آپ فنِ تفسیر اور اصولِ تفسیر کیسے پڑھیں اور پڑھائیں!

مولانا محمد صدیق ابراہیم مظفری


بارہویں صدی ہجری کے اوساط میں دہلی کی فقید المثال شخصیت ملا نظام الدین بن ملا قطب الدین سہالوی متوفی ۱۶۱اھ رحمہ اللہ کی وساطت سے پاک و ہند میں علومِ اسلامیہ کی تعلیم و ترویج کا ایک نیا دور شروع ہوا کہ ملا صاحب نے مختلف علوم و فنون میں درجہ بدرجہ تعمیر و ترقی کے لئے ایک مستقل نصاب تعلیم ترتیب دیا، جس میں صرف، نحو، لغت اور استعدادی فنون کی تعلیم شروع کے درجات میں رکھی گئی، اور علومِ عالیہ یعنی عقیده، تفسیر، حدیث اور فقہ کی اعلیٰ تعلیم نصاب کے آخری مراحل میں طے پائی۔ ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ کا مرتب کردہ یہی نصابِ تعلیم بعد میں "درسِ نظامی" کے عنوان سے معروف ہوا اور پورے بر صغیر میں چھا گیا۔

نتائج کے اعتبار سے یہ نصابِ تعلیم بہت ہی حوصلہ افتر اثابت ہوا کہ اس کی وجہ سے تمام اہم اسلامی علوم و فنون ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہو گئے۔  اس سے بہت سے شائقین کو مختلف علوم و فنون میں بسہولت تعمیر و ترقی کے یکجا مواقع میسر آئے اور بر صغیر پاک و ہند کے علمی حلقوں میں فکری وحدت و سلامتی کے حوالے سے من جانب اللہ یہ ایک نعمتِ عظمیٰ ثابت ہوئی، بعد کے ادوار میں اگرچہ جزوی طور پر اس میں ترمیم و تبدیلی ہوتی رہی اور متعدد اہم کتب کو شاملِ نصاب کیا گیا، مگر اس کا عنوان اور اصل ڈھانچہ وہی باقی ہے، جو شروع میں تھا۔ 

درسِ نظامی میں داخلِ نصاب کتب سے متعلق ذیل کی یہ تحریر اس جذبے سے لکھی جارہی ہے کہ طلبہ کرام کے وقت کو کس طرح زیادہ سے زیادہ قیمتی بنایا جائے اور نصابی کتب سے بھر پور استفادے کی راہیں کس طرح ہموار کی جائیں ؟ 

ہم نے اپنی اس تحریر میں بطورِ خاص موجودہ دور میں ’’درسِ نظامی‘‘ کے تحت پڑھائی جانے والی کتب کو فنون کی ترتیب پر ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے ہم تفسیر واصولِ تفسیر کی داخلِ نصاب کتب کو ذکر کریں گے، اور اس کے بعد بالترتیب حدیث ،اصولِ حدیث اور دیگر فنون کی کتب کو ذکر کریں گے۔ اس دوران ہم نے پورے اہتمام کے ساتھ تمام کتب کے صحیح نام باحوالہ درج کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ بحیثیتِ فن کسی بھی کتاب کے مطالعہ سے پہلے اُس کا درست اور مکمل نام معلوم ہوناضروری ہے کہ اس سے ایک تو مؤلف کے وضع کردہ اصل نام کا پتہ چل جاتا ہے اور دوسرا یہ چیز اس کتاب کے تعارف اور منہجِ مؤلف کو سمجھنے میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ 

کتاب کے درست نام کے بعد اس کے منہج اور مواد پر مختصر انداز سے تبصرہ کیا گیا ہے، درسی حوالے سے اُس کے بہترین نسخے کی تعیین کی گئی ہے ، ہر کتاب کی چند اہم شروحات کے نام درج کیے گئے ہیں، اور گراں قدر درسی فوائد اور تجاویز کو مختصر الفاظ میں قلم بند کیا گیا ہے، جن میں سے بعض تجاویز ورمیان میں اور بعض فن کی جملہ کتب کے آخر میں ہیں۔ باقی درسِ نظامی کے فنون میں سے ہر فن کا مفصل تعارف اور اس فن کی داخلِ نصاب کتب میں سے ہر کتاب کے منجِ مؤلف اور شروح و حواشی و غیرہ کا تفصیلی بیان ہماری کتاب ’’قرۃ العيون في تعريف كتب المنہج النظامي والفنون‘‘  میں آئے گا ۔ ان شاء اللہ۔

علومِ قرآن / اصولِ تفسیر

اس فن کے تحت دو کتابیں ’’درسِ نظامی‘‘  میں داخل نصاب ہیں:

(۱) الفوز الکبیر

اس کتاب کے پہلے چار ابواب وفاق المدارس العربیہ کے تحت درجہ سادسہ میں داخلِ نصاب ہیں اور اس کا پورا نام ’’الفوز الكبير في أصول التفسیر‘‘ ہے۔  یہ پاک وہند کے معروف علمی وروحانی پیشوا امام الہند شیخ احمد بن عبد الرحیم المعروف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی ۱۷۶ اھ ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ، جو کہ اپنے حَجم کے اعتبار سے اگرچہ مختصر ہے، مگر فنِ اصولِ تفسیر میں نہایت جامع کتاب ہے ۔  اس کے کل پانچ ابواب ہیں، جن میں سے پانچواں باب (جو کہ قرآنِ کریم کے غریب المعنی الفاظ کی تشریح اور اسباب نزول کے بیان میں ہے اور مصنف نے اسے ’’ فتح الخیر ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے ، یہ باب) عربی میں ہے اور باقی مکمل کتاب فارسی زبان میں ہے، جس کا دار العلوم دیو بند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری (متوفی ۱۴۴۱ھ ) رحمہ اللہ اور دیگر کئی علماء کرام نے عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور اس وقت درس نظامی میں تقریباً ہر جگہ یہی عربی

ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔

کسی بھی کتاب سے صحیح طور پر استفادے کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم کے پاس اس کا ایسا نسخہ ہونا چاہیے کہ جو محقق بھی ہو اور سہل الاستفادہ بھی ہو ۔ نیز یہ نسخہ طالب علم کا اپنا ذاتی ہونا چاہیے تا کہ وہ دورانِ درس مختلف مباحث کو نشان زد کر کے اُن کی تنقیح و تحقیق کر سکے اور پھر زندگی بھر ان تنقیحات کی روشنی میں فن کے اندر اپنے علمی سفر کو مزید آگے بآسانی جاری رکھ سکے۔ اس حوالے سے ’’الفوز الکبیر‘‘  کے موجودہ نسخوں میں سے ’’مکتبۃ البشری کراچی‘‘ سے طبع ہونے والا نسخہ سب سے بہترین ہے، جو کہ حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ کی تعریب اور تعلیق پر مشتمل ہے اور اس کے عربی تراجم میں سے یہی بہترین اور مقبولِ خاص و عام ترجمہ ہے۔  البتہ ! دیگر ناشرین کی طرح مکتبۃ البشری نے بھی ’’الفوز الکبیر‘‘  کے صرف پہلے چار ابواب کو شامل اشاعت کیا ہے اور پانچویں باب کو شاید الگ عنوان اور الگ زبان پر مشتمل ہونے کی وجہ سے باقی چار ابواب کے ساتھ شائع نہیں کیا گیا۔ 

اس کے دیگر عربی تراجم میں سے شیخ محمد منیر ابن عبدہ دمشقی (متوفی ۱۳۶۷ھ ) رحمہ اللہ کا ترجمہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے اور اس کے اُردو مترجمین میں مولانا سعید احمد انصاری، مولانا محمد رفیق چودھری اور مولانا محمد اختر مصباحی شامل ہیں۔ 

اس کتاب کی عربی شروحات میں سے حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ کی شرح ’’العون الكبير‘‘ اور مولانا محمد الیاس گجراتی حفظہ اللہ کی شرح ’’روح القدیر‘‘ بہت بہترین ہیں۔ اور اس کی اُردو شروحات میں سے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی (متوفی ۱۴۲۹ھ ) رحمہ اللہ کی ’’عون الخبیر ‘‘  اور حضرت پالنپوری رحمہ اللہ کی  ’’الخیر الکثیر ‘‘  قابلِ ذکر ہے۔

(۲) التبیان

یہ وفاق المدارس کے تحت درجہ سابعہ میں مکمل کتاب داخلِ نصاب ہے اور اس کا پورا نام ’’التبيان في علوم القرآن‘‘ ہے۔  یہ عالمِ عرب کی مشہور اور معاصر علمی شخصیت شیخ محمد علی صابونی (متوفی ۱۴۴۲ھ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے علوم القرآن (اصولِ تفسیر) کی ابتدائی معلومات سے لے کر آخر تک کے مباحث کو بہت عمدگی کے ساتھ جمع فرمایا ہے، اور اسے انہوں نے گیارہ فصلوں پر مرتب کیا ہے۔  اس کتاب میں کافی مفید مواد جمع ہے، البتہ ! اس کی زبان ہماری عمومی کتب سے ہٹ کر قدرے مشکل اور لغتِ جرائد کی طرف مائل ہے۔

اس کے موجودہ نسخوں میں سے ’’مکتبۃ البشری ‘‘ سے طبع ہونے والا نسخہ تقریباً سب سے بہترین ہے ، جو کہ خود مؤلف رحمہ اللہ کے مختصر حواشی کے ساتھ مطبوع ہے ، چونکہ اس کتاب کو داخلِ نصاب ہوئے کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا، اس وجہ سے اس پر ابھی تک کوئی خاطر خواہ علمی کام بھی نہیں ہو سکا، اس کی موجودہ شروحات میں سے مولانا محمد آصف ندیم جھنگ شہری کی اُردو شرح ’’نسیم البیان‘‘ سب سے اچھی ہے۔ 

فائدہ

کسی بھی کتاب کو بحیثیتِ فن سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اس فن کی دیگر کتب کو پڑھے، اس سے مطالعے میں وسعت پیدا ہوتی ہے، فہم میں پختگی آتی ہے، اور یہ پتہ چلتا ہے کہ فلاں بحث کے بارے میں مؤلف کے علاوہ دیگر اہلِ فن کی رائے کیا ہے۔  کسی کتاب کی محض شروحات پر اکتفا کرنے سے آدمی محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور اس محدود فکری کی وجہ سے بسا اوقات موروثی علمی تسامحات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ 

اساتذۂ کرام اور ادارے کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہر فن کے طلبہ کو وسیع پیمانے پر اس فن کے اہم مصادر و مراجع مہیا کریں، اصولِ تفسیر کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ ان دو کتب کے ساتھ علامہ بدر الدین زرکشی (متوفی ۷۹۴ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’البرھان في علوم القرآن‘‘، علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الإتقان في علوم القرآن‘‘ اور شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب ’’علوم القرآن ‘‘  اور ’’مقدمہ معارف القرآن ‘‘  کو کم از کم ضرور مطالعہ میں رکھے، اس سے ان شاء اللہ علمی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔

باذوق طالب علم کے پاس درسِ نظامی کے فنون میں سے ہر فن کے لیے ایک مخصوص ڈائری ہونی چاہیے کہ جس میں وہ اس فن کے اہم مباحث کی تنقیحات درج کرتار ہے اور دورانِ تعلیم سامنے آنے والی اس فن کی کتب کی فہرست بناتا ہے۔  اس طرح کرنے سے طالب علم کے پاس ہر فن سے متعلق بہترین مواد جمع ہو جائے گا اور اس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔  اصولِ تفسیر کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنی اس کاپی میں فن کی دیگر کتب کے نام درج کرنے کے ساتھ ساتھ ’’الاتقان‘‘  کی فہرست کا نصابی کتب کے مباحث سے موازنہ ضرور تحریر کرے اور اس کی وجہ سے سامنے آنے والے فروق اور جدید اہم مباحث کو نوٹ میں لائے۔

ترجمہ و تفسیر قرآن

اس عنوان کے تحت دو اہم تفاسیر اور ایک بار مکمل قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر ’’درسِ نظامی‘‘  میں داخلِ نصاب ہے: 

(۱) ترجمہ و تفسیر قرآن کریم

مکمل قرآن کریم کا اُردو ترجمہ اور اس کی مختصر تفسیر درجۂ ثانیہ، ثالثہ، رابعہ اور خامسہ میں متفرق طور پر وفاق المدارس کے تحت داخلِ نصاب ہے، اور عام طور پر ان درجات کے طلبہ اور اساتذۂ کرام اُردو تراجم و تفاسیر کی مدد سے ترجمہ و تفسیر پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے تفسیرِ قرآن کی مبارک صف سے وابستہ طلبہ مفرداتِ قرآن کو الگ سے حل کر کے اُن کے معانی کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے محض اُردو تراجم و تفاسیر میں درج مفاہیم پر اپنے علم و تحقیق کا مدار رکھتے ہیں،  حالانکہ علمی اعتبار سے یہ عوام الناس کا درجہ ہے۔ چنانچہ اس کی وجہ سے اتنی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے ، مگر یہ مطلب ان الفاظ سے کس طرح مفہوم ہو رہا ہے اور ان میں سے کون سا لفظ کس معنی کی خبر دے رہا ہے ؟ اس کی طرف طلبہ کرام کی کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہو پاتی۔ 

یہی وجہ ہے کہ باطل پرست لوگ جب رُخ بدل بدل کر قرآنِ کریم کے حوالے سے مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نصوصِ قرآنیہ میں تحریف کر کے معاشرے میں انحراف والحاد کی راہیں ہموار کرتے ہیں، تو اس وقت عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل کی سوچ اسی جگہ جا کر ٹھہر جاتی ہے، جہاں پر عوام الناس کی رہنمائی کی خاطر لکھی جانے والی اُردو تفاسیر اور تراجمِ قرآن نے اُسے چھوڑا ہوتا ہے۔  اس سے آگے بڑھ کر اسلاف کے علوم سے گہری وابستگی کے نتیجے میں وہ اس حوالے سے اپنے طور پر کچھ نہیں کر پاتا۔ اگر یہی صورت حال چلتی رہی تو عنقریب ہمارے درمیان سے قرآنِ کریم کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے والے لوگ ختم ہو جائیں گے ! 

فہمِ قرآن کا ملکہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ علومِ عربیت میں مہارت حاصل کی جائے اور اسلاف کی کتب کی گہری مراجعت رکھی جائے۔ قرآنی آیات کے معانی و مطالب تک پہنچنے میں ہمارا عزیز طالب علم محض دوسروں کا مقلد بن کر نہ رہ جائے، بلکہ اس سلسلے میں خود محنت کرے، جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلے ہر لفظ کی صرفی، پھر لغومی اور پھر نحوی تحقیق کرے ،اس کے بعد علمِ بلاغت اور بدیع کی مدد سے اُس کے رموز کو حل کرے، اور آخر میں اسلاف کی کتب میں مراجعت کر کے اس کی مراد متعین کرے۔

قرآن پاک کے مفردات اور مشکل الفاظ کے حل میں متقدمین سے لے کر دورِ حاضر تک کے علماءِ تفسیر نے مستقل طور پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ ) رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإتقان في علوم القرآن‘‘ کی چھتیسویں فصل کے شروع میں اس حوالے سے فرمایا ہے: ’’أفردہ بالتصنيف خلائق لا يُحصون‘‘۔ اور معاصر عرب محقق ڈاکٹر فوزی یوسف حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’معاجم معاني ألفاظ القرآن الكریم‘‘  میں خاص اس موضوع پر لکھی جانے والی ایک سو آٹھ کتب کے نام مع مختصر تعارف ذکر کیے ہیں۔

لغات قرآن کے حل کے لیے طالب علم کو چاہیے کہ وہ کم از کم علامہ حسین بن محمد دامغانی (متوفی ۴۷۸ھ) رحمہ اللہ کی كتاب ’’الوجوہ والنظائر  في القرآن الكريم‘‘ ، امام راغب اصفہانی (متوفی ۵۰۲ھ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’المفردات في غريب القرآن ‘‘ ، سابق مدرسِ حرمِ مکی شیخ ابو بکر الجزائری (متوفی ۱۴۳۹ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير‘‘، اور اُردو زبان میں مولانا عبد الرحمن کیلانی (متوفی ۱۴۱۶ھ ) رحمہ اللہ کی منفرد تصنیف ’’مترادفات القرآن‘‘ کو ضرور دیکھے۔  بلکہ ان میں سے الوجوه والنظاہر ، ایسر التفاسیر اور مترادفات القرآن تو ہر طالب علم کی ذاتی ہونی چاہیے، اور اگر ممکن ہو ، تو اس کے ساتھ ساتھ دورۂ حدیث میں داخلِ نصاب کتبِ ستہ ( صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابی داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ ) وغیرہ کی ’’کتاب التفسیر‘‘  کی بھی مراجعت رکھی جائے، اس سے حدیث کی برکت حاصل ہو گی، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ اور صحابہ کرامؓ کے تفسیری فرامین کا علم ہو گا، اور یہی تفسیر کے میدان میں اصل چیز ہے۔  باقی نحومی اور بلاغی رموز کے حل کے لیے کم از کم شیخ محی الدین درویش ( متوفی ۱۴۰۳ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’إعراب القرآن و بیانہ‘‘ ضرور دیکھ لی جائے۔ 

نیز عربی تفاسیر میں سے کم از کم شہاب الدین آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھ ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی‘‘ کی، اور اُردو کتب میں سے حضرت مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ’’ترجمۂ قرآن‘‘ ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (متوفی ۱۳۶۲ھ ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’بیان القرآن ‘‘، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی (متوفی ۱۳۹۶ھ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ اور حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری (متوفی ۱۴۲۲ھ ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’انوار البیان ‘‘  کی ضرور مراجعت رکھی جائے۔ 

اس سلسلے میں تعمیر و ترقی کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ بطورِ خاص درجہ ثانیہ ، ثالثہ ، رابعہ اور خامسہ کا طالب علم ترجمۂ قرآن کے درس میں بیاض و الا قرآن اپنے سامنے رکھے، اُستاذ کی تقریر کی روشنی میں مفردات کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق وغیرہ تحریری طور پر اس میں درج کرے، اور اُن کے بتلائے ہوئے تفسیری فوائد نوٹ کرے، پھر درس سے فارغ ہونے کے بعد کم از کم درجِ بالا کتب کی روشنی میں اُس درس کی دوبارہ مراجعت کرے، اور اس دوران سامنے آنے والے نئے علمی فوائد کو اپنے پاس نوٹ کرلے، اس طرح کرنے سے قرآنی نصوص کے معانی و مطالب طبیعت میں راسخ ہو جائیں گے اور فہمِ قرآن کا عظیم ملکہ نصیب ہو گا۔ 

اساتذۂ کرام کو چاہیے کہ وہ درجہ ثانیہ سے ہی اس حوالے سے طالب علم کی ذہن سازی کریں، اسے بہتر سے بہتر منہج اپنانے کی سوچ دیں، اور اس کے وقت کو قیمتی بنانے میں اپنے اپنے حصے کا مؤثر کردار ادا کریں، جس کی ایک بہترین عملی صورت یہ ہے کہ اساتذۂ کرام عم پارہ پڑھاتے ہوئے نوٹس بورڈ پر مفردات حل کروائیں اور طلبہ کرام کو حل شدہ مفردات اپنی کا پہیوں میں درج کرنے کا مکلف بنائیں، اس سے ان شاء اللہ طلبہ کرام میں تحقیق اور جستجو کی عادت پڑ جائے گی۔ 

باقی یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قرآنی لغات کو حل کرنے کے لیے عام عربی لغات ناکافی ہیں، کیونکہ قرآنِ پاک کا ایک خاص اسلوب اور بدیع اندازِ بیان ہے ، جو کہ عام طور پر انسانی فہم و فراست سے بالا تر ہوتا ہے، اور دوسرا عام لغات کے ذریعہ قرآنِ پاک کی کسی تعبیر کا از خود مطلب متعین کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ قرآنِ پاک میں ایک ایک مادہ مختلف مقامات پر پانچ پانچ ، دس دس اور بارہ بارہ معافی کے لیے استعمال ہوا ہے ، اس لیے ماہرین علماءِ تفسیر کی کتب ہی بتا سکتی ہیں کہ کون سی جگہ اور کس سیاق میں یہ لفظ کس معنی کے لیے آیا ہے۔ 

مثال کے طور پر ’’ت، ب، ع‘‘،  یہ مادہ قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ سات معانی کے لیے آیا ہے: ( صحبت، اقتداء، اختیار، عمل، نماز، استقامت اور طاعت)، اسی طرح ماده  ’’خ، ف، ف‘‘  قرآن مجید میں پانچ معانی (معمولی چیز ، جوانی، آسانی، نقصان اور تخفیف) کے لیے استعمال ہوا ہے ،  اسی طرح ماده ’’ر، ء، ي‘‘ مختلف مقامات پر پانچ معانی میں،  مادہ  ’’ر، ج ، ع‘‘  آٹھ معانی میں، اور مادہ ’’ ر، ح، م‘‘ چودہ معانی میں استعمال ہوا ہے۔  [ دیکھیے: الوجوہ والنظائر للدامغاني + المفردات للأصفھاني] 

(۲) تفسیر الجلالین

قرآن کریم کی یہ مکمل تفسیر وفاق المدارس کے تحت درجۂ سادسہ میں داخلِ نصاب ہے اور یہ عربی زبان میں نہایت مختصر اور عمدہ تفسیر ہے ۔ اس کا انداز عام تفاسیر سے مختلف ہے ، اس میں قرآنی آیات کے بیچوں بیچ مشکل الفاظ کی تشریح، مجملات کی توضیح اور مہمات کی تعیین کی گئی ہے۔ مختلف آیات کے شانِ نزول ذکر کیے گئے ہیں اور فصاحت و بالاغت کے قواعد کی روشنی میں محذوفات کی تعین کی گئی ہے، مختلف تفسیری اقوال میں سے راجح قول کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، اور مختصر الفاظ میں ضروری اعراب اور مشہور قراءات کو بیان کیا گیا ہے۔ 

اس تفسیر کو دو مفسرین نے لکھا ہے اور دونوں کا لقب جلال الدین ہے، جس کی وجہ سے یہ " تفسیر الجلالین " کے نام سے مشہور ہو گئی ہے۔  باقی ان دونوں مصنفین نے اپنی تفسیر کا اصل نام کیا رکھا ہے، اس بارے میں کوئی تفصیل ہمیں نہیں مل سکی۔  مختصر نام کے طور پر اسے جلالین کے بجائے ’’تفسیر الجلالین‘‘ کہنا چاہیے ۔ 

اس میں سورۂ کہف سے لے کر سورۂ ناس تک، اور سورۂ فاتحہ کی تفسیر علامہ جلال الدین محمد بن احمد محلی (متوفی ۸۶۴ھ ) رحمہ اللہ کی تحریر کردہ ہے کہ شروع میں انہوں نے نصف آخر کی تفسیر لکھی، اور اس سے فارغ ہو کر نصف اول میں سے صرف سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھ پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر اُن کے انتقال کے چھ سال بعد علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ ) رحمہ اللہ نے تقریباً بائیس سال کی عمر میں چالیس دنوں کے اندر سورۂ بقرہ سے لے کر سورۂ بنی اسرائیل تک اس کا تکملہ لکھا۔ 

اس کے عرب و عجم میں مختلف محقق نسخے مطبوع ہیں۔  ہمارے ہاں موجودہ نسخوں میں سے "مکتبۃ البشری" سے طبع ہونے والا نسخہ سب سے بہترین ہے، اس کی عربی اور اُردوزبان میں متعدد شروحات لکھی گئی ہیں۔ عربی شروحات میں سے ملا علی قاری ( متوفی ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ کی ’’الجمالین‘‘، شیخ عطیہ بن عطیہ الأجهوری (متوفی ۱۱۹۰ھ ) رحمہ اللہ کی ’’الكوكب النبرین في حل ألفاظ [ تفسير] الجلالین‘‘ اور شیخ احمد بن محمد صاوی (متوفی ۱۲۴۱ھ ) رحمہ اللہ كى ’’بلغۃ السالك لأقرب المسالك‘‘ بہترین ہیں، جو کہ ’’حاشیۃ الصاوي علی تفسیر الجلالین‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے، اور اُردو میں دار العلوم دیوبند کے استاذ حضرت مولانا محمد جمال بلند شہری حفظہ اللہ کی شرح ’’جمالین‘‘مناسب ہے۔) 

تفسیر جلالین کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے دیگر عربی تفاسیر کی مراجعت کے ساتھ ساتھ کم از کم تفسیر جلالین ہی کے طرز پر لکھی جانے والی حضرت مولانا علامہ عبد العزیز پر ہاڑوی (متوفی ۱۲۳۹ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’السلسبيل في تفسير التنزیل‘‘ اور سابق مدرس مسجد نبوی شیخ ابو بکر الجزائری (متوفی ۱۴۳۹ھ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير‘‘ کو ضرور دیکھے۔ اور اُردو تراجم و مختصر تفاسیر میں سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (متوفی ۱۳۶۲ھ) رحمہ اللہ کے ترجمۂ قرآن و خلاصہ تفسیر، اور حضرت مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمۂ قرآن کی ضرور مراجعت کرے کہ ان دونوں حضرات کی بطور خاص بین القوسین کی عبارات اغراضِ جلالین کے حل میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ 

(۳) تفسیر بیضاوی

ویسے تو یہ مکمل قرآن پاک کی تفسیر ہے، مگر وفاق المدارس کے تحت درجۂ سابعہ میں اس کے جز اول کا صرف پہلا ربع در ساً‌ پڑھایا جاتا ہے۔ اس تفسیر کا پورا نام ’’أنوار التنزيل وأسرار التأويل‘‘  ہے۔ [خطبۃ المؤلف] 

یہ قاضی ناصر الدین عبد اللہ بن عمر بیضاوی ( متوفی ۶۸۵ھ ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآنِ کریم کے ہر ہر حرف، بلکہ ہر ہر نقطے کے معنی و مفہوم کو عربی کے قواعد اور شرعی اصولوں کی روشنی میں اُجاگر کیا ہے، اور فنِ تفسیر میں یہ منتہی درجے کے طلبہ کی کتاب ہے۔ مختصر نام کے طور پر اسے بیضاوی کے بجائے ’’تفسیر بیضاوی‘‘  کہنا چاہیے، کیونکہ بیضاوی مؤلف کی نسبت ہے، کتاب کا نام نہیں۔ ورنہ تو یہ ایسے ہو گا کہ جیسے تاویل کر کے ملتان کے رہنے والے کسی مصنف کی کتاب کو ’’ملتانی‘‘  کہا جانے لگے ! 

اس کے عرب و عجم میں مختلف محقق نسخے مطبوع ہیں، درسی حوالے سے ہمارے ہاں موجودہ نسخوں میں سے "مکتبۃ البشری" سے طبع ہونے والا نسخہ سب سے بہترین ہے ، جو کہ سندھ کے مشہور عالم مولانا عبد الکریم کورائی (متوفی ۱۳۶۳ھ ) رحمہ اللہ کے حواشی کے ساتھ مطبوع ہے۔ اس کے عربی اور اُردو میں متعدد شروح و حواشی لکھے گئے ہیں، اس کی عربی شروحات میں سے علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’نواھد الأبكار و شوارد الأفکار‘‘ اور شہاب الدین خفاجی (متوفی ۱۰۶۹ھ) رحمہ اللہ كا حاشیہ ’’عنايۃ القاضي وكفايۃ الراضي‘‘  بہت عمدہ ہے، جو کہ ’’حاشيۃ الشھاب علی تفسير البيضاوي‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔  اسی طرح تفسیر بیضاوی پر شیخ عبد الرحمٰن بن محمد شیخی زاده (متوفی ۱۰۷۸ھ ) رحمہ اللہ اور شیخ عبد الحکیم سیالکوٹی (متوفی ۱۰۶۷ھ ) رحمہ اللہ کا حاشیہ بھی شان دار ہے اور اول حلِ کتاب میں بہت زیادہ معاون ہے۔

اس کی اُردو شروحات میں سے دار العلوم دیوبند کے معقولات کے مشہور استاذ حضرت مولانا فخر الحسن گنگوہی (متوفی ۱۳۱۵ھ ) رحمہ اللہ کی شرح ’’التقرير الحاوي‘‘،  جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا منظور احمد نعمانی (متوفی ۱۴۲۳ھ ) رحمہ اللہ كى ’’الھديۃ النعمانيۃ‘‘، اور اُن کے عظیم شاگرد حضرت مولانا منظور الحق (متوفی ۱۴۰۴ھ ) رحمہ اللہ کی شرح  ’’النظر الحاوي‘‘   قابل ذکر ہیں ۔ ان میں سے اول الذکر علمیت سے خوب آراستہ ہے، مگر اس کی تعبیرات قدرے مغلق اور عبارات مکر رہیں۔ 

تفسیر بیضاوی کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اسے منطق کی کتاب سمجھ کر نہ پڑھے ، بلکہ اس کے اغراض و مقاصد کا بغور جائزہ لے، اپنے مصادر میں وسعت پیدا کرے ، دیگر تفاسیر کی مدد سے فنِ تفسیر کے رموز کو جاننے کی کوشش کرے، اور تفسیر بیضاوی کے لیے لغات القرآن سے متعلق کتب کے ساتھ ساتھ کم از کم فخر الدین رازی (متوفی ۶۰۶ھ ) رحمہ اللہ کی ’’التفسير الكبير‘‘ اور شہاب الدین آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھ ) رحمہ اللہ کی ’’روح المعانی‘‘ کی ضرور مراجعت رکھے۔ 

فائدہ (۱)

تفسیر قرآن کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ تفسیر پڑھنے سے پہلے اُصولِ تفسیر میں اچھی مناسبت پیدا کر لے اور پھر تفسیر پڑھنے کے دوران اصولِ تفسیر کی کتب کی ضرور مراجعت رکھے ۔ وفاق المدارس العربیہ کے حضرات کو چاہیے کہ وہ ترجمہ و تفسیر کے ابتدائی درجات سے ہی اصولِ تفسیر کے موضوع پر ہلکے پھلکے رسائل بطورِ نصاب شامل فرمادیں، تاکہ باذوق طلبۂ کرام تفسیر کے میدان میں بتدریج ترقی کی منازل طے کر سکیں۔

فائدہ (۲)

تفسیر قرآن کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ مستند کتبِ تفسیر کو مطالعہ میں رکھے ، بطورِ خاص تفسیری روایات کے حوالے سے مکمل احتیاط سے کام لے، اور حتی الوسع کوشش کرے کہ جید علماء کرام سے مشاورت کیے بغیر کوئی کتاب نہ پڑھے، کیونکہ بعض کتبِ تفسیر ایسی ہیں کہ ان میں رطب و یابس ہر طرح کی روایات جمع کر دی گئی ہیں ، جیسے ’’تفسیر مظہری‘‘ ہے کہ اپنے طور پر یہ ایک سمندر ہے، اس میں آیاتِ قرآنیہ کی بہت تفصیل کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے، اور بعض قصص و واقعات کی اس میں بہت شان دار تاویل ملتی ہے، مگر اس میں کثرت کے ساتھ ہر طرح کی تفسیر کی روایات بیان کی گئی ہیں، جن کو بغیر تحقیق کے آنکھیں بند کر کے ہر گز نہیں لیا جا سکتا، اور ان کی تنقیح و تحقیق اور جانچ پڑتال ہر طالب کے بس کی بات نہیں ہے، اسی نوعیت کی بعض دیگر عربی تفاسیر بھی ہیں کہ جو اُردو میں مترجم نہیں، جیسے ’’تفسیر ابی سعود‘‘ وغیرہ۔

روایات کی تنقیح کے حوالے سے اُردو تفاسیر میں حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری (متوفی ۱۴۲۲ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’انوار البیان‘‘  مناسب تفسیر ہے کہ اس میں تفسیر بالقرآن کے ساتھ ساتھ تفسیر بالحدیث کا بھی کافی زیادہ اہتمام کیا گیا ہے، اور تفسیری روایات نقل کرنے میں وسعت بھر تنقیح کی کوشش کی گئی ہے، جیسا کہ عربی تفاسیر میں سے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘  اس حوالے سے بہت عمدہ ہے۔ 


قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — جون ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — جون ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter