مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے تھے۔خوش قسمتی کا پہلو تو ظاہر ہے۔’’بدقسمتی‘‘ کا پہلو یہ ہے کہ اس قدر طویل اورفعال علمی وفکری زندگی گزارنے کے باوجود ان کی مقبولیت کادائرہ نسبتا محدود رہا۔ ان کی شہرت میں بدنامی کا عنصر غالب رہا۔وہ مسلمانوں کے کسی بھی حلقے میں اپنی کوئی مستقل اور مضبوط جگہ نہیں بناسکے۔ہر حلقے کے’’بے شعور وباشعور‘‘ افراد کو ان کے مختلف نظریات سے شدید اختلاف رہا۔یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے معاصرین کی طرح اپنے رفقا و تلامذہ کی کوئی ایسی ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی فکری وراثت کو سنبھال کر اسے پروان چڑھا سکے۔
مولانا سے میرا تعلق
مولانا وحید الدین خاں ؒ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا،برتا اور پرکھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ عرصے تک کام کرنے کا موقع ملا۔اور اس دوران مجھے ان کے ساتھ طویل علمی صحبتیں میسر آ ئیں۔فکری نشستوں اور پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بارہا مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ تبادلہ ٔ خیالات کا اتفاق ہوا۔ علاوہ ازیں میں نے مولانا کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔سالہاسال تک ’’الرسالہ‘‘ کے مطالعے کے جنون میں مبتلا رہا۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کا یکساں طور پر مطالعہ کیا ہے۔1995 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے ذوق عربی کی تسکین کے لیے میں نے ندوۃ العلماء ،لکھنؤکا رخ کیا۔وہاں میرا داخلہ’’ علیا اولی ادب‘‘ میں ہوا۔لیکن دوران سال میں نے ندوے کو خیر آباد کہہ دیا۔ کیوں کہ اس کا ادب عربی کا نصاب مختلف فنون پر مشتمل تھا جن سے میں دیوبند کی طالب علمی کے دورانیے میں گزرچکا تھا۔ میرا مقصود صرف عربی زبان میں تخلیق وترجمے کی اعلی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ ندوے سے لوٹ آنے کے بعد دہلی،علی گڑھ اور بجنور کے علمی گلیاروں کی خاک چھانتا رہا۔پھر 1997 میں بطور مدیر معاون’’ الرسالہ‘‘ سے وابستہ ہوگیاجس کا اشتہار روزنامہ’’ قومی آواز‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوا تھا۔کچھ وقفوں کے ساتھ قریبا ایک سال تک مولانا سے رسمی وابستگی رہی۔
مولانا کی صحبت بافیض سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ایک ایسے دور میں جب کہ معاشی مستقبل کے حوالے سے بے اطمینانی کی کیفیت ذہن ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور میں خود کو ایک دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا تھا کہ مجھے پہلے اپنے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف قدم آگے بڑھانا چاہیے یا علم ومطالعے کو پروان چڑھانے کوترجیح دینا چاہیے؛ مولانا کی صحبت نے مجھے دوسرے پہلو پراپنی توجہ کومرکوز رکھنے پر آمادہ کیا۔ مولانا کی صحبت میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے نرا جاہل اور جدید دنیا سے نابلد ہوں۔ اب تک میں عربی زبان کے سحر میں مبتلا اور اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر تھا۔واقعہ یہ ہوا کہ مولانا کی معیت میں دہلی میں ایک انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت ہوئی جس کی ساری کارروائی از اول تا آخر انگریزی میں تھی۔ مجھے کچھ بھی پلے نہیں پڑسکا ۔اس پر میرے لیے ذلت کا سامان یہ ہوا کہ بعض مندوبین نے مجھ سے مخاطب ہوکر انگریزی میں سوالات اچھال دیے جن کا جواب میرے پاس سرکھجانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔میرے تاسف وندامت کودیکھتے ہوئے مولانانے مجھے خود سے انگریزی سیکھنے کے گر بتائے ۔ میں نے اس پر عمل کیا اور کامیاب رہا۔ مولانا کی صحبت کا ایک اثر یہ ہوا کہ میں شعروادب کی بھول بھلیوں سے باہر نکل آیا۔شعروادب کا ذوق مجھےوراثت میں ملا ہے کہ میرے والد ایک اچھے اور قادر الکلام شاعر تھے۔چناں چہ طالب علمی کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی میں خود کوشعرگوئی اور ادب نویسی سے باز نہ رکھ سکا جس کے نتائج ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نئی دہلی، ماہنامہ’’ ایوان اردو‘‘،نئی دہلی اور دیگر سرکاری وغیر سرکاری ادبی رسائل میں شایع ہوتے تھے۔لیکن مدتوں سے منھ کو لگی ہوئی یہ کافر مولانا کی صحبت میں چھوٹ گئی۔کیوں کہ مولانا نے اس کی شدید حوصلہ شکنی کی۔
یہ عظیم الشان فائدے مجھے مولانا کی زندگی کوقریب سے دیکھنے اور ان کی نصیحتوں پر کسی قدر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوئے۔تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا میری اس باب میں رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کن کتابوں اور کن شخصیات کو ترجیحی طور پر پڑھنا چاہیے؟ کن موضوعات پر مطالعے کو اپنی اس ابتدائی علمی زندگی کے اس مرحلے میں مجھے پیش نظر رکھنا چاہیے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے سامنے اس کا خاکہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مجھے’’ الرسالہ‘‘ لٹریچر میں پوری طرح خود کو غرق کردیناچاہیے۔
وہ معاصرین اور دور حاضرکے اصحاب علم وفکر کی کتابوں کوتواس لائق ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کسی کوان کے مطالعے کا مشورہ دے سکیں، متقدمین کی کتابوں میں سے چند ایک کے علاوہ(جن میں مقدمہ ابن خلدون سرفہرست ہے) وہ تقریبا پوری اسلامی کلاسکس بالفاظ دیگر اسلامی تراث کودفتر بے معنی سمجھتے ہوئے ’’غرق مے ناب اولی‘‘ تصور کرتے تھے۔مولانا سے دامن کشی کی بنیادی وجہ ان کی افتاد طبع اور ان کے غلو آمیز نظریات تھے۔قائل کرنے کے بجائے اپنے نظریات کومسلط کرنے کا ان کا انداز نہایت ناگوار گزرتا تھا۔ انہیں ایسا معاون چاہیے تھا جو ان کی شخصیت کے آفاق میں اس طرح گم ہو کہ باہر کی پوری دنیا اس کی نظروں سے بالکلیہ اوجھل ہوچکی ہو۔وہ’’ الرسالہ‘‘ تحریک کا ایسا مخلص خادم چاہتے تھے جو اپنی ضروریات ومطالبات سے اوپر اٹھ کر خود کو اس تحریک کے لیے پوری طرح تج دینے اور قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔مجھے بہت جلد محسوس ہونے لگا کہ میں اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔کسی شخصیت کا ضمیمہ بن جانا علمی زندگی اور شناخت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔مولانا کواس کا کوئی ملال بھی نہیں تھاکہ کون ان سے الگ ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟وہ ان احساسات سے بالاتر تھے۔
۲۰۰۰میں تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند(نئی دہلی) سے،اس سے نکلنے والے ماہنامے، ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ سے بطور مدیر تحریر وابستہ ہوگیا۔اسی سال تنظیم نے بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ پر ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا جس میں شرکت کی مولانا کوبھی دعوت دی گئی۔انہوں نے اس کے لیے مقالہ لکھنے کی یہ شرط رکھی کہ راقم الحروف چند ایام ان کے پاس حاضر ہواوروہ یہ مقالہ اس کو املا کرائیں۔چناں چہ اس شرط کی منظوری کے ساتھ یہ مقالہ تیار اور شایع ہوا۔ اس میں مدارس کی قدرومعنویت اور اصحاب مدارس کے کردار اور کارناموں کو سنجیدہ علمی اسلوب میں نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن سیمینار میں مولانا کومقالہ پڑھنے نہیں دیا گیا۔ سامعین کے ایک طبقے نے جس میں بعض معروف علما بھی شامل تھے،وہ شور وہنگامہ برپا کیا کہ مولانا کواسٹیج سے اترنا اور مجھے دوران پروگرام مولانا کوان کے گھرچھوڑنا پڑا۔مولانا نے مقالے پر کافی محنت کی تھی۔بقول ان کے اس کی پریزنٹیشن کی انہوں نے باضابطہ ریہرسل کی تھی۔بلاشبہ یہ ناخوش گوار واقعہ تھا لیکن مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ ایسے تمام ناخوش گوار واقعات کو جھٹک دینے اور برداشت کرجانے کی غیر معمولی نفسیاتی قوت رکھتے تھے۔
نادر و کمیاب خوبیاں
مولانا بڑی اہم خوبیوں کے مالک تھے۔ان کی شخصیت اور ان کے عملی شب وروز میں سیکھنے کی بہت سی چیزیں تھیں:
- وقت کے استعمال کی جونادر مثالیں متقدمین کے یہاں ملتی ہیں، وہ ناقابل قیاس حد تک مولانا کے یہاں موجود تھیں۔ وہ ایک ایک لمحے کوناپ تول کرخرچ کرتے اور اس کے ضیاع پر کف افسوس ملتے تھے۔
- علم ومطالعے کے لیے اپنی زندگی کووقف کردینے کا جوجذبہ ان کے یہاں پایا جاتا تھا، اس کی نظیر فی زمانہ کم ملتی ہے۔انہوں نے اپنی اکثر خواہشات، تمناؤں اور حسرتوں کواپنے فکری مشن کی قربان گاہ پرچڑھادیا تھا۔اس کے منفی اثرات ان کے خاندان پرمرتب ہوئے لیکن مولانا کی سوچ ان سب سے مافوق تھی۔
- کسی بڑے سے بڑے حادثے سے بھی ان کا ذہن بالکل متاثر نہیں ہوتا تھا تھا۔ایک دن میں حاضرہوا تومولانا نے بتایا کہ ان پر آج قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ حالاں کہ مولانا اپنی نشست گاہ میں تنہا تھے۔ تاہم خدا کے فضل سے اپنا بچاؤ کرنے میں کامیاب رہے۔یہ واقعہ انہوں نے اس تمہیدکے ساتھ بیان کیا کہ:’’ آدمی کوحالات سے کبھی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔یہ اس کی علمی وفکری زندگی کے لیے زہر قاتل ہے‘‘۔اس حملے کے دن بھی مولانا ہشاش بشا ش پورے دن حسب معمول کام میں مشغول رہےجیسے سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
- ان کا ذہن بیداری کے تمام تر لمحات میں متحرک رہتا تھا۔ جس طرح شعرا پر اشعار کانزول ہوتا ہے، مولانا پر اس طرح افکار کا نزول ہوتا رہتا تھا۔جیسے ہی کوئی فکر ’’نازل‘‘ ہوتی،وہ اسے کسی ڈائر ی میں لکھواتے۔ پھر وہی فکر پارہ مستقل مضمون کی شکل اختیار کرلیتا۔
- ایک مربیانہ وصف یہ تھا کہ وہ وقفے وقفے سے ،جاری مشغولیت کو روک کر نصیحت کرتے تھے۔ مثلا ایک دن ایک مضمون کا املا کراتے ہوئے قلم رکو اکر کہنے لگے :’’ آپ کواپنی شادی کوجس حد تک ہوسکے موخر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ اورضمن میں خود اپنی شادی سے متعلق ایسا نیم افسانوی اور حیرت انگیز واقعہ بیان کیا جو ناقبل یقین حد تک انوکھا تھا۔اس سے ان کی اہلیہ کی قرباینوں کا بھی اندازہ ہوا۔فنائیت فی العلم کی ایسی مثالیں اب عنقا ہیں۔
- مولانا کی ایک اہم خوبی ان کی سادگی تھی۔وہ گاندھی جی کا قول دہراتے تھے کہ:’’سادہ زندگی، اعلی سوچ‘‘(simple living ,high thinking) کہنے کو تو ان کے پاس کروڑوں کی دولت ودنیا تھی لیکن ان کی شبانہ روز کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہ تھا۔ خالص سبزی خور تھے،مرغ وماہی سے سخت متنفر۔ عید الاضحی کا گوشت بھی بس چکھ لیتے تھے۔(البتہ ان کے بقول مہمان کومزید زحمت سے بچانے کے لیے وہ بعد میں مہمان داری میں حسب ضرورت گوشت کا استعمال کرلینے لگے تھے)۔اے، سی،کولر اور فریج جیسی جدید دور کی ’’نعمتوں‘‘ کووہ اپنے اوپر ’’حرام‘‘ تصور کرتے تھے۔کسی مقامی میٹنگ میں شرکت ہویا کسی اعلی سطح کے بین الاقوامی فورم میں؛مولانا کی ان کے لیے تیاری اور ان میں شرکت کا انداز یکساں اور درویشانہ ہوتا تھا۔
- مولانا کا ایک قابل تعریف وصف استغنا تھاجس کا اندازہ لوگوں کوکم ہے۔ایک دن مولانا نے مجھے بتایا کہ آنجہانی پرمود مہاجن اور بی جے پی کے بعض دوسرے رہنما گورنرشپ کی پیش کش لے کر ان کے پاس حاضر ہوئے تھے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ صوفی منش آدمی ہیں۔ انہیں اس کی ضرورت نہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کے ٹاپ کے رہنماؤں، جن میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی دونوں شامل ہیں، سے بے انتہا قربت کی بنا پر ان کے لیے شاید نائب صدر جمہوریہ تک کی کرسی تک رسائی حاصل کرلینابہت مشکل نہیں تھا،لیکن وہ ان چیزوں سے مستغنی تھے۔
مولانا کی کشادہ ظرفی
مولانا بہت سے معاملات میں بہت کشادہ ظرف واقع ہوئے تھے( اگرچہ کچھ دوسرے معاملات میں ذرا تنگ ظرف بھی۔)مولانا سے وابستگی کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے غیر مطبوعہ مضامین کے کئی ضخیم ترین بنڈل یہ کہہ کر میرے حوالے کردیے کہ میں ان میں سے جن کو چاہوں’’ الرسالہ‘‘ میں اشاعت کے لیے منتخب کرلوں اور باقی کوان سے مشورے کے بغیرکوڑے دان کی نذر کردوں۔چناچہ میں نے بمشکل دس فیصد مضامین کےعلاوہ سارے مضامین ضایع کردیے ۔متعدد مضامین کو جونہایت محنت سے لکھے گئے تھے،میرے اظہار اختلاف کے بعد وہ میرے سامنے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتے تھے۔ مجھے ایسے دو مضامین کی اس وقت یاد آتی ہے: ایک مضمون میں انہوں نے اس خیال کا اظہا ر کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں دعوت کا کام فتوحات کےہجوم میں دب کر رہ گیا۔ میرے اعتراض پر انہوں نے بلا تامل اسے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا۔ دوسرے مضمون کا عنوان تھا: البادی اظلم(شروع کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔) اس میں اس موقف کا اظہار کیا گیا تھا کہ چوں کہ فسادات کی ابتدا ہندوستان میں مسلمان کرتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ بڑے ظالم ہیں۔میری تنقید پر انہوں نے مسکراکر میرے سامنے اسےپھاڑ کرردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
ان واقعات سے اندازہ ہوا کہ مولانا کے اندر کشادہ ظرفی اور لچک پائی جاتی ہے۔ البتہ وہ اس کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھے کہ اپنے کسی نظریے اور موقف کے کسی جز سے بھی دست بردار ہوں۔ان کی کتاب ’’ تجدید دین‘‘ پڑھ کر مجھے شدید تکدر ہوا جس کا اظہار میں نے مولاناکے سامنے کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ مولانا رضوان القاسمی ؒ( مہتمم دار العلوم سبیل السلام ،حیدر آباد)نے بھی اس کتاب پراسی شدت کے ساتھ تنقید کی ہے۔ مختلف مواقع پر ان کی ’’تسلیم کی خو‘‘ کودیکھتے ہوئے میں نے مولانا کومشورہ دیا کہ وہ ایک ایسی تحریر لکھ دیں جس کامضمون یہ ہوکہ ان کے جونظریات جمہورعلمائے امت سے متصادم ہیں،وہ ان سے اظہار برأت کرتے ہیں۔مولانانے فرمایا کہ میں خود سے یہ تحریر لکھ لوں، مولانا اس پر دستخط کردیں گے۔لیکن انہوں نے اگلے ہی لمحے وضاحت کی کہ :’’یہ محض آپ کے اطمینان خاطر کے لیے ہوگی۔ورنہ جس طرح میں کل ان تمام نظریات ومواقف کودرست تصور کرتا تھا،آج بھی ویسا ہی تصور کرتا ہوں۔ ان سے دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔میں نے کہا کہ پھر صرف میرے اطمینان کے لیے اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟
مولانا کی خوبی (اور اسی کے ساتھ خامی !)یہ تھی کہ وہ نہایت سنجیدگی اور متانت سے معترض کے اعتراضات کوسنتےاور اپنے نقطہ نظرکی بھرپور طور پر تفہیم کی کوشش کرتے تھے ۔ معترض کی درشت کلامی اور طنز وتشنیع پر بھی قطعاً مشتعل نہیں ہوتےلیکن اس تفہیم پرواقع ہونے والے نہایت وزنی اشکالات واعتراضات کوبالکل خاطر میں نہیں لاتے اورخاموش ہوجاتے یا موضوع گفتگو بدل دیتے تھے۔
مولانا اور ہندوستانی مسلمان: کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں اس پہلوپرغور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مولانا اور امت مسلمہ کے درمیان جو کشمکش پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں نے ایک دوسرے کوتقریبا مسترد کردیا، اس کا نقصان کس کے حق میں کیا ہوا؟میرا خیال ہے کہ مولانا اورہندوستانی مسلمان دونوں اس نقصان میں برابر کے شریک ہیں۔مولانا اور ان کی ایک مثبت نتیجہ خیزفکری تحریک کویہ خسارہ برداشت کرنا پڑا کہ وہ صرف ایک طبقے تک سمٹ کررہ گئی۔ مولانا کی فکر وقت کی آواز تھی ۔ اس کے اسلوب پیش کش میں قوت وتوانائی تھی جس نے اول وہلے میں ہی اہل علم کومتاثر کیا اور مولانا علمی وفکری دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے لیکن خاص طور پر ملی معاملات میں اپنی’’غیر معتدل‘‘ آرا وبیانات سے خود کواس حدتک متنازعہ بنالیا کہ عوام وخواص کی اکثریت کی نگاہ میں ان کی فکرکی معنویت وافادیت مشتبہ ہوکررہ گئی۔مولانا کی نہایت تعمیری سوچ بھی لوگوں کوتخریبی نظرآنے لگی۔ان کے اعلی اور قیمتی افکار وخدمات پس منظر میں چلے گئیں۔ اور ان کے کمزور اور متنازعہ فیہ بیانات واقوال لوگوں کو ذہنوں پر چھا گئے۔میں سمجھتا ہوں کہ مولانا اور ہندوستانی مسلمان، جن میں عوام وخواص دونوں شامل ہیں، نے ایک دوسرے کوسمجھنے میں شدید غلطی کی۔ مولانا سمجھتے تھے کہ پوری ملت یا امت کا فکری شاکلہ (یہ مولانا کی خاص اصطلاح ہے) بگڑگیا ہے۔ اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ لیکن اس تشکیل نوکے کے عمل میں مولانا نے توڑنے اور ڈھانے پرتوجہ زیادہ مرکوز رکھی اور تعمیر پر کم۔کیوں کہ تعمیر ی عمل تدریج اور حکمت عملی چاہتا ہے۔ اپنے مدعویا مخاطب کو آخری حدتک مشتعل اور متنفر کرکے مقصود کوحاصل کرنے کی پالیسی خود مولانا کےاصل الاصول سے ٹکراتی ہے جس کے وہ زندگی بھر مبلغ رہے۔ایک پیغمبر اور داعی اپنی قوم کوسب سے پہلے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور اس سے آخری حد تک قربت ومفاہمت کی راہیں تلاش کرتا ہے تاکہ اس کی آواز سنی جاسکے اور اس کے پیغام پر کان دھراجاسکے۔ افسوس مولانا اس پہلو پرزیادہ غور نہیں کرسکے۔
مولانا سے نفرت اور دوری کے نتیجے میں ملت کا جونقصان ہوا وہ بھی کم نہیں ہے۔اس وقت مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت وعداوت کی جوآندھی چل رہی ہے اورجس سے مسلمانوں کا ملی وسیاسی وجود ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے، اس کا پیشگی احساس وادراک کرنے والوں میں مولانا سرفہرست تھے۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندو فسطائی تنظیموں کے ساتھ مولانا کے قریبی روابط سے ملت میں جوبھی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کی پنپتی فضا پر پیش بندی کی ایک کوشش تھی۔اس تعلق سے ان کا ذہن مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے متاثر تھا اور وہ ان کے بڑے مداح تھے۔مولانا کی شخصیت اس لحاظ سے ہندوستان کی واحد شخصیت تھی جسے فریق مخالف کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق امورومعاملات میں بی جے پی کے قائدین اور پالیسی ساز ان سے مشورے کرتے اور ان کی راے کواہمیت دیتے تھے۔
ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے جومولانا نے مجھے بتایا تھا۔۱۹۹۹ میں قندھار طیارہ اغوامعاملہ پیش آیا۔ اغوا کاروں سےہندوستانی حکومت کے اہل کاروں کی گفت وشنید سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ ’’دیوبند‘‘ سےگہری عقیدت رکھتے ہیں اور وہاں کی زیارت کے خواہش مند ہیں۔اس واقعے کے بعد بی جے پی نمائندوں کا ایک وفد مولانا کے پاس حاضر ہوا اوراغوا کاروں کی دار العلوم دیوبندسے فکری مناسبت وہم آہنگی کی حقیقت جاننی چاہی۔ مولانا نے فرمایا کہ :’’میں توخود دیوبندی ہوں‘‘۔ اور پھر انہیں سمجھایا کہ دیوبندیت بریلویت صرف ایک مذہبی گروہی شناخت سے عبارت ہے ۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مولانا ایک بیچ کی کڑی ہوسکتے تھے اور وہ رول ادا کرسکتے تھے جوجنگ احزاب کے موقع پر صحابی رسول حضرت نعیم بن مسعود ؓنے ادا کیا تھا اور جن کی دانش مندانہ ترکیب سے نہایت خطرناک جنگ کی مسلط کردہ وبا مسلمانوں کے سرسے ٹل گئی تھی۔ لیکن افسوس ہندوستان کی مسلم کمیونٹی مولانا کی اس انفرادی حیثیت سے فائدہ نہیں اٹھاسکی۔مولانا مسلسل اس موضوع پر لکھتے رہے کہ مدعو قوم سے نفرت وکشاکش مسلمانوں کے لیے ہلاکت آفریں ہے لیکن مولانا کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔اکثریت سمجھتی رہی کہ مولانا اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بی جے اور آر ایس ایس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مولانا پر یہ الزام بے بنیاد ہے۔تشددد پسند ہندو تنظیموں سے مولانا کی وابستگی ان کی مخصوص دعوتی ایپروچ کی دین تھی۔وہ اس موقف کا برملا اظہار کرتے تھے کہ ڈائلاگ اور مفاہمت کی کوششیں اصلا تشدد پسند افراد اور جماعتوں کے ساتھ کی جانی چاہیئیں تاکہ ان کی ذہنیت میں مثبت تبدیلی پیدا ہو،نہ کہ امن پسند افراد کے ساتھ ،جو پہلے ہی ’’بے مسئلہ ‘‘ ہیں۔
ایک دن میں حاضر ہوا تو مولانا کوشدت کے ساتھ اپنا منتظر پایا۔ مولانا نے بتایا کہ : ’’وزیر اعظم واجپائی کی طرف سے ایک اہم میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں‘‘۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد میٹنگ تھی جس میں شرکت میں مولانا کوتامل تھا ۔ میں نے ذرا ہلکے موڈ میں کہا کہ:’’ مولانا! آپ کی جوبدنامی ہونی تھی وہ توہوچکی۔ اب مزید کیا ہوگی؟‘‘۔(یہ واقعہ اس واقعے کے بعد کا ہے جب آر ایس ایس کی ایک میٹنگ میں مولانا کی پیشانی پر قشقہ لگادیا گیا تھا اور اس کی تصویر میڈیا میں آنے کی وجہ سے مولانا کی شدید بدنامی ہوئی تھی۔) آپ میٹنگ میں شریک ہوں۔میں بھی چلتا ہوں‘‘۔ مولاناکواس پر اطمینان ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ:’’ میں اب ضرور شریک ہوں گا۔لیکن آپ کی شرکت اس میں ممکن نہیں ہے‘‘۔ اس واقعے نے مجھے بھی تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کیا۔ کیوں کہ مولانا کے ساتھ ہر پروگرام میں مجھے شرکت کی مکمل اجازت پیشگی طور پر حاصل تھی، لیکن بعد کے واقعات نے مجھے اس حقیقت کوسمجھنے میں مدددی کہ یہ مولانا کی مخصوص دعوتی ذہنیت اور فکری مشن کا حصہ تھا۔اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض پنہاں نہیں تھی۔نیتوں کا حال بس خدا کومعلوم ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے ملت کو اور ملت نے مولانا کوکھودیا۔اس میں ’’ونر‘‘ کوئی نہیں ؛دونوں ہی کھونے والے ہیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف سب سے بلند اور موثر آواز مولانا کی تھی۔’’تعبیر کی غلطی‘‘کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔اقامت دین اور حاکمیت الہ کی اصطلاحوں میں سوچنے والوں کے فکری زاویے بدل گئے۔مولانا علی میاں ندوی ؒ کی ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ اور اخوان المسلمین کے مرشد عام دوم حسن الہضیبی کی ’’دعاۃ لاقضاۃ‘‘ نے وہ کام نہیں کیا جومولانا کی مذکورہ کتاب نے کیا۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف مولاناکی کوششیں مزید موثر اور نتیجہ خیز ہوسکتی تھیں اگر ان کوملت کا باضابطہ تعاون حاصل ہوتا۔
مولانا کے کام کی تین اساسی جہات
مولانا وحید الدین خان ؒ کے کام اور خدمات کی میری نظر میں تین اہم اور بنیادی جہات یا رخ ہیں:
۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے مخالف بیانیے کی تشکیل
۲۔ اسلامی عقلیات کی تشکیل
۳۔دعوتی لٹریچر کی تالیف واشاعت
۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے حوالے سے سرسری ذکر اوپر آیا۔جماعت اسلامی سے نکلنے کے بعد مولانا نے اس کواپنی فکر کا مرکز بنایا اور’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ متعدد چھوٹی بڑی تحریریں تسلسل کے ساتھ لکھیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اصحاب علم وفکر کی توجہ کا مرکز بنا اور اس پرمباحثات شروع ہوئے۔خود جماعت اسلامی سے وابستگی رکھنے والے مختلف اصحاب علم: مولانا سلطان احمد اصلاحی ؒ ،مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی کے افکار پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔خواہ یہ اثرات براہ راست ہوں یا بالواسطہ۔ان دونوں حضرات کی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ مرحوم مولانا اصلاحی کی نظریہ ٔ حاکمیت الہ کی رد میں اورثانی الذکر کی نظریہ ٔ جہاد میں غلو کی رد میں۔ مولانا کی پہلی مضبوط شناخت یہی تھی۔عالم عرب میں بھی سیاسی اسلام کی علمی تنقید کے حوالے سے اس موضوع پرمولانا کی فکری کاوشوں نے اس بحث کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کیا۔ وہاں کے علمی حلقوں پر اس کے اس کے اثرات مرتب ہوئے۔مغربی حلقوں میں اس حوالے سے مولانا کو جوپذیرائی ملی وہ بالکل ظاہراور متوقع تھی۔ جو کمی دوسرے موضوعات کےحوالے سے نظر آتی ہے،وہی کمی یہاں بھی نظر آتی کہ اس فکر کواستحکام عطا کرنے اور پروان چڑھانے والے رفقائے کار اور تلامذہ مولانا کومیسر نہیں آئے۔ مولانا کو جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عرصے تک الفاظ وتعبیرات کی تبدیلی کے ساتھ کہہ فارغ ہوگئے۔اس میں اضافہ مولانا کی سرپرستی میں دوسرے افراد کے ذریعہ ہوتا تویہ فکر اور مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ بناتی۔لیکن ’’الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ کام رک گیا۔’’سیاسی اسلام‘‘ کا نظریہ جس تیزی کے ساتھ اپنے پر پھیلاتا رہا، اس تیزی اورشدت کے ساتھ اس کا تعاقب نہیں کیا جاسکا۔’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ مزید مضبوط اور موثر تحریریں اس موضوع پر نہیں آسکیں۔
۲۔مولانا کےکام کی دوسری اہم جہت اسلامی عقلیات کی تشکیل ہے۔ برصغیر ہند میں سرسید احمد خاں ؒ نام اس کے بنیاد گذاروں میں اہمیت رکھتا ہے۔لیکن ان کی کوششیں اس حوالے سے افراط وتفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔البتہ اس کے نتیجے میں اس تعلق سے ذہنوں میں سوالات ابھرے اور کام کا داعیہ پیداہوا۔ پھر شبلی نعمانی (الکلام اور علم الکلام) اور علامہ محمد اقبال(The Reconstruction of Religious Thought in Islam ) نے اس حوالے سے جوکام کیا وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔اس کے اثرات غیرمعمولی طور پر عالم اسلام اور اس کے باہر کے علمی وفکری حلقوں پر مرتب ہوئے۔جدید علم کلام پرگفتگوآگے بڑھی۔مولانا کام کام اس میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا نے جدید سائنس کو اپنا موضوع بنایا۔جدید سائنسی افکار واکتشافات کے حوالے سے مذہبی فکریات اورمذہبی نظریہ ٔ حیات وکائنات( world view) پر عائد کیے جانے والے اعتراضات وتنقیدات کاجائزہ لینے کی کوشش کی۔مذہب کے خلاف سائنسی مفروضات کا علمی رد لکھا جو’’علم جدید کا چیلنج‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ۔اس موضوع پر یہ کتاب ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ’’عقلیات اسلام‘‘،مذہب اور سائنس‘‘ اور ’’مذہب اور جدید چیلنجز‘‘ جیسی کتابیں اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔یہ کہنا میری نظر میں بہت صحیح نہیں ہے کہ مولانا مغربی فکروفلسفے کا بہت گہرا ادراک رکھتے تھے۔عالم اسلام کیا خود برصغیر ہند میں اس حوالے سےشہرت رکھنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے۔(بظاہر مولانا کوفلسفے سے کچھ خاص شغف نہیں تھا) لیکن مولانا نے جس سنجیدہ، سادہ اور مضبوط علمی اسلوب میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی وہ بہت اہم اورنتیجہ خیز تھی۔کاش مولانا نے اس موضوع پر کام کومزید آگے بڑھایا ہوتا لیکن چنداچھے ابتدائی نقوش کے بعد مولانا نے اس کام کوموقوف کردیا یا یہ کہ مولانا کا زاد علم اس حوالے سے ایک حد پر جا کر ختم ہوگیا۔
اس کی ایک وجہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ یہ موضوع بہت زیادہ مطالعہ چاہتا ہے،دوسرے موضوعات پر کاموں کےہجوم میں جس کی فرصت مولانا کو نہیں مل سکتی تھی۔ دوسرے موضوعات پر کام کی مصروفیات کو کم کرکے اس کام کوترجیحی فہرست میں رکھنا چاہیے تھا، لیکن مولانا اس کے لیے خود کوتیار نہیں کرسکے۔یہ کام بھی فرد واحد کا نہیں تھا۔مولانا کوایسے افراد تیار کرنے چاہییں تھے جو اس کام کا بیڑاسنبھال سکیں اور اسے جاری رکھ سکیں۔لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔
۳۔ مولانا کے کام کی تیسری جہت دعوہ لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ہے۔قرآن،حدیث اور سیرت رسول کو بنیاد بناکر مولانا نے چھوٹے بڑے بہت سے کتب ورسائل لکھے جن کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔بلاشبہ یہ لٹریچر دعوتی نقطہ ٔ نظر سے بہت اہم ہے۔قرآن کا انگریزی ترجمہ کافی مقبول ہوا۔’’تذکیر القرآن‘‘ اس لحاظ سے اہم ہے جس میں سادہ انداز میں قرآن کی تعلیمات وپیغام کوواضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح سیرت رسول پر ’’پیغمبر انقلاب ‘‘اس موضوع پر لکھی سینکڑوں کتابوں میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ادھر کم از کم دودہائیوں سے مولاناکی پوری توجہ کام کی اس تیسری جہت پرمرکوز تھی ۔ یعنی سادہ انداز میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غیر مسلمین کے درمیان عام کرنا۔ اس کے کیا اثرات ونتائج مرتب ہوئے؟ا س کا اگراس تناظر میں جائزہ لیاجائے کہ ان کوپڑھ کر کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیاتویہ کوئی بہت معقول بات نہیں ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا کنورژن کو بنیاد بنا کر کام کرنے کے قائل نہیں تھے۔اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ یہ کام خدا کا ہے۔ ہمار ا کام صرف ابلاغ ہے اور بس۔اس میں شک نہیں کہ مولانا کے دعوتی لٹریچر میں جابجا افراط وتفریط کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ دین وشریعت کا کوئی پہلو کہیں زیادہ دب گیا ہے اور کہیں زیادہ ابھرگیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس کی افادیت اور اس سیاق میں مولانا کی انفرادیت مسلم ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ باقی اس میں کیا خامیاں اور کمیاں ہیں ان پر بحثیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔
مولانا کے افکاروخدمات کی اور بھی جہات ہیں لیکن یہ تین جہات زیادہ بامعنی اور اہم ہیں۔یہ تینوں جہات اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ کام آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن ’’الرسالہ‘‘ اسلامی مرکز نے اب اپنے ادارے’’ سی پی ایس انٹرنیشنل ‘‘کے تحت صرف تیسری جہت پر اپنی ساری توجہات مرکوز کردی ہیں۔ اس طرح پہلی دو جہتیں جوخالص فکری نوعیت کی ہیں،اس کی متقاضی تھیں کہ مولانا کے بعد ان پر کام کا سلسلہ جاری رہے لیکن بظاہر اب’’ الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ ممکن نہیں ۔کیوں کہ وسائل توموجود ہیں ،افراد موجود نہیں ۔
مولانا کی چند کمزوریاں اور ان کے نقصانات
مولانا کے اپنے ممتاز اوصاف اور نادر خوبیوں اور کمالات کے ساتھ چند کمزوریاں بھی تھیں جن کے مسلسل واقعات مشاہدے میں آئے۔کمزوریوں سے یوں تو بڑی سے بڑی اور عبقری شخصیات بھی خالی نہیں ہوتیں لیکن مولانا کا معاملہ اس باب میں کئی لحاظ سے استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔
- میری نظر میں مولانا کی سب سے بڑی کمزوری ان کی انانیت پسندی اوران کا ’’انا ولا غیری‘‘ کا مزاج تھا۔وہ ایک طرح کی نرگسیت (narcissism) کا شکار تھے اور اپنے علاوہ کسی کوخاطر میں لانا گوارہ نہیں کرتے تھے۔وہ اپنی فکر بلکہ اس کے ہر ہر جز کے تعلق سے’’ پیغمبرانہ ایقان‘‘(prophetic conviction) رکھتے تھے جس میں کسی خطا کا سرے سے کوئی امکان نہیں تھا۔شاید کوئی ندائے آسمانی بھی انہیں یہ باور نہیں کراسکتی تھی کہ وہ کسی معاملے میں غلط بھی ہوسکتے ہیں۔ یہی وہ مزاج ہے جس نے انہیں پوری قوم سے برگشتہ اور متنفر کردیا۔ کیوں کہ ان کی نظر میں جو ان کی بات کونہیں مانتا وہ ان میں سے نہیں ہے۔ان کی یہ لے اتنی بڑھی کہ ایک مضمون میں انہوں نے اپنی فکر اور مشن سے وابستگی کو نجات اخروی کے لیے ضروری قراد دےدیا۔(سردست اس کے حوالے کے لیے دیکھیے مولانا عمار خان ناصر کا مضمون: سی پی ایس انٹرنیشنل ۔ کسی نئے فتنے کی تمہید؟
- حقیقت یہ ہے کہ مولانا کا معاملہ ایک نفسیاتی کمزوری کا معاملہ زیادہ ہے۔ہم اسے افتاد طبع سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔اس زاویے سے بھی ان کی فکروشخصیت کوپرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے ان کی شخصیت اور فکر دونوں میں شدید تضادات جمع ہوگئے تھے۔اعتدال پسندی کے مبلغ ہمارے مولانا اکثر معاملات میں سخت’’غیر اعتدال پسند‘‘ واقع ہوئے تھے۔ان کی مختلف عادات واطوار اعتدال کا منھ چڑاتی تھیں۔اسلامی فکر کے نمائندگان و شارحین،فقہا و محدثین اورمجتہدین، من حیث المجموع، ان کی نگاہ میں محض بودے واقع ہوئےتھے۔ان پر ان کی تنقیدات کی ایک جھلک ان کی مذکورہ بالا کتاب ’’تجدید دین‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسلام پسندوں کی طرح وہ شعوری یا غیر شعوری سطح پر یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کی سیاسی وفکری تاریخ اپنے ابتدائی مرحلے میں پٹری سے ہٹ گئی جس کی وجہ سے امت( مولانا ’’امت‘‘ کو ایک سیاسی اصطلاح سمجھتے تھے اور اس کے استعمال کے حق میں نہیں تھے۔) ’’بے راہ ‘‘ ہوکررہ گئی ہے۔اب ضرورت ہے کہ اس کی صحیح رخ بندی کی جائے۔
ہندوستان میں فسادات کے حوالے سے اصل ظالم مسلمان ہیں اور غیر مسلم مظلوم یا کم تر ظالم۔کیوں کہ ان کی نظر میں فسادات کوشروع کرنے والے مسلمان ہوتے ہیں۔امن ،صلح، جہاد،دعوت،سیاست ان تمام حوالوں سے ان کے نظریات وتصورات میں ناہمواریاں اورافراط وتفریط کے عناصر پائے جاتے ہیں۔توازن اور اعتدال کی بجائے ہر جگہ ان کی مبالغہ پسند طبیعت اپنی جولانی دکھاتی نظر آتی ہے۔ اس میں کچھ تو ان کی مخصوص دعوتی ذہنیت کی کارفرمائی ہے جس میں بسا اوقات اصول پر زمانی ومکانی مصالح حاوی ہوجاتے ہیں ،جس کی مثالیں دیگر شخصیات کے یہاں بھی ملتی ہیں، لیکن مولانا کے یہاں اس کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے۔وہ ردعمل کی نفسیات سے اوپر اٹھ کرمسلمانوں کوسوچنے کی دعوت دیتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود شدید طور پر اسی نفسیات کے اسیر تھے جس کی ابتدا جماعت اسلامی کے خلاف اس کوچھوڑنے کے بعد ہوئی تھی۔وہ پوری مسلم کمیونٹی کے خلاف شدید نفرت میں مبتلا رہے اور ان کو گمراہی و ضلالت پرقائم تصورکرتے رہے۔اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ خود پوری مسلم کمیونٹی نے انہیں مسترد کردیا۔ - میرا اندازہ ہے کہ دینی فکر کے جس طرح کے اساسی اور حساس موضوعات پر مولانا نے قلم اٹھایا،اس لحاظ سے ان کا مطالعہ یک طرفہ ہونے کے ساتھ ،بہت وسیع نہیں تھا۔ اس میں کچھ تو ان کی بینائی کی کمزوری کا مسئلہ تھا ،جودہائیوں سے لاحق تھا،جس کی وجہ سے مطالعے میں دشواریاں پیداہوگئی تھیں، دوسری طرف اسلام کے فکری تراث سے ان کی بے اعتمادی تھی۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ فکر کے آدمی تھے ،مطالعے کے آدمی نہیں تھے۔اس لیے وہ مختصرمطالعے سے مفصل نتیجہ اخذکرلیا کرتے تھے۔بعد میں ان کا یہ مستقل وطیرہ بن گیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں میں حوالہ جات ومطالعات کی کمی سخت کھٹکتی ہے۔
- ایک کمزوری ان کی زود نویسی کی عادت ہے۔زیادہ لکھنے اور تصنیفات کی تعداد میں اضافے کی بے پناہ خواہش نے ان کی تصنیفی کاوشوں کے معیار ومشمولات کو سخت نقصان پہنچایا۔ نہایت حساس اور مہتم بالشان موضوعات پر ان کا قلم کس قدر بے احتیاطی سے چلتا تھا اس کی ایک بڑی مثال ان کی کتاب’’ شتم رسول کا مسئلہ‘‘ ہے جسے دراصل مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کو جوڑ کر ترتیب دے دیا گیا ہے۔ چناں چہ کتاب کا ایک بڑا حصہ عبارات و مضامین کی تکرار بے جا پر مشتمل ہے۔ اس قدر حساس موضوع پر اس قدر بے احتیاطی کی روش کسی نمایاں مصنف کے یہاں شاید ہی پائی جاتی ہو۔
- الرسالہ تحریک کی سب سے بڑی خامی اور کمزوری یہ ہے کہ وہ صرف ایک شخصیت کی فکری کاوشوں کے مدار پر گھومتی نظر آتی ہے۔ مولانا نے’’ الرسالہ‘‘ کواس طرز پر نکالا اور وہ کامیاب رہے اور بلاشبہ اس حوالے سے الرسالہ کی اپنی انفرادیت مسلم ہے کہ یک قلمی نگارشات مختلف طبقات کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی سیرابی کا سامان کرتی رہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرز پرایک رسالہ توضرور نکالا جاسکتا ہے اور اسے مقبولیت بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اس طرز پر کوئی تحریک برپانہیں کی جاسکتی۔صرف ایک خانقاہی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔
- مسلسل مخالفتوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے مولانا کے اندر غالبا ایک قسم کی ’’دانش ورانہ سادیت پسندی‘‘( intellectual sadism) کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔چناں چہ وہ اپنے مخالفین کومطمئن کرنے سے زیادہ تڑپانے کو اہمیت دیتے تھے۔ملی وسیاسی موضوعات پر جا و بیجاا ن کے بہت سے متنازعہ فیہ بیانات کی حقیقت کواس پس منظر میں سمجھاجاسکتا ہے۔
- مولانا پر سب سے زیادہ ان کے تفرد پسندانہ خیالات کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مولانا کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔شذوذ آرا اور تفردات کا ایک بڑا حوالہ برصغیر میں خود شاہ ولی اللہ ؒ کی ذات ہے اور متقدمین علما ومجتہدین میں بھی اس کی بڑی اور نمایاں مثالیں کثرت سےنظر آتی ہیں۔یہ ایک غیر تقلیدی ذہن کا اہم وصف ہے اگر اسے تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکر کی نمائندگی کرنے والی شخصیات فکر کی جن پرپیچ راہوں سے گزر کراسلامی فکروثقافت کولاحق معاصر مشکلات اور چیلنجوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں،ان میں ٹھوکریں کھانا اور بار بار کھانا اور سنبھلنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔اس کے بغیر منزل کی راہ نہیں ملتی۔ جولوگ دریا کی تہوں سے موتیوں کو نکالنے کا ہنر جانتے اور حوصلہ رکھتے ہیں وہی موجوں کے تھپیڑے بھی کھاتے ہیں اور ڈوبتے بھی ہیں۔ساحل کے تماشائی ان حقائق کا ادراک نہیں کرسکتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کی فکر کا بے کم وکاست تجزیہ ہونا چاہیے اور ان کے تمام ذہنی ونفسیاتی ، زمانی ومکانی اور دیگراحوال وظروف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی فکروشخصیت کی قدر پیمائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہر زاویے سےان کی پوری فکر کا پھرپور تنقیدی جائزہ لیاجانا چاہیے تاکہ ان کی فکراپنے دائرے میں منقح ہوکر سامنے آجائے۔ مولانا کے تئیں صحیح اور سچی خراج عقیدت یہی ہے اور مولانا نے زندگی بھر اسی پر عمل کیا اور اسی کی لوگوں کوترغیب دی۔اس حوالے سے مولانا کی ایک قیمتی تحریر’’علما اوردور جدید‘‘ کوپیش نظر رکھنا چاہیے جس میں مولانا نے دور جدید میں علما کی فکروکردار کا تفصیلی تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کی نقاب کشائی کے ساتھ ان سے مرتب ہونے والے مثبت ومنفی اثرات سے بحث کی ہے۔صرف ثناخوانی یا مجرد تنقید فکری زوال کی سب سے بڑی علامت ہے۔اس تحریر کا مقصد نہ تو مولانا کی کمزوریوں کی نقاب کشائی ہے اور نہ ان کے اوصاف وامتیازات کی مدح سرائی۔اس کا مقصد ان کی فکروشخصیت کے خد وخال کو سمجھنا اور ان میں موجود بصیرت کے پہلوؤں کو واشگاف کرنا ہے۔ اس تحریر کو اسی تناظر میں پڑھا جانا چاہیے۔