اب ہم ذیل میں چند وہ مثالیں ذکر کریں گے جن سے واضح ہوگاکہ امام صاحب نے نہ صرف ابراہیم نخعی کے قول کو ترک کیاہے بلکہ فقہاء کوفہ کو چھوڑ کر اس معاملہ مکی اورمدنی فقہ سے اورفقہاء سےا ستفادہ کیاہے۔
مُحَمَّد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَۃ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاہيمَ أَنَّہ قَالَ فِي الرَّجُلِ يَجْلِسُ خَلْفَ الْإِمَامِ قَدْرَ التَّشَہُّدِ ثُمَّ يَنْصَرِفُ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ الْإِمَامُ، قَالَ: «لَايُجْزِئُہ» وَقَالَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: «إِذَا جَلَسَقَدْرَ التَّشَہّدِ أَجْزَأَہ» قَالَ أَبُو حَنِيفَۃ: قَوْلِي قَوْلُ عَطَاءٍ قَالَ مُحَمَّد: وَبِقَوْلِ عَطَاءٍ نَأْخُذُ نَحْنُ أَيْضًا (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:1/475)
جوشخص امام کے پیچھے تشہد کے بقدر بیٹھے(قعدہ اخیرہ میں)اور پھر امام کے سلام پھیرنے سے قبل چلاجائے ،ایسے شخص کے بارے میں ابراہیم کی رائے یہ ہے کہ اس کی نماز نہیں ہوئی اور عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ جب وہ امام کے پیچھے تشہد کے بقدر بیٹھ چکاتواس کی نماز ہوجائے گی ،امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں عطاکاقول میراقول ہے، امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم بھی عطاء کے ہی قول کو اختیار کرتے ہیں۔
مُحَمَّد، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَۃ، عَنْ حَمَّاد، عَنْ إِبْرَاہيمَ، قَالَ: «إِذَا تَخَالَجَكَ أَمْرَانِ، فَظُنَّ أَنَّ أَقْرَبَہمَا إِلَی الْحَقِّ أَوْسَعُہمَا» مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، أَنَّہ قَالَ: «يُعِيدُ مَرَّۃ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِہ نَأْخُذُ، وَہوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہ عَنْہ (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:463)
جب کسی کو نماز میں شک ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تواس بارے میں عطابن ابی رباح کا قول یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ہوتونماز کو لوٹاناچاہئے،امام محمد فرماتے ہیں کہ مجھے یہی قول پسند ہے اوریہی قول امام ابوحنیفہؓ کا بھی ہے۔
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَۃ، عَنْ عَبْدِ اللَّہ بْنِ سَعِيدِ بْنِ [ص:470] أَبِي ہنْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: إِنَّ فُلَانًا عَطَسَ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَشَمَّتَہ فُلَانٌ، قَالَ: «مُرْہ فَلَا يَعُودَنَّ»[ص:471] قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِہذَا نَأْخُذُ. الْخُطْبَۃُ بِمَنْزِلَۃ الصَّلَاۃ لَا يُشَمَّتُ فِيہا الْعَاطِسُ ، وَلَا يُرَدُّ فِيہا السَّلَامُ. وَہوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَۃ رَضِيَ اللَّہ عَنْہ (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:472)
مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَۃ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاہيمَ، قَالَ: «يُرَدُّ السَّلَامُ وَيُشَمَّتُ الْعَاطِسُ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَۃ» قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِہذَا، وَلَكِنَّا نَأْخُذُ بِقَوْلِ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ رَحِمَہ اللَّہ تَعَالَی (کتاب الآثارللامام محمدؒ،ص:469)
جب جمعہ کا خطبہ شروع ہو،ایسے میں اگرکوئی سلام کرے،یاکسی کو چھینک آجائے اس کا جواب دینے کے بارے میں سعید بن المسیب کی رائے یہ ہے کہ نہ سلام کا جواب دیاجائے اورنہ چھینک کا ،جب کہ ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ سلام اورچھینک کا جواب دیاجائے،امام محمد فرماتے ہیں ہم ابراہیم نخعی کے قول کو اختیار نہیں کرتے ہیں، ہم اس مسئلہ میں سعید بن المسیب کا قول اختیار کرتے ہیں اوریہی قول امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کابھی ہے۔
کتاب الآثار حضرت شاہ ولی اللہ کے موقف کی دلیل نہیں، بلکہ ان کی بات کی تردید کرتی ہے اوراس بات کو بخوبی واضح کرتی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ نے اپنے قول اورمسلک میں کسی علاقائی حد بندی میں محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے ہرجگہ سے کسب فیض کیاہے، چاہے وہ کوفی فقہ ہو،مکی فقہ ہو یامدنی فقہ ہو اورحضرت شاہ ولی اللہ کا یہ کہناکہ’’ وہ ابراہیم کے اقوال سے باہر نہیں جاتے اوراگرابراہیم کے اقوال سے کہیں باہر نکلتے بھی ہیں تو فقہائے کوفہ کے اقوال سے باہر نہیں جاتے’’اس کی بہترین تردید خود کتاب الآثار کررہی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کایہ کلام کہ امام صاحب فقہ کوفی کے متبع ہیں، اس کی احسن طورپر تردید خود امام شافعی کی کتاب الام میں باب اختلاف علی وعبداللہ بن مسعود سے ہوتی ہے،جس میں امام شافعی نے ان مسائل کی نشاندہی کی ہے، جہاں احناف نے یاامام ابوحنیفہؓ نے حضرت علیؓ اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ رضی اللہ عنہ کے قول سے اختلاف کیاہےاوریہ باب خاصا طویل ہے،تعجب ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ امام شافعی کے ساتھ خصوصی شغف رکھتے ہیں(الانصاف فی بیان سبب الاختلاف،ص:۸۶) اوران کی کتابوں میں کتاب الام کا حوالہ بھی ملتاہے، ان کی نظر کیسے اس باب میں چوک گئی؟حضرت امام شافعی کا طرز عمل اس باب میں یہ ہے کہ وہ اولاًحضرت علیؓ یاحضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہی رائے نقل کرتے ہیں اورپھر بتاتے ہیں کہ اس مسئلہ پر احناف کا عمل نہیں ہے،امام شافعی نے اس کا اہتمام کیاہے کہ ہراہم فقہی باب میں ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد یہ بتایاجائے کہ اس رائے پر احناف عمل نہیں کرتے ہیں(دیکھئے،کتاب الام للامام الشافعی ۷؍۱۷۲ تا۷؍۲۰۰) صرف نمونہ کے لحاظ سے ایک مثال ذکر کی جاتی ہے:
أَخْبَرَنَا ابْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّ عَلِيًّا سُئِلَ عَنْ الْقُبْلَۃ لِلصَّائِمِ فَقَالَ: مَا يُرِيدُ إلَی خُلُوفِ فَمِہا وَلَيْسُوا يَقُولُونَ بِہذَا يَقُولُونَ: لَا بَأْسَ بِقُبْلَۃ الصَّائِمِ.(کتاب الام ۷؍۱۹۹)
عبیدبن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ سے ایسے روزہ دار کے بارے میں پوچھاگیاجس نے اپنی بیوی کا بوسہ لیاہو، حضرت علی ؓ نے فرمایاکہ شاید وہ اپنے منہ کی بو کوبرقرارنہیں رکھناچاہتا،جب کہ احناف کا قول حضرت علی ؓ کے اس قول کے مطابق نہیں ہے ،وہ کہتے ہیں کہ روزہ دار کے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رواس قلعہ جی عالم عرب کے مشہور محقق ہیں اورانہوں نے اسلاف کی فقہ پر بڑامعتبر اوروقیع کام کیاہے، اورہرشخصیت کے فقہی آراء کا علاحدہ موسوعہ تیار کیاہے،ان کی اس پہلی کی اہل علم نے ستائش کی ہے ،ان کا ایک فقہی موسوعہ حضرت ابراہیم نخعی پر ہے، جس میں انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی کے تمام اجتہادی آراء کو تفصیل کے ساتھ مزین کیاہے۔کتاب کے پہلے باب میں جہاں انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی کی شخصیت اوران کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی ہے، وہیں ایک باب انہوں نے اس عنوان سے بھی قائم کیاہے کہ حضرت ابراہیم نخعی کی شخصیت کا فقہ حنفی پر کیااثر پڑاہے، اس باب میں انہوں نے پہلی بات تویہ کہی ہے کہ وہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تجزیہ سے بالکل متفق ہیں کہ ابراہیم نخعی کے اقوال ہی فقہ حنفی کا مصدر اورسرچشمہ ہیں اورانہی کےا قوال پر امام ابوحنیفہ اورصاحبین تخریج کرتے ہیں، اس دعویٰ کو انہوں نے یہ کہہ کر مؤکد کیاہے :
ولقد اخذت عینۃ مؤلفۃ من مائۃ مسألۃ فرعیۃ من فقہ ابراہیم النخعی، فوجدت أن أباحنیفۃ یوافقہ فی أربع وثمانین مسألۃویخالفہ فی ست عشرۃ مسألۃ ،نعم ان اباحنیفۃ اخذ فقہ ابراہیم النخعی ،ولکن اخذہ کان اخذ العالم المجتھد الواعی ،عن المجتھد الواعی (موسوعۃ فقہ ابراہیم النخعی ۱؍۱۵۰)
میں نے ابراہیم نخعی اورحنیفہ کے فروعی مسائل کا تقابلی جائزہ لیا تو پایا کہ سومسائل میں سے ۸۴مسائل میں دونوں متفق ہیں اور ۱۶مسائل میں دونوں میں اختلاف ہے ،ہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ امام ابوحنیفہ کاابراہیم نخعی کی فقہ کو اختیار کرنا اسی قبیل سے ہے جس قبیل سے ایک مجتہد دوسرے مجتہد کی رائے کو اختیار کرتاہے۔
اولاًتویہ رائے بذات خود قابل تنقید نظرآتی ہے ،کیونکہ محض کتاب الاثار کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ ابراہیم نخعی کے امام ابوحنیفہ کی مخالفت تقریباًپچاس سےز ائد ہے،ایسے میں ان کامحض سولہ کی تعداد بیان کرنا درست نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کے مربی ،علمی سرپرست اورماموں حضرت علقمہ کے فقہی آراء پرعبدالرحمن یوسف اسماعیل ملاوی نے اپنے ایم اے کا مقالہ جامعہ ام القریٰ میں لکھاہے، اس میں انہوں نے حضرت علمقہ کے فقہی آراء اوراحناف کے فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ کیاہے ،اس کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وقد بلغت المسائل التی جمعتھا لعلقمۃ مائۃ وتسع مسائل تأثرالحنفیۃ فیہا فی احدی وثمانین مسألۃ ،وھذادلیل واضح علی تاثر الحنفیۃ بفقہ علقمۃ بن قیس النخعی(فقہ علقمہ بن قیس النخعی فی العبادات واثرہ فی الفقہ الحنفی۳)
اب سومیں سےچوراسی مسائل میں نخعی کی موافقت کی بناء پر نظریہ تخریج درست ٹھہرتاہے تواس کے بالمقابل ۱۰۹میں سے ۸۱مسائل میں موافقت کی بناء پر علقمہ کی تخریج کا نظریہ کیوں نہ تسلیم کیاجائے،بالخصوص جب کہ امام ابوحنیفہ نخعی سے زیادہ علقمہ کی فقاہت کے قائل ہیں، چنانچہ آپ کا ہی مناظر شاہ ولی اللہ نے نقل کیاہے کہ آپ نے فرمایا: اگرشرف صحبت کا پاس نہ ہوتا تومیں کہتاکہ علقمہ ابن عمر سے زیادہ فقیہ ہیں۔
اوراگرمحض موافقت ہی نظریہ تخریج کیلئے کافی ماناجائے تو حضرت عبداللہ بن مسعود اورحضرت عمرؓ کی فقہی آراء میں کافی موافقت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کاقول ملنے پر اپنی فقہی رائے ترک کردیتے تھے اوریہ فرماتے تھے کہ اگر سارے لوگ بھی کسی الگ وادی میں چلیں اور حضرت عمرؓ الگ وادی میں چلیں تو میں عمر کی وادی میں چلناپسند کروں گا یعنی ان کی رائے کی موافقت کروں گا،ان تاثرانہ اقوال اور فقہی آراء میں موافقت کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو حضرت عمرؓ کے قول پر تخریج کرنے والا کیوں نہ ماناجائے۔
نظریہ تخریج کی عدم وضاحت اورالجھن
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اہل الرائے اوراہل الحدیث کے درمیان جوہری فرق’’تخریج ‘‘کو قراردیا،لیکن تخریج کی بحث میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریہ میں کچھ الجھن سی محسوس ہوتی ہے،مثلا ماقبل میں آپ نے ملاحظہ کیاکہ انہوں نے اہل حدیث کے بالمقابل تخریج کواحناف یا اہل الرائے کا شعار وطرزعمل قراردیا اور اسی کو اہل حدیث اوراہل الرائے میں وجہ امتیاز بیان کیا،لیکن ایک جگہ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ تخریج کا عمل محدثین کے بھی یہاں جاری ہے :
وَكَانَ أہل التَّخْرِيج مِنْہم يخرجُون فِيمَا لَا يجدونہ مُصَرحًا، ويجتہدون فِي الْمَذْہب، وَكَانَ ہؤُلَاءِ ينسبون إِلَی مَذْہب أحدہم فَيُقَال: فلَان شَافِعِيّ، وَفُلَان حَنَفِيّ، حجۃ اللہ البالغۃ (1/ 261)
“اور اہل حدیث میں سے تخریج کرنے والے جب کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی صریح قول نہیں پاتے تھے تو وہ تخریج کرتے ہوئے اور یہ لوگ مجتہد فی المذہب کے درجہ پر تھے اوریہ لوگ کسی ایک جانب منسوب نہیں کئے جاتے تھے جیساکہ دوسروں کو حنفی شافعی کہاجاتاتھا”
مزید برآں حضرت شاہ ولی اللہ اسی مبحث میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ تخریج کا عمل ہرایک کے یہاں کثرت سے ہواہے(مراد اہل الرائے اوراہل الحدیث ہیں) - (الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف،ص 61) پھر حضرت شاہ ولی اللہ ہی اسی مبحث میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ تخریج کا عمل دوصدی کے بعد ہوا ہے،یعنی تیسری صدی میں ۔ (الإنصاف،ص68)
سوال یہ ہے کہ اگر تخریج کا ظہور دوسری صدی ہجری کے بعد تیسری صدی ہجری میں ہواہے اور وہ بھی تھوڑا بہت ،توپھر حضرت امام ابوحنیفہ اور صاحبین جن کا انتقال تیسری صدی ہجری سے قبل ہوچکاتھا، ان کو ابراہیم کےا قوال پر تخریج کرنے والابتانا کہاں تک درست ہوسکتاہے؟
حضرت شاہ ولی اللہ کے تخریج کے نظریہ میں اس الجھن کو دکتور عبدالمجید نے بھی محسوس کیا ہے،چنانچہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ کے نظریہ تخریج کے داخلی الجھنوں اورموقف میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اور ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدث دہلوی پہلے تخریج کا ایک زمانہ متعین کرتے ہیں اورپھر اس کو تمام زمانوں پر منطبق کردیتے ہیں یعنی سعید بن المسیب ،ابراہیم اورزہری،امام مالک سفیان اوربعد کے زمانہ وغیرہ کو۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تخریج کے بارے میں انہوں نے جس نظریہ کا اظہار کیاہے ،اس کا ظہور تقلید کے دور میں ہواہے، دوسری صدی ہجری تک وہ چیز تھی ہی نہیں، جیساکہ اس کا اعتراف محدث دہلوی نے بھی خود کیاہےچنانچہ وہ لکھتے ہیں:
جان لو! کہ چوتھی صدی ہجری سے قبل لوگ محض تقلید پر قانع نہیں تھے ابوطالب مکی نے قوت القلوب میں لکھاہے ،کتب اور مجموعات نئی چیزیں ہیں، اسی طرح لوگوں کی باتیں، کسی ایک کے قول پر فتویٰ دینا اور ہرچیز میں اسی کی جانب رجوع کرنا،کسی ایک شخص کے فقہی مذاہب سے آگاہی حاصل کرنا پہلی اوردوسری صدی ہجری میں نہیں تھا ،اورشاہ ولی اللہ خود بھی لکھتے ہیں کہ دوصدیوں کے بعد تخریج کا تھوڑا بہت ظہور ہوا۔
شاہ ولی اللہ باوجود یہ کہ اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ دو صدی کے بعد تخریج کا تھوڑا تھوڑا ظہور ہوا(امام ابوحنیفہ کا انتقال ۱۵۰ہجری میں ہوچکاتھا)محدث دہلوی زبردستی اوربتکلف اپنانظریہ قائم کرتےہیں اور رائ کا اطلاق محض احناف پر کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ کے متعلق ایساتاثر پیش کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت محج ابراہیم نخعی کے مقلد اوران کےا قوال پر تخریج کرنے والے کی ہے ،مزید تعجب یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کو اس کا بھی اعتراف ہے کہ تخریج محض احناف کے یہاں نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب اورمسالک میں بھی تخریج سے کام لیاگیاہے، چنانچہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: “ہرمذہب ومسلک میں تخریج بکثرت ہوئی”اور خود شاہ ولی اللہ اہل الحدیث کااصول بیان کرتے ہوئے لکھ چکے ہیں:”اور اہل حدیث میں سے تخریج کرنے والے جب کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی صریح قول نہیں پاتے تھے تو وہ تخریج کرتے ہوئے اور یہ لوگ مجتہد فی المذہب کے درجہ پر تھے اوریہ لوگ کسی ایک جانب منسوب نہیں کئے جاتے تھے جیساکہ دوسروں کو حنفی شافعی کہاجاتاتھا۔”محدث دہلوی کیلئے مناسب تھاکہ وہ اشارتاًیہ بیان کرتے کہ سنی مذاہب ومسالک کے درمیان کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے، سب کے اصول ایک ہیں اور استنباط واجتہاد کے طریقہ میں بھی کوئی ایسااصولی اختلاف نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی کو گلے لگایاجائے اورکسی کو دھتکاراجائے ،اور ہرایک کے مسلک میں کچھ چیزیں آسان اورکچھ چیزیں مشکل ہیں اورہرایک نے رفتار زمانہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے جس سے عوام الناس کا بھلاہوا.،محدث دہلوی کا امام ابوحنیفہ کو مخرجی میں شمار کرنا اور ان کو اسی وجہ سے اہل الرائے بتلاناایسی بات ہے جودلائل کے برعکس ہے۔”(الاتجاهات الفقهيۃ عند أصحاب الحديث في القرن الثالث الهجري، الناشر: مكتبة الخانجي، مصر.ص88-89)
نظریہ تخریج کے خلاف دلائل
حضرت شاہ صاحب کا دعویٰ ہے کہ امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی اور ان کے دیگرمعاصرین فقہاء کوفہ کے مذہب پر سختی سے چمٹے ہوئے تھے اوراس سے کبھی کبھار تجاوز کرتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی کے اجتہادی اقوال وفتاویٰ کو اپنے لئے حجت تسلیم کرتے تھے اورجب کسی مسئلہ میں ابراہیم کاکوئی قول مل جاتاتھاتواس سے تجاوز نہیں کرتے تھے ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کایہ نظریہ کئی بنیادوں پر کمزور ہے،ہم ترتیب وار اس کو بیان کریں گے۔
۱ :اس نظریہ کے حق میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پاس حضرت امام ابوحنیفہ کا کوئی قول موجود نہیں ہے،امام ابوحنیفہ کے شاگردوں یاان کے شاگردوں کے شاگرد کابھی اس طرح کا کوئی قول موجود نہیں ہے جس سے ان کے نظریہ ٔتخریج کی تائید ہوتی ہو،یہ نظریہ تمام تر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کاذاتی استدلال بلکہ اجتہاد ہے،یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ہی ہیں، جو بعض اصول فقہ احناف پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ یہ ائمہ احناف سے مروی نہیں ہیں، لہذا اس کی صداقت مشتبہ ہے بلکہ متاخرین نے ان کو وضع کیاہے(الانصاف،ص۹۱)لیکن وہ نظریہ جوتمام تر متقدمین ومتاخرین علماء سے ہٹ کرہواورمحض حضرت شاہ ولی اللہ کے ذہن رساکی دین ہو، اس کو کہاں تک معتبر مانااورسمجھاجائے، خود ان کے ہی اس قول کی روشنی میں ،یہ اہل علم کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے؟
امام ابوحنیفہ تابعی کی تقلید نہیں کرتے
۲ :ابراہیم نخعی تابعی تھے اور تابعی میں بھی محدثین نے انہیں کبار تابعین کے درجے میں نہیں بلکہ اوسط درجے کا تابعی قراردیاہے(محدثین میں سے بعض نے ان کو صغار درجہ کا تابعی بتایاہے)،ابراہیم نخعی خواہ اوسط درجے کے تابعی ہوں یاصغار درجے کے،یہ واضح ہے کہ جو مقام ومرتبہ علقمہ ،مسروق،ربیع بن خیثم اوراسود رضی اللہ عنہم کا ہے، وہ ابراہیم نخعی کا نہیں ہوسکتا،حضرت امام ابوحنیفہ کا اپناقول یہ ہے کہ وہ تابعی خواہ وہ کسی درجہ کا ہو،وہ تابعین حضرات کے احترام آراء کے باوجود ان کے قول پراکتفاء نہیں کریں گے،بلکہ ان کی ہی طرح قرآن وحدیث سے اجتہاد کریں گے۔
حَدثنَا يحيی قَالَ حَدثنَا عبيد بن أبي قُرَّۃ قَالَ سَمِعت يحيی بن ضريس يَقُول شہدت سُفْيَان وَأَتَاہ رجل فَقَالَ مَا تنقم علی أبي حنيفَۃ قَالَ وَمَالہ قَالَ سمعتہ يَقُول آخذ بِكِتَاب اللہ فَمَا لم أجد فبسنۃ رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَيْہ وَسلم فَإِن لم أجد فِي كتاب اللہ وَلَا سنۃ آخذ بقول أَصْحَابہ آخذ بقول من شِئْت مِنْہم وأدع قَول من شِئْت ولاأخرج من قَوْلہم إِلَی قَول غَيرہم فَإِذا مَا انْتہی الْأَمر أَو جَاءَ الْأَمر إِلَی إِبْرَاہيم وَالشعْبِيّ وَابْن سِيرِين وَالْحسن وَعَطَاء وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا فقوم اجتہدوا فأجتہد كَمَا اجتہدوا ۔(تاریخ ابن معین روایۃ الدوري 4/63)
ترجمہ:یحیی ضریس کہتے ہیں میں سفیان ثوری کی مجلس میں حاضر تھاکہ ایک شخص آیا(بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ شخص علم اورعبادت میں مشہور تھا)اس نے سفیان ثوری سے کہاکہ آپ ابوحنیفہ پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں ،سفیان ثوری نے کہا،تم یہ بات کیوں پوچھ رہے ہو، اس شخص نے جواب دیاکہ میں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سناہے کہ میں کسی مسئلہ میں سب سے پہلے اللہ کی کتاب سے دلیل اخذ کرتاہوں، اگراس میں نہ ملے تورسول اللہ کی احادیث میں ڈھونڈتاہوں،اگرکتاب وسنت میں نہ ملے تو پھرصحابہ کے اقوال میں سے کسی ایک کو اختیارکرلیتاہوں،ہاں جب معاملہ ابراہیم ،شعبی، ابن سیرین ،حسن عطاء وغیرہ تک پہنچتاہے (یعنی وہ مسئلہ نہ توکتاب وسنت میں ہے اورنہ کسی صحابی نے اس پر لب کشائی کی ہے اورحضرات تابعین نے اس بارے میں اجتہاد کیاہے)اورمزید چندنام گنائے جنہوں نے اجتہاد کیاہے،تومیں بھی ان کی طرح اجتہاد کرتاہوں۔
اس اقتباس سے یہ بھی پوری وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ شاہ ولی اللہ نے ماقبل میں جو یہ دعویٰ کیاہے کہ الزمھم بمذہب ابراہیم ،تو یہ درست نہیں ہے، حضرت امام ابوحنیفہ تو نہایت صراحت اور وضاحت کے ساتھ سعید بن المسیب اورابراہیم نخعی کانام لےکرکہہ رہے ہیں کہ وہ ان حضرات کی آراء اورفتاویٰ کے پابند نہیں ؛بلکہ جیسے انہوں نے قرآن وحدیث اوردیگر دلائل شرعیہ سےا جتہاد کیاہے، ویسے ہی وہ بھی اجتہاد کریں گے۔
ابراہیم نخعی تابعی اوران کے معاصرین تابعی ہیں، اور امام ابوحنیفہ نے متعدد مواقع پر اپنایہ مسلک صاف وصریح لفظوں میں بیان کیاہے کہ وہ تابعین کے اجتہاد وفتاویٰ کے پابند نہیں ہیں۔
أَبُو حَمْزَۃ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَۃ يَقُولُ إِذَا جَاءَنَا الْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّہ صلی اللہ عَلَيْہ وَسلم أَخَذْنَا بِہ وَإِذَا جَاءَنَا عَنِ الصَّحَابَۃ تَخَيَّرْنَا وَإِذَا جَاءَنَا عَنِ التَّابِعِينَ زَاحَمْنَاہمْ (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ للامام ابن عبدالبر ص144)
ابوحمزہ کہتے ہیں ،میں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سناہے جب کسی مسئلہ میں رسول پاک کی حدیث آجائے تو ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور جب صحابہ سے ایک مسئلہ میں متعدد اقوال منقول ہوں توان متعدد اقوال میں سے کسی ایک پر عمل کرتے ہیں اورجب تابعین کے اقوال کی باری آتی ہے توہم ان سے مزاحمت کرتے ہیں(یعنی جس طرح انہوں نے اجتہاد کیاہے ،اسی طرح ہم بھی اجتہاد کرتے ہیں، ہم ان کے اجتہاد کے پابند نہیں ہیں)
أَبُو عِصْمَۃ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَۃ يَقُولُ مَا جَاءَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّہ صلی اللہ عَلَيْہ وَسلم قَبِلْنَاہ عَلَی الرَّأْسِ وَالْعَيْنَيْنِ وَمَا جَاءَنَا عَنْ أَصْحَابِہ رَحِمَہمُ اللَّہ اخْتَرْنَا مِنْہ وَلَمْ نَخْرُجْ عَنْ قَوْلِہمْ وَمَا جَاءَنَا عَنِ التَّابِعِينَ فَہمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ. (الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ للامام ابن عبدالبر ص144)
ابوعصمہ کہتے ہیں کہ جو کچھ رسول پاک سے منقول ہے وہ ہمارے سرآنکھوں پر اور جوکچھ صحابہ کرام سے منقول ہے تواس میں سے کسی ایک قول کو ہم اختیار کریں گے اورایسانہیں ہوگاکہ ہم کسی بھی صحابی کے قول کو اختیار نہ کریں اورجوکچھ تابعین سے منقول ہے تووہ بھی اجتہاد کے میدان کے مرد ہیں اورہم بھی میدان اجتہاد میں داد شجاعت دیتے ہیں۔
یہ معلوم حقیقت ہے کہ صاحب واقعہ کابیان اپنی نسبت سب سے زیادہ معتبر ہوتاہےلہذا حضرت امام صاحب کا یہ قول کہ وہ ابراہیم نخعی ،سعید بن المسیب اوردیگر تابعین کے فتاویٰ اوراجتہاد کوماننے کے پابند نہیں، بلکہ وہ ان کی طرح اجتہاد کرتے ہیں ،انتہائی معتبر اوررمستند ہے اوراس کے بالمقابل حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا فرمان کہ وہ ابراہیم اوران کے ہمعصر فقہائے کوفہ سے چمٹے ہوئے تھے،امام ابوحنیفہ کے بیان کے بالمقابل قابل اعتبار نہیں رہ جاتا۔
اصول فقہ میں تابعی کی تقلید جائز نہیں ہے
۳: حیرت کی بات یہ ہے کہ شاہ صاحب اصول فقہ احناف سے اتنی ہی اچھی طرح واقف ہیں جتناکہ کسی مسلک کا کوئی متبحر عالم اپنے مسلک کے اصولوں سے ہوسکتاہے،اس کے باوجود ان سے اصول فقہ کا یہ متفقہ مسئلہ نظرانداز ہوگیا کہ احناف کے یہاں تابعین کے اقوال کی لازمی حیثیت نہیں ہے، صحابہ کے اقوال اگرکسی مسئلہ میں متفق ہوں تواس متفقہ رائے کی پابندی ضروری ہے، اگرمختلف ہوں توکسی ایک قول کو ترجیح دے کر اپنایاجائے ،لیکن ایساکرنا کہ کسی بھی صحابی کے قول کو اختیار نہ کیاجائے، یہ جائز نہیں، جہاں تک تابعین کی بات ہے تو تابعین کے قول کی پابندی ضروری نہیں ہے، احناف کی اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ وضاحت کے ساتھ مذکور ہے،امام سرخسی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
لَا خلاف أَن قَول التَّابِعِيّ لَا يكون حجَّۃ علی وَجہ يتْرك الْقيَاس بقولہ فقد روينَا عَن أبي حنيفَۃ أَنہ كَانَ يَقُول مَا جَاءَنَا عَن التَّابِعين زاحمناہم (اصول السرخسی2/114)
“اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تابعی کا قول اس طورپر حجت نہیں ہےکہ اس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیاجائے، کیونکہ امام ابوحنیفہ سے منقول ہے ،جوکچھ تابعین سے منقول ہے ،ہم اس میں ان کی مزاحمت کریں گے۔ “
جب کہ علامہ علاء الدین بخاری تقلید تابعی کے مسئلہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ذَكَرَ الصَّدْرُ الشَّہيدُ حُسَامُ الدِّينِ - رَحِمَہ اللَّہ - فِي شَرْحِ أَدَبِ الْقَاضِي أَنَّ فِي تَقْلِيدِ التَّابِعِيِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَۃ - رَحِمَہ اللَّہ - رِوَايَتَيْنِ إحْدَاہمَا أَنَّہ قَالَ: لَا أُقَلِّدُہمْ ہمْ رِجَالٌ اجْتَہدُوا وَنَحْنُ رِجَالٌ نَجْتَہدُ وَہوَ الظَّاہرُ مِنْ الْمَذْہبِ وَالثَّانِيَۃُ مَا ذُكِرَ فِي النَّوَادِرِ أَنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَئِمَّۃ التَّابِعِينَ وَأَفْتَی فِي زَمَنِ الصَّحَابَۃ وَزَاحَمَہمْ فِي الْفَتْوَی وَسَوَّغُوا لَہ الِاجْتِہادَ فَأَنَا أُقَلِّدُہ.................... وَجْہ الظَّاہرِ أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِيِّ إنَّمَا جُعِلَ حُجَّۃ لِاحْتِمَالِ السَّمَاعِ وَلِفَضْلِ إصَابَتِہمْ فِي الرَّأْيِ بِبَرَكَۃ صُحْبَۃ النَّبِيِّ - عَلَيْہ السَّلَامُ - وَذَانِكَ مَفْقُودَانِ فِي حَقِّ التَّابِعِيِّ.وَإِنْ بَلَغَ الِاجْتِہادَ وَزَاحَمَہمْ فِي الْفَتْوَی وَلَا حُجَّۃ لَہمْ فِيمَا ذَكَرُوا مِنْ الْأَمْثِلَۃ؛ لِأَنَّ غَايَۃ ذَلِكَ أَنَّہمْ صَارُوا مِثْلَہمْ فِي الْفَتْوَی وَزَاحَمُوہمْ فِيہا وَأَنَّ الصَّحَابَۃ سَلَّمُوا لَہمْ الِاجْتِہادَ وَلَكِنَّ الْمَعَانِيَ الَّتِي بُنِيَ عَلَيْہا وُجُوبُ التَّقْلِيدِ مِنْ احْتِمَالِ السَّمَاعِ وَمُشَاہدَۃ أَحْوَالِ التَّنْزِيلِ وَبَرَكَۃ صُحْبَۃ الرَّسُولِ - عَلَيْہ السَّلَامُ - مَفْقُودَۃٌ فِي حَقِّہمْ أَصْلًا فَلَا يَجُوزُ تَقْلِيدُہمْ بِحَالٍ.
(كشف الأسرار شرح أصول البزدوي،المؤلف: عبد العزيز بن أحمد بن محمد، علاء الدين البخاري الحنفي (المتوفی: 730هـ)الناشر: دار الكتاب الإسلامي 3/226)
“صدرشہیدحسام الدین ؒ نے ادب القاضی کی شرح میں لکھاہے کہ تابعی کی تقلید کے بارے میں امام ابوحنیفہ سے دوروایتیں منقول ہیں پہلی تویہ ہے کہ میں ان کی تقلید نہیں کروں گا ،وہ بھی میدان اجتہاد کے مرد ہیں اور ہم بھی میدان اجتہاد کےمرد ہیں، اور ظاہر مذہب یہی ہے اوردوسری روایت وہ ہے جو نوادر میں منقول ہے وہ ائمہ تابعین جودورصحابہ میں بھی فتویٰ دیاکرتے تھے اورصحابہ کرام کی آراء واجتہاد سے ٹکر لیتے تھے اور صحابہ کرام نے ان کو اجتہاد کی گنجائش دی تھی تومیں ان کی تقلید کروں گا..........ظاہر مذہب کی دلیل یہ ہے کہ صحابی کے قول کو تواس لئے حجت بنایاگیاہے کہ اس میں اس کا احتمال ہے کہ وہ جوکچھ اپنی رائے کے طورپر بیان کررہے ہیں ،ہوسکتاہے کہ انہوں نے اس بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد سناہواوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف صحبت سے ان کی رائے کے درست ہونے کا احتمال زیادہ ہےاوریہ دونوں باتیں تابعین کے حق میں مفقود ہیں اگرچہ وہ تابعی درجہ اجتہاد کو پہونچاہو اور صحابہ کرام کے فتاوی وآراء کی مخالفت ہی کیوں نہ کرتاہو،تابعین کے اقوال کے قابل تقلید ہونے کی سلسلے میں جو دلیلیں بیان کی گئیں وہ کسی بھی طورپرقابل تسلیم نہیں ہیں،کیوں کہ اس باب میں جو دلائل ذکر کئے گئے ہیں، ان کا مفاد بس اسی قدر ہے کہ وہ صاحبان اجتہاد تھے، انہوں نے صحابہ کرام کے اجتہاد وآراء کی مخالفت بھی کی ہےلیکن تقلید صحابی جس بنیاد پر قائم ہے یعنی اس قول کاحدیث رسول ہونے کا احتمال اورشرف صحبت کی برکت سے اجتہاد میں صواب کے پہلو کا راجح ہونا اوروحی کے نزول کا مشاہدہ وغیرہ تویہ سب امور تابعین کے حق میں کلیتاًمعدوم ہیں سوتابعین کی تقلید کسی بھی حال میں جائز نہیں۔”
مشہورحنفی اصولی محمد شمس الدین فناری لکھتے ہیں:
وأما التابعی فيقلد في روايۃ النوادر إن ظہر فتواہ في زمنہم كشريح ومسروق والنخعی والحسن البصري لتسليمہم مزاحمتہ إياہم إياہم فيكون كأحدہم كما خاصم علي رضي اللہ عنہ شريحًا فخالفہ في رد شہادۃ الحسن رضي اللہ عنہ لہ بالبنوۃ لا يقلد في ظاہر الروايۃ إذ ہم رجال ونحن رجال بخلاف صحبہ عليہ السلام لاحتمال السماع والإصابۃ ببركۃ صحبتہ والقرن المشہود لہ بالخيريۃ المطلقۃ وإن لم يظہر فلا. (فصول البدائع في أصول الشرائع، المؤلف: محمد بن حمزۃ بن محمد، شمس الدين الفناري (أو الفَنَري) الرومي (المتوفی: 834هـ)الناشر: دار الكتب العلميۃ، بيروت 2/439)
“نوادر کی روایت یہ ہے کہ ایساتابعی جس کااجتہاد دورصحابہ میں بھی مشہور ہوجیسے کہ شریح،مسروق ،نخعی ،حسن بصری توان کی تقلید کی جائے گی کیونکہ صحابہ کرام نے ان کو اجتہاد کا اہل سمجھااور اس کی اجازت دی کہ وہ ان کی آراء کی مخالفت کرسکیں توگویااس باب میں ایسے تابعی بھی صحابہ کرام کی طرح ہیں،جیساکہ حضرت علی نے شریح کے روبرو مقدمہ پیش کیاتوبیٹے کی شہادت قبول کرنے کے بارے میں شریح نے حضرت علیؓ کی مخالفت کی،اورظاہر روایت یہ ہے کہ تابعین کی تقلید نہیں کی جائے گی کیونکہ جس طرح انہوں نے اجتہاد کیاہے،اسی طرح دوسرے مجتہدین کو بھی اجتہاد کا حق حاصل ہے،برخلاف صحابہ کے ،کیونکہ ان کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ جس قول کو رائے کے طورپر بیان کررہے ہوں،ہوسکتاہے کہ اس بارے میں انہوں نے زبان رسالت سے کچھ سناہو،شرف صحبت سے ان کی رائے کے صواب ہونے کا بھی احتمال زیادہ ہےاوروہ ایسے دور میں تھے جب ہرطرف بھلائی کا دور دورہ تھا اورجس کے مطلقا خیر ہونے کی زبان رسالت نے گواہی دی ہے۔”
مکی، مدنی اوربصرہ فقہاء ومحدثین کرام سے استفادہ
۴: امام صاحب نے یقیناًفقہائے کوفہ سےاستفادہ کیاہے، بالخصوص حماد کے واسطے سے ابراہیم نخعی کے اقوال وآراء سے مستفید ہوئے ہیں اورفقہ کوفی کے بانی حضرت عبداللہ بن مسعود کی فقہ سے استفادہ کیاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امام صاحب نے حضرت ابن عباس،حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ کی فقہ سے بھی استفادہ کیاہے،چنانچہ ایک موقع پر جب عباسی خلیفہ منصور نے حضرت امام صاحب سے ان کے علم کا ماخذ دریافت کیا تو امام صاحب نے فرمایا:
عن حماد، عن إبراہيم، عن عُمَر بن الخطاب، وعلي بن أبي طالب، وعبد اللہ بن مسعود، وعبد اللہ بن عباس، قال: فقال أَبُو جعفر: بخ، بخ، استوثقت ما شئت يا أبا حنيفۃ الطيبين الطاہرين المباركين، صلوات اللہ عليہم۔(تاريخ بغداد،المؤلف: الخطيب البغدادي (المتوفی: 463هـ،15/444)
حماد سے ،ابراہیم سے، عمربن خطاب ؓ سے ،علی بن ابی طالبؓ سے،عبداللہ بن مسعودؓ سے اور عبداللہ بن عباس ؓ سے،یہ سن کر ابوجعفر نے کہا،بس بس 1۔
دخل أَبُو حنيفۃ يوما علی المنصور، وعندہ عيسى بن موسى، فقال للمنصور: ہذا عالم الدنيا اليوم، فقال لہ: يا نعمان عمن أخذت العلم؟ قال: عن أصحاب عُمَر، عن عُمَر، وعن أصحاب علي، عن علي، وعن أصحاب عبد اللہ، عن عبد اللہ، وما كان في وقت ابن عباس على وجہ الأرض أعلم منہ، قال: لقد استوثقت لنفسك۔ (المصدرالسابق)
“ربیع بن یونس کہتے ہیں امام ابوحنیفہ ایک مرتبہ منصور کے پاس گئے، اس وقت منصور کے پاس عیسیٰ بن موسیٰ بھی موجود تھے،توعیسی بن موسیٰ نے منصور سے کہاآج دنیا کے سب سے بڑے عالم یہ ہیں،یہ سن کر منصور نے امام ابوحنیفہ سے دریافت کیاکہ آپ نے کن حضرات سے علم حاصل کیاہے، امام ابوحنیفہ نے جواب دیا،حضرت عمر کے شاگردوں کے ذریعہ حضرت عمرؓ سے،حضرت علیؓ کے شاگردوں کے ذریعہ حضرت علیؓ سے اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے اورحضرت ابن عباس کے عہد میں ان سے بڑاعالم دنیا میں کوئی نہیں تھا۔”
اس کے علاوہ کتاب الآثار امام ابویوسف اورامام محمد کے مطالعہ سے واضح ہوجاتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے صرف کوفہ کے فقہاء اورکوفہ مین وارد صحابہ کرام سے استفادہ نہیں فرمایا بلکہ آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت عبداللہ بن عمر،حضرت عائشہ اور دیگر صحابہ کرام کے فقہی افکار وآراء سے بھی استفادہ کیاہے۔
۵: جس طرح امام صاحب نے عبداللہ بن مسعود کے ساتھ ساتھ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہم کے فقہ واجتہاد سے واقفیت حاصل کی، اسی طرح آپ نے مکہ مدینہ اور دیگر شہروں کے تابعین اوراکابر علماء ومجتہدین سے بھی کسب فیض کیاتھا؛لیکن یہ کہنا کہ مکہ ،مدینہ اوردیگر مقامات کے اکابر فقہاء وتابعین کا ان کی فقہی تفکیر اورتشکیل میں کوئی اثر نہیں ،انتہائی غیرفطری بلکہ غیرمعقول بات ہے،حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب نے بسااوقات اپنے غیرکوفی وغیرعراقی اساتذہ سے اپنے تاثر کابھی بڑے بلیغ لفظوں میں اظہار کیاہے،جس سے پتہ چلتاہے کہ آپ اپنے ان اساتذہ کی فقہ اورفکر سے کتنامتاثر تھے۔
حضرت عطاء سے تاثر کا اظہار
حضرت امام ابوحنیفہ نے حضرت حمادؒسے برسوں تک کس فیض کیا اوران کے آگے زانوئے تلمذتہہ کیا ،شاگردی کی یہ مدت کتنے عرصہ پر محیط تھی، اس بارے میں روایات مختلف ہیں، زیادہ سے زیادہ کی تعداد بیس سال ہے اور کم سے کم کی روایت دس سال ہے لیکن شیخ ابوزہرہ نے اٹھارہ سال کو راجح تسلیم کیا ہے۔(ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ ،آراؤہ وفقہہ، للشیخ ابوزہرہ ص26)اس کی وجہ یہ ہے کہ خود امام ابوحنیفہ کا ایک قول تاریخ بغداد میں ہے،جس میں انہوں نے حضرت حماد بن سلیمان سے اٹھارہ سال کے تلمذ کا اعتراف کیاہے،(تاریخ بغداد 13/334)اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ جتنے متاثر حضرت عطاء سے ہیں، اتنےحضرت حماد سے نہیں ہیں، اگر چہ وہ حماد کا ہرممکن احترام کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق کبھی ان کے مکان کی جانب اپناپاؤں نہیں پھیلایا۔(2)
دعا میں اپنے والدین کے ساتھ حضرت حماد کیلئے دعائے مغفرت کیاکرتے تھے3(تاریخ بغداد 15/444) لیکن ان سب کے باوجود وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے زیادہ افضل کسی شخص سے ملاقات نہیں کی4(الكامل في ضعفاء الرجال،المؤلف: أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ)الناشر: الكتب العلميۃ - بيروت-لبنان)
یہ حضرت عطاءؓ ابن ابی رباح مکی ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد خصوصی ہیں،گویاان کا تعلق مکی فقہ سے ہے، حضرت ابوحنیفہ جب ابن ہبیرہ کے داروگیر سے کوفہ ترک کرکے مکہ میں رہنے لگے تھے(مناقب ابی حنیفہ للمکی1/23/24،بحوالہ ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ ،آراؤہ وفقہہ، للشیخ ابوزہرہ ص33)اسی دوران آپ نے حضرت عطاءؓ سے استفادہ کیا اور کتاب الآثار کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ بعض مقامات پر آپ نے ابراہیم نخعی کے قول کو چھوڑ کر حضرت عطاء کے قول کو اختیار کیاہے( مثالیں آگے آئیں گی)
امام جعفرصادقؒ سے تاثر کا اظہار
امام صاحب نےامام باقر اور امام جعفر صادق سےبھی استفادہ کیاہے5،اوران کے بارے میں بلند کلمات کہے ہیں، جس سے امام صاحب کے ان کی فقاہت سے تاثر کا اندازہ لگایاجاسکتاہے،شیخ ابوزہرہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
وکما کان لابی حنیفۃ اتصال علمی بالباقر ،کان لہ اتصال بابنہ جعفر الصادق، وقد کان فی سن ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہا، فقد ولدا فی سنۃ واحدۃ، ولکنہ مات قبل ابی حنیفۃ،فقد توفی سنۃ ۱۴۸، ای قبل ابی حنیفۃ بنحو سنتین ، وقد قال ابوحنیفۃ فیہ،واللہ مارأیت افقہ من جعفر بن محمد الصادق (ابوحنیفہ حیاتہ وعصرہ،آراؤہ الفقھیۃ‘‘ ص81)
“جیساکہ امام صاحب کا علمی استفادہ کا تعلق امام باقر سے تھا، اسی طرح امام جعفرصادق سے بھی تھا، امام جعفرصادق امام صاحب کے ہم عمر تھے، دونوں کی ولادت کا سال ایک ہی ہے،لیکن امام جعفرصادق کی وفات امام ابوحنیفہ سے دوسال قبل سنہ ۱۴۸ہجری میں ہوگئی تھی، امام ابوحنیفہ نے امام جعفرصادق کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم میں نے جعفر بن محمد الصادق سے بڑافقیہ کسی کو نہیں دیکھا۔ٍ”
یہ اقوال بتاتے ہیں کہ امام صاحب کی فقہی تشکیل اورتعمیر میں صرف کوفہ کے فقہاء نہیں بلکہ مکی اورمدنی فقہ کا بھی خاصااہم کردار رہاہے اوراس کا سب سے معتبر اور مستحکم ثبوت کتاب الآثار سے ہی ملتاہے ، جس میں وہ جابجا مکی اورمدنی فقہاء کی آراء سے استشہاد کرتے نظرآتے ہیں، تفصیل آگے آئے گی۔
امام صاحب کے علمی رحلات
یہ بات بلاشبہ قابل تسلیم ہے کہ امام صاحب نے محدثین کرام کی طرح شہروں کی خاک نہیں چھانی، لیکن اب ایسابھی نہیں ہے کہ رحلات علمیہ سے امام صاحب کی سوانح بالکل ہی خالی ہے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
وعنی بطلب الآثار ،وارتحل فی ذلک (سیراعلام النبلاء/392) امام صاحب نے آثار کی تحصیل پر توجہ مرکوز کی اوراس سلسلے میں اسفار کیے۔ ٓپ کی سیرت وسوانح سے پتہ چلتاہے کہ آپ بکثرت بصرہ جایاکرتے تھے،آپ کوبنوامیہ کے عراقی گورنر کے داروگیر کی وجہ سے مکہ میں چھ سال رہناپڑاتھا،مکہ میں قیام کے دوران دنیا بھر کے اہل علم سےاستفادہ کا موقع تھا،آپ بکثرت حج کرتے تھے، بعض حضرات نے توآپ کے حج کی تعداد ۵۵ بیان کی ہے۔ اگر اس تعداد کو مبالغہ خیال کیا جائے تو بھی اس قدر ماننے میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ اکثر حج فرماتے تھے۔ حج کے سلسلے میں مدینہ جاتے تھے، وہاں کے اہل علم سے استفادہ کا تعلق تھا، ہم عصر اہل علم سے بحث ومباحثہ ہواکرتاتھا۔اسی مدینہ کی زیارت اورامام مالک سے بحث ومباحثہ کانتیجہ اس مشہور تاثر کی صورت میں نمودار ہواہے جب امام مالک سے حضرت لیث بن سعدؓ نے دریافت کیاکہ آپ کیوں پسینہ پسینہ ہورہے ہیں، تو فرمایا:میں ابوحنیفہ کے ساتھ بحث ومباحثہ میں پسینہ پسینہ ہورہاہوں، مصری وہ واقعی فقیہ ہیں (6)۔
حواشی
1. اس روایت میں اصحاب یعنی شاگردوں کا ذکر چھوٹ گیاہے، یعنی حضرت عمر ؓکے شاگردوں کے ذریعہ حضرت عمر ؓسے اورحضرت ابن عباسؓ کے شاگردوں کے ذریعہ ان سے، الخ اس کی صراحت مابعد کی بھی روایت میں ہے اوراس پر شیخ زاہد الکوثری نے بھی تانیب الخطیب کی روایت میں تنبیہ فرمائی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے، تانیب الخطیب ص 29)
2. قال ما مددت رجلي نحو سكۃ حماد قط وكان بينہما مقدار سبع سكك، امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ کبھی میں نے حماد ؓ کی گلی کی جانب پاؤں نہیں پھیلایا، بعض روایات میں گلی کی جگہ گھر کا ذکر ہے۔ (الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ۲؍۴۹۷)
3. أبا حنيفۃ، يقول: ما صليت صلاۃ منذ مات حماد إلا استغفرت لہ مع والدي۔
4. أبا يَحْيی الحماني يَقُولُ: سَمعتُ أبا حنيفۃ يَقُولُ ما رأيت فيمن رأيت أفضل من عطاء۔
5. ابن تیمیہ نے امام جعفر صادق سے استفادہ کی تردید کی ہے لیکن ان کی تردید تاریخی حوالوں کی روشنی میں درست نہیں ہے، امام ابن تیمیہ تو امام شافعی کے امام محمد کے شاگرد ہونے کے بھی منکر ہیں اوراسی طرح اس کے بھی منکر ہیں کہ امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد تھے۔
6. :ترتیب المدارك وتقريب المسالك،المؤلف: قاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى: 544هـ) الناشر: مطبعة فضالة - المحمدية، المغرب،۱؍۱۵۲۔