ہمارے استاد، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے جج، جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ جو ڈاکٹر محمد الغزالی کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں میں کس بندہ آزاد کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔ جو نہیں جانتے وہ البتہ کبھی جان ہی نہیں پائیں گے کہ یہ کیسا عالی مرتبت انسان تھا جواس دنیا سے اٹھ گیا۔ڈاکٹر غزالی پر لکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔یہ ایک کوہ کنی ہے اور ہم جیسوں میں کوئی فرہاد نہیں۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ڈاکٹر غزالی کا شاگرد تھا۔ ایم اے انگریزی کی کلاس میں انہوں نے ہمیں ّ اسلام اور جدید مغربی فکرْ کا مضمون پڑھایا تھا۔ ہم حیران اور بے زار سے تھے کہ انگریزی ادب کی کلاس میں یہ مضمون کہاں سے آ یا۔ پھر ایک دن شام ڈھل چکی تھی تو ڈاکٹر غزالی کلاس لینے آئے۔ ہم جو ان دنوں انگریزی ادب کی Love at first sight پر مضامین باندھا کرتے تھے ، ان سے پہلی ہی کلاس میں ایسے مرعوب ہوئے کہ آج ستائیس بعد دل کو ٹٹولتا ہوں تو اسی مرعوبیت کے حصار میں پاتا ہوں۔
جسٹس غزالی پر لکھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ مرعوبیت سے قلم بھاری ہو جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے سارے رنگ اور کتابوں میں رہ جاے والا عالم دین کا سارا بانکپن وہ ساتھ لیے پھرتے تھے۔
مناصب سے بے نیاز ، عجب سی شان بے نیازی تھی ۔ تصنع نہیں تھا مگر تہذہبی رچاؤ میں ڈوبا رکھ رکھاؤ تھا ۔ تند خو نہ تھے مگر رعب ایسا تھا کہ ان کے سامنے بڑوں بڑوں کی قوت گویائی سلب ہو جاتی تھی، غلطی پر ٹوکتے تھے اور سر محفل ٹوکتے تھے ، سامنے جتنا بڑا صاحب منصب ہوتا تھا اسی شدت سے ٹوکتے تھے ، ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تھے جیسے صحرا کی وسعتیں پر پوری رات کا چاند دھیرے دھیرے اتر جائے۔
میں انہیں دیکھ کر سوچا کرتا تھا اگر زوال کے اس عہد میں ایک عالم کی وجاہت اور شان یہ ہے تو مسلمانوں کے دور عروج میں کیا ہوتی ہو گی۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر غزالی جیسا کوئی نہ تھا۔ ایک فرد نہیں وہ ایک پوری تہذیب تھے۔ مسلمانوں کی فکری اور سماجی وجاہت ان میں مجسم تھی۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں ڈاکٹر محمد الغزالی اس زمین کا نمک تھے۔
جنازہ پڑھا جا چکا تو یادوں کی سمت دریچے کھل گئے۔ ایک شام افتخار اور میں نے کلاس بنک کی۔ نیف ڈیک سینیما ان دنوں آباد ہوا کرتا تھااور یہاں رونقیں ہوتی تھیں۔ سات بجے فلم کا شو شروع ہوتا تھا۔ ہم یونیورسٹی سے نکلے ہی تھے کہ ایک کار ہمارے پاس آ کر رک گئی۔ اسے ڈاکٹرصاحب ڈرائیو کر رہے تھے۔ شیشہ نیچے کر کے انہوں نے شفقت بھرے مگر انتہائی بارعب لہجے میں حکم دیا: بیٹھ جائیے۔
ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔
کہاں جا رہے ہیں؟
ایک تو کلاس بنک کی تھی اور پکڑے گئے۔ اوپر سے پکڑے بھی غزالی صاحب کے ہاتھوں گئے۔ ہوش تو پہلے ہی ٹھکانے نہ تھے، اب اچانک سوال ہوا توہم گڑ بڑا گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ میں نے کہا، سر آب پارہ جا رہے ہیں اور افتخار نے کہا، سر ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مسکرائے، گھڑی کو دیکھا اور کہنے لگے: اچھا، آپ آب پارہ جا رہے ہیں اور آپ ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں آپ کو نیف ڈیک اتار دیتا ہوں، وقت پہلے ہی کم ہے، آپ کو تاخیر نہ ہو جائے۔
چوری پکڑی جا چکی تھی، پسینے چھوٹ چکے تھے۔ میں نے کہا سر توبہ توبہ، نیف ڈیک کیا کرنا ہے ہم نے۔ ہم تو آب پارہ اور پھر ہاسٹل جا رہے ہیں۔لیکن غزالی صاحب کے سامنے سچ بولنا بھی آسان کام نہ تھا تو ڈھنگ سے جھوٹ کون بول سکتا تھا۔
گاڑی میں مکمل خاموشی رہی۔ اور پھر نیف ڈیک کے سامنے جا کر گاڑی رک گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ جلدی سے اتر جائیے، وقت کم ہے۔ یہاں سے آب پارہ بھی نزدیک ہے اور ہاسٹل ون بھی۔
بائیس سال بعد ایک روز کالم میں، میں نے یہ واقعہ لکھا تو مجھے ایک کال آئی۔ بھائی آصف، میں محمد الغزالی بول رہا ہوں۔ یہ دو عشروں بعد ڈاکٹر صاحب سے میرا پہلا رابطہ تھا۔
یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ان ڈھائی عشروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا دو تین بار ہی رابطہ ہو سکا۔ آخری رابطہ ان کے انتقال سے چند دن پہلے ہوا۔ جن ان کے انتقال کی خبر سنی تو ان کانمبر ڈائل کرنے لگا ، دیکھا تو وہاں ان کا ایک واٹس ایپ میسج پڑا تھا جو میں ابھی دیکھ ہی نہیں سکاتھا۔ لکھا تھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟۔۔۔۔۔۔ میں عام حالات میں، ہر گز یہ واقعہ نہ لکھتا لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے گہرا تعلق ہے اس لیے یہ واقعہ لکھ رہا ہوں۔
واقعہ یوں ہے کہ چند روز پہلے ان کا فون آیا۔ میں اس وقت ٹاک شو کرنے سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ کہنے لگے: میں آپ کے لاء آفس کے نیچے کھڑا ہوں، باہر آئیے۔ میں نے عرض کی کہ سر میں اس وقت سٹوڈیو میں ہوں آپ حکم کریں میں شو کے بعد حاضر ہو جاتا ہوں۔ حکم ملا: شو کیجیے، اس کے بعد مجھے فون کیجیے۔
میں سارا پروگرا م یہی سوچتا رہا کہ اللہ خیر کرے، جسٹس صاحب نے یہ زحمت کیوں کی۔ میں نے شروع میں عرض کی کہ جو غزالی صاحب کو جانتے ہیں وہی جانتے ہیں وہ کس مزاج کے آدمی تھے۔ میری موجودگی میں انہوں نے صدر پاکستان کی دعوت رد کر دی تھی کہ اور کہا تھا کہ مغرب کے بعد وہ گھر سے نہیں نکلتے، ( تب شائد ان کی والد علیل تھیں) صدر صاحب نے ملنا ہے تو یہ ملاقات دن میں رکھا کریں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے عرض کی سر صدر پاکستان وقت طے کر چکے ہیں، آپ پلیز تشریف لے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: صدر صاحب کے آفس کو ہم سے پوچھ کر وقت طے کرنا چاہیے تھا اور ملاقات کی خواہش ہم نے نہیں کی صدرمحترم نے کی ہے تو انہیں ہماری مصروفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نہیں جا سکتے۔
اب ڈاکٹر غزالی اچانک، عشاء کے بعد، دفتر کے باہر کھڑے تھے تو وجہ کیا تھی۔میں نے پریشان ہوکر پروگرام کے فورا بعد، انہیں فون کیا تو وہ شدید پریشان تھے۔ اذیت میں تھے۔
کہنے لگے: آپ کو معلوم ہے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟
عرض کی کچھ کچھ معلوم ہے۔
کہنے لگے میں آپ کو تفصیل بھیج رہا ہوں اسے پڑھیے۔
ان کا واٹس ایپ ملا۔ میں نے پڑھا، یہ حیران کن اور تکلیف دہ حد تک اذیت ناک معلومات تھیں۔میں نے پڑھ کر پھر فون کیا۔ کہنے لگے کیا یہ چیزیں آپ کے علم میں تھیں؟ میں نے عرض کی کہ کچھ کچھ علم میں تھیں کچھ کا علم نہیں تھا۔ کہنے لگے: اگر آپ کے علم میں ہیں تو کیا میں آپ کی خاموشی کاسبب جان سکتا ہوں؟ میں نے کہا سر میں سمجھا نہیں۔ کہنے لگے آپ کے اور ہمارے سامنے ہماری یونیورسٹی، ہمارا ادار ہ جو امت مسلمہ کی فکری امانت ہے وہ تباہ ہو رہا ہے، اور آپ خاموش ہیں ۔ آپ کیون خاموش ہیں؟ آپ اس پر کم از کم ایک کالم تو لکھیں۔
میں نے ان سے وعد ہ کر لیا کہ ضرور لکھوں گا۔ مجھے معلومات کو کالم کی شکل میں مرتب کرتے تین دن لگ گئے اور ان تین دنوں میں ہر صبح ان کا پیغام آتا،بھائی آصف کالم کہاں ہے؟وہ شاید صبح اخبار دیکھتے اورکالم نہ پا کر مجھے واٹس ایپ کرتے۔
ان کا آخری میسج ان کے انتقال کے بعد میں نے پڑھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟
جسٹس صاحب کے جنازے میں بتایا جا رہا تھا کہ ان کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہے۔ میں کھڑا سوچتا رہاکہ کیا اس ہارٹ اٹیک کی بھی کوئی وجہ تھی؟ میرے خیال میں اس کی دو وجوہات تھیں۔ وہ فلسطین پر بہت دکھی تھے اور اسلامی یونیورسٹی کے معااملات نے ان کی روح کو گھائل کر دیا تھا۔
ان کے آخری ایام کے واٹس ایپ میسج میرے پاس امانت ہیں، یونیورسٹی بی او ٹی، صدر پاکستان یا جناب چیف جسٹس چاہیں تو یہ ان کی خدمت میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ذاتی پیغام رسانی تھی، اسے عام حالات میں سامنے نہیں لانا چاہیے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں جس معاملے کی اذیت نے جسٹس صاحب کوزندگی کے آخری دنوں میں تکلیف دیے رکھی اس اذیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
یونیورسٹی کے معاملات سیدھے ہو جائیں تو ڈاکٹر محمد الغزالی کی روح کو شاید اس سے کچھ تسکین ملے۔ و ہ ا س جامعہ کے لیے اپنے آخری دنوں میں شدید دکھی تھے۔
اسلامی یونیورسٹی میں اصلاح احوال جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کا ان کے شاگردوں اور دوستوں پر قرض ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ترکش)