نحمده تبارك وتعالی ونصلي ونسلم علی رسولہ الكريم وعلٰی آلـہ وأصحـابہ وأتباعہ أجـمعين۔
حضرت مولانا عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بزرگوں میں سے تھے جن کی ساری زندگی دینی تعلیم و تدریس میں گزری اور انہوں نے اپنی اگلی نسل کو بھی دینی خدمات کے لیے تیار کیا اور ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ علماء لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو تاریخ میں تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار کا ایک مستقل عنوان رکھتا ہے۔ انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے تعلیم حاصل کی اور علمی وروحانی فیض سے بہرہ ور ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے گوجرانوالہ میں آگئے اور اپنے علمی و تحریکی سلسلہ کا تسلسل جاری رکھا۔ مجھے ان کی زیارت اور ان سے استفادہ کا شرف حاصل ہے۔ وہ جمعہ کی نماز مرکزی جامع مسجد میں باقاعدگی سے ادا فرماتے تھے اور خطیب کی گفتگو کو غور سے سن کر بسا اوقات اصلاح بھی فرمایا کرتے تھے۔ متعدد بار مجھے بھی ان کے ذوق سے استفادہ کا موقع ملا۔ ایک بار وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور اپنی بعض تصنیفات مرحمت فرمائیں۔ اس موقع پر انہوں نے مجھے اس سند حدیث کی بھی زیارت کرائی جو حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے دست مبارک سے لکھ کر انہیں روایت حدیث کی اجازت کے طور پر مرحمت فرمائی تھی۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے سیاسی اور علمی حالات پر نظر رکھتے تھے۔ اہم معلومات کو محفوظ فرماتے تھے اور ان پر تبصرہ بھی کرتے تھے۔
ان کے فرزند گرامی حضرت مولانا عبدالواسع لدھیانویؒ کی زیارت ورفاقت سے میں کچھ عرصہ بہرہ ور رہا، جبکہ ان کے چھوٹے فرزند حضرت علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے ساتھ تو طویل عرصہ تک جماعتی وتحریکی رفاقت رہی اور ہم بہت سے دینی، سیاسی اور تحریکی معاملات میں ایک دوسرے کے معاون رہے۔ آج وہ گزرے ہوئے دن یاد آتے ہیں تو اردگرد ہجوم کے باوجود تنہائی کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جنت الفردوس میں عالی مقام سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین
اس خاندان کے ساتھ تعلق بحمدللہ تعالیٰ آج بھی قائم ہے۔ مولانا محمد اسامہ اور مولانا محمد اسرائیل میرے دور طالب علمی کے ساتھیوں میں سے ہیں جبکہ اس سے اگلی نسل کے کچھ نوجوان میرے شاگردوں میں بھی شامل ہیں۔ علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے فرزند پروفیسر میاں انعام الرحمٰن صاحب کے بچپن سے ان سے واقف ہوں۔ ہمارے سامنے جوان اور اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔ تحقیق و مطالعہ اور تفکر و تدبر کا ذوق شروع سے ان میں پایا جاتا ہے اور اس کا وہ اپنے منفرد انداز میں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے رفقاء میں سے ہیں اور الشریعہ اکادمی کی تشکیل و ترقی میں ان کا اہم کردار ہے۔
حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ کے علمی افادات کے بارے میں ایک عرصہ سے میری خواہش تھی کہ انہیں محفوظ کرنے اور ان کی دوبارہ اشاعت کی کوئی صورت نکل آئے تو اس سے علماء و طلبہ کو بہت فائدہ ہوگا۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ پروفیسر میاں انعام الرحمن صاحب نے اپنے دادا محترم رحمۃ اللہ علیہ کے فیوضات کو پھر سے منظر عام پر لانے کا عزم کیا ہے جو بلاشبہ ان کی سعادت مندی کی بات ہے۔ زیر نظر کتاب میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور اب بارِ دیگر اس سے استفادہ کا موقع میاں صاحب کی مہربانی سے ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور اس سلسلۂ خیر کو تکمیل تک پہنچانے اور زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے مواقع اور توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین