مراد علی صاحب کو اللہ تعالی نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہنا ان میں سے ایک ہے۔ مراد علی، مولانا مودودی اور ان کے کام کے ساتھ اس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی سے متعلق مواد دیوانہ وار جمع کرتے رہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے کام سے واقف بھی ہیں اور واقفیت میں اضافہ کرتے رہنے کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔ طویل اقتباسات کو یاد رکھنا اور مولانا کی آرا کو آج کے مسائل پر لاگو کرتے رہنا ان کی ایک اور خوبی ہے اور فیس بک پر موجود لوگ اس سلسلے میں ان کی کاوشوں سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کو اس حال میں قریب سے دیکھا ہے جب وہ مولانا مودودی کی پوری پوری کتابیں کمپوز کیا کرتے تھے۔ سید مودودی کی فکر کے ساتھ ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اُن کی فکر کے ساتھ تحریکی لوگوں کے رویے پر شاکی رہتے ہیں اور اس کو آگے نہ بڑھا سکنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ اپنی نئی کتاب میں بھی ایک دو جگہ وہ یہی شکوہ کرتے نظر آئے ہیں۔
حال ہی میں "مولانا مودودی کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ" کے عنوان سے ان کی کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل اسی قسم کے عنوانات کے تحت ان کے مضامین "ماہنامہ ترجمان القرآن" اور "ماہنامہ الشریعہ" میں شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ سال قبل ان مضامین پر میں نے ایک مختصر سا تبصرہ ایک فیس بک پوسٹ کی صورت میں کیا تھا، صاحبِ مضامین کا جواب آیا کہ ابھی کتاب آنا باقی ہے لہذا مکمل تبصرہ بحث کی تکمیل تک مؤخر رکھیں۔ میرا خیال ہے کہ اب اِس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد بحث کم از کم اس حد تک مکمل ہو چکی ہے کہ اس پر تبصرہ کیا جا سکے۔
اگر ہم کتاب کے مباحث اور مضامین کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بندہ بیک وقت فقہ حنفی اور مولانا مودودی کی محبت میں گرفتار ہے لیکن حنفی فقہ کی محبت غالب ہے لہذا تعارض کی صورت میں ہمیشہ مولانا مودودی ہی کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس دور میں جب معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آزاد مجتہد ہونے کے منصب سے نیچے نہیں اترتا، مراد صاحب کا فقہ اور روایت سے تمسک اور اس پر اعتماد قابل تعریف ہے لیکن کسی دوسرے کی فکر پر حنفیت اور روایت ، اس حال میں نافذ کرنا جبکہ صاحب فکر نے خود کو اُس کا ہر حال میں پابند نہیں بنایا، بالکل غلط ہے۔ چونکہ یہ غلطی کتاب کی روح ہے لہذا اجزا کی صورت میں موجود خوبی کی داد دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر اجزا کی صورت میں دیکھا جائے تو باب چہارم سے آگے کے مباحث قابلِ تحسین ہیں لیکن صاحبِ کتاب نے ان مباحث کو بھی باب دوم میں موجود روحِ کتاب کے اندر صَرف کر دیا ہے۔
جس چیز کو میں کتاب کی روح کہتا ہوں وہ مولانا کے تصوراتِ جہاد کو دو اقسام میں تقسیم کرنا ہے۔ تصوراتِ جہاد کو قانونی اور اخلاقی خانوں میں تقسیم کرنا ہی اِس کتاب کا مرکزی نکتہ ہے، اگر ہم اس بحث کا خلاصہ کریں تو درج ذیل نکات بنیں گے:
- جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا مودودی کے ہاں علت القتال شوکتِ کفر ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ دراصل یہ رائے صرف الجہاد فی الاسلام سے قائم ہوئی ہے، مولانا کی پوری فکر کو مدنظر رکھ کر یہ رائے نہیں بنی۔ ایسے لوگوں میں عنایت اللہ سبحانی اور ڈاکٹر محمد رفعت شامل ہیں۔
- مولانا مودودی کے ہاں شوکتِ کفر جہاد کی علت نہیں ہے بلکہ محاربہ علت القتال ہے۔ اور حنفی فقہ میں بھی محاربہ ہی علت القتال ہے۔
- عمار خان ناصر صاحب کے مطابق مولانا کے جہادی تصورات متعارض ہیں۔ تعارض کو دور کرنے کے لیے دو طریقے ہو سکتے تھے، ایک یہ کہ مولانا کی فکر کو تاریخی ترتیب سے دیکھا جائے اور آخری رائے معلوم کر لی جائے۔ دوسرا یہ کہ متعارض آرا کو اخلاقی اور قانونی قسموں میں تقسیم کر دیا جائے۔ پہلا طریقہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مولانا مودودی متعارض آرا کو آخر تک ساتھ ساتھ چلاتے رہے ہیں۔ "الجہاد فی الاسلام "کے بعد "سود کا تیسرا ضمیمہ" اور اس کے بعد پھر سے "جہاد فی سبیل اللہ" لکھنا اسی بات کی نشانی ہے۔
- جن اقتباسات سے شوکتِ کفر کے علت القتال ہونے کی رائے بن رہی ہے وہ اقتباسات قانونی (عملی) نہیں ہیں بلکہ اخلاقی، کلامی، نظری، غیر فقہی، غیر تاریخی ہیں۔
- مولانا مودودی کے تصورات جہاد دو قسم کے ہیں: اخلاقی اور قانونی
- اخلاقی تصوراتِ جہاد کے مآخذ: الجہاد فی الاسلام؛ جہاد فی سبیل اللہ؛ خطبات کا متعلقہ حصہ
- قانونی تصوراتِ جہاد کے مآخذ: سود کا تیسرا ضمیمہ؛ اسلامی ریاست اور خلافت و ملوکیت میں خارجہ پالیسی سے متعلق حصہ؛ جسٹس منیر رپورٹ پر تبصرہ وغیرہ
- الجہاد فی الاسلام مولانا مودودی کی نوجوانی اور تشکیلی دور کی کتاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ کتاب متحدہ ہندوستان میں لکھی گئی ہے، اور اس پر اپنے زمانے اور ماحول کا بھی اثر موجود ہے۔
تعجب کا مقام یہ ہے کہ مراد صاحب کے مطابق جو کتاب تشکیلی دور کی ہے اور قانونی کی بجائے اخلاقی ہے، اسی سے وہ علت القتال بھی نکالتے ہیں۔ عنایت اللہ سبحانی صاحب نے الجہاد فی الاسلام سے شوکتِ کفر کو علت القتال کے طور پر اخذ کیا ہے۔ مراد علی کے مطابق یہ علت غلط ہے، کیونکہ اس میں مولانا کی پوری فکر کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور "الجہاد فی الاسلام" کو اخلاقی نکتہ نظر کی بجائے قانونی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔ لیکن اسی اخلاقی نوعیت رکھنے والی کتاب سے وہ محاربہ کو بطور علت نکال لاتے ہیں۔ اس کتاب کا جو حصہ شوکتِ کفر کو علت القتال قرار دیتا ہے اس کو صاحبِ کتاب نے اخلاقی کہا ہے لیکن جہاں سے محاربہ کو علت القتال قرار دینے کا امکان نکلتا ہے، وہاں وہ اس اخلاقی نوعیت کو پس پشت ڈال کر قانونی نکتے بھی نکال لاتے ہیں۔ اسی طرزِ عمل کی بنا پر کہنا پڑ رہا ہے کہ مراد صاحب بیک وقت فقہ حنفی اور مولانا مودودی کی محبت میں گرفتار ہیں لیکن مولانا مودودی کی محبت ثانوی ہے جو ہر نازک موقع پر قربان کر دی جاتی ہے۔
