قرآن / علوم القرآن

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(539) وأحضرت الأنفس الشح: درج ذیل آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض مترجمین نے نفس کا مائل ہونا ترجمہ کیا ہے۔ لیکن یہ ترجمہ لفظ ’أُحْضِرَتْ‘ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ نفس میں شامل ہوجانا اور رچ بس جانا اس کا صحیح مفہوم ہے۔ اسی طرح نیچے آپ دیکھیں گے کہ شحّ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی اس کے لیے خود غرضی کا لفظ تجویز کرتے ہیں۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ ۔(النساء: 128)۔ ’’نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)۔ ’’اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)۔ ’’طمع...

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(536) جدال کا معنی: عربی میں جدل اور جدال بحث و مباحثے کے لیے آتا ہے۔ خواہ یہ بحث و مباحثہ دلیل کی بنیاد پر ہو یا دلیل کے بغیر ہو۔ بحث و مباحثہ آگے بڑھ کرجھگڑے کی صورت اختیار کرلے یہ الگ بات ہے لیکن اس لفظ کا اصل معنی جھگڑا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف صیغوں میں متعدد بار آیا ہے۔ کہیں مثبت معنی میں ہے اور کہیں منفی معنی میں۔ جدال کا مثبت مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے ساتھ بات پیش کی جائے، منفی مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے بغیر کٹھ حجتی کی جائے۔ عربی میں لفظ خصومۃ اور لفظ جدال ہم معنی ہیں۔ قرآن میں بھی یہ دونوں ایک ہی مفہوم میں آئے...

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(527) مُخْتَالًا فَخُورًا کا ترجمہ: قرآن مجید میں تین جگہ مختال کا لفظ آیا ہے اور تینوں جگہ اس کے ساتھ فخور آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں کے درمیان اگر فرق سامنے رہے تودرست ترجمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی اور بعض دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اختیال کا مطلب ہے اترانا یعنی جسمانی حرکت سے اپنے تکبر کو ظاہر کرنا اور فخر کا مطلب ہے فخر جتانا اور شیخی بگھارنا یعنی زبان سے اپنے تکبر کا اظہار کرنا۔ اختیال فعل ہے اور فخر قول ہے۔ فخر اور اختیال کے استعمالات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ احادیث میں خیلاء کا لفظ آیا ہے، جنگ کے وقت اور صدقے کے وقت...

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(519) وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ کا مطلب: درج ذیل آیت میں تین باتیں غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کا الوالدان پر عطف ہے یا وہاں سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے جس کا وہ مبتدا ہے؟ دوسری بات یہ کہ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد کون لوگ ہیں جن کا شریعت میں حصہ ہے، جسے دینے کا اس آیت میں حکم ہے؟ تیسری بات یہ کہ فَآتُوہُمْ نَصِیبَہُمْ میں کن لوگوں کو ان کا حصہ دینے کی بات ہے؟ ھم ضمیر کا مرجع صرف وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ ہے یا آیت میں مذکور تینوں کے موالی یعنی وارثین...

متنِ قرآن کی حفاظت و استناد

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

قرآن کے متن کی حفاظت اور استناد سے متعلق گزشتہ دنوں جو بحث چھیڑی گئی، اس میں کسی دوست کی پوسٹ میں اختلافات قراءت کے حوالے سے یاسر قاضی صاحب کا یہ تبصرہ پڑھا کہ عمومی طور پر اہل علم کی طرف سے اس مسئلے کی جو تفہیم بیان کی جاتی ہے، اس میں کچھ خلا ہیں اور وہ آج کے تعلیم یافتہ اور تاریخی معلومات رکھنے والے ذہن کو مطمئن نہیں کرتی، اس لیے اس سوال کو بہتر انداز میں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بنیادی طور پر درست تجزیہ ہے، البتہ اس تجزیے کا معروض اصلاً‌ مروج دینی تعبیرات یا مواقف کو قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ جہاں تک اعلیٰ سطحی علمی روایت...

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(511) لَا یَتَنَاہَوْنَ کا ترجمہ: لغت کے لحاظ سے ’تناھی عن‘ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک کسی کام سے باز آنا اور دوسرا کسی کام سے ایک دوسرے کو منع کرنا۔ درج ذیل آیت میں دونوں طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ لیکن موخر الذکر معنی زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس لفظ کا زیادہ استعمال ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تناھی اور انتھی دو الفاظ ہیں، جن میں سے تناھی زیادہ تر ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے اور انتھی باز آنے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں باز آنے کے لیے انتھی کثرت کے ساتھ آیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں تناھی کا مطلب اگر باز...

قرآن کی سائنسی تفسیر

ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری

Baljon نے 1961ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب: 1880- 1960 Modern Muslim Koran Interpretation میں ایک حصہ قرآن کی سائنسی تفاسیر کے لیے خاص کیا ہے1۔تفسیر -خاص طور پر جدید دور میں – کے بارے میں بیسویں صدی کی ستر کی دھائی میں تین اور مصنفین- ذہبی، شرقاوی اور جانسن - کی سامنے آنے والے مرکزی تصانیف ، جو قرآن کی جدید تفسیر کے ساتھ خاص یا ان سے تعلق رکھتی ہیں، میں انھوں نے اس طرزِ تفسیر کے تجزیے اور وضاحت کے لیے ایک معتد بہ حصہ خاص کیا ہے2۔ یہ گفت گو انھی مطالعات کا تسلسل ہے۔ اس میں اس رجحان پر بات ہوگی اور کسی حد تک انھی موضوعات کا احاطہ ہوگا، جو دیگر اہلِ علم نے زیرِ بحث لائے ہیں؛...

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(500) القلائد کا ترجمہ: قلائد قلادۃ کی جمع ہے۔ اس کا مطلب وہ پٹّا ہے جو کسی کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ لسان العرب میں ہے: والقِلادَۃ: مَا جُعِل فِی العُنُق یَکُونُ للإنسان والفرسِ والکلبِ والبَدَنَۃِ الَّتِی تُہْدَی ونحوِہا. راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والْقِلَادَۃُ: المفتولۃ التی تجعل فی العنق من خیط وفضّۃ وغیرہما۔(المفردات فی غریب القرآن)۔ درج ذیل دو آیتوں میں دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ایک الْہَدْی ہے، جس کا مطلب قربانی کا جانور ہے۔ دوسرا لفظ الْقَلَائِد ہے، جس کا معنی گلے کے پٹے ہے۔ مترجمین نے الھدی کا ترجمہ تو قربانی کے جانور کیا، لیکن...

آپ فنِ تفسیر اور اصولِ تفسیر کیسے پڑھیں اور پڑھائیں!

مولانا محمد صدیق ابراہیم مظفری

بارہویں صدی ہجری کے اوساط میں دہلی کی فقید المثال شخصیت ملا نظام الدین بن ملا قطب الدین سہالوی متوفی ۱۶۱اھ رحمہ اللہ کی وساطت سے پاک و ہند میں علومِ اسلامیہ کی تعلیم و ترویج کا ایک نیا دور شروع ہوا کہ ملا صاحب نے مختلف علوم و فنون میں درجہ بدرجہ تعمیر و ترقی کے لئے ایک مستقل نصاب تعلیم ترتیب دیا، جس میں صرف، نحو، لغت اور استعدادی فنون کی تعلیم شروع کے درجات میں رکھی گئی، اور علومِ عالیہ یعنی عقیده، تفسیر، حدیث اور فقہ کی اعلیٰ تعلیم نصاب کے آخری مراحل میں طے پائی۔ ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ کا مرتب کردہ یہی نصابِ تعلیم بعد میں "درسِ نظامی"...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(490) وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ: وَوَاعَدْنَا مُوسَی ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً۔ (الاعراف: 142)۔ ”ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی“۔ (سید مودودی)۔ درج بالا ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ لیلۃ کا ترجمہ ایک بار ’شب و روز‘ اور اس کے بعد دو بار ’دن‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ لیلۃ سے یہاں مراد اگرچہ دن اور رات ملا کر پورا وقت ہے لیکن یہاں اصل رات ہے اور...

أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائل

ادھم شرقاوی

’’رسائل من القرآن‘‘ ادہم الشر قاوی کی تصنیف ہے جو کہ فلسطینی مصنف ہیں، لبنان کے شہر صور میں پیدا ہوئے، جامعہ لبنانیہ سے عربی ادب میں ایم فل کی سند حاصل کی ہے، مزید یہ کہ وہ اب تک 25 کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے 27 رمضان المبارک کو کمین الابرار یا کمین الزنہ میں دشمن کو ہدف نے بنانے کا منصوبہ بنانے کی ویڈیو نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ جائے نماز پر مجاہدین موجود ہیں اور اس پر دشمن کو نشانہ بنانے کا نقشہ بنا رہے ہیں، ہاتھ میں مسواک اور قلم اور ساتھ ایک کتاب موجود ہے جس کا نام رسائل من القرآن...

احکام القرآن،عصری تناظر میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الحمد للہ ۵ مارچ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن کریم کی سالانہ کلاس تکمیل پذیر ہوئی۔ یہ سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے جاری ہے اور کرونا کے دور میں کچھ وقفہ کے ساتھ یہ بارہویں کلاس تھی۔ ۱۰ فروری سے اس کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف حصوں سے فضلاء اور طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ ہمارے ہاں ترجمہ و تشریح کے ساتھ قرآن کریم سے متعلقہ دیگر ضروری معلومات بھی کورس کا حصہ ہوتی ہیں اور مختلف اساتذہ ان کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس سال کورس کے مضامین میں (۱) احکام القرآن عصری تناظر میں (۲) قرآنی جغرافیہ اور فلکیات (۳) قرآن پاک کے حوالے سے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(486) واذ قالت امۃ منہم لم تعظون قوما : اصحاب سبت کے واقعہ کے سلسلے میں جب درج ذیل تین آیتوں پر غور کریں تو تین سوالات سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں بنی اسرائیل کے کتنے گروہوں کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ عذاب کن گروہوں پر آیا اور تیسرا یہ کہ عذاب کتنی بار آیا۔ ان سوالوں کا جواب لوگوں نے ترجمے میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں: ۔۔۔ ”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(481) فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ کا ترجمہ۔ فعل أمکن کے دو مفعول آتے ہیں، ایک راست مفعول بہ ہوتا ہے اور دوسرے پر من لگتا ہے۔ أمکنت فلانًا من الصید میں نے فلاں کو شکار پر قابو دے دیا۔ درج ذیل آیت میں فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ میں مفعول بہ کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ و تفسیر کرتے ہوئے عام طور سے لوگوں نے مفعول بہ کو محذوف مانا ہے۔ یعنی فَأَمْکَنَکَ مِنْہُمْ۔ اس کے مطابق ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انھیں تمہارے قابو میں دے دیا۔ عام طور سے اہل لغت نے یہ لکھا ہے کہ یہ فعل مفعول بہ اور جار مجرور (منہ) کے ساتھ آتا ہے۔ مَکَّنْتُہ من الشیءِ، وأمْکَنْتُہ منہ (القاموس...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(471) المتقین کا ترجمہ: درج ذیل دونوں آیتوں میں متقین کا ترجمہ صاحب تدبر نے ’نقض عہد سے بچنے والوں‘ کیا ہے۔ یہ ترجمہ موزوں نہیں ہے۔ متقی قرآن کی معروف اصطلاح ہے۔ تقوی اختیار کرنے یعنی اللہ کی ناراضگی سے بچنے والے کو متقی کہتے ہیں۔ عہد کی پاس داری کرنا اور عہد شکنی سے بچنا تقوی کا ایک تقاضا تو ہے لیکن تقوی کااصل مفہوم عہد شکنی نہیں ہے۔ تقوی کا یہ تقاضا تفسیر میں بتایا جاسکتا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو: (۱) فَأَتِمُّوا إِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ۔ (التوبۃ: 4)۔ ”سو ان کے معاہدے ان کی قرار دادہ مدت تک...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(464) إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا: إِذَا فجائیہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد والی بات اس سے پہلے والی بات کے فورًا بعد پیش آئے۔ البتہ اس بات میں تحیر کا پہلو غالب رہتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھی إِذَا کا ترجمہ ’فورًا‘ موزوں نہیں ہوگا۔ یعنی یہ بات تو حیرت انگیز طور پر افسوس ناک ہے کہ لوگ تکلیف سے نجات پاکر جب اللہ کی رحمت سے ہم کنار ہوتے ہیں تو شکر گزار بننے کی بجائے اللہ کی آیتوں میں چال بازیاں شروع کردیتے ہیں۔ لیکن یہ بات اس لفظ میں شامل نہیں ہے کہ وہ یہ کام فوراً کرتے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں: وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً‌...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(455) کفرہ اور کفر بہ میں فرق: قرآن مجید میں کفر بہ تو کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اکثر جگہوں پر انکار کے معنی میں اور کہیں کہیں ناشکری کے معنی میں۔ جب کہ کفرہ چند مقامات پر آیا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق کا ذکر ہمیں عام طور سے نہیں ملتا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کفرہ اور کفر بہ کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کفر کے بعد اگر باء نہ ہو تو کفر انکار کا معنی نہیں بلکہ ناشکری کا معنی دیتا ہے۔ حدیث میں لتکفرن العشیر ناشکری کے معنی میں آیا ہے۔ قرآن کی درج ذیل آیت میں عام طور سے کفر کا ترجمہ ناشکری کیا گیا ہے، کیوں کہ واضح طور پر شکر کے سیاق میں بات ہورہی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(440) أُوفِی الْکَیْلَ: أَلَا تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ۔(یوسف: 59)۔ ”کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں“۔ (احمد رضا خان)۔ ”کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)۔ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)۔ ”کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ میں سامان کی ناپ تول بھی برابر رکھتا ہوں“۔ (ذیشان جوادی)۔ ”دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں“۔ (سید مودودی)۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ درج بالا آیت میں أُوفِی الْکَیْلَ سے ناپ تول میں کمی نہیں کرنا اور پورا ناپ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(431) شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا: شھد شاھد کا ترجمہ کچھ لوگوں نے فیصلہ کرنا اور زیادہ تر لوگوں نے گواہی دینا کیا ہے۔ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا۔ (یوسف: 26)۔ ”اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)۔ ”اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی“۔ (سید مودودی)۔ ”اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی“۔ (احمد رضا خان)۔ ”اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی“۔ (محمد جوناگڑھی)۔ شھد کے معنی فیصلہ کرنے کے نہیں آتے، گواہی دینے کے آتے ہیں لیکن اس شخص نے مشاہدہ نہیں کیا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(423) وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کا ترجمہ: درج ذیل آیت میں بعض لوگوں نے وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ گویا وہ اسے حال مان رہے ہوں۔ ایسی صورت میں یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جن پر اللہ صواعق بھیجتا ہے وہ اللہ کے بارے میں جدال میں مصروف ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ بجلیاں تو کسی پر بھی کسی بھی حالت میں گرسکتی ہیں۔ صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کو حال نہیں بلکہ نیا جملہ ماننا ہوگا۔ یعنی اللہ تعالی نے اپنی قدرت کے کرشموں کا ذکر کرنے کے بعد یہ بات کہی کہ ایک طرف اللہ کی قدرت کے یہ زبردست...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(418) فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ: یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔ (ابراہیم: 27)۔ ”ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے“۔ (سید مودودی، القول کا ترجمہ ’ایک‘ قول نہیں ہوگا، قول ثابت ترجمہ کیا جائے گا)۔ ”اللہ تعالی ایمان والوں کو اس پکی بات (یعنی کلمہ طیبہ کی برکت) سے دنیا اور آخرت میں مضبوط رکھتا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)۔ ”اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے“۔...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(416) بلاء کا ترجمہ قرآن مجید میں ب ل و کے مادے سے مشتق ہونے والے بہت سے صیغے آئے ہیں، یہاں خاص لفظ بلاء کے مفہوم پر گفتگو مقصود ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جہاں بھی آیا ہے وہاں انعامات کا تذکرہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں آزمائش کا بھی ذکر ہے، لیکن اصل سیاق آزمائشوں کے بیان کا نہیں بلکہ آزمائشوں کے حوالے سے انعامات کے بیان کا ہے۔ زیادہ تر یہ لفظ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے بچانے کے حوالے سے آیا ہے۔ایسی ہر جگہ ظلم کو فرعون کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور بلاء کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اس لیے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے کہ فرعون کے ظلم کو اللہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(409) وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ: سورۃ الحجر کی درج ذیل آیتوں میں زَیَّنَّاہَا اور حَفِظْنَاہَا دونوں ہی میں مفعول بہ ضمیر ’ھا‘ کی صورت میں ہے۔ نحوی لحاظ سے اس ضمیر کا مرجع السماء بھی ہوسکتا ہے اور بروجاً بھی۔ اول الذکر صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آسمان کو مزین کیا اور آسمان کو شیطانوں سے محفوظ کیا، جب کہ ثانی الذکر صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ برجوں کو مزین اور شیطانوں سے محفوظ کیا۔ سورۃ الصافات میں صراحت کردی گئی ہے کہ مزین و محفوظ آسمان کو کیا ہے: إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِینَۃٍ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(405) طیِّب کا ترجمہ: طیب اور خبیث ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ طیب کے معنی پاک کے بھی ہیں اور عمدہ و خوش گوار کے بھی ہیں۔ اہل لغت طاب کا معنی لذّ و زکا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی لذیذ اور پاکیزہ۔ اس لفظ میں وسعت پائی جاتی ہے۔ ابن منظور رقم طراز ہیں: أَرضٌ طَیِّبة اس زمین کو کہتے ہیں جو زراعت کے لیے سازگار ہو۔ رِیحٌ طَیِّبَةٌ اس ہوا کو کہتے ہیں جو نرم ہو شدید نہ ہو۔ طُعْمة طَیِّبة حلال لقمے کو کہتے ہیں۔ امرأَةٌ طَیِّبة عفیف وپاک دامن خاتون کو کہتے ہیں۔ کلمةٌ طَیِّبة ایسی بات کو کہتے ہیں جس میں کوئی ناپسندیدہ امر نہ ہو۔ بَلْدَة طَیِّبة اس بستی کو کہتے ہیں جو خوش...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(400) لَنُبَوِّئَنَّہُمْ کا ترجمہ: درج ذیل دو آیتوں کے ترجموں میں کچھ قابل توجہ امور ہیں۔ وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا فِی اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔ (النحل:41-42)۔ پہلا ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی بعد اس کے کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، ہم ان کو دنیا میں بھی اچھی طرح متمکن کردیں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش وہ جانیں۔ (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) جنھوں نے استقامت...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(398) تنزیلا کا ترجمہ: قرآن مجید میں کتابیں نازل کرنے کے لیے باب تفعیل سے تنزیل اور باب افعال سے انزال، دونوں ہی تعبیریں آئی ہیں۔ کیا ان دونوں میں فرق ہے یا یہ مترادف اور ہم معنی ہیں؟ زمخشری نے ان دونوں کے درمیان فرق یہ کیا ہے کہ تنزیل تھوڑا تھوڑا کرکے قسطوں میں نازل کرنے کے لیے ہے جب کہ انزال یک بارگی نازل کرنے کے لیے ہے۔ درج ذیل دونوں آیتوں کے تحت وہ اس فرق پر زور دیتے ہیں: نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ۔(آل عمران: 3)۔ ”اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

استمع کا معنی کان لگا کر غور سے سننا ہے۔یہ عام طور سے کسی صلے کے بغیر راست مفعول بہ کے ساتھ آتاہے۔ جیسے: یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ (الاحقاف: 29)یا پھر کبھی لام آتا ہے، جیسے: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ (الاعراف: 204) یہ لام تاکید کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں یستمعون کے ساتھ بہ آیا ہے۔ اس لیے یہاں سننے کی غرض مراد ہے۔ معنوی لحاظ سے بھی یہ بات تو قابل ذکر نہیں ہے کہ وہ کیا سنتے ہیں، ظاہر ہے جو کلام سنایا جارہا ہے وہی سنتے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ خود کان لگاکر توجہ سے سنتے ہیں۔ قابل ذکر بات دراصل یہ ہے کہ وہ کس غرض سے سنتے ہیں۔ بتایا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(383) لیل اور لیلة میں فرق: لیلة ایک رات کے لیے جب کہ لیل رات کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں لَیْلًا ہے جس کا ترجمہ ایک رات نہیں بلکہ راتوں رات کیا جائے گا۔ سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ۔ (الاسراء: 1) ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی ایک شب مسجد حرام سے اس دور والی مسجد تک جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی“۔ (امین احسن اصلاحی) ”پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے“۔ (سید مودودی)...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(374) موعد کا ترجمہ۔ موعد، وعد سے مشتق ہے، لیکن اس میں ہمیشہ وعدے کا مفہوم نہیں ہوتا ہے، کبھی موعد صرف وقت مقررہ کے لیے بھی آتا ہے۔ درج ذیل آیتوں میں موعد وقت مقررہ کے معنی میں ہے نہ کہ وعدہ کیے ہوئے وقت کے معنی میں: (۱) بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّنْ نَجْعَلَ لَکُمْ مَوْعِدًا. (الکہف: 48) ”بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے لیے کوئی وعدہ کا وقت نہ رکھیں گے“۔ (احمد رضا خان) ”بلکہ تم نے گمان کیا کہ ہم تمہارے حساب کے لیے کوئی یوم موعود نہیں مقرر کریں گے“۔ (امین احسن اصلاحی) ”لیکن تم تو اسی خیال میں رہے کہ ہم ہرگز تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر کریں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(366) لِیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِنْ لَدُنْہُ۔ لِیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِنْ لَدُنْہُ۔(الکہف: 2)۔ ”تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)۔ ”تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے“۔ (امین احسن اصلاحی)۔ ان دونوں ترجموں میں لِیُنْذِرَ کا فاعل اللہ تعالی کو مانا گیا ہے۔ قرآن مجید کے استعمالات دیکھیں تو یہ کام ہر جگہ رسول اور کتاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ صحیح توجیہ یہ لگتی ہے کہ لِیُنْذِرَ کا فاعل پیچھے مذکور عبد یا کتاب ہے، اور لَدُنْہُ کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مزید یہ کہ لَدُنْہُ کا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(359) وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا۔ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا۔ (مریم: 46)۔ ”تم مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور اور دفع ہو!“۔ (امین احسن اصلاحی)۔ ”جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ“۔ (محمد جوناگڑھی)۔ ”بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا“۔ (سید مودودی)۔ عام طور سے لوگوں نے ملیا کو زمانا (محذوف) کی صفت مانا ہے۔ لیکن لفظی ترکیب سے قریب تر یہ ہے کہ ملیا کو ھجر کی صفت مانا جائے جو مفعول مطلق ہے۔اس صورت میں ھجر کی طوالت کا نہیں بلکہ اس کی شدت و زیادتی کا اظہار ہے۔ یعنی پورے طور پر دور ہوجاؤ یا بالکل دور ہوجاؤ۔ ابن عاشور لکھتے ہیں: وہذہ المادۃ تدل علی کثرۃ الشیء.(تفسیر التحریر...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(353) وَلَمْ أَکُنْ کا ترجمہ: وَلَمْ أَکُنْ بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیًّا۔(مریم: 4) ”لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا“۔ (محمد جوناگڑھی) ”اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا“۔ (فتح محمد جالندھری) درج بالا آیت میں لَمْ أَکُنْ کو عام طور سے ماضی کے معنی میں لیا گیا ہے۔ یعنی اس سے پہلے میں کبھی دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ اس کا حال کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور وہ زیادہ مناسب ہے۔ یعنی مجھے یقین ہے کہ میری دعا رد نہیں کی جائے گی۔ لم أکن جس طرح ماضی کے لیے آتا ہے اسی طرح حال...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(346) الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی۔ تَنْزِیلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَی۔ الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی۔(طہ: 4، 5) ”یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اس ذات کی طرف سے اتارا گیا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ جو رحمان عرش حکومت پر متمکن ہے“۔ (امین احسن اصلاحی) اس ترجمے میں ’جو رحمان‘ درست نہیں ہے۔ یا تو کہیں ’جو رحمان ہے‘، یا کہیں ’رحمان جو۔۔۔‘ کیوں کہ رحمان تو صرف خدا کی ذات ہے، ایک سے زیادہ رحمان تو ہیں نہیں۔ یہاں خالق کی صفت بتائی گئی ہے کہ وہ رحمن ہے اور دوسری صفت یہ بتائی گئی کہ وہ عرش پر...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(342) بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ۔ درج ذیل آیت میں بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ کا مندرجہ ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ فَلْیَأْتِنَا بِآیَۃٍ کَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ۔ (الانبیاء: 5)۔ ”وہ کہتے ہیں: بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے“۔ (سید مودودی)۔ "They say: Nay, these are confused dreams; nay, he has forged it; nay, he is a poet. So let him bring us a sign, even as the Messengers of the past were sent with signs."...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(336) فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ: درج ذیل آیت کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کا اثر ترجموں میں بھی نظر آتا ہے۔ وَذَا النُّونِ إِذ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ۔ (الانبیاء: 87) ”اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصے سے لڑکر پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے“۔ (شاہ عبدالقادر) ”اور مچھلی والے پیغمبر (یعنی یونس علیہ السلام) کا تذکرہ کیجیے، جب وہ اپنی قوم سے خفا ہوکر چل دیے اور انھوں نے یہ سمجھا کہ ہم ان پر اس چلے جانے میں کوئی دار و گیر نہ کریں گے“۔ (اشرف علی تھانوی، دار و گیر کرنا...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(324) عَمَّا أَرْضَعَتْ کا ترجمہ۔ درج ذیل جملے میں عَمَّا أَرْضَعَتْ کا ترجمہ ’اپنے دودھ پیتے بچے‘ کیا گیا ہے، لیکن اس نکتے کی طرف عام طور سے دھیان نہیں گیا کہ أَرْضَعَتْ فعل ماضی ہے مضارع نہیں ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ماضی کا ہونا چاہیے: یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ.(الحج: 2) ”جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی“۔ (سید مودودی) ”جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی“۔ (احمد رضا خان) ”جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(318) ایواء کا مطلب۔ آوی یؤوی ایواء کا اصل مطلب ٹھکانا فراہم کرنا ہوتا ہے۔ البتہ جب کسی دشمن یا کسی خطرے سے بچاؤ کا موقع ہو تو پناہ دینا بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوجاتاہے۔ اس لیے اگر موقع پناہ کا نہیں ہو تو ایواء کا ترجمہ ’ٹھکانا دینا‘کیا جائے گا۔ اس حوالے سے درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے: (۱) وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیة وَآوَیْنَاہُمَا إِلَیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ۔(المومنون: 50)۔ اس آیت میں آوَیْنَاہُمَا کہہ کر ٹھکانا فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ پناہ دینے کی۔ اس آیت میں اس انتظام کی طرف اشارہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(306) فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاءِ۔ درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: لَّوْلَا جَاءُ وا عَلَیْهِ بِأَرْبَعةِ شُہَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاءِ فَأُولَٰئِکَ عِندَ اللَّہِ ہُمُ الْکَاذِبُونَ۔ (النور: 13)۔ ”آخر یہ لوگ اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ کیوں نہ لائے؟ تو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو لازما اللہ کے نزدیک یہی لوگ جھوٹے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)۔ ”اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں“۔ (احمد رضا خان)۔ ان ترجموں سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ کے نزدیک ان کے جھوٹے ہونے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(298) ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ۔ تذکیر کا مطلب یاد دلانا ہوتا ہے، یہ یاد دہانی سمع اور بصر دونوں راستوں سے ہوسکتی ہے، کتابِ وحی کی آیتوں کو سنا کر بھی اور کتابِ کائنات کی نشانیوں کو دکھا کر بھی۔ درج ذیل آیت میں تذکیر اپنے اسی وسیع مفہوم میں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے صُمًّا وَعُمْیَانًا آیا ہے۔ صم کا مطلب بہرے اور عمیان کا مطلب اندھے ہے۔ سنائی جانے والی تذکیر یعنی آیاتِ وحی کی تکذیب کرنے پر بہرے کہا گیا اور دکھائی جانے والی تذکیر یعنی کائنات کی نشانیوں کا انکار کرنے پر اندھا کہا گیا۔ بعض لوگوں نے تذکیر کا ترجمہ سنانا کیا ہے جو موزوں نہیں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(291) استثناء منقطع کی ایک مثال: سورۃ الشعراء کی درج ذیل آیتوں میں جن دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے، انھیں عام طور سے شعرا کے دو گروہ مان کر تفسیر کی گئی ہے اور اسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہوئے الّا کا ترجمہ استثناء متصل والا کیا گیا ہے۔اس ترجمہ و تفسیر کے مطابق ان آیتوں میں عام شعرا کی مذمت کی گئی ہے اور ایمان والے شعرا کو ان سے مستثنی کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ شعرا کے دو گروہوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ متبعین کے دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک گروہ شاعروں کے متبعین کا ہے اور دوسرا گروہ ایمان لانے والوں یعنی اللہ کے رسول کے متبعین کا ہے۔...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(285) تِسْعَةُ رَہْطٍ کا ترجمہ۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں تِسْعَة رَہْطٍ آیا ہے۔ رھط اور نفر قریب قریب ہم معنی الفاظ ہیں۔ بخاری اور مسلم میں مذکور حدیث میں بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کے واقعہ میں ثلاثة نفر کے الفاظ آئے ہیں، جس کا مطلب تین آدمی ہے، اسی طرح تِسْعَة رَہْطٍ کا مطلب نو آدمی ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے تِسْعَة رَہْطٍ کا مطلب نو گروہ یا نو خاندان مان کر ترجمہ کیا۔ یہ درست نہیں ہے۔ وَکَانَ فِی الْمَدِینَةِ تِسْعَةُ رَہْطٍ یُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ۔(النمل: 48)۔ ”اُس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(280) خاطؤون کا ترجمہ۔ خطأ کے معنی غلطی کے ہوتے ہیں، ایک فیصلے اور تدبیر کی غلطی ہوتی ہے جسے چوک کہا جاتا ہے۔ اور ایک گناہ اور جرم والی غلطی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں چوک ہوجانے کے لیے باب افعال سے أخطأ آیا ہے۔ جیسے وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ (الاحزاب: 5) ”تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں“۔(محمد جوناگڑھی) قرآن مجید میں لفظ خطأ ثلاثی مجرد سے اسم فاعل جمع مذکر کی صورت میں پانچ جگہ آیا ہے۔ چار جگہ لوگوں نے خطاکار اور گناہ گار ترجمہ کیا ہے، جب کہ پانچویں جگہ...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(273) أَن یَقُولُوا آمَنَّا۔ درج ذیل آیت کا ترجمہ دیکھیں: أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ۔ (العنکبوت: 2) ”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟“۔ (سید مودودی) ”کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی“۔ (احمد رضا خان) ”کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(266) وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا: وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِی اََمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُو عِندَ اللَّہِ وَمَا آتَیْتُم مِّن زَکَاۃٍ تُرِیدُونَ وَجْهَ اللَّہِ فَاَُولَئِکَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ۔ (الروم: 39)۔ ’’جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)۔ ’’اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا کے نزدیک اس میں افزائش نہیں...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(263) اف کا ترجمہ۔ عربی میں لفظ اف دراصل منھ سے نکلنے والی ایک آواز ہے، جس سے کسی چیز یا بات سے بیزاری اور ناگواری کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر زبان میں اس طرح کے الفاظ ہوتے ہیں۔ زمخشری کے بقول: اُفٍّ صوت اذا صوّت بہ علم انّ صاحبہ متضجر (الکشاف)۔ سورة الاسراءآیت 23 کا ترجمہ کرتے ہوئے تمام لوگوں نے اف کا ترجمہ اف کیا ہے۔ لیکن دوسری دو آیتوں میں اس کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے تف کیا ہے۔ تف کا لفظ اف کے مقابلے میں بہت زیادہ سخت ہے اور اس کی معنوی جہت دوسری ہے۔ عربی میں یہ لفظ تھوک کے معنی میں آتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ہیں: تھوک، لعنت، ملامت، کلمہ نفریں (فرہنگ آصفیہ)۔...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(259) سلفًا اور آخِرین کا ترجمہ۔ فَجَعَلنَاہُم سَلَفاً وَمَثَلاً لِلآخِرِینَ ۔ (سورة الزخرف: 56)۔ ”اور ان کو ماضی کی ایک داستان اور دوسروں کے لیے ایک نمونہ عبرت بنادیا“۔ (امین احسن اصلاحی)۔ خ پر زبر کے ساتھ آخَر کا مطلب ہے: دوسرا، جب کہ خ کے نیچے زیر والے آخِر کا مطلب ہوتا ہے: پچھلا یا بعد والا۔ عام طور سے حضرات مترجمین نے اس کا لحاظ کیا ہے۔ البتہ مذکورہ بالا آیت میں صاحب تدبر نے آخِرین کا ترجمہ دوسروں کردیا ہے جو غلط ہے۔ دیگر مترجمین نے درست ترجمہ کیا ہے خود صاحب تدبر نے دوسرے مقامات پر اس لفظ کا درست ترجمہ کیا ہے۔ سلف کا مطلب عام طور سے ماضی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

درج ذیل آیت کے ترجموں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھیں گے کہ کسی قول کے قائل کے تعین میں غلطی ہونے سے مفہوم اور اس سے نکلنے والے نتائج پر کتنا اثر پڑتا ہے؟ اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَةِ وَہُوَ فِی الخِصَامِ غَیرُ مُبِینٍ کو عام طور سے لوگوں نے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور پھر اس سے مختلف نتائج برآمد کیے ہیں، جیسے یہ کہ عورتیں ناقص جمال والی ہوتی ہیں اس لیے زیورات کے ذریعے ان کے اس نقص کو پورا کیا جاتا ہے، عورتیں ناقص عقل اور ناقص بیان والی ہوتی ہیں اسی لیے وہ بحث میں اپنی بات وضاحت سے اور دلیل کے ساتھ رکھ نہیں پاتی ہیں۔ عورتوں کے سلسلے میں ایسی...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(248) ائتِیَا کا ترجمہ: ثُمَّ استَوَیٰ اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَان فَقَالَ لَہَا وَلِلاَرضِ ائتِیَا طَوعًا اَو کَرہًا قَالَتَا اَتَینَا طَائِعِینَ۔ (فصلت:11)- ”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا ”وجود میں آ جاو، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو“ دونوں نے کہا:ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح“۔ (سید مودودی، جب وجود ہی نہیں تھا تو حکم کیسے دیا جائے گا؟)- ”پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ اس وقت دھوئیں کی شکل میں تھا، پس اس کو اور زمین کو حکم دیا کہ تم ہمارے احکام کی تعمیل کرو طوعا یا کرہا۔ وہ بولے...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(243) وَمَا کُنتُم تَستَتِرُونَ کا ترجمہ۔ وَمَا کُنتُم تَستَتِرُونَ اَن یَشہَدَ عَلَیکُم سَمعُکُم وَلَا اَبصَارُکُم وَلَا جُلُودُکُمَ۔ (فصلت :22)۔ اس آیت کے حسب ذیل ترجمے کیے گئے ہیں: ”تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی“۔ (سید مودودی)۔ ”اور تم اس سے کہاں چھپ کر جاتے کہ تم پر گواہی دیں تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں“۔ (احمد رضا خان، گواہی سے بچنے کے لیے کہیں چھپ کر جانے کی بات یہاں نہیں ہے)۔ ”اور تم اس (بات کے خوف)...

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(234) السیئات کا ترجمہ۔ سیئات اصل میں صفت ہے اس کا موصوف اگر اعمال ہوں تو برائیاں مراد ہوتی ہیں، اور اگر احوال ہوں تو بدحالیاں مراد ہوتی ہیں، درج ذیل آیت میں حسنات سے خوش حالیاں اور سیئات سے بدحالیاں مراد ہیں: وَقَطَّعنَاہُم فِی الاَرضِ اُمَماً مِّنہُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنہُم دُونَ ذَلِکَ وَبَلَونَاہُم بِالحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّہُم یَرجِعُون۔ (الاعراف: 168)۔ ”اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں“۔ (محمد جوناگڑھی)۔ جب کہ آگے درج کی گئی آیت میں بہت سے لوگوں نے سیئات کا ترجمہ برائیاں یا گناہوں کے...
1-0 (0)
Flag Counter