حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۱)

مولانا محمد بھٹی

بیشتر انسانی افعال اخلاقی اقدار سے استناد کرتے ہیں لیکن یہ اقدار کس پہ تکیہ کرتی ہیں؟ اس سوال کو جواب آشنا کرنے کے لیے کی گئیں کاوشوں نے کئی ایک دبستانِ علم اور مکاتبِ فکر کو جنم دیا ہے۔ ہماری علمی روایت کی بیشتر مذہبی و علمی جدلیات کا محور و مدار بنا رہنے والا حسن و قبح کا مسئلہ بھی اسی سوال کے جواب کی ایک کوشش تھی۔یہ مسئلہ ان چند کلامی مسائل میں سے ایک ہے جن کی صراحی آج بھی معنویت سے لبالب ہے کیونکہ انسان کو ہر آن اقدار کا مسئلہ درپیش ہے۔جب تک انسان 'زندہ' ہے اقدار یا حسن و قبح کا سوال بھی زندہ ہے کیونکہ فطرتِ انسانی کے کلبلاتے اقتضاءات ہی اسے جانبر رکھے ہوئے ہیں۔ضرورتِ اقدار کی وساطت سے مسئلہ حسن و قبح کی انسان کے ساتھ پیہم چسپیدگی نے اس کی معنویت کو  گویا جاوداں کر دیا ہے۔

کلامی روایت میں حسن و قبح کی بابت غیر معمولی موقف کے حامل اشعری دبستانِ علم کے نمائندہ علماء میں سے ایک بڑا نام ابو عبداللہ امام محمد بن عمر فخر الدین رازیؒ ہے۔ امام رازی کا شمار اشاعرہ کے چیدہ و چنیدہ جہابذۂِ علم میں ہوتا ہے۔آپ نے سن ۵۴۴ھ میں خطۂِ خراسان کے شہر "رے" کے ایک علمی خانوادے میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم والد صاحب کے ہی سایۂ عاطفت میں حاصل کی۔تصنیف و تالیف کے میدان میں اترے تو قلم حق رقم کی علمی تابانی سے بڑے بڑے صاحبان علم و فضل کی آنکھوں کو چندھیا دیا۔امام صاحب کی قوتِ استدلال نے لوحِ علم پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔علوم اسلامیہ کو اصولی بنیادیں فراہم کرنے میں آپ کی کاوشیں بے مثل ہیں۔آپ نے جہاں اشعری علمِ کلام کو منضبط اور منظم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا وہیں قرآنِ حکیم کی مایہ ناز کلامی "تفسیر کبیر" سپرد قرطاس کر کے نصوص سے اس کی گہری وابستگی کو بھی معرض ظہور فراہم کیا۔اگر آپ کو مسلم علمی روایت کا دُرِّ فرید قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔کلام،تفسیر،فقہ،اصول فقہ،فلسفہ اور منطق،الغرض ہر مہم شعبۂِ علم آپ کی شمع فروزاں سے تابش حاصل کرتا ہے ۔آپ کے آثارِ خامہ سے ہلکا سا مس رکھنے والا بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ عبقریت  آپ کے در کی دریوزہ گر اور ذہانت آپ کی باندی ہے ۔۶۰۶ھ میں آپ واصل بحق ہوئے اور اپنے ترکے میں علم و عرفان کی بے بہا دولت چھوڑ گئے جس سے آج بھی تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔حسن و قبح سے متعلق آپ کے حاصلاتِ فکر کی طرف پیش قدمی سے پیشتر بہتر ہوگا کہ بہ طورِ پس منظر،اخلاقی حسن و قبح کی بابت تینوں کلامی مکاتبِ فکر(معتزلی،اشعری اور ماتریدی) کے مواقف کو اختصاراً سپردِ قلم کر دیا جائے۔

پس منظر

دریں باب معتزلہ و ماتریدیہ کا موقف خاصی حد تک ملتا جلتاہے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ افعال کا حسن و قبح شرعی نہیں بلکہ ذاتی و عقلی ہے۔ذاتی بایں معنی کہ کسی فعل کے اچھا یا برا ہونے میں حکم شرعی کی کوئی اثر آفرینی نہیں ہے بلکہ کوئی بھی فعل حکم الہی کے نزول سے پیشتر اپنی ذات ہی میں برا یا بھلا ہوتا ہے۔اور عقلی بایں معنی کہ نزولِ شرع سے پیشتر ہی بذریعہ عقل ان افعال کے حسن و قبح کو حیطۂ ادراک میں لایا جا سکتا ہے۔گویا حکم شرعی کا وظیفہ پہلے سے موجود اور بذریعہ عقل معلوم حسن و قبح پر محض مہر تصدیق ثبت کرنا ہے،بہ الفاظِ دیگر،حسن و قبح حکمِ شرعی کا موجَب نہیں، مدلول ہے۔ہاں بعض افعال ایسے بھی ممکن ہیں کہ جن کا حسن و قبح تو اگرچہ نزولِ شرع سے پیشتر ہی ان کی ذات میں پیوست ہوتا ہے لیکن اس کا قطعی علم بذریعہ عقل ممکن نہیں ہوتا سو حکم شرعی اس پیشگی موجود مگر مخفی حسن و قبح سے پردہ اٹھاتا ہے۔

گزارش ہے کہ معتزلہ کا موقف دو گونہ جہات کا حامل ہے۔پہلی جہت وجودی(Ontological ) ہے اور وہ یہ کہ افعال کا حسن و قبح ذاتی،واقعی اور خانہ زاد ہے،جو اپنے 'ہونے' میں کسی خارجی عامل سے تاثر پذیر نہیں ہے۔بعد ازاں اس وجودی موقف کی تفصیل میں پیرایۂِ اظہار کا خفیف سا اختلاف پایا جاتا ہے۔قدماءِ معتزلہ کا ماننا ہے کہ یہ ذاتی حسن و قبح ان افعال کی ذات کا براہِ راست وصف ہے جبکہ قاضی عبدالجبار معتزلی(م:٤١٥ھ) اور ان کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ اچھائی یا برائی کسی صفت یا وجہِ عائد کی بنا پر ان افعال کی ذات میں پیوست ہوتی ہے۔عموماً‌ اس کو معتزلہ کی دو الگ الگ وجودی حیثیات خیال کر لیا جاتا ہے،مگر ادنی تامل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس اختلاف کی نوعیت محض نزاعِ لفظی کی سی ہے، جوہری موقف ایک ہی ہے۔متقدمینِ معتزلہ جب یہ کہتے ہیں کہ حسن و قبح، افعال کا براہ راست وصف ہے تو وہ دراصل جنسِ فعل اور 'وجہِ عائد'(مثلاً‌ کذب) میں تفریق کیے بنا وصف یا وجہ(کذب یا ظلم) کو ہی فعل گمان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبح مثلاً‌ 'فعلِ کذب' کا براہ راست وصف ہے،جبکہ متاخرین معتزلہ کا شیوۂِ بیان اس امتیاز پر استوار ہے کہ صدق و کذب اور ظلم و احسان وغیرہ ازخود فعل نہیں بلکہ جنسِ فعل کے 'اوصاف عائدہ' ہیں، تاہم فعل کو اکثر اوقات انہی اوصاف سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ان کے نزدیک حسن و قبح اولاً‌ ان اوصاف یا وجوہ عائدہ کے ذاتی وصف بنتے ہیں، بعد ازاں ان کے توسط سے وہ فعل کا وصف قرار پاتے ہیں۔اسی موقف کو قاضی عبدالجبار معتزلی نے یوں قلمبند کیا ہے:

"اعلم ان الظلم لو قبح لجنسه لوجب أن يقبح كل ضرر و ألم، وفي علمنا بأن فيه ما يحسن دلالة علي فساد هذا القول۔"1

"جان لیجئے کہ اگر ظلم اپنی جنس کی وجہ سے برا ٹھہرے تو یہ لازم آئے گا کہ ہر ضرر اور الم برا ہے،حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ضرر و الم اچھے بھی ہوتے ہیں۔ہماری یہ جانکاری اس قول کے فساد پر دلالت کناں ہے۔"