مراد صاحب ایک جگہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مولانا کا کوئی "غیر تاریخی، غیر فقہی" تصور قابل قبول نہیں ہو سکتا، ایسی آرا "محلِ نظر" ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مودودی، مراد صاحب کی نظر میں "محل نظر " ہیں جو فقہ حنفی کے ان تعبیرات کے خلاف ہیں جو ڈاکٹر عمران احسن نیازی اور ڈاکٹر مشتاق صاحب پیش کرتے ہیں۔ جو لوگ ڈاکٹر مشتاق صاحب اور ان کے افکار سے واقف ہیں وہ جب اس کتاب کو پڑھیں گے تو انہیں یقیناً ایسا محسوس ہوگا کہ مراد صاحب کی زبان میں ڈاکٹر مشتاق صاحب بول رہے ہیں۔ سلیم احمد نے از راہِ انکسار کہا تھا کہ ہمارا تو کُل سرمایہ محمد حسن عسکری ہیں۔ لیکن میں بطور افسوس کہہ رہا ہوں کہ مراد صاحب کا کُل سرمایہ مشتاق صاحب بن چکے ہیں۔ مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس "تشکیلی دور" میں مشتاق صاحب کا شدید فکری اثر، مراد صاحب کی فکر کو یک رخا بنا دے گا۔ میرے خیال میں صاحبِ تصنیف کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نتائجِ تحقیق میں موجود سقم کو دور کرنے کے لیے درج ذیل سوالات کے واضح جوابات مہیا کریں:
- کیا اخلاقی اور قانونی تقسیم مولانا مودودی نے خود کی ہے؟ یا کہیں سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی "الجہاد فی الاسلام "کو قانونی حیثیت نہیں دیتے تھے؟ ( یاد رہے کہ مراد صاحب اس تقسیم کے حق میں خطبات کے حوالے سے مولانا مودودی کی ایک رائے کا حوالہ دیتے ہیں، جو بالکل غلط ہے۔ اس میں دو مختلف چیزوں کو ایک دوسرے پر لاگو کیا گیا ہے۔)
- کیا مراد علی صاحب، عمار خان ناصر صاحب کے بتائے ہوئے تعارض کو دور کرنے کے لیے یہ تقسیم کر رہے ہیں؟
- کیا مولانا مودودی اس تعارض سے بے خبر تھے؟ یا وہ اس تعارض کو نقصان دہ نہیں سمجھتے تھے؟ یا وہ ان متعارض آرا میں تطبیق کو ایسا مشکل کام نہیں سمجھتے تھے، جس کے لیے ان کو خود وضاحت کرنی پڑے؟ کیا یہ ناممکن ہے کہ ان، بظاہر متعارض آرا سے ایک ایسی روایت نکلے جو جدید دور کے مسلمانوں کے مسائل حل کر دے اور جہادی فکر کو ایک نئی سمیت دے؟
- کیا اس تقسیم سے مولانا مودودی کی اجتہادی آرا ، یا ان کی فکر میں اجتہادی زور کا خاتمہ نہیں ہوگا؟
- کیا تعارض کو رفع کرنا ضروری ہے؟ اگر دو مختلف آرا کا وجود تسلیم کر لیا جائے تو کیا یہ کوئی بہت بڑی خرابی ہوگی، جس کا وجود بڑے مفکرین کے ہاں نہیں ملتا؟
- اگر ہر بندہ، ہر ناپسندیدہ رائے کو اخلاق کے خانے میں ڈال کر اس کو عملاً معطل کر دے، تو کیا یہ مولانا مودودی کی فکر کو درگور کرنے کے مترادف نہ ہوگا؟
- کیا مولانا مودودی خود پر یہ لازم کر چکے ہیں کہ ان کی آرا لازماً فقہ حنفی کے مطابق ہوں گی؟
- کیا اخلاقی تصورات اور افکار کا مقصد محض ایک وعظ اور موٹیویشنل تقریر ہے جس کا فکر و عمل پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے؟
"کلامی اور اخلاقی" خانہ، مراد صاحب کا بنایا ہوا وہ کباڑ خانہ ہے جس میں مولانا مودودی کی ہر وہ رائے پھینکی جائے گی جو فقہ حنفی کے خلاف ہے۔ صاحبِ کتاب، کلامی، اخلاقی، نظری وغیرہ کو جس طرح مترادفات کی صورت میں بلاتامل استعمال کرتے ہیں اور جس بے دردی کے ساتھ مولانا کی آرا کو ان خانوں میں ڈالتے ہیں اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ کوئی کباڑ خانہ ہے، جس میں مولانا مودودی کی ان آرا کو ڈالا جائے گا جو مراد صاحب کے مطابق کسی عملی نظام، کسی اجتہادی رائے اور کسی قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہوسکتیں۔ مولانا مودودی کے جہادی فکر کے ایک بڑے حصے کو اخلاقی بنا دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ الجہاد فی الاسلام میں موجود تصورات مولانا مودودی کی نوجوانی اور تشکیلی دور کی چیزیں ہیں جن پر اپنے زمانے کے ماحول کا خاصا اثر پایا جاتا ہے اور مولانا کی فکر کا یہ حصہ مسلمانوں کو محض جگانے اور بیدار کرنے کے کام آیا ہے۔ تعارض کو رفع کرنے کا یہ عجیب طریقہ ہے کہ متعارض آرا میں سے ایک رائے کو کہیں تقسیم اور کہیں خاص کرکے بالکل بے اثر بنا کر چھوڑ دیا جائے اور دوسری رائے کو برقرار رکھا جائے۔ بعض تعارضات اگر رفع نہیں ہو سکتے تو ان کو ہوبہو برقرار رکھنے میں کیا قباحت ہے۔ مفکرین کے ہاں متعارض چیزیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ ایک اور تعجب کی بات یہ ہے کہ مولانا مودودی خود اور سید سلیمان ندوی "الجہاد فی الاسلام" کو اسلام کا قانونِ جہاد کہتے ہیں لیکن مراد صاحب کے مطابق یہ کتاب قانونی نہیں اخلاقی ہے۔
صاحب کتاب شکوہ کناں ہے کہ تحریکی لوگ قانونی مباحث اور فقہ سے اعتنا نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ فقہ کو جاننا بہت ضروری ہے لیکن فقہ کی آستان پر کسی مفکر کو بھینٹ چڑھا دینا، فقہیت کے اعتبار سے جتنا بھی نیک کام ہو، بہرحال علمیت اور دیانتداری کے خلاف ہے۔ اعتنا کا مطلب اگر جاننا ہے تو بے شمار تحریکی لوگ فقہ کو جانتے ہیں بلکہ مراد بھائی اگر اپنے اردگرد کے تحریکیوں کو ہی دیکھ لیں تو ان کو اپنی رائے غلط نظر آئے گی لیکن اگر فقہ سے اعتنا کا مطلب وہی کچھ ہے جو صاحب تحقیق نے اپنی کتاب میں کیا ہے، تو یہ اعتنا سے زیادہ فقہ پرستی ہے جس کے لیے مولانا کی فکر کو وہ بے دردی سے کاٹ چکے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی اعتنا سے بے اعتنائی بہتر ہے۔
مراد صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے ڈاکٹر مشتاق صاحب سے کہا کہ سود کا تیسرا ضمیمہ "الجہاد فی الاسلام" اور "اسلامی ریاست" میں بطور ضمیمہ شامل ہونا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا اس عمل کو علمی دیانت میں شمار کرتی ہے یا نہیں لیکن میں کم از کم اس کو علمیت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ ان دو کتابوں میں اگر کوئی اس ضمیمے کو شامل کرے گا تو وہ اپنی دانست میں خواہ کتنا ہی بڑا خیر خواہِ مودودی بن جائے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوگی۔ ضمیمے کی شمولیت کے بعد ان کتابوں کی حیثیت بالکل مختلف ہو جائے گی۔ "اسلامی ریاست" پروفیسر خورشید صاحب کی مرتب کردہ کتاب ہے، اگر پروفیسر صاحب خود بھی ضمیمہ شاملِ کتاب کر دیں تو کتاب کی حیثیت بدل جائے گی کیونکہ موجودہ "اسلامی ریاست" کو مولانا مودودی کی تائید حاصل ہے، جبکہ ضمیمے والی کتاب کو مولانا مودودی کی تائید حاصل نہ ہوگی۔
چونکہ اس کتاب کے مباحث کی بنیاد، اخلاقی و قانونی کی تقسیم ہے، اسی وجہ سے میرا زیادہ روز اسی تقسیم کی غلطی کو واضح کرنے پر ہے اور میں اس تقسیم کو غلط اس بنیاد پر سمجھتا ہوں کہ نہ تو مولانا مودودی نے اس تقسیم کی طرف کہیں اشارہ کیا ہے اور نہ ہی مولانا نے خود کو ہر حال میں فقہ حنفی کا پابند کہا ہے۔ وہ حنفی فقہ کے ایسے پیروکار نہیں ہیں جیسے مراد صاحب اور ان کے اساتذہ ہیں۔ مولانا مودودی ایسے حنفی نہیں ہیں جو حنفی آرا کو ہر حال میں درست سمجھتے ہیں اور اپنے اوپر کسی اجتہادی رائے کو حرام کر دیتے ہیں۔ وہ حنفی فقہ کو ایک کل کے طور پر تو اپنے لیے حد سمجھتے ہیں لیکن جزئیات میں اختلاف بھی کرتے ہیں اور حنفی آرا سے مختلف رائے بھی دیتے ہیں۔
اس کتاب میں مراد صاحب کا جو کام لائق تعریف ہو سکتا ہے اس کو بھی انہوں مذکورہ تقسیم میں صَرف کرکے اپنا نقصان کیا ہے ورنہ اس تقسیم کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو بہت سارا کام بہت مفید اور لائق تحسین بھی ہے۔
اس بحث کو کئی طرح سے مزید پھیلایا جا سکتا ہے۔ مثلاً تعارض کو رفع کرنے کے لیے تقسیم کی بجائے تطبیق کا طریقہ استعمال کیا جائے۔ دونوں آرا کے درمیان بُعد کو تحریکی اور نئے اجتہادی مزاج کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ کسی ایک کتاب کی بنا پر مولانا کے حوالے سے کوئی رائے متعین کر دینا درست نہیں۔ ظاہر ہے ان کی یہ بات بالکل درست ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اس رویے کی بھی مذمت ہونی چاہیے کہ کوئی سکالر اپنی من پسند بات کو پوری فکرِ مودودی پر حَکم بنا کر رکھ دے، جیسا کہ ڈاکٹر مشتاق صاحب اور ان کے متعلقین سود کے تیسرے ضمیمے کو پوری فکرِ مودودی پر نافذ کر دیتے ہیں۔ ہر بڑے مفکر کے ہاں کہیں کہیں تعارض اور دو یا دو سے زائد مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ مولانا مودودی کی فکر میں بھی اس کا امکان موجود ہے۔ لیکن بہرحال یہ اصول طے ہونے چاہییں کہ آدمی کس رائے کو کس بنا پر ترجیح دے گا۔ اگر یہ طے نہ ہو یا ترجیحات کا کوئی تعین مفکر کی فکر سے براہ راست نہ نکلتا ہو تو اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر آرا میں ترجیحات کا تعین غلط قرار پائے گا۔
کتاب پر تبصروں کی روایت میں یہ بھی شامل ہے کہ طباعت پر بھی بات ہو۔ یہ کتاب پہلی نظر میں پرکشش لگتی ہے ، کتاب کی کٹنگ اور بائنڈنگ بہت اچھی ہے۔ کچھ چیزیں ایسی بھی نظر آئی ہیں کہ اگر ان پر مزید محنت کی جاتی تو بہتر سے بہترین کا سفر طے ہو جاتا۔ میرے پاس جو کاپی ہے اس میں صفحات مختلف رنگوں کے لگے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاغذ کی کوالٹی بھی مختلف ہے۔ اندرونی صفحات میں کتاب کا عنوان، کتاب کے عام خط سے مختلف ہے، جو بھلا نہیں لگتا۔ یہ خوبی قابل داد ہے کہ پروف کی غلطیاں بہت ہی کم ہیں۔ ایک خرابی ایسی بھی ہے جس کا شمار بڑی غلطیوں میں ہوتا ہے۔ میں نے جگہ جگہ نوٹ کیا ہے کہ ربط کی بہت کمی ہے۔ کہیں کہیں ایسا تاثر ملتا ہے کہ اقتباس مکمل نہیں ہوا اور اس کا کچھ حصہ پرنٹ ہونے سے رہ گیا ہے۔ باب سوم میں فساد کی بحث کے فوراً بعد حرابہ کی بحث اس طرح چل پڑتی ہے کہ قاری ذہنی طور تیار نہیں ہوتا اور ربط کا کوئی جملہ تک موجود نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درمیان میں کچھ صفحات پرنٹ یا بائنڈ ہونے سے رہ گئے ہیں۔ باب اول میں بعض جملوں کی تکرار بھی طبیعت کو بوجھل کر دیتی ہے۔