ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہ

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

اقبال نے جدید فلسفہ و سائنس پر جس علم الکلام کی بنیاد رکھی، اپنی دقت و پیچیدگی کی وجہ سے صرف خواص اہل علم کا ایک طبقہ ہی اس سے مستفید ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مزید دو اسباب کی بنا پر فکرِ اقبال کی توضیح زیادہ بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہو سکی: ایک تو اقبال کی شاعری کے سحر حلال نے عوام و خواص کو اس طرح مسحور کیا کہ ان کی توجہ ’’خطبات‘‘ کی طرف ملتفت نہ ہو سکی۔ دوسرے، ’’خطبات‘‘ میں اقبال کی ایسی تجدد پسندانہ آرا سامنے آئیں ،جو راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے براہ راست طور پر متصادم تھیں اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست خود مولانا سید سلیمان ندوی تھے، جنہیں اقبال معاصر ہندوستانی علماء میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور جن سے اقبال کے علمی استفادے کا تعلق تادم آخر برقرار رہا۔ اقبال کے فکر و فلسفے کی بنیاد پر کلامی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے والوں میں سب سے اہم نام ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱۹۰۴ء۔۱۹۶۹ء) کا ہے۔

تعارف

ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بالترتیب فارسی اور عربی میں بی اے اور ایم اے کیا اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے ۔وہاں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۶۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ فلسفہ اور اسلام کے موضوع پر انہوں نے متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کی نظر میں علامہ اقبال کے بعد برصغیر ہند میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین ہی مسلمان فلسفی کہلانے کے مستحق ہیں(۱)۔ وہ فکر اقبال کے شیدائی اور حکمت اقبال کے خوشہ چیں تھے۔ بلکہ ان کے اپنے دعوی کے مطابق، ان کی فکر اسی سے ماخوذ اور اسی کی تشریح و توضیح پر مبنی ہے۔ انہوں نے بطور خاص اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر ایک نیا فلسفیانہ نظریہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اقبالیات پر ان کی کتاب "حکمت اقبال" اور اسلامی فکر و فلسفے کے حوالے سے ان کی کتابیں :Ideology of the Future اور " قرآن اور علم جدید" خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ ان دونوں میں انہوں نے خاص طور پر اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر فکر اسلامی کا نیا ڈھانچہ تیار کرنے یا بالفاظ دیگر اقبال کے تعمیر کردہ ڈھانچے پر نئی منزلیں اٹھانے کی کوشش کی اور اس نے اہل علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ اگرچہ ان کی فکری کاوش پر جس طرح گفتگو ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہو سکی۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا احساس ہے کہ مغرب کا مادی نظریہ ٔ حیات و کائنات دنیا کے تمام مذہبی نظامہائے فکر کے لیے ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس نے مسیحیت سمیت دنیا کے مختلف مذاہب کی ما بعد الطبیعاتی فکر کے قالب کو بدل ڈالا ۔ اب وہ ایک عرصے سے اسلام پر یلغار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے موجودہ اسلامی نسلوں میں ذہنی ارتداد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کفر نئے فلسفے کے لباس میں جلوہ گر ہو کر سامنے آیا ہے(۲)۔ اسلام کے تہذیبی انحطاط کی وجہ بھی مغرب کے یہی غلط فلسفیانہ تصورات ہیں ،جن سے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں ہی طبقہ یکساں طور پر متاثر ہے۔ جب کہ غلط طور پر اس کا اہم سبب بے عملی کو بتایا جاتا ہے ۔حالانکہ بے عملی اصلاً‌ اسلامی معتقدات پر یقین و اعتماد کے انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اسلامی نظریہ ٔحیات و کائنات میں فکری و عملی سطح پر مسلمانوں کے لیے کشش و جاذبیت اس لیے باقی نہیں رہی کہ موجودہ دور میں اس کی غلط تعبیر و تشریح کی گئی ۔دوسری طرف مغرب کے فلسفیانہ تصورات میں بھی یک گونہ حق و صداقت کا پہلو موجود ہے، جو ہمارے دامن فکر کو اپنی طرف کھینچتا رہا اور ہم اسلامی فکر میں اس کی گنجائش محسوس نہ کرتے ہوئے اس کے تئیں ایک حد تک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہے(۳)۔ مغربی فکر کی تنقید اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ علم بالوحی اور علم بالحواس کے صحیح اور متوازن کردار کی تعیین کے ساتھ ر ایک مستحکم فکری نظام تشکیل دینے کی کوشش نہ کی جائے۔

اس بنیادی احساس کے تحت ڈاکٹر رفیع الدین کا طریق فکر و عمل یہ ہے کہ جدید فلسفہ و سائنس کے احساس پر اٹھائی گئی مغرب کے مادی افکار کی عمارت کو اسی کے فکری تیشوں سے توڑنے کی کوشش کی جائے۔ تاہم دوسری طرف اس کے ان پہلوؤں سے مطابقت و ہم آہنگی کی راہیں بھی تلاش کی جائیں جن کی بنیاد پر اسلامی فکر کو ایک نئے قالب میں پیش کیا جا سکے ۔اسلامی فکر کا نیا قالب ان کی نظر میں دراصل وہی ہے جس کی تشکیل عصر حاضر میں اقبال کی فکر سے ہوئی۔ درحقیقت فکر اقبال کی خوبی بھی یہی تھی اور خامی بھی یہی کہ اس کے تشکیلی مادے میں مغرب کی مادی بنام سائنسی فکر کے وہ عناصر بھی شامل کیے گئے تھے جو اسلامی فکر کی ظاہری و باطنی ساخت اور روح کے مغائر تھے۔

محمد رفیع الدین مذہب کو ایک فلسفیانہ حقیقت کی شکل میں پیش کرنے کے اس لیے خواہاں نظر آتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہ گہرے طور پر فلسفیانہ حقائق سے مربوط ہے ۔ایک معنی میں فارابی کی فکری کی پیروی کرتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت بجائے خود ایک فلسفہ ہے(۴)۔ گویا اسلام کی فکری قدروں کی تعیین و پیمائش کا ایک میزان فلسفہ بھی ہے جسے وہ "حکمت" سے تعبیر کرتے اور اس کا ماخذ قرآن کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ فلسفہ معروف معنوں میں وہ فلسفہ نہیں ہے جو یونانی اور مغربی کارگاہوں میں ڈھل کر اپنے الفاظ و تصورات کا ایک پیکر محسوس رکھتا ہے ۔ فلسفہ وہ عقلی کاوش ہے جو غلط مفروضات کی بنیاد پر غلط نتائج پیدا کرتا ہے لیکن اگر اس عقلی کاوش کے مفروضات و اساسات درست ہوں تو ان سے صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وحی اپنے اندر عقلی تسکین کا مکمل سامان نہیں رکھتی۔ اس لیے عقل چاہتی ہے کہ:

’’جن سوالات کے جواب خدا کی وحی پہلے ہی دے چکی ہے یہ ان سوالات کا کوئی ایسا جواب بھی ڈھونڈ نکالے جو اس کے اپنے لیے بھی مکمل طور پر تسکین بخش ہو‘‘(۵)۔

عقل کی اس غیر معمولی اہمیت کے اعتراف کے باوجود وہ اس کی نارسائی کے معترف ہیں اور یہ تصور رکھتے ہیں کہ حقیقت اعلی کا مکمل ادراک کسی بھی طور پر عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اس کے صرف جزوی ادراک پر ہی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل وجدان کے ذریعے ہوتی ہے ۔فلسفہ اور سائنس دونوں ہی اپنی فعلیت میں وجدان سے کام لیتے ہیں ۔گویا حقیقت تک رسائی کا عقل کے بعد دوسرا اہم انسانی ذریعہ وجدان ہے۔ تاہم عقل کی طرح وجدان کو بھی مغالطے لاحق ہوتے ہیں اور ان مغالطوں کی بنیاد پر جس تصور حیات کی تشکیل ہوتی ہے وہ انسان کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا دیتا ہے(۶)۔ وہ اپنی فلسفیانہ فکر میں وجدان کو وہی اہمیت دیتے نظر آتے ہیں جو فکر اقبال میں غالب و محسوس نظر آتی ہے۔

سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم و کشمکش کی بحث میں وہ اہل دانش کے اس طبقے کے ساتھ ہیں جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ سائنس کا علم بھی اقداریت سے خالی (valueless) نہیں ہے۔ سائنسی تحقیق پہلے سے طے شدہ کسی مفروضے اور اعتقادی اصول پر قائم ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں خالی الذہن اور معروضی ہوتا ہے۔ ہر سائنس داں اپنی سائنسی تحقیق کے پس پشت کچھ مفروضات (assumptions) رکھتا ہے، جو خود حقیقت کائنات کے کسی عقیدے سے ماخوذ ہوتے ہیں اور اس کی تحقیق کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں(۷)۔ اقبال نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن رفیع الدین اپنی مختلف تحریروں میں ایک اہم اصول اور کلیے کے طور پر اس کا اعادہ کرتے ہیں جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ سائنس بجائے خود اپنا ایک عقیدہ رکھتی ہے اور اس معنی میں وہ خود ایک مذہب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ سید حسین نصر اور ضیاء الدین سردار جیسے معاصر مسلم مفکرین نے اب اس پہلو کو زیادہ واشگاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم پرویز ہود بھائی اور نضال قسوم جیسے دانشوروں کی ایک تعداد اس نقطہ ٔ نظر کی شدید ناقد ہے۔

رفیع الدین کی نگاہ میں اسلام کے تئیں علمائے اسلام کی طرف سے سب سے اہم ذمہ داری مغربی فلسفہ ٔ حیات و کائنات کے مقابلے میں ایک ایسے فلسفہ ٔ حیات و کائنات کو دنیائے علم میں متعارف کرانا ہے جس سے ایک طرف مغرب کے مادی فلسفوں کی اصولی تردید ہوتی ہو جب کہ دوسری طرف وہ اسلام کی فلسفیانہ روح کا صحیح ترجمان اور اس کے ابدی وغیر متبدل حقائق کا جامع ہو ۔اس فلسفے کے خد و خال پر انہوں نے اپنی مختلف کتب اور تحریروں میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، جس کو وہ "نصب العین" کے فلسفے کا نام دیتے ہیں(۸)۔ زیادہ تفصیل کے ساتھ انہوں نے اپنی کتاب ’’منشور اسلام ‘‘میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے(۹)۔ سوال یہ ہے کہ انسان کی وہ فطری قوت محرکہ کیا ہے جو اس کو کارگاہ حیات میں متحرک رکھتی ہے اور جس سے تمام تر اعمال و افعال کے چشمے پھوٹتے ہیں؟۔ مارکس، فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل جیسے مادیت پرست فلسفیوں کی نگاہ میں وہ بالترتیب انسان کی معاشی ضرورت، جنسی خواہش اور جبلی امنگ ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے غلط مطالعہ و تجزیے سے ان نظریات کو تشکیل دیا گیا ہے ۔انسان کی بنیادی قوت متحرکہ اصلاً‌ اس کا نصب العین اور اس سے محبت ہے۔ نصب العین سے محبت ہی انسانی فطرت کا تقاضا اور انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ بھی وہی ہے(۱۰)۔ جہاں تک اس نصب العین کے وجود و تشکیل کی بات ہے تو وہ دراصل خودی کی پیداوار ہے جسے وہ خود شعوری کا بھی نام دیتے ہیں۔ قدرت کے تمام تر مظاہر کا باعث یہی خودی یا خود شعوری ہے :

’’نصب العین کی محبت مادہ اور جبلت سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی کے ایک مرکزی اور دائمی وصف کے طور پر خود بخود موجود ہے ۔ انسان کی خودی خدا کی محبت کے شدید جذبے کی وجہ سے جو ایک پرزور عمل کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ،تخلیق و ارتقا کے ایک مسلسل دور سے گزر رہی ہے ‘‘(۱۱)۔

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’اگر انسان اپنے نصب العین یا آدرش کے اظہار سے صحیح طور پر واقف نہ ہو ،جس کی وجہ تعلیم نبوت و وحی سے دوری ہوتی ہے تو اس کا اظہار وہ غلط طریقے سے کرتا ہے۔ اپنا ایک غلط آئیڈیل منتخب کر کے اسی سے خدا کی صفات منسوب کرتا اور اس کو اپنا معبود تصور کر لیتا ہے‘‘ (۱۲)۔

اس طرح ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی فکر کے مطابق، اخلاق کا بنیادی پیمانہ انسان کا اپنا نصب العین ہے۔ نصب العین سے ہی کسی قوم کے اخلاقی افکار و محرکات تشکیل پاتے ہیں۔مغربی اخلاقیات کی اسی تناظر میں قدر پیمائی کرنی چاہیے۔ اقبال کے نظریہ ٔ خودی سے ماخوذ اس فلسفیانہ نظریے میں نصب العین کے تصور کا اضافہ انہوں نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ اقبال نے اس کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے تا ہم اس کو کوئی واضح اور مرکزی حیثیت نہیں دی ہے جو رفیع الدین کے فلسفے میں نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے فلسفے کا دوسرا اہم عنصر نظریہ ٔ ارتقا ہے، جس کو انہوں نے مختلف نئے پہلوؤں سے پیش کرنے اور اپنے نتائج فکر مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جدید مسلم دانش وروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ڈارون کے نظریہ ٔ ارتقا کو درست تصور کرتا ہے اور اس خیال کا حامی ہے کہ : "نوع انسانی نوع حیوانات کی اولاد ہے جو اپنے جسم، دماغ اور نظام عصبی کی ساخت میں انسان سے کم تر درجے کی تھی"(۱۳)۔ وہ اسے قرآنی نظریہ ٔ ارتقا کا نام دیتے ہیں: "حقیقت ارتقا دنیا کے علمی مسلمات میں سے ہے اور قرآن اس کی مخالفت نہیں کرتا ،بلکہ تائید کرتا ہے‘‘(۱۴)۔ البتہ وہ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے سبب ارتقا کے نظریے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہیں ،جس کے مطابق مادے کے اندر ارتقا کا سلسلہ بغیر کسی شعوری محرک اور عقلی تنظیم کے ابتدا سے جاری ہے ،جسے ڈارون کشمکش حیات، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح (survival of fittest) کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نظریہ ٔ ارتقا کا پہلا حصہ درست ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرا حصہ بھی درست ہو لیکن غلطی یہ ہوئی ہے کہ ان دونوں حصوں کو باہم مخلوط کر دیا گیا ہے۔ کائنات کا وجود و بقا سنت تدریج سے عبارت ہے اور انسان بھی اس سے مستثنی وجود نہیں ہے۔ مزید برآں انسان کے نوعی و جسمانی ارتقا کی طرح اس کا نفسیاتی ارتقا بھی ہوا ہے اور اس ارتقا کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ انسان کی خود شعوری معراج کمال کو نہ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ کائنات کی بھی تکمیل ہو جائے گی جو گویا بجائے خود نمو و ارتقا کے مرحلے میں ہے (۱۵)۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم ’’کن‘‘ (ہوجا) سے یہ مطلب اخذ کرنا غلط ہے کہ کائنات اس حکم کے تحت فورا وجود میں آگئی۔ اس آیت کا مطلب فقط اتنا ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اس حکم کو تدریج پر محمول کیا جائے اور اس تصور تدریج میں یہ امر شامل ہے کہ کائنات کی تشکیل وجود کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آفرینش کائنات،تخلیق وہبوط آدم،زمین وآسمان اور پہاڑوں پر خدا کی طرف سے امانت پیش کیے جانے( الاحزاب:۷۲) جیسے اس سلسلے کے تمام واقعات کو انہوں نے مجاز و تمثیل پر محمول کیا ہے(۱۶)۔

وہ اپنے اس فلسفۂ ارتقا کے تناظر میں اسلام کے ما بعد الطبیعاتی تصورات کی تشریح و وضاحت کرتے ہیں۔ چناں چہ نبوت کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ انسان کے اندر خود شعوری کی محبت کمزور پڑ جاتی ہے جس کے بعد صحیح نصب العین کے ساتھ اس کے عملی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں رہتی۔ ایسے میں اس مشکل مرحلے سے انسان کو نکالنے اور خود شعوری کی تربیت کے لیے نبی کا ظہور ہوتا ہے جس کی خود شعوری خدا کی خصوصی عنایت سے یکایک نقطہ ٔ کمال تک پہنچ جاتی ہے اور کائنات کی خود شعوری اس کی خود شعوری پر اس طرح حاوی ہو جاتی ہے کہ اس کے بیان یا کلام کے نفسیاتی اور جسمانی میکانیہ کو اپنے تصرف میں لے لیتی ہے۔ چونکہ کائنات کے ہر عمل پر ایک فرشتہ مقرر ہے۔ ایک فرشتہ اس قانون پر بھی مقرر ہے اور اسے ہی جبرئیل سے موسوم کیا جاتا ہے(۱۷)۔

کائنات اپنی تکمیل کی تگ و دو میں مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ پہلی تکمیل زندہ خلیہ کے وجود میں آنے اور دوسری تکمیل مکمل جسم انسانی کے وجود میں آنے سے ہوئی۔ جب کہ تیسرے مرحلے میں ارتقا کا عمل کامل نبی کے ظہور پر ختم ہوا اور اب چوتھی تکمیل جس کے لیے ارتقا کی قوتیں کام کر رہی ہیں، نوع بشر کا روحانی کمال ہوگا اور اس کی بنیاد تیسری تکمیل یعنی نبوت کاملہ ہوگی(۱۸)۔

اقبال کی طرح ان کی فکر کا محرک یہ خیال ہے کہ پوری اسلامی فکر کی تنظیم نو (reconstruction) کی ضرورت ہے تاہم یہ اہم بات ہے کہ بعض ان نقاط فکر پر جن کے حوالے سے اقبال کی فلسفیانہ فکر کو تنقیدات و اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا ہے ، انہوں نے نام لیے بغیر اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے نقطہ ٔ نظر کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ چناں چہ ’’خطبات‘‘ کی ایک عبارت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جیسے اقبال کو خود خدا کی ذات میں تغیر کا پہلو نظر آتا ہو۔ رفیع الدین پرزور طور پر اقبال کا نام لیے بغیر اس کا رد و ابطال کرتے ہیں(۱۹)۔ اسی طرح وہ اقبال کے اس نقطہ ٔ نظر کی تردید کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان خدا کے ساتھ معاون فاعل بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اقبال پر شدید ترین تنقیدیں کی جاتی رہی ہیں(۲۰)۔

چند تنقیدی ملاحظات

رفیع الدین کی کلامی و فلسفیانہ فکر و منہج پر درج بالا گفتگو کا خلاصہ تین اہم نکات پر مشتمل ہے: 

۱۔ سائنسی فکر میں قطعیت کا دعوی غلط ہے۔

۲۔ مغرب کے تمام مادی فلسفوں کا ابطال ضروری ہے۔

۳۔ ان فلسفوں کے ابطال و تردید کے بعد ان سے صالح عناصر کا استخراج کرتے ہوئے ان سے اسلام کی فلسفیانہ فکر کی تشکیل و ترتیب کی جانی چاہیے، جس کے امتیازی خدوخال میں اسلامی نظریہ ٔ ارتقا اور نصب العین کا تصور شامل ہے۔

رفیع الدین کی فلسفیانہ فکر کا سب سے جاذب نظر پہلو مغربی فکر کے ساتھ اسلامی فکر کی پیوند کاری یا بالفاظ دیگر، اسلام اور مغرب کی جدید فلسفہ و سائنس سے مرکب مادی فکر کے درمیان تطبیق و ہم آہنگی سے عبارت ہے ۔ مغرب کی مادی و ملحدانہ فکر سے صالح عناصر کی تجرید کی کوشش اصولی طور پر اعتراض سے بالاتر ہے تا ہم اس کی سب سے بڑی مشکل وہی ہے جس پر سید حسین نصر جیسے دانش ور زور دیتے ہیں کہ مغربی جدیدیت پر مبنی فکر ایک مکمل پیکج کی حیثیت رکھتی ہے اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے۔ اس لیے یہ عمل ناممکن نہیں تو مشکل ترین اور بغایت پر خطر ہے ۔اس سے مذہبی فکر کی داخلی شناخت کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس نوع کا عمل ایک لحاظ سے ’اسلامک سوشلزم‘ اور ’اسلامک مارکسزم ‘جیسے رجحانات اور کوششوں کے مشابہ بن جاتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد عالم اسلام کے بعض حصوں میں ابھر کر سامنے آئیں(۲۱)۔ ڈاکٹر رفیع الدین کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اگر فرائڈ کے نظریہ ٔ لاشعور جنس میں معمولی سی ترمیم کر دی جائے تو پھر یہ نظریہ ہمہ تن قرآن کے نظریہ ٔ فطرت کی تفسیر بن جائے گا(۲۲)۔ بایں طور کہ فرائڈ جس جذبے کو جنسی محبت قرار دیتا ہے اسے خدا کے ساتھ محبت میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہی عمل انہوں نے ڈاروینی نظریہ ٔ ارتقا کے حوالے سے بھی کیا ہے جس کا ذکر اوپر آیا۔ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے اسلامی فکر کے ساتھ اس کی مطابقت کی کوشش کی ہے۔ مزید برآں فکر اسلامی کی تجدید کی بحث میں اسے ایک اصولی اور اساسی حیثیت دیتے ہوئے اپنے افکار مرتب کیے ہیں۔ لیکن اس اہمیت کے باوجود نظریہ ٔ ارتقا پر مذہبی غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے سوالات و تنقیدات کا کوئی علمی جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ حالاں کہ اس موضوع کا تقاضا تھا کہ اس نظریے کے مؤیدین و معارضین کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنے منتخب کردہ موقف کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے اگر مقدمہ ہی طے شدہ نہ ہو بحث کے مشمولات قابل اعتنا نہیں ٹھہرتے۔