گزارش ہے کہ قدماءِ معتزلہ دراصل جنس فعل(مثلاً‌ کلام) اور وصف عائد(مثلاً‌ کذب) کو ایک ہی مالا میں پرو کر دونوں کو ایک اکائی خیال کرتے ہیں جبکہ متاخرین اس مالا کو توڑ کر ہر دو میں دوئی کا قول اختیار کرتے ہیں۔متاخرین کا ماننا ہے کہ کلام اور ضرر وغیرہ جنس فعل ہیں جو کسی صفتِ عائد کی وجہ سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی مثلاً‌ ضرر اگر برحق ہو اور اس سے عدل کے تقاضے پورے ہوتے ہوں تو وہ اچھا ہے اور اگر ناحق یا بطور ظلم ہو تو برا ہے۔فعل اور وجہ عائد کا یہ فرق قاضی عبدالجبار کی اس عبارت سے بھی عیاں ہے جس میں وہ کلام کو بطور جنس فعل لیتے ہوئے عبث و کذب کو فعل کا وصف عائد ٹھہراتے ہیں:

"الکلام قد یقبح لانه عبث، وقد یقبح لانه امر بقبيح، ولانه نهي عن حسن، ولانه كذب ... الي آخرہ۔"2

"کلام کبھی تو عبث ہونے کی وجہ سے قبیح ٹھہرتا ہے،کبھی (ارتکابِ)قبیح کا حکم ہونے کی وجہ سے،کبھی فعلِ حسن سے روکنے کی وجہ سے اور کبھی کذب ہونے کی بنا پر ۔۔۔الخ۔"

وجودی موقف کے بنیادی اتفاق کے بعد اس سوال کے جواب میں معتزلہ دونیم ہو جاتے ہیں کہ آیا کسی امر مانع کی بنا پر فعلِ قبیح سے قبح کا تخلف جائز ہے یا نہیں؟ پہلا گروہ اخلاقی مطلقیت کو اختیار کرتے ہوئے اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ امر مانع کی وجہ سے فعلِ قبیح سے قبح کا حکم اٹھایا جا سکتا ہے۔قاضی عبدالجبار معتزلی نے "المغنی فی ابواب التوحید و العدل" میں یہی رائے اختیار کی ہے۔آپ کے مطابق اگر مثلاً‌ دروغ گوئی یا ظلم رانی سے کسی ایسے نفع کا حصول یا ضرر کا دفعیہ مقصود ہو جو دروغ یا ظلم کے ضرر سے بڑا ہو تو ان افعال سے قبح کا حکم اٹھا لیا جائے گا۔3

موقفِ اعتزال کی دوسری جہت علمیاتی (epistemological ) ہے اور وہ یہ کہ اس ذاتی حسن و قبح کا عرفان بذریعہ عقل ہوتا ہے۔ پھر یہ عرفانِ عقلی یا تو علم ضروری کے طور پر ہوگا یا پھر اس کی نوعیت کسبی و استدلالی ہوگی۔ ہاں کچھ افعال و اشیاء ایسے بھی ممکن ہیں کہ جن کے حسن و قبح کے حضور عقل کی باریابی نہیں ہو پاتی سو شرع ان کا پردہ چاک کرتی ہے۔4مختصر یہ کہ معتزلہ حسن و قبح بابت معروضیت کے دعویدار اور اصولیاتی(Deontological) اخلاقیات کے قائل ہیں،بایں معنی کہ حسن و قبح اپنے وجود اور تعین میں نہ تو کسی خارجی قوت کے دست نگر ہیں اور نہ ہی کسی غایت و مآل سے انہیں کوئی سروکار ہے۔ نیز ظلم،احسان اور عدل جیسے 'اخلاقی' الفاظ افعال کی ذاتی و حقیقی خصوصیات کی طرف مشیر ہوتے ہیں۔مزید براں معتزلہ اپنے تصورِ حسن و قبح میں آفاقیت کی ایک لہر دوڑا کر اس کو انسان اور خدا ہر دو کے افعال پر حاکم بنا دیتے ہیں اور انسانی افعال کی طرح الہی افعال کو بھی اسی عدسے سے تاکتے اور اسی پیمانے سے ماپتے ہیں۔اسی تصور کا افعالِ الہیہ پر اطلاق کرتے ہوئے انہوں نے خدا کو مخصوص قسم کے 'عدل' اور 'اصلح للعباد' کا پابند  ٹھہرایا اور قعرِ ضلالت میں جا گرے۔حسن و قبح کے اسی اصول کی رو سے قدرت و ارادہ الہیہ پر یوں حملہ آور ہوئے کہ خدا تعالی کے جو أفعال ان کے خودساختہ نظریۂِ 'عدل' اور 'اصلح للعباد' کے معیار پر پورے اترتے دکھائی نہیں دیتے، نہ صرف ان کو خدائی فعل ماننے سے انکار کر دیا بلکہ  انہیں خدا کے ارادے اور قدرت سے ہی خارج قرار دے دیا۔اس تصور حسن و قبح سے معتزلہ نے دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ بغیر حکم ربی کے محض عقل سے معلوم شدہ حسن و قبح بھی مدار تکلیف ہے اور وجوہ حسن و قبح بذاتِ خود علتِ موجبہ ہیں۔یعنی عقل جن افعال کو اچھا یا برا گردانے،مدارجِ حسن و قبح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی انجام دہی واجب،مباح اور حرام ٹھہرتی ہے5۔اس نتیجے کے لزوم میں تمام ائمہ اعتزال متفق نظر آتے ہیں۔وجوہ حسن و قبح کو یوں تکلیف و تشریع کا منبع بنا دینا معتزلہ کو دائرۂِ سنیت سے خارج کر دیتا ہے۔

ماتریدیہ وجودی اور علمیاتی سطح پر معتزلہ ہی کے ہم نوا ہیں۔وہ بھی افعال کے حسن و قبح کو ذاتی،واقعی و خانہ زاد گردانتے ہیں۔ان کے نزدیک بھی حسن و قبح اپنے 'ہونے' میں کسی خارجی حکم کا محتاج نہیں ہے،یعنی حسن و قبح حکمِ شرعی کا مدلول تو ہے لیکن موجَب نہیں۔اسی طرح علمیاتی سطح پر بھی ماتریدیہ کا وہی موقف ہے جو معتزلہ کا تھا کہ عقل بھی عرفانِ حسن و قبح کا ایک ذریعہ ہے۔امام الہدى ابو منصور ماتریدیؒ(م:٣٣٣ھ) "کتاب التوحید" میں کذب و جور پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

"قبح ذلك في العقول بالبديهة والفكر جميعا حتی لایزداد عند التامل والبحث عنه الا قبحا۔"6

"بداہت اور فکر و نظر ہر دو ان افعال کے قبح کی گواہی دیتے ہیں، حتی کہ ان کے بارے میں جس قدر سوچ بچار کیا جائے ان کا قبح ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔"

البتہ کچھ افعال کے حسن و قبح میں چونکہ عقل نارسا رہتی ہے لہذا ان کی پہچان صرف شرع کے ذریعے ہی ممکن ہے-اس اصولی موافقت کے باوجود ماتریدیہ نے معتزلہ کے برعکس اس اصول کے گمراہانہ اطلاقات سے اپنا دامن یوں سمیٹ لیا کہ نہ تو خدا پر 'عدل' اور 'اصلح للعباد' کو واجب قرار دے کر قدرت و ارادہ الہیہ پر ضرب لگائی اور نہ ہی وجوہِ حسن و قبح کو علت موجبہ قرار دیتے ہوئے انہیں تکلیف و تشریع کا مستقل منبع قرار دیا۔ یعنی ماتریدیہ نے حسن و قبح کے تکوینی پہلو میں تو معتزلہ کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کی اور حسن و قبح کو اشیاء کا نفس الامری خاصہ قرار دیا لیکن تشریعی پہلو کو یہ کہہ کر تج دیا کہ تشریع و تکلیف میں بلا حکم ربی،ذاتی حسن و قبح کو کوئی دخل نہیں ہے۔معتزلہ و ماتریدیہ کے ذیلی مواقف کی تفصیل اپنے اپنے مواقع پر آ رہی ہے۔

گزارش ہے کہ موقفِ اعتزال کے محتویات،یعنی معتزلی نظریہ کے اطلاقات پر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو جہاں جنابِ باری تعالی میں معتزلہ کی بے جا جرات آزمائی آشکار ہوتی ہے وہیں یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ یہ موقف عقل کو جانِ متن بنا دینے اور شریعت کو حاشیہ نشیں کر دینے کا پیش خیمہ ہے۔اشاعرہ نے انہی صریح جسارت آمیزیوں کو بھانپتے ہوئے ماتریدیہ کے برعکس حسن و قبح کی نسبت معتزلی موقف کو کلیتاً‌ مسترد کیا ہے۔اشاعرہ کا کہنا ہے کہ حسن و قبح عقلی نہیں، مذہبی مسئلہ ہے۔اس کی اساس خردِ نارسا نہیں،ہدایتِ ماورا ہے۔ بقول اقبال

خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے

اشاعرہ نے معتزلی موقف کے وجودی پہلو پر ایسا ہلہ بولا کہ علمیاتی پہلو بھی اسی کی زد میں آ کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔بجائے اس کے کہ مبحث کو 'عقل کے ذریعہ عرفان ہونے یا نہ ہونے' کے سوال پر دائر کیا جاتا، انہوں نے حسن و قبح کے ذاتی و نفس الامری ہونے کو ہی ہدفِ سوال بنا دیا۔ان کے مطابق اشیاء و افعال کا حسن و قبح ذاتی و واقعی نہیں بلکہ شرعی ہے،یعنی نہ تو کوئی فعل ازخود بھلا ہے اور نہ ہی ازخود برا ہے۔شریعت جس کو اوجِ حسن پر براجمان کرے وہی حسَن ہے اور شریعت جس کو پاتالِ قبح میں دھکیل دے وہی قبیح ہے،گویا شریعت سے ماقبل کوئی اچھائی ہے،نہ برائی۔اشاعرہ کے ہاں حسن و قبح مدلولِ شرع نہیں موجَب شرع ہے،بایں معنی کہ حکم شرعی کی حیثیت حسن و قبح پر محض ایک دلالت کنندہ کی نہیں بلکہ مثبت و موجِب کی ہے۔اشاعرہ کے اس دوٹوک وجودی موقف کے رو بہ رو 'عقل کے وسیلۂِ عرفان ہونے،نہ ہونے' کا لحیم شحیم علمیاتی سوال بھی چِتا میں بدل جاتا ہے کیونکہ جب حسن و قبح ذاتی نہیں،شرعی ہے، تو پھر عقل کی کیا مجال کہ وہ اس میدان میں اچھل کود کرتی پھرے۔

یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اشاعرہ کی جانب سے اخلاقی اقدار کی معروضیت کے معتزلی دعوی کا رد  اخلاقی موضوعیت کے اثبات کو مستلزم نہیں ہے۔ بعض لوگ اس واہمہ میں مبتلا ہیں کہ اشاعرہ شاید اقداری موضوعیت کا دم بھرتے ہیں۔گزارش ہے کہ حسن و قبح کو عقلی معروض و موضوع کے مابین محصور کرنا کوتاہ نظری کا شاخسانہ ہے۔عقلی معروض ہو یا موضوع،دونوں زمان و مکان کی اسیر عقل سے نتھی اور انسان سے متعلق ہیں۔اشاعرہ جب حسن و قبح کے عقلی ہونے کو ٹھکراتے ہیں تو وہ معروض و موضوع، ہر دو پر بہ یک آن خطِ تنسیخ پھیر دیتے ہیں۔ان کے نزدیک اخلاق و اقدار کا واحد منبع و سرچشمہ ماوراء ہے۔

حسن و قبح کے اطلاقات

زیر بحث موضوع کا پہلا اور کلیدی سوال یہ ہے کہ آخر حسن و قبح سے مراد کیا ہے؟امام رازیؒ  اسی سوال سے اعتناء کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"الحسن والقبح قد يعنى بهما كون الشيء ملائما للطبع أو منافرا، وبهذا التفسير لا نزاع في كونهما عقليين، وقد يراد بهما كون الشيء صفة كمال أو صفة نقص كقولنا العلم حسن و الجهل قبيح؛ ولا نزاع ايضا فی كونهما عقليين بهذا التفسير وانما النزاع في كون الفعل متعلق الذم عاجلا والعقاب آجلا؛ فعندنا أن ذلك لا يثبت الا بالشرع۔"7

"حسن و قبح سے کبھی تو شے کا طبیعت کے مناسب یا مخالف ہونا مراد لیا جاتا ہے،اور اس مراد کے مطابق ہر دو کے عقلی ہونے میں کوئی جھگڑا نہیں۔(البتہ ان کے معروضی یا موضوعی ہونے میں اختلاف ہے جو کہ آئندہ سطور میں کلامِ امام کی روشنی میں پیش کیا جائے گا)۔اور کبھی کسی شے کے صفت کمال یا نقصان سے متصف ہونے پر حسن و قبح کا اطلاق کیا جاتا ہے۔اس مراد کے مطابق بھی حسن و قبح کے عقلی ہونے کی نسبت کوئی کشاکشی نہیں۔نزاع دراصل فعل کے اس دنیا میں مستحقِ ذم(یا مدح) اور آخرت میں باعثِ سزا(یا جزا) ہونے کی بابت ہے(آیا اس اطلاق میں حسن و قبح ذاتی و عقلی ہے یا شرعی)،سو ہمارے نزدیک تو یہ امر صرف شرع سے ہی ثابت ہوتا ہے۔"

امام صاحب کا کلام جہاں لسانیاتی دائرے میں التباس کی گرد سے ڈھکےحسن و قبح کے مختلف اطلاقات و مرادات کو نکھار کر سامنے لے آتا ہے، وہیں ان متنوع تناظرات کو بھی کہ جن میں حسن و قبح بامعنی ہوتا ہے منصۂ شہود فراہم کر دیتا ہے۔گزارش ہے کہ لفظِ حسن و قبح،گاہ جمالیاتی تناظر میں بولا جاتا ہے، گاہ نفسی تناظر میں اور بسا اوقات اخلاقی تناظر اس کو معنی سے ہمکنار کرتا ہے۔کمال پر فریفتہ ہو کر اسے حسن کا عنوان دے دینا اور نقص سے متلاتے ہوئے اسے قبیح ٹھہرا دینا جمالیاتی شعور کی ترجمانی ہے،نیز طبیعت کی رغبت و نفرت کی بنیاد پر کسی شے کو حسن و قبح کا محمل بنا دینا نفسی موضوعیت کا مظہر ہے۔جمالیاتی ذوق کی پرداخت اور طبعی شوق کی آبیاری میں مذہب یا انسان کے تصورِ حقیقت کا کلیدی کردار ضرور ہوتا ہے تاہم یہ 'صرف' مذہب سے ماخوذ نہیں ہوتے۔تیسرا تناظر جس میں حسن و قبح اخذِ معنی کرتے ہیں، اقداری اخلاقی اور قانونی ہے۔

ممکن ہے کہ 'قانونی حسن و قبح' کی ترکیب بعضے احباب کے لیے اچنبھے کا باعث ہو۔عرض ہے کہ اسلامی روایت میں 'اخلاقی' اور 'قانونی' کے درمیان کوئی واضح خطِ امتیاز نہیں کھینچی گئی اور اگر قانون سے نظامِ سزا و جزا کے ضوابط مراد لیے جائیں تو بھی روایتِ اسلامی میں قانون اقدار سے غیر متعلق،طاقت کا زائدہ اور سرمائے کا پروردہ نہیں بلکہ اجتماعی اقدار کا دید بان اور انفرادی اقدار کا سائبان ہے۔ سو ضروری ہے کہ وہ بھی ایسے ہی تصورِ حسن و قبح پر استوار ہو جس پر اقدار اپنی بِنا کرتی ہیں۔اقدار،اخلاقیات اور جمالیات کی واحد اساس ہیں اور قانون اقدار کا محافظ ہے۔امام صاحب کے بیان کردہ موقف سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اخلاقی اقدار تو محض ماورائی ہیں البتہ کچھ جمالیاتی قدریں ضرور مشترک انسانی سطح پر موجود ہوتی ہیں۔تاہم اس سے یہ مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کی جمالیاتی تشنگی مذہب سے لاتعلق رہ کر بھی بجھائی جا سکتی ہے۔ہم کوشش کریں گے کہ آئندہ سطور میں ان سہ گانہ تناظرات کی روشنی میں امام صاحب کے کلام ہدایت التیام کی مزید تفہیم کی جائے۔

مراداتِ حسن و قبح بیان کرنے کے بعد امام صاحب وضاحت فرماتے ہیں کہ ما بہ النزاع جمالیاتی یا نفسی نہیں بلکہ اخلاقی و قانونی نوعیت کا حسن و قبح ہے،یعنی ایسا حسن و قبح جو دنیا میں مدح و ذم اور آخرت میں جزا و سزا کا سزاوار بنائے۔حسن و قبح کی زمرہ بندی اور محلِ نزاع کی تعیین،دورانِ بحث امتیازِ موضوع کو برقرار رکھنے اور التباسِ بحث سے دامن بچانے کے لئے ازحد ضروری ہے تا کہ جمالیاتی و نفسی حسن و قبح کو اخلاقی و قانونی حسن و قبح پر وارد کرنے سے گریز کیا جا سکے۔گزارش ہے کہ مذکورہ عبارت میں امام صاحب نے جہاں محلِ نزاع کو متعین کر کے خلطِ مبحث کے امکان کو  معدوم کیا ہے وہیں حسن و قبح کو ماورائیت کے پہلو بہ پہلو ایک گونہ غایاتی (Teleological) جہت بھی مہیا کر دی ہے،یعنی بھلائی وہی ہے جس کی غایت مدح و ثواب ہے اور برائی وہی ہے جس کا مآل ذم و عقاب ہے۔غور کیا جائے تو فریقِ مخالف کے اس غایاتی تعریف کو تسلیم کر لینے کے ساتھ ہی نصف بحث انتاج پذیر ہو جاتی ہے۔کیونکہ جب مدح و ثواب،مدارِ حسن اور ذم و عقاب،محور قبح ٹھہراجو کہ سراسر شرعی ہے،اور جس کا اثبات شرع ہی کے ذریعے ممکن ہے تو پھر حسن و قبح کو معلومیت کے حصار میں لانے کے لئے عقل سے داد طلبی چہ معنی دارد؟

اخلاقی اقدار اور نفسی حسن و قبح

حسن و قبح کے نفسی تناظر کا راست فہم معتزلی و اشاعری جدلیات کی صائب جانکاری سے مشروط ہے۔امام صاحب معتزلی معروضیت کے انتقاد میں حسن و قبح کے اسی تناظر کو بروئے کار لائے ہیں۔لہذا مناسب ہو گا کہ معروضیتِ اخلاق کی بابت معتزلہ کی دلیل اور امام رازیؒ کی تردید  قارئین کے پیشِ خدمت کر دی جائے۔معتزلہ نے اپنے وجودی موقف،معروضیتِ حسن و قبح کی تائید میں کوئی قابلِ ذکر نظری دلیل پیش کرنے کے بجائے اپنا تمام تر مقدمہ بداہتِ عقل کے ادعاء پر استوار کیا ہے اور پھر بہ طور 'تنبیہ' چند ایک امثلہ کے ذریعے اس مزعومہ بداہت کا اثبات چاہا ہے۔وہ اپنی وجودی عمارت کو پختہ کرنے کے لئے اس پر علمیاتی ردا چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض افعال و اشیاء کا برا یا بھلا ہونا بداہتِ عقل سے ثابت ہے،جس سے کوئی بھی ذی شعور مجالِ انکار نہیں پاتا۔ظلم کا برا اور احسان کا اچھا ہونا ایسی شے ہے کہ جس کے لئے کسی استدلالی و اکتسابی دلیل کی حاجت نہیں بلکہ ہر ایک شخص کی عقل غور و فکر کا کشٹ اٹھائے بنا بدیہی طور پہ ان افعال کی اچھائی و برائی سے پوری طرح واقف ہے۔غور کیا جائے تو معتزلہ کا یہ علمیاتی موقف سر تا پا التباس میں لتھڑا ہوا ہے۔اسی التباس کو زائل کرنے کے لئے امام صاحب نفسی حسن و قبح کے تصور کو کام میں لائے ہیں۔امام صاحب اس شبہ نما دلیل کی چولیں ہلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہاری یہ بات تو درست ہے کہ یہ حسن و قبح 'عقل' سے معلوم ہے لیکن نہ تو یہ وہ اخلاقی حسن و قبح ہے جس کی معروضیت کے تم داعی ہو اور نہ ہی یہ وہ 'معروضی و بدیہی عقل' ہے جس کا تم دم بھرتے ہو بلکہ :

"ان ھذا الحسن و القبح عبارتان عن رغبة الطبع و نفرته۔"8

"یہ حسن و قبح،طبیعت کی رغبت و نفرت سے عبارت ہے۔"

یعنی اس حسن و قبح کا تناظر اقداری نہیں،نفسی ہے،جس کا نفس و طبیعت کی پالی پوسی عقل سے معلوم ہونا سرے سے محلِ نزاع ہی نہیں۔امام صاحب نے اس عبارت میں معروضی اور اصولیاتی(Deontological) اخلاقیات کے امکان کو بہ یک وقت مسترد کیا ہے۔گویا امام صاحب کے مطابق اگر حسن و قبح کی بنا عقل پر استوار کی جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ غایتیت (Teleology) یا نفسی موضوعیت کی صورت میں برآمد ہو گا۔دونوں صورتوں میں اخلاقی اقدار کا دھڑن تختہ اور التباس کا چوپٹ راج ہو گا۔"المطالب العالیہ" میں آپ رقم طراز ہیں:

"ان الذی عقلناه من معنى الحسن ما يكون نفعا او موديا الیه، والذي عقلناه من معنى القبح ما يكون ضررا او موديا  اليه۔"9

"(بدونِ شریعت) ہم منفعت کو یا وسیلۂِ منفعت کو ہی بھلا سمجھتے ہیں اور مضرت یا ذریعۂ مضرت کو ہی برا جانتے ہیں۔"

 گویا امام صاحب کے نزدیک عقلی بنیادوں پر،اصولیت یا معروضیتِ اخلاق بالکلیہ خارج از امکان ہے۔آپ کے مطابق دریں باب عقلی حسن و قبح سراسر موضوعی،نفسی،غایاتی اور اضافی ہوتا ہے۔عموماً‌ کسی فعل کی بابت عقلی بنیادوں پر کیا جانے والا حسن و قبح کا فیصلہ کسی نہ کسی ذاتی غرض یا فعل کے مآل کو پیش نگاہ رکھ کر کیا جاتا ہے۔اگر فیصلہ کرنے والے شخص کے لئے کسی فعل کی غایت منفعت کی صورت میں نمودار ہو اور اس بنا پر اس کی طبیعت اس فعل کی طرف رغبت پائے تو وہ اس فعل کو اچھا گردانتا ہے اور اگر اس کے لئے کسی فعل کا مآل سراپا ضرر ہے تو وہ اسے برا گردانتا ہے۔گویا بظاہر عقلی اساس پر کیا جانے والا حسن و قبح کا فیصلہ دراصل نفسی مالوفات کا پروردہ ہوتا ہے۔ممکن ہے کہ ایک ہی فعل مختلف اشخاص کے ہاں ان کی شخصی افتاد طبع اور فعل کی ظاہری فوری یا دنیوی غایت و مآل کی بنا پر بہ یک وقت خوب بھی قرار پائے اور زشت بھی ٹھہرایا جائے۔ماحصل یہ کہ عقلی حسن و قبح در اصل فرد کی ذاتی منفعت و مضرت کا نام ہے۔بھلا کون ذی شعور اس موضوعیت کو معروضیت کا عنوان دے سکتا ہے۔

منفعت و مضرت کی مرادات

امام صاحب کی تردیدی سرگرمی میں دو تصورات: منفعت اور مضرت نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔منفعت،جس کی طرف انسانی طبائع اور نفوس رغبت رکھتے ہیں اور مضرت،جس سے انسانی طبائع اور نفوس نفور ہوتے ہیں،سے کیا مراد ہے؟امام صاحب اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ان المنفعة المطلوبة بالذات اما اللذة او السرور وان المضرة المکروهة بالذات اما الألم او الغم۔"10

"بذاتہ مطلوب منفعت یا تو لذت ہے یا پھر مسرت اور بذاتہ ناپسند کی جانے والی مضرت یا تو الم ہے یا پھر غم۔"

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امام صاحب کے نزدیک طبعیت یا نفس انسانی،منفعت کی طرف مائل ہوتے اور مضرت سے رم کھاتے ہیں۔عقل اسی طبعی رجحان و توحش سے تحریک پا کر اس منفعت و مضرت پر حسن و قبح کا حکم کرتی ہے۔منفعت و مضرت کی مرادات بابت اپنے کلام کو مفصل و مدلل کرتے ہوئے امام صاحب کا فرمانا ہے کہ جب طبع کا کسی شے کی طرف مائل ہونا اور کسی سے رم کھانا طے ہو چکا،تو اب اگر یہ کہا جائے کہ اس شے کی طرف میلان و توحش کسی دوسری شے کی وجہ سے ہے تو اس سے یا تو تسلسل لازم آئے گا یا دور کا پہیہ گھومے گا۔لہذا تسلسل و دور سے دامن کشی کے لیے لازم ہے کہ کوئی شے مطلوب بذاتہ اور کوئی مکروہ بذاتہ ہو۔اگر ہم اپنے آپ میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مطلوب لذاتہ یا تو لذت ہے یا پھر سرور اور مکروہ لذاتہ یا تو الم ہے یا پھر غم، پس انہی کا عنوان منفعت و مضرت ہے۔11 گویا انسانی عقل، فعل کی کسی ذاتی خصوصیت کی بنا پر اسے حسن و قبح کا تمغہ عطا نہیں کرتی بلکہ جس فعل سے طبعِ انسانی مسرت و لذت کشید کرتی ہے،وہ بارگاہِ عقل سے انعامِ حسن وصول کرتا ہے اور جس فعل سے غم و الم کو انگیخت ملتی ہے،عقل اس پر قبح کی چھاپ لگا کر راندۂِ درگاہ بنا دیتی ہے۔مزید براں، یہ لذت و سرور اور غم و الم بھی کسی فعل کا ذاتی و جوہری خاصہ نہیں بلکہ انسان کا موضوعی احساس اور نفسی جذبہ ہی فعل کو لذت انگیز و مسرت ناک یا غم خیز و الم ناک ٹھہراتا ہے۔

یہیں سے ظلم و احسان کے حسن و قبح بابت معتزلہ کے دعوائے بداہت کی بھی نفی ہو جاتی ہے کیونکہ ظلم بھی انسان کو تبھی گھناؤنا لگتا ہے جب وہ اسے غمگیں کرتا ہے اور احسان اس کو تبھی بھاتا ہے جب وہ اسے شادماں کرتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میں رونما ہونے والے ایک ہی فعل پر  بعض طبقات داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ فعل ان کے نفسی مالوفات،یعنی لذت و مسرت کی تسکین برآری کا وسیلہ بنتا ہے اور بعض طبقات اسی فعل کو پھٹکار و نفرین کا ہدف بناتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے نفسی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہوتی ہے۔غرض یہ کہ بذریعہ عقل، حسن و قبح کے تمام فیصلے متبدل جذبات کی تسکین کے تابع ہوتے ہیں۔بہ ظاہر عقل سے معلوم ہونے والا خوب و زشت دراصل فرد تا فرد متلون اور درونِ فرد متحول نفسی رجحان اور طبعی میلان کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ایسے مرنجاں مرنج اور بوقلموں رجحانات و میلانات کو اخلاقیات کا حتمی پیمانہ قرار دے کر کوئی اخلاقی قدر اخذ نہیں کی جا سکتی۔

معتزلہ کی واماندگیاں:

معروضیتِ حسن و قبح کا سارا مدعا بداہت کے اثبات پر تمکنت پذیر تھا،اور بداہت کا دعوی اشاعرہ کی علمی ضربوں کی تاب نہ لا سکا۔یعنی جس بنیاد پر ساری معروضیت کی عمارت استوار تھی وہی ڈھے گئی۔

پر وہی گر گیا کبوتر کا
جس میں نامہ بندھا تھا دلبر کا

معتزلہ نے اپنے اس  اکھڑتے دعوائے بداہت میں جان ڈالنے کے لیے قریب قریب ایک ہی نوعیت کی متعدد توجیہات اور تمثیلات کی صورت میں بہتیرے پاپڑ بیلے ہیں۔گو کہ ان توجیہات کی حیثیت ٹھنڈی راکھ دھونکنے جیسی ہے تاہم امام صاحب نے بہرِ اتمامِ حجت اپنی مختلف تصانیف میں ان دلائل و توجیہات کو نقل کر کے ان کے تشفی بخش جوابات عنایت فرمائے ہیں۔ معتزلہ کی طرف سے قدرے بہتر اور نسبتاً‌ معقول توجیہ یہ پیش کی گئی کہ ظالم یا اس کے ہمنوا جب کسی ظالمانہ فعل کی تحسین کرتے ہیں تو وہ اس فعل کو 'ظلم' سمجھتے ہوئے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے تئیں وہ اس ظلم کو عدل وغیرہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔جب ان پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ ان کا یہ فعل ظالمانہ ہے تو وہ کسی ذاتی مفاد کی بنا پر گو اس ظلم سے دست کش نہ بھی ہوں تب بھی اس فعل کی تحسین نہیں کرتے اور بلا تامل اسے برا ہی جانتے ہیں۔بنا بریں یہ معلوم ہوا کہ 'ظلم' کا قبح اس کے 'ظلم' ہونے کی وجہ سے ہی ہے یعنی اس کی ذات یا صفت لازم ہی میں پنہاں ہے اور یہ بات سراسر بدیہی ہے۔

اس دفاعی توجیہ کی بے مائیگی آشکار کرتے ہوئے امام صاحب کا کہنا ہے کہ تمہاری یہ بات تسلیم ہے کہ عموماً‌ ظالم یا اس کے ہمنوا اپنے فعل کے مبنی بر ظلم ہونے سے غفلت برتتے ہوئے اس کی تحسین کرتے ہیں اور اگر ان پر اس فعل کا ظلم ہونا آشکار ہو جائے تو وہ اس کو برا ہی قرار دیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ظلم کا قبیح ہونا محض اس کے ظلم ہونے کی وجہ سے ہے۔دراصل امام صاحب نے معتزلی جواب میں موجود علمیاتی اور وجودی دلیل کے مابین پائے جانے والے التباس کو عیاں کیا ہے۔آپ رقم طراز ہیں:

"قولہ:《العلم بالقبح دائر مع العلم بکونه ظلما، وجودا وعدما》قلنا: لم قلت:إن الدوران العقلي دليل العلية عليه؟وما الدليل عليه!؟"

"(جہاں تک بات ہے)خصم کے اس قول کی کہ قبح کا علم،فعل کے ظلم ہونے کی آگہی پر وجودا اور عدما دائر ہے،تو ہم کہتے ہیں کہ آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ یہ 'دوران عقلی' علیت کی بھی دلیل ہے؟اس (دعوی پر آپ کے پاس) کیا دلیل ہے!؟"12

یعنی اگر بہ پاسِ خاطر یہ بات مان بھی لی جائے کہ 'قبح کی جانکاری،فعل کے ظلم ہونے کے علم پر دائر ہے' تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس فعل کا ظلم ہونا اس کے قبیح ہونے کی علت بھی ہے؟یہ بھی تو ممکن ہے کہ ظالم یا اس کے حمایتی ظلم کو کسی اور علت کی وجہ سے قبیح جانتے ہوں اور جب وہ اپنے اس فعل کے ظالمانہ ہونے سے آگاہ ہوں تو وہ اس کو بھی قبیح جاننے لگیں۔ اسی نوعیت کے دیگر معتزلی دلائل پر امام صاحب کی تنقید پر نگاہ اعتناء دوڑائی جائے تو زیر بحث قضیہ کی مزید تنقیح کچھ یوں ہوتی ہے کہ ظالم جب اپنے ظلم کو قبیح جانتا ہے تو یہ تو ممکن ہے کہ اس 'قبیح جاننے' کا مدار اس فعل کے ظالمانہ ہونے کا 'علم' ہو لیکن وجودی سطح پر اس کے نزدیک ظلم کے قبیح ہونے کی علت محض ظلم ہونا نہیں بلکہ اس کا نفسی و موضوعی احساس ہے۔وہ یوں،کہ جب وہ خود کو کسی ظلم کا ہدف بنتے ہوئے تصور کرتا ہے تو اس تصور سے وہ خود کو غم و الم میں گھرا ہوا پاتا ہے،اب اس کا ظلم کی تحسین کرنا یقینا خود پر بھی کسی پیش آمدہ ظلم کو جائز ٹھہرانے کے مترادف ہو گا۔ بنا بریں وہ 'ظلم' کو برا قرار دیتا ہے پھر جب اس بات سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ خود اس کا فعل بھی از قبیلِ ظلم ہے تو وہ اس 'آگاہی' کی بنا پر اپنے فعل کی تحسین سے ہچکچاتا ہے۔عرض ہے کہ تردیدِ بداہت پر مبنی امام صاحب کے اس جواب پر معمولی غور اور ادنی تامل سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دریں صورت بھی حسن و قبح کا عقلی فیصلہ معروضیت و اصولیت سے خالی اور موضوعیت اور غایتیت سے مملو ہے۔نیز یہ بھی ممکن ہے کہ ظالم ظلم کو شرعاً‌ قبیح سمجھتے ہوں اور اپنی اسی آگہی کی بنا پر اپنی ستم گری کو بھی قبیح جاننے لگیں۔ دریں صورت ظلم کا قبح  شرع پر اور ظالمانہ فعل کو قبیح سمجھنا شرع کی جانکاری پر موقوف ہے۔

اثباتِ بداہت و معروضیت کے لیے معتزلہ ایک ایسے شخص کی مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ جس کے حق میں صدق و کذب پر کسی بھی منفعت و مضرت یا مسرت و الم کو اٹھا لیا جائے یا مساوی کر دیا جائے اور پھر اس سے کوئی سوال کیا جائے تو جواب میں وہ سچ کو ہی ترجیح دیتا ہے۔معتزلہ کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسن و قبح افعال کا ذاتی خاصہ ہیں اور انسانی عقل ان کو بداہتا پہچانتی ہے۔امام صاحب اپنی یگانہ آفاق تصنیف "نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول" میں ،اس معتزلی دلیل کا بودا پن عیاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس مثال میں صدق و کذب کے حسن و قبح کو ذاتی و بدیہی قرار دیتے ہوئے معتزلہ نے اس حقیقت سے پہلو تہی کی ہے کہ جو انسانی عقل حسن و قبح پر فیصل بن رہی ہے وہ یا تو خود ہدایتِ ربانی کی ضیاء پاشیوں سے پیہم مستفیض ہوتی رہی ہے یا پھر ایسی اقوام سے اس کا مسلسل اختلاط رہا ہے جو ان افعال کو اچھا یا برا قرار دیتے آئے ہیں۔نتیجتاً‌ یہ تصور اس میں یوں گھر کر گیا کہ وہ بلاجھجک بعض افعال کو بعض پر راجح ٹھہرانے لگی۔اگر ہم خود کو ایک ایسے انسان کے طور پر متصور کریں جو ابھی،اسی لمحہ تخلیق کیا گیا ہو،جس کا نا تو کسی مذہب سے پالا پڑا ہو اور نہ ہی وہ کسی قوم میں گھُلا ملا ہو،تو کیا وہ بھی اس جزم و اتقان کے ساتھ ان افعال کے حسن و قبح کا فیصلہ صادر کر سکتا ہے؟امام صاحب کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

"فاما اذا قدر الانسان نفسه کانه خلق فی ھذہ الساعة و قدر انه لم يالف مذهبا ولا خالط قوما ولا سمع مقالة ولم يلتفت ذهنه إلى اختيار المصالح واختيار المفاسد، ثم عرض على عقله أن الصدق هل هو حسن والكذب قبيح على الوجه الذي لخصناه؟ فانا لا نسلم أنه -في هذه الحالة- يقطع بذلك."13

گزارش ہے کہ امام صاحب کا یہ جواب صرف ایک دلیل کی تردید نہیں بلکہ معتزلی نظامِ اخلاقیات میں پائے جانے والے بنیادی سقم کی تشخیص ہے۔یہ وہ شہ کلید ہے جس سے معتزلی تصورِ حسن و قبح کی ناتوانی  بیچ چوراہے طشت از بام ہو جاتی ہے۔ دراصل معتزلہ ایک ایسی عقل کے شانے پر حسن و قبح کا بوجھ لادتے اور پھر اس کے 'منزلِ مقصود' کو پا لینے پر شادیانے پیٹتے ہیں،جس نے خارجی ہدایت سے فیض یاب ماحول میں لمسِ شباب محسوس کیا ہے،جو از آدم تا ایں دم مذہبی آدرشوں کو بہ گوشِ ہوش سنتی اور بہ چشمِ وا دیکھتی آئی ہے۔اگر اس عقل کو اس ماحول سے منقطع کر کے اس سے اخلاقیات یا حسن و قبح کا سوال پوچھا جائے تو وہ جذبات کے ہرکارے کے طور پر کچھ نہ کچھ ظنی اظہار تو شاید کر دے لیکن اس سے کوئی ایسا قطعی جواب بن پڑنا خارج از امکان ہےکہ جسے اخلاقیات کے لیے کسوٹی قرار دے دیا جائے۔

حسن و قبح بابت اشاعرہ کا وجودی موقف معتزلہ کی وجودی بیخ و بن کو اکھاڑ دینے سے ازخود استحکام پا لیتا ہے۔امام صاحب نے معتزلی موقف کے بخیے ادھیڑنے کے لیے دو ڈھب اختیار کیے ہیں۔اولاً‌،آپ نے یہ واضح کیا کہ معتزلہ جس حسن و قبح کو اخلاقی باور کروا کر اس کی معروضیت،اصولیت اور بداہت کی مالا جھپتے ہیں وہ سراسر رجحانِ نفس اور ميلانِ طبع سے عبارت ہے۔ثانیاً‌ آپ نے تجربی امثلہ سے موید اور الزامی آہنگ سے ممیز دلائل کو بروئے کار لا کر معروضیتِ اخلاقیات کے معتزلی پھریرے کو سرنگوں کیا ہے۔بہتر ہو گا کہ چند دلائل قارئین کی نذر کر دیے جائیں۔

امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر مثلاً‌ جھوٹ، محض دجھوٹ ہونے کی بنا پر قبیح ہے تو اس سے اُس جھوٹ کا بھی قبیح ہونا لازم آتا ہے جو مثلاً‌ کفار کی ایذاء رسانیوں سے انبیاء کرام کو رستگاری دلانے کی خاطر بولا جائے۔حالانکہ معتزلہ بھی اس کو قبیح نہیں گردانتے۔لہذا معلوم ہوا کہ کذب و دروغ محض کذب و دروغ ہونے کی بنا پر قبیح نہیں بلکہ شرع جس جھوٹ کو قبیح کہے وہی حکمِ قبح کا سزاوار ہے۔

اس دلیل کے جواب میں متاخرین معتزلہ نے یہ شبہ نما موقف اختیار کیا کہ جھوٹ کا قبیح ہونا تو اس کے جھوٹ ہونے کی بنا پر ہی ہے البتہ بعض مواقع پر موانع و مزاحم(جلب منفعت یا دفع مضرت) کے پائے جانے کی بنا پر 'علت(کذب) سے حکم(قبح) کا تخلف ممکن ہے'۔امام صاحب اس شبہ کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی مانع کی بنا پر کذب سے قبح کے تخلف کو جائز ٹھہرایا جائے تو معتزلہ کا بنیادی موقف مزید ڈگمگاہٹ اور ناپائیداری کا شکار ہو جاتا ہے۔کیونکہ یہ مانع(جلب نفع یا دفع ضرر) کوئی قابلِ انضباط یا معروضی شے نہیں ہے کہ جسے معیار بنایا جا سکے۔یوں تو پھر ہر دروغ گوئی کے بارے میں تردد کی فضاء قائم کی جا سکتی کہ شاید یہاں کسی مانعِ قبح کی وجہ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔اس صورت میں کسی بھی جھوٹ پر قطعیت کے ساتھ قبح کا حکم کرنا خارج از امکان ٹھہرے گا۔

سلسلہ دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے امام صاحب ایک ایسے ظالم کی مثال پیش فرماتے ہیں جو کسی شخص کو دھمکی آمیز خبر دیتا ہے کہ "کل میں تجھے قتل کر دوں گا"۔آپ فرماتے ہیں کہ اب اس بیداد گر کے لیے یا تو قتل کر دینا حسن ہو گا۔یا پھر قتل سے دست کش ہو جانا حسن ہو گا۔بہر تقدیر معتزلی موقف کا خون ہونا یقینی ہے۔کیونکہ اگر وہ اسے قتل کر دے تو یہ قطعی طور پر ناروا ہے اور اگر نہ کرے تو اس کا یہ کہنا کہ "میں تجھے قتل کر دوں گا"،جھوٹ ٹھہرے گا۔اب اگر جھوٹ کو ذاتاً‌ یا جھوٹ ہونے کی بنا پر قبیح  شمار کیا جائےہے تو ترکِ قتل کی صورت میں یہ قبح لازم آ رہا ہے لہذا قتل سے اس کی دست کشی بھی قبیح ٹھہرے گی،حالانکہ یہ باطل ہے۔سو معلوم ہوا کہ کذب و دروغ کو مطلقاً‌،بلا حکمِ شرع قبیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔14 ممکن ہے اس مثال سے نمٹنے کے لئے بھی اسی توجیہ کو بروئے کار لایا جائے کہ یہاں جھوٹ کے مقابل قتل کی مضرت بدرجہا زیادہ ہے اور مضرت کا دفع کرنا جھوٹ پر حکم قبح لگانے سے مانع ہے۔لیکن پھر وہی سوال عود کر آئے گا کہ موانع اور شروط کی تحدیدات کیا ہیں؟یوں تو کوئی بھی شخص فرضی مانع کی آڑ میں مطلب براری کرتا پھرےگا۔اگر اس کی کوئی تحدید نہیں ہے تو پھر کسی بھی جھوٹ پر بالجزم حکمِ قبح کیسے کیا جا سکتا ہے؟

حسن و قبح کا جمالیاتی تناظر

حسبِ وعدہ اب ہم قلم کو مبحث کے جمالیاتی پہلو،یعنی کمال و نقص کے حسن و قبح کی طرف پھیرتے ہیں۔آغازِ کلام سے پیشتر مناسب ہوگا کہ امام صاحب کے کلام سے کمال و نقص کا معنی معلوم کر لیا جائے۔امام فخرالدین رازیؒ 'کمال' کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"نعني بالکمال: وجود شیئ لشیئ من شانه ان يكون له اما بجنسه او بنوعه او بعينه"

"کمال سے ہماری مراد کسی چیز کا ایسی شے کے ہاں پایا جانا ہے کہ اس شے کی حیثیتِ رتبی اپنی جنس،نوع یا ذات کے لحاظ سے اس چیز کا تقاضا کرتی ہو"15

بالفاظِ دیگر کمال اسے کہا جاتا ہے جو کسی شے کے وجود کی تکمیل کرے،اس شے کا 'ہونا' اس کمال کا تقاضا کرے اور اس کے بغیر اس کا 'ہونا' نامکمل و ناقص ہو۔امام صاحب نے اپنی متعدد کتب میں کمال و نقص پر گفتگو فرمائی ہے۔"کتاب النفس و الروح" میں آپ فرماتے ہیں کہ کمال اپنی ذات ہی میں ہر شخص کو 'پسند' ہوتا ہے اور نقص سے ہر شخص کا جی متلاتا ہے۔مزید فرماتے ہیں کہ لذت و کمال اور الم و نقص تمام ہی  لذاتہ مطلوب و مکروہ ہوتے ہیں،البتہ لذت و الم کا تعلق جسم سے جبکہ کمال و نقص روحِ انسانی کے محبوب ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امام صاحب لذت و الم کے برعکس کمال و نقص کو اشیاء کا ذاتی خاصہ قرار دیتے ہیں،یعنی کمال و نقص لذت و الم کی طرح کوئی موضوعی احساس نہیں بلکہ مختلف اشیاء میں معروضی وجود کے حامل ہیں،جیسا کہ محولہ بالا تعریف سے معلوم ہوا۔اسی طرح امام صاحب لذت کے علی الرغم،کمال کے لیے مطلوب بذاتہ کی بجائے محبوب بذاتہ کی اصطلاح بروئے کار لائے ہیں، کیونکہ بعض کمالات ناممکن الحصول ہوتے ہیں جیسے واجب الوجود ہونا انسان کے لیے ناممکن ہے لہذا اس کی طلب کا کوئی معنی نہیں البتہ اس کے تصور سے جی بہلایا جا سکتا ہے۔ وجوبِ وجود انسان کو محبوب ہے، مطلوب نہیں۔ وجوبِ وجود سے انسان کی محبت ہی ہے جو اللہ تعالی کو اس کا محبوب بنا دیتی ہے۔غور کیا جائے تو کمال و نقص کے مبحث میں امام صاحب متکلم سے زیادہ ایک صوفی کے روپ میں نظر آتے ہیں۔16

مدارجِ کمال اور عشقِ الہی:

امام صاحب کمال کو ذاتی و صفاتی میں تقسیم کرتے ہوئے ذاتی کمال کی تعریف یوں فرماتے ہیں:

"اما الکمال فی الذات فهو ان يكون واجبا لذاته من حيث غير قابل للعدم والفناء بوجه البتة"

"ذات میں کمال یہ ہے کہ ذات (کا ہونا) اپنی ذات کی وجہ سے ہی اس طرح واجب(ضروری) ہو کہ کسی طور بھی اس پر فناء اور عدم طاری نہ ہو۔17

امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کمال خدا تعالی کا خاصہ ہے۔اس کے برعکس انسان ممکن الوجود ہے جس کا وجود خدا کے وجود سے قائم ہے۔وجوبِ وجود کی وجہ سے جس طرح انسان خدا کو محبوب رکھتا ہے ایسے ہی خدا بھی اس کمال کی وجہ سے خود سے محبت کرتا ہے۔مزید براں،چونکہ ممکنات کا وجود ذات واجب تعالی کا ہی فیضان اور ان کی ایجاد اسی موجود حقیقی کا فعل ہے لہذا وہ انسانوں سے بھی محبت کرتا ہے۔گویا انسان سے خدا کی محبت دراصل اپنے افعال،جو کہ لازمِ ذات ہیں،سے ہی محبت ہے۔18

کمالِ صفاتی پر گفتگو کرتے ہوئے امام صاحب فرماتے ہیں کہ صفات میں کمال صرف علم و قدرت میں محصور ہے اور یہ بھی بتمامہ خدا تعالی کا خاصہ ہے۔19 گزارش ہے کہ امام صاحب کی یہ تعریفات درحقیقت کمالات کی درجہ بندی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔تصوف کے رمز شناس بخوبی جانتے ہیں کہ دریں مقام، امام صاحب کمال سے کمالِ حقیقی مراد لے رہے ہیں اور انسانی کمالات کو آپ نشیبِ مجاز میں اتار لائے ہیں۔"شرح عیون الحکمۃ" کی درجِ ذیل عبارت نہ صرف ہماری اس بات کی توثیق کرتی ہے بلکہ امام صاحب کے صوفیانہ ذوق کو بھی مزید عیاں کرتی ہے۔آپ رقم فرماتے ہیں:

"الاستقراء دل على ان الكمال محبوب لذاته، واذا كان كذلك لزم ان يقال ان الشيء كل ما كان أشد كمالا كان اولى بالمحبوبية. واكمل الاشياء هو الحق-سبحانه-فكان هو أولى بالمحبوبية"

"استقراء دلالت کرتا ہے کہ کمال،لذاتہ محبوب ہوتا ہے۔بنابریں یہ کہنا ضروری ٹھہرتا ہے کہ جب بھی کوئی شے کامل تر ہو تو وہ سب بڑھ کرلائقِ محبت ہوتی ہے اور چونکہ سب سے کامل و اکمل شے حق تعالی کی ذات ہے لہذا وہ سب سے بڑھ کر اس بات کی سزاوار ہے کہ اسے محبوب بنایا جائے۔"20

کمالاتِ انسانی:

امام صاحب کمالاتِ انسانی پر چھائے کہر کو صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کا کمال عرفانِ حق و خیر میں مضمر ہے۔عرفانِ حق اعتقاد کی راست سمتی کا ضامن جبکہ عرفانِ خیر عمل کا راہ نما ہے۔مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عرفانِ حق یہ ہے کہ انسان کی نظری قوت ایسی کامل ہو جائے کہ اس پر اشیاء کی صورت و حقیقت جلوہ گر ہونے لگے،یہ تجلی ایسی صیقل و شفاف اور ایسی کامل و تام ہو کہ عرفانِ شے کی راہ میں کسی بھی خطا و چوک کا گزر نہ ہونے پائے۔عرفانِ خیر یہ ہے کہ انسان کی عملی قوت یوں کامل ہو جائے کہ اسے اعمالِ صالحہ کا ملکہ دان ہو جائے اور اعمال صالحہ کا یہ ملکہ ایسا ہو جو انسان کو جسمانی لذات سے بے نیاز کر کے روحانی اور اخروی سعادت کے طرف کشاں کشاں لے جائے۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ کمال بتمامہ صرف انبیاء و اولیاء کے نصیب میں ہے نیز اولیاء پر بھی اس کا فیضان انبیاء کا رہین منت ہے۔21 امام صاحب کمال و نقص کی ان مرادات کو اثبات نبوت کے لئے بطور دلیل بروئے کار لائے ہیں جس پر بشرطِ توفیق آئندہ سطور میں کلام کیا جائے گا۔

آمدم برسر مطلب! گزارش ہے کہ کمال و نقص پر حسن و قبح کے اطلاق کی کوئی اخلاقی معنویت نہیں ہے۔حسن و قبح کا یہ اطلاقی اظہار سراسر جمالیاتی تناظر میں کشیدِ معنی کرتا ہے۔امام صاحب اور دیگر متکلمین کا کلام اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے کمال و نقص کی اصطلاح کو غیر اخلاقی حقائق کی توضیح میں برتا ہے۔عموماً‌ خدائی صفات کی تشریح اسی تناظر میں کی جاتی ہے۔عرض ہے کہ کمال و نقص کا ہونا ایک وجودی قضیہ ہے لیکن ان پر حسن و قبح کا اطلاق ایک جمالیاتی بیان ہے۔جب کمال و نقص پر لفظِ حسن و قبح بولا جائے تو اس سے اخلاقی اچھائی اور برائی نہیں،سُندرتا اور بھداپن مراد ہوتے ہیں۔کسی بھی شے کا ایسی صفت سے متصف ہونا جو اس کے وجودی معنی کو لازم ہے اسے جمیل(سُندر) بنا دیتا ہے۔ بصورت دیگر وہ شے بھدی نظر آتی ہے۔حدیث ’’ان اللہ جمیل‘‘ کا یہی معنی ہے کہ اللہ تعالی تمام صفات کمالیہ سے بتمامہ متصف ہے۔مختصر یہ کہ جمال دراصل کمال کی پھبن کا نام ہے۔کمال شے کی ذات کو مکمل کرتا ہے اور جمال اسی مکمل و اکمل شے میں جلوہ فگن ہوتا ہے۔کمال و جمال کے اسی گہرے ارتباط کو حجۃ الاسلام امام غزالیؒ (م:٥٠٥)  نے اپنی مایہ ناز تصنیف "احیاء علوم الدین" میں یوں بیان فرمایا ہے:

"کل شیئ فجماله و حسنه فى أن يحضر كماله اللائق به الممكن له، فاذا كان جميع كمالاته الممكنة حاضرة فهو في غاية الجمال"

"کسی بھی شے کا حسن و جمال یہ ہے کہ اس میں اس کی (ذات،جنس،نوع) کے مناسب ممکنہ22 کمال پایا جائے،پھر اگر اس میں تمام ممکنہ کمالات پائے جائیں تو وہ تو جمال کی انتہاء کو چھو رہا ہے"23

گزارش ہے کہ امام رازیؒ نے جمالیاتی طلب کی آسودگی کو کمال سے نتھی کر کے کمالِ مطلق کو خدا میں محصور اور کمالِ انسانی کو نبوت سے مشروط کر کے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مذہب کے بغیر جمالیاتی شعور کی آبیاری ممکن نہیں ہے۔


حواشی

  1. قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج6-1،ص88    -  https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
  2. ايضا،ج6-1،ص61
  3. ايضا،ج٦-١،ص٨١
  4. ايضا،ج٦-١،ص٦٤
  5. ايضا،ج٦-١،ص٦٥
  6. امام ابو منصور ماتريدى،كتاب التوحيد(لاہور: مكتبہ  دارالاسلام،۲۰۱۴)، ۲۹۸ ۔
  7. امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،١٩٩٢)،ج١،ص١٢٣،١٢٤
  8. امام فخر الدين رازى،الاربعين فى اصول الدين(بیروت: دارالکتب العلميه،بیروت،۲۰۰۹)، ۲۔
  9.   امام فخرالدین رازی،المطالب العاليه من العلم الإلهي (دارالکتب العلمیہ،بیروت،١٩٩٩)، ج۳، ص ۱۸۰۔
  10.  ایضا،ج٣،ص١٤
  11.  ایضا،ج٣،ص٢١٦
  12.  امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،١٩٩٢)،ج١،ص١٣٢
  13.  امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،٢٠١٥)،ج٣،ص٢٨٥
  14.  امام فخر الدين رازى،الاربعين فى اصول الدين(دارالکتب العلمیہ،بیروت،٢٠٠٩)ص٢٤٣،٢٤٤
  15.  امام فخرالدين محمد بن عمر رازى،الاشارة فى علم الكلام(المكتبة الازهرية للتراث،مصر،٢٠٠٩)،ص٢٢٦
  16.  امام فخرالدين محمد بن عمر رازى،كتاب النفس والروح و شرح قواھما(معہد الابحاث الاسلامیہ،اسلام آباد)،ص٢٠،٢١
  17.  ايضا،ص٢١
  18.   ایضا،ص٢١،٢٢
  19.  ایضا ص٢٢
  20.  امام فخرالدین رازی،شرح عیون الحکمة(موسسة الصادق للنشر والطباعة،طهران،ايران،١٣٧٣ھ)ج٣،ص١٦٧-١٢٨
  21.   امام فخرالدين رازى،المطالب العالية من العلم الالهى(مكتبة علمية ،ببروت،١٩٩٩)ج٨،ص٦١
  22.  امکانِ عام مراد ہے۔
  23.  امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی،احیاء علوم الدین(دارالحدیث،قاہرہ،٢٠٠٤)ج٤،ص٣٧٢

(جاری)

شخصیات

(جولائی ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter