مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)

مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا کے بقول شیخ نے اپنی کتابوں میں جن کلی امور پرسیر حاصل بحثیں فرمائی ہیں، ان میں علم کا مسئلہ بھی ہے، جس کی تعبیر موجودہ اصطلاح میں تھیوری آف نالج (Theory of Knowledge) کے الفاظ سے کی جاتی ہے، یعنی دین سے بغاوت کا وہ حصہ جو علم کے جھوٹے دعویٰ پر مبنی ہے، شیخ لوگوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ خود اس علم اور دانش کی کیاحقیقت ہے، ہم یہ جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں، اور اپنے اسی جاننے کی بنیاد پر نہ سوچنے والوں کے قلوب میں دین کا جو احتقار پیدا ہوتا ہے، شیخ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ خود یہ جاننا کیا چیز ہے، اور تمہارے اس جاننے کی رسائی کا آخری نقطہ کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آدمی پر جب’’ اپنی دانش‘‘کی اصلی حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ سارا نشہ کرکرا ہو جاتا ہے، جس کے شکار عموماً وہی لوگ ہو جاتے ہیں، جو تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کے بعد ہر چیز کی تنقید اپنے علم کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں، لیکن علم و جہل کے سلسلہ میں آدمی کا جو صحیح مقام ہے، جب وہ اس پر واضح ہو جاتا ہے، تب سمجھ میں آتا ہے کہ:

معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد

اس مسئلہ کو شیخ نے فتوحات مکیہ وفصوص الحکم وغیرہ میں مختلف اسالیب میں ادا کیا ہے، سب کو اگر جمع کیا جائے، تو محض اس ایک مسئلہ کے متعلق ان کے خیالات و نظریات ہزار ڈیڑھ ہزار صفحات کی گنجائش سے کم میں نہ آئیں گے، ’’ خصوصاً شیخ کا ایک خاص طریقہ ہے، وہ اپنے مسودہ پر نظر ثانی نہیں کرتے، اور قلم اٹھا کر لکھتے چلے جاتے ہیں، اس لئے کہیں کہیں اس کا شبہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں تضاد ہے ‘‘، ضرورت ہے کہ تسلسل کے ساتھ ان کے کلام کے مختلف اجزاء کو ایک خاص ترتیب کی شکل میں ترتیب دیا جائے، مولانا اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس تدبیر سے ان کے کلام میں بہ ظاہر جوتضاد محسوس ہوتا ہےعموماً وہ دور ہوجاتا ہے‘‘۔ 1

انہوں نے شیخ کےکلام کی تفہیم کے اور بھی طریقے بتا ئے ہیں، اور پھر فصوص الحکم کی عبارات واقتباسات کی روشنی میں شیخ کے اس نظریہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اور اخیر میں ثابت کیا ہے کہ عام طور پر اہل مغرب نے حواس ہی کو ذریعۂ علم تسلیم کیا ہے، لیکن شیخ نے وضاحت کی ہے کہ ان حواس کے علاوہ بھی وحی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شیخ کا خیال ہے کہ ان صفات کے پیچھے محض حواس اور عقل کے زور سے کسی ذات کا ثابت کرنا قطعاً نا ممکن ہے، وہ مدعی ہیں کہ مادہ ہی نہیں، بلکہ ان صفات کے پیچھے جن کا مشاہدہ ہمارے حواس اس عالم کی شکل میں کر رہے ہیں، کسی خدا کی ذات کو بھی محض حواس و عقل کے زور سے ثابت کرنے کی کوشش ایک ایسی کوشش ہے جو کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی، ان کا مشہور فقرہ ہے کہ: ’’ خدا کو عقل یعنی فکر ونظر کی راہ سے جس نے ڈھونڈھا وہ سر گشتہ اور سر ا سیمہ ہو کر رہ گیا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں اسی خیال کو یوں ادا کرتے ہیں: ’’عقل اس حیثیت سے کہ وہ نظر و فکر، بحث و تلاش کا کام کرتی ہے، خدا کو جان نہیں سکتی‘‘۔ 2 انہوں نے اخیر میں اپنی کتاب الدین القیم کا حوالہ دیا ہے، الدین القیم میں انہوں اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور ابن عربی کے حوالہ سے تفصیل سے لکھا ہے۔

انہوں نے ایسے وقت میں ابن عربی پر کام کا آغاز کیا جب وہ ضعیفی کے مرحلہ میں پہنچ کر اپنے وطن میں گوشہ گیر ہوچکے تھے، اس کا ایک حصہ لکھنے کے دوران ہی بیماری نے طول پکڑا، انہوں نے ابن عربی کے علمی پس منظر کے طور پر ان کے مولد ومنشا اندلس کے حالات تفصیل سے لکھے، دارالمصنفین سے ان انہوں نے اس کے لئے کتابیں بھی منگوائی تھیں جو افسوس کہ رکھی رہ گئیں، اورسید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کے ہاتھ واپس کردی گئیں، صباح الدین صاحب نے لکھا ہےکہ جب مولانانے ریٹائر ہوکر گیلا نی میں آ کر قیام فرمایا تو ان کا قلم اور بھی جوان ہو گیاتھا، وہ حضرت شیخ محی الدین بن عربی سے بہت متاثر تھے اور ان کے کارناموں کو تفصیل کے ساتھ لکھنا چاہتے تھے۔ مولانا نے لکھاہے:

’’سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے کلام کے سمجھنے اور اس سے استفادہ کے لیے ایمان قوی اور نظر سلیم کے ساتھ ضرورت ہے کہ علم میں وسعت ہو، محدود معلومات والے تنگ نظر لوگوں کے لیے بسا اوقات ان کی باتیں نقصان رساں ہو جاتی ہیں لیکن یہ ان کے کلام کا نہیں بلکہ پڑھنے والوں کا نقصان ہے‘‘۔ 3

ان میں یہ تمام شرائط موجود تھے، اس لیے شیخ اکبر کو ان سے بہتراور کون سمجھ سکتا تھا، لیکن اس کام کو شروع کرنے سے پہلے وہ دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 4

   صباح الدین صاحب نے لکھا ہے کہ ایک بار وطن گیا تو ان کے یہاں جاکر ملاقات کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ ان کا خط ملا:

’’عزیر محترم..................5 السلام علیکم ورحمة الله و برکاتہ، اتنے طویل المدت مریض کے متعلق یہ واقعہ ہے کہ مر جانے یا تندرست ہوجانے کا فیصلہ قدرتی ہے، لیکن کیا کیجئے، آپ کا یہ درویش اسمی بہ مناظر احسن گیلانی نہ اب تک مرا ہے اور نہ اچھے ہونے کی بشارت سنا سکتا ہے، اسی حال میں مگن ہے جس میں رکھا گیا ہے، کل شاہ صاحب6 قبلہ کا نوازش نامہ ملا، جس میں آپ کے دیسنہ پہنچنے کی خبر درج تھی، دارالمصنفین کی جو امانت ہمارے پاس محفوظ ہے اس کو آپ کے حوالہ کردینا چاہتا ہوں، کیونکہ اب شیخ ابن عربی پر کچھ لکھوں تو ضرورت ہے کہ دوسری دفعہ پیدا کیا جاؤں، اب فرمایئے کہ اس کے لیے کیا کروں؟ کیا دیسنہ ان کتابوں کو کسی کی معرفت بھیج دوں مگر آپ کی ملاقات سے محروی معمولی محرومی نہ ہوگی، بہر حال جورائے عالی7 ہو، اس سے مطلع فرمائیں، ڈاک سے اس لیے بھیج رہا ہوں کہ زمینداری ختم ہونے کے بعداب چھٹی چپاتی کی کوئی راه ڈاک کے سوا باقی نہیں رہتی ............ ‘‘۔ 8

مولانا نے کتاب کا آغاز جس مضمون سے کیا وہ شیخ اکبر کے وطن اندلس کے بارے میں تھا، تین قسطوں میں معارف میں ان کا یہ مضمون ’’مسلمانوں کا اندلس خود ان کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ 9 اس کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں:

’’مشہور اندلسی کہئے یایورپین صوفی شیخ محی الدین عربی پڑھے لکھے مسلمانوں میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں، کافی سر گرانیوں کے باوجود ان کے مخالفین بھی شیخ کی علمی وسعت، نظر کی دقت کے بہر حال معترف ہیں۔ ہمارے مخدوم و محترم مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی ناظم علمی دار المصنفین(اعظم گڑھ) و مدیر معارف کا اصرار ہے کہ شیخ ابن عربی کے متعلق معارف میں مقالات کا سلسلہ خاکسار شروع کرے، اپنے اصرار کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے آخر میں تو شاہ صاحب نے یہاں تک ارقام فرمادیا کہ تونے لکھا تو لکھا، ورنہ پھر کوئی دوسرا اس موضوع پر لکھنے والا نظر نہیں آتا، 10 ایک حوصلہ افزا حسن ظن کے سوا ظاہر ہے کہ اس کو اور کیا قرار دیا جا سکتا ہے، فوق کل ذی علمٍ علیم کی قرآنی حقیقت کا اقتضا بھی یہی ہے، اور سچی بات بھی یہی ہے کہ لکھنا چاہیں تو اب بھی اس فقیر سے کہیں بہتر طریقہ سے اس مضمون کو مرتب کر کے پیش کرنے والے پیش کر سکتے ہیں۔ مگر ایک’’صابری چشتی‘‘ فقیر کے لئے یہ بھی تو آسان نہ تھا کہ اپنے مخدوم ہی نہیں، بلکہ جو جانتے ہیں کہ ہندوستا ن کے طریقۂ چشتیہ صابریہ کے ایک رکن رکین صاحب ردولی شریف سیّدنا شیخ احمد عبد الحق قدس اللہ سرّہ العزیز بھی ہیں، اور ہمارے شاہ معین الدین صاحب کو اسی آستانہ ردولی شریف کی صاحبزادہ گی کا بجا فخر حاصل ہے، اس لحاظ سے مخدوم ہونے کے ساتھ ہی وہ ہمارے مخدوم زادے بھی تو ہیں، اپنے مخدوم زادے کے حکم سے سرتابی کی کوئی شکل نظر نہ آئی، اللہ کے نام سے قلم کو ہاتھ میں لیتا ہوں، شاید بزرگوں کی روحانیت سے تائید کی راہ میری یہی نیت مجھ پر کھول دے، واللہ وَلی الامر والتوفیق۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوا کہ ان کے مولد و منشا اندلس کی تاریخ کا وہ رُخ پیش کر دیا جائے، جس سے میرا خیال یہی ہے کہ شیخ اور شیخ کے خصوصیات کے سمجھنے میں کافی مدد پڑھنے والوں کو ان شاءاللہ ملے گی، اسی لیے پہلا مقاملہ ’’اندلس‘‘ پر لکھ کر حاضر کیا جاتا ہے، والامر بیدہ سبحانہ تعالی۔ ‘‘

مولانا کایہ مضمون کئی زاویے سے قابل اشکال بھی ہے، اور قابل غور بھی، انہوں نے اندلس کا تذکرہ اس لئے کیا تھا کہ ابن عربی کے ماحول کو سمجھنے میں مدد ملے گی لیکن انہوں نے اس کا آغاز اس بحث سے کیا ہے کہ مسلمانوں کو آخر اندلس کی بربادی کی داستان باربار کیوں سنائی جاتی ہے، وہی یورپ جو اپنے ہر ظلم پر پردہ ڈالتا ہے وہی یورپ اندلس میں اپنے مظالم کو اس قدر علانیہ کیوں بیان کرتا ہے۔ مولانا نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ہے، ممکن ہے وہ مزید کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں جس کا موقع انہیں نہیں مل سکا۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا ہے کہ ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوئی، پھر بنوامیہ کے مظالم اور بے اعتدالی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بہت تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں زیادہ تر انہوں نے کامل ابن الاثیر اور تاریخ ابن خلدون پر اعتماد کیا ہے، یہ حصہ مزید نقد ونظر کا محتاج ہے، مولانا شروع سے بنو امیہ کے سخت ناقد تھے، ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں بھی انہوں نے یہی موقف اختیار کیا ہے، اور بنوامیہ پر سخت تنقید کی ہے، مولانا اس سلسلہ میں عام طور پر کمزور واقعات پر بھی اعتماد کرلیتے ہیں۔ پھر اخیر میں مولانا نے یہ لکھا ہے کہ مجھے ایسے واقعات تاریخ میں نظر سے گذرے جن کو پڑھ کر میں مزید پر امید ہوگیا ہوں۔ شاید پہلے سوال کے جواب میں ان واقعات کے ذریعہ وہ اس کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہوں کہ اہل یورپ مسلمانوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کو چھپا نا چاہتے ہیں۔

مولانا کے بقول

’’اس زمانہ مین اندلس کے لفظ کو خوف و ہراس، دہشت و وحشت کے بھیانک خطرات کا جو مجسمہ مسلمانان عالم کے لئے بنا دیا گیا تھا، بالکل اس کے برعکس اندلس کا یہی لفظ مجھے تو رجائیت اور امید کا مطلع نظر آتا ہے اور اندلس کی تاریخ کے اس رخ کو مسلمانوں میں مردنی اور افسردگی پیدا کرنے کے بجائے امید و شگفتگی اور زندگی پیدا کرنا چاہیے‘‘۔ 11

بنوامیہ پر انہوں نے تنقید کی اس کے بعد خود ہی اخیر میں ان کے ایک مثبت پہلو کو بھی پیش کیاہے، اس کے ذریعہ اس سے متعلق خود مولانا کے دو متضاد نظریات سامنے آتے ہیں، گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں، جس کی صراحت نہیں کرتے کہ، بنو امیہ نے عصبیت عربیہ کو فروغ دیا، دین کی دعوت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور وہاں کی آبادی کو لوٹا جس کا یہ انجام انہیں دیکھنا پڑا، لیکن انہوں نے شیخ ابن عربی کے معاصر حالات بالکل نہیں ذکر کئے، اس وقت تک تو بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا، شاید اشارہ میں وہ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ بعد میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی بنیاد بنوامیہ ہی نے رکھی تھی، پھر شیخ ابن عربی کے متعلق صراحت سے کچھ نہیں لکھتے، ممکن ہے اگلی قسط میں وہ اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہوں جس کا موقع نہیں مل سکا۔ ویسے موجودہ مواد سے جو کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ شاید ان حالات نے شیخ ابن عربی کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہو، وہ وہاں کی آبادی کو قانع ومطمئن کرنا چاہتے ہوں، اورعربوں کے تئیں حکومت کے رویہ سے ان میں جو نفرت پیدا ہوگئی تھی اپنے ان افکار کے ذریعہ ان کو دور کرنا چاہتے ہوں۔ مولانا نے اپنے عربی مضمون میں جس پس منظر کی طرف اشارہ کیا ہے، اس میں فقہی ومسلکی اور عربی تعصب اور فلسفہ مشائیہ اور اس کے ذریعہ ثنویت کی تقدیس کو خاص طور سے بیان کیا ہے جس کی وجہ سے شیخ کو ظاہریت اور وحدت قیومیت کا نظریہ اختیار کرنا پڑا، اور انہوں نے وحدت الوجود کی رائے پیش کی۔

خوش قسمتی سے فتوحات مکیہ کے اس نسخہ کا بھی سراغ مل گیا ہے جو مولانا کے مطالعہ میں تھا اور وہ گویا وہ اس کی تلاوت کیا کرتےتھے، اس کے حواشی پر جابجا پنسل سے بعض الفاظ کے اردو ترجمے اورکہیں کہیں مختصر توضیح ہے لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہے، البتہ آگے پیچھے کے سادہ اوراق ان کی تحریروں سے بھرے ہوئے ہیں، اگرچہ ان میں بیشتر یادداشتیں ہیں، اور اہم قابل ذکر مباحث کے صفحات نمبر درج کرکے ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ ضخیم جلد کا قدیم مصری ایڈیشن ہے۔ مولانا کی بعض توضیحات جو اہم ہیں یہاں درج کی جاتی ہیں۔

ص ۳۵۵پر بعض الفاظ کے ترجمے بھی ہیں، اور دو جگہ حسب ذیل توضیحات بھی۔

’’فان السراب لم یکن عین ذلک المحل الذی جاء الیہ محل السراب‘‘۔ اس پر مولانا حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’بل کان محله فی عین الرائی‘‘۔ اسی کی دو سطر کے بعد فھو المعبر عنه بالماء ہے۔ اس پر مولانا کا نوٹ ہے، ’’اطفا اللہ حرارۃ العطش باذنه تعالیٰ‘‘۔ ص۳۳۷ پر ایک شعر میں سورۃ القلب لکھا ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئےمولانا نے لکھا ہے ’’ اي سورۃ یسین‘‘۔

شروع کے اوراق میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ما معنی الاسباب والاعتماد علیھا، جاء ھھنا بیان کاف استنبطه من الآیة الکریمة ونبّه علی معنی الرجولیة، ویمکن ان ینتقد علی الشیخ قوله فی تفسیر خائنة الاعین فانه رضی اللہ عنه قد بعد، والظاهر أنه كان مأموناً عند نفسه فالإشارة ردّها بالعين كأنه كانت خيانة‘‘.

ایک جگہ لکھتے ہیں

’’تمام اجسام میں بلوریت کی پیدائش کا امکان۔ ۔ ص ۲۹۵۔ ۔ شیخ نے اسی پرمکاشفہ، اور طی الارض اور عذاب قبر کی تصحیح کی ہے‘‘۔

ص ۲۹۵ کے آغاز میں ایک عبارت ہے:

’’وكان الإمام عبدالقادر على انتقل إلينا من أحواله حال الصدق لا مقامه، وصاحب الحال له الشطح، وكذلك كان رضي الله عنه، وكان للإمام أبي السعود بن الشبلي تلميذ عبدالقادرمقام الصدق‘‘۔

اس پر مولانا نوٹ لکھتے ہیں، ’’وجہ یہ ہے کہ ان سے تبلیغ احکام متعلق نہیں تھی، اور حضرت سے تبلیغ متعلق تھی، اس لئے حال صدق دیا گیا اور ان کے شاگرد کو مقام صدق دیا گیا‘‘۔

صفحہ ۲۳۳ پر عبارت ہے: مضاف إليها مشيئته

مولانا اس کے متعلق حاشیہ میں لکھتے ہیں: مثلاً لو شاء الله لهداكم

اس کے نیچے ہے: فإذا علمت هذا أقمت عذر العالم عندالله.

اس پر مولانا کا حاشیہ ہے ’’كما قال الله تعالى فالعذر يمكن بأن يقول لا تهدينا‘‘۔ یہ تشریح اپنی معنویت میں بہت اہم ہے کیوں کہ اسی طرح کے جملے سے شیخ سے لوگ زیادہ متنفر ہوتے ہیں۔

صفحہ ۳۷۵ پر ایک عبارت ہے فيسلب هذا العالم المستحق دارالشفاعة علمه حتى كأنه ما علمه أو لم يعلم شيئاً فيتعذب بجهله۔ اس پر مولانا لکھتے ہیں ’’کیوں کہ جہنم میں کوئی کار خیر نہیں ہوتا، اور علم کار خیر ہے۔ ‘‘

اسی صفحہ پر ایک عبارت ہے: لأن الواحد شيخ فخاطبه باللطف.

اس کی توضیح میں مولانا لکھتے ہیں، ’’یعنی نوح علیہ السلام‘‘۔

اس کے بعدہے: والآخر شابّ فخاطبه بالشدة.

مولانا لکھتے ہیں’’یعنی سرور عالم ﷺ جوان تھے‘‘۔

ص ۳۲۴ پر عبارت ہے:

’’وهم فيه أي في العذاب مبلسون أي مبعدون من السعادة العرضية لأن السعادة الدائمة من حيث الوجود موجودة ولكنّ السعادة العرضية غير موجودة. ‘‘

یہ تشریحات کہیں باریک سیاہ روشنائی سے ہیں، کہیں پنسل سے ہیں، بہت سی جگہوں پر صرف اشارات ہیں۔ بہرحال جہاں تک ممکن ہوسکا اہم توضیحات کو اخذ کرکے یہاں درج کردیا گیا ہے، ممکن ہے کچھ چھوٹ گئی ہوں، جس ایڈیشن پر یہ حواشی ونوٹس وہ استنول کا شائع شدہ قدیم ایڈیشن ہے، اور دارالعلوم وقف دیوبند کے کتب خانہ میں حضرت قاری طیب صاحب کے ذخیرہ میں محفوظ ہے۔

حضرت قاری صاحب حضرت گیلانی کی عمر کے آخری دور میں وفات سے کچھ ماہ یا ایک دو سال قبل ان کی عیادت کے لئےمولانا کے وطن تشریف لے گئے تھے، اس وقت سوانح قاسمی کی ترتیب کا بھی ذکر آیا تھا اور اسی موقع پر مولانا قاری صاحب کو اپنی کتابوں کا جو ذخیرہ عنایت کیا تھا اس میں یہ نسخہ بھی تھا، جس کی وہ گویا تلاوت کیا کرتے تھے، اور ابن عربی پر اپنی مجوزہ تصنیف کے لئے بھی اس میں انہوں نے جا بجا نوٹس تحریر فرمائے تھے، حضرت گیلانی کی تحریر جس نے دیکھی ہے اور ان کے زیر مطالعہ کتابوں پر ان کے حواشی وتعلیقات جس کی نظر سے گذرے ہیں اسے ان عبارتوں کو حضرت گیلانی کی تحریر تسلیم کرنے میں شبہ نہیں ہوسکتا۔

ایک دوسرا حسن اتفا ق یہ بھی ہے کہ مولانا کی وہ بیاض بھی شائع ہوگئی ہے جو خدا بخش لائبریری میں محفوظ تھی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہو ر سے جناب عثمان احمد صاحب کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں بھی ابن عربی کے اقتباسات اور جابجا اشارات موجود ہیں جو مولانا کے ان سے شدت تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ اقتباسات ان زیر تجویز تصنیفی کتاب کے لئے قلمبند کیے گئے ہوں۔ ایک جگہ صرف عنوان لکھا ہے، لقاء الشیخ الاکبر۔

ایک جگہ ’’حیوانی شکل کے دیوتا ‘‘ کا عنوان قائم کرکےمولانا اشعار اور ایک روایت کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقوام قدیم میں بت پرستی اس خیال پر مبنی ہے کہ ملائکہ کے چہرے حیوانوں کی مانند ہیں، پھر روایت کے بعد شیخ اکبر کا اقتباس نقل کیا ہے، قال الشیخ الاکبر فی فتوحاتہ، الواحد من حملة العرش علی صورۃ الانسان والثانی علی صورۃ الاسد فتخیل انہ الہ موسیٰ فصنع لقولہ العجل وقال هذا إلهكم وإله موسى...القصة

 117 صفحہ پر فتوحات مکیہ سے حضرت رابعہ بصریہ کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے۔

اس کے بعد صفحہ ۱۲۱ پر ’’وصیہ اکبریہ‘‘ کے عنوان سے حسب ذیل عبارت ہے:

فليجتهدأن يكون عند الموت عبداً مخلصاً ليس فيه شيئ من السيادة على أحد من المخلوقين ويرى نفسه فقيرة إلى كلّ شيئ من العالم من حيث أنه عين الحق من خلف حجاب الاسم الذي قال الله فيه.ص540 ت 32

پھر صفحہ ۱۲۷ پر ایک مسئلہ ہے جس کا عنوان ہے:

’’ تمام ارواح طیبہ وملائکہ وانبیاء ورسل سے حصول دعا کا طریقہ ‘‘۔

اس کے نیچے حسب ذیل عربی عبارت ہے:

قال شيخ الأكبر[كذا] في فتوحاته منسوباً إلى بعض أولياء الله أنه قال له، إذا قلت "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين"أو قلت "السلام عليكم" إذا سلمت في طريقك على أحد فأحضر قلبك كلّ صالح لله من عباده في الأرض والسماء وميّت حيّ، فإنه من ذلك المقام يرد عليك فلا يبقى ملك مقرب ولا روح مطهر يبلغه سلامك إلاّ ويرد عليك وهو دعاء مستجاب فيستجاب فيك فتفلح، ومن لم يبلغه سلامك من عباد الله المهيمين في جلاله المشتغلين به المستفرغين فيه، وأنت قد سلمت عليهم بهذا الشمول فإن الله ينوب عنهم في الردّ عليك.

اس کے بعد لکھتے ہیں:

’’در اصل درود شریف کی ایک شرح فقیر یہ کرتا ہے، اور اسی کو مسلمانوں کے رواج فاتحہ کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اسی کی یہ تائید ہے، فللہ الحمد۔ ‘‘

   صفحہ نمبر ۱۴۰پر لکھتے ہیں:

نکتہ عملیہ

الإنسان لا يخلو عن طلب نفساواحداً يقوم به الأمر ما. یعنی آدمی کسی نہ کسی قسم کی طلب اپنے اندر رکھتا ہے، چاہے اس طلب کو مجہول بنالے۔ إلا من جهة واحدة وهو أن يكون متعلق طلبه ما يحدثه الله في العالم في نفسه أو في غيره، فما وقعت عليه عينه أو تعلق به سمعه أو وجده في نفسه أو عامله به أحد فليكن ذلك عين مطلوبه المجهول، قد عيّنه له الوقوع فيكون قدوفى حقيقة كونه طالباً وتحصل له اللذة بكلّ واقع منه أو فيه أو من غيره أو في غيره. کبھی کبھی حس وحرکت پیدا نہ ہوگی فإن اقتضى ذلك الواقع التغيير له تغير لطلب الحق منه التغير وهو طالب الواقع، والتغير هو الواقع، وليس بمقهور فيه، بل هو ملتذ ّ في تغييره كما هو ملتذ في الموت للتغير وما ثمّ طريق إلى تحصيل هذا المقام إلاّ ما ذكرناه فلا تقل كما قال من جهل الأمر فطلب المحال فقال أريدفقال أريد أن لا أريد، وإنما الطلب الذي تعطيه حقيقة الإنسان لا أن يقول أريد ما تريد.

اس کے بعد کے صفحات میں ابن عربی کے متعدد اشعار بھی نقل کئےگئے ہیں۔

   صفحہ ۱۵۷ پر ابن عربی کا قول نقل کرتے ہیں:

’’وعظ سے اگر کسی کو فائدہ نہ ہو فعلیہ ان یتہم نفسہ فان اللہ تعالیٰ قال وامر فذکر فان الذکریٰ تنفع المومنین‘‘۔

مفصل عبارت یہ ہے:

فإن كنت مومنا فإن الذكرى تنفع المؤمنين، فإني قد امتثلت أمر الله بما ذكر تك به وانتفاعك بالذكرى شاهد لك بالإيمان بالله، قال الله عزوجلّ في حقي، وفي حقك، وذكّر فإن الذكرى تنفع المومنين، فإن لم تنفعك الذكرى فإتهم نفسك في إيمانك فإن الله صادق، وقد أخبربأن الذكرى تنفع المومنين.

مولانا کی مندرجہ بالا تحریروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت گیلانی شیخ ابن عربی کے علوم پر کیسی نظر رکھتے تھے، اور ان سے انہیں کیسا والہانہ عشق تھا، اور کس طرح وہ ان کے افکار کی شرح وتوضیح کے سب سے زیادہ حق دار تھے، ؛لیکن

            اے بسا آرزو کہ خاک شدہ


حواشی

  1. معارف، فروری، ۱۹۴۵ء
  2. حوالہ سابق، مارچ ۱۹۴۵ء
  3.  یہ عبارت ان کے مضمون شیخ اکبر کا نظریہ علم کی ہے۔
  4. حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی، [کتابچہ]، از سید صباح الدین عبدالرحمن، مطبوعہ استھاواں، بہارشریف، ۲۰۱۶ء۔ ص۲۸
  5. مولانا اپنے اخلاص و شفقت میں چھوڑوں کے لیے بھی ایسے القاب لکھ دیتے جن کے وہ مستحق نہ ہوتے، اس لیے کچھ الفاظ حذف کردئے گئے۔ (اصل)
  6. جناب شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی مراد ہیں۔ (اصل)
  7. یہ الفاظ ان کےظرف عالی کا ثبوت ہیں۔ (اصل)
  8. سید صباح الدین عبدالرحمن، حوالہ سابق، ص۴۷
  9. یہ مضمون ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے نومبر، دسمبر ۱۹۵۳ ور جنوری ۱۹۵۴ میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔
  10. مولانا کی یہ پیشین گوئی درست نکلی، اس کے بعد معارف جومسلمانوں کی علمی تاریخ وشخصیات کاا نسائیکلوپیڈیا کہاجاسکتا ہے اس میں ابن عربی پر کوئی قابل ذکر مضمون نہیں ملتا، ضمنی طور پرکچھ بحثیں ہوں تو الگ بات ہے۔ (طلحہ)
  11. معارف، جنوری ۱۹۵۴۔


شخصیات

(مارچ ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter