شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

اصحاب علم نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر و شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن متعدد ایسے پہلو ہیں جن پر تفصیلی وتحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ان میں سے ایک پہلو شاہ صاحب کے کلامی تفردات کا ہے۔ ان کا مطالعہ دو وجہوں سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے: ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاہ صاحب، جیسا کہ شبلی نے لکھا ہے ،دور زوال  وانحطاط  کی سب سے عظیم و عالی دماغ شخصیت ہیں۔(۱) دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی  اسلامی فکری روایت پر شاہ صاحب کی فکرونظر کے نقوش دوسری کسی شخصیت کے مقابلے میں زیادہ  گہرائی کے ساتھ مرتسم ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں شاہ صاحب سے قبل بر صغیر ہند کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلامی فکر وثقافت کی نمائندہ  متعدداہم شخصیات پیدا ہوئیں لیکن ان کی اپنی مساعی فکر کے امتیازات کے باوجود ان کا فکری سرمایہ شاہ صاحب کی طرح نسبتاً‌ ہمہ جہت اور دور رس نہیں ہے۔شاہ صاحب کا کمال وصف ان کی جامعیت ہے۔ وہ  اسلامی علوم میں بیک وقت معقولات ومنقولات :تفسیر، حدیث،فقہ،کلام،فلسفہ اور ان کی مختلف شاخوں پر ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔اس لیے ان کے یہاں فکر اسلامی کی روایت کے ساتھ تعامل کے حوالے سے عقل ونقل کے استعمال کا بہت ہی خوبصورت امتزاج نظر آتا ہےجس کا سب سے اہم مظہر ان کی کتاب" حجۃ اللہ البالغہ" ہے۔

تفرد پسندی اور اسلامی فکری روایت میں اس کے عملی نقوش

تفرد پسندی کی اصولی حیثیت کیا ہے؟ اسلام کی فقہی وتفسیری روایات میں اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں جو’ قول شاذ‘ کے عنوان سے ملتی ہیں۔امام غزالی   نےشاذ کی تعریف  یہ کی ہے: الشاذ عبارۃعن الخارج عن الاجماع بعد الدخول فیہ۔’’شاذوہ قول یاموقف ہے جواجماع کا حصہ ہونے کے بعد اس سے  علاحدہ  ہوگیاہو‘‘۔ (۲) آمدی  بھی اس سے ملتی جلتی تعریف کرتے  ہیں ۔ان  کے مطابق: الشاذ ھو المخالف بعد الموافقة، لا من خالف قبل الموافقة-’’شاذ ایسا مخالف قول یا موقف ہے جو موافقت کے بعد، نہ کہ موافقت سے پہلے ،اختیارکیا گیا ہے‘‘۔(۳)

 اصولی طور پر کسی مسئلے کی تائید میں آرا ومواقف کی کثرت اس کے صواب ودرست ہونے کا مضبوط قرینہ ہے۔ چاہے متعلقہ مسئلے کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیاوی امور سے۔ عقل انسانی اس معیار کو قبول کرتی  اور مختلف متنازعہ فیہ امور میں اس اصل سے کام لیتی ہے۔ اصول فقہ وحدیث میں اسے تقریبا مسلمہ امر تصور کیا جاتا ہے۔تاہم اہل اصول کے نزدیک یہ بھی مسلم ہے  کہ کسی رایے کو اختیار کرنے والوں کی کثرت اس کے صواب وبرحق ہونے کی قطعی اور شافی دلیل نہیں ہے۔ فقہائے عراق  وحجازکے استنباط کردہ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جن میں وہ  اکثریت کےمقابلے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ابن حزم فرماتے ہیں کہ: ولقد اخرجنا علی ابی حنیفة والشافعی ومالک مئین کثیرۃ من المسائل قال فیھا کل واحد منھم بقول لا نعلم احدا من المسلمین قال قبله-’’ امام ابوحنیفہ ،شافعی اور مالک کے بہت سے ایسے مسائل ہمارے علم میں آئے  جن سے متعلق انہوں نے ایسی بات کہی جوبات ان سے پہلے کسی نے نہیں کہی تھی‘‘۔(۴) لیکن یہ معاملہ ائمہ مجتہدین اور علماء اسلاف واخلاف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس روایت کا سرا صحابہ کرام سے ملتا ہے۔ اجلہ صحابہ مختلف مسائل میں نہایت شاذ اور جمہور صحابہ کے مواقف سے متصادم آرا رکھتے تھے۔ جماعت صحابہ میں عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن مسعود سر فہرست ہیں جن کی متفرد تفسیری وفقہی آرا پر  علمی حلقوں میں گفتگو رہی ہے ۔ مشہور ہے کہ عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک سے کہا کہ ابن عباس کی رخصت،ابن عمر کی شدت پسندی اورعبد اللہ ابن مسعود کے شاذ اقوال سے بچتے ہوئے ایک کتاب لکھ دیں۔(۵) تابعین میں  نخعی ،شعبی،کعب احبار وغیرہ سے کثرت سے شاذ اقوال منقول ہیں۔

صحابہ وتابعین کی یہی روایت بعد کی نسلوں میں منتقل ہوئی۔چناں چہ  نص کو دانتوں سے پکڑنے اور قیاسات اور عقل وخرد کی موشگافیوں سے احتراز کرنے والی شخصیات کے یہاں بھی مخالف جمہور ایسی آرا مل جاتی ہیں جن پر   ہردور کےعلمی وفکری حلقوں میں ردوکد کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی روایت   اسی فکری ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ان متفرد اقوال سے متعلق اصحاب علم کا مجموعی موقف یہ رہا ہے کہ ان کی اتباع محض رخصتوں کی جستجو اور ان پر عمل کے لیے نہ ہو۔ امام ذہبی کہتے ہیں:  من یتتبع رخص المذاھب وزلات المجتھدین فقد رق دینہ۔’’جومختلف مذاہب میں پائی جانےوالی رخصتوں  اور مجتہدین کی لغزشوں کی تلاش وجستجو میں رہتا ہے ،اس کا دین کمزور ہوجاتا ہے‘‘۔(۶)

یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ منفرد یا شاذ سے موسوم کی جانے والی بہت سی  آرا واقوال کی حیثیتیں تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ چناں چہ ایک نسل کے علما  ومجتہدین کے شاذ تصور کیے جانے والے اقوال  ان کی بعد کی نسلوں میں  قبولیت  اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔صرف خلافت کے مسئلے کو سامنے رکھ کر دیکھیں۔ جمہور   کے نزدیک نہ توغیرقریشی کی اور نہ ہی  بیک وقت دو لوگوں کی خلافت منعقد ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس رایے اہل بدعت کی تھی لیکن وہی رایے جمہور علما کا مسلک بن گئی۔تفرد کے حوالے سے اہل الرایے زیادہ مشہور ہیں لیکن اہل الحدیث کے یہاں بھی اس کی کم مثالیں نہیں ہیں ۔اوپر ابن حزم کا قول گزرا جس میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ انہوں نے امام شافعی و امام مالک کو بھی شمار کیا ہے جن کے بہت سے اقوال اس معنی میں شاذ ہیں کہ ان سے قبل کوئ ان کا قائل نظر نہیں آتا  ۔خود یہی حال ابن حزم ،ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے  محتاط اکابر علما کا ہے جو امور شریعت میں قیاس و اجتہاد کے شدید مخالف ہیں لیکن ان کے یہاں بھی بہت سے (کلامی وفقہی)تفردات  پائے جاتے ہیں۔چناں چہ مثلا ابن تیمیہ عرش باری کے قدم  اور ابن قیم فنائے جہنم کے قائل تھے۔(۷) علمائے سلف کے درمیان پائے جانے والے تفردات کواگر جمع کیا جائے متعدد  جلدیں تیارہوجائیں گی۔

تفردپسندی کے اسباب اورشاہ صاحب کا موقف

دین کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے شاہ ولی اللہ نے بھی متعدد مسائل میں جمہور علمائے امت سے الگ ہٹ کر اپنی آرا قائم کی ہیں۔اس کا تعلق  فقہ واجتہاد اور کلام دونوں سے ہے۔ اس تحریر میں  ہم شاہ صاحب کے  صرف کلامی تفردات سے بحث کریں گے۔

 سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کلامی وفلسفیانہ مسائل میں شاہ ولی اللہ کی تفرد پسندی کے اسباب کیا ہیں؟  اس کے مختلف اسباب میں سے سب سے اہم سبب، جو مشترکہ طور پر دوسروں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، وہ شاہ صاحب کا  مجتہدانہ مزاج ہے۔قرون اولی کے اصحاب علم کے طرز پر دلائل و براہین کی روشنی میں جمہورکے مروجہ موقف سے ہٹ کر نیا موقف اختیار کرنے میں وہ کوئ تامل محسوس نہیں کرتے۔ تاہم فقہ میں ان کے یہاں اجتہاد کے مقابلے میں تقلید کا پہلوغالب ہے ۔لیکن کلام وفلسفہ میں ان کی مجتہدانہ طبیعت  با ضابطہ طور پرتقلیدکی پابند نہیں ہے،جس کا  اظہار شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ کے مقدمے میں کیا ہے۔

ان کی کلامی وفلسفیانہ  فکر کا سب سے اہم پہلو دین وشریعت کے درمیان عقلی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے جس کےلیے وہ مختلف سطحوں پرفکری طورپرکوشاں رہے۔چناں چہ ایک طرف انہوں نے اسلامی فکرکے بنیادی ڈھانچے، الہیات کی تشکیل نوکواپنا موضوع بنایا اوراس حوالے سے متعدد تصانیف قلم بند کیں ۔دوسری طرف انہوں نے دین کی عملی بنیادوں کوجواحکام شریعت سے عبارت ہیں،عقلی تفہیم پراستوارکرنے کی کوشش کی۔ الہیات  سے متعلق انہوں نے اپنا ایک منفرد نظام فکر وضع کیا جس پر ابن عربی کے وجودی فلسفے کے اثرات غالب ہیں۔ ابن عربی  کے بعدبظاہر انہوں نے سب سے زیادہ غزالی کی فکرسے خوشہ چینی کی ہے جس کے  واضح اثرات  ان کی کلامی فکرپرنظر آتے ہیں۔

مختلف امور دونوں شخصیات میں مشترک نظر آتے ہیں جیسے:علوم معقولات ومنقولات دونوں پردست رس،اس فرق کے ساتھ کہ حدیث میں غزالی کمزور ہیں جب کہ روایت ودرایت دونوں میں  شاہ صاحب  کا پایہ  بہت بلند ہے،فلسفہ و کلام کے ساتھ تصوف کی بہم آمیزی اور فلسفہ وکلام میں اہل سنت واہل بدعت دونوں کے مختلف مکاتب فکر سے استفادے کا رجحان، چناں چہ غزالی کی طرح وہ بھی اخوان الصفاء اور دیگر مبتدع گروہوں کے فلسفیانہ افکار کے خوشہ چیں ہیں۔غزالی کی طرح  متعدد مابعد الطبیعاتی مسائل میں فلاسفہ کے طرز پر وہ  نصوص میں تاویل کا رجحان رکھتے ہیں۔ دونوں کے یہاں ان  فلسفیانہ اصطلاحات واسالیب کی چھاپ نظرآتی ہے جن کی تشکیل وفروغ میں اہل سنت سے باہرکے فرقوں نے اہم رول ادا کیا۔(۸) سطعات  اور بعض دیگر تحریروں میں شاہ صاحب کی مابعد الطبیعاتی فکرپراشراقی فلسفے کے اثرات کوصاف طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔ علوم ولی اللہی کے شارحمولانا عبید اللہ سندھی  بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ شاہ صاحب کسی بھی صاحب علم کی بات کوخواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو،اس شرط کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں کہ وہ ان کی فکرکے  مطابق ہو۔(۹)

شاہ صاحب نے مختلف کتابوں میں بہت سے مسائل کے حوالے سے اپنے متفردانہ موقف کا برملا اظہار کیا ہے، لیکن عام طور پر اس کی توجیہ واستدلال سےگریز کیا ہے۔ البتہ حجۃ اللہ البالغہ میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ اس پر پیدا ہونے والے سوالات و اعتراضات سے بحث کی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلامی مسائل دو طرح کے ہیں: منصوص مسائل جو آیات و احادیث اور صحابہ وتابعین کے اقوال ومواقف سے ثابت ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں آگے چل کر امت میں دو رجحانات پیدا ہوئے۔ ایک گروہ نے ظاہر نصوص کو اختیار کیا جب کہ دوسرے گروہ نے ایسی نصوص میں تاویل کی روش اختیار کی۔ ان مسائل کے ذیل میں قبر کا سوال وعذاب، قیامت میں اعمال کا وزن، رؤیت باری اور کرامات اولیاء جیسے مسائل آتے ہیں۔ مسائل کی دوسری نوع وہ ہے جو  منصوص ہے۔ ان کے معانی و مفاہیم پر نہ قرآن وحدیث سے روشنی پڑتی ہے اور نہ صحابہ کے اقوال سے۔ شاہ صاحب کے بقول انہوں نے اس دوسری قسم کے مسائل میں متقدمین سے اختلاف کیا ہے اور انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ ان مسائل میں غورو خوض کرکے اپنا موقف متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مسائل کی توضیح ان کی تفہیم پر موقوف ہے۔(۱۰)

شاہ صاحب فرماتے ہیں ان مسائل میں تاویل کی راہ اختیار کرنے اور نہ کرنے والےدونوں ہی گروہ راہ حق پر ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے پر اپنی برتری کا اظہار کرے۔(ھذا القسم لست استصح ترفع احدی الفرقتین علی صاحبتھابانھا علی السنة۔) (۱۱)  کیونکہ دونوں ہی فریق مختلف مسائل میں تاویل کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دوسری شکل تو صرف یہ رہتی ہے کہ ان مسائل میں سرے سے غوروخوض نہ کیا جائے جس طرح سلف (صحابہ و تابعین) نے غور وخوض نہیں کیا ۔(وان ارید قح السنة فھو ترک الخوض فی ھذہ المسائل رأسا کما لم یخض فیھا السلف(۱۲) گویا اشاعرہ و ماتریدیہ کے مطابق شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ عقل سے بظاہر متعارض نصوص میں تاویل کی جا سکتی ہے۔ محدثین کے مسلک کے مطابق اس کا انکار صحیح نہیں ہے۔

شاہ صاحب کے کلامی تفردات پر ایک  نظر

اب ہم شاہ صاحب کے تفردات پرنظرڈالتے ہیں۔شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں اپنے چند  کلامی تفردات کا ذکران الفاظ میں کیا ہے:

وستجدنی اذا غلب علیَّ شقشقة البیان وامعنت فی تمھید القواعد غایة الامعان، ربما اوجب المقام ان اقول بما لم یقل به جمھور المناظرین من اھل الکلام کتجلی اللہ تعالی فی مواطن المعاد با لصور والاشکال و کاثبات عالم لیس عنصریا یکون فیہ تجسد المعانی والاعمال باشباح مناسبة لھا فی الصفة وتخلق فیه الحوادث قبل ان تخلق فی الارض وارتباط الاعمال بھیئات نفسانیة وکون تلک الھیئات فی الحقیقة سببا للمجازاة فی الحیاة الدنیا وبعد الممات والقول بالقدرالملزم ونحوذلک۔

’’جب مجھ پربیان کا جوش غالب ہوگا اور  قاعدوں کی تمہید بیان کرنے میں مجھ کو نہایت غور کرنا پڑے گا تو  بمقتضائے کلام میرے قلم سے وہ باتیں نکلیں گی  جن کے مناظر متکلمین میں سے کم لوگ  قائل  رہے ہیں۔ مثلا اس  بات کا قائل ہونا کہ اللہ تعالی آخرت میں مختلف شکلوں  اور صورتوںمیں تجلی فرمائے گا اور ایک ایسے عالم کو ثابت کرنا جس کی ترکیب عنصری نہیں ہے ۔اس میں اعمال اور معانی ایسے قالبوں میں جو وصف میں ان اعمال وغیرہ کے مناسب ہوتے ہیں، مجسم ہو کر ظاہر ہوتے ہیں اور قبل اس کے کہ زمین پر واقعات کی شکل میں وہ ظہور پذیر ہوں ،وہ پہلے ہی سے اس عالم (عالم مثال ) میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ نیز اس بات کا قائل ہونا کہ اعمال کو نفس کی حالتوں سے ایک خاص تعلق ہے اور دنیا و آخرت میں جزا پانے کا حقیقتاوہی باعث ہوتے ہیں اور تقدیر  ملزم (مبرم)کا قائل ہونا وغیرہ‘‘۔ (۱۳)

  لیکن دوسرے مقامات پرشاہ صاحب نے بہت سے دوسرےمسائل میں بھی تفرد کی روش اختیار کی ہے ۔ان  پر ایک نظر ڈالنے سے جو بڑے اور اہم تفردات سامنے آتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں، جن پر اس مقالے میں گفتگو کی  گئی ہے:

 عالم مثال کا قول، قدم عالم کا قول، معجزہ شق القمرکا’ انکار‘،واقعات انبیاء کی فلسفیانہ تاویل، قرآن کے الفاظ کی رسول اللہ کی طرف نسبت وغیرہ۔ ان تفردات میں سے چند کو علامہ زاہد الکوثری نے شدید طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شاہ صاحب کے اس نوع کے افکار و آراء کو انہوں نے فکری اضطراب (اضطراب فکری) سے موسوم کیا ہے (۱۴) اوراس کی ایک بنیادی وجہ یہ لکھی ہے کہ وہ  فلسفۂ وحدت والوجود کے قائلین میں سے ہیں۔ انہوں نے شیخ ابو طاہر کے والد ابراہیم کورانی شافعی کی کتب و رسائل سے خصوصی استفادہ کیا جن میں حشویہ، اتحاد وحلول کے قائلین اور فلاسفہ و متکلمین کے گرے پڑے اقوال کے درمیان جمع و تطبیق کی کوشش کی گئی ہے۔(۱۵) کلامی مسائل کے حوالے سے انہوں نے شاہ صاحب کے تین تفردات کا ذکر کیا ہے :معجزہ ٔ شق القمر کا’ انکار‘  یا اس کی جمہور کے نقطہ نظر کے خلاف تاویل ،عالم مثال  کا تصورقبول کرنا اورقدم عالم کا قائل ہونا۔ ہم سب سے پہلے ان مذکورہ تین تفردات پر گفتگو کریں گے۔

 عالم مثال کا تصور:

شاہ صاحب نے اپنی متعدد کتب ورسائل میں عالم مثال پر گفتگو کی ہے ۔حجۃ اللہ البالغہ، سطعات،لخیر الکثیر، التفہیمات الالہیہ وغیرہ۔ لیکن باضابطہ اور تفصیلی گفتگو ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں کی ہے ۔انہوں نےعالم المثال پر ایک مکمل باب قائم کیا ہے جو مبحث اول کا دوسرا باب ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:

اعلم انہ دلت احادیث کثیرۃ علی ان فی الوجود عالما غیرعنصری تتمثل فیہ المعانی باجسام مناسبة لھا فی الصفة وتتحقق ھنالک الاشیاء قبل وجودھا فی الارض نحوا من التحقق۔

’’جاننا چاہیے کہ اکثر حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسا عالم موجود ہے جس کی ترکیب عناصر سے نہیں ہے۔اس میں ہرایک جسمانی چیز کی مناسب صفت اورحالت میں وہ چیزیں جومعنوی ہیں ،صورت پکڑتی ہیں اور قبل اس کے کہ یہ چیزیں زمین پرظاہرہوں،پہلے اس عالم میں موجود ہوجایا کرتی ہیں‘‘۔ (۱۶)

دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن میں اعراض و کیفیات کو مجسم انداز میں دکھایا گیا ہے ،جیسے قیامت کے دن    انسان کے اعمال :نماز،روزہ اورزکوۃ وغیرہ کا محسوس ومجسم شکل میں سامنے آنا۔(۱۷) موت کا مینڈھے کی شکل میں لایا جانا اور پھر اسے جنت و دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جانا (۱۸)   یا اسی طرح دنیا کا ایک بڑھیا کی شکل میں حاضرہونا۔وغیرہ۔(۱۹) ان جیسی احادیث کی بنیاد پرشاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے تین میں سے کوئی ایک موقف اختیارکرنا ضروری ہے: یا توان احادیث کے ظاہر کی بنیاد پر عالم مثال کا اقرارکیا جائے، محدثین کا  منہج اسی کامتقاضی ہے،یایہ سمجھاجائے کہ دیکھنے والے کوایسا محسوس ہوتا ہے ،خارج میں ایسے واقعات  کا کوئی وجودنہیں ہوتا۔ یا یہ کہ ا سے محض تمثیل تصورکیا جائے لیکن  صرف تیسرے معنی پران کومحمول کرنا شاہ صاحب کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔(۲۰)