تاویل نصوص کے حوالے سے ان کے رجحان پر بھی نو معتزلیت کی چھاپ نظر آتی ہے۔ لگتا ہے جیسے ان کی فکر بھی اس حوالے سے سرسید کی تاویلی فکر کے اثرات سے خالی نہ ہو۔ مزید برآں، جس طرح اپنے فلسفیانہ افکار کی تائید و توثیق میں وہ قرآن سے استشہاد کرتے ہیں، اس سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی سادہ لوح اصحاب علم کی طرح یہ تصور رکھتے ہوں کہ قرآن تمام علوم کا ماخذ ہے(۲۳)۔ مطلب یہ کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی عقلیات اور فلسفے کی تشکیل میں یہ ضروری تصور کیا جائے کہ قرآن سے لامحالہ اس کی تائید ہوتی ہو۔ اس سے قرآن کی ما بعد الطبیعی حیثیت مستحکم ہونے کے بجائے بظاہر کمزور ہوتی ہے کہ قرآن کے مشمولات و ہدایات میں وہ چیزیں بھی فرض کی جائیں جو اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہیں۔ فکر مغرب کے رد میں خاص طور پر ۱۹ویں صدی کے اواخر سے اسلامی فکری حلقات و شخصیات کی طرف سے جو مختلف النوع رد عمل آنا شروع ہوئے، اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ مغرب کی آئیڈیالوجی کا اسلامی آئیڈیالوجی سے تقابل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالاں کہ درست موقف وہی ہے جس کا اظہار حسین نصر نے کیا ہے کہ روایت پسندی پر مبنی (traditionalist) اسلام کی روح، اسلام کو ایک آئیڈیالوجی کی شکل میں قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ جب روایت پسندی پر مبنی یا راسخ العقیدہ اسلام جدید دنیا کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر مذہب کو آئیڈیالوجی کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے (۲۴)۔

رفیع الدین کے منہج فکر کا ایک انفرادی پہلو اس کے لب و لہجے کی ادعائیت ہے جو بسا اوقات ان کے فلسفیانہ تفکر کو شاعرانہ تعلی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ Ideologies of Future میں لکھتے ہیں کہ ان کی فکر سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، تاریخ، قانون، تعلیم اور انفرادی و اجتماعی نفسیات کے فلسفے کی تنظیم نو کرتی ہے اور اس حوالے سے ایسے پہلوؤں کو زیر بحث لاتی ہے جن کی دوسرے فلسفیوں کو ہوا تک نہیں لگی(۲۵)۔ وہ اپنی فکر کو اہل علم کے رو برو برائے بحث و تنقید پیش نہیں کرتے بلکہ وہ اسے اس "داعیانہ ایقان" کے ساتھ پیش کرتے ہیں جیسے دوسروں کے پاس اس "اتمام حجت" کے بعد اسے اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ٔ کار نہ بچا ہو ۔اس ’’فکری نرگسیت‘‘ سے ان کے مرشد اقبال کا ذہن خالی تھا جو سمجھتے تھے کہ ان کی فکر میں کوئی قطعیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسی فکر کے لیے اس امکان کو قبول کیا جا سکتا ہے۔

بہرحال رفیع الدین کی فکر کو جدید علم کلام کے مباحث میں ایک نئے اور فکر ساز رجحان کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ رجحان جدیدیت اور روایت دونوں کا امتزاجی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نہ وہ نہ تو جدیدیت پسندوں کی طرح اسلام کی بنیادی اور مابعد الطبیعاتی فکر کی نئی تشکیل یا تاویل کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ روایت کو عام روایت پسندوں کی مانند اس طرح جامد تصور کرتے ہیں کہ اس میں نئے افکار و نظریات کی قلمیں نہ لگائی جاسکیں۔


حواشی و مراجع

(۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، لاہور: ڈاکٹر رفیع الدین فاؤنڈیشن،۲۰۱۶ص،۴

(۲) قرآن اور علم جدید، ص،۳۴

(۳) ایضا، ص،۱۳۔۱۴

(۴) ایضا،۷۵

(۵) ڈاکٹر محمد رفیع الدین: اسلامی تحقیق کا مفہوم ،مدعا اور طریقہ کار۔ لاہور: دارالاشاعت الاسلامیہ۔ ۱۹۶۹. ص، ۱۴

(۶) قرآن اور علم جدید، ص،۶۶

(۷) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اسلام اور سائنس ص،۳۔ اقبال اکادمی ،کراچی: پاکستان، ۱۹۶۵

(۸) قرآن اور علم جدید، ۲۰۔۲۲

(۹) ڈاکٹر محمد رفیع الدین ،منشور اسلام، (ترجمہ اردو ڈاکٹر ابصار احمد) لاہور: مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، ۱۹۹۴، دیکھیے، صفحات، ۱۸۔۶۱

(۱۰) قرآن اور علم جدید،۲۰

(۱۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان ،مقالہ در مجلہ اقبال ریویو،لاہور: اقبال اکادمی، جنوری،۱۹۶۱ص، ۸۶۔۸۸

(۱۲) قرآن اور علم جدید،ص،۲۴۴

(۱۳) ایضا، ص، ۱۴۲

(۱۴) ایضا،ص، ۱۱۰

(۱۵) ایضا،ص، ۲۵۸

(۱۶) ایضا،ص،۱۸۴

(۱۷) ایضا ،ص، ۲۹۹

(۱۸) ایضا، ص، ۳۰۲۔۳۰۳

(۱۹) قرآن اور علم جدید،۳۰۴

(۲۰) ایضا،۳۱۴

(۲۱) Seyyed Hossein Nasr, Traditional Islam in the Modern World, New York: Harper One, 2010,p.35

(۲۲) قرآن اور علم جدید ۳۳۲

(۲۳) علامہ انور شاہ کشمیری نے اس نقطہ ٔ نظر پر شدید تنقید کی ہے کہ قرآن میں سب کچھ پایا جاتا ہے۔ دیکھیے، مولانا انظر شاہ مسعودی کشمیری، تصویر انور، دیوبند: معہد الانور،۱۴۲۵ھ ص،۲۷۵۔۲۷۶

(۲۴) Traditional Islam in the Modern World, Prologue, p.12

(۲۵) Dr Muhammad Rafiuddin, Ideologies of Future, Lahore: Dr Muhammad Rafiuddin Foundation, 2008, p. xii


شخصیات

(الشریعہ — مئی ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — مئی ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۵

یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)
ڈاکٹر محی الدین غازی

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۱)
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہ
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدمات
مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی

أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائل
ادھم شرقاوی

مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ قُدس کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلق
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

مٹتا ہوا فلسطین
الجزیرہ

ایران کا اسرائیل پر ڈرون حملہ
ہلال خان ناصر

دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے متحدہ علماء کونسل اپیل
متحدہ علماء کونسل پاکستان

"الحاج سید امین گیلانیؒ: شخصیت وخدمات"
مولانا حافظ خرم شہزاد

مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ایران کا کردار
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘
مولانا جمیل فاروقی

إلى معالي رئيس مكتب رابطۃ العالم الإسلامي في إسلام آباد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

The Role of Iran in the Middle East War
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

Regarding Muslim World League`s Conference Invitation
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter