مولانا کے ڈسکورس میں"اصلی خدمت " کو اساس کی حیثیت حاصل ہے، یہ notion آپ کی پوری فکر کو محیط ہونے کے ساتھ آپ کی مجموعی فکر اور تعبیرِ دین کا ایک اہم رخ سامنے لاتا ہے۔ علاوہ ازیں"اصلی خدمت" کا ایک تفصیلی بیان ''خطبات'' میں بھی مذکور ہےجس میں انھوں نے تمام عبادات کو ''اصلی خدمت'' کے لیے تربیت قرار دیا ہے۔ مولانا کی نظر میں تمام عبادات کی علتِ غائی ''اصلی خدمت'' ہے جو اسی کتاب کے آخری حصے میں ''جہاد'' میں سمیٹ دیا گیا ہے۔2 جہاد کی تفصیلی بحث سے انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاد دراصل انسان پر سے انسان کی حکومت ختم کرکے الٰہی حکومت کے قیام کے لیے کی جانے والی کوشش کا نام ہے اور عبادات اسی تیاری کے لئے ایک تربیتی کورس ہے۔مولانا نے عبادت کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ عبادت صرف صوم و صلاۃ کا نام نہیں بلکہ کاروبارِ زندگی کے تمام اطراف و اکناف میں اللہ کی اطاعت کرنے کو عبادت کہتے ہیں۔ اللہ کو معبودِ برحق ماننے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ احساسِ بندگی اور اللہ کی یاد سے خالی نہ ہو۔ بندگی کے اس معراج تک پہنچنے کے لیے زبردست تربیت کی ضرورت ہے اور اسلام عبادات کے ذریعہ اس تربیت کو ممکن بناتا ہے۔ ''عبادت کے غلط مفہوم'' کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"آپ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر قبلہ رو کھڑے ہونا، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکنا، زمین پر ہاتھ ٹیک کر سجدہ کرنا اور چند مقرر الفاظ زبان سے ادا کرنا، بس یہی چند افعال اور حرکات عبادت ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی پہلی تاریخ سے شوال کا چاند نکلنے تک روزانہ صبح سے شام تک بُھوکے پیاسے رہنے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے چند رکوع زبان سے پڑھ دینے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مکہ معظمہ جاکر کعبے کے گرد طواف کرنے کا نام عبادت ہے۔ غرض آپ نے چند افعال کی ظاہری شکلوں کا نام عبادت رکھ کر چھوڑا ہے، اور جب کوئی شخص ان شکلوں کے ساتھ ان افعال کو ادا کردیتا ہے تو آپ خیال کرتے ہیں کہ اس نے خدا کی عبادت کردی اور وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مقصد پورا ہوگیا۔ اب وہ اپنی زندگی میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔"3
آگے ''عبادت ـــــ پوری زندگی میں بندگی'' کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:
"لیکن اصلی حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس عبادت کے لیے آپ کو پیدا کیا ہے اور جس کا آپ کو حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ عبادت یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی ہر وقت ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہوجائیں جو قانون الہی کے خلاف ہو۔"4
"خطبات'' میں تمام عبادات کو اسی نظر سے دیکھا گیا ہے۔نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج کو ''اصلی خدمت'' کے لیے"ٹریننگ" اور ''تربیتی کورس'' قرار دیتے ہیں:
"پچھلے خطبوں میں باربار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز روزہ اور حج اور زکاۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے، اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کردیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے۔ بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔ "5
اس ''بڑے مقصد'' کومزید واضح کرتے ہیں:
"مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹاکر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے، اور نماز، روزہ، حج، زکواۃ سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔"6
مولانا ''خطبات ''میں بھی جہاد کی اخلاقی توجیہ پیش کرتے ہیں، جس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی۔ اس میں انھوں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمام برائیوں کی اصل جڑ حکومت ہے اور اسی سے تمام فساد پھیلتا ہے۔7 اصلاح کا پہلا قدم حکومت کی اصلاح سے رکھا جائے گا اور اصلاح تبھی ممکن ہے جب انسان پر سے انسان کی حکومت ختم کرکے اللہ کی حکومت قائم کی جائے۔ یہ ایک مشکل اور کھٹن راستہ ہے کیوں کہ حکومت حاصل ہونے سے انسان کے اندر لالچ خواہشاتِ نفسانی کے طوفان اٹھتے ہیں۔ اسی خود غرضی اور نفسانیت سے بچنے کے لیے عبادات ایک "تربیتی کورس" ہے۔8 تاہم مولانا کے ہاں ''اصلی خدمت'' اور '' اصلی عبادت'' دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے۔ اس لحاظ سے ''خطبات'' اور ''الجہاد فی الاسلام'' میں قائم کیے گئے مقدمہ (Thesis) میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ وہ بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ دنیا سے منکر ختم کرنے کے لیے تمام غیر الہٰی حکومتوں کو مٹا کر ''حکومت ِ الہٰیہ " قائم کر دی جائے۔ بہ ایں وجہ وہ "مصلحانہ جنگ'' کو ''مدافعانہ جنگ'' کا مصرف قرار دیتے ہیں۔ ''مصلحانہ جنگ'' پر انھوں نے ساری بحث نہی عن المنکر کے تنا ظر میں کی ہے لیکن دونوں مقامات پر مولانا کا اسلوبِ بیان rhetorical رہا ہے۔ جب خطبات پر بعض اعتراضات ہوئے، جن کا حاصل یہ تھا کہ مولانا کے ہاں عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں اور آپ کی عبارتوں سے تکفیر لازم آتی ہے۔ لیکن اس بحث میں مولاناکےحوالےسےایک بہت ہی اہم بات بیشتر نظر انداز کی جاتی ہےکہ دین کے بارے میں ان کا مجموعی زاویۂ نگاہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ اس تاریخی حقیقت کو جان لینا بھی ضروری ہے جس کا سابقہ مسلمانوں کو نو آبادیاتی دور میں پیش آیا۔ اس دور میں دین کو ہر اجتماعی سرگرمی سے نکال دینے کے ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلام کا اجتماعی پیغام کمزور کردیا گیا۔ یہ حملہ اس قدر زور دار اور موثر تھا کہ مسلمان اہل علم کا ایک بہت بڑا اور با اثر طبقہ قوم پرستی کی طرف چلا گیا جو یقیناََ ایک غیر اسلامی طرزِ فکر ہے۔ اس وجہ سے اسلام کا اجتماعی پیغام سامنے لانا آسان نہ تھا، اس لیے مولانا نے اپنی تمام توانائیاں دین کی پوری تصویر سامنے لانے میں صرف کردیں کیوں کہ کسی فکر کو ذہنوں میں دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اسی قسم کی غیر معمولی تاکید ناگزیر ہوتی ہے۔9
چناں چہ مولانا کی فکر کی ندرت دین کے تمام اجزا کو ملا ایک کلی تصویر بنانے میں ہے۔ اس وجہ سے وہ توحید کو نقطۂ آغاز سمجھ کر کائنات کی ہر شے کے اندر اس کے ظہور کو دین کا اصل مطالبہ سمجھتے ہیں۔ اس تعبیر کی رو سے عبادات کی حیثیت فروع کی نہیں بلکہ اس کلی تصویر ہی کا حصہ بنتی ہیں۔ مزید برآں مولانا دین کے کسی جز کو اپنی ذات میں اکیلا تصور نہیں کرتے بلکہ ہر جزو کو کلی تصویر کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ مزید یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ مولانا کی یہی تعبیر قانونی تناظر (Legal Sence)میں نہیں ہے، جس سے یہ نتیجہ نکال لیا جائے کہ مولانا مرتکب گناہ کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں یا عبادات کو مقصود بالذات نہیں مانتے بلکہ یہ تمام باتیں نظری تناظر میں ہیں، جس کا مقصد صرف مسلمانوں پر نہایت تاکید کے ساتھ دین کا مطالبہ واضح کرنا ہے۔ جب مذکورہ دو اعتراضات کیے گئے تو مولانا نے لکھا:
"یہ کتاب فقہ یا علمِ کلام کے موضوع پر نہیں ہے۔ یہ فتوے کی زبان میں نہیں لکھی گئ ہے۔ اس میں مسئلہ زیرِ بحث یہ نہیں ہے کہ دائرۂ اسلام کی آخری سرحدیں کیا ہیں اور کن حالات میں ایک شخص مرتد یا خرج از ملت قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تو نصیحت کی ایک کتاب ہے جس کا مقصد خدا کے بندوں کو فرماں براداری پر اکسانا، نا فرمانی سے روکنا اور اخلاص فی الطاعۃ کی تلقین کرنا ہے۔ کیا مفتی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ میں اس طرح کی ایک کتاب میں مسلمانوں کو یہ یقین دلاتا کہ نماز، روزہ، حج، زکاۃ، سب زوائد ہیں تم ان اس کو چھوڑ کر بھی مسلمان رہ سکتے ہو؟ "10
ان اعتراضات میں ایک معروف اعتراض حج کی بحث میں ایک عبارت سے متعلق تھا۔ مولانا نے اس مزید وضاحت بیان کی ہے ۔زیرِ نظر عبارت پر اعتراض کیا گیا:
" جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کرکر کے سال پر سال یو نہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے۔ دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں۔ کعبہ یورپ کو آتے جاتے ہیں حجاز کے ساحل سے بھی قریب گزرجاتے ہیں، جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے، اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا، وہ قطعا مسلمان نہیں ہیں، جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، اور قرآن سے جاہل ہے جو انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔"11
اس عبارت پر یہ اعتراض ہوا کہ مولانا کا عقیدہ اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہے اور یہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے جو اعمال کو ایما ن کا جزو مقوم نہیں بلکہ جزومتمم مانتے ہیں۔ مولانا نے اس کا تفصیلی جواب دیا ہے:
"خطبات کی جن عبارات پر مولانا]سیدحسین احمد مدنی[ نے مجھے خارجی و معتزلی بنایا ہے، اُن پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ کتاب فقہ علمِ کلام کی کتاب نہیں ہے، نہ فتوے کی زبان میں لکھی گئ ہے، بلکہ یہ ایک وعظ و نصیحت کی کتاب ہے جس سے مقصود بندگانِ خدا کو فرماں برادرای پر اُکسانا اور نافرمانی سے روکنا ہے۔ اس میں بحث یہ نہیں ہے کہ اسلام کے آخری حدود کیا ہیں جن سے تجاوز کیے بغیر آدمی خارج از ملت قرار نہ پاسکتا ہو، بلکہ اس میں عام مسلمانوں کو دین کا اصل مقصد سمجھانے اور اخلاص فی الطاعت پر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا اس نوعیت کی کتاب میں مجھے عوام سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ خواہ تم نماز، روزہ حج، زکاۃ ادا نہ کرو، پھر بھی تم مسلمان ہی رہوں گے۔"12
مولانا مودودی نے ''الجہاد فی اسلام ''کے مقدمے میں اگر چہ یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جہاد کے متعلق اسلامی شریعت کے احکام قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں دیے گئے احکام بلا کم و کاست پیش کروں گا تاکہ کہ مذکورہ مصادر سے ماخوذ احکام بڑھانے اور گھٹانے سے اسلام کا اصلی منشا تبدیل نہ ہوجائے۔13 لیکن "مصلحانہ جنگ " میں کتب فقہیہ کے چند حوالوں کے علاوہ اس سے خاطر خواہ استفادہ نظر نہیں آتا۔ بالخصوص نہی عن المنکر کی بحث میں بھی یہی اسلوب نظر آتا ہے۔ "خطبات'' کے ضمن میں مذکور ہوا کہ وہاں مولانا خود یہ عذر پیش کررہے ہیں کہ میرا اسلوب بیان خطیبانہ ہے ۔ ''اصلی خدمت " کی بحث سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ''مصلحانہ جنگ'' اسی کی توسیع ہے اور دونوں کا اندازِ بیان خطیبانہ ہے۔ اس کے وہ قانونی نتائج نکالنا درست نہیں ہے جو اس باب میں مولانا سے اختلاف رکھنے والنے اخذ کرتے ہیں۔
مصلحانہ جنگ کا تحقیقی تجزیہ
مولانا نے ''مصلحانہ جنگ'' بنیادی طور پر نہی المنکر کے تصور پر بنا کیا ہے، جس کی انھوں نے ایک انوکھی تشریح بیان کی ہے۔ "اصلی خدمت'' کےلیے سورۃ آل عمران کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّۃ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ (سورۃ آل عمران، آیت 110)
’’ تم ایک بہترین امت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ’’
أخرجت سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ کے دین کا پیغام آفاقی ہے، یہ کسی خاص خطے یا قومیت تک محدود نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔"خیر امت'' کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کو نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے ۔ علاوہ ازیں جبلی خواہشات کی رو سے انسان اور حیوان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حیوان کی زندگی کا منتہائے کمال ان خواہشات کی تکمیل ہے اگر انسان کی زندگی کا مقصد بھی یہی بن جائے تو دونوں میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے والی چیز مقصدِ حیات ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصد ایک ''بلند نصب العین'' کا حصول ہے، نہ کہ بالذات ان خوہشات کا حصول ۔ یہ خواہشات اس بلند مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک لازمی وسیلہ ہے۔ بقائے حیات کے لیے کمانا نہایت ضروری ہے نہ کمائے تو فاقے سے مر جائے گا۔اسی طرح انسان دشمن سے حفاظت پر مجبور ہے اگر حفاظت نہ کرے تو مارا جائے گا۔ اسی طرح دفاع اپنی ذات میں مقصد نہیں ہے بلکہ بلند نصب العین حاصل کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسی کو انسانیت کا بلند اخلاقی معیار مانا گیا ہے کہ انسان اپنے خالق کی طرف سے عائد کے گئے فرائض کی بجا آور کرے۔ جس طرح انسان اپنے لیے ان فرائض کی تکمیل ایک اہم اور ضروری امرسمجھتا ہے، اسی طرح اس پر دوسروں کے بھی حقوق ہیں۔ جب افراد کے لیے انسانیت کا اعلیٰ معیار یہی ہے تو اجتماعیت کے لیے بھی یہ معیار کیوں نہ ہو۔ جب فرد کی زندگی کا مقصد تن پروری اور خواہشات کے حصول کے سوا کچھ نہ ہو تو اس کا حیوان کے ساتھ فرق مٹ جاتا ہے۔ اسی طرح ایسی انسانی جماعت حیوانوں سے کم نہیں جس کی زندگی اپنی اصلاح و فلاح اور ترقی و بہبود سے عبارت ہو۔ یہ امت وسط ہےجسے خالقِ کائنات نے ایک بڑے فریضے اور عالم گیر خدمت کے لیے مبعوث کیا ہے۔ اگر کسی فرد کو شیطانی قوتیں مادی اور روحانی طور پر تباہ کررہی ہوں تو انسانیت کے مذکورہ معیار کےمطابق "خیر امت'' کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے تاکہ اپنے رب کی صحیح بندگی کر سکے۔ بعینہ یہی معیار اقوام کے لیے بھی ہے۔ اگر قوموں کی اخلاقی، مادی اور روحانی زندگی بردباد ہورہی ہو تو خالق کی طرف سے عائد کے گئے فرائض کی ادائیگی کے لیے ان کی حفاظت اہم فریضہ ہے۔
اس مقدمہ کو بڑھاتے ہوئے ایک اور آیت سے استدلال کرتے ہیں:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاھُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّكَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنكَرِ (سورۃ الحج، آیت 41)
[یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکواۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔]
یہاں الناس کے بجائے الارض کا لفظ استعمال کیا اور مسلمانوں کو طاقت وقوت کا فائدہ یہ بتایا کہ وہ زمین میں خدا کی بندگی کو فروغ دیں گے، نیکی کا پرچار کریں گے اور بدی کو مٹائیں گے۔ اس سےبھی یہی بتانا مقصود ہے کہ مسلمانوں کا کام صرف عرب یا صرف عجم یا صرف ایشیا یا صرف مشرق کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے۔ انہیں زمین کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ میں پہنچنا چاہیے، معمورہ ارضی کے ہر دشت و جبل اور بحر و بر میں نیکی کا جھنڈا لیے ہوئے بدی کے لشکروں کا تعاقب کرنا چاہیے، اور اگر دنیا کا کوئی ایک کونہ بھی ایسا باقی رہ گیا ہو جہاں منکر (یعنی برائی) موجود ہو تو وہاں پہنچ کر اس کو مٹانا اور معروف (نیکی) کو اس کی جگہ قائم کرنا چاہیے۔ اللہ کا کسی خاص ملک یا خاص نسل سے رشتہ نہیں ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوق کا یکساں خالق ہے سب سے یکساں خالقیت کا تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے وہ کسی خاص ملک میں فتنہ و فساد پھیلنے کو برا نہیں سمجھتا بلکہ زمین میں خواہ کسی جگہ بھی فساد ہو اس کے لیے یکساں ناراضی کا موجب ہوتا ہے، چناچہ قرآن مجید میں فساد فی العرب یا فتنہ فی العجم کہیں نہیں آیا بلکہ ہر جگہ ارض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لفسدت الارض ، یسعون فی الارض فسادا، تکن فی الارض پس وہ اپنے لشکر حق یعنی امت مسلمہ کی خدمت کو قومیت و نسل کی حدود میں مقید نہیں کرتا بلکہ اس رحمت کو تمام روئے زمین کے بسنے والوں کے لیے عام ہے کرتا ہے۔"14
ان تصریحات سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ امت مسلمہ یہ فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے ادا کرے گا۔ "خیر امت'' کے لقب سے نوازنے کا یہی مطلب ہے کہ یہ صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری انسانیت کی خدمت اس کی ذمہ داری ہے۔ انسانیت کے ساتھ اس سے بڑی کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی آدمی ایک برائی اپنے لیے پسند نہیں کرتا تو اسلام اسی کا متقاضی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے پسند نہ کرے۔ انسانیت سے ہمدردی کا لازمی نتیجہ ہے کہ امت دوسروں کو بدی سے بچانے کو اصل مقصد بنا دے۔یہاں بھی مولانا کا سارا زور ''نظام تمدن'' کو بدی سے پاک کرنے پر ہے ۔ اس بحث کو سمیٹے ہوئے لکھتے ہیں:
" پس امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی حقیقت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ فی نفسہ ایک اچھی چیز ہے اور وہ ہمدردی بنی نوع کا ایک پاکیزہ جذبہ ہے، بلکہ در حقیقت وہ نظامِ تمدن کو فساد سے محفوظ رکھنے کی ایک بہترین اور ناگزیر تدبیر ہے اور ایک خدمت ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے، دنیا کو شریف انسانوں کی بستی کے قبال بنانے اور دنیا والوں کو حیوانیت کے درجہ سے انسانیت کاملہ کے درجہ تک پہنچانے کے لیے اللہ نے ایک بین الاقوامی گروہ کے سپرد کی ہے، اور یقینا انسانیت کی اس بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہوسکتی۔"15
نہی عن المنکر کا طریقہ
مولانا کی تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل فریضہ اجتماعی فتنہ و فساد کو روکنا ہے۔ اور غیر مسلم دنیا اس میں مبتلا ہے، اب غیر مسلم دنیا کو معروف کی تلقین کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ بتایا لیکن منکر سے روکنے کی کوئی قید نہیں رکھی۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
"اسلام نے غیر مسلم دنیا کو معروف کی تلقین کرنے کے لیے تو صرف دعوت و تبلیغ کا طریقہ بتایا ہے، لیکن منکر سے روکنے کے لیے اس کی قید نہیں رکھی بلکہ اس کی مختلف انواع کے لیے مختلف طریقے تجویز کیے ہیں۔ قلب و ذہن کی گندگی اور خیال و رائے کو ناپاکی کو دور کرنے کی ہداہت کی"16
مولانا نے برائی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: اولاََ ذہن و قلب کی گندگی، ثانیا فعل اور عمل کی برائی۔ مقدم الذکر کو دور کرنے کا طریقہ وعظ و تلقین ہے اور ثانی الذکر بہ زورِ طاقت و قوت مٹا دی جائے گی ۔ لکھتے ہیں:
"فعل و عمل کی برائی کو طاقت و قوت کے زور سے روکنے کا حکم دیا۔ چانچہ اوپر وہ حدیث گزرچکی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ولتَأْخُذُنَّ عَلَی يَدِ الظَّالِمِ، ولَتَأْطرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا ''َ۔ تم پر لازم ہے کہ بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اس کو حق کی طرف موڑ دو۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن میں منکر کو روکنے کے لیے قوت کے استعمال کا حکم ہے۔"17
مولانا نے اگر چہ استطاعت پر بحث کی ہے لیکن کیا مسلمان غیر مسلم دنیا ــــ جو قانونی اعتبار سے مسلمانوں کی عمل داری سے باہر ہے ــــ میں ہونے والی گناہوں کو روکنے کے مکلف ہیں؟ تاہم نہی عن المنکر کی حد تک تو بات درست ہے لیکن کیا اس سے غیر مسلموں حکومتوں کو ختم کرنے کا جواز فراہم ہوسکتا ہے؟ آئندہ سطور میں اس کی توضیح کی جائے گی کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔
فتنہ و فساد کے خلاف جنگ
مولانا کے نزدیک فعل و عمل کی برائی کو اللہ نے فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔ نیز فعل و عمل کی برائی کی ہر قسم کو فتنہ و فساد کے تحت لاتے ہیں اور اس کا تلوار ہی حل پیش کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
"ان تمام آیات میں اسی منکر کو فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ تمام منکرات میں یہ فتنہ و فساد ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا استیصال بغیر تلواز کے نہیں ہوسکتا۔"18
فتنہ کی تحقیق
مولانا فتنہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ فتنہ کا اصل معنی آزمائش اور امتحان کے ہیں۔ اگر یہ اللہ کی جانب سے ہو تو برحق ہے کیوں کہ اللہ انسان کا خالق ہے اور وہ اپنے بندوں کا امتحان لینے کا پورا حق رکھتا ہے۔ لیکن اگر یہی آزمائش انسان کی طرف سے ہو تو ظلم اور زیادتی ہے کیوں کہ کسی انسان کےلئے دوسرے انسان کو آزمائش میں ڈالنا قطعاََ ناجائز ہے۔ کسی دوسرے انسان کو آزمائش میں ڈالنا دراصل اس کی آزادی سلب کرکے اپنی بندگی پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ 19 بعد ازیں فتنہ کےسات اقسام ذکر کی ہیں، ان تمام قسموں کے تحت قرآن کی وہ آیتیں نقل کرتے ہیں جن میں فتنہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے قبل مولانا یہ واضح کرچکے ہیں کہ فعل اور عمل کی برائی کو قرآن نے فتنہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔
فتنہ کی مذکورہ تشریح کے مطابق ان تمام آیات کا فعل اور عمل کی برائی کے ساتھ کوئی تعلق نظر نہیں آتا بہ جز جبر و استبداد کے، اور نہ فتنہ کی مذکورہ بالا تعریف کے ساتھ وہ اعمال لگا کھاتے ہیں جو فتنہ اور فساد دونوں کے تحت مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی شریعت کی روشنی غیر مسلموں کا آپس میں دارالاسلام کے اندر بھی شراب پینے اور خنزیر کا گوشت کھانے اور ان کی خرید و فروخت کی اجازت ہے۔ بعض ذمی محرمات کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے ہیں، جو نہایت قبیح عمل ہے لیکن دارالاسلام کے اندر میں مسلمانوں کا حاکم ان کو اس عمل سے نہیں روک سکتا۔ اس قسم کی دیگر عملی برائیاں بھی ہیں جن کو اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد نہیں روکا جاسکتا ۔ فتنہ اور فساد کے تحت انھوں نے جتنی قسمیں ذکر کی ہیں، اگر ان کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے تو سب اسی قبیل کی برائیاں ہیں جس کا منبع اس تعبیر کی رو سے حکومت ہے۔ "مصلحانہ جنگ'' کی عمارت اٹھاتے ہوئے مولانا یہ ثابت کررہے تھے کہ اس کا مقصد انسانوں کو اخلاقی اور روحانی تباہیوں سے بچانا ہے۔ اگر حکومت کو مٹا کر بھی ایسی برائیاں جاری رکھی جا سکتی ہیں تو "مصلحانہ جنگ'' کا کیا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ تاہم مولانا نے فتنہ و فساد کو مٹانے کے لیے صرف جہاد اور قتال حل تجویز کیا ہے، اس حوالے سے جو پہلی آیت (سورۃ البقرہ، آیت 90) نقل کی گئی ہے ، اس کا تعلق اس جبر و اسبتداد سے ہے جو مکہ میں مسلمانوں پر مسلط تھا، مولانا نے اس کا ذکر اسی سیاق میں کیا ہے20 اور ''تفہیم القرآن'' میں بھی اس آیات کا یہی تناظر بیان کرتے ہیں۔
اب اگر ان تمام آیات کے سیاق پر غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اصل بحث مکہ کے حالات سے ہورہی ہے، اور فتنہ صد عن سبیل اللہ کے مفہوم میں مستعمل ہے۔ فتنہ کی ان قسموں پر ایک سرسری نگاہ ڈالییے:
- کمزوروں پر ظلم کرنا، ان کے جائز حقوق سلب کرنا، ان کے گھر بار چھین لینا اور انھیں تکلیفیں پہچانا؛21
- جبر و استبداد کے ساتھ حق کو دبانا اور قبول حق سے لوگوں کو روکنا؛ صد عن سبیل اللہ؛
- لوگوں کو گمراہ کرنا اور حق کے خلاف خدع و فریب اور طمع واکراہ کی کوششیں کرنا؛
- غیر حق کے لیے جنگ کرنا اور ناجائز اغراض کے لیے قتل و خون اور جھتہ بندی کرنا؛
- پیروانِ حق پر باطل پرستوں کا غلبہ اور چیرہ دستی22
یقیناََ یہ تمام اقسام فتنہ کی اقسام ہے ۔ لیکن فتنہ کی وہ تعریف محلِ نظر ہے جو مولانا نے کی ہے، جس کی رو سے تمام عملی برائیاں فتنہ ہے۔ اس کے برعکس ان اقسام سے فتنہ کی یہ تعریف متعین ہوتی ہے کہ کسی کو حق سے منع کرنا اوران پر ظلم وجبر مسلط کرنا فتنہ کہلاتا ہے۔ مولانا کے پیش کردہ مفہوم کو ہر عملی گمراہی تک پھیلانے کے وہ نتائج نہیں نکلتے جو ان کے پیشِ نظر ہیں۔ کیوں کہ رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں پر جاری ظلم کے متعلق قرآن میں 'فتنہ 'پر پہلی آیت سورۃ بقرہ میں بہ طور علت القتال نازل ہوئی ہے۔ قتال کے لیے وجۂ جواز فتنہ کی تعریف اسی آیت سے اخذ کی جائے گی ۔ ظاہر اس آیت میں فتنہ کے معنی مذہبی جبر کے ہیں۔ تاہم حکمِ جہاد کا نزول تدریجاََ ہوا ، جس مرحلے پر اللہ نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا، وہ اسی آیت میں تھا ۔ اس تدریجی عمل کو امام سرخسی نے یوں بیان کیا ہے:
"وقد كان رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم مأمورا في الابتداء بالصفح والاعراض عن المشركين قا ل اللہ تعالی فاصفح اصفح الجميل وقال تعالی وأعرض عن المشركين ثم أمر بالدعاء إلی الدين بالوعظ والمجادلۃ بالاحسن فقال تعالی ادع إلی سبيل ربك بالحكمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتئ ھي أحسن ثم أمر بالقتال إذا كانت البدايۃ منھم فقال تعالی اذن للذين يقاتلون بانھم ظلموا أي اذن لھم في الدفع وقال تعالی فان قاتلوكم فاقتلوھم وقال تعالی وان جنحوا للسلم فاجنح لھا ثم أمر بالبدايۃ بالقتال فقال تعالی وقاتلوھم حتی لا تكون فتنۃ وقال تعالی فاقتلوا المشركين حيث وجدتموھم."23
رسول اللہ ﷺ کو آغازِ اسلام میں مشرکین سےاعراض کرنے کا حکم دیا گیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان سے درگز کیجیے۔ مزید فرمایا: اور مشرکین سے اعراض کریں۔ بعد ازاں نصیحت اور سلیقہ مندی سے دعوت دینے کا حکم نازل ہوا، ارشاد ہوا: اے نبیﷺ! اپنے رب کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے عمدہ اور بہترین طریقے سے مباحثہ کرو۔ پھر قتال کا حکم نازل ہوا بشرطیکہ ابتدا کفار کی جانب سے ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے؛ کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔ یہ اجازت ان کو دفاع کے لیے دی گئی۔ مزید فرمایا: اگر دشمن صلح کی طرح مائل ہوں تو تم بھی آمادہ ہوجاؤ۔ اس کے بعد لڑائی میں ابتدا کرنے کا حکم نازل ہوا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ مزید فرمایا: مشرکین کوجہاں پاؤ انھیں قتل کرو۔
فقہا اس آیت کو علت القتال پر قرآنی نص قرار دیتے ہیں۔ اصولین کے ہاں علت کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ وسیع اور مبہم (Equivocal) نہ ہو بلکہ واضح اور متعین (Definite) ہو کیوں کہ مقدم الذکر صورت میں وہ اپنا اصل کھو دیتی ہے۔ فتنہ کا یہ مفہوم تو صحیح ہے کہ اس کے معنی ظلم اور اسبتداد کے ہیں، یہ بات کسی حد تک منطقی ہے کہ بالواسطہ تمام برائیاں فتنہ کی ذیل میں آتی ہیں لیکن قتال کے لیے کسی بھی صورت میں وجۂ جواز نہیں بن سکتیں۔ قتال کے ضمن میں اصل بحث اس کی علت سے کی جاتی ہے اور قتال کے جواز کے لیے فتنہ کی غیر مبہم تعریف ناگزیز ہے بہ خلافِ ہر عملی برائی کو اس میں داخل کرنے کے۔ گزشتہ سطور میں فتنہ کی جو اقسام ذکر کی گئیں وہ تمام فقہا کی قانونی تعبیر ، صد عن سبیل اللہ، سے مطابقت رکھتی ہیں ، یہاں تک تو مولانا کی تشریح سے اتفاق ممکن ہے لیکن قتال کے جواز کے لیے ہر عملی برائی پر فتنہ کا اطلاق کرنا علی الاطلاق غلط ہے۔ بہرحال اقسامِ فتنہ کے تحت جو آیتیں مولانا نے نقل کی ہیں ،ا پنے وسیع مفہوم میں صد عن سبیل اللہ سے متعلق ہیں۔ مزید برآں ان تمام آیات کا تعلق ماقبلِ ہجرت زمانے کے مذہبی جبر کے ساتھ ہیں۔24 اس کی مجموعی تشریح سے واضح ہوتا ہے کہ فتنہ سے مراد وہ محاربہ تھا جو اہلِ مکہ کی جانب سے مسلمانوں پر ہو رہا تھا۔ قرآن میں اسی محاربے کو علت القتال قرار دیا گیا ہے۔ اگر تفہیم القرآن میں ان آیات کی تفسیر پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو اس میں بھی فتنہ اسی مفہوم میں مذکور ہے۔25
اس سے یہ تنقیح تو ہوگئی کہ مولانا کے ہاں بھی فتنہ مذہبی جبر کو کہتے ہیں۔ ''فتنہ کی تحقیق'' کے تحت انھوں نے اس کا یہ خلاصہ بیان کیا ہے کہ فتنہ' ظلم اور جبر کو کہتے ہیں جو persecution کا ہم معنی ہے لیکن آگے تمام ''عملی برائیوں'' کو بھی اس میں داخل کرتے ہیں۔ اگر ان تعریفوں میں سے کسی کو بھی اصل مان لیا جائے تو دونوں کا تصادم ہر صورت میں ضروری ٹھہرتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک تعبیر کو لیا جائے گا۔ اگر فتنہ مذہبی جبر ہے تو افعال کی برائیوں تک اس کی توسیع نہیں جاسکتی۔ قتال کی بحث میں فتنہ ایک خاص اصطلاح (Specific Term) ہے اور ہر عملی برائی پر اس کا اطلاق کرکے قتال کے لیے جواز ثابت کرنا درست نہیں ہے۔
حواشی
1. الجہاد فی الاسلام، ص 85
2. تصور عبادت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی عبادات پر ایک نظر (لاہور:ا سلامک پبلی کیشنز، 2002ء)
3. سید ابوالاعلیٰ مودودی، خطبات (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، اگست، 1996ء) ص 135ـ36
4. ایضاََ، ص 136
5. ایضاََ، ص 307۔ مولانا تصورِ عبادت میں مذکورہ "تربیتی کورس" پر بہت زور یتے ہیں لیکن ''مصلحانہ جنگ'' کی تشریح کرتے ہوئے بعض بہت ہی کمزور دلائل کا سہارا لیا ہے۔ جس طرح یہاں بھی وہ انفرادی اصلاح کے لیے عبادات کو ''تربیتی کورس'' قرار دیتے ہیں لیکن "الجہاد فی الاسلام" میں اپنے تھیسس کو قوی بنانے کے لیے اس کی برعکس تعبیر پیش کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: " ]امر بالمعروف اور نہی عن المنکر[ میں خود نیک بننا اور بدی سے پرہیز کرنا مقدم رکھا گیا ہے اور نیک بنانا اور بدی سے روکنا موخر، جیسا کہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے پہلے اقاموا الصلوٰۃ و اٰتوا الزکوٰۃ کا ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ نیک بنانے سے پہلے نیک بننا ضروری ہے۔ لیکن جس طرح اپنا پیٹ بھرنے سے دوسرے کا پیٹ بھرنا زیادہ افضل ہے اسی طرح فضیلت کے اعتبار سے نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کا درجہ بھی نیک بننے اور بدی کو ترک کرنے سے زیادہ افضل ہے "۔ ( الجہاد فی الاسلام، ص 93)۔ مولانا نے ''تفہیم القرآن'' میں اسی رائے پر نقد کی ہے۔ دیکھیے: تفہیم القرآن، ج 5، ص 454۔ انفرادی اصلاح پر انھوں نے اپنی فکر سے وابستہ لوگوں کے لیے باقاعدہ لٹریچر بھی تیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے: ہدایات (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، 2001ء)؛ تحریکِ اسلامی کامیابی کے شرائط(لاہور: ادارہ مطبوعاتِ طلبہ، 2001ء) ؛ تصوف اور تعمیرِ سیرت: مولانا مودودی کی تحریروں کی روشنی میں، مرتب: عاصم نعمانی (لاہور: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، 1985ء)؛ تحریک اور کارکن، مرتب: خلیل احمد حامدی (لاہور: ادارہ معارفِ اسلامی، 2016ء(۔ تاہم یہاں صرف اس امر کی وضاحت مقصود ہے جس کی جانب پہلے اشارہ ہوچکا ہےکہ مولانا نے جہاد کی اخلاقی توجیہہ میں بعض کمزور دلائل کا سہارا لیا ہے۔
6. ایضاََ۔ عبادت کے تصور پر مولانا یہی بحث اپنی دوسری کتاب ''دینیات '' میں بھی کی ہے۔ جس تربیت سے "خطبات'' میں عبادات کا ذکر ہوچکا، وہی ''دینیات'' میں بھی مذکور ہے۔ البتہ ثانی الذکر کتاب میں عبادات کی غایت ''حمایت اسلام'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: سید ابو الاعلیٰ مودودی، دینیات (لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، 2009ء)، ص 120-137
7. دیکھیے: خطبات، ص 308-10؛ سید ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست ( لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، 2013ء)، ص 92-93
8. خطبات، ص 307-18؛ تحریک اور کارکن، ص112-13ش
9. مولانا مودودی کی فکر کا یہ پہلو سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات جیسا ہے۔جس وقت بنی اسرائیل کا اجتماع اخلاقی نظام بگاڑ میں حد سے تجاوز کرگیا اور ان کی زندگیوں سے دین کی اصل روح نکل گئ تو سیدنا مسیح علیہ السلام ان کو راہ راست پر لانے کے لیے ایسی باتیں ارشاد فرمائیں، جو بہ ظاہر شریعت موسوی کے خلاف لگتی ہیں۔ اس موضوع پر مسلسل بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے شریعت موسوی کو منسوخ کیا ہے کہ نہیں۔ تاہم مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا بنیادی مقصد یہود کو راہ راست پر لانے کے لیے تھیں جن میں ایک غیر معمولی تاکید موجود تھی۔ یہاں اس بحث کو موضوع بنانے سے بات دور چلی جائے گی لیکن اتنا واضح کرنا مقصود ہے کہ مولانا مودودی اس وقت خاص حالات میں دین کا اجتماعی پیغام سامنے لارہے تھے اگر اس وجہ سے مولانا کے ڈسکورس میں دوسرے پہلوؤں کمزور پڑ گئے یا بہ ظاہر کمزور لگتے ہیں تو اب اس کو متواز ن بنانا از حد ضروری ہے ، جیسا کہ خود مولانا کی فکر ہی میں سے جناب خرم مراد اس دوسرے پہلو ، تہذیب نفس، پر بہت زیادہ زور دیتے رہے ہیں، انھیں اس کا ادراک بھی تھا کہ بعض چیزیں غیر متوازن ہیں۔
10. خطبات، ص 26
11. خطبات۔ 281
12. رسائل ومسائل، ج 2، ص 534
13. الجہاد فی اسلام، 14
14. الجہاد فی اسلام، ص 88ـ87
15. ایضاََ، ص99
16. ایضاََ، 102
17. ایضاََ، 103
18. ایضاََ، 105
19. الجہاد فی الاسلام، ص 106
20. الجہاد فی الاسلام، ص 55-56
21. اس کی ذیل میں مولانا مودودی نے دو آیتیں نقل کی ہیں، سورۃ نحل، آیت 110 اور سورۃ بقرہ، آیت 217، مولانا نے تفہیم القرآن میں دونوں کا سیاق واضح کیا ہے۔مقدم الذکر میں اشارہ مہاجرینِ حبشہ کی طرف ہے (تفہیم القرآن، 2، ص 576) ثانی الذکر بھی ان مظالم کے متعلق ہے جو مکہ میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے تھے۔ (تفہیم القرآن، ج 1، ص 165(۔ سورۃ بقرہ، آیت 217 میں قریش کے مظالم کا ذکر ہے۔ سورۃ یونس ،آیت 83 بھی فرعون جبر و اسبتداد سے متعلق ہے۔( تفہیم القرآن، ج 2، ص 301)۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت کا تعلق بھی قریش مکہ کے دس سالہ مظالم سے ہے۔ (تفہیم القرآن، ج2، ص 632-633)۔ باقی آیتیں بھی کم و بیش اسی سیاق میں بیان ہوئے ہیں۔
22. الجہاد فی الاسلام، ص 106-108
23. ابوبکر محمد بن احمد ابی سہل السرخسی، کتاب المبسوط ( بیروت: دار المعرفة للطباعة والنشر، ١٩٧٨ء)، ج ١٠، ص 2
24. سورۃ بقرہ، آیت 251 کا تناظر بھی یہی ہے کہ عمالقہ بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کرتے تھے۔ تفہم القرآن، ج 2 ص 191-19
25. تفہیم القرآن، ج 1، ص 149-151۔ سورۃ انفال آیت: 73 کا تعلق بھی انھی حالات کے ساتھ ہے۔ تفہیم القرآن، ج2، ص 163-64