نقد و نظر
قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
― مجیب الرحمٰن شامی
پاکستان کے انتہائی ممتاز اور سنجیدہ دانشور وجاہت مسعود یہ خبر لائے ہیں کہ 12 مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قراردادِ مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا ہے کہ لیاقت علی خان جمہوریت پسند نہیں تھے، ان کی کم نگاہی نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو قوم پر کم و بیش آٹھ برس کا نادیدہ اقتدار سونپ دیا۔ مزید فرمایا گیا: لیاقت علی مغفور سمجھتے تھے کہ شبیر عثمانی سے ہاتھ ملا کے متحدہ ہندوستان میں مغل عہد کی تعلقہ دار نشانیوں کے لیے پاکستان میں غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ...
’’فرد “ اور ’’حق “ کے سیاسی تصور کا تجزیہ
― محمد عمار خان ناصر
جدید دانش نے غالب تہذیب کی جارحیت کو اخلاقی اور فکری جواز دینے کے لیے ایک فریب کاری یہ اختیار کی ہے کہ ’’فرد “ اور ’’حق “ کے ایک خاص تصور کو آفاقی تصورات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ مقدمہ یہ ہے کہ فرد، اجتماع سے مقدم ہے اور اس کے کچھ ’’حقوق’’ ہیں جو فرد کی حیثیت سے اس کو معاشرے سے پہلے حاصل ہیں۔ چنانچہ معاشرہ اور اجتماع پابند ہے کہ ’’فرد “ کے ان ’’حقوق“ کو لازمی طور پر تسلیم کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ یہ فلسفہ تاریخی اور منطقی، دونوں اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو واضح ہے کہ تاریخ کا کوئی ایسا مرحلہ ہمارے علم یا تخیل...
دعوت کی شریعت
― ڈاکٹر عرفان شہزاد
ہمارے محترم دوست، جناب ڈاکٹر محی الدین غازی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب، “میزان” میں بیان کردہ "قانون دعوت" پر نقد کیا ہے جو بعنوان، "قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟" ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصود غازی صاحب کے اس نقد کا تجزیہ کرنا ہے۔ غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف...
’’مقالات ایوبی‘‘ پر ایک نظر
― مولانا عبد الغنی مجددی
مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی آزاد کشمیر کے بزرگ علماء میں سے ہیں۔ انھوں نے جامعہ اشرفیہ میں متعددعظیم شخصیات سے علم حاصل کیا جن میں مولانا رسول خان اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی جیسی عظیم المرتبت شخصیات شامل ہیں۔ ایک عرصہ تک اسلام آباد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد کئی سال ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں تعلیم حاصل کی اور حرم مکہ کی برکات وفیوض سے فیضیاب ہوتے رہے۔ مکہ مکرمہ سے واپسی پر آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے میر پور کے ضلع مفتی مقرر کیے گئے اورریٹائر منٹ تک حکومت اور عوام کی شرعی راہ نمائی کرتے رہے۔ اس وقت موصوف...
’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۱)
― چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
(ہمارا تبصرہ کتاب ’’حیات سدید‘‘ پر ہے، زیر بحث شخصیت پر نہیں۔ کتاب میں زیر بحث شخصیت کا ہمیں پورا احترام ہے۔ البتہ سوانحی کتاب کے عنوان اور پھر اس پر تبصرہ کے لیے ہمارے عنوان سے شبہہ ہو سکتا ہے کہ ہم چوہدری نیاز علی کی حیات سے نا سدید پہلو پیش کر رہے ہیں۔ خاکم بدہن ایسا کیسے ممکن ہے۔البتہ کتاب کے مولف نے کتاب میں جو ناسدید سمت اختیار کی ہے، ہم نے اس پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی ہے۔ متوقع شبہہ کے ازالے کے لیے شروع ہی میں وضاحت لکھ دی ہے۔ مصنف)۔ ابتدائیہ۔ حیات سدید چوہدری نیاز علی خان کی سوانح ہے۔ یہ کتاب، حال ہی میں نشریات، ۴۰۔اردو بازار لاہور...
چند علمی مسائل کی وضاحت
― محمد عمار خان ناصر
’’الشریعہ‘‘ کے جولائی اور اگست ۲۰۰۱ء کے شماروں میں شائع ہونے والی میری تحریروں کے حوالے سے جدِ مکرم استاذِ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بعض امور کی طرف توجہ دلائی اور ان کی وضاحت کی ہدایت کی ہے۔ میں استاذِ گرامی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی پیرانہ سالی، علالت اور ضعف کے باوجود ازراہِ شفقت ایک طالب علم کی آرا پر تنقیدی نظر ڈالنے کی زحمت فرمائی اور اپنی علمی رہنمائی سے بعض آرا پر ازسرِنو غور و فکر اور بعض کی اصلاح کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو صحت و عافیت اور تندرستی سے نوازے اور...
غامدی صاحب اور خبرِ واحد
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے بارے میں ان کالموں میں کچھ گزارشات پیش کی تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ غامدی صاحب محترم ان مسائل پر قلم اٹھائیں گے اور ہمیں ان کے علم و مطالعہ سے استفادہ کا موقع ملے گا۔ لیکن شاید ’’پروٹوکول‘‘ کے تقاضے آڑے آگئے جس کی وجہ سے غامدی صاحب کی بجائے ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب نے ہماری ان گزارشات...
علماء اور سیاست
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خورشید احمد ندیم صاحب نے علماء کے سیاسی کردار پر تفصیلی بحث کی ہے اور اس نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے کہ علماء کرام کو عملی سیاست میں براہ راست رفیق بننے کی بجائے اصولی سیاست اور رہنمائی کی سطح تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنا چاہیے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کی پچاس سالہ سیاست کا تجزیہ کیا ہے کہ علماء کا عملی سیاست میں حصہ لینا علماء اور دین دونوں کے لیے فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنا ہے۔ جہاں تک علماء کے عملی سیاست میں فریق بننے یا نہ بننے کی بات ہے خورشید ندیم صاحب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ جائز و ناجائز کی بات نہیں بلکہ حکمت و تدبیر کا مسئلہ ہے۔...
مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
― معز امجد
پچھلے دنوں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون ”غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر‘‘ تین قسطوں میں روزنامہ ”اوصاف‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں مولانا محترم نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی بعض آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ مذکورہ مضمون میں مولانا محترم کے ارشادات سے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں ہے، تاہم ان کی یہ تحریر علمی اختلافات کے بیان اور مخالف نقطہء نظر کی علمی آرا پر تنقید کے حوالے سے ایک بہترین تحریر ہے۔ مولانا محترم نے اپنی بات کو جس سلیقے سے بیان فرمایا اور ہمارے نقطہء نظر پر جس علمی اندازسے تنقید کی ہے، وہ یقیناًموجودہ...
علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف تھے۔ اس لیے میں نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں مسلسل شائع ہونے والے اپنے کالم ’’نوائے قلم‘‘ میں ان کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس پر غامدی صاحب محترم کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم نے روزنامہ جنگ میں غامدی صاحب کے موقف کی مزید وضاحت کی جن پر میں نے ان کی چند باتوں پر روزنامہ اوصاف میں دوبارہ تبصرہ...
مجھے ان باتوں سے اتفاق نہیں
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پشاور کے سید وقار حسین صاحب نے ایک خط میں منیر احمد چغتائی صاحب آف کراچی کے اس مراسلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض افکار کے بارے میں میرے مضامین کے حوالہ سے گزشتہ دنوں روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا ہے۔ یہ مراسلہ میری نظر سے گزر چکا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں رکھ لیا تھا کہ اس کی بعض باتوں پر کسی کالم میں تبصرہ کر دوں گا۔ مگر وقار حسین کے توجہ دلانے پر اپنی ترتیب میں رد و بدل کر کے اس مراسلہ کے بارے میں ابھی کچھ عرض کر رہا...
مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ
― معز امجد
ماہنامہ ’’اشراق‘‘ مارچ ۲۰۰۱ء میں استاذِ گرامی کی بعض آرا سے متعلق مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی کے فرمودات اور ان کے حوالے سے ہماری معروضات شائع ہوئی ہیں۔ مولانا محترم نے استاذِ گرامی کی جن آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے ان میں سے ایک جہاد کے متعلق ہمارے استاذ کی رائے ہے۔ یہ بات مولانا محترم کے فرمودات ہی سے واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ’’کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔‘‘ اپنی معروضات میں ہم نے مولانا محترم کے ساتھ اپنے اختلاف کو واضح کرتے...
امام ابن تیمیہ، الجزائر کی جنگِ آزادی، اور جہادِ افغانستان
― ڈاکٹر محمد فاروق خان
پچھلے کچھ عرصہ سے مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تحریروں میں تین حوالے بار بار آ رہے ہیں۔ ایک دمشق پر تاتاریوں کے حملے کے دوران میں امام ابن تیمیہ کا کردار، دوسرے الجزائر کی جنگِ آزادی، اور تیسرے جہادِ افغانستان۔ چنانچہ یہ مناسب ہے کہ درجِ بالا تینوں معاملات کا تاریخی و نظریاتی جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ہمارے آج کے حالات میں ان سے کیا کیا سبق ملتے...
معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے جو گفتگو کچھ عرصے سے چل رہی ہے اس کے ضمن میں ان کے دو شاگردوں جناب معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ماہنامہ اشراق لاہور کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں کچھ مزید خیالات کا اظہار کیا ہے جن کے بارے میں چند گزارشات پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔معز امجد صاحب نے حسب سابق (۱) کسی مسلم ریاست پر کافروں کے تسلط کے خلاف علماء کے اعلان جہاد کے استحقاق (۲) زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی ممانعت (۳) اور علماء کے فتویٰ کے آزادانہ حق کے بارے میں اپنے موقف کی مزید وضاحت کی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر محمد فاروق خان نے (۱) شیخ الاسلام...
امریکہ، اسلام اور دہشت گردی
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ شمارہ میں اسلام آباد میں متعین امریکہ کے سفیر محترم جناب ولیم بی مائیلم کے ایک خطاب کا متن قارئین نے ملاحظہ کر لیا ہو گا جو انہوں نے گزشتہ دسمبر کے اوائل میں لاہور میں ارشاد فرمایا ہے، اور اس میں انہوں نے عام طور پر پائے جانے والے اس ذہن اور تاثر کو غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ اور عالمِ اسلام اس وقت ایک دوسرے کے حریف کے طور پر آمنے سامنے کھڑے ہیں، اور امریکی فلسفہ اور اسلام کے درمیان کشمکش دن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تصور غلط بلکہ خطرناک ہے اور ان کے خیال میں اس تصور کی بیخ کنی کرنا اور اسے...
میں، مغرب اور مغرب پرست طبقہ
― عمران خان
میں اس وقت سوچ میں پڑ جاتا ہوں جب میڈیا کا ایک مخصوص گروپ ایسے روایتی مغرب مخالف بنیاد پرست کے طور پر میری تصویر کشی کرتا ہے جو سیاسی قوت حاصل کرنے کے لیے پند و نصائح کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے آخری ۱۲ کروڑ جمع کرنے کی غرض سے مجھے عوام کے پاس جانا پڑا۔ اگر تاجر برادری اقتصادی بدحالی کی شکایت نہ کرتی، یا بال ٹمپرنگ کا تنازعہ کھڑا نہ ہوتا، تو مجھے ملک کے طول و عرض میں ۴۵ دن کا وعدہ کر کے عوام، دکانداروں اور طالب علموں، جو میری اصل قوت ہیں، سے مدد مانگنے کی ضرورت پیش...
قادیانی مکر و فریب کے تاروپود
― حسن محمود عودہ
(قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے سابق دست راست فلسطینی دانش ور حسن محمود عوده کے قبول اسلام کی تفصیل ”الشریعہ“ کے ایک گزشتہ شمارہ میں شائع کی جا چکی ہے۔ ذیل میں ایک امریکی نومسلم خاتون محترمہ جمیلہ تھامس اور حسن محمود عودہ کی گفتگو کا ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ محترمہ جمیلہ تھامس نے قبول اسلام کا اعلان کیا تو قادیانی جماعت نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ موصوفہ کو جناب حسن محمود عودہ کے ترکِ قادیانیت کا کسی ذریعہ سے علم ہو چکا تھا، اس لیے انہوں نے ان سے براہ راست ملاقات کر کے حالات معلوم کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور اس پس منظر میں...
1-0 (0) |