پیشانی کشادہ، مطلعِ انوار، آنکھیں روشن، زندہ وبیدار،
ابھرتے ہوئے مسکراتے رخسار، گندمی رنگ میں سرخی کے آثار،
سر کے بال پٹے دار، ڈاڑھی پھیلی ہوئی باوقار،
سیاہی پر سپیدی ژالہ بار، شانے چوڑے اور مضبوط مردانہ وار،
ناک ستواں، قد میانہ، جسم گھنا، ایک شجرِ سایہ دار، پر ُسکون جیسے دامنِ کوہسار،
لباس سے سادگی آشکار، کندھوں پر مستقل رومال کہ جسدِ خاکی کا حاشیہ بردار،
دمِ گفتگو، دلیل کی گفتار، دمِ جستجو، فرض کی پکار،
آرام سے ہر لحظہ انکار، مطمحِ نظر اسلامی اقدار،
عوامی حقوق کا پاسدار، ان کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار،
وزیر اعلیٰ، مگر چٹائی سے سروکار، تکلفات سے بیزار،
بوریے پر دربار، عجیب صاحبِ اختیار، غلامِ احمدِؐ مختار،
اس کی نگاہ میں ہیچ دولت کے انبار، اس کی نگاہ میں ایک مفلس و زردار،
تنہا بھی لشکرِ جرّار، کثرتیں اس کے سامنے نگوں سار، استقامت کا کوہسار، نعرۂ حیدرِ کرارؓ،
فرقہ بندی کے خلاف کھلی تلوار، اتحاد کا علمبردار، تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ کا سالار،
قوم کا بے تاج تاجدار، نویدِ قافلۂ بہار، میدانِ سیاست کا شہسوار،
اہلِ دیں کے لیے سرمایۂ افتخار، اہلِ دل کے لیے وجہِ قرار،
دیوبند کے گلے کا ہار، پاکستان پر سو جان سے نثار، افغانستان پر اشک بار، جہاد کی للکار،
اس سے لرزہ بر اندام اشتراکی و سرمایہ دار، ہر جنسِ بازار،
وہ ایک کلمۂ پائیدار، باوقار، با کردار، عابدِ شبِ زندہ دار،
روایاتِ اسلاف کا نگہ دار، رحمتِ پروردگار،
خوابیدہ اس شرر میں تھے آتش کدے ہزار،
تری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول۔
(ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور ۔ فروری ۱۹۸۱ء)