکری، اعتقادی فتنوں کو محسوس کر کے اُن کا مقابلہ کرنا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے عقائد ، اس کی تعبیرات وتشریحات کو نئی نسل تک پہنچانا۔ یہاں ہر دور میں متکلم رہے ہیں مگر اُس دور کے سب سے بڑے متکلم حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ تھے۔اس حوالے سے میں ایک بات کہا کرتا ہوں کہ ایک دائرہ فقیہ کا ہوتا ہے لہٰذا ہمارے فقہی امام مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ہیں ،اور ایک دائرہ متکلم کا ہے لہٰذافکری امام اور علم کلام میں ہمارے پیشواحضرت نانوتویؒ ہیں اور روحانیات میں ہمارے امام حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔یہ ہماری تکون ہے۔ روحانیات، سلوک ،تصوف میں ہماری ساری نسبتیں حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ پرجمع ہوتی ہیں۔اورفقہی حوالے سے ہمارے عقائد اور مسائل کی تعبیرات وتشریحات مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور ہمارے فکری، فلسفہ ، جدید مسائل ، علم کلام اس میں ہماری انتہاء حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ہیں ،لہٰذا اِس تکون سے دیوبندیت نے جنم لیا ہے۔ کسی نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ دیوبندیت اور بریلویت میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا ۱۸۵۷ء کے بعد مسائل، عقائد، تعبیرات میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی تعبیرات کو ’’دیوبندیت‘‘ کہتے ہیں اور مولانا احمد رضا خان کی تعبیرات کو ’’بریلویت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ تعبیرات کے فرق سے الگ الگ دائرے ہوئے ہیں ۔
اس وقت کے جو اعتقادی فتنے اور فکری خطرات تھے ،ایک طرف عیسائیت بڑھ رہی تھی کیونکہ ۱۸۵۷ء کے بعد ایک یلغار عیسائیت نے کی ہے ویسی ہی یلغار جیسے اندلس کے فتح کے بعد اسپین نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے کی تھی۔ ملکہ ازابیلہ نے جبر، تبلیغ، دعوت سے سارا ماحول تبدیل کرنے کی کوشش کی، اندلس کو دوبارہ اسپین بنانے میں انہیں سو سال بھی نہیں لگا ،اس سے کم عرصہ میں ماحول تبدیل ہو گیا تھا۔ اب آپ کو اگر اسپین جانے کا موقع ملے تو وہاں ’’عائشہ اسٹریٹ‘‘ ملے گی عائشہ نہیں ملے گی، ’’علی روڈ‘‘ ملے گا علی نہیں ملے گا، وہاں شاید ’’عثمان پارک‘‘ بھی مل جائے لیکن عثمان نہیں ملے گا، بس پرانے نام چلے آرہے ہیں اور وہ تبدیل کر رہے ہیں۔
یہاں (برصغیر میں) بھی یہی پروگرام اور اُن کی فرنٹ لائن یہ تھی کہ ان (مسلمانوں) کو عیسائی بنا لیا جائے۔ لہٰذا پادریوں نے قریہ قریہ بستی بستی یلغار کی اور ہمارے علماء نے الحمدللہ اس کا سامنا کیا، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور ان کے ساتھ پورا گروپ ہے اور اس کی پوری ایک تاریخ ہے، وہ بھی ۱۸۵۷ء کے جہاد کے شرکاء میں سے ہیں ۔ علمی طور پر اُن کی کتاب ’’اظہار الحق‘‘ آج تک عیسائی مسلم کلامیات پر سند مانی جاتی ہے اور عملی طور بھی جہاد میں۔ اس وقت جو بڑے پادری فنڈر سامنے آئے تھے اس کا مقابلہ بھی اسی گروپ نے کیا تھا۔
اسی طرح اس زمانے میں ایک یلغار اتحادِ مذاہب کے حوالے سے بھی تھی یعنی مکالمہ بین المذاہب، ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا۔ اس پر ’’میلہ خداشناسی‘‘ کے نام سے ایک میلہ لگا کرتا تھا ، اس میں ہندو، آریا سماج، سکھ اور مسلمان بھی شریک ہوتے تھے اور ساری پبلک جمع ہوتی تھی، تین تین، چار چار، پانچ پانچ دن مجمع جمع رہتا تھا اور سارے مذاہب کے مقررین اور متکلمین اس میں آکر بحث کرتے تھے اور پھر لوگ فیصلہ کرتے تھے۔ اس میں ہمارے بزرگ بھی جاتے تھے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور دوسرے حضرات بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ایک محاذ یہ تھا کہ اپنے مذہب اور عقائد کو عقلی بنیاد اور کامن سینس سے ثابت کرنا ہے۔ میں درمیان میں ایک فرق واضح کرتا چلوں کہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ کار کیا رہا ہے؟ دوسرے مذاہب سے جب آپ کسی مسئلے پر گفتگو کریں گے تو وہاں آپ کے اپنے دلائل نہیں چلیں گے، کسی عیسائی سے بات کرتے ہوئے قرآن پاک کا حوالہ آپ کو کام نہیں دے گا کیونکہ یہ ہمارا اپنا حوالہ ہے ،کسی سکھ سے گفتگو کرتے ہوئے آپ کو حدیث کام نہیں دے گی کیونکہ یہ ہمارے آپس کے دلائل میں سے ہے۔ اس کے ساتھ مسلّمات سے بات کرنی ہوگی ۔یہ بات ہم بسا اوقات بھول جاتے ہیں اور اس بات کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا جس سے بھی مکالمہ کریں دلیل مسلمات میں سے ہوتی ہے یک طرفہ دلیل، دلیل نہیں ہے۔ آج بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے مذاہب کے حوالے سے آپ اپنے دلائل سے بات نہیں کریں گے، بلکہ ان دلائل سے بات کریں گے جو دونوں کے درمیان تسلیم شدہ ہیں۔ اور آج کی دنیا میں مسلمات میں سب سے بڑا مسلمہ اصول ’’کامن سینس‘‘ ہے۔ لہٰذا آج یہودیوں اور عیسائیوں سے گفتگو کرنے کے لیے آپ کو کامن سینس سے ہی بات کرنا ہو گی، اسی طرح دہریوں کے ہاں کامن سینس کے علاوہ کوئی اور دلیل چلتی ہی نہیں ہے۔ میلہ خدا شناسی کے نام سے ایک دائرہ یہ تھا کہ عقل، کامن سینس، محسوسات اور وقت کی زبان میں اپنے مذہب اور مسائل کو ثابت کرنا ہوتا تھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور یہ حلقہ اس کا بھی ایک میں کردار تھا۔
ہمارے ہاں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ’’ہمیں ایسے مباحثوں میں شریک نہیں ہونا چاہئے ‘‘ یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ہمیں اس میں شریک ہونا چاہیے نہیں بلکہ شریک ہونا پڑے گا۔ آج کی دنیا میں خدا کے انکار، دہریت، سیکولرازم، مذہب کے انکار اور قیامت کے انکار پر جو فکری مباحث ہیں ہم اُن سے لاتعلق رِہ کر دین کی خدمت نہیں کر سکتے۔ معلوم نہیں ہمارے ہاں یہ سوچ کہاں سے آگئی ہے کہ ’’ہمارا ان چیزوں سے کیا تعلق ہے‘‘ لہٰذا آج کے جو مسائل ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ خدا کا انکار ہے، آج دنیا اور انسانی سوسائٹی کی بنیادی تقسیم بلیورز اور نان بلیورز کی ہے، جو اہل مذاہب خدا اور آخرت کو مانتے ہیں وہ بلیورز اور جو نہیں مانتے یہ نان بلیورز کہلاتے ہیں۔ ہم اُن سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، اُن سے بات کرنی پڑے گی اور مباحثے میں شریک ہونا پڑے گا۔ خیر اس کا ایک دائرہ میلہ خدا شناسی کے نام سے تھا، حضرت نانوتویؒ اور ان کے رفقاء بھی اس کا ایک بنیادی کردار تھے انہوں نے اس مکالمے سے گریز نہیں کیا اس میں شریک ہوئے ہیں اور اپنے مذہب اور مسائل کو عقل، منطق، لاجک اور کامن سینس سے ثابت کیا ہے۔
ایک تقسیم اور ذہن میں رکھ لیں کہ ہمارے ہاں سوسائٹی کی تقسیم میں لاجک اور دلیل کی بنیاد پر جو طبقہ سب سے نمایاں ہوا ہے وہ ’’دیوبندی‘‘ کہلاتا ہے، رویات، درایت اور بیلنس بھی ہے۔ ایک طبقے کی بنیاد خالص درایت پر ہے جیسے سر سید احمد خان ہیں ،ایک طبقے کی بنیاد خالص روایت پر ہے ہمارے اہل حدیث دوستوں کی اور ایک طبقے کی بنیاد سماجی روایات پر ہے جیسے بریلویت۔ لہٰذا لاجک اور کامن سینس کے طور پر سب سے نمایاں ’’دیوبندی‘‘ طبقہ ہے۔ اقبالؒ نے بھی یہی کہا ہے کہ ’’ہر پڑھا لکھا مسلمان دیوبندی ہے‘‘ یعنی جو پڑھی لکھی، دلیل اور لاجک سے بات کرتا ہے۔ بالکل ہندوؤں میں اسی زمانے میں ایک نیا فرقہ ایجاد ہوا تھا جس کو ’’آریاسماج‘‘ کہتے ہیں اس کا بانی پنڈت دیانند سرسوتی ہے اور یہ بھی پڑھے لکھے ہندو کہلاتے ہیں۔ یہ لاجک سے بات کرنے میں مشہور تھے، اس پر ایک مثال عرض کرتا ہوں اور دوسرا علماء کرام سے التماس کرتا ہوں کہ پڑھا کریں۔
پنڈت دیانند سرسوتی بڑا پڑھا لکھا فلسفی اور مفکر آدمی تھا۔ کسی کے گمراہ یا کافر ہونے سے اس کی علمیت کی نفی نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہمارے ہاں ایک مسئلہ ہے کہ ’’جس کے ساتھ ہمارا اتفاق نہیں وہ جاہل ہے‘‘ ایسا نہیں ہے۔ کسی کے فکر، مذہب اور عقیدے سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا علم ہی چھن گیا ہے، بلکہ اس کے پاس علم ہے۔ پنڈت دیانند سرسوتی نے ایک کتاب لکھی، اس میں مذاہب کا تقابل کیا ہے، حق باطل سے ہٹ کر عقلی دنیا میں وہ بہت بڑی کتاب ہے، عیسائی ، بدھ مت، مسلمان کیا ہیں؟ تقابلِ مذاہب پر وہ کتاب ہے۔ اس میں مسلمانوں پر بھی تبصرے ہیں اس میں ایک مستقل باب ہے قرآن پاک پر ایک سو سترہ (۱۱۷) عقلی اور کامن سینس قسم کے اعتراضات ہیں۔ اور ایک نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے وہ دلائل کافی ہیں، خالی الذہن آدمی کو اگر پڑھا دیں تو وہ (اپنے مذہب سے) چھلانگ لگا دے گا۔
آج بھی جو سوالات نئی نسل کے ذہنوں میں ڈالے جا رہے ہیں اور یہ نئی نسل دینی اعتبار سے خالی الذہن ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہمارے بچوں اور بچیوں کے ذہنوں میں جو سوالات ڈالے جا رہے ہیں اور مسلسل ڈالے جا رہے ہیں اس نسل کے ذہنوں میں جو دینی اعتبار سے خالی الذہن ہے اور ہم شکایت یہ کر رہے ہیں کہ وہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو وہ گمراہ کیوں نہیں ہوں گے! خالی برتن میں جو کچھ ڈال دے گا وہی کچھ ہو گا۔ کیا ہم نے اُس برتن میں کچھ ڈالا ہے جو دوسرے سے شکایت کریں؟ جب برتن خالی ہے تو جو مرضی ڈالے گا۔ یہی صورت اُس وقت تھی ۔تو عرض کر رہا تھا کہ دیانند کی کتاب میں سادہ سے سوالات ہیں مثلاً اس نے لکھا ہے کہ ’’دیکھو! ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب حق ہے اس میں آجاؤ! مگر مسلمان ابھی تک اس کام میں لگے ہوئے ہیں ، صبح اٹھ کر وضو کرتے ہیں اور کھڑے ہو کر اللہ سے کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے، یعنی ابھی تک ان کے پاس سیدھا راستہ نہیں ہے۔‘‘
ایک خالی الذہن بچے کے لیے یہ سوال کافی ہے کہ ابھی تک سیدھا راستہ نہیں ہے تب ہی مانگ رہے ہیں ۔ایک سوال اس نے یہ کیا کہ ’’دیکھو! مسلمان ہمیں کہتے ہیں کہ ہندو بت پرست ہیں، ٹھیک ہے ہم پتھر کی مورتی بناتے اور اس کو پوجتے ہیں اور آپ نے پتھر کا کوٹھا بنایا ہوا ہے اور اس کے اردگرد گھومتے ہیں، پتھر کو چومتے ہیں، وہاں بھی پتھر کو پوجتے ہیں اور ہم بھی پتھر کو پوجتے ہیں تو فرق کیا ہے؟‘‘
اس کتاب میں اس قسم کے سوالات ہیں۔ اس پر ہمارے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا تو آمنا سامنا اور مناظرہ بھی ہوا ہے، حضرت کے رسالہ ’’قبلہ نما‘ ‘میں اِن سوالات کے جوابات کا ذِکر ہے۔ اگر میری یہ بات ہضم ہو جائے تو میں عرض کروں گا کہ دیانند سرسوتی کے اس فکری فتنے کے جواب میں تین بزرگ سامنے آئے ہیں، (۱) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (۲) اہل حدیث حضرات میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی کتاب ہے ’’حق پرکاش‘‘ جو اس کے جواب میں لکھی گئی ہے (۳) بریلوی بھی میدان میں آئے ہیں، مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے اس حوالہ سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ نئی نسل کے ذہن میں وقت سوالات کھڑے کرتا ہے اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اس دور کے فکری امام بھی ہیں، انہوں نے سوالات کا سامنا کیا ہے نظرانداز نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا کہ ’’چھوڑو یار! رہنے دو‘‘ بلکہ انہوں نے سامنا کیا اور جواب دیا ہے۔ ان کے جواب پر پنڈت دیانند نے مانا اور تسلیم کیا۔
یہاں ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں، میلہ خدا شناسی میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا ایک ہندو پنڈت سے مناظرہ ہو رہا تھا، مکالمہ لاجک، دلیل اور منطق سے ہوتا ہے۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ میں شکست کھا رہا ہوں تو اس نے پینترا بدلا اور کہا ’’مولوی صاحب چھوڑو اس بات کو یہ باتیں ہوتی رہے گی، کھانے کا مقابلہ کر لو!‘‘ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے فرمایا، ’’ٹھیک منظور ہے‘‘۔ یہ سن کر ساتھی پریشان ہوگئے کہ مولوی صاحب تو کھاتے ہی کچھ نہیں ہیں، یہ تو ہلکی پھلکی خوراک کھاتے ہیں اور کھانے کا چیلنج قبول کر لیا ہے۔ جب بات آگے بڑھی اور فیصلہ ہونے تک پہنچی تو مولانا قاسم نانوتویؒ نے فرمایا ’’ٹھیک ہے مقابلہ کھانے کا ہے، لیکن کھانے کا نہیں ہوگا بلکہ نہ کھانے کا ہوگا۔ مجھے اور اسے پنجرے میں بند کر دو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم و افکار کی بات بڑی لمبی ہے، اور میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس پر کچھ عرصہ پہلے حضرت مولانا محمد اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے انڈیا میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ پر محاضرات کروائے تھے، انڈیا میں چھپے ہیں ہمیں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے کہوں گا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی شخصیات سے عقیدت اور محبت بھی رکھتے ہیں، ان کے نام نے نعرے بھی لگاتے ہیں، مگر انہیں پڑھتے نہیں ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے تعلیمی، فکری اور سیاسی دائرے کو پڑھنا چاہئے۔
میں اس پر اپنی بات کو ختم کروں گا کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ سے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اپنی یادداشتوں میں یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے مدرسہ بنایا ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا ’’دیکھو! تعلیمی کام کرتے رہو میں کسی میں رکاوٹ نہیں بنتا، لیکن میرے استاذ نے یہ مدرسہ کیوں بنایا تھا؟ ۱۸۵۷ء میں جو کچھ نقصانات ہوئے تھے اس کی تلافی اور متبادل تلاش کرنے کے لیے یہ مدرسہ بنایا تھا‘‘۔ کیونکہ۱۸۵۷ ء میں ہمارا سب کچھ لُٹ گیا تھا اور ہم زیرو پوائنٹ پہ کھڑے ہوگئے تھے ۔ ہم اپنے نقصانات کا اندازہ کر لیں، ایک تقسیم کار ہے۔
ایک بات اور عرض کروں گا کہ ہم میں سے ہر آدمی سارے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ فیل ہو جاتا ہے اس لیے کہ ہم میں ابھی تک تقسیم کار نہیں آرہی۔ ہمیں تقسیم کار کرنا ہوگی، آپس میں کام بانٹنا ہوگا اور نقصانات کا اندازہ کرنا ہوگا، جو علمی بھی ہیں، فکری بھی ہیں، سیاسی بھی ہیں، اور تہذیبی بھی ہیں۔ ہمیں فکری حلقوں کو اس وقت کی ترجیحات کا جائزہ لینا ہو گا۔ چلیں پچھلے نقصانات تو جو ہوگئے سو ہوگئے تھے، ہمیں اس وقت کے نقصانات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اب کہاں کہاں سے کیا کیا نقصانات آ رہے ہیں ، ہمیں سوچ سمجھ کر ترجیحات قائم کر کے، اپنے بزرگوں کی تعلیمات کو پڑھ کر اور اُن سے واقفیت حاصل کر کے اُن کی راہنمائی میں ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی ہو گی اور اُن بزرگوں سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی، اللہ پاک اُن کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں اُن سے شعوری راہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ بہت خوش آئند ہے جس پر حافظ خرم شہزاد اور ان کے ساتھیوں کو مبارک باد دوں گا کہ وقتاً فوقتاً ہم کسی بزرگ کی شخصیت کو سامنے رکھ کر بیٹھیں، باتیں کریں، اُن کی خدمات کا جائزہ لیں، اُن میں اپنے لیے راہنمائی کے راستے تلاش کریں اور دیکھیں کہ ہم نے اُن کے مشن کو آج کے دور میں کیسے باقی رکھنا اور آگے بڑھانا ہے۔ اور ہماری یہ ڈبل ذمہ داری ہے کہ اُن کے مشن کو باقی رکھنا اور آگے بڑھانا! کیا وہاں سامنے کام رُک گئے تھے؟ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی وفات کو کتنا عرصہ ہوا ہے اور کیا ان کے بعد کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوا؟ ہمارے آج کے چیلنجز کا سامنا کس نے کرنا ہے؟ اب چیلنجز، طریقہ کار اور ہتھیار مختلف ہوگئے ہیں اس لیے اب ہماری ڈبل ڈیوٹی ہے۔ پچھلے بزرگوں کے مشن کے مشن کو زندہ رکھنا اور آج کی ضروریات کا اندازہ کر کے اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا، ہم تو بوڑھے ہوگئے ہیں نئی نسل کو کم از کم سمجھا تو دیں کہ یہ کام کرنے کا اور ایسے کرنے کا ہے۔ اللہ پاک اس پروگرام کو کامیابی عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائض سرانجام دیتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین