Baljon نے 1961ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب: 1880- 1960 Modern Muslim Koran Interpretation میں ایک حصہ قرآن کی سائنسی تفاسیر کے لیے خاص کیا ہے1۔تفسیر -خاص طور پر جدید دور میں – کے بارے میں بیسویں صدی کی ستر کی دھائی میں تین اور مصنفین- ذہبی، شرقاوی اور جانسن - کی سامنے آنے والے مرکزی تصانیف ، جو قرآن کی جدید تفسیر کے ساتھ خاص یا ان سے تعلق رکھتی ہیں، میں انھوں نے اس طرزِ تفسیر کے تجزیے اور وضاحت کے لیے ایک معتد بہ حصہ خاص کیا ہے2۔ یہ گفت گو انھی مطالعات کا تسلسل ہے۔ اس میں اس رجحان پر بات ہوگی اور کسی حد تک انھی موضوعات کا احاطہ ہوگا، جو دیگر اہلِ علم نے زیرِ بحث لائے ہیں؛ تاہم اس رجحان کا یہ مطالعہ گذشتہ صدی کے آخری چوتھائی حصے پر عمومی طور پر روشنی ڈالے گا۔ مصنف کی عربی، انگریزی اور اردو زبانوں سے شناسائی کے باعث یہ مطالعہ انھی زبانوں میں لکھی گئی تصانیف تک محدود ہوگا اور عرب ، جنوبی ایشیا اور انگریزی دنیا کا جائزہ لے گا۔
(1)
اٹھارویں صدی مسلمانوں اور اہلِ یورپ کے مابین کشمکش کے باب میں حدِ فاصل ہے۔ 1798ء میں مصر پر فرانسیسی قبضہ ان ممالک کے درمیان طاقت کے بدلتے توازن کا نقطۂ عروج تھا۔ اس صدی کے دوران میں مسلمانوں کو اہلِ یورپ کے ساتھ تعامل کا ایک بڑا موقع ہاتھ آیا۔ یہ تعامل زیادہ تران کی اپنی سرزمینوں پر پیش آیا جہاں ان کا سامنا یورپی فوجیوں، سائنس دانوں، اطبا، انجینئروں، تاجروں اور اہلِ انتظام سے ہوا، تاہم یورپ کے بعض حصوں میں بھی ان کے ساتھ تعامل ہوا جہاں ان کے طرزِ زندگی، اداروں اور رویوں کے بارے میں ان کی سوچ کی تشکیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف اگر مغربی تہذیب کے کئی ایسے پہلو تھے جنھوں نے مسلمانوں کا غصہ بھڑکایا تو دوسری طرف اس کے متعدد پہلو ایسے بھی تھے جن کی انھوں نے اپنے معاشروں میں پائے جانے والے امور سے زیادہ مدح و ستائش کی۔ یورپی جدیدیت کے پہلوؤں میں سے جس پہلو کو عام طور پر زیادہ پسند کیا گیا- اور جسے مسلمانوں نے اہلِ یورپ کی ترقی اور قوت کا سب سے بڑا عنصر بھی سمجھا – وہ ان کی غیرمعمولی ترقی تھی جو انھوں نے علم ، خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی ، کے میدان میں کی3۔
مرورِ وقت کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد جدید یورپی علم، خصوصاً طبعی علوم اور ٹیکنالوجی، کی ضرورت کے ادراک کے لیے اٹھی4۔ یہ ضرورت فکری اور عملی ضرورتوں کے تحت محسوس کی گئی۔ فکری اعتبارات سے قطعِ نظر، عملی پہلو سے علمِ جدید کا حصول مسلمانوں کے لیے واحد راستہ نظر آیا جو بڑھتی ہوئی عسکری کم زوری، معاشی بدحالی اور پس ماندگی کا مداوا ہو سکتا تھا۔ انیسویں صدی کے دوران میں مسلمانوں میں جدید یورپی علم کے نفع بخش پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کا احساس بڑھتا گیا۔ کئی مسلم حکم رانوں نیز مفکرین کو شدت سے اس ضرورت کا احساس ہوا۔محمود ثانی( م 1839ء) ، محمد علی پاشا(م 1849ء)، خیرالدین تیونسی (م 1889ء)، رِفاعہ الطَہطاوی (م 1871ء)، جمال الدین افغانی(م 1897ء)، محمد عَبْدُہُ (م 1905ء) اور سرسید احمدخان (م 1898ء) نے ان علوم کے حصول کی صدا بلند کی۔ جن کے پاس سیاسی قوت تھی اور عملی سطح پر انھوں نے احوال کو بہتر بنانا چاہا – جن میں سے بعض یورپ کے خیالات اور اداروں سے متاثر تھے – انھوں نے تبدیلی کا کام شروع کر دیا۔
ہماری راے میں، قرآن کی سائنسی تفسیر کے مظہر کا آغاز ،مسلمانوں کو طبعی علوم کے حصول کے لیے مہمیز دینے کے علم کے طور پر شروع ہوا۔ یہ استدلال پیش کیا گیا کہ مسلمانوں سے ایسا کرنے کا مطالبہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہے، اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور یہ بہت قابلِ ستائش کام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس موضوع کے ساتھ نئے موضوعات اور دلائل جمع کیے گئے، جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔ ان میں سے اہم ترین بات یہ تھی کہ قرآن (اور حدیث) میں ایسی متعدد سائنسی صداقتیں موجود ہیں، جن کا انکشاف نزولِ قرآن سے بہت بعد میں ، موجودہ دور ہی میں ہو سکا ہے۔ جن قرآنی آیات میں اس طرح کی سائنسی صداقتوں کا وجود سمجھا گیا، انھیں بڑی قوت کے ساتھ قرآنی کی اعجازی حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس استدلال میں یہ بات شامل تھی کہ قرآنِ کریم تخلیقِ کائنات کے بارے میں بنیادی حقائق، بلکہ سائنسی حقائق اور قوانین کے ایک بڑے ذخیرے، جیسے بگ بینگ تھیوری (Big Bang) پر مشتمل ہے۔ یہ باتیں اس حقیقت کے اثبات کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قرآن، محدود انسانی علم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے غیرمحدود علم پر مشتمل ہے۔ ان امور کی روشنی میں اب کئی مسلمان اہلِ علم کی طرف سے یہ بات کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ قرآن نہ صرف علمِ خداوندی، حیات بعدالموت اور ان اصولوں پر مشتمل قابلِ اعتماد مصدر ہے جن پر انسانی طرزِ عمل کو استوار ہونا چاہیے، بلکہ وہ سائنسی علم کا بھی ایک قابلِ اعتماد مرجع ہے5۔
گذشتہ چودہ صدیوں میں تفسیرِ قرآن کے پیچھے یہ عنصر کارفرما رہا ہے کہ اس میں انسان کے لیے ہدایت کا سامان ہے تاکہ وہ موجودہ دنیا اور آخرت میں ایک اچھی زندگی گزار سکے۔ اس کا سب سے پہلا مطالبہ ایمان کا ہے جو اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ اس ایمان کے اجزا کی تفصیلی وضاحت کرے۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کا عمل تقویٰ پر مبنی ہو۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آیت ’’إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات‘‘ کی توضیح پورے قرآن میں کی گئی ہے، اس لیے یہ کہنا شاید غلط نہیں ہو گا کہ جس مرکزی بات کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے، وہ صراطِ مستقیم کی توضیح ہے جو ایمان اور عملِ صالح کا جامع ہے6۔
مسلمان ہمیشہ یہ بات سمجھتے رہے ہیں کہ قرآن انسان کی اس بنیادی ضرورت کے ضروری علم پر مشتمل ہے، تاہم انھوں نے بمشکل ہی اس کو تمام میدانوں کے لیے تفصیلی علم کا مصدر سمجھا ہے۔ جو لوگ اس نظریے کی طرف میلان رکھتے ہیں یا انھیں اس کا قائل سمجھا گیا ہے کہ قرآن میں ہر چیز بشمول سائنس کا علم ہے، معدودے چند رہے ہیں اور انھیں متعین کرنا ممکن ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے کہ ان کا رویہ جمہور مسلمان اہلِ علم سے منحرف رہا ہے۔محمد حسین الذہبی، جنھوں نے قرآن کی سائنسی تفسیر کی بنیادیں ابتدائی عہد کی مسلم فکری روایت میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس حوالے سے صرف یہ نام پیش کر سکے ہیں: غزالیؒ، جلال الدین سیوطیؒ اور ابوالفضل المُرسی7۔اس طرح کے اہلِ علم کے جو اقوال ملتے ہیں -جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ قرآن مخصوص سائنسی معلومات کا مصدر ہے- مبہم سے ہیں اور ان کا اسلوب یقینی نہیں ہے8۔
(2)
سائنسی تفسیر کا رجحان انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے کچھ مسلمان اہلِ علم کی تحریروں میں نمایاں یا کسی حد تک ممتاز ہوا ہے۔ان میں سے ایک مصری طبیب محمد بن احمد الاسکندرانی ہیں جنھوں نے 1880ء میں قاہرہ سے ایک کتاب ’’كشف الأسرار عن النورانيۃ القرآنيۃ فيما يتعلق بالأجرام السماويۃ والأرضيۃ‘‘ اور ایک دوسری کتاب 1883ء میں استنبول سے شائع کی۔اس کتاب کا عنوان’’تبيان الأسرار الربانيۃ في النبات والمعادن والخواص الحيوانيۃ‘‘ تھا۔ان دونوں کتابوں میں مصنف نے طبعی علوم سے متعلق بعض سوالات کی تشریح ان قرآنی آیات کی روشنی میں کی ہے جو مصنف کو سوالات کے جواب کے سلسلے میں مفید مطلب معلوم ہوئیں۔ مصر میں اس رجحان کی ترجمانی احمد مختار الغازلی (مصنف’’رياض المختار‘‘) ، طبیب عبداللہ فکری باشا، محمد توفیق صدقی (م1920ء، مصنفِ کتاب’’الدين في نظر العقل الصحيح‘‘، قاہرہ 1323ھ) اور عبدالعزیز اسماعیل، (مصنفِ کتاب’’الإسلام والطب الحديث‘‘، قاہرہ 1938ء) نے کی۔
تاہم یہ رجحان طنطاوی جوہری کی تحریروں، خصوصاً ان کی تفسیر’’الجواھر في تفسير القرآن الكريم‘‘ (1940ء)، میں اوجِ کمال پر پہنچا9۔ یہ 26 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ہے۔ جوہری نے بڑے زوروشور سے کہا کہ قرآن کی 750 آیات ایسی ہیں جو واضح طور پر طبعی کائنات سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر متعدد دیگر آیات بھی ہیں ، جو، ان کے نزدیک، اگرچہ طبعی کائنات سے اس سطح کا براہ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف جوہری کہتے ہیں کہ قانونی امور سے متعلق آیات 150 سے زیادہ نہیں ہیں10۔ وہ مسلمان اہلِ علم پر سخت انداز میں تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کے اساسی اہمیت کے موضوع، طبعی علوم، سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے بجائے فقہ پر زیادہ توجہ مبذول کی ہے، جوان کے نزدیک، کم اہمیت کی چیز ہے۔ جوہری یہاں ایک بار پھر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ترجیحات کی ترتیب تبدیل کریں اور سب سے زیادہ اہمیت طبعی علوم کو دیں۔ حسبِ ذیل اقتباس اس موضوع پر جوہری کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:
اے امتِ اسلام!... میراث کی چند ایک آیات ہیں، جن میں ریاضی کا صرف ایک حصہ شامل ہے، لیکن ان 750 آیات کا کیا کیجیے جن میں کائنات کی تمام نیرنگیاں سما گئی ہیں؟ یہ سائنس کا دور ہے، یہ [اپنی مکمل شکل میں ] نورِاسلام کے ظہور کا زمانہ ہے، یہ عہدِ ترقی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہمیں کونی علوم سے متعلق آیات پر اسی نہج پر توجہ کیوں نہیں دینی چاہیے جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے آیاتِ میراث پر توجہ دی؟ میں، الحمد للہ، یہ بات کہتا ہوں کہ آپ کو اس تفسیر میں سائنسوں کا لُبِ لُباب ملے گا۔ ان علوم کا مطالعہ، میراث کے مطالعے سے زیادہ برتر ہے، کیوں کہ اول الذکر کی حیثیت ’فرضِ کفایہ‘ کی ہے، جب کہ ثانی الذکر کا مقصود علم میں ترقی ہے جو عمیق ایمان کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی حیثیت ہراس شخص پر ’فرضِ عین‘ کی ہے جو ان کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہو11۔
اوپر کی بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں، جنوبی ایشیا کے علما کے مقابلے میں، مصری علما ’سائنسی تفسیر‘ کے حوالے سے زیادہ معروف تھے، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرسید احمد خان سائنس اور سائنسی افکار سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور ان کی دینی آرا پر ان کے عہد کے سائنسی خیالات کا رنگ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سرسید کے ہم مذہبوں کی نظر میں وہ اس معاملے میں اس حد تک جا چکے تھے کہ انھیں ’نیچری‘ کا تحقیر آمیز خطاب ملا۔ سرسید نے قرآنی آیات کے ایک بڑے حصے کی تفسیر طبعی علوم کے دائرے میں رہ کر کی، یہاں تک کہ انھوں نے معجزات پر مبنی آیات کی تشریح بھی اسی انداز سے کی۔ سرسید کا کہنا تھا کہ سائنسی حقائق تک رسائی کے لیے سماوی صحیفوں کی طرف دیکھنے کے بجائے ابتدائی طور پر سائنسی طریقِ کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ سرسید نے مذہب اور سائنس کے مابہ النزاع امور کے ساتھ ایک طویل عرصہ زورآزمائی کی اور ایسے اصولوں کے استخراج کی کوشش کی جو دونوں کے درمیان مطابقت کا کام دے سکیں۔ اس کشمکش کے حل کے لیے انھوں نے فطرت کو ’Work of God‘ (فعلِ خداوندی) اور قرآن کو (جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں) ’Word of God‘ (قولِ خداوندی)کہا۔ ان کا یہ پختہ نظریہ تھا کہ ’ورڈ آف گاڈ ‘اور ’ورک آف گاڈ ‘میں کبھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ جن صورتوں میں کہیں تعارض ہے تو اس کے حل کے لیے سرسید نے مختلف اصول وضع کیے۔ تاہم جب ہم ان کی تفسیر یا تحریروں کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کا رجحان ’ورک آف گاڈ‘ کی طرف ، ’ورڈ آف گاڈ‘ کی بنسبت زیادہ ہے12۔
مُرُورِ وقت کے ساتھ سائنس اور مذہب (یا صحیح لفظ میں اسلام) کے درمیان خطوطِ امتیاز موجودہ صدی میں کئی مسلم مفکرین کے ذہنوں میں دھندلے ہوتے چلے گئے، تاہم اس رجحان کا ارتقا اسلام اور سائنس کے تعلق اور طبعی علوم کے مسائل کی تفہیم سے تعلق رکھنے والی آیات کی تفسیر کے صحیح منہج کےحوالے سے ایک نہیں بلکہ کئی نقطہ ہاے نظر اور رجحانات کے ظہور کا باعث بنا ہے۔
ایک موضوع جس سے سابقہ، معاصر اسلامی مباحث میں کثرت سے پیش آ رہا ہے، یہ ہے کہ قرآن سائنس کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے متعدد آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں اللہ کی نشانیوں کے طور پر قدرتی مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے یا جن میں انسان کو ان مظاہر پر تدبر اور مشاہدے کی ترغیب دی جاتی ہے13۔ دوسرے لفظوں میں یہ آیات اس غرض کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قدرتی مظاہر کے صحیح مشاہدے سے انسان کا سائنسی علم ترقی کرتا ہے جو کہ مطلوب ہدف ہے۔ اس طرح سائنس کا حصول نہ صرف کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم (کائنات میں جاری قوانین کا علم ) حاصل کرنے اور اسے مسخر کرنے کی انسان کی مخفی تمنا کا جواب ہے، بلکہ یہ ایک دینی عمل اور فریضہ بھی ہے۔
اس تصور کی سب سے طاقت ور تعبیر ہمیں جنوبی ایشیا کے معروف فلسفی شاعر محمد اقبال (م1938ء) کے ہاں ملتی ہے۔ اس فکر کی تعبیر یوں تو ان کے مختلف اشعار میں بیان کی گئی ہے، لیکن سب سے زیادہ مؤثر اور مربوط انداز میں ، جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، اسے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں بیان کیا گیا ہے۔ اقبال نے قرآن کی کئی آیات نقل کی ہیں جو یا تو فطرت کے مظاہر میں (خدا کی) ’نشانیوں‘ کو بیان کرتی ہیں، یا اہلِ ایمان کو ان پر غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے تقریباً وہی آیات نقل کی ہیں جنھیں موجودہ صدی کے دیگر مسلم اہلِ علم نے نقل کیا ہے14، لیکن اقبال نے ان آیات کو نسبتاً بڑی معنویت کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک تو اس پہلو سے کہ ان آیات نے مسلم فکر کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے اور نتیجتاً تاریخِ انسانیت پر ان کا اثر بہت گہرا ہے۔
اقبال کا خیال ہے کہ اس کائناتی تدبر میں قرآن کا براہِ راست ہدف ، انسان میں اس چیز کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی علامت یہ فطرت ہے15۔ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ آیات جو کائنات پر تدبر کی دعوت دیتی ہیں، وہ اسلامی ثقافت کی حقیقی روح کی ترجمان ہیں، کیوں کہ معرفت کے مقاصد کے لیے ان کا ارتکاز متناہی اور محسوس امور پر ہوتا ہے16۔ یہ علامت فکر اور اسلامی تہذیب کی امتیازی علامت ہے جو اسے یونانی فکر سے ممتاز کرتی ہے جس کے ساتھ اپنی تاریخ کے آغاز میں اسے تعامل کا سابقہ پیش آیا تھا۔ یونانی فکر زیادہ تر حقیقت کے بجائے نظریے سے اعتنا کرتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ہم اقبال کی طرف رجوع کرتے ہیں:
قرآن حقیقتِ اعلیٰ کی نشانیاں فطرت کے تمام مظاہر میں دیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غور و فکر کرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے، کیوں کہ وہ انسان جو ان آیات کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا، وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ زندگی کے ٹھوس حقائق کے مشاہدے کی اس دعوت اور نتیجتاً آہستہ آہستہ پیدا ہونے والے اس احساس سے قرآن کی تعلیمات کے مطابق کائنات اپنی اصل میں حرکی اور متناہی ہے اور فروغ پذیری کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلم مفکرین اور اس یونانی فکر کے درمیان کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا انھوں نے اپنی فکری تاریخ کی ابتدا میں بڑے انہماک سے مطالعہ کیا تھا17۔
اوپر ذکر کردہ وجوہات کی بنا کر یہ بات باعثِ تعجب نہ ہو گی کہ اقبال کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلام کا ظہور ، استقرائی عقل کا ظہور تھا18۔ اقبال مسلمان اہلِ علم اور سائنس دانوں کے کردار سے واقف تھے جو انھوں نے علم کی مختلف شاخوں، جیسے ریاضی، فلکیات، طبیعیات اور کیمیا میں ادا کیا۔ یہ حصہ اگرچہ علم کے متعین میدانوں سے تعلق رکھتا ہے، تاہم جس چیز نے اقبال کو حقیقی معنیٰ میں خوشی سے سرشار کیا، وہ عقلِ انسانی کے ارتقا میں اسلام کا تاریخی رول تھا۔ تاریخ میں اسلام کا مرکزی کردار یہ تھا کہ اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر سائنسی روح اور سائنسی منہاج کا وہ راستہ ہم وار ہوا جو آج کی جدید سائنس کی برومندیوں کا مصدر ہے19۔
اقبال نے جس بات پر زور دیا ہے، وہ اسلام اور سائنس کے سوال کی معاصر بحث کا ایک جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ اس موضوع پر لکھنے والے متعدد عظیم مسلم مصنفین پورے طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ فطری مظاہر سے تعلق رکھنے والی یا ان پر غور و فکر پر ابھارنے والی آیات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سائنسی ابحاث میں دل چسپی لیں اور یہ چیز اسلام کے ضروری مطالبات میں سے ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اقبال اس بات سے آگاہ تھے کہ قرآن کی طرف سے عائد کردہ اس تدبرِ فطرت کا بنیادی ہدف ، انسان میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی یہ فطرت ایک علامت ہے20۔ اس موضوع پر جو لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے، اس کے وسیع مطالعے اور اس باب میں پیش کیے گئے اساسی امور پر توجہ مبذول کرنے سے انسان جو تاثر لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کا مذکورہ بالا ملاحظہ (جس کی بنت کاری اتنے مربوط اور دقیق اسلوب میں کی گئی ہے کہ معدودے چند عقول ہی اسے گرفت میں لے سکتی ہیں۔ )اپنے قارئین اور سامعین پر قابلِ ذکر اثر نہیں مرتب کر سکا۔ ذاتی طور پر اقبال کا روحانیتِ اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین اس قدر راسخ اور ان کی ذات کا جزوِ لازم تھا کہ ان کے نزدیک مشاہدۂ کائنات کے تصور سے خالق کی تذکیر ایک ناگزیر امر ہے۔ اقبال کے بعد کی نسلوں کے ہاں بظاہر لگتا ہے کہ مظہرِ فطرت ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ ’سائنسیت‘ اور انسان کی خدمت کے لیے قوانینِ فطرت کی دریافت کا نام ہے۔
(3)
حالیہ عشروں میں مسلمان اہلِ علم نے اس گفت گو کے ضمن میں ایک موضوع متعارف کروایا ہے، جو اگرچہ اس سے پہلے بھی اسلامی روایت کا جز رہا ہے، تاہم وہ کسی حدتک نیا ہے۔ ہم یہ بات دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اقبال نے پوری قوت سے تجربی طریقِ کار کو متعارف کروانے میں اسلامی کلچر کے رول پر زور دیا ہے جو ان کے نزدیک سائنسی حقائق تک رسائی کا وسیلہ ہے، تاہم ایسا نہیں لگتا کہ اقبال تجربے اور مشاہدے پر اعتماد کیے بغیر محض قرآن کے گہرے مطالعے کی اساس پر یہ باور کرتے ہیں کہ علم کی حدود اور آفاق کی توسیع کی جا سکتی ہے اور یہ کہ صرف سماوی کتاب سائنسی تحقیق کا بدل ہو سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام اور سائنس کی حالیہ بحث میں ایسے کوئی حتمی تصورات نہیں ملتے جو تجربی طریقِ کار کے مؤثر ہونے کی نفی کرتے ہوں، تاہم اس تصور پر زور دیا جاتا ہے کہ قرآن سائنسی حقائق کا خزینہ ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ انسان اکثر اس بات پر متحیر ہوتا ہے کہ دو مصادر -قرآن اور سائنس دانوں کے استعمال کردہ تجربی طریقِ کار- کے درمیان اصل تعلق کیا ہے؟ تاہم یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
بظاہر لگتا ہے کہ قرآن کے تمام علوم کا مخزن ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے جو بات محرک ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن پر لوگوں کے ایمان کو راسخ کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں اس کا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ دیگر اسبابِ اعجاز -لغوی وغیرہ- کے علاوہ قرآن اعجاز کے ایک بہت مؤثر پہلو، سائنسی اعجاز کا بھی حامل ہے21۔
ایک معروف معاصر ماہرِ ارضیات زغلول نجار ہیں جو علومِ ارض کے ساتھ اسلام سے متعلق بھی وسیع علم رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن تکرار کے ساتھ پہاڑوں کے زمین کی میخیں ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہ پہاڑ زمین کی اوپر کی سطح کو نہ صرف ہلنے سے روکے ہوئے ہیں، بلکہ وہ زمین کے ٹھہراؤ کے لیے میخوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ نجار کہتے ہیں کہ یہ حقیقت قرآن کے نزول کے تیرہ صدیوں کے بعد انیسویں صدی کے نصف میں جا کر معلوم ہو سکی ہے22۔ پہاڑوں کے بارے میں آخری دور میں علوم جن حقائق تک پہنچے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نجار کہتے ہیں: ’’یہ ان بے شمار شہادتوں کی چند مثالیں ہیں جو قرآن کے الوہی مزاج اور رسالتِ محمدیہ کے صدق کا اثبات کرتی ہیں کہ کسی بھی انسان کو انیسویں صدی کے نصف سے پہلے ان حقائق کا پتا نہیں تھا اور 1960ء سے پہلے یہ بات اس شکل میں سامنے نہیں آئی تھی۔ ‘‘23
موریس بوکائی کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس گذشتہ دو عشروں سے مسلمانوں میں نہایت مقبول رہی ہے۔ اس کتاب کا مرکزی تصور یہ ہے کہ سائنسی طریقِ کار سے قطعی طور پر ثابت شدہ مواد اور وحی کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے۔ بوکائی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآنی متن اور جدید سائنسی حقائق کے درمیان مطابقت کا مطالعہ کیا ہے24 اور اس مطالعے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ قرآن میں کوئی ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے کہ جدید سائنسی نقطۂ نظر سے اس کی تردید ممکن ہو25۔ انھوں نے اسی طریقِ مطالعہ کو بائبل پر بھی منطبق کیا لیکن نتائج بالکل مختلف تھے۔ یہاں تک کہ اس کی پہلی کتاب، کتابِ پیدائش میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو جدید سائنسی حقائق سے مکمل طور پر بعید ہیں۔)26 (یہ بات اہم ہے کہ بوکائی نے کتاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے:
حضرت محمد ﷺ کے زمانے کی معلومات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابلِ تصور معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت سے وہ بیانات جو سائنس سے متعلق ہیں، کسی بشر کا کام ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات مکمل طور پر صحیح ہے کہ قرآن کو وحی ِ آسمانی کا اظہار سمجھا جائے، لیکن ساتھ ہی اس استناد کے سبب جو اس سے فراہم ہوتی ہے، نیز ان سائنسی بیانات کی وجہ سے جن کا آج بھی مطالعہ کرنا بنی نوعِ انسان کے لیے ایک چیلنج ہے، اس کو ایک انتہائی خصوصی مقام حاصل ہے27۔
مصر کے عبدالرزاق نوفل نے اسلام اور سائنس کے تعلق پر متعدد معروف کتابیں تحریر کی ہیں۔ اپنی کتاب القرآن والعلم الحديث کے بالکل ابتدائی باب إعجاز القرآن میں مصنف قرآن کو ایک ’معجزۂ سرمدی‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ذکر کرتے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں نے قرآن کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا جیسے اس کی بلاغت، ادبی اسلوب، نغماتی وصف، پیش گوئیاں (جن کی تائید رونما ہونے والے واقعات نے کی۔) اور اس کے تشریعی احکام28۔ نوفل آگے چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں قرآن کا سائنسی اعجاز ، ناقابلِ انکار حقیقت بن گئی ہے۔ ’’جدید دور میں علوم کی فکری پیش رفت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ قرآن ، سائنس کی کتاب ہے جس نے تمام علوم و حکمت کی بنیادیں پیش کر دی ہیں۔جب بھی علم کی کوئی نئی شاخ سامنے آتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے یا تو پہلے ہی اس طرف متوجہ کیا ہوتا ہے یا کم از کم اس کی طرف اشارہ دیا ہوتا ہے۔‘‘29 نوفل آگے چل کر قرآن کے سائنسی معجزات کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے قرآن کی ایک یا زائد آیات ذکر کرتے ہیں اور پھر ہمارے دور کے مسلمہ سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں جو قرآن سے مطابق معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے:’’أنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا ‘‘(الأنبياء: 21: 30۔) (آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں پھاڑ دیا۔) جب Laplace نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا، تو نوفل کہتے ہیں: ’’یہ بات سائنس کی فتح مندی سمجھی گئی، اگرچہ قرآن نے یہ بات صدیوں پہلے کہ دی تھی۔‘‘(کذا) 30 نوفل کہتے ہیں کہ ’’اگر ہمیں غیر عرب دنیا کو بھی مخاطب کرنا ہے کہ قرآن ایک سائنسی معجزہ ہے، [ایسی کتاب] جو جدید سائنس کی مبادیات ، حتی کے اس کی نئی ترقیوں پر بھی مشتمل ہے، تو پھر کیا قرآن کا یہ معجزاتی پہلو اہلِ مغرب کو اس کی اعجازی نوعیت کے بارے میں قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا؟ ‘‘31
ایک دوسرا علمی کام جو مسلمانوں میں غیر معمولی دل چسپی کا موجب بنا ہے، کیتھ ایل مور(Keith L.Moore) کی علم الجنین (Embryology) پر معروف کتابThe Developing Human ہے۔ ہم یہاں اس کے تیسرے ایڈیشن کا حوالہ دے رہے ہیں جو عبدالمجید زِندانی کی طرف سے’’ قرآن و حدیث کے تعلق سے مطالعہ: اسلامی اضافہ جات کے ساتھ‘‘ شائع ہوا تھا۔ زندانی یمن کے معروف عالم ہیں جو اعجازِ قرآن و سنت کی کمیٹی (جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔) کے روحِ رواں رہے ہیں۔
مُور کی کتاب پر اپنے دیباچے میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ اس کتاب کا متن پہلے والا ہی ہے ’’البتہ انسانی جنینیات کے حوالے سے قرآن وسنت کے بیانات کے متعدد حوالہ جات کا اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اول تو مجھے علم الجنین کے وجود سے پہلے ساتویں صدی عیسوی میں محفوظ کیے گئے ان بیانات کی درستی پر حیرت ہوئی۔ اگرچہ مجھے دسویں صدی میں شان دار مسلم تاریخ کے سائنس دانوں اور طب کے میدان میں ان کی کچھ کارکردگی سے شناسائی تھی، لیکن مجھے قرآن وسنت میں موجود حقائق کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسلامی اور دیگر طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم الجنین کے بارے میں ان قرآنی بیانات کے مفاہیم کو معاصر سائنسی علم کی اساس پر سمجھیں۔ (یہ بات بڑی تاکید سے کہی گئی ہے۔) ‘‘32
اس مقالے کی مقصد کے پیشِ نظر ہمارے لیے بنیادی دل چسپی کی چیز کیتھ مور کا نقطۂ نظر نہیں ہے، بلکہ ہماری اصل دل چسپی ان ’’اضافہ جات‘‘ ، طریقِ مطالعہ اور ان ’’اضافہ جات ‘‘کے بین السطور مقاصد سے ہے۔ یہ بات قابلِ ملاحظہ ہے کہ ’’اضافہ جات‘‘ ، علم الجنین سے متعلق قرآن وسنت کے مواد کے بہت جامع اور محتاط مطالعے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جہاں تک اس کام کے مقصد کا تعلق ہے، اس کے لیے عبدالمجید زندانی کے قلم سے ’’اسلامی اضافہ جات کے تعارف‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ:
قرآن و حدیث کئی مقامات پر اللہ کی تخلیق پر عمیق غور و فکر اور مشاہدے کے لیے انسان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ متعدد میدانوں میں، جدید طریقوں کے استعمال کے ذریعے ، جدید تحقیقات نے حیرت انگیز ملتے جلتے نتائج پیش کیے ہیں۔ جوہری اعتبار سے چودہ سو سال قبل پیش کردہ قرآن و سنت کے واضح بیانات اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر ثابت شدہ عصرِ حاضر کے حقائق کے درمیان اتفاق ہے۔ ایک طرف قرآن و حدیث کی نصوص اور دوسری طرف ثابت شدہ سائنسی حقائق کے اس دل چسپ اتفاق کی طرف مسلمانوں اور غیر مسلموں کی توجہ مبذول کی گئی تھی۔۔۔ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والی قرآنی نصوص اور آپ کی احادیث میں ، جنین (Embryo) کے ارتقا کے مراحل کے بارے میں موجود معلومات کو پا کر علم الجنین کے ماہرین کو حیرت ہو گی۔ یہ نصوص ان حقائق سے نقاب کشائی کرتے ہیں جن سے متعلق ساتویں صدی عیسوی میں قرآن کے نزول کے بعد مدتوں تک انسان کو غلط فہمی لاحق رہی ہے۔ یہ بات کہنے کی حاجت نہیں کہ سائنس کی قرآنی نصوص کے ساتھ مکمل ہم آہنگی واضح ہو جائے گی ، کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا علم سچا ہے۔‘‘33
(4)
ہم نے اہلِ علم کے بیان کردہ جو متاثر کن شواہد ذکر کیے ہیں ( اور کئی اور بھی جو جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر درج نہیں کیے جا سکے۔) ان کے باوجود بعض بہت سنجیدہ سوالات ہیں جو قرآن اور سائنس کے تعلق کے بارے میں ہیں، جو ہنوز نہایت عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ تعرض کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
جو اہلِ علم قرآن کے سائنسی معجزات کے تصور کی بات کرتے ہیں، ان کے موقف کی ایک کم زوری، ان کی طرف سے قرآن اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی غیر سنجیدہ جلد بازی ہے۔ وہ اس جذبے سے اس حد تک بے قابو ہو جاتے ہیں کہ علمی احتیاط اور فکری بلوغ کا خون ہو جاتا ہے۔ وہ نتائج نکالنے میں جلدی کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ کسی حقیقت کو جاننے سے زیادہ ان پر کسی نظریے کے اثبات کی دھن سوار ہے۔ معاصر اسلامی ڈسکورس عجلت پسندی اور فکری پختگی کی کمی کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنا اختصاص اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں بگ بینگ جیسے سائنسی نظریات کا معاینہ کر سکوں کہ آیا وہ قطعی طور ثابت شدہ ہیں یا محض مفروضات ہیں؛ لیکن مسلمان اہلِ علم کا ایک پورا گروہ ہے جو اپنے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر قرآن کی طرف دوڑتا ہے تاکہ اس کی ایک یا دو آیات کے بیان سے اس کی عظمت کو ثابت کرے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ قرآن نے برسوں پہلے یہی حقیقت بیان کی تھی جو سائنس دان اب کہ رہے ہیں۔ (ہمارے نزدیک اگر قرآن میں بگ بینگ تھیوری کی تائید میں کوئی آیت نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے مقدس ہی ہوتا۔) تاہم آئیے ہم مذکورہ جذبے کے حوالے سے قرآن سے کچھ مثالوں کو سامنے رکھتے ہیں جنھیں بظاہر قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے جدید نظریات کے اثبات کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
ہم ایک کتاب پر نظر ڈالتے ہیں جو حالیہ سالوں میں مسلمان اہلِ علم کے درمیان گردش کرتی رہی ہے جسے نور باقی نے تصنیف کیا۔ اس میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ بگ بینگ تھیوری کی تائید سورۂ فلق 113: 2 آیت سے ہوتی ہے۔ فعل، فلق کا معنی ہے پھاڑنا، شگاف ڈالنا۔۔ٹکڑے کرنا، توڑنا34۔ سورۂ فلق کی اس آیت میں، سورت کے سیاق کے پیش نظر، علما نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے "کہ دیجیے میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں۔" آیت میں چوں کہ 'فلق' کا معنیٰ موجود تھا، اس سے ہلوک نور بکی نے غلط طور پر یہ مفہوم مراد لیا کہ یہاں بڑے دھماکے (بگ بینگ، جو کائنات کے وجود میں آنے کا سبب بنا) کے رب کی پناہ مانگی گئی ہے۔ اس لیے مصنف نے سورۂ فلق کی پہلی دو آیات کا ترجمہ کیا:"میں (مابعد نظریۂ انفجارِ عظیم جس نے کائنات کو وجود دیا) سے ہر اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو پیدا کی گئی ہے۔ اسی مصنف نے آیت {وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاھَا بِأيْدٍ وَإنَّا لَمُوسِعُونَ} [الذاريات: 47] کا ترجمہ یوں کیا ہے: "ہم کائنات کو وسعت دے رہے ہیں۔"35 ہم فتح اللہ خان کی کتاب God, Universe and the Man: The Holy Qur'an and the Hereafter دیکھتے ہیں36۔ یہ مصنف مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ وہ اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس توانائی کے ذریعے ایٹم بنا ہے، اس کی طرف واضح اشارہ آئن سٹائن کی مساوات E=mc2 سے کیا گیا ہے۔ لہذا تمام کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں مصنف کے نزدیک کائنات کے پھیلاؤ کے معروف نظریے کا بیان ہے۔ آیت کے دونوں حصوں کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات، جو کہ توانائی سے پیدا ہوئی ہے، پھیل رہی ہے37۔ اس ساری اپروچ میں ایک بڑا مسئلہ، جس کی طرف اوپر ہم مختصر اشارہ کر آئے ہیں، یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قرآن کی ترجیحات کو بدل دیتی ہے۔ قرآنی آیات اس اپروچ کے مطابق ہمیں کائناتی حقائق کا علم دیتی ہیں گویا قرآن انھی حقائق کا بنیادی مصدر ہوا۔ یہ بات واضح ہے کہ کائنات کے بارے میں ان حقائق کو انسان خود اپنی کاوشوں سے دریافت کر سکتا ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ سائنسی مظاہر جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ قرآن نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے، دنیا کے سامنے قرآنی اعجاز کے طور پر پیش کیے جانے سے پہلے اکثر حالات میں انسانوں -عموماً غیر مسلموں- نے دریافت کیے ہیں۔
ان سب باتوں کو ایک طرف رکھیے، ایک نکتہ ہنوز تشنہ رہتا ہے کہ قرآن کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟ وہ کون سی اساسی چیزیں ہیں، جنھیں قرآن انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے؟ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ ؒ کا ایک فرمان مشعل راہ ہے؛ وہ فرماتے ہیں:
قرآن کے بنیادی مقاصد پانچ ہیں۔ پہلی چیز احکام ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا چیزیں اوامر ہیں اور کیا نواہی۔ یہ احکام عبادات سے لے کر معاملات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ موضوع فقہاء کا ہے۔ دوسرا موضوع گم راہ فرقوں -یہود، نصاریٰ، مشرکین اور منافقین- کا ہے۔ یہ موضوع متکلمین کی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے۔ تیسرا موضوع وہ قصص ہیں جو مخلوق کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہیں (تذکیر بآلاء اللہ)، اللہ کے کمال کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے زمین آسمان پیدا کیے اور ساری مخلوق کو کسبِ رزق کے طریقے سکھائے ۔ تیسرا موضوع تذکیر بایام اللہ کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کس طرح اللہ نے گذشتہ امتوں کے ساتھ معاملہ کیا؛ بعض کو انعامات سے سرفراز کیا اور بعض کو سزا دی۔ پانچواں موضوع تذکیر بالموت و مابعد الموت کا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ جن آیات کو قرآن کی سائنسی آیات کہا جاتا ہے، وہ شاہ ولی اللہ ؒ کی تقسیم کے مطابق تذکیر بآلاء اللہ کے زمرے میں آتی ہیں۔
تاہم اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ زمین، آسمان، سیارے، بارش، سمند ر اور پہاڑ وغیرہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ قرآن ان کے بارے میں انسانیت کو باخبر کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ کائناتی مظاہر کے بارے میں نشانیوں والی آیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی توجہ ان بنیادی حقائق کی طرف منعطف کی جائے تاکہ وہ کائناتی مظاہر کے مقابلے میں زیادہ بڑے اور اہم درجے کے مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان آیات کو ان کے سیاق سے ہٹا کر دیکھنا ان کے مجوزہ مقاصد سے آزاد کرنا ہے۔ انھیں قرآن کے اصل خطاب سے جدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کے حقیقی مفاہیم اور اہمیت سے دور کر دیا جائے۔ اس طرح کی باتیں کہ قرآن ہر قسم کے علم کی کتاب ہے38، ہوش مند ، پختہ اور ذمے دار اہلِ علم کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح قرآن کے بارے میں اس طرح کے چلتے ہوئے بیانات کہ اس میں ہر قسم کا علم ہے، ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تراث میں کوئی تائیدی دلیل موجود نہیں ہے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو اس قسم کے پر جوش بیانات میں کارفرما رویوں کا انجام غالبا اس بات پر ہوتا ہے کہ قرآن کو ہمیشہ بدلتی رہنے والی سائنس کے تابع کیا جائے اور اسلامی علما کو غلامانہ وفاداری کے کردار پر مجبور کیا جائے جو سائنس دانوں کے اشاروں پر چلیں اور کتابِ عزیز کو جدید نظریات کے تابع بنائیں۔ دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس قسم کے مبالغہ آمیز دعوے کہ قرآن تمام اساسی علوم کا مصدر ہے ، علمیاتی پراگندگی اور فکری آوارگی کا باعث ہیں اور یہ چیز کتاب اللہ اور سائنس دونوں کے لیے مضر ہے۔
حواشی
(1) مرحوم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا ایک مقالہ” “Scientific Exegesis of the Qur'an کے نام سے اڈنبرگ یونی ورسٹی کے مطالعاتِ قرآنی پر معروف مجلے Journal of Qur‘anic Studiesکے شمارہ Vol:3, No:1 (2001) میں شائع ہوا۔ قرآنِ کریم کی تفسیر کے جدید رجحانات میں سائنسی تفسیر کا رجحان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے پیشِ نظر اس مقالے کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ (مترجم)
See J.M.S.Baljon, Modern Muslim Koran Interpretation 1880-1960 (Leiden: Brill, 1961),pp.88-98.
(2) محمد حسین الذہبی، التفسير والمفسرون، طبع سوم (قاہرہ: مکتبہ وہبہ، 1985ء) ، دیکھیے خصوصا ، ج 2،ص 454- 468؛ عفت محمد الشرقاوی، اتجاھات التفسير في مصر في العصر الحديث(قاہرہ: مکتبۃ الکِیلنی، 1972ء)، ص 367- 377؛
Jansen, J.J.G. The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, Leiden: Brill, -1974, pp. 35-54.
فہد عبد الرحمن الرومی، منھج المدرسۃ العقليۃ الحديثۃ، طبع سوم، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1407ھـ)، ص 269- 283۔
(3) دیکھیے:
lbert Hourani, Arabic Thought in the Liberal Age, 1798-1939 (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1970); Bernard Lewis, The Emergence of Modern Turkey, II edition (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1968), and Gulfishan Khan, Indian Muslim Perceptions of the West During the Eighteenth Century (Karachi: Oxford University Press, 1998).
(4)
Cf. J.J.G. Jansen, The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, p. 41
خصوصا یہ الفاظ :”یقینا (مسلمانوں میں) جدید سائنسی تفسیر اور مغرب کے عرب اور مسلم دنیا پر اثر کے درمیان ایک تعلق ہے۔انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں مسلم اقلیم کے زیادہ سے زیادہ حصے یورپی تسلط کے نیچے آ گئے۔ مصرخود بھی 1882ء میں برطانوی فوج کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔۔۔یورپ کا یہ تسلط ، بہترین یورپی ٹکنالوجی کے باعث ممکن ہوا تھا۔بہت سے مخلص مسلمانوں کے لیے کسی تفسیر میں یہ بات پڑھنا وجہ تسلی ہے کہ جن سائنسوں اور اصولوں نے یورپ کو مسلمانوں پر غلبہ دیا ، ان کی بنیاد اصل میں ان اصولوں اور سائنسوں پر قائم ہے جو قرآن میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ “
(5) قابل ذکر بات یہ ہے کہ ارضیات کے ایک نام ور مسلمان پروفیسر زغلول النجار کی کتاب ہے۔
Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än ( Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.)
(6) مذکورہ کتاب شاید قرآن کے بنیادی مقاصد کو بیان کرنے کی ایک غیر ماہرانہ کوشش ہے۔ اس پر ایک واضح، بلیغ اور صحیح وضع کردہ بیان کے لیے دیکھیے: شاہ ولی اللہ دھلوی، الفوز الكبير في أصول التفسير، ترجمہ:رشید احمد انصاری، اس کے ساتھ مولانا تقی عثمانی، تفسیر کے چند ضروری اصول (لاہور: ادارہ اسلامیات، 1982ء)، ص 4، 5۔نیز دیکھیے:بدر الدین الزرکشی، البرھان في علوم القرآن(قاہرہ: الحلبی، 1957ء)، ج 1، ص 16- 21۔
(7) دیکھیے ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 454- 464۔یہ بحث کہ قرآن ، بشمول سائنسی علم، ہر قسم کے علم کو شامل ہے، اس کی تائید قرآن کی دو آیات( الأنعام 6: 38، اور النحل 16: 89)سے کی جاتی ہے۔اگر ہم ان آیات پر قرآن کی تفاسیر کی طرف مراجعت کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس اختلاف کی بمشکل ہی کوئی بنیاد ہے۔
(8) نفسِ مرجع۔
(9) (قاہرہ: الحلَبی، 1340ھ- 1351ھ)۔
(10) یہ بات کہ قرآن کی کائنات سے متعلق آیات، قانون سے متعلق آیات سے زیادہ ہیں، زیرِ بحث گفت گو کے تحت آنے والی ایک مکرر گفت گو بن چکی ہے۔750 کا عدد بھی ان قلم کاروں کی بڑی تعداد نے نقل کیا ہے جو ان کے طرزِ فکر کے حامی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری نے مسلم اہلِ دانش کے ایک طبقے پر کتنا اثر ڈالا ہے۔
(11) دیکھیے: ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 483- 484۔
(12) دیکھیے: سرسید احمد خان، تفسیر القرآن(لاہور: دوست ایسوسی ایٹس، 1994ء)، مختلف مقامات سے۔نیز دیکھیے: سی ڈبلیو ٹرول۔Sayyid Ahmad Khan: A Reinterpretation of Muslim Theology (کراچی: آکسفرڈ، نیویارک، دھلی: آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، 1979ء)، خصوصاً، باب 5۔
(13) جوآیات اس حوالے سے نقل کی جاتی ہیں،ان کا بغور مطالعہ یہ دکھاتا ہے کہ ان آیات کا اصل مقصد بجائے خود فطری مظاہر پر غور و فکر کی ترغیب دینا نہیں ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ 'مومن' ان کائناتی چھوٹے حقائق کے مشاہدے سے بلند ہو کر اعلیٰ، بڑے حقائق کی معرفت حاصل کرے - ایسے حقائق جو خدا کے علم، حکمت، قدرت، شفقت اور رحمت کو ظاہر کرتے ہیں، ایسے حقائق جو مکمل طور پر یہ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ زندگی کے بعد قیامت اور آخرت آئے گی۔
(14) مثال کے طور پر دیکھیے: البقرۃ 2: 164؛ الفرقان25: 45- 46؛الغاشيۃ 88: 17- 20؛الروم30: 22؛ الرعد 13: 14؛الانشقاق 84: 16- 19؛ العنكبوت 29: 20؛ النحل 16: 12؛ فصلت 41: 20؛ النور 24: 44؛ يونس 10: 66؛ الفرقان 25: 62؛ لقمان 31: 27 وغیرہ۔
(15) محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam (لاہور: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 1982ء)، ص 13۔
(16) نفسِ مرجع، ص 131۔
(17) نفسِ مرجع، ص 126۔
(18) نفسِ مرجع، ص 125۔
(19) نفسِ مرجع ، خصوصی طور پر دیکھیے: ص 129- 131۔
(20) نفسِ مرجع، ص 13۔
(21) یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1980ء میں مکہ میں مسلم ورلڈ لیگ نے ایک کمیٹی بعنوان Committee on the Scientific Miracles of the Qur'an and Sunnah بنائی۔
(22) دیکھیے:النجار
Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än (Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.), pp. 47-50.
(23) نفسِ مرجع، ص 50۔
(24) موریس بوکائی، The Bible, the Qur'än and Science (لاہور: پروگریسو بکس، س ن)، صvii۔
(25) نفسِ مرجع، ص viii۔
(26) نفسِ مرجع، ص viii۔
(27) نفسِ مرجع، ص 251- 252۔
(28) عبدالرزاق نوفل، القرآن والعلم الحديث (قاہرہ: دار المعارف، 1959ء)، ص 11ff۔
(29) نفسِ مرجع، ص 29۔
(30) نفسِ مرجع، ص 29۔
(31) نفسِ مرجع، ص 29۔
(32) کِیتھ مُور، The Developing Human: Clinically Oriented Embryology یہ کتاب عبدالمجید الزندانی کے قلم سے اسلامی اضافات کے ساتھ شائع ہوئی۔ طبعِ ثالث(جدہ:دار القبلہ، 1983ء)، ص viii c۔ خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔یہ بات قابلِ فہم ہے کہ مُور کو ایسے کہنا چاہیے تھا۔ تاہم،کلمۂ ناشر کا ایک جز آسانی سے قابل فہم نہیں جو دارالقبلہ براے اسلامی ادب جدہ کی طرف سے لکھا گیا ہے:”مجھے یہاں ایک نکتے کی وضاحت کرنے دیجیے۔ یہ قرآن ، باوجود اس بات کے کہ وہ سائنی امور کو بیان کرتا اور ان کی تصدیق کرتا ہے، سائنس کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوع کی ہدایت کی بہترین کتاب ہے۔ (سورۃ البقرۃ 2: آیت 2) خالقِ فطرت کے 'جہان' (کذا: درست 'لفظ'ہے۔) ہونے اوراس کے اپنے دعوے کے مطابق:”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔(سورہ 2، آیت 2)اسے ان امورکی تصدیق کرنی چاہیے جنھیں سائنس مشاہدے، تحقیق اور تجربے /۔ سے ثابت کرتی ہے۔“(ص۔viii b.)(خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔) مذکورہ بالا بیان کی دلالتوں پر غور کرتے ہوئے انسان کچھ تردد کا شکار ہو جاتا ہے۔میں اگر سمجھنے میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ بات ، قرآن کے اس مقامِ بلند سے لگا نہیں کھاتی جو اسلام کی رو سےاسے حاصل ہے۔
(33) نفسِ مصدر، ص 12 اے۔
(34) ہلوک نور باقی ، Verses From The Holy Quran And The Facts Of Science، ترجمہ: Metin Beynam (کراچی: انڈس پبلشنگ کارپوریشن، 1992ء)۔
(35) نفسِ مصدر، ص 308-314۔نیز دیکھیے: ص 223- 232۔اگر میں ذاتی لحاظ سے عرض کروں تو مجھے بنيناھا بأيد کی روایتی تفہیم زیادہ آسان محسوس ہوتی ہے جس کے مطابق یہ آیت اللہ کی قوتِ تخلیق پر زور دے رہی ہے ،کہ اس نے آسمان جیسی مشکل چیز کو پیدا کرڈالا۔اس بات کی تائیدکلمۂ أيد کے استعمال سے ہوتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تنہا خدا نے آسمان کو بلا کسی کی مدد کے پیدا کیا، کیوں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے۔
(36) (لاہور: Wajidalis، 1982ء)۔
(37) نفسِ مصدر، ص 48۔بعید از قیاس ہونے کے علاوہ یہ تفسیر روایتی تفسیر کے روحانی لحاظ سے مالامال پہلوسے محروم معلوم ہوتی ہے جو بہت قوت سے انسان کو خداے برتر کی یاددلاتا ہے۔
(38) - ابراہیم بی سید در ایم اے کے لودھی، ادارت:Islamization of Attitudes and Practices in Science and Technology (Herndon, VA:The International Institute of Islamic Thought and the Association of Muslim Social Scientists, ، 1989ء)، ص 119۔