مولانا عتیق الرحمن سنبھلی آزاد ہندوستان کے اُن اہم دینی علماء سے تھے جنہوں مسلمانوں کی فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آزادی کے محض ۱۱-۱۰/ برس بعد جو سنگین مسائل مسلمانوں کے سامنے آکھڑے ہوئے، اس کا تصور، آج کے حالات میں بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے سخت ترین حالات میں جن علماء اور دانشوران قوم نے مسلمانوں کی بروقت اور صحیح رہنمائی کی، اُن میں ایک نام مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کابھی ہے۔
مولانا نے اپنی زندگی کا بڑاحصہ مطالعہ و مشاہدہ اور تصنیف و تالیف میں صرف کیا۔ کم و بیش ۶۵/برس تک مسلسل ان کا قلم پوری توانائی کے ساتھ چلتا رہا۔ان کی پوری زندگی اشاعت دین میں بسر ہوئی اس کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ تھا ہی نہیں۔ ان صفحات میں مولانا کی حیات و خدمات کے اس گوشے کا احاطہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا تعلق ہفت روزہ ”ندائے ملت“سے ہے۔
گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی کا زمانہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سخت ابتلا و آزمائش کا تھا۔ تقسیم ہندکے نتیجے میں اپنوں کے جدا ہونے کا بوجھ تو دل پر تھا ہی، ساتھ ہی ۶۰/ کی دہائی میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ پھوٹ پڑا۔ہر طرف مایوسی کا عالم تھا، کہیں سے کوئی ایسی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی جو مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والی یا ان کو ڈھارس بندھانے والی ہو۔ ایسے مشکل وقت میں ماہنامہ’الفرقان‘کے ایڈیٹر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے قلم سے اس موضوع پر دو تین اداریے نکلے، توان کے چھوٹے بھائی حفیظ نعمانی مرحوم نے ان سے کہا کہ’بھائی صاحب اس کے لیے تو ایک ہفت روزہ کی ضرورت ہے‘۔حفیظ صاحب کے یہ جملے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے دل کوچھو گئے۔ انھوں نے ہم مزاج دوست ڈاکٹر اشتیاق قریشی سے ذکر کیا۔جب دونوں کی رائے ایک ہوگئی تومولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی سرپرستی میں ’ندائے ملّت‘ کے نام اے ایک ہفت روزہ نکالنے کا اعلان کردیا گیا۔’ندائے ملت‘کا اجراء۱۲/مارچ ۱۹۶۲ کو ہوا۔اس کے بانی ایڈیٹر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، معاون ایڈیٹر ڈاکٹر محمد آصف قدوائی اور پرنٹر پبلشر حفیظ نعمانی تھے۔ ندائے ملت کے اجرا سے متعلق مولانا سنبھلی نے اپنی کتاب’راستے کی تلاش‘ میں لکھا ہے:
”ندائے ملت کا اجراء مسلمانوں کی ملکی زندگی سے متعلق مسائل کے لیے ہوا ہے۔ اس بارے میں جو اپنے خیالات ہیں ’الفرقان‘ کے دائرے اور دامن کی وسعت کی حد تک وہ برابر ناظرین’الفرقان‘ تک پہنچتے رہے ہیں۔ لیکن’الفرقان‘ کی خاص دینی اور اصلاحی نوعیت کی بنا پر یہ خیالات ایک خاص دینی حلقے ہی تک محدود رہتے تھے۔ اس چیز نے سوچنے پر مجبور کیا کہ ایک ایسی نوعیت کا پرچہ ہو جس سے اس حلقے سے باہر کے افرادِ ملت بھی دلچسپی لے سکیں۔’ندائے ملت‘کا اجراء اسی احساسِ ضرورت کا نتیجہ ہے...“ (راستے کی تلاش از مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، صفحہ ۷-۶، ۱۹۹۳ء)
مولاناؒ کے نزدیک اس وقت کے حالات تقاضا کررہے تھے کہ ملت کا جو عنصر، حال اور مستقبل کے ان خطروں کے خلاف ملت کی جو خدمت انجام دے سکتا ہے، اس میں دریغ کو ایک ناقابل معافی گناہ سمجھے اور اپنا سب کچھ اس راہ میں جھونکنے کے لیے تیار ہوجائے۔مولاناؒ کے اپنے ان خیالات اور اس درد و کرب کے آزادنہ اظہار کا ذریعہ ماہنامہ ’الفرقان‘تھا، اور اس کا ایک محدوددائرہ تھا، جو صرف دینی ذہن رکھنے والے افراد پرمشتمل تھا۔ان تمام حالات اور واقعات کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ہفت روزہ نکالا جائے۔ لہٰذا ایک منجھی ہوئی ٹیم کے ساتھ ’ندائے ملت‘ کے نام سے ہفت روزہ کا اجرا عمل میں آیا۔ اخبار کا تجربہ صرف حفیظ نعمانی صاحب کے پاس تھا کہ وہ اس سے قبل روزنامہ’تحریک‘ (لکھنؤ)کے نام سے نکال چکے تھے۔ ان کا اپنا پرنٹنگ پریس بھی تھا، جس میں اردو اخبارات چھپنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ انھیں کے مشورہ پر الہ آباد سے حسن واصف عثمانی، پٹنہ سے ظہیر صاحب کو بلایا گیا۔کچھ عرصہ بعد جمیل مہدی بھی ندائے ملت کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ ندائے ملت کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھا بلکہ یہ”ندائے ملت ٹرسٹ“ کے تحت شائع ہورہا تھا۔ مولانامحمد منظور نعمانی ؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ اس کے سرپرست اور مالیات کی فکر کرنے والے تھے۔ ان دونوں بزرگان دین کی قیادت میں ضرورت کے تحت چند حضرات نے بنام خدا اس کا بیڑا اُٹھا لیا تھا۔ ان حضرات نے اپنی ذات سے سرمایہ کی فراہمی کا آغاز کرکے دوسرے اہل درد و فکر اورملت کے محبین و مخلصین کو دعوت دی کہ وہ پہلے سال کاچندہ بطور خاص سوسو روپے عطا فرما کر اس کام میں معاون و مددگار بنیں۔
۱۲/مارچ ۱۹۶۲ء میں بنام خدا اخبار کا آغاز کردیا گیا۔ندائے ملت کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا تو اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے جن چار ملی شخصیات کے پیغامات شائع ہوئے، ان میں حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی، حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادی، حضرت مولانا معین الدین احمدندوی اور ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے نام شامل تھے۔
ملت کے جو افراد بنیادی خریداری کی استطاعت رکھتے تھے، انھوں نے ندائے ملت کے مقاصد سے اتفاق اور بانیان اخبار پر اعتماد کا اظہارکیا اور اخبارکے بانی خریدار بنے۔ندائے ملت کا اجرا اس وقت کسی جہاد سے کم نہ تھا۔یہی سبب تھا کہ ندائے ملت کا پہلا شمارہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا جوپورے ملک میں بطور نمونہ بھیج دیا گیا، مگر اس کے تین ہی دن کے اندر اندر جو مانگ پیدا ہوئی تو دو ہزار کاپیاں مزید چھاپیں، حتی کہ یہ بھی ختم ہوگئیں اور پھر تیسرا اڈیشن بھی چھاپنا پڑا۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی لکھتے ہیں:
”الحمد للہ ندائے ملت کا اجراء عمل میں آگیا... اس کی ادارت کی ذمہ داری بھی اس ہیچ مداں کے سر ہے...جن بلند مقاصد اور جس اُونچے معیار کے ساتھ اخبار کا اجراء تجویز کیا گیا تھا۔اپنی بے بضاعتی اور صحت کی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے تصور نے بڑا فکر مند بنا رکھا ہے۔لیکن اس کار ساز کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے کہ پہلے ہی پرچہ کا اپنی زیادہ سے زیادہ توقع سے بڑھ کر استقبال ہوا...اور دوسرے کے بارے میں اس سے بھی بہتر آثار نظر آرہے ہیں۔“ (ماہنامہ الفرقان، شوال۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۲ء صفحہ ۵)
ندائے ملت جن ہاتھوں میں پہنچا، انھوں نے اس کا استقبال ایک اخبار کی طرح نہیں، ایک ایسی تحریک کی طرح کیا، جو ملت کے اضطراب انگیز مسائل کے لیے شروع کی گئی ہو۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ہندوستان میں امت مسلمہ کے مسائل پر ایک طویل اور مسلسل اضطراب ہی کی وجہ سے کاغذ اور قلم کی اس دنیا میں آئے، جسے صحافت کی دنیا کہا جاتا ہے، ورنہ اس سے قبل تووہ صرف ماہنامہ الفرقان کی ادارت سے وابستہ تھے۔مولانا کے ایک اداریہ کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں کہ اس میں ان واقعات و حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن کے سبب ’ندائے ملت‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ مولانا سنبھلی تحریر کرتے ہیں:
”ندائے ملت کی اشاعت کا آغاز ۲۱/مارچ ۲۶ء سے ہوتا ہے، اس کے محرک وہ واقعات و حالات تھے جو فروری ۱۶ء سے اکتوبر ۱۶ء تک ایک خاص تسلسل کے ساتھ ملک میں رونما ہوئے۔ یعنی جبل پور کے ہولناک بلوے، مسلم کنونشن کاآغاز اور انجام، نیشنل انٹگریشن تحریک اور پھر علی گڑھ اور میرٹھ کے فرقہ وارانہ ہنگامے۔ان واقعات سے تین باتیں سامنے آئیں۔
(۱) ملک کی اکثریت کے فرقہ پرست عناصر بہت طاقتور پوزیشن میں آچکے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی نفرت آمیز ذہنیت جارحیت کی بالکل آخری حدوں تک چلے جانے میں نہ کوئی باک ہے نہ رکاوٹ۔
(۲) مسلمان پست ہمتی اور مرعوبیت کی اس حد تک جاچکے ہیں کہ دستوری حیثیت سے برابر کے شہری ہونے کے باوجود عملی طور سے وہ رفتہ رفتہ دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر راضی ہوسکتے ہیں۔
(۳) کانگریس اور حکومت کے بڑے بڑے صاف ذہن اور انصاف پسند رہنما بھی اب حالات کے دباؤ سے ہندو مسلم مسئلہ کا حل اس طرح سوچنے لگے ہیں کہ مسلمان اکثریت کی خواہشات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلیں اور ہندوستانی قومیت کا جو تصور فرقہ پرستوں کے ذہن میں ہے، اس سے جنگ کی کوشش ترک کردیں۔“ (ندائے ملت،۳مئی /۱۹۶۳ء)
ان حالات میں ندائے ملت شروع ہوا اور اس نے پہلے روز سے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا آخر تک سرمنھ انحراف کی نوبت نہیں آئی۔پہلے شمارہ کے اداریے سے’ندائے ملت‘ کی فکر اور طریقہ کار کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
وقت ہمیشہ سے اتنا تیز رفتار رہا ہے کہ ایک لمحہ کی چوک نے بھی لوگوں کو مدتوں رُلایا ہے۔ فارسی کا بہت مشہور شعر ہے ؎
رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ را ہم دُور شدلیکن جب زمانہ بھی تیز رفتار ہوجائے اور قومیں چلنے کے بجائے دوڑ رہی ہوں تب تو وقت کے ہر ہر لمحہ کی قیمت بہت ہی بڑھ جاتی ہے۔
ہمارا دور اسی تیز رفتاری کا دور ہے، جس میں قومیں چل نہیں رہیں دوڑ رہی ہیں اور زندگی کی جدوجہد برسوں کے فاصلے لمحوں میں طے کررہی ہے۔ اس تیز رفتار اور گزیز پا زمانہ میں اگر کوئی قوم تھوڑی دیر کے لیے بھی زندگی کی کشمکش سے الگ ہوکر تلووں کے کانٹے چننے اور چوٹیں سہلانے میں لگی رہ جائے تو اس ذرا سی دیر میں ہی مدتوں کے لئے اس کی راہ کھوٹی ہوسکتی ہے، اور یہ ذرا سی ہی غفلت اسے اس صورت حال سے دوچار کرسکتی ہے کہ اب راستے بند ہیں، اب انتظار کرو کہ وقت خود ہی کوئی کروٹ بدلے اور تمہارے لیے جدوجہد کی راہ کھلے۔
منقسم ہندوستان کے پانچ کروڑ مسلمانوں کو تقسیم کے حادثے سے جو چوٹیں آئیں اور جو پریشانیاں، ناانصافیاں اور حق تلفیاں ایک عرصہ دراز کے لیے ان کا مقدر بن گئیں، وہ اثر لینے کی چیز ضرور تھیں۔ انسان کیا، ہر جاندار کی فطرت ایسی بنی ہے کہ وہ چوٹ سے درد محسوس کرے لیکن چوٹوں ہی کو دیکھتے رہنا، رونا اور چلانا اور مرثیہ گوئی میں پڑے رہنا اور مداوا کی فکر نہ کرنا یہ انسان کی حقیقی فطرت نہیں، یہ ایک مرض ہے جسے ناسمجھی، بے عملی اور کم ہمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جن قوموں میں زندگی کی توانائی ہوتی ہے، شعور اور فکر کی قوتیں بیدار ہوتی ہیں اور دنیا میں زندگی کا راز اُن کی نگاہوں پر فاش ہوتا ہے، وہ بڑی سے بڑی چوٹیں کھا کربھی سہلانے کے لئے بیٹھ نہیں سکتیں۔ ان کا وقت مرثیہ گوئی میں صرف نہیں ہوتا اور ایک منٹ کے لئے بھی میدان عمل سے ہٹ جانے کو پسند نہیں کرتیں، وہ اگر توقف کرتی ہیں تو صرف یہ سوچنے کے لیے کہ انھوں نے چوٹ کیوں کر کھائی اور کیا سبب تھا کہ ان کو چوٹ آئی اور دوام ہی کی حالت میں ان کا ذہن اس جائزے میں مصروف ہوتا ہے۔ اور پھر ذرا سا بھی وقت برباد کیے بغیر آگے کے لیے کچھ فیصلہ کرکے سرگرم عمل ہوتی ہیں، یہی قومیں ہوتی ہیں جن کے زخم بھی بھرجاتے ہیں اور صحت سے بھرپور زندگی کا نیا سروساماں بھی انھیں فراہم ہوجاتا ہے۔
ہم ہندوستان کے مسلمانوں کو اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم نے اس تیز رفتار دور کے وقت کا بڑا عظیم سرمایہ ماتم آرائی اور درد و الم کی دہائی میں برباد کردیا، مگر ہماری بڑی خوش قسمتی اور محض تائید ایزدی ہے کہ وقت نے ہمارے لیے کچھ کرلینے کے دروازے کسی نئی کروٹ تک کے لیے بند نہیں کئے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہماری مسلسل بے عملی نے مسائل و مشکلات کو، قدرتی طور پربڑھنے اور پھیلنے کا موقع دے دیا ہے اور اس کی وجہ سے راہیں قدرے تنگ اور دشوار گزار ہو چکی ہیں۔ تاہم جس قدر بھی گنجائش باقی ہے وہ بہت کچھ ہے اور فکر و عمل کی پوری طاقتوں سے کام لے کر اسی بقیہ وقت اور بقیہ گنجائشوں میں گزارے ہوئے وقت اور نکلے ہوئے مواقع کی تلافی بھی کی جاسکتی ہے۔
ملک کے تیسرے عام انتخابات نے جہاں یہ بتایا کہ ملک کی اکثریت کا رجحان مسلم دشمن طاقتوں کے نظریات کی طرف بڑھا ہے وہاں اس حقیقت کو بھی سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے کہ مسلمان بیلنس پاور ہیں۔ اپنے ملک کی سیاسی ترازو میں وزن کا گھٹاؤ بڑھاؤ ان کے ہاتھ میں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست پارٹی ’جن سنگھ‘ کو اس الیکشن میں کامیابی کی بہت زیادہ توقع تھی اور دوسرے سیاسی عناصر کو بھی اس کا بڑا خطرہ نظر آرہا تھا مگر جن سنگھ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اس کی توقع کو بڑی حد تک مسلمانوں نے پورا نہیں ہونے دیا۔ حتی کہ بعض وہ مقامات جو جن سنگھ کا گڑھ بن گئے تھے وہا ں جب مسلمانوں نے طے کر لیا کہ جن سنگھ کو ہر قیمت پر ناکام کرنا ہے تو ایسی شکست فاش اس پارٹی کے حصہ میں آئی کہ ہر شخص حیران رہ گیا، اور جن سنگھی اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔
اسی فیصلہ کن طاقت کا اندازہ کرکے حزب مخالف کی بعض پارٹیوں نے جن کو ہندو ووٹوں کی کچھ خاص توقع نہیں تھی اپنی انتخابی مہم زیادہ تر ایسے اندا ز پر چلائی جس میں صاف طور پر مسلم ووٹروں کو پرچانے کا منشا جھلکتا تھا، سوشلسٹ پارٹی کے رہنما ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور موجودہ چیرمین راج نرائن سنگھ کی انتخابی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو بہت نمایاں طور پر یہ عنصر ملے گا۔ ڈاکٹر لوہیا نے تو وہ آخری بات کہہ دی جس کو خود مسلمان بھی تصور میں نہیں لا سکتے تھے، انھوں نے کہا کہ ہندوستان کا صدر ایک دفعہ مسلمان ہونا چاہئے اور ایک دفعہ ہندو۔۔۔کوئی مسلمان بھی آج کے ہندوستان میں اس بات کو سوچ سکتا ہے؟ مگر ڈاکٹر لوہنا نے برسر عام یہ بات کہی اور گویا یہ وعدہ کیا کہ ان کی پارٹی اگر برسراقتدار آجائے تو صدارت کا یہی اصول رہے گا۔
اسی طرح برجا سوشلسٹ لیڈروں کی نظر بھی مسلمانوں پر رہی اور کافی باتیں ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی کی گئیں جس کو ہندو پسند نہیں کرسکتا تھا، سوتنتر پارٹی نے تو بقول جواہر لال نہرو قرآن پاک کو بیچ میں ڈال دیا۔اور اردو کی دہائی دے کر مسلمانوں کو قریب کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اس پارٹی کے بانی رہنماؤں میں وہ کے -ایم-منشی جی بھی ہیں، جن کے کرم اُترپردیش میں اُردو کو آج بھی یاد ہیں اور ہندمیں مسلمانوں کی تاریخ پر ان کے قلم کی عنایتیں ایک غیر محتسم سلسلہ رکھتی ہیں۔ رہ جاتی ہے کانگریس، تو اس نے بھی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے پر اس قدر زور دیا کہ مسلمانوں سے متعلق اُس کے انتخابی نعرے تمام مخالف پارٹیوں کے لیے بلائے بے درماں بن گئے اور ہر پارٹی اس سوہان روح میں مبتلا تھی کہ ان نعروں کے ذریعہ کانگریس تمام مسلم وو ٹ کھینچ لے جائے گی۔ایک’جن سنگھ‘ رہ جاتی تھی جو مسلمانوں کے ووٹ کی توقع نہیں رکھ سکتی تھی لیکن ان ووٹوں سے صرفِ نظر وہ بھی نہیں کرسکی چنانچہ اس نے اس مسئلہ کا دوسرا حل تلاش کیا اور وہ یہ کہ جہاں بن پڑا کسی آزاد مسلمان کو کھڑا کیا یا کسی پارٹی کے نام نہاد ممبروں میں سے کسی مسلمان کو آلہئ کار بنایا اور وہ پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرکے کھڑا ہوگیا تاکہ اسلام کے نام پر مسلمان ووٹوں کو کاٹ کر ناکارہ کردیا جائے۔
الغرض ملک کے تیسرے الیکشن نے یہ حقیقت کھول کر رکھ دی ہے کہ مسلمان یہاں ایسی عدد ی طاقت کے مالک ہیں جس سے اگر تدبیر کے ساتھ کام لیا جائے تو ملک کی نئی تعمیر پر نمایاں اثر ڈالا جاسکتا ہے اور ملک کی زندگی کا کوئی نقشہ ان کی جائز خواہشات کو نظر انداز کرکے نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن وہی بات کہ تدبیر اور ہوشمندی شرط ہے۔ اگر یہ شرط پوری نہ ہو تو پھر وہ پتوں کی طرح ہیں جو بے گنتی ہو کر بھی بے وزن ہی رہتے ہیں۔
ندائے ملت کا اجراء بنیادی طور پر صرف اسی ایک مقصد کے لیے ہوا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ملک کے حالات کو واقعی صورت میں دیکھیں، اپنے مقام اور اپنی حیثیت کو سمجھیں اور جہد و عمل کا جس قدر بھی میدان ان کے لیے آج باقی ہو اس میں پورے جوش اور ولولہ کے ساتھ اُٹھ کروہ رہِ عمل اختیار کریں جس پر چل کر پوری اسلامیت کے ساتھ اپنا مستقبل بھی بنا سکیں اور ملک کے لیے بھی ایک قابل قدر عنصر ثابت ہوسکیں۔
ندائے ملت، کو ملت کے صرف مشترک مسائل و مفادات سے مطلب ہوگا اور کسی بھی جماعتی اور گروہی حد بندی سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ یہ کسی جماعت یا محدود گروہ کا ترجمان نہیں بلکہ مشترک ملی معاملات میں تمام مسلمانوں کے اتحاد کی راہیں ہموار کرنا، اور انھیں گروہی طرز فکر سے بلند کرنے کی کوشش کرنا، اس کا نصب العین ہے......خدا سے دعا ہے کہ ان مقاصد میں کامیاب کرے اور ”ندائے ملت“ کو ملت کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنا دے۔ وَمَا ھُوَ عَلَی اللّٰہ بِعَزِیْزَ۔ (ہفت روزہ ’ندائے ملت‘، جلد ۱، شمارہ ۱، ۲۱/مارچ ۲۶۹۱ء، صفحہ ۳)
اس اداریے کے مطالعہ سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ کن بنیادوں پر ’ندائے ملت‘ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ندائے ملت نے اپنے پہلے ہی شمارے کے ٹائٹل پر الجزائر کے شہید مسلمانوں کی قربانیوں کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے نشور واحدی کا یہ مصرعہ لگایا تھاکہ ”مٹی کو لہو دے کے چمن ہم نے بنایا“۔ اور اس کے نیچے الجزائر کے شہیدوں کی ایک تصویر شائع کی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح فرانسیسیوں نے شہیدوں کے سر کاٹ کر ڈھیرلگادئے۔ ندائے ملت کا یہ ٹائٹل بہت پسند کیا گیا،حضرت مولانا عبدالرب صاحب صوفیؒ کی ایک مختصر نظم ندائے ملت کے دوسرے شمارے میں شائع ہوئی جس کا عنوان تھا’ندائے ملت کا ٹائٹل دیکھ کر‘۔ نظم ملاحظہ ہو:
اے ندائے ملت حق! مرحبا صد مرحبا
قوم کو پیغامِ بیداری ہے ہر صفحہ ترا
صفحہئ اول پہ لیکن درج ہے کتنا حسیں
الجزائر کے شہیدوں کے لہو کا ماجرا
الجزائر کے شہیدوں کے سروں کے ڈھیر کا
دیکھ کر فوٹو تڑپ اُٹھا دل درد آشنا
یہ سروں کے ڈھیر کی تصویر ناجائز نہیں
زندہ جاوید ہیں گو یہ شہیدان جفا
اے مسلمانان عالم! اے مسلمانان ہند!
درس لو ان سے حیاتِ حریت آگاہ کا
(ہفت روزہ ندائے ملت، شمارہ ۲/جلد ۱، صفحہ ۵)
ندائے ملت نے صحافت کے جس معیار کو پہلے دن اپنے لیے قائم کیا تھا، ۱۹۶۸ء تک انھیں بنیادی مقاصد کو پکڑ کر کامیابی کی منازل طے کرتا رہا۔ ندائے ملت کی جرأت و ہمت، حق گوئی اور بیباکی کے سلسلہ میں سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ یہی سبب تھا کہ ہرسال کم وبیش چار پانچ مقدمات کاحکومت اُترپردیش کی جانب سے ا خبار کے ایڈیٹر کو سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی بات حق گوئی اور بیباکی کے ساتھ پیش کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے، اور جس طرح کی زبان اپنے اداریوں میں استعمال کرتے تھے، آج کے حالات میں وہ نہ صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے بلکہ ان کے گھر پر بلڈوزر اپنا کمال دکھا چکا ہوتا۔ ۱۹۶۲ء کے ابتدائی مہینوں میں مالدہ (بنگال) میں کشت و خون کا دور شروع ہوا۔ سیکڑوں کی تعداد میں مسلمان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ مسلمانوں کا خون بہا اور ساری مصیبتیں بھی انھیں پر ٹوٹیں۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے۴/مئی ۱۹۶۲ء کے اداریے میں حالات کا جائزہ لینے کے بعد مسلمانوں کے خون کو گرمادینے والا اور صحیح معنوں میں رونگٹے کھڑے کردینے والا پیغام دیا۔ اس اداریہ کا کچھ حصہ یہاں نقل کیا جارہاہے تاکہ سند رہے:
...ہم ماتم کے قائل نہیں، ہاں ہمیں اس کا ضرور رنج ہے کہ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ کتّے اور بلیوں کی طرح مارے جاتے ہیں، یہ سننے میں کیوں نہیں آتا کہ انھوں نے بھی درندہ صفت حملہ آوروں اور غنڈوں کو منھ توڑ جواب اور کچھ سبق دیا اور دس مارے گئے تو اپنی حفاظت کا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے دوچار کو انھوں نے بھی ٹھکانے لگا دیا؟ شاید مسلمان جان کی خیر مناتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جواب دینے میں اور قیامت ٹوٹے گی۔ پولیس کو بھی اپنی رائفلوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا اور پھر پکڑدھکڑ کی ذلتّیں الگ اُٹھانی پڑیں گی۔ لہٰذا ہاتھ باندھ کر مار کھاتے رہو۔ ہم مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ خیر منانے کی ذہنیت اُنھیں تباہ کرکے رکھ دے گی۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس معاملہ میں ناہل یا بے بس ثابت ہوچکی ہیں۔ مسلمان اگر اب تک نہیں سمجھے ہیں تو اب سمجھ لیں کہ اپنے وجود کی حفاظت انھیں خود کرنی ہے۔ بے شک عام دنوں میں اس کا طریقہ کار یہ ہوچاہئے کہ اپنے علاقوں کے امن پسند اور شریف غیرمسلموں سے رابطہ پیدا کرکے انھیں جارحیت پسندوں کے خلاف محاذ پر لائیں لیکن جب اس کے باوجود اُن پر نرغہ ہوجائے اور انھیں کو بھگتنا پڑے تو ہر شخص مرنے کی ٹھان لے، اس انداز سے جو موتیں ہوں گی وہ اگر ایک کی جگہ سو ہوجائیں تو اس ایک موت سے اچھی ہیں جو خیر مناتے ہوئے واقع ہو۔ اس کے نتیجہ میں اگر پولیس او رحکام کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا نشانہ بھی بننا پڑے تو اس سے بھی ذلّت اور پریشانیوں کا تصور کرکے گھبرانے کی ضرورت نہیں،اسے اپنی قوم کی فلاح و بقا کے لیے ایک مزید قربانی تصور کرکے پوری ہمت سے گوارا کرنا چاہئے اور جیلوں کو بھر دینا چاہئے۔
اس طرح کی موتیں مسکینوں اور بے کسوں کی موتیں نہیں سمجھی جائیں گی کہ اُن پر مرثیے پڑھے جائیں، نہ اُس کے بعد کی پریشانیوں کو ذلتیں گردانا جائے گا کہ اُن پر آہیں بھری جائیں، اُن سے زندگی کا شرار پیدا ہوگا، یہ ایک قابل فخر نقشِ قدم بنے گا...
اور تاریخ اسے جانبازی و قربانی کا نام دے گی۔
ہمیں چڑ ہوتی ہے جب ہم ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق بے کسی، مجبوری اور مظلومی کے الفاظ سنتے ہیں، مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ان کے اندر سے یہی الفاظ اُن پر صادق آتے ہیں۔ کاش اُن کا انداز بدلے اور یہ الفاظ ان کے متعلق اب کبھی سننے میں نہ آئیں۔ ہمیں اپنے اخبارات سے بھی بے حد شکایت ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات پراس طرح مرثیے پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کو مجبوراور لاچار کہہ کر اس قدر مجبوری اور بیچارگی کا احساس دلاتے ہیں کہ کسی میں جان پر کھیل جانے کا حوصلہ بھی ہو تو اس کا دل بھی بیٹھ کر رہ جائے۔ یہ روش ترک ہونی چاہئے۔ مسلمانوں کے لیے ہرگز کوئی مجبوری و لاچاری کی بات نہیں ہے۔ ہاں! وہ خود ہی زندہ درگزر ہونا چاہیں، یا ان کے رہنما اُن پر مجبوری و لاچاری کا احساس طاری کردیں تو بلا شبہ ذلّت کی موت کے سوا اُن کا کوئی انجام نہیں!
(ہفت روزہ ’ندائے ملت‘، جلد ۱، شمارہ ۷، ۴/مئی ۲۶۹۱ء، صفحہ۲)
ندائے ملت اپنے عہد شباب (۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۸ء) میں اپنی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے شائع ہوتا رہا۔اس کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی کہ یہ جریدہ مسلمانانِ ہند کی نمائندگی جس شان اور بیباکی کے ساتھ کرتا رہا وہ آزاد ہندوستان میں بس اسی کا حصہ کہا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کو یہ طعنہ تب بھی دیا جاتا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو قومی شعور سے ہم آہنگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی اور اس کا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس الزام کا جواب دیتے ہوئے ندائے ملت کے ایڈیٹر مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے اس کے پہلے سالنامے میں لکھا:
”ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان کے اندر قومی پیمانے پر حب الوطنی کا کوئی مثبت ولولہ اور ملک کی تعمیر و ترقی اور اس کے فلاح و بقا سے کوئی دلچسپی نظرنہیں آتی۔ بہت سے مسلمان اس کو تسلیم کرنا خلاف مصلحت سمجھیں گے۔ لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بات بالکل یونہی ہے....لیکن اس میں قصور کس کا ہے اور آپ اس کے علاوہ مسلمانوں سے کیا توقع کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا مسلمان کوئی بے حس اینٹ گارے کے بنے ہوئے ہیں کہ ملک کے دروبست پر قابض اکثریت ان کے ساتھ ناوفاداروں کا معاملہ رکھے۔ دستور میں مانے ہوئے ان کے حقوق کی ادائیگی سے طرح طرح کی تدبیروں اور بہانوں سے گریز کیا جائے۔ ان کو دن رات ملک دشمن اور غیر ملکی کہا جائے۔ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی ضمانت نہ ہو۔ آج یہاں کل وہاں ان کے زندہ جلائے جانے کے واقعات ہوتے رہیں۔ پھر اچھے اچھے ذمہ دار لوگ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے والے بیانات دے ڈالتے ہیں...اس سب کے باوجود مسلمان خوش دل رہے، اپنے وطن کے گیت گائے، اس کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لے اور اس کی فلاح و بقا میں جان کھپائے...اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ گوشت پوست کے بنے ہوئے اور پہلو میں دل جیسا نازک آئینہ رکھنے والے آپ ہی کے جیسے انسانوں سے یہ کیسے ممکن ہے؟“(ندائے ملت، سالنامہ، ۳/مئی ۳۶۹۱ء، صفحہ ۱۱)
ندائے ملت کا یہ انداز خطاب تو ملک کے سربراہوں سے تھا، اس کے بعد ندائے ملت نے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اسی انداز میں مخاطب کیا۔ اس انداز خطاب کو پڑھ کر ندائے ملت کے ایک معاصر روزنامہ ”وفاق“ جو سرگودھا دلائل پور، پاکستان سے شائع ہوتا تھا، نے ندائے ملت کے پہلے سالنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ندائے ملت نے...ایسے ولولہ انگیز انداز میں اپنی قوم کو پکارا ہے کہ اس تحریر میں مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی سی جولانیاں نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں....سالنامے کے ٹائٹل کو انتہائی نفیس آرٹ پیپر سے مزین کیا گیا ہے۔ کتابت، طباعت خوب نکھری ستھری ہے اگر چہ پاکستان کی ترقی پسند صحافت کی چمک دمک سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن تبصرہ نگار یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پاکستان کے بزعم خود دینی جرائد کی ادارت بھی ایک صاف ستھرے ذوق کے لیے کوئی کشش نہیں لیکن ندائے ملت کا ”ہاکر“ بننا بھی شاید ایسے ذوق پر گراں نہ گزرے۔“(’ندائے ملت‘جلد ۳، شمارہ ۸۱، ۹/اگست ۳۶۹۱ء)
ندائے ملت جاری ہوا تو چاروں جانب ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ہندوستان کے حالات سے باخبر اور ملت کے تئیں ہمدردی رکھنے والے ہرصاحب فکر نے اس اخبار کو اسم بامسمٰی سمجھا۔چند شمارے ہی شائع ہوئے تھے کہ صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی نے توباقاعدہ اس کے بارے میں ادارتی نوٹ تحریرفرمایا، جس سے اخبار کے معیار و اعتبار دونوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
”لکھنؤ سے ایک ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ کے نام سے نکلا ہے۔ اس کے ایڈیٹر مولانا عتیق الرحمن اور اس کے نگراں مولانا ابوالحسن علی اور مولانا محمد منظور نعمانی ہیں۔ یہ اخبار اپنی خصوصیات و اہمیت کے اعتبار سے اس بات کا حقدار ہے کہ اس کا ذکر ان صفحات میں کیا جائے... اب تک اس اخبار کے چار شمارے نکل چکے ہیں اور ہر شمارہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے ”الہلال“ مرحوم کی یاد تازہ کردی ہے۔ وہ کچھ زیادہ مبالغہ سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کے متعلق سنا ہے کہ ان کو ہفتہ بھر الہلال کا انتظار رہتا تھا۔ جب وہ آجاتا تو اس کو مطالعہ کرنے کے بعد سامنے اپنی میز پر رکھ لیتے اور اس وقت تک اس کو میز سے اُٹھانے کی اجازت نہ دیتے جب تک اس کے بعد کا نمبر ان کی میز پر اس کی جگہ لے لینے کے لیے نہ آجاتا۔ کچھ یہی معاملہ ’ندائے ملت‘ کے ساتھ ہمارا ہے۔
اس اخبار کی سطر سطر سے ایمان کی غذا، روح کو تقویت، فکر کو رہنمائی اور عزم و حوصلہ کو ایک حیات تازہ ملتی ہے.... اس دعوت میں مسلمانوں کے دین، مسلمانوں کی تہذیب اور مسلمانوں کی عالمگیر برادری کے جو حقوق و مطالبات ہیں اُن کا بھی پوری جرأت اور پورے اعتماد کے ساتھ اظہار و اعلان کیا جارہا ہے۔
ہمیں یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوئی کہ یہ اخبار بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی مقبولیت میں اضافہ فرمائے اور اس کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔ جن لوگوں نے ملت عزیز کو زندہ کرنے کے لیے یہ بازی کھیلی ہے ان کی درازیِ عمر کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اپنی زندگی کے جو دن باقی ہیں، اگر وہ کچھ قدروقیمت رکھتے ہیں تو رب کریم ان کو بھی مولانا علی میاں اور مولانا نعمانی کی عمروں کے ساتھ جوڑ دے کہ ان کے پاکیزہ ہاتھوں سے یہ ملت مظلوم کی نذر ہوجائیں۔ (ماہنامہ میثاق، مئی ۱۹۶۲ء)
ندائے ملت کے اجراء کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مرعوبیت اور احساس بیچارگی سے نکالا جائے،انھیں بتایا جائے کہ اپنی تعمیر و ترقی کا لائحہ عمل خود بنانا ہوگا۔ ندائے ملت کی شکل میں ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمانوں میں صحت مندانہ سیاسی تصور کے لیے ایک اہم قدم تھا۔ندائے ملت نے مسلمانوں کے اندر جرأت و خود اعتمادی اور اس میں شائع ہونے والی تحریروں نے ملّی فکر اور مسائل کے تئیں عزم و ہمت پیدا کی۔ ایک مختصر مدت میں اس نے قومی اور ملّی تعمیر کا جو فریضہ انجام دیا، وہ بہت حد تک اطمینان بخش کہا جاسکتا ہے۔ انھیں تحریروں اور سنجیدہ ادارتی ٹیم کا ہی کمال تھا کہ انتہائی کم مدت میں ندائے ملت اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں پہنچنے کی جدوجہد میں اخبارات کو برسہا برس لگ جاتے ہیں۔ ندائے ملت کے پہلے سالنامے پر جمعیۃ علماء ہندکے آرگن روزنامہ الجمعیۃ نے لکھا:
”ندائے ملت قوم و ملت کی خدمات جس انداز پر کر رہا ہے، اگر اس کے بعد بھی انسانی ضمیر بیدار نہ ہو تو تعجب ہے۔ یہ سالنامہ ملی، قومی، سیاسی اور تعلیمی مسائل کی ایک مختصر سی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ عموماً رسائل و اخبارات کے سالنامے چند روز کے بعد بھلا دیے جاتے ہیں، مگر یہ سالنامہ ذہن اور عمل کے لیے ایسا دستور العمل ہے جس کے نقوش عرصہ دراز کے بعد بھی مدھم نہیں پڑسکتے۔ اگرچہ ندائے ملت کی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن ڈیڑھ سال کی عمر میں اس نے اتنی خدمات انجام دی ہیں جو شاید دوسرے ذرائع سے بیس سال کے اندر بھی انجام نہ دی جاسکیں۔ خوش قسمتی سے ندائے ملت کوایسے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہوئی جو بین الاقوامی شہرت کے سرمایہ دار بھی ہیں اور قوم و ملت کے نباض بھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی عالم اسلام کے درخشندہ ستارے ہیں اور جن کا فیض کرم سارے عرب ممالک کو محیط ہے۔ مولانا محمد منظور نعمانی ہندوستان کے ان مشاہیر علماء میں سے ہیں جنھوں نے اسلام کو پیش کرنے کی صحیح راہیں متعین کیں اور اسلامی لٹریچر میں پیش بہا اضافہ کیااور اس علم و مرتبہ کے اہل حضرات نے ندائے ملت کو اپنے بلند ترین افکار سے مزین کیا ہے اور برابر کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ سالنامہ کے مضامین میں اکثر مضامین ملت کی شاہراہ زندگی کے لیے شمع ہدایت کا کام دے سکتے ہیں، بھرتی کا ایک بھی مضمون نہیں ہے۔ امید ہے کہ ملت کے درد مند افراد اس کا مطالعہ کرکے اس کی فکری کاوشوں سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گے اور دوسروں کو بھی فائدہ اُٹھانے کی ترغیب دیں گے۔“ (ندائے ملت جولائی ۱۹۶۳ء)
اس ہفت روزہ اخبار نے ملت کو حوصلہ دیا، بے بسی سے نکالنے کی کوشش کی، اس کے مسائل پر بے لاگ گفتگو کی، اور یہ سب کچھ اس انداز میں کیا کہ حکومتِ وقت کو وہ اپنی سیاسی راہوں کا ایک خار محسوس ہونے لگا، اسی بیچ حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسلم حیثیت پر تیشہ چلایا تو ندائے ملت نے اس پر سخت احتساب کیا، ایک خاص اشاعت’مسلم یونیورسٹی نمبر‘ کے طورپر نکالا، آخر حکومت نے نشہ اقتدار میں، ندائے ملت کے خلاف کاروائی کی، پرنٹر پبلشر اور معاون مدیر حفیظ نعمانی صاحب(مولانا سنبھلی کے چھوٹے بھائی) اور دفتر کے دو کارکنان کے حصہ میں اسیری آئی، اور مولانا سنبھلی کو بھی کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ۲/سال سے کچھ زاید عرصہ تک ندائے ملت کے اڈیٹر رہے، اس کے بعدضعف اعصاب اور خون کی کمی کے سبب ان کی صحت کچھ ایسی خراب ہوئی کہ وہ ندائے ملت کی دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے کے لیے خود کو تیار نہ کرسکے، لہٰذا۱۹۶۴ء کے آخری زمانے میں ڈاکٹر آصف قدوائی ندائے ملت کے ایڈیٹربنادیے گئے، لیکن ”مسلم یونیورسٹی نمبر“کی اشاعت کے قضیہ کے بعد انھوں نے ندائے ملت سے اس معنی کر علیحدگی اختیار کرلی کہ وہ اس کے ایڈیٹر نہیں رہے۔ ۲۲/جولائی۱۹۶۶ء کو حفیظ صاحبؒ (جیل سے رہائی کے کچھ عرصہ بعد) اخبار کے ایڈیٹر بنے۔ اور ۱۹۶۸ء/تک ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔البتہ ادارت کی ذمہ داری سے دست کش ہونے کے باوجود بھی مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اخبار کی سرپرستی کرتے رہے اوریہ صرف ملت کے خیرخواہی کا جذبہ تھا جو صحت کی خرابی کے باوجود مولانا کے قلم کو متحرک رکھتا، اور وہ کچھ لکھواتا جو بلا مبالغہ آزاد ہندوستان کی اردو صحافت میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا، یہ سلسلہ ۱۹۶۸ء تک جاری رہا لیکن......(بس پھر نظر لگ گئی اور مسلمانوں کے بہت سے اجتماعی کاموں کی طرح ندائے ملت بھی اختلاف کی نذر ہوگیا)۔
راقم الحروف کی کتاب ’قلم کا سپاہی: حفیظ نعمانی‘شائع ہوئی، جس میں دیگر باتوں کے علاوہ ’ندائے ملت‘ کا بھی ذکر تھا، اور ان حالات کا بھی جن کے سبب ’ندائے ملت‘ سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ کتاب کے اجراء کے لیے ۲۷/دسمبر۲۰۱۵ء کو لکھنؤ میں ایک جلسہ ہوا۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اس کتاب کی رسم رونمائی میں شامل ہوئے نیز انھوں کتاب پر تبصرہ بھی کیا، جو روزنامہ ’اودھ نامہ‘ میں شائع ہوا۔اس کے چند روز بعدبذریعہ میل ان کا ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط مولاناؒ نے ’ندائے ملت‘ کی تاریخ کے سلسلہ میں مذکورہ کتاب کے مطالعہ کے بعدراقم کو لکھا تھا، اس خط کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتا چلوں تاکہ آپ بھی اس تاریخی امانت کے گواہ بن سکیں۔
بسم اللہ ۔ خواہر زادہ عزیزمیاں اویس سنبھلی حفظہٗ اللہ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
...ندائے ملت ایک تاریخی پرچہ تھا۔اس کانام اور اس کاکام تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے۔اور اب ہم دو بھائی(عتیق اور حفیظ) ہی رہ گئے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں جو کچھ بیان کریں گے اسے مستند سمجھا جائے گا...تمھاری کتاب بتاتی ہے کہ ’ندائے ملت‘ ایسے ہی ماموں جان (حفیظ نعمانی)نے نکالا جیسے کچھ عرصہ پہلے وہ روزنامہ ’تحریک‘ نکال چکے تھے۔ لیکن یہ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ندائے ملت کے آغاز کے سلسلہ میں میرا بیان تمہاری کتاب میں موجود ہے، جس کی روسے اس کے تجویز کنندہ وہ بے شک تھے۔ اس کے بعد اس کے تیار کرنے شائع کرنے، میں بھی ان کا بڑا حصہ رہا۔ پھر وہ یہ حصہ ادا کرتے ہوئے جیل بھگتنے بھی گئے۔مگراس سے کوئی اخبار کا بانی تو نہیں ہو سکتا۔میں تو اس کا بانی ایڈیٹر تھا، میں جیل تو نہیں گیا مگر میری صحت ایسی اس کی نذرہوئی کہ مرتے مرتے بچتا رہا،اعصاب ایسے ٹوٹے کہ تحریری کام کے قابل ہی نہ رہا۔...مگرمیں تو اسے اپنے منہ سے اخبار کے لئے قربانی بھی نہیں کہہ سکتا، دوسرے چاہے کہیں، یہ تو اپنی بساط اوراپنے احساس کے مطابق ایک فریضہ کی ادائیگی تھی اور بس۔
الغرض ہم دونوں ندائے ملت کے تجویز کرنے اور اسے آگے بڑھانے والے تھے۔ حقیقی طور پر اخبار نکالنے والے اباجی،ڈاکٹر اشتیاق اور پھرحضرت مولا نا علی میاں تھے (کہ یہی اس کی مالیات کی فکر کرتے تھے) اور قانونی طور پر اس کا نکالنے والا ندائے ملت ٹرسٹ تھا۔ اس ٹرسٹ کے بنانے میں میرا کوئی حصہ تھا نہ حفیظ کا۔ یہ اباجی،علی میاں اور ڈاکٹر اشتیاق کاکا م تھا۔اور یہ بے شک ہماری نا تجربہ کاری تھی کہ ہم نے خود کو ٹرسٹ میں نہیں رکھا۔ورنہ کم از کم میرا نام اس میں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ میرے نام پر اخبار کے بجٹ سے معاوضہ کا کوئی پیسہ نہیں نکلتا تھااور بھی ہم جس کو چاہتے ٹرسٹی بنوا سکتے تھے۔لیکن نہیں ہوا، کیوں کہ بعد میں جو ہوا وہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ تو یہ غلطی تو ہماری تھی کہ ہم نے ٹرسٹ میں کسی شدنی کا بند وبست نہیں کیا تھا۔اس لئے پھر جو ہوا اُسے برداشت کرنا چاہئے....۔
میرا ’ندائے ملت‘ سے تعلق نہ ہوتا تو مجھے یہ سب لکھنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جو تعلق تھا اس کی بنا پر یہ جو کچھ کہہ رہاہوں، یہ تاریخی امانت کی ادائیگی ہے اورتم کو اس کا گواہ بناتا ہوں۔
والسلام
عتیق الرحمن سنبھلی
لکھنؤ ۴/ جنوری ۲۰۱۶ء
جو کچھ اب تک اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے اسے آپ ندائے ملت کے ایک مختصر عرصہ(۱۹۶۲ء تا۱۹۶۸ء) کی روداد کہہ سکتے ہیں مگر یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں ذکر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا ہے۔ دنیا کے تماشوں سے الگ جب تک صحت نے ساتھ دیا خلوص و لگن کے ساتھ اور ملت کی سربلندی کے جذبے سے ایک امانت کے طور پرمولانا سنبھلی نے اخبار کے صفحات کو استعمال کیا۔ ۱۹۶۸ء میں ندائے ملت سے نہ صرف مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بلکہ شعبہ ادارت سے وابستہ سبھی افراد نے علیحدگی اختیار کرلی۔اس میں ڈاکٹرمحمد آصف قدوائی اور جمیل مہدی کے نام بھی شامل تھے۔حفیظ نعمانی ؒکی کتاب ’رودادِ قفس‘ پر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے جو مقدمہ تحریرکیاہے، اس کا کچھ حصہ یہاں نقل کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں:
”...کیا دن تھے، کیا جوش اور ولولہ تھا، کیا سوچا تھا مگر یہ بگڑے ہوئے وقت سے جنگ تھی اور وقت جب ایک بار بگڑ جائے توعمر چاہئے اس کو سدھارنے کی صورت پیدا ہو۔ ندائے ملت کا یہ خاص دور ۱۹۶۸ء میں تاریخ ہند کا ایک باب بن کر روپوش ہوگیا۔ یہ اسی باب کے چند صفحات ہیں جو چونتیس برس کے بعد اس کتاب کے بہانے پھر سامنے آگئے اور یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ان کے مطالعے سے اپنی ہندوستانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ حکمرانوں کے ایما پر،جو اس شریفانہ دستور کے رکھوالے تھے، ایک ایسے اخبار کے ساتھ جبرواندھیر کی نہیں، رذالت و گراوٹ کی بھی داستان ہے جو نہ صرف یہ کہ اپنے وقت میں مسلم صحافت کا مؤقر ترین سیاسی رکن مانا جاتا تھا،بلکہ اپنی اسلامیت کے ساتھ اپنی ہندوستانیت کا لحاظ رکھنے میں بھی یکتا ہی کہا جاسکتا تھا...“ (ماخوذ از مقدمہ ”رودادِ قفس“تیسرا ایڈیشن،اکتوبر۷۱۰۲ء صفحہ ۸-۹)