ڈاکٹر فضل الرحمن  کہتے ہیں  کہ عالم مثال کا خیال سب سے پہلے شہاب الدین سہروردی(مقتول، م،۱۱۹۱)نے پیش کیا، ابن عربی( م،۱۲۴۰) اور ملا صدرا نے اسے پروان چڑھایا۔ شاہ ولی اللہ کا رول اس حوالے سے یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مابعد الطبیعاتی فلسفےمیں اسے  وسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ (۲۱)  لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا ابتدائی تصور ابن سینا نے’’ الشفاء ‘‘اور ’’الاشارات ‘‘میں معاد سے متعلق مباحث میں پیش کیا۔ سہروردی نے اسے ایک خیال کی شکل دی لیکن دونوں نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی۔ سہروردی کے شارح  شمس الدین الشہرزوری ( م،۱۲۸۸)نے  غالبا باضابطہ طور پر پہلی مرتبہ  اس اصطلاح کا استعمال کیا اور اسے آگے بڑھایا ۔ابن عربی  نے   عالم المثال کے بجائے ’عالم الخیال‘ کے ذریعے اس تصورکووسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ا ن کے بعد ان کے شارحین کے ذریعے عالم المثال کی اصطلاح اور اس کے تصور کو فروغ حاصل ہوا اور ملا صدرا سے ہوتا ہوا شاہ ولی اللہ تک پہنچا۔ شاہ صاحب سے قبل  نہ صرف صوفیہ بلکہ فقہا ومحدثین کی ایک جماعت   بھی اس تصور کی حامل رہی ہے جس میں تاج الدین سبکی،سیوطی،ملا علی قاری وغیرہ شامل ہیں۔شاہ صاحب اس کو بظاہر  اپنے تفردات میں اس لیے شمار کرتے ہیں کہ یہ تصور اور اصطلاح اصلا صوفیہ کے یہاں مقبول رہی ہے،محدثین وفقہا نے بہت کم ہی اس سے اعتنا کیا ہے بلکہ زیادہ تر انہوں نےصوفیہ کے حوالے سے ہی اس کا ذکرکیا ہے۔

شاہ صاحب کی اس حوالے سے دو انفرادیتیں ہیں: ایک یہ کہ انہوں نے اپنے مابعدالطبعیاتی فلسفے میں  عالم مثال کے تصور کو اساسی اور مرکزی جگہ دی ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے نصوص کو اس کا ماخذ قرار دیا اور اس تصور کے بنیادی خدو خال کو تفصیل کے ساتھ ان پر منطبق کرنے کی کوشش کی ۔جیساکہ سطور بالا میں ان کی پیش کردہ عبارت سے واضح ہے  کہ ان کی نظر میں بہت سی احادیث اس پردلالت کرتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو عالم المثال کے تصور کو اختیار کرنا شاہ صاحب کا کوئی تفرد نہیں ہے ۔صرف اس معنی میں اس کو تفرد کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پوری صراحت کے ساتھ اس تصور کو معقول کے بجائے منقول سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔

شاہ صاحب کے عالم مثال کے تصور پر اعتراض کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ افلاطونی فلسفے سے ماخوذ ہے۔زاہد الکوثری  نے بھی یہی اعتراض کیا ہے۔  جس کی ان کے بقول شریعت  اور عقل  دونوں لحاظ سے  کوئی اصل نہیں ہے۔(لم یثبت وجودہ فی الشرع ولا فی العقل) (۲۲) لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کے تصورکا اصل ماخذ افلاطون کا تصورعالم المثل( world of ideas) یا عالم الاشکال (world of forms)نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اوپر کی مثالوں اور حوالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، شاہ صاحب نے اسے خود اسلامی فلسفہ و تصوف کی روایت سے اخذ کیا ہے ۔خاص طورپر ابن عربی کے وجودی اور شہاب الدین سہروردی مقتول کے اشراقی فلسفے میں اس کے نقوش بہت واضح ہیں۔

 تاہم بظاہر یہ دعوی کرنا بہت مشکل ہے کہ افلاطون کے تصور عالم المثل   کا اسلامی( شیعی و سنی دونوں) روایتوں میں تشکیل اور فروغ پانے والے عالم المثال کے فلسفے میں کوئی دخل نہیں رہا ہے۔زیادہ صحیح بات یہ نظر آتی ہے  کہ وجودی اور اشراقی صوفیہ نے  نوافلاطونیت کے زیر اثر ابتدائی سطح پر اس تصور کوقبول کیا۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسلام کی کلامی  وفلسفیانہ روایت کا خمیر یونانی و ایرانی فلسفے کے آب و گل سے ہی تیار ہوا ہے اور نو افلاطونیت نے اس میں ایک اہم عنصر کا کردار ادا کیا ہے۔  وجود کی ماہیت کیا ہے  اورقدیم سے  حادث  کے صدور اور عالم ناسوت  سے عالم جبروت وملکوت کےتعلق کی کیا نوعیت ہے؛  اس نوع کی بحثیں یونانی فلسفے کے زیر اثر اسلامی فکر کا حصہ بنیں۔ عالم مثال کے تصور کواسی پرقیاس کرنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کا ابتدائی تصور یونانی فلسفےسے اسلامی فکر کا حصہ بنا  اورشاہ صاحب نے اسے دراصل یونانی کے بجائے اسلامی فکرسے اخذ کیا۔

معجزہ شق القمر سے’ انکار‘: 

شاہ صاحب کا دوسرا تفرد معجزہ شق القمر سےایک نوع کا’ انکار ‘ہے۔ شاہ صاحب اسے  معروف معنی میں معجزے کے بجائے قرب قیامت کی پیشین گوئی قرار دیتے ہیں۔ ’التفھیمات الالھیۃ‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

 اما شق القمر، فعندنا لیس من المعجزات، انماھو من آیات القیامة کما قال اللہ تعالیٰ: اقتربت الساعة وانشق القمرولکنہ صلی اللہ علیہ وسلم اخبرعنہ قبل وجودہ فکان معجزة من ھذا السبیل ۔۔۔ ولم یذکر اللہ سبحانہ شیئا من ھذہ المعجزات فی کتابه ولم یشر الیھا قط۔

’’ جہاں تک شق قمر کے معجزے کی بات ہے تووہ ہمارے نزدیک  معجزات میں سے نہیں ہے، وہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس کے وقوع سے پہلے خبر دی ہے اس لحاظ سے یہ معجزہ ہے---اللہ سبحانہ نے ان معجزات میں سے کسی معجزہ کا ذکر اپنی کتاب ( یعنی قرآن) میں نہیں کیا ہے اور نہ مطلق اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘(۲۳)

اس کی مزید وضاحت انہوں نے دوسری جگہ  کی ہےجس کے مطابق، یہ ضروری نہیں ہے کہ عین قمر کا انشقاق ہوا ہو بلکہ بظاہر حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا ہو۔ چناں چہ ’تاویل الاحادیث ‘میں لکھتے ہیں:

ولیس یجب ان یکون انشقاقه البتة انشقاقا لعین القمر بل یمکن ان یکون ذلک بمنزلة الدخان وانقضاض الکوکب والخسوف و الکسوف مما یظھر فی الجو لأعین الناس۔

’’یہ ضروری نہیں ہے کہ عین قمر کا انشقاق ہوا ہو بلکہ ممکن ہے اس کی شکل ایسی ہو جیسےآسمان میں دھوئیں یا ستاروں کے ٹوٹنے  اورکسوف وخسوف (سورج اورچاند گرہن)کی کیفیت دیکھنے والوں کومحسوس ہوتی ہے‘‘۔(۲۴)

یوم تأتی السماء بدخان مبین ( جس دان آسمان ایک کھلے ہوئے  دھوئیں کے ساتھ نمودار ہوگا۔: الدخان:۱۰) کی تفسیر میں عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت پرمحمول نہیں ہے بلکہ ایک بار مکے میں قحط آیا تو  اہل مکہ کو بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں دھواں نظر آتا تھا  ۔اسی طرح ابن ماجشون مالکی کا قول ہے کہ  قیامت میں اللہ تعالی دیکھنے والوں کومختلف شکلوں میں نظر آئے گا۔ (۲۵) شاہ صاحب کے مطابق ،اس طرح کے حادثات و اقعات نبی کے لیے اس  طرح معجزات بن جاتے ہیں کہ  نبی ان کی خبر پہلے ہی دے دیتا ہے یا وہ خدا کے قانون مجازات کے مطابق ہوتے ہیں جیسے عاد وثمود کی ہلاکت ہود اورصالح علیہما السلام کے لیےبمنزلہ معجزہ تھی۔(۲۶) شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ خوارق ومعجزات کے بارے میں یہ سارے امکانات موجود ہیں جن کے تناظر میں ان کی حقیقت کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام معنوں میں جسے معجزہ کہا جاتا ہے بہرحال وہ خدا کی قدرت سے باہر نہیں ہے ۔چناں چہ انہوں نے اس معجزے کی جوتاویل کی ہے وہ  ان کے بقول بربنائے امکان واحتمال ہے نہ کہ بربنائے  یقین۔(۲۷) اسی تنا ظر میں شاہ صاحب کے اس نقطہ نظر کی حقیقت کوبھی سمجھاجاسکتا ہے کہ قرآن میں رسول اللہ کے کسی معجزےکا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔(۲۸)   بعض اصحاب علم  جن میں علامہ خطابی شامل ہیں کے  نزدیک  قرآن کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی معجزہ  تواتر کی حدتک نہیں پہنچتا۔(۲۹) لیکن یہ جہاں تک  شاہ صاحب  کا معاملہ ہے وہ رسول اللہ کے معجزات کے متواترا ثبوت کے توقائل  ہیں البتہ کسی معجزے کے قرآن میں مذکورہونے کے قائل نظرنہیں آتے۔

 انشقاق قمر کے حوالے سےشاہ صاحب کا موقف اور ان کی تشریح جمہور کے مسلک سے ہٹی ہوئی نظرآتی ہے۔تاہم  اس کے قائلین علمائے اسلاف میں موجود رہے ہیں ۔تفسیر قرطبی میں ہے :

قال قوم لم یقع انشقاق القمر بعد وھومنتظرای اقترب قیام الساعة و انشقاق القمر وان الساعة اذا قامت انشقت السماء بما فیھا من القمر وغیرہ وکذا قال القشیری وذکر الماوردی ان ھذا قول الجمھور وقال لانہ اذا انشق ما بقی احد الا راہ لانہ آیة والناس فی الآیات سواء۔ و قال الحسن اقتربت الساعة فاذا جاءت انشق القمربعد النفخة الثانیة و قیل وانشق القمر ای وضح الامر وظھر والعرب تضرب بالقمر مثالا فیما وضح ۔۔۔وقیل انشقاق القمروانشقاق الظلمة عنه بطلوعه فی اثنائھا۔

’’بعض لوگ اس کے قائل ہیں کہ انشقاق قمرکا واقعہ اب تک ظہورپذیر نہیں ہوا اوروہ ہواچاہتا ہے۔چناں چہ جب قیامت  واقع ہوگی تو آسمان سمیت اس کی تمام چیزیں جیسے چاند وغیرہ پھٹ جائیں گے۔قشیری کا قول  یہی ہے۔ اور ماوردی کہتے ہیں کہ جمہور کا یہی موقف ہے۔ان کے بقول اگرچاند شق ہوتا تو یہ واقعہ ہرکسی کے مشاہدے میں آتا۔ اس لیے کہ یہ خدا کی نشانی ہے اور وہ تمام لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔حسن کہتے ہیں کہ قیامت قریب ہے لہذاجب وہ قائم ہوگی توچاند نفخہ ثانیہ کے بعد دوٹکڑے ہوجائے گا۔اورایک تاویل یہ کی گئی ہے کہ قرآن کا بیان کہ چاند پھٹ گیا،اس کا مطلب یہ ہے  کہ بات واضح ہوگئی۔عرب کسی چیز کونہایت واضح ہوجانے کے لیے چاند پھٹ جانے کا محاورہ استعمال کرتے تھے۔۔۔۔اسی طرح ایک قول یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا کا مطلب ہے کہ اندھیرا  اس کے طوع ہونے سے دورہوگیا‘‘۔ (۳۰)

 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقف کے قائلین اسلاف میں قابل ذکر تعداد میں رہے ہیں۔ ورنہ ماوردی اسے قول جمہور قرار نہ دیتے اور حسن بصری جیسی شخصیت اسے  روز    قیامت پر محمول نہ کرتی۔ البتہ شاہ صاحب کا اس واقعہ کو قرب قیامت کی پیشین گوئی پر محمول کرتے ہوئے  رسول اللہ کا معجزہ قرار دینا محل نظر  محسوس ہوتا ہے ۔ کیو ں کہ اس طرح تو قرب قیامت کی تمام ہی پیشین گوئیاں معجزہ قرار پائیں گی۔ معجزہ کی تعریف میں یہ داخل ہے کہ وہ رسالت کی تصدیق اور منکرین پر اتمام حجت کے لئے   عطا کیا جاتاہے ۔

علامہ زاہد الکوثری نے معجزہ شق القمر کے تعلق سے شاہ صاحب کےموقف پر  تنقید کرتے ہوئے اس نکتے کا اظہارکیا ہے کہ: ولیس سحر الاعین من شان رسل اللہ ''اللہ کے رسولوں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ شعبدہ بازی دکھائیں"۔(۳۱)  گویا علامہ کوثری کے نزدیک سحر اورمعجزے میں فرق یہ ہے کہ سحر میں  خارق عادت کے طورپرجوچیز نظر آتی ہے وہ نظر کا دھوکا ہوسکتا ہے جب کہ معجزے کے لیے لازم ہے کہ شے عادی میں تغیر کے لحاظ سے  دیکھنے والوں کوجوکچھ نظر آتا ہو وہ بعینہ حقیقت پرمحمول ہو۔ لیکن شاہ صاحب کا موقف اس کے بر خلاف نظر آتا ہے۔ وہ اس فرق کے ساتھ سحر اورمعجزے کےدرمیان تفریق کے قائل نظر نہیں آتے۔

معجزہ انشقاق قمر کی بحث کے تناظرمیں خود  نفس معجزات کے حوالے سے شاہ صاحب  کے موقف کوسامنے رکھنا ضروری ہے۔اس کے بغیرشاہ صاحب کے موقف کی  حقیقت  مکمل طور پرسامنے نہیں آسکتی۔ شاہ کاموقف یہ نظرآتا ہے کہ رسول اللہ کو کلی معجزے کی شکل میں تو اصلا قرآن دیا گیا تھا، باقی    بظاہر خوارق   کی شکل میں جوامور آپ   ﷺ سے صادر ہوئے جیسے، دعا سے مریض کا صحت مند ہو جانا یا کھانے پینے کی اشیاء میں برکت   کا ہونا؛   ان کی  حیثیت جزئی معجزات کی ہے۔(۳۲) جس کی تائید ان کی نظر میں اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ صفات صرف انبیا کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ مفہمین اور اولیا  میں بھی پائی جاتی ہیں۔ان کی کرامتیں اسی قبیل سے ہیں۔(۳۳) شاہ صاحب کے نزدیک انہیں خوارق بس اس لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ  قلیل الوقوع ہوتے ہیں۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:

 والحق ان کل ما یسمی خرقا فانه من الامور العادیة لکن لما کان  اسبابھا قلیلة الوقوع لا یظھر الا قلیلا حیث کان العامة لا یتوقعونھا سمیت  خوارق۔ وربما کان للخارق نظیر مالوف عندھم او ما ھو اتم منه فی الخرق فلا یلتفت الیہ العامة۔

’’حقیقت یہ ہےکہ جن چیزوں پرخرق عادت کا اطلاق کیا جاتا ہے،وہ معمول کے امور  ہوتے ہیں لیکن چوں کہ ان کے اسباب کا وقوع بہت کم ہوتا ہے اس لیے ان کا ظہور بھی کم ہی ہوتا ہے۔اب چوں کہ عوام کوایسے واقعے کی توقع نہیں ہوتی، اس لیے انہیں خوارق سے موسوم کردیا جاتا ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خرق عادت کے طورپرجوواقعہ سامنے آتا ہے اس جیسی یا اس سے بڑھ کرکوئی نظیرپہلے سے عوام کی نگاہ میں ہوتی ہے ایسے میں وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘‘۔(۳۴)

معجزات کے حوالے سے شاہ صاحب کا تصور  ایک حد تک معتزلہ سے متاثر نظر آتا ہے جومعجزے  کے اقرار وقبول کے ساتھ اس کے قلیل الوقوع ہونے کے قائل ہیں۔ابومسلم اصفہانی کی طرح شاہ صاحب بھی قرآن میں مذکور مختلف انبیا کے معجزات کی تاویل کرتے نظرآتے ہیں۔(جس پرگفتگو آگے آرہی ہے)

حواشی وتعلیقات

(۱)  شبلی نعمانی،علم الکلام، اعظم گڑھ، دار المصنفین،۱۹۹۳ص،۱۰۵

(۲) ابوحامد الغزالی، المستصفی ، الریاض: دار المیمان للنشروالتوزیع، سال اشاعت غیرمذکور،ص،۲۷۷

(۳)سیف الدین الآمدی،  الاحکام  فی اصول الاحکام ،(ج،۱)الریاض، دار الصمیعی للنشروالتوزیع،۲۰۰۳، ۲۳۸

(۴) ابومحمد ابن حزم، الاحکام فی اصول الاحکام،ج،۳، بیروت:دار ابن حزم، ۲۰۱۶ص،۵۷۹

(۵) ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون،۱؍۱۸ ،مکتبہ شاملہ

(۶) شمس الدین الذھبی،سیر اعلام النبلاء ج،۸ص،۹۰ مکتبہ شاملہ

(۷) ابن تیمیہ کے موقف کی تفصیل اور اس پررد کے لیے دیکھیے : رسالۃ فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلۃ حوادث لا اول لھا،تحقیق:سعید عبد اللطیف فودہ،اردن: ناشر،محقق خود،۱۹۹۸،ص،۵۹ وما بعد، ابن حجر نے بھی فتح الباری میں ابن تیمیہ پراس تعلق سے شدید رد کیا ہے اور  مرقاۃ الطارم(ص،۶۱) اورفیض الباری (ج،۶،ص،۵۷۴) میں انورشاہ کشمیری نے بھی جابجا اس پررد کیا ہے۔ ابن قیم کے موقف اس کے حق میں دلائل کے لیے ملاحظہ کیجیے :حادی الارواح الی بلاد الارواح ،المکۃ المکرمۃ: دار عالم الفوائد للنشروالتوزیع،  ج،۲،ص،۷۱۸۔۷۹۲

(۸) مبتدع فرقوں کے غزالی کی فکر پراثرات  کے حوالے سے تنقید کے لیے دیکھیے: ذکی مبارک: الاخلاق عند الغزالی، قاہرہ: دارالشعب،  بدون سن ص ،۷۵

(۹) مولانا عبید اللہ سندھی کا مقالہ’’ امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ ،الفرقان،(بریلی)شاہ ولی اللہ نمبر،۱۳۵۹ھ،ص،۲۳۸

(۱۰)   شاہ ولی اللہ دہلوی ،حجۃ اللہ البالغۃ (تحقیق وتعلیق سعید احمد پالن پوری)ج،۱،الباب الثانی، ذکرعالم المثال، دیوبند: مکتبہ حجاز، ۲۰۱۰ ، ص،۶۰

(۱۱) ایضا،ص،۶۱

(۱۲) ایضا

(۱۳) حجۃ اللہ البالغہ ،ص،۵۷۔۵۸

(۱۴)محمد  زاہد الکوثری،حسن التقاضی فی سیرۃ الامام ابی یوسف القاضی، مصر:دار الانوار،۱۹۴۸،ص،۹۵

(۱۵)  ایضا،ص،۹۴

(۱۶)  حجۃ اللہ البالغہ ج،۱،ص،۷۰

(۱۷) مسند احمد ، حدیث نمبر،۸۷۲۷

(۱۸) ترمذی، حدیث نمبر،۲۵۵۸

(۱۹) اس طرح کی بہت سی احادیث کوشاہ صاحب نے عالم مثال کےثبوت  میں پیش کیا ہے۔ دیکھیے،حجۃ اللہ البالغۃ،ص،۷۲،۷۱

(۲۰)  ایضا،۷۵

(۲۱) دیکھیے:Fazlur Rahman: Revival and Reform in Islam, ed. Ebrahim Moosa, Noida: One World Publications, 2006, p.175

(۲۲) حسن التقاضی،ص،۹۷۔۹۸

(۲۳) شاہ ولی اللہ الدہلوی ، التفھیمات الالٰھیہ ،(ج،۲)  گجرات:المجلس العلمی ڈھابیل، ۱۹۳۶، ص: ۵۷۔۵۸

(۲۴)شاہ ولی اللہ الدہلوی  ،تاویل الاحادیث،(تحقیق وتقدمۃ، غلام مصطفی القاسمی) حیدرآباد،(پاکستان): اکادمیۃ الشاہ ولی اللہ الدھلوی:۱۳۸۵ھ ص،۱۰۲۔۱۰۳ 

(۲۵)  ایضا ،۱۰۳،یہی دونوں مثالیں شاہ صاحب نے عالم مثال کے  اثبات کے لیے بھی دی ہیں۔ حجۃ اللہ البالغۃ،ص،۷۴

(۲۶)   تاویل الاحادیث،ایضا،ص،۱۰۲

(۲۷) ایضا ،ص،۱۰۴

(۲۸) التفھیمات الالھیۃ ، ج،۲،ص،۵۸

(۲۹) انورشاہ کشمیری،  فیض الباری  علی صحیح البخاری مع حاشیۃ البدر الساری الی فیض الباری (ج،۴)حاشیہ،دیوبند: مکتبہ فیصل ،۲۰۱۷ص،۴۵۷۔۴۵۸

(۳۰) ابوعبد اللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن،ج،۱۷، بیروت: دار الکتب العلمیہ،۱۹۸۸ ص،۸۳

(۳۱) حسن التقاضی،ص،۹۷

(۳۲)  التفھیمات الالھیۃ، ج،۲ص،۸۴

(۳۳) شاہ ولی اللہ الدہلوی، تاویل الاحادیث،ص،۱۰۱

(۳۴) ایضا،ص،۱۰۱

(جاری)


شخصیات

(اپریل ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter