مجیب الرحمٰن شامی

کل مضامین: 2

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟

پاکستان کے انتہائی ممتاز اور سنجیدہ دانشور وجاہت مسعود یہ خبر لائے ہیں کہ 12 مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قراردادِ مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا ہے کہ لیاقت علی خان جمہوریت پسند نہیں تھے، ان کی کم نگاہی نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو قوم پر کم و بیش آٹھ برس کا نادیدہ اقتدار سونپ دیا۔ مزید فرمایا گیا: لیاقت علی مغفور سمجھتے تھے کہ شبیر عثمانی سے ہاتھ ملا کے متحدہ ہندوستان میں مغل عہد کی تعلقہ دار نشانیوں کے لیے پاکستان میں غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ...

مولانا مفتی محمودؒ

پیشانی کشادہ، مطلعِ انوار، آنکھیں روشن، زندہ وبیدار، ابھرتے ہوئے مسکراتے رخسار، گندمی رنگ میں سرخی کے آثار، سر کے بال پٹے دار، ڈاڑھی پھیلی ہوئی باوقار، سیاہی پر سپیدی ژالہ بار، شانے چوڑے اور مضبوط مردانہ وار، ناک ستواں، قد میانہ، جسم گھنا، ایک شجرِ سایہ دار، پر ُسکون جیسے دامنِ کوہسار، لباس سے سادگی آشکار، کندھوں پر مستقل رومال کہ جسدِ خاکی کا حاشیہ بردار، دمِ گفتگو، دلیل کی گفتار، دمِ جستجو، فرض کی پکار، آرام سے ہر لحظہ انکار، مطمحِ نظر اسلامی اقدار، عوامی حقوق کا پاسدار، ان کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار، وزیر اعلیٰ، مگر چٹائی سے...
1-2 (2)