حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۴)

مولانا عبید اختر رحمانی

حضرت امام صاحب کے غیر کوفی اساتذہ کرام کی مختصر فہرست 1

مدنی اساتذہ کرام

عبدالرحمن بن ہرمز مدنی

آپ نے حضرت ابوہریرہ اورحضرت ابوسعید خدری اوردیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کی ہے،آپ کو حافظ ذہبی نے الامام الحافظ ،الحجۃ کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔ (سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر:مؤسسة الرسالة،5/69)

ہشام بن عروۃ بن الزبیر بن العوام الاسدی

آپ کو اپنے والد عروہ ،چچا زبیر،عبداللہ بن عثمان اور دیگر کبار تابعین سے روایت  کاشرف حاصل ہے،حافظ ذہبی نے آپ کاالامام الثقہ شیخ الاسلام کے باعظمت القاب سے ذکر کیاہے۔(سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر:مؤسسة الرسالة،6/34)

ابن شہاب الزہری

آپ کی ولادت سنہ ۵۰ ہجری میں ہوئی اور بیس سے کچھ زائد عمر میں علم حاصل کرنا شروع کیا۔ حضرت ابن عمرؓ سے دو حدیثیں روایت کیں۔ ان کے علاوہ سہل بن سعد، انس بن مالک، محمود بن الربیع اور دیگر متعدد صحابہ کرام اور کبار تابعین سے روایت کا آپ کو شرف حاصل ہے، علم حدیث میں آپ کا بڑامقام ومرتبہ ہے،اورتقریباآپ کی جلالت علمی پر محدثین کا اتفاق ہے،حافظ ذہبی نے آپ کو احدالاعلام وحافظ زمانہ سے ملقب کیاہے۔(تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام،المؤلف: شمس الدين الذهبي، الناشر: دار الغرب الإسلامي 3/499)

نافع مولى ابن عمرؓ

 آپ اصلاًدیلم کے رہنے والے تھے، اسیر ہوکر حضرت عبداللہ بن عمرکے پاس پہنچے،آپ نے عبداللہ بن عمرؓ کے علاوہ ابوسعید الخدریؓ،مالک بن انس ودیگر صحابہ کرام وکبار تابعین سے روایت کی ہے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایات کے آپ مرکزی راوی ہیں، اورآپ ہی کے سلسلہ سند کو امام بخاری سلسلۃ الذہب واصح الاسناد قراردیاہے۔آپ کی علمی جلالت شان اور علم حدیث میں ثقاہت واتقان پر محدثین کرام کا اتفاق واجماع ہے۔.(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان،المؤلف: ابن خلكان الإربلي (المتوفى: 681هـ)الناشر: دار صادر – 5/367)بيروت)

ربیعۃ الرای

آپ نے صغار صحابہ کرام اور کبا رتابعین سے حصول علم میں استفادہ کیاہے،آپ کے شاگردوں میں اساطین اہل علم کاشمار ہے،امام مالک نے فقہ میں آپ سے بطور خاص استفادہ کیاہے اورآپ کی فقاہت کی داد دیگر فقہاء ومحدثین نے بلند وبالا الفاظ میں دی ہے،صحابہ کرام کی موجودگی میں آپ فتویٰ دیاکرتے تھے،بعض حضرات نے توآپ کوحسن بصریؓ اور ابن سیرینؓ سے بھی زیادہ بڑافقیہ قراردیاہے،امام مالک فرمایاکرتے تھے کہ ربیعہ کی موت سے فقہ کی مٹھاس چلی گئی ،فقہ کے ساتھ حدیث میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی، ابن سعد نے نے آپ کو کثیرالحدیث قراردیاہے۔(تهذيب التهذيب، المؤلف: ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند3/258)

امام ابوحنیفہ کے متعلق بعض محدثین نے ایسے اقوال نقل کیے ہیں، جس سے پتہ چلتاہے کہ امام ابوحنیفہ ان کی باتوں کو نہایت غور سے سنتے تھے توبجائے اس کے کہ اس کو امام ابوحنیفہ کے حسن ادب اور علمی مجالس کے آداب نشست وبرخاست برتنے کے سلیقہ میں شمار کیاجائے ،بعض سوء فہم کے شکار افرادنےاس چیز کو امام ابوحنیفہ کے عیب وتنقیص میں شمار کیاہے(دیکھئے نشرالصحیفۃللوادعی:ص۳۹۱)،جیساکہ ایک روایت ہمیں ملتی ہے کہ امام ابوحنیفہ امام مالک کی مجلس میں اسی طرح بیٹھتے تھے جیسے بچے اپنی ماں کے سامنے باادب بیٹھتے ہیں(تذکرۃ الحفاظ ،الناشر: دار الكتب العلمية بيروت-لبنان۱؍۱۵۵)اس پر حافظ ذہبی نے لکھاہے:

’’ قلت: فہذا يدل علی حسن أدب أبي حنيفة وتواضعہ مع كونہ أسنّ من مالك بثلاث عشرة سنة.‘‘ (المصدرالسابق)

میں کہتاہوں(ذہبی)یہ امام ابوحنیفہ کے حسن ادب اور تواضع کی دلیل ہے،کیونکہ امام ابوحنیفہ امام مالک سے عمر میں تیرہ برس بڑے تھے2۔

محمد بن المنکدر

آپ نسب ونسبت کے اعتبار سے قریشی ،تمیمی اور مدنی ہیں،آپ کا شمار کبارتابعین ہیں، آپ کوجلیل القدر صحابہ کرام اورامہات المومنین سے روایت کا شرف حاصل ہے،آپ نے حضرت سلمان فارسی، ابورافع،اسماء بنت عمیس،ابوقتادہ سے مرسلاً روایت کی ہے،صحابہ کرام میں حضرت ابن عمر،حضرت جابر،حضرت ابوہریرہ،حضرت ابن عباس،حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت انس بن مالک، حضرت ابوامامہ،حضرت مسعود بن الحکم ،حضرت عبداللہ بن حنین اورصحابیات میں ام المومنین حضرت عائشہؓ ،امیمہ بنت رقیقہ سے روایت کا شرف حاصل ہے، اس کے علاوہ آپ نے کبار تابعین سے بھی روایت کی ہے جس میں سعید بن المسیب،عروہ بن زبیر اور عبدالرحمن بن یربوع اوراپنے والد منکدر ودیگر شامل ہیں،حافظ ذہبی نے آپ کو الإِمَامُ، الحَافِظُ، القُدْوَۃ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔(سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر:مؤسسة الرسالة،5/354)

عكْرِمَة مولى ابن عباس

آپ کا آبائی تعلق بربر قبیلہ سے ہے،مجاہدین کے ہاتھوں اسیر ہوئے، اورایک صاحب نے آپ کو حضرت عبداللہ بن عباس کو تحفے میں دیدیا،آپ کوحضرت عبداللہ بن عباس کے علوم کا وارث خیال کیاجاتاہے،بالخصوص تفسیر میں آپ کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے،آپ نے حضرت ابن عباسؓ کے علاوہ ام المومنین حضرت عائشہ،حضرت ابوہریرہ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن عمرو ودیگر کبار تابعین سے روایت کیاہے، حضرت علیؓ سے آپ نے مرسلاروایت کیاہے۔آپ کے شاگردوں مین اساطین فقہ وحدیث موجود ہیں،صحابہ کرام تک آپ سے استفادہ کرتے تھے، حضرت شعبی فرمایاکرتے تھے کہ اب روئے زمین پر عکرمہ سے زیادہ کتاب اللہ کا واقف کار کوئی دوسرا نہیں ہے،آپ کو حافظ ذہبی نے العلامة الحافظ، إمام المفسرين کے باوقعت الفاظ سے یاد کیاہے۔

یحیی بن سعید الانصاری

آپ نسباًانصاری ہیں، اولاًمدینہ کے قاضی رہے پھر منصور نے آپ کوقاضی القضاۃ مقرر کیا، آپ کو صغارصحابہ کرام اور اکابر تابعین عظام سے روایت کا شرف حاصل ہے،آپ کے شاگردوں میں علم حدیث وفقہ کےنامور افراد موجود ہیں۔فقہ کا عالم یہ ہے کہ ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ مدینہ میں یحیی بن سعید سے زیادہ فقیہ کوئی دوسرانہیں، اورحدیث میں بقول سفیان ثوری آپ زہری کے مد مقابل ہیں۔(تذكرة الحفاظ،المؤلف: شمس الدين الذهبي ،الناشر: دار الكتب العلمية بيروت-لبنان1/104)

ابو جعفر الباقر

آپ اہل بیت میں سے ہیں، آپ حضرت حسینؓ کے پوتے اور حضرت علیؓ وفاطمہؓ کے پرپوتے ہیں ،آپ جلیل القدر تابعی ہیں۔متعدد صحابہ کرام اور کبار تابعین سے آپ نے روایت کی ہے، اورآپ کے شاگردوں میں آفتاب علم وفضل کی کثیرتعداد موجود ہے۔آپ حدیث وفقہ دونوں میدان کے شہسوار تھے۔(البداية والنهاية،المؤلف: ابن كثير (المتوفى: 774هـ)الناشر: دار إحياء التراث العربي9/338)

مکی اساتذہ کرام

عطاء بن ابی رباح

(27 - 114 هـ = 647 - 732 م)

آپ حبشی غلام تھے، یمن کے جند نامی مقام میں پیداہوئے،اور حضرت ابن عباس کی خدمت میں رہ کر علم میں وہ مقام پیداکیاکہ حج کے دورمیں صرف انہی کا فتویٰ چلتاتھا،امام ابوحنیفہ کے ان سے تاثر کا ذکر ماقبل میں آچکاہے۔(الاعلامللزرکلی۴؍۲۳۵)

عمرو بن دِينار

(46 - 126 هـ = 666 - 743 م)

آپ کا نسب کے اعتبار سے فارسی ہیں، آپ کی پیدائش صنعااوروفات مکہ میں ہوئی ،اپنے عہد میں آپ مکہ کے مفتی اورمحدث تھے،شعبہ کہتے ہیں کہ میں آپ سے زیادہ حدیث میں کسی کو پختہ کار نہیں دیکھااور امام نسائی ثقہ اور ثبت کہتے ہیں۔(الاعلامللزرکلی۵؍۷۷)

نافذ المکی

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:آپ کی کنیت ابومعبد ہے،آپ حضرت ابن عباس کے غلام تھے، ا ثقہ ہین اور راویوں کے چوتھے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کا انتقال ۱۰۴؍ہجریمیںہوا۔(تقریب۱؍۵۵۸)

محمد بن مسلم تدرس

آپ کی کنیت ابوالزبیر ہے،حافظ ذہبی نے آپ کو تاریخ الاسلام میں احد الاعلام اور سیر اعلام النبلاء میں الإمام، الحافظ، الصدوق کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے،آپ نے درج ذیل صحابہ کرام جابر بن عبد الله، وابن عباس، وابن عمر، وعبد الله بن عمرو، وأبي الطفيل، وابن الزبيررضی اللہ عنہم اجمعین ودیگر سے روایت کی ہےآپ کے شاگردوں میں کبار اہل علم جیسے عطاء بن ابی رباح ،زہری ودیگر ہیں۔

مکی اساتذہ میں امام ابوحنیفہ کے دیگر مشائخ درج ذیل ہیں۔

عبدالعزیز بن رفیع مکی

عبداللہ بن ابی نجیح المکی

عبداللہ بن عبدالرحمن

طلحہ بن نافع الواسطی

شیبہ بن مساور ،مسور المکی

حمید بن قیس المکی الاعراج الطویل

ابراہیم بن میسرہ الطائفی نزیل مکہ

بصرہ کے اساتذہ 

حسن بصریؒ

آپ کاعلمی مقام محتاج تعارف نہیں،مختلف علوم وفنون بشمول حدیث وفقہ اورتفسیر میں آپ کو امامت کا درجہ تھا، آپ کی زبان سے حکمت کے موتی جھڑتے تھے،امام غزالی فرماتے ہیں کہ آپ کاکلام انبیاء وصحابہ کے کلام کے مشابہ ہے۔(الاعلامللزرکلی۲؍۲۲۶)

قتادہ بن دعامہؒ

آپ کی کنیت ابوخطاب ہے،علم حدیث ،تفسیر ،عربی زبان وادب اورایام عرب میں آپ بڑے ماہر تھے،احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں،بصرہ میں حدیث کے آپ سب سے بڑے حافظ تھے،آپ کا انتقال واسط میں طاعون کی بیماری میں ہوا۔ (الاعلام للزرکلی۵؍۱۸۹) حافظ ابن حبان آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ اپنے عہد کے عالی مرتبت حدیث کے حافظ، مفسر قرآن اور فقیہ تھے۔ (مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار،/154)

ایوب سختیانیؒ

آپ نے حسن بصری ،ابن سیرین ودیگر کبار تابعین واہل علم سے استفادہ کیااورآپ کے شاگردوں میں شُعْبَۃ، ،حماد بن زید ،حماد بن سلمہ ،سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ ، ومَعْمَرٌ، وَمُعْتَمِرٌ، وابْنُ عُلَيَّةَ، وعَبْدُ الْوَارِثِ اوردیگر ساطین اہل علم ہیں۔آپ کے بارے میں شعبہ کہتے ہیں ،آپ اپنے دو رمیں فقہاء کے سردار تھے، ابن عیینہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آپ جیساکسی کو نہیں دیکھا،ابن سعد آپ کو حدیث میں نہایت پختہ کار،مختلف علوم وفنون کے جامع ،وسیع علم کے حامل اورعادل وحجت مانتے ہیں۔امام مالک فرماتے ہیں میں نے تم لوگوں سے جن لوگوں کی تعریف وتوصیف کی ہے،ایوب ان سب میں سب سے فائق ہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی۳؍۶۱۸)

شعبہ بن الحجاج الواسطی

حدیث وادب عربی میں آپ کا خاص مقام تھا، حدیث میں آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کا گراں قدر خطاب دیاگیاہے، آپ نے ہی اولاعراق میں راویوں کی تفتیش اور چھان بین کی بناڈالی اورضعیف راویوں کی روایت سے اجتناب شروع کیا، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں علم حدیث میں آپ تنہا ایک امت کے برابر ہیں،امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر آپ نہ ہوتے توعراق میں علم حدیث مٹ جاتا،اصمعی کہتے ہیں میں نے شعروادب میں آپ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ (الاعلام للزرکلی۳؍۱۶۴)

واضح رہے کہ شعبہ بن الحجاج امام ابوحنیفہ کے معاصر ہیں اور امام ابوحنیفہ سے آپ کو محبت تھی، چنانچہ آپ کو امام ابوحنیفہ کے انتقال کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ ان کے ساتھ ہی کوفہ کی فقہ بھی چلی گئی (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ 126)

ان کے علاوہ آپ کے مشائخ میں متعدد ایسے افراد کے نام آتے ہیں جو یمن وشام کے رہنے والے تھے،جیسے طائوس بن  کیسان اور معاصرین میں امام اوزاعی،مکحول ودیگر۔

اجتہاد مطلق کسی تابعی کے قول پر تخریج کاکام نہیں 

۷: تخریج کا جو نظریہ حضرت شاہ ولی نے پیش کیاہے ­––––امام صاحب  قواعد کلیہ اوراصول جاننے کے بعد ابراہیم نخعی اوران کے ہم عصر کوفی مشائخ کے اقوال پر تخریج کرکے پیش آمدہ مسائل کا جواب دیتے تھے ،پیش آمدہ مسائل کے سلسلہ میں احادیث کی کھوج کرید نہیں کرتے تھے––––وہ مجتہد مطلق جو ایک عظیم فقہی مسلک کا بانی ہو ،کی رفعت شان کے بالکل خلاف ہے، تمام کتب اصول فقہ اورتمام اصولیین اس بات پر متفق ہیں کہ مجتہد مطلق کا فریضہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث اوراجماع سے مسائل کا استنباط کرے اور اگرقرآن وحدیث میں دلالت،اقتضاء،اشارہ وایماء وغیرہ کے طورپر بھی کوئی مسئلہ مذکور نہ ہو تواس  سلسلے میں قرآن وحدیث کی نظیروں کو سامنے رکھ کر قیاس کرے، یہی ایک مجتہد کی شان ہوتی ہے؛ لیکن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریہ تخریج سے ایسامستفاد ہوتاہے کہ امام صاحب حافظ قرآن تو تھے ،پاس پڑوس سے جتنا اورجیساحدیث کا علم حاصل ہوگیا،اسی پر قانع اورشاکر تھے،اوربقیہ مسائل کے استنباط واستخراج میں اصل کام ابراہیم نخعی کے فتاوی واجتہاد کواپنانے اورانہی کے بیان کردہ مسائل پر دیگر مسائل کی تفریع تھی۔

 اگرحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کانظریہ تسلیم کرلیاجائے تو پھر امام صاحب کی مجتہد مطلق کی حیثیت خطرہ میں پڑجاتی ہے اوران کی حیثیت بڑی حد تک صاحب تخریج تک سمٹ کر رہ جاتی ہے اورامت کا تقریباًاس پر اجماع ہے کہ امام صاحب مجتہد مطلق تھے، ادلہ اربعہ سے استنباط واجتہاد کرتے تھے،اوریہ واضح ہے کہ ادلہ اربعہ میں ابراہیم نخعی اوران کے ہمعصر کوفی فقہاء کا شمار نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ غیرجانبدار اور ایسے اہل علم حضرات نے جو تاریخ اور فقہ اسلامی پر گہری نگاہ رکھتے ہیں،انہوں نے اس نظریہ کو امام صاحب کی فقہی واجتہادی شان کے منافی بتایاہے، چنانچہ شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں:

ولقد کان فی مقابل ھولاء الذین افرطوا فی التعصب من ادعی ان اباحنیفۃ مکانہ فی الفقہ مکان المتبع لم یات بجدید الافی التخریج وسرعۃ التفریع وعین ھولاء صاحب ھذہ الطریقۃ التی اتبعہ فیھا ابوحنیفۃ وھو ابراہیم النخعی ومن ھولاء الدہلوی ،فقد جاء فی کتابہ حجۃ اللہ البالغۃ ما نصہ،"کان ابوحنیفہ الزمھہم بمذہب ابراہیم واقرانہ ........فقہاء الکوفۃ،وفی ھذاالنص کماتری حکم علیٰ ابی حنیفۃ بانہ لم یات بتفکیر فقہی جدید ،بل ھو متبع کل الاتباع ،ناقل کل النقل لابراہیم واقرانہ ،لایخرج عن آرائہم،الا فیما لایکون لھم اجتہاد فیہ ،وان خرج فالی اقوال علماء الکوفۃ،ولاشک ان فی ھذاالحکم ھضمالمکان ابی حنیفۃ فی الفقہ، لانہ یجعلہ مقلدا أو فی حکم المقلد المتبع۔ ( ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ وآراہ وفقھہ ص253-255)

اوراس کے بالمقابل وہ لوگ تھے جوتعصب میں حد سے تجاوز کرگئے،ان کا دعویٰ یہ ہےکہ امام ابوحنیفہ کا فقہ واجتہاد کا مقام متبع کا ہے،انہوں نے کئی نئی فکر پیش نہیں کی گئی اوران کی فقہ کا پورا سرمایہ تخریج اور تفریع میں سرعت ہے،اورجن حضرات نے ابوحنیفہ کو ابراہیم نخعی کا متبع قراردیاہے،ان میں ہی شاہ ولی اللہ دہلوی بھی ہیں، انہوں نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھاہے(..............یہاں وہی باتیں حضرت شاہ ولی اللہ کی نقل کی ہیں جس کو ہم پہلے نقل کرچکے ہیں)اورجیساکہ آپ دیکھ سکتے ہیں،اس تحریر میں واضح طورپر کہاگیاہےکہ امام ابوحنیفہ نے فقہ واجتہاد کے باب ومیدان میں کوئی نئی فکر اورنیافقہی سانچہ پیش نہیں کیا بلکہ وہ پورے طورپر متبع اورناقل ہیں، ابراہیم نخعی اوران کے معاصرین کے ،ان کی آراء سے تجاوز نہیں کرتے،ہاں کسی مسئلہ میں ان سے کوئی نقل مروی نہیں ہے تو اس میں اجتہاد کرتے ہیں،اگرابراہیم نخعی سے عدول کرتے بھی ہیں تو ان کا دائرہ صرف علماء کوفہ تک ہی محدود ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ نظریہ امام ابوحنیفہ کے شان کے منافی ہے،کیونکہ اس نظریہ کا مفاد یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ مقلد اورمتبع ہیں۔

مداحین یامخالفین سے اس بارے میں کچھ بھی منقول نہ ہونا

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی شخصیت جس کے مخالفین کی بڑی تعداد ہو اور جس کے حامیوں کا جم غفیر ہو،(جس کی ایک نمایاں مثال خود حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہیں،جیساکہ ابن عبدالبر نے جامع بین العلم وفضلہ3 میں اور شیخ ابوزہرہ نے4 لکھاہے،ایسی شخصیت کے بارے میں کسی ایسے نظریہ کا اظہار جس کا سراغ نہ حامیوں کے یہاں ملتاہواورنہ مخالفین کے یہاں ،اسے قبول کرنا بہت مشکل کام ہے۔

اگرایسی کسی شخصیت کے بارے میں کسی ایسے نظریہ کا دعویٰ کیاجائے جس کا سراغ نہ حامیوں کے یہاں ملتاہے اورنہ مخالفین کے یہاں، تواس کیلئے بڑی مضبوط اورناقابل تردید دلیل نہیں بلکہ دلائل کی ضرورت ہوتی ہے،اورہم دیکھ چکے ہیں کہ تخریج کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ کی جودلیل ہیں وہ سبھی کی سبھی نہ صرف یہ کہ کمزور ہیں؛ بلکہ ان سے اس نظریہ تخریج کا بھی اظہار نہیں ہوتا جس کے وہ مدعی ہیں؛ بلکہ قوی دلائل ان کے موقف کےبرعکس ہیں۔

دلیل نہ کہ شخصیت

یوں تو ہرمجتہد مطلق کا فریضہ ہے کہ وہ دلیل کی پیروی کرے اور دلائل کی بنیاد پراجتہاد واستنباط کرے،لیکن اس میں بھی امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا خاص امتیاز ہے ،امام صاحب دلیل کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے تھے،اوران کا قول تھاکہ اگرکسی کے پاس ہماری بات سے اچھی بات ہے توہم اس کی بات قبول کرلیں گے:

ھذا الذی نحن فیہ رائ لا نجبر علیہ احدا، ولا نقول یجب علی احد قبولہ، فمن کان عندہ احسن منہ فلیات بہ، الحسن بن زیاد اللولوی قال قال ابو حنیفۃ علمنا ھذا رای وھو احسن ما قدرنا علیہ، ومن جاءنا باحسن منہ قبلناہ منہ (مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ،ص۳۴)

ہم اپنی رائے کے سلسلہ میں کسی پر زبردستی نہیں کرتی اور نہ کسی سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ اس کو تسلیم ہی کرے،اگرکسی کے پاس اس سے چھی رائے ہو تو وہ لے کر آئے،ایک دوسری روایت میں آپ نے فرمایا:ہمارا یہ علم رائے(فقہ وقیاس) ہےاوراس پر ہم اپنی بہترین کوشش کے بعد قادر ہوئے ہیں ،اگرکوئی اس سے اچھی رائے (فقہ واجتہاد)پیش کرتاہے توہم اس کی رائے قبول کرلیں  گے۔

ایسابھی ہواہے کہ بعض مرتبہ آپ نے اپنی رائے پیش کی لیکن آپ عمر اورعلم وفضل میں کم کسی دوسرے فرد نے اس رائے کی مخالفت کی تو حق کی وضاحت کے بعد آپ اپنی رائے سے فوراًدستبردار ہوگئے، آپ کی رائے تھی کہ اگر غلام دشمن سے لڑائی میں شریک نہیں ہے تواس کی امان باطل ہے ،لیکن جب زہیر بن معاویہ نے حضرت عمرؓ کے واقعہ سے استدلال کیا توآپ اپنی رائے ترک کرکے اس کے قائل ہوگئے۔5۔

حفص بن غیاث کی روایت ہے  کہ مسائل میں غوروفکر کرنے کے بعد ایک ہی دن میں تین چارپانچ بار اپنی رائے کو بدل دیتے تھے6اوراس سلسلے میں اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے کہ ان کی رائے کی اس تبدیلی کو سطحی نظروالے کیاسمجھیں گے،ابوعوانہ کی روایت ہے کہ وہ امام صاحب کے مسائل وآراء سے وہ اچھی طرح واقف ہوگئے تھے لیکن ایک طویل عرصہ کے بعد جب دوبارہ امام صاحب کے پاس واپس آئے تواس دوران امام صاحب کے خیالات وآراء بدل چکے تھے ،لہذا یہ دیکھ کر وہ امام صاحب سے برگشتہ ہوگئے7۔

امام صاحب نے ہی ایک مرتبہ حضرت امام ابویوسف سے فرمایاکہ میری ہر بات نہ لکھ لیاکرو ،کیونکہ خیالات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، ہوسکتاہے کہ جس بات کو تم نے لکھ لیاہو ،کل کلاں کو اس تعلق سے میرے خیالات بدل جائیں اور تم اس سے واقف نہ ہوسکو8۔

خلاصہ کلام

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق تخریج کے جس نظریہ کا اظہار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایاہے، وہ دلائل کی بنیاد پر کمزور اورمخدوش ہے،اوراس سے نہ صرف یہ کہ امام ابوحنیفہ کی بطور مجتہد مطلق شان میں کمی واقع ہوتی ہے ؛بلکہ تخریج کے ضمن میں خود حضرت شاہ صاحب کے نظریات میں الجھن سی محسوس ہوتی ہے،جس کی ماقبل میں نشاندہی کی گئی ہے،ایسے میں یہ ضروری ہے کہ اس موضوع اوراس پہلو پر مزید تحقیق کی جائے اوردلائل کی روشنی میں جس جانب قوت ہو،اس کو تسلیم کیاجائے۔

ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب۔


حواشی

1. امام صاحب کے مدنی ،مکی اوربصری اساتذہ میں سے محض چنداورمشہورحضرات  کا یہ تعارف ہے،وگرنہ امام صاحب  کے مشائخ کی تعداد اگرہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں ضرور ہے۔ابوحفص الکبیر کی روایت ہے کہ امام صاحب کے مشائخ واساتذہ کی تعداد چارہزار ہے ،حافظ صالحی نے عقودالجمان میں آپ کے 334 مشائخ کا نام بنام شمار کرایا ہےاوراسی طرح آپ کے ۹۰۰ سے زائد شاگردوں کے نام لکھے ہیں۔ (دیکھئے عقود الجمان  ص86)

2. یہ روایت سند کے اعتبار سے تونہیں لیکن متن کے اعتبار سے مخدوش ہے ،وہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ کا جب انتقال ہوا ہے یعنی ۱۵۰ہجری میں ،اس وقت اشہب اس روایت کے راوی کی عمرپانچ سال تھی اور یہ متیقن نہیں کہ امام ابوحنیفہ کا یہ واقعہ ان کے انتقال سے کتناپہلے کاہے، اگرہم بالفرض مان ہی لیں کہ ان کے انتقال کے سال کا واقعہ ہے توبھی اتنی کم عمر کے بچے سے اس طرح کے واقعہ کایاد رکھنا بہت مستبعد ہے اور بالخصوص جب کہ اشہب مدینہ کے نہیں مصر کے رہنے والے تھے،ہاں جیساکہ شیخ زاہد الکوثری نے لکھاہے کہ ہوسکتاہے کہ اشہب نے یہ بات امام محمد بن الحسن الشیبانی کے بارے میں لکھی ہو اور بعد میں ناقلین ونساخ کی غلطی سے امام ابوحنیفہ کا نام آگیاہو۔

3. قَالَ أَبُو عُمَرَ رَحِمَہ اللَّہ: " الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي حَنِيفَۃ وَوَثَّقُوہ وَأَثْنَوْا عَلَيْہِ أَكْثَرَ مِنَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيہ، وَالَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيہ مِنْ أَہلِ الْحَدِيثِ، أَكْثَرُ مَا عَابُوا عَلَيْہ الْإِغْرَاقَ فِي الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ وَالْإِرْجَاءَ وَكَانَ يُقَالُ: يُسْتَدَلُّ عَلَی نَبَاھۃ الرَّجُلِ مِنَ الْمَاضِينَ بِتَبَايُنِ النَّاسِ فِيہ قَالُوا: أَلَا تَرَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْہ السَّلَامُ، أَنَّہ قَدْ ھلَكَ فِيہ فَتَيَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَمُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ،وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّہ يَہلِكُ فِيہ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُطْرٍ وَمُبْغِضٌ مُفْتَرٍ، وَہذِہ صِفَۃ أَہلِ النَّبَاھَۃ وَمَنْ بَلَغَ فِي الدِّينِ وَالْفَضْلِ الْغَايَۃ، وَاللَّہ أَعْلَمُ" [جامع بیان العلم وفضلہ ص:1085]

ابوعمرؒ کہتے ہیں کہ جن حضرات نے امام ابوحنیفه سے روایت كی ہے اوران كوثقہ قراردیاہے اوران كی تعریف كی ہے، ان كی تعداد ان سے زیاده ہے جنهوں نے ان پر كلام كیاہے،اورجن محدثین حضرات نے ان پر كلام كیاہے توان كے كلام كی وجه زیاده تریہ ہے كه امام ابوحنیفہ كا رائے اورقیاس سے اشتغال زیاده ہے اور وه ارجاء كے قائل ہیں،یہ بات کہی جاتی رہی ہےكہ فوت شده اشخاص كی عظمت كی دلیل ان كے بارے میں لوگوں كا مختلف الرائے ہونا ہے اوراس كی واضح مثال حضرت علی رضی الله عنه كی ذات گرامی ہے،ان كے بارے میں دوجماعت دوانتہاپسندانہ موقف كی قائل ہوگئیں، ایك انتہائی محبت كرنے والا اورایك ان سے انتہائی بغض ركهنے والا اورحدیث میں بهی حضرت علی رضی الله عنہ كے بارے میں فرمایاگیاہے کہ ان كے بارے میں دوجماعت ہلاک ہوں گی، ایك محبت میں غلو كرنے والا اور دوسرا نفرت میں حد سے تجاوز كرنے والا ،كسی كے بارے میں لوگوں كی رائے كا مختلف ہوناہی عظمت اوربلندیٔ مرتبت كی دلیل  ہے۔

4. جاء فی كتاب الخیرات الحسان مانصہ:’’ يُسْتَدَلُّ عَلَی نَبَاھَۃ الرَّجُلِ مِنَ الْمَاضِينَ بِتَبَايُنِ النَّاسِ فِيہ قَالُوا: أَلَا تَرَی إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْہ السَّلَامُ، أَنَّہ قَدْ ھَلَكَ فِيہ فَتَيَان مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَمُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ‘‘وان ہذہ الكلمة الصادقۃ تنطبق علیٰ ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ ،فقد تعصب لہ الناس حتی قاربوابہ منازل النبین المرسلین ،فزعموا أن التوراۃ بشرت بہ، وأن محمداً ﷺذكرہ باسمہ ،وبین أنہ سراج أمتہ،ونحلوہ من الصفات والمناقب ماعدوابہ رتبتہ وتجاوزوا معہ درجتہ وتعصب ناس علیہ فرموہ بالزندقۃ ،والخروج عن الجادۃ، وإفساد الدین ،وہجرالسنۃ بل مناقضتہا ،ثم الفتویٰ فی الدین بغیر حجۃ ولاسلطان مبین ،فتجاوزوافی طعہنم حدالنقد ولم تیجہوا إلیٰ آرائہ بالفحص والدراسۃ ،ولم یكتفوا بالتزییف لہا من غیرحجۃ ولادراسۃ ،بل عدوا عدواناشدیدا ،فطعنوا فی دینہ وشخصہ وإیمانہ (أبوحنیفه حیاته وعصره آراؤه الفقهیۃ،ص۷)

الخیرات الحسان میں یہ قول نقل ہواہےماضی کے افراد کی عظمت کی دلیل ان کے بارے میں لوگوں کا مختلف الرائے ہونا ہے ، اوراس قول کی صداقت کی واضح مثال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے ،جن کے بارے میں دوفریق دوانتہاپسندانہ موقف کے قائل ہوگئے،اوریہ بات بعینہ حضرت امام ابوحنیفہؓ پر صادق آتی ہے ،ان کے بارے میں ایک فریق نے محبت میں اس درجہ غلو کیاکہ ان کا مرتبہ نبیوں اوررسولوں تک پہنچادیا اور یہ کہاکہ تورات میں ان کی بشارت آئی ہے اورحضورپاکﷺ نے نام کے ساتھ ان کا ذکر کیاہے اوربتایاکہ آپ اس امت کے چراغ ہیں اورآپ کے ایسے صفات اورمناقب بیان کئے جس کے ذریعہ آپ کا مرتبہ کوحد سے زیادہ بڑھادیا،دوسرا فریق وہ ہے جنہوں نے آپ سے تعصب کو روا رکھااورآپ کے بارے میں ہرطرح کی گفتنی اورناگفتنی باتیں کہیں،مثلاًیہ کہ آپ زندیق تھے، راہ راست سے منحرف تھے،دین میں بگاڑ کیلئے کوشاں تھے،سنت کے تارک تھے بلکہ سنت کے مخالف تھے،دینی وشرعی امور میں فتویٰ بغیر کسی دلیل وحجت کے دیاکرتے تھے،انہوں نے تنقید میں حد سے تجاوز کرلیا،ابوحنیفہ کی آراء وافکار کا غیرجانبداری اورگہرائی سے جائزہ نہیں لیا بلکہ بغیر کسی دلیل کے آپ کے آراء وافکار کو کھوٹاقراردیا اوران سب کے ساتھ آپ کی ذات وشخصیت سے دشمنی میں حد سےگزرگئے،یہاں تک کہ ان کے نزدیک آپ کا دین وایمان اورشخصیت ہرچیز قابل تنقید ہے۔

5. (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقہاء:۱۴۰)

6. (تاريخ بغداد،پہلی طباعت:1422هـ - 2002 م،۱۵؍۵۴۴)

7. (المصدرالسابق) ان کی یہ برگشتگی اگرچہ  ذہنی افق کی تنگی کی وجہ سے تھی ورنہ یہ وہ بھی خیال کرسکتے تھے کہ اپنی رائے سے برسرعام رجوع بہت بڑا مجاہدہ اورنفس کشی ہے اور اس کا ظرف اچھے اچھوں میں نہیں ہوتا ،ہاں وہ جس کا جینا مرنا خدا کیلئے ہو،اوریہی حال کچھ امام شافعی کے قول قدیم اورقول جدید کاہے۔

8. (المصدرالسابق)

شخصیات

(جولائی ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter