ڈاکٹر محمد الغزالی کا پہلا تعارف ڈاکٹر محمود احمد غازی کے برادر خورد کے طور پر ہوا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی اسلام آباد وارد نہیں ہوئے۔ 2015ء میں اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد دوسرے ماہ، اپریل کے مہینے میں شریعہ اکیڈمی میں جہاد کے موضوع پر دو روزہ ورک شاپ تھا، جس میں پہلے دن کا ایک سیشن غزالی صاحب چیئر کر رہے تھے یہی ان کی پہلی براہ راست زیارت تھی۔
اس وقت آپ ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر اور سہ ماہی عربی مجلے “الدراسات الاسلامیہ” کے مدیر تھے۔ یونی ورسٹی کے اولڈ کیمپس لائبریری مستقل جانا ہوتا تھا، ایک عجیب سی مسحور کن جگہ تھی ایک ادنی سا حساس انسان وہاں انس محسوس کرسکتا تھا۔ یہ اس بات کی شہادت تھی کہ یہاں کئی ایک غیر معمولی علمی ہستیاں رہی ہیں۔ ملاقات کی بہت چاہ تھی لیکن آپ کا جلال حائل ہوجاتا کہ ملے بھی تو کیسے!
غزالی صاحب کے شخصی اوصاف میں آپ کا جلال، بانک پن، تواضع، وقار اور ایک کلاسیکی حمیت نمایاں تھے، جو بھلے وقتوں کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے تھے۔ آپ کی نفاست بھی عمدہ تھی اور ذوق بھی، پہننے میں، بولنے میں اور لکھنے میں۔
2018ء میں دعوۃ اکیڈمی نے ڈاکٹر محمود احمد غازی سے متعلق ایک عالمی کانفرس کا انعقاد کیا تھا، جس کا افتتاحی خطاب غزالی صاحب نے ٹکسالی اردو اور اپنے مسحور کن لہجے میں دیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے گذشتہ صدی کے کسی عمدہ ادیب کو سن رہے ہیں۔
آپ کے جلال اور استغنا کے کئی واقعات سنے بھی ہیں اور براہِ راست دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب کے بہت قریبی مراسم تھے۔ ہم 2019ء کے آخری مہینوں میں ڈاکٹر قدیر سے ملنے گئے، جب کہا کہ اسلامی یونی ورسٹی سے تعلق ہے تو انھوں نے دونوں بھائیوں سے اپنی رفاقت کا تذکرہ بہت عقیدت سے کیا اور کہا کہ سنا ہے غزالی صاحب کو پروفیسر ایمریٹس بنایا جا رہا ہے۔
چند دنوں بعد فیصل مسجد میں یونی ورسٹی کے صدر ڈاکٹر یوسف درویش خطبۂ جمعہ دے رہے تھے، جس میں وہ عرب شاہوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، اس دن غزالی صاحب منبر سے کافی دور تھے لیکن کھڑے ہوئے، آپ کے خاص انداز سے لگ رہا تھا کہ صدر صاحب کے ارشادات آپ کی طبیعت پر بے حد گراں گزر رہے ہیں۔ اس دن خطبہ اتنا لمبا ہوگیا کہ بنو امیہ کے گورنروں کے خطبے یاد آئے۔ اس دن کی اذیت سب کو یاد ہوگی، خطبے کی طوالت نے لوگوں کو جمعہ پڑھے بغیر فیصل مسجد کے ہال سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
درویش صاحب کے اگلے خطبے پر غزالی صاحب اگلی صفوں تک پہنچ چکے تھے، اس دن انھوں نے خطبے کو طول دینے کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد کی تعریفیں بھی شروع کیں۔ غزالی صاحب اپنے مخصوص انداز میں پھر کھڑے ہوگئے، صدر صاحب منبر سے اترے تو ہنگامہ ہوگیا، کافی وقت بعد جماعت کھڑی ہوئی۔ بعد میں تفصیلی روداد آئی تو پتا چلا کہ صدر صاحب کو غزالی صاحب نے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ سعودیہ نہیں کہ منبر پر ملوک کی قصیدیں پڑھی جائیں، دوبارہ منبر پر چڑھ کر اپنے الفاظ واپس لے لیں، درویش صاحب کی آواز بلند ہوئی تو غزالی صاحب نے مزید ڈانٹ پلا کر کہا: “اسکت”، اتنے میں درویش صاحب کے غلمان بھی پہنچ گئے اور غزالی صاحب کو ایک طرف کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک کو زوردار دھکا بھی دے مارا۔
یہ کام اس بندے نے سرانجام دیا جنھوں نے یونی ورسٹی میں پروفیسر امریٹس بننا تھا۔
شخصی تواضع کے بارے میں بھی کئی ایک واقعات ہیں، جب غازی صاحب وفاقی وزیر تھے، وزرا اور کئی اعلی مناصب پر فائز لوگوں کا گھر پر آنا جاتا رہتا تھا، غزالی صاحب ان کے ڈائیورز اور گاڈز کے ساتھ زمین پر چھٹائی بچھا کر محفل سجھاتے تھے۔
ایک بار استاد محترم ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے آفس میں جمعے سے قبل ایک یاد گار ملاقات ہوئی تھی۔ مشتاق صاحب کسی میٹنگ کےلیے باہر چلے گئے، ہم کچھ دوست ایک گھنٹے تک آپ کے ساتھ بیٹھے رہے بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے، غازی صاحب کے کئی واقعات سنائے۔ سامنے الماری میں ایک کتاب پڑی تھی، کہا کہ ہمارے بھائی جان (غازی صاحب) کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھیے ناں ایسے نالائق آدمی سے بھی کتاب تیار کرائی ہے۔
دو برس قبل آپ کے صاحبزادے برادرم حمزہ غزالی کے ذریعے آپ سے وقت لیا، ملاقات کےلیے گھر گیا، اس ملاقات کا بنیادی غرض ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیریز کو مزید بہتر انداز میں چھاپنے کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کرنا تھیں، پہلی فرصت میں ان کی تخریج کا مرحلہ تھا انھوں نے اتفاق کرلیا، میں نے کہا کہ آغاز “محاضرات فقہ” سے کریں گے، جس کی تخریج کےلیے مشتاق صاحب نے حامی بھری ہے۔ باقی کتب کےلیے بھی کچھ دوستوں نے رابطہ کیا ہے۔ اس سے بہت خوش ہوئے۔
ایک بار علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کا خطبہ تھا، غزالی صاحب بھی مدعو تھے، پروگرام کے اختتام پر شرکا میں یادگاری شیلڈز پیش کی جا رہی تھیں، جس پر غزالی صاحب نے کہا کہ اس سے بہتر ہے قلم دیے جائیں۔
گزشتہ دسمبر میں مشتاق صاحب کی معیت میں عشاء کے بعد ملاقات کےلیے جا رہے تھے، مشتاق صاحب نے جیب میں قلم رکھا اور کہا کہ غزالی صاحب پھر پوچھتے ہیں۔ جب پہنچے تو چند لمحوں کے بعد انھوں نے سب سے پہلے قلم پیش کیا، جیب میں جو قلم رکھا تھا وہ مجھے دیا۔
رات دیر تک بیٹھے رہے، آخر میں عربی کے کلاسیکی اشعار اپنے خاص آہنگ کے ساتھ پڑھتے رہے، عربی جیسے آپ کی مادری زبان ہو۔ اپنی دو کتب کا تحفہ عنایت کیا، جس میں ایک کتاب قرآنی میں بلاغت اور معانی سے متعلق تھی، کہا کہ اس کو تنقیدی نظر سے دیکھ کر مجھے تبصرہ بھیجیے اس کے بعد بھی اس تبصرے کا پوچھتے رہے۔
اب ہم کہاں اور یہ موضوع کہاں لیکن اس انداز میں یہ بات پنہاں تھی کہ انھیں علم کا کوئی زعم نہیں ورنہ ہم جیسے طفل مکتب سے کبھی یہ نہ کہتے۔
اسی سے متصل مشتاق صاحب سے کہا کہ امام شیبانی کی “الجامع الصغیر” کا انگریزی ترجمے کا ارادہ کیا ہے، اس بہانے ہمارا بھی کچھ بھلا ہوجائے گا، ہمیں بھی کچھ فقہ سمجھنے کا موقع ملے گا۔
تواضع کی ایسی مثالیں اب کتابوں میں ملتی ہیں۔
ابھی ان کی تازہ کتاب “سوشیالوجی آف اسلام” گزشتہ برس ہندوستان سے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے شائع کی۔ اس کتاب کو شائع کرنے میں ہماری خاص دلچسپی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ ناشر سے اجازت لینی پڑے گی۔ اسی دوران انھوں نے اپنی ایک اور کتاب دی کہ فی الحال اس کو دیکھیں۔ کچھ ہفتوں کے بعد میسج کیا کہ ظفر الاسلام صاحب نے اجازت دے دی ہے۔ کتاب پر کچھ بنیادی کام کرکے مسودہ ان کو بھیج دیا لیکن کہا کہ آنکھ کا آپریشن کیا ہے اس لیے وہ مسودہ دیکھنے کے قابل نہیں۔ معلوم نہیں اب وہ انھوں نے دیکھا بھی ہوگا یا نہیں۔
مولانا مودودی اور ان کے بڑے بھائی مولانا ابو الخیر مودودی کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب دونوں کے مراسم تھے۔ میں نے مولانا کے ساتھ ملاقات کا پوچھا تو کہا کہ مولانا جب بھی اسلام آباد آتے تھے تو ہم ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ جس وقت کوثر نیازی صاحب جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اس کے چند دن بعد مولانا اسلام آباد تشریف لے آئے تو محفل میں کوثر نیازی صاحب کا ذکر چلا کافی باتیں ہوئیں مولانا خاموشی سے سنتے رہے، جب گفتگو ختم ہوئی تو مولانا نے کسی سے کہا: “ذرا کلی کرا لیجیے، پانی دے دیں۔”
آپ کا جلال بہت نمایاں تھا اور ایک صاحب علم کو موجودہ دور میں ایسا ہونا چاہیے۔ ہم نے بڑوں بڑوں کو آپ کے سامنے لرزتے دیکھا ہے۔