ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۱)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے، بہت کم عمری میں تحریک سے وابستہ ہوئے اور تادم زیست وابستہ رہے، لیکن یہ وابستگی کوئی عام سی وابستگی نہ تھی، بلکہ آخر دم تک تحریک اور امت کے لیے غیرمعمولی حد تک فکرمند رہے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک عظیم ماہرِ اسلامی معاشیات تھے اور عالمی سطح پر انہوں نے اسلامی معاشیات کے حوالہ سے نہ صرف ایک پہچان بنائی تھی، بلکہ دنیا بھر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا تھا۔ عالم اسلام کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ بھی اسی سلسلہ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمات کا ایک میدان اسلامی معاشیات تھا، اور دوسرا میدان اسلامی فکر۔ خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی میدانوں میں ان کی خدمات بہت ہی نمایاں اور موثر رہیں۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا خانوادہ ایک علمی خانوادہ تھا۔ آپ کے آباء واجداد سندھ کے راستے عرب سے ہندوستان آئے تھے۔ یہاں سلاطین کی حکومت میں ان کے خاندان کو قاضی کا درجہ حاصل تھا۔ ہندوستان میں ان کے اہل خاندان اعظم گڑھ کے قریب ’’قاضی کی سرائے‘‘ میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ 1920 کے قریب ڈاکٹر صدیقی کے والد حکیم عبدالقدوس اپنے بڑے بھائی کے ساتھ قاضی کی سرائے سے گورکھپور منتقل ہوگئے، اور وہیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ولادت 21 اگست 1931 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں ہوئی اور پھر اسلامیہ انٹرکالج گورکھپور میں داخل ہوگئے۔

اسلامیہ انٹرکالج میں تعلیم کے دوران یکے بعد دیگرے دو واقعات پیش آئے، ان دونوں واقعات نے ڈاکٹر صدیقی کی زندگی کو ایک رخ دینے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا:

(۱) ساتویں جماعت میں زیرتعلیم تھے، اسی دوران 1943 میں ایک نوجوان’’تمکوہی‘‘ قصبے سے گورکھپور شہر منتقل ہوا اور اتفاق سے ڈاکٹر صدیقی کے دوسرے گھر میں کرایے دار ہوا، اور اتفاق پر اتفاق یہ ہوا کہ ان ہی کے کالج اور ان ہی کے کلاس میں اس کا داخلہ بھی ہوگیا۔ قدرت کا کرنا تھا کہ یہ نوجوان علوم و افکار کی دنیا سے لے کر عملی اور حرکی زندگی تک ڈاکٹر صدیقی کا بہترین رفیق ثابت ہوا، اور تقریباً ستر سال کی بے مثال رفاقت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس نوجوان کا نام ڈاکٹر عبدالحق انصاری تھا، جو تحریک اسلامی کے عظیم مفکر اور کچھ عرصے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے امیر ہوئے۔ ڈاکٹر انصاری شروع میں ڈاکٹر صدیقی کے دوسرے گھر میں کرایے دار تھے، لیکن بہت جلد ہی وہ ڈاکٹر صدیقی کے اپنے گھر میں ایک فیملی ممبر کی طرح رہنے لگے تھے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی رفاقت بہت ہی مثالی تھی، اور یہ رفاقت دونوں کی شخصیت سازی میں غیرمعمولی طور پر معاون ثابت ہوئی۔ دونوں کی زندگی میں کئی پہلووں سے یکسانیت پائی جاتی تھی۔ دونوں ایک ساتھ تحریک سے وابستہ ہوئے، دونوں نے اپنے لیے تحریک کا فکری محاذ منتخب کیا، دونوں نے تحریک اسلامی کی بڑے پیمانے پر فکری خدمات انجام دیں، دونوں اجتہادی مزاج رکھتے تھے اور جرأتمندانہ سوچ کے حامل تھے، دونوں کے تحقیقی ذوق اور علمی کمال کا تحریک اور تحریک کے باہر کی دنیا میں اعتراف کیا جاتا تھا۔

(۲) اسلامیہ انٹرکالج میں، ہائی اسکول کی تکمیل سے پہلے ہی آپ دونوں کا تعارف مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کی قائم کردہ تحریک’’جماعت اسلامی‘‘سے ہوا، عبدالحق انصاری مرحوم ستر سالہ رفاقت کے بعد اس دارفانی سے کوچ کرگئے، لیکن تحریک اسلامی سے جو رفاقت قائم ہوئی وہ تقریباً اسی سال تک یعنی آخری سانس تک باقی رہی۔ تعلیم کا پورا سلسلہ تحریکی تقاضوں کے مطابق جاری رکھا، غوروفکر کا پورا سلسلہ تحریک کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا، اختصاص کا میدان تحریک کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کیا، تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا ایک زبردست کام تحریک اسلامی کے مشن، وژن اور طریقہ کار کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے انجام دیا۔

ان دونوں واقعات یا ان دونوں رفاقتوں کے ڈاکٹر نجات صاحب مرحوم کی زندگی پر بہت گہرے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اسکول کی تعلیم کے دوران ہی انہوں نے ڈاکٹر عبدالحق انصاری کے ساتھ مل کر تحریک کے لیے عملی جدوجہد شروع کردی تھی، اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

’’ہم نے لٹریچر حاصل کیا، لائبریری بنائی، مختلف رسائل وجرائد منگوانے شروع کیے، اور طلبہ ساتھیوں کے درمیان کام کا آغاز کردیا، ان تمام سرگرمیوں میں عبدالحق صاحب ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے، البتہ وہ شروع ہی سے خشک مزاج رکھتے تھے، کافی سنجیدہ تھے، چنانچہ تفریحی اور ادبی سرگرمیوں میں وہ کم دلچسپی لیتے تھے اور مجھے ان میں کافی دلچسپی تھی‘‘۔ (دیکھیں: ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012)

ہائی اسکول کی تکمیل کے مرحلہ میں ان دونوں کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی تفصیلات ڈاکٹر صدیقی مرحوم کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’جب ہم نے مولانا مودودی کالٹر یچر پڑھا، اور اس میں دیکھا کہ مولانا مودودی نے کس طرح موجودہ تعلیمی نظام پر تنقید کی ہے اور ایک نئے تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کیا ہے، اس وقت ہمارے دل میں شوق پیدا ہوا کہ ہم اس تعلیم کو ترک کر کے دینی تعلیم حاصل کریں، ہم دونوں کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ہم انجینئر بنیں، لیکن ہم لوگ اپنے آپ میں کچھ اور فیصلہ کر چکے تھے، ہائی اسکول کرنے کے بعد ہم دونوں نے ترک تعلیم کا فیصلہ کرلیا، اور پھر میں ملیح آباد گیا، جہاں جماعت اسلامی کا مرکز تھا، میں نے وہاں مولانا ابواللیث صاحب سے ملاقات کی، اور ان سے درخواست کی کہ ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے اور اب ہم چاہتے ہیں کہ جماعت ہماری تعلیم کانظم کرے، اس انداز پر جس کا مولانا مودودی کے لٹریچر میں ذکر ملتا ہے۔ لیکن مولانا ابواللیث صاحب نے وسائل اور افراد کی قلت کا عذر پیش کرتے ہوئے معذرت کر لی، چنانچہ میں واپس گورکھپور چلا گیا، وہاں ہم دونوں تقریباً دو ماہ تک اسکول نہیں گئے، یہ ہائی اسکول کے بعد کا زمانہ تھا۔اسکول کے پرنسپل کو جب معلوم ہوا کہ ہم دونوں نے تعلیم ترک کر دی ہے تو انہوں نے کچھ اساتذہ سے، جو ہم سے قریب تھے، کہا کہ ان کو سمجھا کر اسکول واپس لائیں، چونکہ ہم دونوں ہی اسکول کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے، چنانچہ بعض اساتذہ کے کہنے کے بعد ہم دو ماہ تاخیر کے ساتھ گیارہویں جماعت میں داخل ہوگئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارا دل کسی بھی طرح اس تعلیمی نظام سے مطمئن نہیں تھا۔ گورکھپور سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد میں تو علی گڑھ چلا گیا، اور وہاں بی۔اے میں داخلہ لے لیا، جبکہ انصاری صاحب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو چلے گئے‘‘۔

اس سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

’’1950 کے اوائل میں ہم ادارہ ادب اسلامی کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے طلبہ کی ایک بڑی تعدادکو لے کر رامپور پہنچے، جہاں ان دنوں جماعت کا مرکز تھا۔ ادارہ ادب اسلامی کا با قاعدہ قیام تو بعد میں ہوا لیکن اس دور میں ہم لوگ اسی نام سے کام کیا کرتے تھے۔ رامپور میں ہم نے دوبارہ مولانا ابواللیث صاحب کے سامنے اپنا مطالبہ پیش کیا، اور کہا کہ ملیح آباد میں آپ نے جو عذر پیش کیا تھا، اس کی گنجائش اب نہیں باقی رہ گئی ہے، رامپور بڑا شہر تھا، اور علمی شخصیات بھی وہاں بآسانی مل سکتی تھیں، چنانچہ ابواللیث صاحب نے گفتگو وغیرہ کی اور آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آپ لوگ یہیں قیام کریں، آپ کی تعلیم کا نظم کیا جائے گا، چنانچہ میں نے اور حمیداللہ صاحب نے علی گڑھ کی تعلیم ترک کردی اور جنوری 1950 سے وہیں قیام کیا، اور چند ماہ بعد جب با قاعدہ ثانوی درسگاہ کا آغاز جولائی 1950 میں ہوا تو انصاری صاحب بھی ندوے سے اپنا تعلیمی سال مکمل کر کے رامپور آگئے، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جماعت نے ثانوی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ ہماری سچی طلب اور مستقل اصرار کے بعد لیا تھا۔‘‘

ثانوی درسگاہ کا قیام تو جماعت اسلامی ہند کا مرکزی فیصلہ تھا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس درسگاہ کے حقیقی موسس اور محرک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم ہی تھے، انہی کی سچی طلب اور مستقل اصرار پر جماعت اسلامی ہند نے اس ادارہ کو قائم کیا تھا، اور اتفاق کی بات ہے کہ یہی اس درسگاہ کے بالکل ابتدائی طلبہ بھی تھے۔ ثانوی درسگاہ کا پورا تصور اور اس تصور کی کامیابی اور ناکامی اسی سچی طلب پر قائم تھی، ورنہ افراد سازی کے ایسے مصنوعی طریقے جن کے پیچھے سچی طلب، سچا جذبہ اور سچی محنت نہ ہو، کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی 1950 میں اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری 1952 میں جماعت االامی کے رکن ہوئے تھے، جبکہ آپ دونوں 1946سے ہی جماعت کے کاموں میں پوری طرح سرگرم رہنے لگے تھے۔ اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں وہ چاہتے تھے کہ اجتماعیت سے وابستگی کے تقاضوں کی تکمیل ہو اور جہاں کوئی مشکل درپیش ہو ذمہ داران سے رابطہ کرلیا جائے، تاکہ کوئی بھی کام پورے اطمینان کے ساتھ انجام دیا جائے۔

1947 میں ہائی اسکول کی تکمیل کے بعد جب جماعت نے اپنے محدود وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگے کی تعلیم کا مناسب بندوبست کرنے سے معذرت کردی، تو قریب دو ماہ کے گیپ کے بعد اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور پرنسپل کی کوششوں کے نتیجہ میں دوبارہ دونوں افراد تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر آمادہ ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے سے متعلق مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم کو ایک تحریر ارسال کی تھی، وہ شائد جماعت کے نظم سے اجازت طلبی کے قسم کی تحریر رہی ہوگی۔ اس تحریر کے جواب میں 16 اگست 1947 کو مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم نے ایک خط تحریر کیا تھا، یہ خط اس زمانے میں عصری تعلیم سے متعلق جماعت کے موقف اور رجحان کو بھی بیان کرتا ہے، اس خط سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اس سے پہلے مرکز سے ایک اور خط ارسال کیا جاچکا تھا، جو کسی وجہ سے نجات صاحب تک نہیں پہنچ سکا تھا، چنانچہ اس خط میں اسی خط کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم رقمطراز ہیں:

’’بہرحال جو خط آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو حالات آپ نے بیان فرمائے ہیں ان کے تحت اگر آپ اپنی موجودہ تعلیم جاری رکھنا چاہیں تو آپ اس کے مجاز ہیں۔ موجودہ تعلیم کے نقائص سے دل کچھ ایسا متاثر ہے کہ اس کے لیے اجازت دینے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جب آپ کے سامنے مجبوریاں ہیں تو مجبورا ہمیں آپ کے اس فیصلے کو برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ آپ ماشاء اللہ خود سمجھ دار ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تعلیم کو اچھے مقصد ہی کے لیے حاصل کریں گے اور اگر خدانخواستہ بعد کو کسی مرحلہ میں محسوس کریں گے کہ اس میں مفاد سے زیادہ مضار ہیں تو اس کو بے تامل ترک کر دیں گے۔ ہمارے ہر کام کا محور وہ نصب العین ہونا چاہیے، جو ایک مومن کا حقیقی نصب العین ہے اور اس کو ہر حال میں عزیز رکھنا چاہیے۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ69)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا وژن بہت ہی واضح تھا، چنانچہ انہوں نے کبھی ادھر ادھر مڑ کر نہیں دیکھا، ہمیشہ نصب العین کی خدمت پیش نظر رہی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد بی اے کرنے لگے، لیکن ثانوی درسگاہ کے قیام کی بات آئی تو یونیورسٹی کی تعلیم ترک کرکے خوشی خوشی درسگاہ سے وابستہ ہوگئے۔

ثانوی درسگاہ کا زمانہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کی زندگی کا ایک بہت ہی اہم پڑاؤ تھا، ثانوی درسگاہ میں جہاں ایک طرف اعلی صلاحیتوں کے حامل، ذہین اور تلاش و جستجو کا مزاج رکھنے والے ساتھیوں کا ایک اچھا گروپ مل گیا، وہیں پڑھنے لکھنے کا ایک شاندار ماحول، اور بہترین اساتذہ کی ایک ٹیم نصیب ہوگئی۔

ثانوی درسگاہ کے ماحول اور سرگرمیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نجات اللہ صدیقی صاحب فرماتے ہیں:

’’وہاں ہم سبھی مختلف ڈسکشنز اور مباحثوں میں شریک رہتے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی تھی، وہاں کا نظم کچھ اس طرح تھا کہ ہم بعد نماز عصر اپنے طور پر جدید علوم کا مطالعہ کر سکتے تھے، اس میں ایک صاحب تھے شاہ ضیاء الحق صاحب، جو ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھیوں میں سے تھے اور جماعت کے شوری کے ممبر تھے، وہ ہمارے نگراں مقرر کیے گئے تھے۔ مولانا ابواللیث صاحب کی خصوصیت تھی کہ جہاں رہتے وہاں لوگوں سے اچھے روابط قائم کرتے اور ان کو کافی قریب کرلیا کرتے تھے، رامپور میں بھی مولانا نے کچھ ایسا ہی کیا، چنانچہ وہاں شاندار تاریخی لائبریری ’’رضا لائبریری‘‘ سے ہمارے لیے استفادہ آسان ہوگیا۔ رامپور کی دو بڑی شخصیات مولا نا عبدالوہاب خاں رام پوری اور ان کے بھائی مولاناعبدالسلام خاں سے استفادہ کا موقع بھی ملا۔ اس کے علاوہ وہاں ہم نے مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا ایوب اصلاحی وغیرہ مختلف علمی شخصیات سے بھر پور استفادہ کیا۔ میرا مزاج شروع ہی سے عبدالحق صاحب سے کچھ مختلف تھا، میرا معمول تھا کہ روزانہ صبح سویرے چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا، کچھ ملاقاتیں کرتا، کچھ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتا‘‘- (رفیق منزل، نومبر 2012)

ثانوی درسگاہ کے تعلق سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی بہت واضح سوچ رکھتے تھے، ثانوی درسگاہ کے مقصد قیام سے متعلق وہ اپنی کتاب ’’اسلام، معاشیات اور ادب‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ درسگاہ 1950 میں قائم ہوئی تھی اور بوجوہ 1960 میں بند ہوگئی۔ مقصد یہ تھا کہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چار سالہ کورس کے ذریعہ عربی، قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر علوم اسلامیہ کی اتنی تعلیم دے دی جائے کہ آئندہ وہ جدید علوم میں سے کسی علم میں اسلامی نقطہ نظر سے علمی اور تحقیقی کام کرسکیں‘‘۔ (صفحہ11)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے ساتھ ثانوی درسگاہ میں دوران تعلیم یہ خوش آئند واقعہ پیش آیا کہ یہاں ان کو فکر فراہی سے متعارف ہونے اور علامہ فراہی کے شاگرد رشید مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم سے استفادہ کا موقع نصیب ہوگیا۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس سے متعلق فرماتے ہیں:

’’ثانوی درسگاہ سے اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد میں، انصاری صاحب اور حمیداللہ صاحب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسۃ الاصلاح گئے، وہاں علامہ فراہی کے تلمیذ خاص مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ، جو جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے رکن تھے، ان سے قرآن مجید پڑھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں سب سے خاص بات یہ رہی کہ ہمیں علامہ فراہی کے خاص نوٹس استفادہ کے لیے فراہم کیے گئے، جن میں سے بیشتر اب شائع ہوچکے ہیں۔ میں اور انصاری صاحب وہاں سے چھ ماہ کے بعد واپس چلے آئے، البتہ حمیداللہ صاحب ایک سال تک رہے‘‘۔ (رفیق منزل، نومبر 2012)

مدرسۃ الاصلاح میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی حسب پروگرام مولانا اختر احسن اصلاحی اور دوسرے بڑے اساتذہ سے قرآن مجید اور نظم قرآن کا درس لیتے، اور ساتھ ہی وہاں طلبہ کو باقاعدہ انگریزی وغیرہ کچھ عصری مضامین بھی پڑھاتے تھے۔ ہمارے بڑے ابا مولانا امانت اللہ اصلاحی مرحوم بتاتے تھے کہ اس دوران نجات صاحب نے ان کے کلاس کے طلبہ کو انگریزی زبان پڑھائی تھی۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب فکر فراہی سے کس حد تک متاثر تھے، اس پر الگ سے اور بھرپور اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ علامہ فراہی رحمہ اللہ کی چیزوں سے خاص دلچسپی رکھتے تھے، قرآن مجید سے ان کو خاص شغف تھا، اور ان کی تحریروں میں قرآن مجید سے استفادہ اور استدلال کا پہلو کافی نمایاں نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ثانوی درسگاہ آنے سے پہلے ہی مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر ہوکر اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے کہ معاشیات کے میدان میں ہی ان کو کام کرنا ہے، چنانچہ ثانوی درسگاہ سے قبل انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لے لیا تھا، اور بی اے میں اپنے لیے عربی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ معاشیات کا مضمون منتخب کیا تھا۔ لیکن ثانوی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ ہوا تو بی اے چھوڑ کر وہ درسگاہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ مدرسۃ الاصلاح سے واپس آنے کے بعد ان کے سامنے ایک بڑا سوال مستقبل کا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذاتی مطالعہ کی بنیاد پر معاشیات کے میدان میں اکیڈمک لیول پر کوئی بڑا کام کرنا ممکن نہ تھا، چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اکنامکس ڈپارٹمنٹ میں جاکر ایک فری اسٹوڈنٹ کے طور پر ایم اے معاشیات کی کلاس جوائن کرلی۔ اور پھر 1956 میں باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اکنامکس میں داخلہ لیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ذاتی فیصلہ تھا، جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران ان کے اس فیصلے سے بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ جماعت اسلامی کا یہ دور عجیب وغریب کنفیوژن کا دور تھا، ایک طرف موجودہ نظام کی نوعیت کے تعین کا مسئلہ تھا، موجودہ نظام، جس کا ایک حصہ تعلیمی نظام بھی تھا، اس کے مکمل بائیکاٹ کا رجحان تھا، دوسری طرف اپنی علمی وفکری ضرورتوں کی تکمیل کا مسئلہ تھا، ظاہر سی بات ہے کہ متبادل کھڑا کرنے کے لیے نہ اس وقت جماعت کے پاس وسائل تھے اور نہ آج ہیں۔ چنانچہ یہ مسئلہ اس وقت مرکزی مجلس شوری میں بھی زیر بحث آیا، واقعہ کی تفصیل ڈاکٹر صدیقی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’جب ہم لوگ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ہمارے خلاف کافی ہنگامہ کیا گیا کہ یہ لوگ باطل نظام کا حصہ بن رہے ہیں، اس سے ثانوی درسگاہ کا مقصد فوت ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ، حتی کہ شوری میں ہماری رکنیت کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا، اور ثانوی درسگاہ بند کرنے کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں سے نکل کر طلبہ یونیورسٹی کی طرف چلے جارہے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012)

ڈاکٹر صدیقی اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’ہمارا تجربہ ہے کہ درسگاہ کے فارغین نے جو کچھ بھی کام کیے ہیں، وہ انہی نے کیے ہیں جو بعد میں یونیورسٹی کی طرف چلے گئے۔ علی گڑھ میں ہماری اعلی تعلیم کا بنیادی مقصد تحریک ہی کی خدمت تھا، ورنہ ہم اگر اسی نظام کا حصہ بننا چاہتے تو اس کے لیے بہترین وقت انٹرمیڈیٹ کے بعد کا تھا، جب کہ ہمارے والدین کی شدید خواہش تھی کہ ہم انجینئر نگ کر یں۔ لوگ مولانا مودودی کی تحریروں کی روح نہیں سمجھ پائے، مولانا مودودی کا یہ مقصد بالکل نہیں تھا کہ ہم ان اداروں کا رخ ہی نہ کریں، جس کا اظہار بعد میں مولانا مودودی کی طرف سے کیا بھی گیا۔‘‘ (حوالہ سابق)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹر صدیقی نے 1958 میں معاشیات سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1960 میں معاشیات سے ہی ایم اے کیا۔ ان دونوں مراحل میں انہوں نے یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں وہ یونیورسٹی میں ایک نمایاں پہچان اور طلبہ کے درمیان بہت ہی عزت ومرتبہ رکھتے تھے۔ یہ دور یونیورسٹی میں اشتراکی رجحانات کے عروج کا دور تھا، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے وہاں اسلامی رجحان رکھنے والے طلبہ کو جمع کرنے اور ان کو یونیورسٹی میں ایک موثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔

ایم اے معاشیات کے بعد آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا، پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع تھا:

‘‘A Critical Examination of the Recent Theories of Profit’’

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی پی ایچ ڈی 1966 میں مکمل ہوئی۔

مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ کی شخصیت کا ایک امتیازی پہلو یہ تھا کہ ان کی شخصیت میں زبردست جامعیت پائی جاتی تھی، وہ ایک طرف عصری علوم میں مہارت رکھتے تھے، دوسری طرف دینی علوم میں گہری دسترس رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمانے کی زبان میں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ گفتگو کی، اور ان کو دنیا بھر میں شوق سے سنا اور پڑھا گیا۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی اٹھان بھی بالکل اسی طرز پر ہوئی تھی، انٹرمیڈیٹ تک انہوں نے عصری تعلیم حاصل کی اور اس میں نمایاں مقام حاصل کیا اور اس کے بعد ثانوی درسگاہ اور مدرسۃ الاصلاح سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی انہوں نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ وہاں سے دوبارہ یونیورسٹی کی طرف گئے اور وہاں بھی امتیازی پوزیشن کے ساتھ اعلی تعلیم مکمل کی۔ چنانچہ مولانا مودودی کی طرح ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت میں بھی زبردست جامعیت پائی جاتی تھی، وہ عصری علوم میں بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور دینی علوم کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ اسلامی معاشیات، اسلامی فکر اور مقاصد شریعت پر ان کے کاموں میں دینی وعصری علوم کی یہ جامعیت بہت صاف نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی زندگی کا ایک قابل ذکر حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزرا، پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد 1961 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے، تقریباً پندرہ سال تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1975 میں آپ کا پرموشن ہوا اور آپ ریڈر یا اسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے۔ 1977 میں اسلامیات کے حوالے سے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو شعبہ اسلامیات میں پروفیسر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کا ڈائرکٹر بنا دیا گیا۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی یونیورسٹی کی دنیا میں کھو جانے والی شخصیت نہیں تھے، یونیورسٹی کے یہ مناصب ان کے لیے پاؤں کی بیڑیاں نہیں بن سکتے تھے۔ انہوں نے اس دوران بھی اپنے طے کردہ اصل محاذ یعنی اسلامی معاشیات پر علمی وتحقیقی کام جاری رکھا اور اس کے لیے اپنی استعداد کی حد تک ہندوستان میں بھی اور ہندوستان کے باہر جہاں جہاں ممکن ہوسکا ایڈووکیسی کا کام کرتے رہے۔ قریب 1976 میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامی معاشیات کے موضوع کو متعارف کرانے اور اس کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ایک پرپوزل تیار کیا اور اسے وائس چانسلر پروفیسر اے ایم خسرو کے سامنے پیش کردیا۔ لیکن بوجوہ اس وقت اس کو شامل نصاب نہ کیا جاسکا، البتہ ایک عرصے کے بعد 1994 میں اسلامی معاشیات کو ایک آپشنل پیپر کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔

1972 میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو پہلی بار مغربی دنیا کا تفصیلی سفر کرنے کا موقع ملا۔ امریکی تنظیم کنسلٹیٹیو کمیٹی آف انڈین مسلم (CCIM) اور مسلم اسٹوڈنٹ اسوسی ایشن (MSA) کی دعوت پر آپ امریکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ امریکہ میں آپ نے چار ماہ قیام کیا، اور اسی دوران آپ برطانیہ، فرانس، لیبیا اور سعودی عرب بھی گئے۔ یہ سفر اسلامی معاشیات کی انٹرنیشنل ایڈووکیسی کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ سعودی عرب میں آپ نے اس موقع پر فریضہ حج بھی ادا کیا۔

1976 میں آپ نے دوسری مرتبہ سعودی عرب کا سفر کیا، یہ سفر سعودی عرب میں منعقد اسلامی معاشیات پر پہلی عالمی کانفرنس کے سلسلہ میں ہوا، اس کانفرنس کے انعقاد میں جہاں بہت سے افراد کی کوششوں کا دخل تھا وہیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا بھی ایک اہم رول تھا، سعودی عرب میں منعقد یہ کانفرنس اسلامی معاشیات کے فروغ کے سلسلہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی، سعودی حکومت نے ایک طرح سے اس کانفرنس کی سرپرستی کی، دنیا بھر کے اسکالرس کو مدعو کیا گیا، اور پھر اس سلسلہ میں ٹھوس کام انجام دینے کے لیے مختلف پہلووں سے منصوبہ بندی کی گئی۔

یہ سفر آپ کی زندگی کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا، اور آپ اس کے دو سال بعد سعودی عرب منتقل ہوگئے، ہندوستان سے سعودی عرب منتقل ہوجانے کا آپ کا یہ فیصلہ نہ تو ملازمت کے حصول کے لیے تھا، نہ ہی کسی دوسری ذاتی غرض کے لیے تھا، یہ فیصلہ خالص اپنے مشن کے لیے تھا اور معاشیات پر ان کے بڑے علمی پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے یہ ایک طرح کی ہجرت تھی۔ اس سفر کا بیک گراؤنڈ وہ خود کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’کچھ عرصہ پہلے 1976 میں کئی برس کی کوششوں کے بعد اسلامی معاشیات کی پہلی بین الاقوامی کانفر نس مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی، جس نے ان بہت سے لوگوں کو قریب آنے کا موقع دیا جو انفرادی طور پر اس میدان میں کام کر رہے تھے، وہاں ایک تحقیقاتی مرکز قائم کرنے کی سفارش کی گئی، سیاسی حالات اور مالی ضروریات دونوں کے پیش نظر اس مرکز کا ہندوستان میں بلکہ پاکستان میں یا کسی اور جگہ قائم ہونا بھی ممکن نہ تھا۔ جامعہ ملک عبدالعزیز میں مرکز کا قیام طے ہوا۔ ہمیں اس ملک میں رہ کر یہ کام کرنے کی نزاکتوں کا احساس تھا اور ہے۔ مگر کام جس مرحلہ میں ہے اور اس وقت تھا اس کے پیش نظر یہاں سے کام کرنے کے مصالح کا پہلو غالب تھا اور اب بھی ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کام کے لیے ان افراد میں سے چند کا یہاں ہونا ضروری تھا جو اس کا واضح تصور رکھتے تھے اور عرصہ دراز سے اس کا تجربہ رکھتے تھے۔ چنانچہ شروع ہی سے مجھ سے اصرار کیا گیا۔ فورا بعض وجوہ سے میرا آنا ممکن نہ ہوا، چنانچہ اوائل 1977 میں میں نے برادرم فضل الرحمن فریدی کے آنے کی تجویز پیش کی جو بعض وجوہ سے سال بھر بعد عملی شکل اختیار کر سکی، پھر آخر 1978 میں یہاں بغیر میری درخواست کے تقرر نامہ موصول ہوا، اور اصرار کیا گیا کہ میں آجاؤں اور میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 319)

چنانچہ 1978 میں آپ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے بحیثیت پروفیسر وابستہ ہوگئے۔ یہاں آپ تقریباً بائیس سال تک مقیم رہے، اور 2000 تک آپ وہاں تدریس اور تحقیق کا کام انجام دیتے رہے۔

2001 میں آپ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سینٹر فار نیئر ایسٹرن اسٹڈیز سے وابستہ ہوگئے، 2002 اور 2003 میں آپ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک جدہ کے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے وزیٹنگ اسکالر کے طور پر وابستہ رہے۔

2006 کے اگست اور ستمبر میں آپ نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا میں متعدد توسیعی لکچر دیے۔

2010 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے آپ کو ڈپارٹمنٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے پروفیسر ایمریٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔

یہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے تعلیمی وتدریسی سفر کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم پر یہ اعتراض شدت سے کیا جاتا تھا کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر بیرون ملک کیوں منتقل ہوگئے، جبکہ ہندوستان کی اسلامی تحریک اور یہاں کے اکیڈمیا کو ان کی زیادہ ضرورت تھی۔ اس سلسلہ میں ایک بہت ہی دلچسپ خط وکتابت جناب جاوید اقبال صاحب (سابق منیجر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی) اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے درمیان ہوئی، گفتگو کے کچھ اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔ جاوید اقبال صاحب مارچ 1983 میں اپنے ایک خط میں نجات اللہ صدیقی صاحب کو ان کی تحریروں اور جماعت اسلامی ہند کے افراد کے درمیان ان کی حیثیت اور مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہرحال، ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ اپنے ملک میں مادہ پرست اور لادینی سیاست کی قیادت کو چوٹی سے پکڑ زمین پر پٹخ دینا چاہتے تھے، اب وہ وقت بھی آیا جبکہ ملک وملت کو آپ کی شدید ضرورت تھی، تب آپ نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا، چاہے عارضی ہی سہی۔‘‘ (حوالہ سابق: 316)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خوبی تھی کہ وہ ہر بات کا بہت سنجیدگی سے اور بہت معقول انداز سے جواب دینے کی کوشش کرتے تھے، جاوید اقبال صاحب کے خط کا جواب بھی انہوں نے بہت ہی خوب صورت انداز میں دیا ہے، یہ پورا جواب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، ذیل میں اس کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:

’’جاوید اقبال صاحب بات یہ ہے کہ جس انقلاب کے ہم خواہاں ہیں اس کے لیے بہت سے میدانوں میں مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ شروع کے دور میں ایک ضروری کام انقلابی جوش پیدا کرنا تھا، لیکن آگے صرف جوش سے کام نہیں چلتا، اس جوش کو قابو میں لا کر مسلسل محنت کی شکل دینے کی ضرورت ہے، انقلاب کے لیے در کار بہت سے کاموں کی نشاندہی عصر حاضر میں تحریک اسلامی کی تجدید کرنے والوں نے بالخصوص مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اچھی طرح کی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ وقت نکال کر ذیل کی دو کتابوں کو دوبارہ دیکھ لیں:

(۱) نشان راہ (جو الگ سے بھی چھپا ہے اور تنقیحات میں بھی شامل ہے)

(۲) تعلیمات بالخصوص مقالہ ’’نیا نظام تعلیم‘‘۔

ان تحریروں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے ایک فکری انقلاب ناگزیر ہے۔ اس فکری انقلاب کے لیے دو کاموں کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ہر میدان علم کی نسبت سے قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی نکات متعین کر کے ان علوم کی اسلامی تشکیل نو عمل میں لائی جائے۔ دوم یہ کہ مغرب کی مادہ پرست تہذیب نے ان علوم کی جو تشکیل کر رکھی ہے اس کو علمی تنقید کر کے بے بنیاد، غلط اور انسانیت کے لیے مضر ہونا ثابت کر دیا جائے۔‘‘ (حوالہ سابق: 317-318)

آگے اس خط میں بہت ہی اختصار کے ساتھ نجات اللہ صدیقی مرحوم نے اپنی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، اس میں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیوں چلے گئے تھے، پھر وہاں تعلیم ادھوری چھوڑ کر ثانوی درسگاہ کیوں چلے آئے تھے اور پھر ثانوی درسگاہ سے واپس یونیورسٹی کی دنیا میں کیوں چلے گئے، لکھتے ہیں:

’’میں نے اور میری طرح بعض اور دوستوں نے ان تحریروں سے یہ سبق سیکھا ہے کہ تحریک کی خدمت کے لیے ایک میدان علم چن لیں اور اس کے ذریعہ مذکورہ بالا دونوں کام انجام دے کر اسلامی تحریک کی خدمت اور اسلامی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی زندگی لگادیں۔ میں نے یہ فیصلہ اپنی عمر کے اٹھارہویں انیسویں سال میں (1950-1949) بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی کر لیا تھا۔ ہمارے لیے یہ ممکن بھی تھا اور موزوں بھی کیونکہ ہم طالب علم تھے (جو رفقاء جماعت اس وقت عمر کے چالیسویں سال میں تھے، ظاہر ہے کہ ان کے لیے ایسا فیصلہ نہ ممکن تھا، نہ موزوں ہوتا)، میں نے انجینئرنگ کی لائن کی تعلیم چھوڑی، جس کے لیے انٹرمیڈیٹ سا ئنس کیا تھا اور مسلم یونیورسٹی میں عربی اور اکنامکس کے ساتھ بی اے میں داخلہ لیا۔ پھر یہ تعلیم ناقص نظر آئی تو جنوری 1950 میں رام پور منتقل ہوگیا۔ جہاں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی۔ اس سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ سرائے میر پھر کچھ عرصہ علی گڑھ میں مزید مطالعہ وتحقیق کا سلسلہ رہا۔ اس مرحلہ پر 1956 میں یہ واضح ہو گیا کہ دور جدید میں علمی و تحقیقی کام، وہ بھی ایسا کام جو قدیم جدید کو جامع ہو یونیورسٹی میں رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، ہم خوداتنے وسائل نہیں اکٹھا کر سکتے۔‘‘ (حوالہ سابق: 318)

یہ خط بہت طویل ہے، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بڑا حصہ یہاں درج کیا جارہا ہے، یہ خط نجات اللہ صدیقی کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی ہے، میرے خیال سے یہ خط نجات اللہ صدیقی کی زندگی کو سمجھنے والوں کے لیے ایک اہم ترین دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، آگے لکھتے ہیں:

’’جو لوگ مجھے قریب سے جانتے اور دیکھتے رہے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ ہر مرحلہ میں میرے لیے اصل کام اسلامی معاشیات کو سمجھنے سمجھانے، مرتب کرنے اور اس عمل کے لیے چند اور لوگوں کو منظم کرنے کا کام رہا ہے۔ معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے ملازمت اور اس کے تقاضے اس لیے پورے کیے گئے کہ وہی اصل کام کے لیے بنیاد فراہم کرتے تھے اور خدا کا شکر ہے کہ اکنامکس کا استاذ ہونے کی وجہ سے وہ اصل کام میں مددگار بھی ہوتے رہے۔۔۔‘‘ (حوالہ سابق: 319)

سعودی عرب قیام کے دوران ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اسلامی معاشیات کے حوالہ سے کئی طرح کی خدمات انجام دیں، اس سلسلہ میں انہوں نے ایک طرف انٹرنیشنل ایڈووکیسی کا کام انجام دیا، وہیں دوسری طرف عرب دنیا کی یونیورسٹیز میں اسلامی معاشیات کا سبجیکٹ متعارف کرانے کی پوری کوشش کی، بلکہ متعدد یونیورسٹیز میں اسلامی معاشیات کو داخل نصاب کرانے میں انہیں غیرمعمولی کامیابی بھی حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں جس پروجیکٹ پر وہ کام کررہے تھے اس کے اہم ترین پروگرامز کچھ اس طرح تھے:

علم معاشیات اور معاشی نظام کے حوالے سے تقریباً ڈیڑھ سو موضوعات پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا گیا اور اس کو دنیا بھر کے تین سو علماء اور ماہرین معاشیات کی خدمت میں ارسال کیا گیا کہ اگر وہ ان موضوعات پر تحقیقی مقالہ یا کتاب لکھیں۔ اس پر ان لوگوں کو معقول معاوضہ دینے، اور ان کے کام کی بڑے پیمانے پر اشاعت کی یقین دہانی بھی موجود تھی۔ ان مقالات اور کتابوں پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھی نظرثانی کرتے اور انہیں اکیڈمک معیار کے مطابق ایڈٹ کرکے شائع کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس سے اکیڈمیا میں اسلامی معاشیات کا موضوع نہ صرف متعارف ہوا، بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔

اس اسکیم سے تقریباً سو سے زائد وہ اسکالرس اور پروفیسرس وابستہ ہوئے جن کا تعلق امریکہ اور دوسرے ممالک کی یونیورسٹیز سے تھا۔

اس کے علاوہ ہر سال دو سال پر کانفرنس اور سیمینار منعقد کرتے، جن میں اسلامی معاشیات کے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔

ان کوششوں کے نتیجہ میں درجنوں یونیورسٹیز میں بی اے اور ایم اے میں اسلامی معاشیات کا سبجیکٹ پڑھایا جانے لگا۔

ریسرچ اسکالرس کی ایک بڑی تعداد نے پی ایچ ڈی کے لیے اسلامی معاشیات سے متعلق کسی نہ کسی موضوع کا انتخاب کیا۔

اسلامی معاشیات سے متعلق اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے باقاعدہ پروگرامز کیے گئے۔

اسلام آباد پاکستان میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کا قیام عمل میں آیا، ملیشیا اور بنگلہ دیش میں بھی اس سلسلہ کی اہم کوششیں ہوئیں۔

اس پروجیکٹ سے متعلق یہ تمام باتیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے خود قلم بند کی ہیں۔

جاوید اقبال صاحب کے نام اس خط کے آخر میں ہندوستان کی تحریک اسلامی سے وابستہ بہت سے افراد کے نامناسب رویے پر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا درد چھلک پڑتا ہے، وہ اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے صاف طور پر لکھتے ہیں:

’’میں جو آپ سے’’نشان راہ‘‘ اور ’’نیا نظام تعلیم‘‘ دوبارہ پڑھنے کو کہہ رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مذکورہ بالا کام اور اسلامی انقلاب کے در میان رشتہ سمجھ لیں، جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے دوست یہ خیال کر سکتے ہیں کہ میں یہاں دولت کمانے آیا ہوں۔جولوگ ایسا خیال کریں ان سے میرا کوئی شکوہ نہیں۔ والی اللہ المشتکی

میرا اللہ جانتا ہے کہ میں جس کام کے لیے ثانوی درس گاہ گیا تھا اسی کام کے لیے اس مرحلہ میں سعودی عرب آیا ہوں۔ میں اپنی محدود قوتیں اور اوقات عمر کے فرق کا لحاظ رکھتے ہوئے جس طرح وہاں صرف کرتا تھا اسی طرح یہاں اسی کام کے لیے صرف کررہا ہوں‘‘۔ (حوالہ سابق: 320-321)

(جاری)


شخصیات

(دسمبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter