مولاناامین عثمانی، اس عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوپانی پت(ہریانہ ) میں آبادتھا۔ان کے اجدادتصوف کے چشتی سلسلہ سے وابستہ تھے اوربہارکے مشہورصوفی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کی شہرت سن کران سے استفادہ کے لیے بہارچلے گئے تھے۔ان کے خاندان میں ڈاکٹرمحسن عثمانی کے علاوہ طیب عثمانی ،شاہ رشادعثمانی وغیرہ اردوزبان وادب کے معروف مصنف و ادیب ہیں۔مولاناعثمانی کے والدشاہ عیسیٰ عثمانی فردوسی بھی ایک معروف عالم اور شیخ تھے۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی اور وہ بانی جامعہ ملیہ اورصدرجمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کے شاگردتھے بلکہ استادکے بلانے پر انھوں نے جامعہ میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔انہوں نے دو کتابیں بھی لکھیں۔ان کا انتقال 1972میں تہجدکی نمازکے لیے وضوکرتے ہوئے ہواتھا۔
مولاناامین عثمانی نے مقامی مکاتب ومدارس میں پڑھنے کے بعدندوة العلماءلکھنوسے عا لمیت وفضیلت کی۔ بعدازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے بھی کیااور ان کا تقرربحیثیت اسسٹنٹ پروفیسراسی شعبہ میں ہوگیاتھا۔لیکن انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز( IOS) کے بانی ڈاکٹرمحمدمنظورعالم اورقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؓ کی دعوت پروہ اپنی اس safe اورمحفوظ جاب کوچھوڑکرملی کاموں کے لیے ان کے ساتھ آگئے ۔کم ازکم راقم کی معلومات کی حدتک یہ واحدایسی مثال ہے کہ کوئی یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑکرملی کاموں کی طرف آیاہو،اس کا برعکس توبہت ہوتاہے۔ان کی ملی خدمت کے جذبہ کا عکس ان کے بچوں میں بھی بدرجہ اتم موجودہے چنانچہ صاحبزادہ ابان عثمانی بھی ملی کاموں میں سرگرم ہیں اوربیٹی ایمان عثمانی نے بھی، جوجامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کی طالبہ ہیں، چند ماہ قبل سی اے این آرسی کے خلاف جامعہ کے طلبہ کی مہم میں جوش وخروش سے حصہ لیااورپولیس کی لاٹھیاں کھائیں۔
اپنی خاندانی روایات کے برعکس شیخ امین عثمانی کی فکری وابستگی تصوف کی بجائے اخوان المسلمون اورجماعت اسلامی سے ہوئی ،جن سے وہ زمانہ طالب علمی میں متاثرہوگئے تھے۔ یہ بات بھی رکارڈ میں لانا ضروری ہے کہ امین عثمانی صاحب مسلمان طلبہ کی اس تنظیم سے بھی تعلق رکھتے تھے جس کانام اسٹوڈینٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (ایس آئی ایم )ہے اورجس پر آج کل ہندوستانی حکومت نے تشددپسندی کاالزا م لگاکرپابندی عائدکرکھی ہے، اگرچہ یہ الزام کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوسکا۔اس تنظیم کی بنیادی فکرجماعت اسلامی کی فکرتھی اوراس زمانے کی ایس آئی ایم سے جماعت اسلامی اورملت اسلامیہ ہندیہ کوکئی قیمتی افرادملے، مثال کے طورپر ڈاکٹراحمداللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد رفعت ، ڈاکٹرعبیداللہ فہدفلاحی ،ڈاکٹرمحمدذکی کرمانی ،امین عثمانی ،ڈاکٹرقاسم رسول الیاس اور مولانارضی الاسلام ندوی وغیرہ ۔اس تنظیم سے راقم بھی وابستہ رہاہے ۔بعدمیں کئی وجوہات سے اس میں علمی وفکری زوال آیا اور اس کے کام کرنے کے اندازواسلو ب میں حدسے زیادہ جوش اورابال بڑھنے لگاتوجماعت اسلامی ہندنے اس تنظیم سے اپنا ضابطہ کا تعلق توڑکراپنی دوسری طلبہ تنظیم ایس آئی اوکے نام سے قائم کی جوجماعت کی سرپرستی میں کام کرتی ہے۔ راقم اس ممنوعہ تنظیم سے وابستہ تورہالیکن اس نے اس کا کوئی فکری وتربیتی اثرقبول نہیں کیا۔اس کے مقابلہ میں لکھنو میں مولانا ظہیر احمدصدیقی کی قائم کردہ الجمعیۃ الخیریۃ لمساعدة الطلاب کے تربیتی ورکشاپ اورپروگرام اس کے لیے زیادہ اپیلنگ اور موثر ثابت ہوئے جواخوان المسلمون کے منہج تربیت سے قریب ہوتے تھے ۔ یہ جمعیۃ اب رفاہی وفلاحی کاموں کے لیے وقف ہوکررہ گئی ہے ۔
بہرکیف شیخ امین عثمانی وفات تک جماعت اسلامی ہندکے رکن رہے اورجماعت کے تحقیقی ادارہ ،ادارہ تحقیق وتصنیف علی گڑھ کے ممبر بھی رہے۔وہ اردوعربی اورانگریزی تینوں زبانوں پر یکساں لکھنے اور بولنے کی قدرت رکھتے تھے۔مشہوراخوانی داعیہ مرحومہ زینب الغزالی الجبیلی کی جیل کی رددادکا ترجمہ :”زندان کے شب وروز“کے نام سے کیا تھا جو 1982میں ہندوستان پبلکیشنزسے شائع ہواتھااورعالمی طلبائی تنظیم اِفسونے بھی ا س کو تقسیم کیاتھا۔اسی کتاب کا نسبتازیادہ مشہورترجمہ خلیل حامدی صاحب کا کیاہوابھی ہے ۔یوں تو جماعت اسلامی کے رکن اوراخوان المسلمون سے فکری مناسبت رکھتے تھے تاہم ان کی یہ وابستگی بندبنداورClosed mind نہ تھی۔ وہ مختلف ملکوں، تنظیموں اور اداروں میں ہو رہے مختلف تجربا ت پر نظررکھتے تھے۔چنانچہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے عربی مدارس کے فارغین کے لیے برج کورس شروع کیاتوشیخ امین عثمانی نے اس میں دل چسپی لی ،اس کے دوسیمیناروں میں شریک ہوئے اورا س کی تائید میں مضمون بھی لکھاکیونکہ بعض علما اوراہل مدار س کی طرف سے اس کی بڑی مخالفت شروع کردی گئی تھی۔ ویسے عملی طور پران کی ہندوستان کے مسلم تھنک ٹینک آئی اوایس اور فکراسلامی کے بین الاقوامی مرکزIIIT (واشنگٹن ) سے بہت قربت تھی اوران میں عملی وفکری شمولیت رکھتے تھے۔
مولاناامین عثمانی ایک بہترین مربی ،فکری رہنمااورنوجوان علماکی رہنمائی کرنے والے انسان تھے ۔وہ نئے نئے مضامین اورموضوعات پر ہمیشہ سوچاکرتے اوراپنے حلقہ فکرکے مختلف نوجوانوں کو ان موضوعات پر پڑھنے اوران پر لکھنے کے لیے آمادہ کرتے اوراس سلسلہ میں برابرایس ایم ایس پیغام ،ای میل اورٹیلی فون اورخطوط سے رابطہ کرکے توجہ دلاتے رہتے تھے۔کچھ کومسلم ممالک میں ہونے والے علمی مذاکرات وسیمیناروںکی طرف متوجہ کرتے، ان کے لیے پیپرلکھواتے اوربعض کو ان میں بھیجنے کی بھی کوشش کرتے ۔یہی نہیں بلکہ اکیڈمی کے بعض علماءکرام کی شہرت ومقبولیت بھی تمام ترامین صاحب کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔
وہ طویل عرصہ سے اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا(قیام 1988)کے روح روا ں تھے۔مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؓ (بانی فقہ اکیڈمی)کے کئی دہائیوں تک ساتھ رہے اورفقہ اکیڈمی کوالمعہدالعلمی جیسے ایک چھوٹے سے منصوبہ سے لے کر ایک بڑے اوراہم علمی وفکری ،شرعی اورفقہی تحقیقی ادارہ کے طورپر دنیابھرمیں متعارف کرانے کا سہرا انھی کے سر جاتا ہے۔دوسرے علمی اداروں سے روابط اوراکیڈمی کومالیات فراہم کرانے میں بھی ان کا بڑا کردار رہا۔ ہندوستان میں بنیادی طورپر فقہ حنفی کو فالو کیاجاتا ہے ۔اسلامی فقہ اکیڈمی اوردیوبندکے مکاتب فکربھی اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔تاہم مولاناامین عثمانی کا فقہی تصورکاسموپولیٹن فقہ کا تھا۔یعنی فقہ کے چاروں مکاتب فکرسے استفادہ بلکہ ضرورت پڑنے پر ان سے باہرجاکرقرآن وسنت کے نصوص سے آزادانہ استفادہ کرنے اورنئے مسائل کو حل کرنے کا وہ رجحان رکھتے تھے۔خاص طورپر مقاصدشریعت پر انہوں نے فکراسلامی کے بین الاقوامی مرکزIIIT (واشنگٹن )کی شائع کردہ عربی وانگریزی کتابوں کا اردوترجمہ شائع کراکرہندوستان کے چیدہ علما،طلبااورفقہ سے دل چسپی رکھنے والوں کو روانہ کیااوریہاں کے مدارس اورتحقیقی اداروںمیں فقہ مقاصدی کا ایک طرح سے تعارف کرایا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کومستثنی کردیں تو برصغیرمیں فقہ مقاصدی یا مقاصدشریعت کے مطالعہ کا کوئی رواج نہیں ہے ،اس کی طرح یہاں فقہ اکیڈمی نے ڈالی ہے ۔ان کے ان نئے اور نامانوس کاموں کی روایتی علماکی طرف سے خاصی مزاحمت بھی ہوئی ۔ کہاگیاکہ فقہ اکیڈمی” فقہ حنفی کا جنازہ“ نکال رہی ہے ،مگرامین عثمانی صاحب(اورقاضی صاحب مرحوم بھی) جس چیز کوصحیح سمجھتے تھے، اس کے باے میں کسی لومۃ لائم کی پروانہیں کرتے تھے۔
یہاں یہ ذکرکرنامناسب ہوگاکہ طلاق ثلاثہ پرہندوستان کی سپریم کورٹ نے پابندی عائدکردی ہے۔ حکمران فسطائی جماعت نے اِس کا بڑاپروپیگنڈا کیاتھاکہ وہ تین طلاق سے مسلمان خواتین پر ہونے والے ظلم کوروکے گی ۔جب یہ مسئلہ کورٹ میں زیربحث تھا، اُس وقت ملک کے بعض علماودانشوروں نے یہ رائے اختیارکی تھی کہ مسلم فریق (آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ )کواپنے فقہ حنفی پر مبنی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اورخودآگے بڑھ کراس مسئلہ میں ابن تیمیہ ؒاورجماعت اہل حدیث کی رائے اختیارکرلینی چاہیے۔یہی رائے شیخ امین عثمانی کی تھی ۔انہوں نے اس سلسلہ میں علامہ یوسف القرضاوی اورترکی کے صدرمفتی کا فتوی بھی منگایا تھااور راقم کی گزارش پر اس کوبھی بھیجا تھا۔ یہ دونوں حضرات بھی فقہ حنفی کوہی Followکرتے ہیں، مگرحالات زمانہ کی رعایت سے انہوں نے اس مسئلہ میں دوسرا آپشن اختیار کیاہے۔تاہم علماکی اکثریت نے اِس کوتسلیم نہیں کیااورنہ اپنے موقف میں کوئی لچک پیداکی اوراِس کا جو نتیجہ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔
مولاناامین عثمانی صاحب ہندوستان کی موجودہ صورت حال ،ہندتو کی قوتوں کے غلبہ اورمسلمانوں کی ہمہ جہت زبوں حالی کے بارے میں فکرمندرہتے تھے ۔اس سلسلہ میں وہ سنی سنائی نہیں بلکہ فرسٹ ہینڈمعلومات رکھتے تھے، مسلم نوجوانوں،فارغین مدارس اورملی کارکنوں کو اس کے لیے تیاری کرنے کے طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔اس موضوع پر اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے متعددورکشاپ اورلیکچربھی انہوں نے کرائے۔کچھ عرصہ پہلے مدارس کے ارباب اہتمام کو اس جانب متوجہ کرنے کے لیے انہوں نے اہم اوربڑے مدارس کوخط بھی لکھااوران کواس با ت پر ابھارا کہ یہ مدار س اپنے نصابوں میں ہندوستانی مذاہب ،ہندی تہذیب وکلچرکے بارے میں کوئی ایک پیریڈمختص کریں یا کم ازکم ان موضوعات پر توسیعی لیکچرہی کروائیں۔راقم کوبھی انہوں نے ایک کاپی اس خط کی بھیجی تھی۔
مرحوم عثمانی مسلم دنیاکے مسائل وایشوز سے، خا ص کرفلسطین ،بیت المقدس اورشام(سیریا) کی موجودہ صورت حال سے قریبی واقفیت رکھتے تھے۔اس مسئلہ پر انہوں نے بہت سی کتابوں،کتابچوںاورمقالوں کے عربی سے اردو میں ترجمے کروا کر شائع کیے۔ماہنامہ افکارملی دہلی (جس سے راقم 15سال وابستہ رہا)نے فلسطین پر ایک خاص نمبرشائع کیا تواس میں موادکی فراہمی میں بڑاحصہ انھی کا رہا۔شام کے اوپر پروفیسرمحسن عثمانی صاحب کے تحریرکردہ کئی رسالے اور کتابچے شائع کرائے۔راقم سے بھی ایک فلسطینی اسکالرمجاہدالقاسمی کے لکھے ہوئے ایک رسالہ: فلسطین المضطہدة کا ترجمہ کرایا۔ اسی طرح علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب :القدس قضیۃ کل مسلم کا ترجمہ راقم سے کروایا۔یہ دونوںشائع شدہ ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک اخوانی عالم عبدالفتاح الخطیب کی کتاب قیم الاسلام الحضاریۃ اردوترجمہ کرنے کے لیے مجھے دی تھی ،جس کااردو نام ہے :اسلام کی تہذیبی قدریں۔نئی اسلامی انسان پروری کے خدوخال ۔چنانچہ ابھی ایک عشرہ پہلے اسی کا مسودہ لے کرمیں ان کے مکان پر حاضرہواتھا۔ انہوں نے دیرتک مختلف موضوعات پر باتیں کیں۔اس کتاب پر ایک قیمتی اورجامع پیش لفظ لکھا۔پھرمیں علی گڑھ چلا آیا۔چنددن بعدہی سوشل میڈیاپر ان کی شدیدعلالت کی خبریں آئیں اورپھران کے انتقال پرملال کی ۔
مولاناامین عثمانی نے فقہ اکیڈمی کے آغازہی میں مدارس کے فارغین کے لیے تربیتی ورکشاپ اور جدید موضوعات پر توسیعی لیکچروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ان معلوماتی ومفید لیکچروں کوانہوں نے فقہ اکیڈمی سے شائع بھی کرایا اور بڑے پیمانے پران کونوجوانوں اورفارغین مدارس میں تقسیم بھی کیاجن میں عالم اسلام کی اقتصادی صورت حال،عالم اسلام کی سیاسی صورت حال اورعالم اسلام کی اخلاقی صورت حال(مصنفہ جناب اسرارعالم ) وغیرہ ہیں۔
یادش بخیرراقم جب ندوہ العلماء میں پڑھتا تھاتو پہلے پہل یہی مقالے مولاناامین صاحب سے ملاقات کا باعث بنے اورا س کے بعد انہوں نے خاکسارپر بڑی توجہ فرمائی اورتعلیمی وفکری رہنمائی بھی کی ۔لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعدکچھ دن میں نے لکھنوکے ایک فکری ادارے معہدالفکرالاسلامی (حال نالج اکیڈمی )میں کام کیا۔ پھر وہاں سے چھوڑکردہلی آیا تو تقریباچھ مہینے اسلامی فقہ اکیڈمی میں شیخ امین عثمانی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملااوران کی وسعت علم کے ساتھ ان کی انتظامی صلاحیتوں خاص کرپلاننگ والے زرخیزذہن سے واقفیت ہوئی ۔ہندوستان کے معروف فقیہ وعالم مولانابدرالحسن قاسمی (مقیم کویت )نے ایک آن لائن تعزیتی نششت میں بتایاکہ شیخ امین عثمانی قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب کے دست وبازواس طرح بن گئے تھے کہ شیخ امین صاحب جلدی جلدی نئے نئے علمی وفکری منصوبے بناکران کودیتے اورقاضی صاحب اکثران سے اتفاق کرکے ان کونافذکردیتے، چنانچہ فقہ اکیڈمی نے بہت جلدی ترقی کی اورملک وبیرون ملک میں اس کی ایک ساکھ قائم ہوئی ۔
یادرہے کہ فقہ اکیڈمی نے اب تک تقریبا28فقہی سیمینارمختلف علمی وفقہی اورجدیدموضوعات پر کیے ہیں جن کے مقالات کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں اوران کا حوالہ دیاجاتاہے۔اسی طرح فقہ اکیڈمی نے کویت سے شائع ہوئے ہوئے موسوعۃ الفقہ الاسلامی کا اردومیں 45جلدوں میں ترجمہ کرایااوران کوشائع کرایا۔امین صاحب کوبڑے مواقع ملے کہ وہ دنیا کمائیں،شہرت حاصل کریں مگرانہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کواسٹیج سے دوررکھا،زمینی سطح پر کام کیااورفقہ اکیڈمی کو عالمی ادارہ بنانے میں بنیادکے پتھرکی طرح کام کیا۔اکیڈمی کی تاریخ ان کے ذکرجمیل کے بغیرادھوری رہے گی ۔
مولانابدرالحسن صاحب نے امین صاحب کو”کئی دماغوںکا ایک انسان “کے معنی خیزنام سے یادکیاہے۔ان کا مضمون سوشل میڈیاپر گردش کررہاہے ۔اس میں وہ لکھتے ہیں:”امین عثمانی اورفقہ اکیڈمی دونوں ایک دوسرے کے لیے ایسے لازم وملزوم ہوگئے تھے کہ ایک کا تصوردوسرے کے بغیرذہن میں آتاہی نہیں ہے۔ فقہ اکیڈمی ہی ان کی زندگی تھی، وہی ان کے لیے زندگی کا سرمایہ تھی اور اسے انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا ، اسی کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ ہرپروگرام کے لیے ان کے ذہن میں دسیوں تجاویز ہواکرتی تھیں۔ ان کو سیمیناروں، فقہی وفکری کانفرنسوں اور مختلف علمی موضوعات پر اجتماعی پروگرام منعقدکرنے کا خاص ملکہ تھا۔بہت جلد وہ اس کا خاکہ بناتے، اسباب وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے، مناسب شخصیات کا دنیاکے مختلف ملکوں سے انتخاب کرتے اور پوری توجہ سے اس کی تنفیذمیں لگ جاتے تھے۔انتظام کے بعدپھروہ خودعمومااسٹیج سے روپوش ہو جاتے تھے،اسٹیج پر آنے سے ان کوکوئی دل چسپی نہیں تھی لیکن پروگرام کی کامیابی کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دیتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے خاکے اورمنصوبے اتنے زیادہ ہیں کہ ڈاکٹریٹ کا عنوان بن سکتے ہیں۔ ان کے پیش کردہ مشروعات پر عربوں کوبھی حیرت ہوتی تھی جواسباب وسائل کی فراہمی میں معاون ہوتے تھے ۔“
استاذمحترم اورمدرسہ ڈسکورسزکے بانی پروفیسرابراہیم موسی ٰ نے اس بات کا ذکرکئی موقعوں پر کیاکہ مدرسہ ڈسکورسزکے قیام کے لیے ان کوامین عثمانی صاحب نے خوب مہمیزکیااوراس سلسلے میں ان کومتعددخطوط لکھے۔ مرحوم عثمانی کواس پروگرام سے خاصی دلچسپی تھی چنانچہ وہ میری معلومات کی حدتک اس کے تین پروگراموں میں شریک ہوئےاوراس فکری وعلمی پراجیکٹ کے حوصلہ افزا نتائج سے بڑے پرامیدتھے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پروہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تھے تو عالمی سطح پر علماکی عالمی انجمن (صدریوسف القرضاوی )کے رکن بھی تھے۔
ان کا یوں اچانک چلا جانا ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے ایک حادثہ سے کم نہیں ہے۔
آسماں ان کی لحدپر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے