حنفیت کا دفاع و ترجیح
شاہ صاحب ؒ کے درس حدیث کی ایک نمایاں خاصیت حنفی فقہ کو حدیث کے دلائل سے مبرہن کرنا تھا ۔ ان کے زمانے میں برصغیر میں اس موقف کا کافی شور تھا کہ حنفی فقہ حدیث کے متوازی مواقف پر قائم ہے اور اس فقہ کی بنیاد احادیث کی بجائے امام ابو حنیفہ ؒ کی آرا پر ہے ۔ یہ موقف زور و شور سے عوام و خواص میں پھیلایا گیا جس کی وجہ سے فقہ حنفی کی پیروی کرنے والے اہل علم نے اس موقف کی غلطی واضح کرنے کو اپنی علمی تگ و تاز کا عنوان بنایا ۔ شاہ صاحب ؒ نے بھی فقہ حنفی کے مواقف کو حدیث سے ثابت کرنے کے لیے انتہائی کوشش کی ، لیکن بتکلف حدیث کو فقہ حنفی کے مطابق ڈھالنے کی سعی نہیں کی بلکہ منصفانہ طور پر حدیث کی ایسی تشریح کی کہ اس سے خود بخود فقہ حنفی کی تائید ہو جاتی ۔ اسی کوشش میں شاہ صاحب ؒ کے علوم کا صحیح اظہار ہوا ۔ قاری محمد طیب صاحب ؒ شاہ صاحب ؒ کے درس کی اس خاصیت کے بارے اس طرح رقم طراز ہیں :
’’حضرت شاہ صاحب ؒ کے درس حدیث میں کچھ ایسی امتیازی خصوصیات نمایاں ہوئیں جو عام طور سے دروس میں نہیں تھیں اور حضرت شاہ صاحب ؒ کا انداز درس درحقیقت دنیائے درس و تدریس میں ایک انقلاب کا باعث ثابت ہوا۔ ۔۔ اولا آپ کے درس حدیث میں رنگ تحدیث غالب تھا۔ فقہ حنفی کی خدمت ، تائید و ترجیح بلا شبہ ان کی زندگی تھی لیکن رنگ محدثانہ تھا ۔ فقہی مسائل میں کافی سیر حاصل بحث فرماتے لیکن انداز بیان سے یہ کبھی مفہوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ حدیث کو فقہی مسائل کے تابع کر رہے ہیں اور کھینچ تان کر حدیث کو فقہ حنفی کی تائید میں لانا چاہتے ہیں۔ بھلا اس کا قصد و ارادہ تو کیا ہوتا ؟ بلکہ واضح یہ ہوتا تھا کہ آپ فقہ کو بحکم حدیث قبول کر رہے ہیں ۔ حدیث فقہ کی طرف نہیں لے جائی جا رہی ہے ، بلکہ فقہ حدیث کی طرف لایا جا رہا ہے ، وہ آ رہا ہے اور کلیۃ حدیث کے موافق پڑتا جا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر گویا حدیث کا سارا ذخیرہ فقہ حنفی کو اپنے اندر سے نکال نکال کر پیش کر رہا ہے اور اسے پیدا کرنے کے لیے نمودار ہوا ہے۔‘‘1
فقہ حنفی سے اسی لگاو کی وجہ سے شاہ صاحب ؒ کی تصنیفی و تالیفی باقیات عمومی طور پر انہی اختلافی مسائل پر ہیں جو احناف و غیر احناف علماء کے مابین متنازع رہے اور جنہیں بطور خاص عوام میں پھیلا کر اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی کہ فقہ حنفی حدیث کے خلاف ہے ۔ ان تصانیف میں " فصل الخطاب فی مسئلۃ ام الکتاب" " کشف الستر عن صلوۃ الوتر " " بسط الیدین فی مسئلۃ رفع الیدین " اور "نیل الفرقدین فی مسئلۃ رفع الیدین " شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ املائی تقریریں اور امالی میں بھی حنفیت کے دفاع کا پہلو نمایاں اور غالب واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ انہوں نے حنفیت کا دفاع کیسے کیا اور اس مقصد کے حصول میں ان کا اسلوب و منہج کیا تھا، اسے سمجھنے کے لیے قاری طیب صاحب ؒ کے مضمون کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ایک بار ایک مناظرہ میں جو حضرت ممدوح اور ایک عالم اہل حدیث کے مابین ہوا ، اہل حدیث عالم نے پوچھا۔ کیا آپ ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں ؟ فرمایا نہیں ، میں خود مجتہد ہوں اور اپنی تحقیق پر عمل کرتا ہوں ۔ اس نے کہا کہ آپ تو ہر مسئلہ میں فقہ حنفی ہی کی تائید کر رہے ہیں ۔ پھر مجتہد کیسے ؟ فرمایا یہ حسن اتفاق ہے کہ میرا ہر اجتہاد ابو حنیفہ ؒ کے اجتہاد کے مطابق پڑتا ہے ۔ اس طرح جواب سے سمجھانا یہی منظور تھا کہ ہم فقہ حنفی کو خواہ مخواہ بنانے کے لیے حدیث کو استعمال نہیں کرتے ، بلکہ حدیث میں سے فقہ حنفی کو نکلتا ہوا دیکھ کر اس کا استخراج سمجھا دیتے ہیں اور طریق استخراج پر مطلع کر دیتے ہیں۔2
’’تفسیر الحدیث بالحدیث کے اصول پر کسی حدیث کے بارہ میں جو دعوی کرتے اسے دوسری احادیث سے موید اور مضبوط کرنے کے لیے درس ہی میں کتب پر کتب کھول کھول کر دکھاتے جاتے تھے اور جب ایک حدیث کا دوسری احادیث کی واضح تفسیر سے مفہوم متعین ہو جاتا تھا تو نتیجہ وہی فقہ حنفی کا مسئلہ نکلتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ حدیث فقہ حنفی کو پیدا کر رہی ہے ، یہ ہر گز مفہوم نہیں ہوتا تھا کہ فقہ حنفی کی تائید میں خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر حدیثوں کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ یعنی گویا اصل تو مذہب حنفی ہے محض مؤیدات کے طور پر روایات حدیث سے اسے مضبوط بنانے کے لیے یہ ساری جدوجہد کی جا رہی ہے ، نہیں بلکہ یہ کہ حدیث اصل ہے لیکن جب بھی اس کے مفہوم کو اس کے فحوی اور سیاق و سباق نیز دوسری احادیث باب کی تائید و مدد سے اسے مشخص کر دیا جائے تو اس میں سے فقہ حنفی نکلتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے ۔ اس لیے طلبہ حدیث حضرت ممدوح کے درس سے یہ ذوق لے کر اٹھتے تھے کہ ہم فقہ حنفی پر عمل کرتے ہوئے حقیقتا حدیث پر عمل کر رہے ہیں اور حدیث کا جو مفہوم ابو حنیفہ ؒ نے سمجھا ہے وہی درحقیقت شارع علیہ السلام کا منشاء ہے جس کو روایت حدیث ادا کر رہی ہے ، بلکہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ روایت حدیث سے امام ابو حنیفہ ؒ اپنا کوئی مفہوم پیش نہیں کرتے ، بلکہ صرف پیغمبر علیہ السلام کا مفہوم پیش کر رہے ہیں اور خود اس حدیث میں محض ایک جویا اور ناقل کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘2
دفاع احناف اور تطبیق اقوال
شاہ صاحب ؒ کا امام ابو حنیفہ ؒ کے ساتھ تعلق والہانہ تھا ۔ اختلافی مسائل میں ان کا اسلوب یہ تھا کہ فقہاء احناف کے اقوال میں سے وہ قول اختیار کرتے جو اختلاف کو کم سے کم کرنے اور تطبیق پیدا کرنے کا باعث ہوتا ۔ اس مقصد کے لیے وہ اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اختیار کردہ قول فقہاء احناف کے ہاں مرجوح سمجھا جاتا ہے ۔ مقصد اختلافی مسائل میں کوئی متفق علیہ قول اختیار کرنے کی جستجو تھی اور اگر کوئی ایسا قول نہ ملتا تو پھر بسا اوقات خود اجتہاد کرتے اور کوئی ایسی رائے اپناتے جس سے یا تو اختلاف ختم ہو جائے یا اس کی شدت میں کمی آ جائے ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ اس اسلوب کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اذا تكون في مسئلۃ روايتان من الامام ابي حنيفۃ رحمہ اللہ او قولان من المشائخ الحنفيۃ، كان يختار منھما ما يوافق الحديث الصريح الصحيح من غير تكلف و تاول، و ربما كان ھو من النوادر، فان لم يكن في الباب حديث صريح، او كان الامر دائرا في البين يرجح ما يوافق مذھبا آخر من المذاھب الربعۃ، ولعلہ كان المقدم حينئذ مذھب الشافعي ثم مالك رحمھما اللہ فيما اري و اللہ اعلم ۔ فان لم يكن لذالك مساغ كان يجتھد و يسعي في تقريب المذھب اليہ ليرتفع امر الخلاف راسا، او يھون امره و يخفف وقرہ، وھذا خلاف صنيع اكثر علماء العھد الغابر والعصر الحاضر۔4
’’جب کسی مسئلہ میں امام ابو حنیفہ ؒ سے دو روایات ہوتیں یا مشائخ حنفیہ سے دو قول مروی ہوتے ، تو آپ ان میں سے بغیر کسی تکلف و تاویل کے وہ قول اختیار کرتے جو صحیح صریح حدیث کے موافق ہوتا ۔ کبھی یہ قول نوادر میں سے بھی ہوتا تھا، اگر اس باب میں کوئی صریح حدیث نہ ہوتی یا معاملہ بین بین ہوتا تو مذاہب اربعہ میں سے کسی دوسرے مذہب کے موافق ترجیح قائم کر لیتے ۔ شاید کہ اس وقت سب سے مقدم امام شافعی کا مذہب پھر امام مالک ؒ کا مذہب ہوتا، میری رائے کے مطابق ، اللہ بہتر جانتا ہے ۔ اگر اس کی بھی گنجائش نہ ہوتی تو پھر وہ خود اجتہاد کرتے اور مذہب کو قریب کرنے کی کوشش کرتے تاکہ اختلاف سرے سے ہی رفع ہو جائے ، یا اختلاف کا مسئلہ ہلکا یا خفیف ہو جائے۔ یہ اسلوب ماضی و حال کے اکثر علماء کے صنیع کے خلاف ہے۔‘‘
شاہ صاحب ؒ اس بات کا بہت اہتمام کرتے تھے کہ احناف کے کسی قول پر عمل کرنے کے لیے اس بات پر مجبور نا ہونا پڑے کہ نص کو کسی خاص مورد کے ساتھ مخصوص مانا جائے اور اس نص کے خلاف کوئی تعبیر اختیار کی جائے ۔ ایسے مواقع پر اگر انہیں امام ابوحنیفہ ؒ کا کوئی نادر قول یا ان کے اصحاب میں سے کسی کا کوئی ایسا قول مل جاتا جس سے ان کا موقف نص کے مطابق یا قریب ہو سکتا تو آپ اسی کو اختیار کرتے خواہ وہ قول مابین الاحناف غیر معروف یا غیر متوارث ہی کیوں نہ ہوتا ۔ وہ کسی نہ کسی مرتبہ میں اسی قول پر عمل کو ترجیح دیتے ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے۔
مثالہ: قولہ تعالی: "فلا يقربوا المسجد الحرام " الآيۃ۔ اختلف الائمۃ في دخول الكافر المسجد علي ثلاثۃ اقوال : اجازہ الامام الشافعي في غير مسجد الحرام ، و منعہ مالك في المسجد الحرام و غيرہ سواء بسواء ، و جوزہ الحنفيۃ فيہ و بالاولی في غيرہ اعتبارا بالتعليل، و اذا ليس فليس ۔ فقال الشيخ رحمہ اللہ تعالی: قال محمد رحمہ اللہ في "السير الكبير" : لايجوز دخول المشرك في المسجد الحرام، فليستمسك ھھنا بقول محمد رحمہ اللہ، فانہ الصق بالقرآن ، و اقرب الي مذھب مالك و اوفق مذھب الشافعي۔5
’’اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا فرمان : " پس وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں " ۔ کافر کے مسجد میں دخول کے معاملے میں ائمہ کرام میں اختلاف ہے اور تین اقوال ہیں : امام شافعی ؒ نے اس کی اجازت دی ہے ، سوائے مسجد حرام کے ۔ امام مالک ؒ نے مسجد حرام اور دیگر مساجد میں داخلے سے منع کیا ہے ۔ اور احناف نے مسجد حرام میں داخلہ جائز قرار دیا ہے اور دیگر مساجد میں تو بطریق اولی اجازت ہے علہ کا اعتبار کرتے ہوئے ۔ جب یہ علۃ نہیں تو ممانعت بھی نہیں ۔ پس شیخ ؒ کہتے ہیں : امام محمد السیر الکبیر میں کہتے ہیں : " مسجد حرام میں مشرک کا داخل ہونا جائز نہیں ۔ چنانچہ اس مسئلہ میں امام محمد ؒ کے قول اس تمسک کیا ہے ، کیونکہ یہ قرآن کریم کے زیادہ قریب اور امام مالک و امام شافعی ؒ کے مذہب کے زیادہ موافق ہے۔
اس کی ایک اور مثال کتا ب اللہ کے حکم پر خبر واحد کے ذریعہ زیادتی اور تخصیص کا مسئلہ ہے ۔ عام طور پر کتب احناف میں مذکور ہے کہ خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ کے عام کو خاص نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک کتاب اللہ کے عام کو خبر واحد کے ذریعہ خاص کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں احناف کا موقف بالکل وہی ہے جو ائمہ ثلاثہ کا ہے ۔ اس باب میں انہوں نے امام کرخی ؒ کے نقل پر اعتماد کرتے ہوئے اس عام تعبیر کو چھوڑ دیا کہ خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ کے عام میں تخصیص جائز نہیں ۔ امام کرخی ؒ کا قول اختیار کرنے سے ائمہ اربعہ کے مابین اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں رہا ۔ شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
في كتبنا عامۃ ان عام الكتاب لا يخصص بالخبر عندنا ، والذي وضح لدي انہ يجوز ، لان كتب المذاھب الثلاثۃ صرحوا بجوازہ عندالائمۃ الاربعۃ، كما في " المحصول" ، و " المختصر" و شرحہ للعضد ، و شرح " الاسنوي" علي " المنھاج" للقاضي بيضاوي ، و المستصفي" و غيرھا ۔ فاختلف علماؤنا و علماء المذاھب الاخر في نقل مذھبنا ، وكنت اظن اولا ان المذھب الصحيح ما نقلوہ، لان ما في كتبنا نقل المتاخرين، وقد نسب الي الكرخي منا رحمہ اللہ تعالي ان التخصيص جائز عندہ ، فاعتمدت عليہ للمذھب ، وجعلت ما اختارہ مذھب الامام ، لانہ اقدم و اثبت، وما في كتبنا فكانہ مختارھم و ليس مذھبنا۔6
لیکن آخری عمر میں امام ابو حنیفہ ؒ کے ساتھ والہانہ عقیدت کی وجہ سے انہی کے قول کو اختیار کرنے لگے۔ یہ رویہ محض عقیدت پر مبنی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے وسعت مطالعہ اور عمر بھر کی تحقیقات کے نچوڑ کے طور پر یہ قلبی اطمینان تھا کہ امام صاحب ؒ کسی بھی قول میں گہرائی و گیرائی کے اعتبار سے اپنے اقران سے زیادہ ممتاز ، مزاج شریعت و صاحب شریعت ﷺ کے زیادہ قریب اور عصری تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ گزشتہ اسلوب پر اس انداز میں تبصرہ کیا کرتے:
’’حضرت ممدوح کا یہ جملہ کہ عمر بھر ابوحنیفہ ؒ کی نمک حرامی کی ، شاید اس طرف مشیر ہے کہ حضرت ممدوح جہاں روایات حدیث میں تظبیق و توفیق روایات کا اصول اختیار فرمائے ہوئے تھے، وہیں روایات فقہیہ میں بھی آپ کا اصول تقریبا تطبیق و توفیق ہی کا تھا ، یعنی مذاہب فقہاء کے اختلاف کی صورت میں حنفیہ کا وہ قول نقل فرماتے جس سے خروج عن الخلاف ہو جائے اور دونوں فقہ باہم جڑ جائیں ، اگرچہ یہ قول مفتی بہ بھی نہ ہو اور مسلک معروف کے مطابق بھی نہ ہو ۔ نظر صرف اس پر تھی کہ دو فقہی مذہبوں میں اختلاف جتنا کم سے کم رہ جائے وہی بہتر ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس میں بعض مواقع پر خود امام کا قول بھی چھوٹ جاتا اور صاحبین کا قول زیر اختیار آ جاتا تھا ، یعنی فقہ حنفی کے دائرے سے تو کبھی باہر نہیں جاتے تھے ، خواہ وہ بواسطہ صاحبین ابو حنیفہ ؒ ہی کا قول ہو ۔ شاید اس کو حضرت ممدوح نے ابو حنیفہ ؒ کی نمک حرامی سے تعبیر فرمایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخر عمر میں اس توسع سے رجوع کر کے کھلے طور پر مذہب کے معروف و مفتی بہ حصے بلکہ اقوال ابی حنیفہ ؒ کے اختیار و ترجیح کی طرف طبیعت آ چکی تھی اور یہ بلا شبہ اس کی دلیل ہے کہ ابو حنیفہ ؒ کی خصوصیات کے بارہ میں حق تعالیٰ نے انہیں شرح صدر عطا فرما دیا تھا اور وہ بالآخر اسی ٹھیٹھ لکیر ہی پر جم کر چلنے لگے تھے جس پر ان کے شیوخ سرگرم رفتار رہ چکے تھے۔‘‘7
شاید یہی وجہ تھی کہ جب امام ابو حنیفہ ؒ سے اگر کسی مسئلہ میں بہت سی روایات منقول ہوں اور شاہ صاحب ؒ کے ہاں ان میں سے کوئی ایک کسی قوی دلیل و برہان کے ساتھ قابل ترجیح نہ ہو اور نہ ہی ان کے تقدم و تاخر کی کوئی اطلاع ہو تو آپ ان سب روایات کے مابین بالکل ایسے ہی تطبیق کی کوشش کرتے جیسے متعارض نصوص کے مابین تطبیق دی جاتی ہے۔8 فیض الباری میں اس بات کو زیادہ تفصیل سے اس طرح بیان کیا ہے:
فائدۃ: واعلم أن الروايات إذا اختلفت عن إمامنا في مسألۃ، فعامۃ مشايخنا يسلكون فيھا مسلك الترجيح، فيأخذون بظاھر الروايۃ ويتركون نادِرَھا، وليس بسديد عندي ولا سيما إذا كانت الروايۃ النادرۃ تتأيد بالحديث، فإِني أحملہ علی تلك الروايۃ، ولا أعبأ بكونھا نادرۃ، فإِنّ الروايۃ إذا جاءت عن إمامنا رحمہ اللہ تعالی لا بد أن يكون لھا عندہ دليل من حديث أو غيرہ، فإِذا وَجَدتُ حديثًا يوافقھا أحمَلُہ عليھا. نعم، الترجيح إنما يناسب بين الأقوال المختلفۃ عن المشايخ، فإِن التضاد عند اختلاف القائلين معقول، وربما يكون التوفيق بينھما خلافَ منشئھم، وحينئذ لا سبيل إلا إلی الترجيح، بخلاف ما إذا جاء الاختلاف عن قائل واحد، فإِنّ الأَولی فيھا الجمع، فإِن الأصل في كلام متكلمٍ واحد أن لا يكون بين كلاميہ تضاد، فينبغي بينھما الجمع أوّلًا، إلا أن يترجح خلافہ، والأسف أنھم إذا مروا بأحاديث مختلفۃ يبتغون الجمع بينھا عامۃ، وإذا مروا بروايات عن الإِمام إذا ھم برجِّحون ولا يسلكون سبيل الجمع، فالأحب إليَّ الجمع بين الروايات عن الإِمام مھما أمكن، إلا أن يقوم الدليل علی خلافہ، فاعلمہ ولا تعجل.9
اختیار اقوال کا اسلوب اور احتیاط
جب کسی مسئلہ میں یہ ممکن ہوتا کہ دیگر ائمہ کرام کی موافقت میں موقف اختیار کیا جائے تو اسی موقف کو اختیار کرتے ہیں جس میں ائمہ کی موافقت ہو جائے ۔ اس کی ایک مثال ایسے اما م کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو ۔ احناف کا موقف یہ ہے کہ امام اگرچہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو مقتدی کے لیے کھڑا ہونا ہی ضروری ہے ۔ اس مسئلہ میں ایک مقام پر حافظ ابن حجر ؒ نے دلائل کی بنیاد پر یہ قول اختیار کیا ہے کہ مذکورہ صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنا واجب نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مستحب ہے ۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اگر وجوب منتفی ہو گیا ہے تو پھر ہم اس معاملے میں احتیاط پر عمل کرتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ہی کہیں گے ، اس میں احتیاط بھی ہے اور دو ائمہ کی موافقت بھی ۔ اور ہمارا اسلوب بھی یہ ہے کہ ہم اس عمل کو اختیار کرتے ہیں جس پر ائمہ کرام اور امت کا تعامل ہو ۔ شاہ صاحب ؒ کے الفاظ یہ ہیں:
وصرَّح ھناك الحافظ رحمہ اللہ: أن مقتضی الأدلۃ استحباب القُعُود خلف القاعد، ولا دليلَ علی الوجوب. قلتُ: وإذا انتفی الوُجُوب علی تصريح الحافظ رحمہ اللہ، فلا ريبَ أن الأحوطَ ھو القيام، لأنہ ذَھَبَ إليہ الإمامان الجليلان. وعندنا: العملُ بما عَمِلَ بہ الأئمۃ والأُمَّۃ أَوْلی.10
تطبیق بین الاقوال
شاہ صاحب ؒ کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ وہ ائمہ کرام کے مابین معمولی اختلاف میں اقوال کی ایسی تعبیر کریں کہ اختلاف یا تو ختم ہو جائے یا بالکل معمولی سا رہ جائے ۔ مثلا نماز میں مقتدی امام کے بالکل ساتھ سارے اعمال سر انجام دے گا یا امام کے کسی عمل کو پورا کرنے کے بعد عمل کی ابتداء کرے گا ۔ اس میں اختلاف ہے امام شافعی ؒ کا موقف تعقیب کا ہے ، یعنی امام کے بعد عمل شروع کرنے کا اور امام صاحب کا موقف مقارنت کا ہے ۔ یعنی امام کے ساتھ ہی عمل کو شروع کر دے ۔ شاہ صاحب ؒ نے اس مسئلہ میں یہ وضاحت کی ہے کہ احناف تعقیب کو بالکل رد نہیں کرتے بلکہ اتنی تعقیب کہ امام کوئی عمل شروع کر دے اور پھر مقتدی شروع کرے ، یہ تو عقلا بھی ثابت ہے ۔ اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ لیکن امام شافعی ؒ جو تعقیب زائد کے قائل ہیں وہ الفاظ سے ثابت نہیں ہوتی ۔ گویا تعقیب کی ایک خاص حد پر دونوں کا اتفاق ہے اور قدر زائد حدیث سے ثابت نہیں ، اس لیے دونوں اقوال میں کم از کم اس حد تک تو موافقت موجود ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
فاعلم أنہ اتَّفق كلُّھم علی أن المُبَادرۃ من الإمام مكروہ تحريمًا، مع صحۃ صلاتہ عندھم، وھذا يَدُلُّ علی اجتماع الصحۃ مع الكراھیۃ، خلافًا لابن تَيْمِيَۃ رحمہ اللہ. واختلفوا في التعقيب والمقارنۃ. فذھب الشافعيُّ رحمہ اللہ إلی الأول، وإمامُنا إلی الثاني. قلتُ: والتعقيبُ بقَدْرِ ما يعلمہ المقتدي من حال إمامہ مستثنی عقلا، والفاء لا تَدُلُّ علی التعقيب الزائد علی ذلك، فدلَّ علی أن نزاعھم في الفاء غير محرَّر، فإنھا وإن كانت للتعقيب، لكنہ يتحقَّق بالشروع بعد الشروع. ولا يَلْزَمُ لتحُّقق التعقيب أن يَشْرَعَ بعد فراغ الإمام، فنزاع الإمام إنما يكون ممن يدَّعِي الشروع بعد الفراغ، لا ممن يدَّعي الشروع بعد الشروع. فإن شروع المقتدي لا يكون إلا بعد شروع الإِمام. فھذا القَدْرُ من التعقيب يكفي للفاء، ولا يُنْكِرُہ الإِمام أيضًا وأمَّا بعد ذلك، فيقول بالمقارنۃ، ولا حُجَّۃ في الحديث علی التعقيب أزيد من ھذا.11
اس کی ایک اور مثال فاسق کے پیچھے نماز کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ ہے ۔ احناف کے ہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن اس میں کراہت تنزیہی ہے یا تحریمی ؟ شاہ صاحب ؒ نے کراہت تحریمی کے قول کو پسند کیا ہے اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ قول حدیث کے زیادہ قریب ہے اور اس کے ساتھ اس کو اختیار کرنے سے امام مالک کے ساتھ موافقت بھی ہو جاتی ہے ۔ امام مالک ؒ کا موقف عدم جواز کا ہے ، اگر کراہت تحریمی کا موقف اپنایا جائے تو مکمل نہ صحیح یک گونہ ان کے ساتھ موافقت ہو ہی جاتی ہے جو کہ غنیمت ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
مسألۃ: في "الدر المختار": أن الصلاۃ خلف الفاسق مكروھۃ كراھیۃ تنزيہ، وفي "الكبيري شرح المنيۃ": كراھیۃ تحريم، وھو المختار عندي، لأنہ يُوَافِق الحديث، وھو مختار المالكيۃ، بل المالكيۃ ذَھبوا إلی عدم الجواز.وأما عندنا، فھذا وإن كان جائزًا عند فَقْد الإمام العدل، كما في "البحر"، لكن في اختيار التحريم موافقۃ معھم في الجملۃ، ولذا اغتنمت ھذہ المُقَاربۃ، وأَفْتَيتُ بہ علی ما علمت من دأبي.12
دیگر مسالک کے موقف پر عمل کی گنجائش
عام احناف کا یہ طریق ہے کہ کسی حدیث سے کوئی ایسا عمل ثابت ہے جو ظاہر الروایۃ کے خلاف ہے ، اور ظاہر الروایۃ میں مذکور عمل کسی اور حدیث سے ثابت ہے تو وہ ظاہر الروایۃ کے خلاف حدیث پر کسی بھی لحاظ و مرتبہ پر عمل کو جائز قرار نہیں دیتے ۔ لیکن شاہ صاحب ؒ ظاہر الراوایۃ کے خلاف روایت سے ثابت شدہ عمل کو اختیار کرنے کی اجازت دیتے تھے لیکن خلاف الاولیٰ کی حیثیت سے۔ اس کی مثالوں میں اذان میں ترجیع ، آمین بالجہر ، سری نمازوں میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت اور رکوع و قیام کے وقت رفع الیدین اور اس جیسے دیگر مسائل شامل ہیں ۔ ان تمام مسائل میں احناف کی روایت کے خلاف روایت پر عمل کرنا بھی ان کے نزدیک جائز تھا لیکن خلاف اولیٰ کے مرتبے پر ۔ ایک موقع پر شاہ صاحب ؒ نے فرمایا:
کنت رایت فی " البدائع" ان رفع الیدین فی غیر التحریمۃ مکروہ تحریما ۔۔ کما یشہد بہ سیاقہ من غیر خفاء۔۔ فکان فی قلبی منہ شیئ ، وکنت اتمنی ان افوز بنقل من الاکابر خلافہ حتی رایت بعد خمس و عشرین حجۃ ان الامام ابابکر الرازی الجصاص صرح فی " احکام القرآن " فی ضمن بحث استطرادا من مسائل رؤیۃ الھلال: ان الخلاف فیہ فی الاولویۃ ، فبرد غلیل صدری و سکن جاشی ۔ ۔۔ ثم رایت فی نقول آخر من الاکابر فی سائر المذکورات فی الاولویۃ۔13
حسن تعبیر کی جستجو
شاہ صاحبؒ دوران درس طلبہ کی ایسے اصول و مسائل کی طرف راہنمائی کیا کرتے تھے کہ جہاں پر سوء تعبیر کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے یا ہونے کا اندیشہ ہوتا ۔ ایسے مقامات پر وہ سوء تعبیر کے نتائج پر تنبیہ کرتے ہوئے حسن تعبیر اختیار کرنے کی تلقین کیا کرتے ۔مثلا احناف کا یہ موقف ہے کہ جن مسائل میں کتاب اللہ اور حدیث کے مفہوم تعارض پیش آئے تو وہاں پر کتاب اللہ پر عمل کیا جائے گا اور حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔ اس اصول کی تعبیر عام طور پر وہ یوں کرتے ہیں:
ناخذ بالكتاب و نرد الخبر۔14
شاہ صاحب ؒ اس تعبیر کو پسند نہیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے:
اعلم انہ قد وقع في كتب الاصول في حذا البحث لفظ : الرد ، ان ناخذ بالكتاب و نرد الخبر، و ارادوا بہ عدم اعتدادہ في مرتبۃ الكتاب، و صدقوا ، الا انھم اساؤوا في التعبير ، فينبغي ان يحترز عن ھذا التعبير الموھم ۔۔۔ لئلا يستوحش منہ الخصوم ، فينبغي ان يوضح لفظ آخر مكانہ۔ 15
عصر حاضر سے متعلق مسائل پر تنبیہ
شاہ صاحب ؒ دوران درس عصر حاضر سے متعلقہ مسائل پر بھی تنبیہ کرتے جاتے تھے ، مثلا خواتین کے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے جہاں اصل مسئلہ بیان کیا وہیں یہ بھی بتا دیا کہ موجودہ زمانے میں حیاء کی قلت ،امور دین میں سستی اور طبائع میں پیدا ہونے والے فساد کے پیش نظر فتوی یہ ہے کہ خواتین گھر پر ہی نماز پڑھ لیں ، باجماعت نماز کے لیے مسجد میں نہ جائیں ۔ نہ جمعہ کے لیے اور نہ ہی دیگر نمازوں میں ۔
وكذلك يَحْضُرْنَ عندنا أيضًا، كما في «الھدايۃ». وفي «العيني» ھكذا عن سِراج الدين البُلْقيني الشافعي، وھو تلميذ مُغَلْطَاي الحنفي. وأما الآن فالفتوى أن لا تخرج الشوابُّ لا في الجمعۃ، ولا في الجماعات، وھكذا ينبغي، لظھور الفساد في البَرَّ والبحر وقِلّۃ الحياء، والتواني في أمور الدين. 16
حاصل کلام
مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ کا درس حدیث کئی حوالوں سے ممتاز حیثیت کا حامل تھا ، اپنے عہد کے حالات کے پیش نظر ان کی زیادہ توجہ مسائل فقہ حنفی کو حدیث سے مبرہن کرنے کی طرف تھی ، لیکن اعتدال و انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔ ان کے درس میں مسلکی تعصب نہیں ہوتا تھا ۔ ان کی کوشش ہوتی کہ اختلافی مسائل میں ائمہ احناف کے اقوال میں سے وہ قول اختیار کریں جو اول درجے میں حدیث صحیح کے قریب ہو اور ثانوی درجے میں دیگر ائمہ کرام کے اقوال سے بھی موافقت رکھتا ہو۔ اس ضمن میں وہ نوادر اقوال کو اختیار کرنے میں بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے ۔
حوالہ جات
- مضمون قاری محمد طیب صاحب ؒ ، الانور ، ص: 255
- مضمون قاری محمد طیب صاحب ؒ ، الانور ، ص: 258
- مضمون قاری محمد طیب صاحب ؒ ، الانور ، ص: 256-257
- بنوری ، سید محمد یوسف ، (1908ء-1977ء)نفخة العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ انور ، ص: 55، المجلس العلمی ، کراچی ، پاکستان، 1969ء
- نفخۃ العنبر ، ص: 64
- محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)، فيض الباري علي صحيح البخاري، 1/ 47 ،عدد الأجزاء: 6الناشر: دار الكتب العلمية بيروت – لبنان، الطبعة: الأولى، 1426 هـ - 2005 م
- حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 262
- نفخۃ العنبر ، ص:58
- فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 465)
- فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 275)
- فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 276)
- فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 279)
- نفخۃ العنبر ، ص: 58
- فيض الباري علي صحيح البخاري ، 1/ 46
- فيض الباري على صحيح البخاري 1/ 46
- فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 502)