طہٰ حسین: مغرب پرستی سے اسلام پسندی تک

مولانا ابو الحسین آزاد

بیسویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہوتے اور پھر واپس اسلام پسندی کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا۔ جن میں ایک بڑا نام طہ حسین کا بھی ہے۔اس عبقری ادیب اور عالمی شہرت کے حامل مفکر کا نام اب اردو دنیا کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ ان کی متعدد کتب کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں لیکن عرب دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی ان کے متعلق بہت سے ذہنوں میں مختلف طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انھیں ملحد، مستشرق، دین دشمن اور متجدد جیسے القابات سے یاد کرتی ہے۔دوسری طرف ان کے پرستار بھی ان کی فکر کے اسی منحرف پہلو ہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں فریق اس طہ حسین کو فراموش کردیتے ہیں جس نے حدیبیہ کی مٹی کو اٹھا کر زار و قطار روتے ہوئے کہا:مجھے اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو آتی ہے۔

 معروف مصری مفکر، محقق اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عمارہ مرحوم نے 2014ء میں "طه حسين ما بين الانبهار بالمغرب إلى الانتصار للإسلام" کے نام سے کتاب لکھی جس میں انھوں نے افراط و تفریط سے ہٹ کر طہ حسین کے متعلق ایک متوازن رائے قائم کرنے کی کوشش کی اور شدید قسم کی مغرب زدگی سے لے کر گہری اسلام پسندی تک طہ حسین کے فکری سفر کی داستان خود طہ حسین کی اپنی تحریروں کی روشنی میں بیان کی ۔ ذیل میں ہم  ڈاکٹرمحمد عمارہ کی اسی کتاب کی روشنی میں طہ حسین کے اس فکری ارتقا کا جائزہ لیں گے۔

طہ حسین 1989ء میں مصر کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ تین سال کی عمر  میں ایک بیماری سے ان کی بینائی چلی گئی۔انھوں نے اپنی بستی ہی کے مکتب میں قرآن مجید حفظ کیا اور 1902ءمیں جامعۃ الازہر میں داخل ہو گئےجہاں اس وقت مفتی محمد عبدہ اور شیخ محمد بخیت سمیت متعدد بڑے بڑے شیوخ پڑھاتے تھے۔ طہ حسین ایک ذہین لیکن باغی اور سرکش طالب علم تھے۔ جس کی وجہ سےالازہر کے شیوخ نے انھیں عالمیہ کی ڈگری دینے سے انکار کر دیا۔چناں چہ1908ء میں طہ حسین یہاں سے جامعہ مصریہ میں چلے گئے۔ جہاں انھوں نے مستشرقین اساتذہ سے پڑھا۔ انھیں تعلیم کا یہ  طریقہ اور مستشرقین کا اسلوب کافی پسند آیا۔اسی دوران انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔

ڈاکٹر عمارہ نے طہ حسین کی فکری زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ 1908ء سے 1914 تک کے دورانیے کو وہ "شیخ طہ حسین کا دور" یا اردو محاورے میں "مولانا طہ حسین کا دور" کہتے ہیں۔ اس عرصے میں طہ حسین ایک مسلمان عالم و مفکر کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔وہ تجدید اور اجتہاد کی بات کرتے ہیں،قرآن مجید کو عبادات، قانون، حکمت اور تشریع کی کتاب بتاتے ہیں، احکام کی علل و مقاصد کا ذکر کرتے ہیں،ایک خاص معنی میں سیکولرازم کو مسترد کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ إننا ملزمون بنشر الإسلام، و محو آثار الشرك ،وہ عورتوں کی ترقی کے معاملے میں کتاب اللہ ہی کو بنیاد مانتے ہیں اور کہتے ہیں:

"إن رقي المسلمين رهين بأن يرجعوا إلى أصول دينهم الذي أهملوه، وكتابهم الذي أغفلوه…وعلى غير ذلك لا تقوم لهم قائمة، ولاتصلح لهم جيل."(ص: ٢٧)

"مسلمانوں کی ترقی کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے دین کے ان اصولوں کی طرف رجوع کریں جنھیں انھوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس کتاب کی طرف جسے وہ پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔۔۔ اس کے بغیر ان کی حالت درست ہوسکتی ہے نہ ان کی نسلیں سنور سکتی ہیں۔"

بلکہ سب سے بڑھ کر طہ حسین اہلِ کتاب عورتوں سے مسلمانوں کےنکاح پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں اورسد ذرائع کے طورپر اسے ممنوع قرار دینے کی بات کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے اخلاق ورجحانات اس قدر بدل چکے ہیں اور ہمارے نفوس اتنے کمزور پڑ چکے ہیں کہ کتابیہ سے نکاح کی حلت کے حکم پر عمل کرنا انتہائی خطرناک ہے:

"لاشک عندي أنه يجب علينا أن نحتاط كل الاحتياط في استعمال هذا الحكم… ولست أرى من بأس إن قلت إنه حرام ممقوت."(ص 28)

"میرے نزدیک اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس حکم (کتابیہ سے نکاح کا جواز)کے استعمال میں مکمل احتیاط سے کام لینا چاہیے۔۔۔۔اور میرے خیال میں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر میں یہ کہہ دوں کے یہ سخت حرام ہے۔"

لیکن "مولانا" طہ حسین کی اس ابتدائی زندگی میں بھی ایک چیز کافی تشویشناک ہے، جو آگے بہت دورتک ان کے ساتھ چلتی رہے گی اور وہ ان کے سیاسی رجحانات ہیں۔ طہ حسین سیاسی اعتبار سے "حزب الامۃ" نامی شدید سیکولر اور وطن پرست سیاسی جماعت کی لسانِ ناطق  بن گئے تھے۔

 انھوں نے اس جماعت کے جریدے میں "ملت از وطن است" کے نظریے کا بھرپور پرچار کیا اور کہا کہ دین قومیت کی تشکیل نہیں کرسکتا۔ قومیت کی بنیاد ہمیشہ وطن ہی پر ہوتی ہے۔ حتی کہ انھوں نے خلافتِ راشدہ کی قومیت کی بنیاد بھی اسلامیت کی بجائے عربیت کو قرار دیا۔

1914ء میں طہ حسین کا اعلی تعلیم کے لیے فرانس جانا ان کی زندگی کے دوسرے اور معرکۃ الآراءمرحلے کا مقدمہ تھا۔ مغرب میں جاکر وہ مغربی فلسفے، تہذیب اور افکار و نظریات کی چکا چوند سے صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ بقول ڈاکٹر عمارہ طریقتِ مغربی  کے ایک مست حال  درویش بن گئے۔ اب ان کی نابینا آنکھوں کو مغربی قمقموں کے علاوہ ہر چراغ کی روشنی ناکارہ محسوس ہونے لگی۔

فرانس میں انھیں سوزان نامی ایک مسیحی لڑکی ملی جو پڑھنے لکھنے سے لے کر چلنے پھرنے تک ہر طرح کے کاموں میں ان کی مدد کرتی تھی۔ طہ حسین نے سوزان کو شادی کی پیش کش کی۔ سوزان نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ تم ایک مسلمان، غیر ملکی اور نابینا آدمی ہو۔ لیکن ازاں بعد اپنے پادری چچا کے کہنے پر اس راسخ العقیدہ مسیحی لڑکی نے اس "غیر ملکی، مسلمان اور نابینا" سے شادی کر لی۔ ڈاکٹر عمارہ کے خیال میں سوزان کا پادری چچا اس شادی کے ذریعے طہ حسین کی عالی ذہانتوں اور صلاحیتوں کو مغربی عزائم و مقاصدکے فروغ کے لیے ٹھوس بنیادوں پر وقف کروانا چاہتا تھا۔

1919ء میں طہ حسین فرانس سے ڈاکٹریٹ کر کے واپس آئےتو ان کے دل ودماغ مکمل طور پر مغربیت کے نشے سے چور تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کی اہلیہ نے بقیہ تمام زندگی مصر میں گزارنے کے باوجود اپنےمذہب، اپنی تہذیب وثقافت اور اپنی زبان سے تعصباتی لگاؤ کو ترک نہیں کیا اور عميد الأدب العربي کی اس بیوی نے اپنے اوپر ادنی برابر بھی عربیت کا رنگ نہ چڑھنے دیا۔ وہ طہ حسین کے لیے ہمیشہ مسیحی سیکرٹری رکھتی تھیں۔قرآن سمیت طہ حسین کو سب کتابیں وہی سناتا۔گویا نابینا طہ حسین کی آنکھیں، کان، زبان اور ٹانگیں سب مغربی، فرانسیسی اور مسیحی بن گئے تھے۔ طہ حسین نے بچوں کے نام امینہ اور مؤنس رکھے لیکن سوزان نے انھیں ہمیشہ مارگریٹ (Margaret)اور کلود(Claude) ہی پکارا۔ مؤنس بعد ازاں فرانس جا کر مسیحی ہوگیا۔ سوزان کو طہ حسین سے محبت ضرور تھی۔ اس نے "تمھارے ساتھ" کے نام سے طہ حسین کے بارے میں فرانسیسی میں کتاب بھی لکھی لیکن طہ حسین پر اس کے سلبی اثرات کا یہ عالم تھاکہ وہ جب شاہ مراکش کی دعوت پر مراکش گئے تو انھوں نے اپنے معاون سے کہا: مجھے مسجد القرویین لے چلو، میں وہاں دو رکعتیں ادا کروں گا لیکن یہ بات مادام کو مت بتانا۔طہ حسین کو کتابی عورتوں کےساتھ نکاح کرنےکےنقصانات کے متعلق لکھی ہوئی اپنی بات ہی یاد نہ رہی!

1919ء میں فرانس سے واپسی سے لے کر 1930ء تک کے اس دوسرے مرحلے کو ڈاکٹر عمارہ ، طہ حسین کےشدید ترین مغرب پرستی کے دور  سے تعبیر کرتے ہیں۔اب اسلامی تجدید واجتہاد تو کیا وہ سرے سے اسلام ہی سے بیزار نظر آنےلگے۔انھوں نے فرانسیسی کے علاوہ یونانی اور لاطینی زبان بھی سیکھ لی تھی۔1925ء میں انھوں نے "قادۃ الفکر" کے نام سےیونانی فلسفیوں کے بارے کتاب لکھی۔ جس میں انھوں یونانیوں کی مدح و ثنا میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے:انسانی فکر کا آغاز یونان سے ہوتا ہے، یونان ہی عقل و شعور اور تہذیب و تمدن کا منبع ہے، یونانی منطق اپنی پائیداری میں دہر سے زیادہ طاقت ور ہے۔افلاطون کی کتابیں آیات ہیں۔ ارسطو کی منطق ابدی و اٹل ہے۔

اس پوری کتاب میں یونانی فلسفے پر طہ حسین نے وہ لازمی نقد وجرح بھی نہیں کی جو تمام مغربی محققین تک کرتے رہےہیں۔حتی کہ انھوں نے اسکندر کو بھی محض ایک حملہ آور اور فاتح کی بجائے عظیم ترین فکری لیڈر قرار دیا۔ان کے بقول اسلام اور مسیحیت ایک درمیانی وقفہ ہیں ورنہ انسانیت کا ماضی ، حال اور مستقبل سب یونانی فکر و تہذیب ہی سے وابستہ ہے۔وہ مصر کی اصل بھی یونانی اور رومی تہذیب کو قرار دینے لگے اور پرجوش انداز میں مغربی فکر و فلسفے اور مناہج و اسالیب کی مکمل اتباع اور کامل پیروی(جس میں خذ ما صفا ودع ما کدر کے فطری اصول کے لیے کوئی جگہ نہ تھی بلکہ صریح لفظوں میں غیر مشروط اور اندھی تقلید) کے داعی بن گئے۔

عثمانی خلافت کے سقوط کے بعد 1925ء میں طہ حسین کے دوست شیخ علی عبد الرزاق کی متنازع کتاب "الإسلام وأصول الحكم" آئی۔ جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام کو ایک سیکولر مذہب کے روپ میں پیش کیا گیا اور یہ دعوی کیا گیا کہ اسلام کی تعلیمات اخلاقی اور ایمانی نوعیت کی ہیں، ان کا حکومت و سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کتاب طہ حسین کی نظرِ ثانی کے بعد ہی شائع ہوئی اوربقول ڈاکٹر عمارہ ایک طویل فکری مزاحمت اور معرکے کے بعد علی عبد الرزاق کی اپنی وضاحتوں اور قرائن سے یہی ثابت ہوا کہ اس کتاب کا قابلِ اعتراض اور اسلام کی سیکولرائزیشن کرنے والا حصہ طہ حسین ہی نے لکھا تھا۔

اگلے سال ان کی کتاب "في الشعر الجاهلي" آئی جس میں انھوں نے شک و ارتیاب کے منہج کو اختیار کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ عہد جاہلی کی طرف منسوب تمام شاعری کو اختراعی اور من گھڑت قرار دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ تورات اور قرآن ہمیں ابراہیم اور اسماعیل کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ واقعتا کوئی تاریخی شخصیات ہوں۔ نیز یہ بھی کہا کہ حضرت ابراہیم کے ہاتھوں کعبہ کی تعمیر کی کہانی دراصل اسلام کے نئے مذہب کو عرب کا قدیم مذہب ثابت کرنے اور اسلام اور یہودیت کے مابین تعلقات استوار کرنے کا ایک حیلہ تھی۔ اسی طرح انھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےخانوادے اور قبیلے کی عالی نسبی، شرف اور سیادت سے متعلقہ روایات کو بھی تعریضا استہزا کا نشانہ بنایا۔

یہ کتاب اپنے ساتھ ایک بھونچال لے کر آئی۔ اس کے رد میں لکھی جانے والی کتابیں، مقالات اور اس پر کیے جانے والے تبصرے اتنے زیادہ ہیں کہ ان سے ایک الماری بھری جاسکتی ہے۔اس معرکے کی حرارت آج بھی عربی ادب کے طالب علم رافعی اور فرید وجدی وغیرہ کی کتابوں میں محسوس کرتے ہیں۔ طہ حسین کو شدید مخالفت، عوامی وحکومتی مزاحمت اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اورکتاب مکتبوں سے اٹھا لی گئی۔آخرِ کار طہ حسین نے قابلِ اعتراض عبارتیں حذف کر دیں اور وضاحتی اور معذرتی بیان جاری کردیا۔

بیسوی صدی کی تیسری دہائی طہ حسین نے انہی تنازعات اور معرکہ آرائیوں میں گزاری۔ ایک خاص بات یہ دیکھنے میں آئی کہ ان کی تحریروں سے رسولِ اکرمؐ کے اسمِ گرامی کے ساتھ "صلی اللہ علیہ وسلم" کا لاحقہ لگنا ختم ہوگیا۔"في الشعر الجاهلي"  کے بعد طہ حسین نے "في الأدب الجاهلي" بھی لکھی تھی جس پر بھی وہی معرکہ آرائیاں اور رسوائیاں دیکھنے کو ملیں۔طہ حسین کو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور بہت سے حمایتی بھی ڈھیلے پڑ گئے۔ حتی کہ بقول سوزان وہ اتنا تنگ آئے کہ خود کشی کا بھی سوچنے لگے۔اس سب صورتِ حال نے آخرِ کارطہ حسین کو بہت کچھ سوچنے اور فکری مراجعت کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے بعد میں یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کتابوں پر برپا ہونے والی معرکہ آرائی میں معترضین کے خلاف جو توہین آمیز رویہ  اورسخت لب ولہجہ انھوں نے اختیار کیا وہ ایک احمقانہ اور شریر حرکت تھی۔یہیں سے ان کی فکری زندگی کا اگلا دور شروع ہوتا ہے۔

طہ حسین کی زندگی کا تیسرا دور 1932ء سے 1952ء تک کے بیس سالوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر عمارہ اسے "بتدریج رجوع" سے تعبیر کرتے ہیں۔اس عرصے میں طہ حسین نے پہلی مرتبہ مغرب کی تمجید وتعظیم کے مبالغہ آمیز رویے سے ہٹ کر اسے تنقید کے دائرے میں لانے کی روش اپنائی۔ انھوں نےاعتراف کیا کہ انقلابِ فرانس حریت اور مساوات کی انسانی قدروں کو عالمی سطح پر فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔نیز وہ نطشے اور شوپن ہار کی بجائے نوجوانوں کو ابو العلا معری کے مطالعے کی طرف راغب کرتے دکھائی دیے۔

 بیسیویں صدی کی چوتھی دہائی(1930 - 1940) میں مصری ادب میں ایک غیر معمولی انقلاب آیا۔مصر کے تمام بڑے ادیب اور اعلی تعلیم یافتہ مفکری،ن جن کے دل و دماغ پر مغربی سیکولرازم اور لبرل ازم نے اپنے گہرے جالے بُن رکھے تھے وہ اسلامی موضوعات اور خصوصیت سے اسلامی شخصیات کے متعلق لکھنے لگے۔حسین ہیکل، عقاد اور احمد امین وغیرہ کی مشہور و معروف کتابیں اسی دور میں منظرِ عام پر آئیں۔ یہ محض عوامی رجحانات اور مطالبات کے ساتھ ایک سمجھوتہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل فکری مسافت قطع کرنے کے بعد یہ لوگ اس حقیقت تک پہنچ چکے تھے کہ مغربیت کی بجائے اسلامی فکر و نظر ان کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل کا بہترین اور متوازن حل ہے۔

تدریجی رجوع کے اس دورانیے میں طہ حسین نے "على هامش السيرة" کے عنوان سے سیرت ِ طیبہ کے مختلف واقعات کو مخصوص ادبی پیرائے میں لکھنا شروع کیا۔ اس کتاب میں انھوں نے معجزات اور خرقِ عادت واقعات کو بھی بکثرت ذکر کیا۔ وہی طہ حسین جو کچھ عرصہ پہلے تک یونانی منطق اورکارتیسی تشکیک کی محراب میں کھڑے ہوکراندھی عقل پرستی  کےزمزمے گایا کرتےتھے وہ اس کتاب کی پہلی جلد میں عقل کے دائرۂ کار کی محدودیت اور انسانی شعور کے دیگر آفاقی میلانات کی بات کرنے لگتے ہیں۔ دوسری جلد میں یہ رنگ زیادہ تیز ہوجاتا ہے۔ایک راہب کی زبانی  طہ حسین لکھتے ہیں:

فإني يابني أرى أن في العقل تمردا وغرورا. قد خضعت له طائفة من الأشياء، وذلت له بعض صور الطبيعة، فظن أن كل شيء يجب أن يخضع له، وأن كل صورة من صور الطبيعة يجب أن تذعن لسلطانه، والحوادث مع ذلك تثبت له من يوم إلى يوم، بل من لحظة إلى لحظة أنه لم يعلم من الأمر إلا أقله، ولم يستذل من صور الطبيعة إلا أيسرها وأهونها شأنا.
وإن غرور العقل يابني قد زين له أن يجعل للطبيعة قوانين، ويفرض عليها قيودا وأغلالا، وألا يؤمن إلا بها ولايرضى عنها إلاإن خضعت لقوانينه، ورسفت في قيوده وأغلاله. ولكن قوانينه لم تحط بكل شيء، ولكن قيوده وأغلاله لم تبلغ كل شيء. ومازالت الطبيعة حرة طليقة، وما زالت أكبر من العقل، وأوسع من سلطانه وأبعد من مرماه…والله يجري هذه المعجزات على أيدي رسله وأنبيائه ليظهر العقل على أنه مازال ضعيفا قاصرا، وعلى أن علمه ما زال بعيدا، وسيظل بعيدا عن أن يحيط بكل شيء. (على هامش السيرة ٢/٢٩٣، ٢٩٤)

"بیٹا! میری رائے یہ ہے کہ عقل میں سرکشی اور خودفریبی ہے۔ بہت سی چیزیں اس کے آگے جھک گئی ہیں اور فطرت کی بعض صورتیں اس کے تابع ہوگئی ہیں تو اب وہ یہ گمان کرنے لگی ہے کہ ہر چیز کو اس کے سامنے جھک جانا چاہیے اور فطرت کی ہر صورت کو اس کی حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہیے۔ جب کہ حوادث روز بہ روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ ثابت کر رہے ہیں کہ اس (عقل)نے ابھی بہت تھوڑا علم حاصل کیا ہے اور فطرت کی محض سب سے سہل اور ہلکی صورتوں کو اپنے تابع کیا ہے۔

اور بیٹا! عقل کی خود فریبی نے اس کے لیے یہ مزین کردیا ہے کہ وہ فطرت کے لیے قوانین بنائے اور اس پر قیود اور پابندیاں نافذ کرے اور صرف انھیں قوانین ہی پر راضی ہو اور فطرت سے صرف تب خوش ہو جب وہ ان قوانین کے آگے جھک جائےاور اسی کی بیڑیوں اور زنجیروں میں گھسٹتی رہے۔ لیکن عقل کے قوانین نے ہر چیز کا احاطہ نہیں کر رکھا اور اس کی قیود اور بیڑیوں کی رسائی ہر چیز تک نہیں ہے۔ فطرت اب بھی آزاد ہے، وہ اب بھی عقل سے بڑی ہے اور اس کے دائرۂ اختیار اور جولان گاہ سے زیادہ وسیع ہے۔۔۔ اللہ اپنے رسولوں اور انبیاء کے ہاتھ پر معجزات جاری کرتا ہے تا کہ عقل پر ظاہر کر کے کہ وہ ہنوز کمزور اور عاجز ہے، اس کا علم ابھی بھی بہت  بعیدہے اور آئندہ بھی ہر چیز کا احاطہ کرنے سے بعید ہی رہے گا۔"

اسی دوران مصر میں مسیحی مشنریوں نے دھونس دھاندلی کے ذریعے مسیحیت کی ترویج شروع کردی۔ جس کے خلاف طہ حسین نے پرزور احتجاجی مضامین لکھے۔ پھر بہائیت اپنے پر پرزے نکالنے لگی تو طہ حسین نے اس پر بھی قلم اٹھایا۔ قرآنی بیانات کی صداقت میں شک کرنے والا طہ حسین ایک مرتبہ پھر سے قرآن کے معجزانہ اسلوب اور اس کے احکام کی ابدیت کے رجز پڑھنے لگا۔ شیخ الازہر نے سود کے معاملے میں نرمی دکھانے کی کوشش کی تو طہ حسین نے کہا: خطیب بغدادی کی کتاب جس میں ابو حنیفہ پر تنقید کی گئی ہے اس پر پابندی لگانے سے زیادہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ حکومت، عوام اور الازہر سود کو روکیں۔

نیز کل تک طہ حسین محمد عبدہ کو بھی کسی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اب وہ ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کو بھی سراہنے لگے۔ لکھتے ہیں:

إن مذهب محمد بن عبد الوهاب جديد قديم معا. جديد بالنسبة للمعاصرين، ولكنه قديم في حقيقة الأمر لأنه ليس إلا الدعوة القوية إلى الإسلام الخالص النقي المطهر من كل شوائب الشرك والوثنية، هو الدعوة إلى الإسلام كما جاء به النبي خالصا. (107)

"محمد بن عبد الوہاب کا مسلک بیک وقت جدید اور قدیم ہے۔ معاصرین کے لیے تو وہ جدید ہے لیکن حقیقت الامر میں وہ قدیم ہے کیوں کہ یہ محض شرک و بت پرستی سے پاک صاف اور خالص اسلام کی طاقت ور دعوت ہے۔ یہ اسلام کی طرف دعوت ہے جیسا کہ اسے نبی علیہ السلام خالص شکل میں لے کر آئے تھے۔"

وہ اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت کے ایک متوازن دینی و دنیوی نظامِ حکومت ہونے کے قائل ہوگئے۔ اس دورانیے میں حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شخصیات سے طہ حسین کا تاثر بڑھتا چلا گیا۔ انھوں نے "المعذبون في الأرض" لکھی جس میں صحابہ کرام کی سیرتوں کی روشنی میں اسلام کے سماجی انصاف کی منظر کشی کی اور سرمایہ دارانہ نظا م پر تنقید کی۔ "الفتنة الكبرى" طہ حسین کی وہ پہلی کتاب جس کا آغاز بسم اللہ اور صلوۃ وسلام سے ہوتا ہے۔

لیکن اس رجوعی دورانیے میں دو چیزیں ایسی تھیں جن پر طہ حسین بدستور برقرار رہے۔ ایک تو وہ اسلام اور عربی زبان کو مصری اور عرب قومیت کا اہم ترین عنصر ماننے کے باجود اسے قومیت کی اساس اور بنیاد قرار دینے کے قائل نہ ہوئے۔ انھوں نےبدستور مصری قومیت کا مرکزی انتساب فرعونیت کی ہی طرف باقی رکھا۔ دوم 1938ء میں ان کی ایک اور متنازعہ کتاب "مستقبل الثقافة في مصر" آئی۔ جس میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر سے مصر کو یونانی، رومی اور جدید مغربی تہذیب کے اتباع کی دعوت دی ۔ اور انھی تہذیبوں کو مصر کا قوامِ عظیم ثابت کیا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام اور مسیحیت مصر کی اصلی تہذیبی شناخت کو نہیں بدل سکے۔ اسلام پسندی کے برعکس طہ حسین کی یہ کتاب ایک یکسر متضاد رجحان ظاہر کرتی ہےجس کے رد میں سید قطب نے بھی قلم اٹھایا۔ مجموعی طور پر 1952ء تک کے اس دورانیے کو ڈاکٹر عمارہ نے زچگی کے مرحلے سے تعبیر کیا جس سے 1952ء کے بعد ایک نئے طہ حسین نے جنم لیا۔

جولائی 1952ء میں مصر میں جمہوری انقلاب نےبادشاہت کا تختہ الٹ دیا۔ یہ طہ حسین کی زندگی کا بھی ایک انقلاب انگیز مرحلہ تھا۔ انقلاب کے بعد وہ جمہور، عربیت اور اسلام کی لسانِ ناطق بن گئے۔ 1953ء میں دستور سازی کے دوران انھوں نے ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی کی اس رائے کو رد کردیا کہ عورت کو مرد کے مساوی میراث ملے۔ انھوں نے قانون سازی میں اس بات پر زور دیا کہ اگر اسلام ریاست کا مذہب ہے تو پھر قانون سازی قرآن کے مطابق ہونی چاہیے۔ اسی طرح تدریجا وہ مصری وطن پرستی، فرعونی قومیت اور مغرب پرستی سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔ وہ اپنی کتاب "مستقبل الثقافة في مصر"کو دوبارہ شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ اب یہ کتاب کافی ترمیم واصلاح کی مستحق ہے۔ انھوں نے مغربی استعمار پر تنقید بھی کی اور مصری قومیت کا انتساب اسلام، قرآن اور عربیت کی طرف کرنے لگے۔انھوں نے کہا:

والقومية العربية إذا أردنا أن نعرف متى تكونت بالمعنى الدقيق لكلمة القومية فينبغي أن نرد هذا إلى ظهور الإسلام، فالمكون الحقيقي للوحدة العربية بجميع أنواعها وفروعها: الوحدة السياسية والاقتصادية والاجتماعية واللغوية أيضا، إنما هو النبي ﷺ هو الذي جاء بالقرآن، ودعا إلى الحق. (ص 126)

"اگر ہم قومیت کے لفظ کے دقیق معنی میں جا کر یہ جاننا چاہیں کہ عرب قومیت کب بنی تو ہمیں اسے اسلام کے ظہور سے جوڑنا چاہیے۔ سیاسی، اقتصادی، سماجی حتی کہ لسانی وحدت سمیت عرب وحدت کی تمام انواع کےحقیقی تشکیل دینے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کہ قرآن لے کر آئے اورجنھوں نے حق کی طرف دعوت دی۔"

اس چوتھے مرحلے میں طہ حسین کی زندگی کا سب سے بڑا انقلابی موڑ وہ تھاجب وہ 1955ء میں حجازِ مقدس کی زیارت کے لیے گئے۔ جدہ سے مکہ جاتے ہوئے وہ حدیبیہ سے گزرے تو انھوں نے گاڑی رکوائی اور اتر کر حدیبیہ کی مٹی کو اٹھا کر سونگھا اور کہا کہ مجھے اس سے محمد ؐ کی خوشبو آتی ہے۔ پھروہ یہاں گھنٹہ بھر رک کر مسلسل روتے رہے۔ مسجد الحرام میں پہنچے تو حجرِ اسود کے پاس جاکر اور ستارِ کعبہ سے لپٹ کر زار و قطار روئے۔مدینہ جانے کے لیے زمینی راستے سیلاب کی وجہ سے بند تھے اور ہوائی جہاز کے سفر سے طہ حسین کو سخت تکلیف ہوتی تھی حتی کہ انھوں نے بڑے بڑے دورے اس وجہ سے منسوخ کردیے کہ وہ ہوائی جہاز کے سفر سے عاجز تھے۔ لیکن مدینہ جانے کے لیے انھوں نے ہوائی جہاز کی ہامی بھر لی۔ ان سے کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو مدینہ کی زیارت اگلی مرتبہ کے لیے ملتوی کردیں لیکن انھوں نے کہا اگر میں نے ایسا کیا تو میں خود کو مجرم تصور کروں گا۔ میں آیا نہیں ہوں مجھے بلایا گیا ہے۔  روضۂ رسول پر ان کی وارفتگی و بے خودی کاعالم دیدنی تھا۔

ان سے پوچھا گیا کہ آپ حجازِ مقدس آ کر کیسا محسوس کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا:

"اس مسافر کی طرح جو طویل عرصے کے غیاب و سفر کے بعد اپنی عقل، اپنے دل اور اپنی روح کے وطن میں واپس آیا ہو۔"

ان سے پوچھا گیا کہ یہاں آکر آپ کو کون سے اشعار یاد آئے تو انھوں نے کہا:

"میں اشعار سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔"

مصر کی فرعونی قومیت وطنیت کا پرچار کرنے والے اور مغرب کی غیر مشروط تقلید کی دعوت دینے والے طہ حسین نے کہا:

"ہرمسلمان کے دو وطن ہیں: ایک وہ جہاں وہ پیدا ہوتا ہے اور ایک یہ بلدِ مقدس جس نے اس کی امت کو پیدا کیا اور اس کے دل، دماغ، ذوق اور جذبات کو تشکیل دیاہے۔"

مدینہ کے ایئر پورٹ پر صحافی نے ان سے کچھ بولنے کو کہا تو وہ بولے:

"اس ارضِ مقدس کی ہیبت بولنے سے مانع ہے۔ میں اس جگہ کیسے کلام کرسکتا ہوں جب کہ اللہ نے کہا ہے: اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو۔"

حجازِ مقدس سے واپسی کے پانچ سال بعد طہ حسین نے اپنی کتاب "مرآة الإسلام" نشر کی۔ایک نئی روحانی اور ایمانی ولادت کے بعد ان کی یہ کتاب ان کی زندگی کا سب سے بڑا فکری رجوع شمار کی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں تقریبا انھوں نے اپنے تمام سابقہ منحرف نظریات سے رجوع کر لیا۔ انھوں نے ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے تاریخی وجود کا بصدقِ دل اقرار کیا، قرآن کی وجوہِ اعجاز سے بحث کی، عقل پرستانہ غلو کی مذمت کرتے ہوئے عقل کی حدود کو زیرِ بحث لائے، یونانی فلاسفہ، ان کے مسلم متبعین، اشراقی تصوف ، معتزلہ اور ابو العلا معری وغیرہ کو نقد وجرح کی میزان میں رکھ کر ان کی غلطیوں کو واضح کیا۔ وہی بات جو اس سے پہلے وہ ایک راہب کی زبانی کہلوا چکے تھے اب وہ انھوں نے خود کہہ دی:

"أن العقل الإنساني ملكة من ملكات الإنسان، وأن هذه الملكة كغيرها من ملكات الإنسان محدودة القوة تستطيع أن تعرف أشياء وتقصر عن معرفة أشياء لم تهيأ لمعرفتها… فلقد تجاوزت المعتزلة ما ألف الصالحون من القصد، فأغرقوا في تحكيم العقل فيما لا يستطيع العقل أن يحكم فيه."(مرآة الإسلام، ص: 282)

"عقل بھی انسانی صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت بھی بقیہ انسانی صلاحیتوں کی طرح محدود قوت والی ہے، کچھ اشیاء کی معرفت حاصل کر سکتی ہے جب کہ کچھ اشیاء جن کی معرفت کی اہلیت اسے نہیں ملی، یہ ان کی معرفت سے عاجز ہو جاتی ہے۔۔۔۔ معتزلہ نے صالحین کی میانہ روی والی  سے تجاوز کیا اور غلو کرتے ہوئےعقل کو ان معاملات میں بھی فیصل بنانے کی کوشش کی جن کے بارے میں فیصلہ صادر کرنے کی استطاعت اس میں نہیں ہے۔"

وہ علمِ جدید کے زیرِ اثر قرآنی آیات کی بے محل تاویل کے بھی سخت خلاف نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں قرآن کی آیات سے وہی مطلب نکالنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے سمجھا۔ وہ معجزات کی تاویلِ کی بھی سخت مخالفت کرتےہیں۔ وہ کہتے ہیں:

"وکذلك الذين يقولون إن السموات السبع التي تذكر في القرآن هي الكواكب السيارة، إنما يرجمون بالغيب ويقولون ما لم يقله النبي وأصحابه، ومصدر هذا أنهم يريدون أن يلائموا بين القرآن ومستكشفات العلم الحديث، فيضطرهم ذلك إلى تكليف النصوص من التأويل ما لاتحتمل. وليس على الدين بأس أن يلائم العلم الحديث أو لا يلائمه، فالدين من علم الله الذي لا حد له، والعلم الحديث كالعلم القديم محدود بطاقة العقل الإنساني، وبهذا العالم الذي يعيش الإنسان فيه."(أيضا)

"اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جن سات آسمانوں کا ذکر آیا ہے وہ سات سیارے ہیں، وہ اٹکل پچو اندازے لگا رہے ہیں اور ایسی بات کہہ رہے ہیں جو آنحضرت اور آپ کے صحابہ نے نہیں کہی۔ ان کی بات کا منبع یہ ہے کہ وہ قرآن اور علمِ جدید کے اکتشافات کے مابین ہم آہنگی قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نصوص کی ایسی تاویلات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جن کا وہ احتمال نہیں رکھتیں۔حالاں کہ دین علمِ جدید کے ہم آہنگ  ہو یا نہ ہو اس سے دین پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں دین اللہ کے لا محدود علم سے تعلق رکھتا ہے جب کہ علم جدید، قدیم علم کی طرح انسانی عقل کی طاقت اور اس عالم کے ساتھ محدود ہے جس میں انسان رہتا ہے۔"

اسی طرح انھوں نے اجتہاد اور اس کے مصادر کتاب، سنت، اجماع اور اجتہاد پر بھی بات کی اور ان کی ترتیب وار اہمیت کو ذکر کیا۔

اس کتاب کی طباعت کے ایک سال بعد طہ حسین نے اپنے فکر و قلم کاتقریبا آخری گوہر"الشيخان" پیش کیا۔ جس میں انھوں اسلامی قومیت وسیاست کے تصور کا پھر سے اعادہ کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گہری محبت اور عقیدت کا اظہار کیا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کی روشنی میں قرآن ہی کو مسلم ریاست کا آئین اور دستور ثابت کیا۔یوں "في الشعر الجاهلي" سے شروع ہونے والا تشکیک و ارتیاب کا سفر "علی ھامش السیرۃ" سے ہوتا ہوا "مرآۃ الاسلام" تک آیا تو "قادۃ الفکر" کے افلاطون و ارسطو کی جگہ حضراتِ شیخین لے چکے تھے۔

اس کے بعد کی زندگی طہ حسین نے لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں ہی گزاری۔ وہ ایک دعا مسنون دعا بکثرت پڑھا کرتے تھے۔عمرہ کے موقع پر بھی یہی دعا ان کے وردِ زبان رہی۔ اس سے پہلے کسی مغربی ملک کے اجلاس میں انھوں نے اس دعا کا فرانسیسی ترجمہ پڑھا تھاتو ایک مسیحی خاتون نے اس سے گہرا تاثر لیا، اس نے یہ دعا طہ حسین سے دوبارہ سن کر لکھی اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے بے حد محبت وعقیدت کا اظہار کیا۔1973ء میں طہ حسین کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر کے کتبے پر بھی یہ دعا تحریر کی گئی۔ وہ دعا یہ ہے:

اللهم لك الحمد، أنت نور السموات والأرض، لك الحمد، أنت قيوم السموات والأرض، ولك الحمد، أنت رب السموات والأرض ومن فيهن، أنت الحق، ووعدك الحق، والجنة حق، والنار حق، والنبيون حق، والساعة حق، اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت. أنت إلهي لا إله إلا أنت.

"اے اللہ! تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تیرےہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو تھامنے والا ہے اور تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے تو آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے ان کا رب ہے۔ توہی حق ہے اورتیرا وعدہ ہی حق ہے۔جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، انبیاء حق ہیں اور قیامت کی گھڑی حق ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے سامنےہی سرِ تسلیم خم کیا، تجھی پر ایمان لایا، تجھی پر توکل کیا، تجھ سے ہی لو لگایا ، تیری مدد سے ہی سے نزاع کیا اورتجھی کو فیصل بنایا۔ پس میں نے جوکچھ اعمال آگے بھیجے ہیں، جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے، جو چھپایا ہے اور جو علانیہ ظاہر کیا ہے، اس سب کو بخش دے۔ تو میرا معبود ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔"

شخصیات

(جون ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter