’’رسائل من القرآن‘‘ ادہم الشر قاوی کی تصنیف ہے جو کہ فلسطینی مصنف ہیں، لبنان کے شہر صور میں پیدا ہوئے، جامعہ لبنانیہ سے عربی ادب میں ایم فل کی سند حاصل کی ہے، مزید یہ کہ وہ اب تک 25 کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے 27 رمضان المبارک کو کمین الابرار یا کمین الزنہ میں دشمن کو ہدف نے بنانے کا منصوبہ بنانے کی ویڈیو نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ جائے نماز پر مجاہدین موجود ہیں اور اس پر دشمن کو نشانہ بنانے کا نقشہ بنا رہے ہیں، ہاتھ میں مسواک اور قلم اور ساتھ ایک کتاب موجود ہے جس کا نام رسائل من القرآن ہے۔
اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن حکیم کی ایک آیت ذکر کرنے کے بعد قاری کتاب کو عمدہ اسلوب کے ساتھ اس امر کی تعلیم دی گئی ہے کہ ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہونے کے بجائے، نعمتوں میں قلت کا شکوہ کیے بغیر، اپنے وسائل کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کی اس گاڑی کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھیں۔ اس میں اتنی جاذبیت ہے کہ اس کو پڑھنے والا شخص اپنے مصائب و مشاکل پر صبر کرنے کا عزم کر لیتا ہے، اپنے مقصدِ زندگی کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو جاتا ہے۔
صاحبِ کتاب سے جب سوال کیا گیا کہ کتائب القسام کے مجاہدین نے اس کتاب کی تشہیر کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا، مجاہدینِ غزہ صاحبِ فراست ہیں، ان کا ہر عمل عالمِ اسلام و باضمیر لوگوں کے لیے نصیحت کا سبب بن رہا ہے، انہوں نے اہلِ غزہ کو یہ پیغام دیا کہ جنگ کی طوالت کے باوجود ہم نے قرآن ہی سے اپنا رشتہ جوڑے رکھنا ہے، اور پورے عالم کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا ہر عمل قرآن ہی کے سائے میں کیا جا رہا ہے۔
اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر راقم الحروف نے ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے، تاکہ اردو دان طبقہ بھی اس عظیم الشان کتاب سے مستفید ہو سکے، جو اپنے اندر امید کی بہاریں لیے ہوئی ہے۔ ذیل میں کتاب کے آغاز سے چند صفحات جبکہ کچھ درمیان سے صفحات کا انتخاب کر کے ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
(۱) اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ
یہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے انہی کے راستے پر چلو۔
اے اللہ! جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہے، میں اس کی ادائیگی سے قاصر ہوں، حضرت داؤدؑ کی طرح روزوں کی پابندی کرنے سے عاجز ہوں، میں صبرِ ایوبؑ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا،
اور نہ ہی حضرت یونسؑ کی طرح تسبیح و تعریف کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی حضرت یحیٰی کی طرح اپنے دین کو تھامنے کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی غصِ بصر کے اس معیار تک پہنچ سکتا ہوں جس طرح حضرت یوسفؑ نے اس کا حق ادا کیا ہے، اور نہ ہی اتنا بڑا دل رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرح اپنے دشمنوں سے کہوں کہ تم آزاد ہوچکے ہو، لیکن ان کی طرح میں بھی تیری محبت کا (اظہار / دعویٰ) کرتا ہوں۔
(۲) ورسلا قد قصصنٰھم علیک
اگر عامۃ الناس تیری قدر قیمت سے نا آشنا ہیں تو تجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اس لیے اللہ تیری قدر و منزلت سے خوب آگاہ ہے۔
حضرت نوحؑ کے میزان میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم ان کو جانتے ہیں، اور نہ ہی ان کے بارے میں ہماری عدمِ آگاہی سے ان کی شان میں کوئی کمی واقع ہوگی۔
ہارون رشید کی فوج میں 20 ہزار مجاہدین نے اپنے نام اس لیے درج نہیں کروائے اور نہ ہی معاوضہ وصول کرتے تھے تاکہ ان کا عمل خالصۃ اللہ ہی کے لیے ہو۔
سائب بن اقوع نے حضرت عمرؓ کو تھاوند میں مسلمانوں کی شہادت کی اطلاع دی، لوگوں کے سامنے ان کی قیادت اور معروف شخصیات کے اسما گرامی پیش کرنے کے بعد کہا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا۔ (یہ جملہ سن کر) حضرت عمرؓ رونے لگے اور کہا، ان کی پیش کی گئی خدمات پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ان کو نہیں پہچانتا، لیکن اللہ رب العالمین ان سے خوب واقف ہے۔
(۳) ان الحسنات یذھبن السیئات
جب تم سے گناہ سرزد ہو تو اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہیے کہ میں معرکہ میں تو شکست کھا لی ہے، لیکن جنگ کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔ لہٰذا مایوسی کے قریب آئے بغیر وضو کا عمل کیجیے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں، اس کے بعد اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے سے مغفرت طلب کیجیے۔ اپنی آنکھوں کی پاکیزگی کے لیے دیکھ کر قرآن حکیم کی تلاوت کیجیے، اطاعت گزار بندوں کی مانند اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اپنے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ غفور ہے تاکہ انسان اس کا دامن تھامے رکھے۔
(۴) بل الانسان علیٰ نفسہ بصیرۃ
اگر ان اوصاف پر تیری مدح سرائی کی جائے جو تجھ میں موجود نہ ہوں تو اس کا ہرگز آپ کو فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اگر تیری ان کمزوریوں پر مذمت کی جائے جو تجھ میں نہیں ہے تو ناقدین کی تنقید تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ اور جب انسان خیر کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کو ناپسند کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام کو بھی اس سے استثنا حاصل نہیں رہا۔ اور جب کوئی انسان فسق و فجور کی طرف بلاتا ہے تو معاشرے میں ایسے لوگوں کے بھی چاہنے والے موجود ہوتے ہیں، جس طرح فرعون و نمرود کو چاہنے والے تھے۔
مطرف بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام مالکؒ نے پوچھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا، آپ کے دوست آپ کے حق میں ہے، اور آپ کو ناپسند کرنے والے آپ کے حوالے سے اپنا غصہ نکالنے میں لگے رہتے ہیں۔ امام مالکؒ نے فرمایا، اچھا ہے لوگوں میں یہ روش ابھی بھی برقرار ہے، ہم اس امر سے پناہ چاہتے ہیں تمام لوگوں کی زبان ہمارے حق میں یا مخالفت میں یکجا ہو جائے۔
(۵) واٰتاکم من کل ما سألتموہ
وہ اللہ رب العالمین ہی کی ذات ہے جو انسانوں کو خوف سے نجات دیتی ہے، جو لاچار اور کمزور ہیں ان کو ہمت عطا فرماتا ہے، جو اس سے مدد کے طالب ہیں وہ ان کی نصرت کرتا ہے۔ جو غموں کو مداوا کرتا ہے، وہ اس شخص کو راہِ مستقیم دکھاتا ہے جو اس کا طالب ہو۔ اس لیے رات کے آخری پہر میں ۔۔ اس وقت دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتا۔ اس بات پر یقین رکھو کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ یہ انعامات حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ تمہارا طعام حلال ہو، اسی امر کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حلال رزق کی بدولت اللہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔
(۶) عسیٰ ربنا ان یبدلنا خیرا منھا
اس آیت کے توسط سے اپنی ان حسرتوں کی آگ کو بوجھاؤ جو ابھی حاصل نہیں ہو سکیں یا ان کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی میں جو مختلف مصائب و مشاکل آئی ہیں، یا آپ کے قریبی دوست نے آدھے راستے میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ آیت ان دکھوں کا مداوا بنتی ہے۔ اس لیے اللہ اپنی حکمت سے ہی بندے کو دیتا ہے اور لے بھی لیتا ہے۔ جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اس کی رحمت ہے، اگر اس کی حکمت کا علم ہو جائے تو اس کا شکر بجا لاؤ، بصورتِ دیگر صبر کا دامن تھامے رکھو۔ کیونکہ اللہ کے فیصلوں میں خیر ہی ہوتی ہے اگرچہ عارضی طور پر اس سے آپ کو تکلیف ہو۔
(۷) وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین
حضرت آدمؑ وحوا کو اس امر کا علم نہ تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کے ذریعے ان کو جنت میں ہمیشگی پر آمادہ کر دے گا، لیکن ابلیس نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ برائیوں کو پرکشش بنانے کے لیے ان کے نام تبدیل کرتا رہتا ہے۔ جس طرح اس نے حضرت آدم و حوا کو ممنوعہ درخت کے پاس جانے کو جنت میں مستقل اقامت کی نوید سنائی۔
ہوشیار رہو! آج بھی شیطان اور اس کے ساتھیوں کا یہی طریقۂ واردات ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ شراب نوشی روح کی غذا ہے، برہنگی ایک فیشن ہے، زنا میں کشادگی ہے، اس لیے بیدار رہیے کہ کہیں شیطان تمہیں پرکشش ناموں سے راہِ راست سے نہ پھسلا دے۔
(۸) وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین
مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے آپس میں مقابلہ کرو اس لیے کہ موت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ انسان یہ کہتا رہتا ہے کہ میں کل توبہ کر لوں گا، کل سے پڑھنے کی ترتیب بنا لوں گا، لیکن جیسے ہی کل آتی ہے تو انسان اپنے گزشتہ کیے گئے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے سے قاصر رہتا ہے۔ لمبی امیدوں کی بدولت ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موت آنے میں ابھی کافی وقت ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اس لیے کہ موت کی آمد میں کوئی شئی حائل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے خیر کے کاموں میں مسابقت کرو۔
حضرت صنابحیؒ فرماتے ہیں کہ ہم یمن سے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو خبر دی گئی کہ آپ ﷺ پانچ دن قبل رحلت فرما چکے ہیں۔ پانچ دن کی تاخیر نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے محروم کر دیا۔ لہٰذا بھلائی کے امور میں مسابقت کو اپنے وطیرہ بنا لو، ایسا نہ ہو کہ سستی و غفلت تمہیں جنت سے محروم کر دے۔
(۹) ولا یجرمنکم شنان قوم علیٰ الا تعدلوا
بغیر مشروط محبت و بغض ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کو ان دونوں صورتوں سے سابقہ پیش آیا۔ ان کے بھائیوں نے حسد کی بنا پر ان کو کنویں میں پھینک دیا، اور ملکہ مصر کی ان سے انتہا درجے کی محبت سیدنا یوسفؑ کے جیل جانے کا سبب بنی۔
کبھی کبھی ہم اپنے دلوں میں پیدا ہونے خیالات پر عمل کرنے کے حوالے سے بے باک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلم کسی کی پسند و ناپسند میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ تمہاری کسی سے بے جا محبت محبوب کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب نہ بن پائے۔ اور نہ کسی سے انتہا درجے کی نفرت اس فرد کی اچھائیوں کو برائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب بنے۔ عادل رہتے ہوئے ہر شئی کو اس کے مقام پر رکھیے۔
عبد اللہ بن محمد الوراقؒ فرماتے ہیں کہ ہم امام محمدؒ کے پاس گئے، انہوں نے ہم سے پوچھا، تم کہاں سے آرہے ہو؟ ہم نے جواب دیا، ابی کریبؒ کی مجلس سے۔ امام محمدؒ نے کہا، ان سے روایات لے کر تحریراً محفوظ کر لو اس لیے کہ وہ نیک بندے ہیں۔ ہم نے تعجب سے کہا کہ وہ تو آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ امام محمدؒ نے فرمایا، وہ اللہ کے نیک بندے ہیں، میرے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
(۱۰) ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملھم قلت لا اجد ما احملکم علیہ تولوا واعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون
غزوہ تبوک کے موقع پر ابولیلیؓ اور عبد اللہ بن مغفلؓ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور سواری کا مطالبہ کیا تاکہ اس پر جہاد میں شامل ہوا جا سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سواری تو دستیاب نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر اس حال میں واپس پلٹ رہے تھے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں۔ یہ صحابہ کرامؓ کی ایمانی کیفیت تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے عدمِ شرکت پر غم کی حالت میں آنسو سے تر آنکھوں کو رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے پلٹ رہے تھے، ذرا سوچو! معصیت کے کاموں سے رکنے میں کیسے فولادی قوت کے حامل ہوں گے۔
(۱۱) ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم
اللہ رب العالمین بہت سی ان صفات کو اپنے بندے کی شخصیت میں دیکھنا چاہتا ہے جو اسے بھی محبوب ہیں۔ ان میں ایک عفو درگزر بھی ہے۔ اس کو وہ بندے زیادہ محبوب ہیں جو اس کو عفو و درگزر کے حامل ہوں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے یومیہ مالی صدقہ دینے کی ترغیب دی، یہ سن کر ایک صحابی حضرت علبہؓ بن زید جو مالی صدقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے (لیکن رسول اللہ ﷺ کی ہدایت پر عمل کرنے کا جذبہ دیکھیے) وہ آپ ﷺ کی مجلس میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ آج سے میں اپنی عزت کو بطور صدقہ پیش کرتا ہوں۔ یعنی جو شخص بھی مجھ پر ظلم کرے گا میں اس کو معاف کر دوں گا۔
دوسرے روز رسول اللہ ﷺ نے حضرت علبہؓ بن زید کے بارے میں معلوم کیا۔ آپؓ نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ میں یہاں ہوں۔ آپ ﷺ نے ان کو بشارت سناتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔
(۱۲) قال یا بنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک
انسانی تاریخ میں سب سے مشکل اور پرکٹھن امتحان حضرت ابراہیمؑ کا تھا کہ سن عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ان کی اولاد نہ تھی۔ جب اللہ رب نے عمر کے اس حصے میں اولاد سے سرفراز فرمایا تو اللہ رب العالمین کی جانب سے حکم آیا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ انبیاء کے خواب وحی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے تاخیر کیے بغیر اس حکم کو نافذ کرنے لگے، اگرچہ وہ خواہش کے برخلاف تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اللہ کو اپنی ذات پر مقدم رکھا۔ اللہ جو ارحم الراحمین ہے، اس عمل سے یہ نہ چاہتا تھا کہ اس کے دوست کا نام ان لوگوں میں شمار کیا جائے جو اپنی اولاد کو ذبح کر دیتے ہیں۔ لیکن اس حکم کی حکمت یہ تھی جب حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد حضرت ابراہیمؑ کا دل ان کی طرف مائل ہونے لگا تو اللہ نے ان کو آزمائش کے طور پر ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بہت سے دل ایسے ہوتے ہیں جن کے حوالے سے اللہ یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ کسی اور کے لیے دھڑکیں۔ اس لیے اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔
(۱۳) وقدمنا الیٰ ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا
اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔
حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز بندے کو نامۂ اعمال دیا جائے گا، تو اس میں صلاۃ اور صیام اور اعمالِ صالحہ کے اجر سے خالی پائے گا۔ یہ دیکھ کر وہ فریاد کرے گا اے اللہ! یہ تو میرا اعمال نامہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں میرے کیے گئے اعمالِ حسنہ کا اجر موجود نہیں ہے، شاید کسی اور کا اعمال نامہ مجھے دیا گیا ہے۔ اس سے کہا جائے گا (یہ تو تیرا ہی اعمال نامہ ہے) اس لیے کہ تیرے رب سے نہ کوئی شئی مخفی رہتی ہے اور نہ وہ بھول سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا نامہ اعمال حسنات سے اس لیے خالی ہے کہ تو نے اپنی حیات میں نیکیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پس پشت برائیاں کیں اور ان کے عیوب کو ظاہر کرتا رہا۔
اس لیے ہر شخص کو چوکنا رہنے چاہیے کہیں تمہاری عبادات دوسروں کے لیے نعمت یعنی ان کے نامہ اعمال میں حسنات کے اضافہ کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نیکیاں اس شخص کے نامہ اعمال کی زینت بن جائیں جن کی امیدوں کی تکمیل میں تم نے روڑے اٹکائے ہوں، یا جن کا مالک ہڑب کیا ہو، یا جن کی عزت نفس مجروح کی ہو، یا مختلف واسطوں سے کسی عہدے پر قبضہ کر کے حق دار کا حق مارا ہو۔
(۱۴) وتوبوا الی اللہ جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ بندے کے لیے سب سے بہترین ایام وہ ہیں جن میں وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو پکارنے والا پکارتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے رب سے صلح کر لی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی قریبی دوست ناراض ہو جاتا ہے تو اس کو راضی اور منانے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے جاتے ہیں تاکہ دوستی بحال ہو جائے اور ناراضگی کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اللہ رب العالمین اس بات سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کو راضی کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جائیں۔ اگر آپ سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو چکا ہو جس سے تیرے دل میں اللہ کی محبت متاثر ہوئی ہو تو اس کو راضی کرنے کے لیے (شریعت کی ہدایت کے مطابق) متنوع طریقے استعمال کرو، جس طرح دنیا میں اپنے دوست کو راضی کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہو، اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے صدقہ، استغفار کے ساتھ نمازوں کے پابندی اور قرآن مجید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔
(۱۵) قرت عین لی ولک
یہ الفاظ آسیا بنت مزاحم کے ہیں جو انہوں نے اپنے شوہر فرعون سے اس وقت کہے تھے جب انہوں نے صندوق میں حضرت موسٰیؑ کو پایا۔ فرعون نے اس وقت یہ کہا تھا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرعون کے اس قول پر ارشاد فرمایا کہ اگر فرعون موسٰیؑ کو اپنی بیوی کی طرح آنکھوں کی ٹھنڈک بنا لیتا تو اللہ اس کی برکت سے اس کو ہدایت سے سرفراز کر دیتا۔ لیکن اللہ نے اس کی عدمِ رغبت کے سبب اس کو ہدایت سے نہیں نوازا۔
لہٰذا جو شخص کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرتے وقت دل میں یہ خیال کرے کہ اس کو اختیار کرنے میں خسارہ ہو گا تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ انسان کو اس کی نیت کے مطابق عطا کیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرتے وقت یہ نیت رکھتا ہو کہ اس نکاح سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا تو اس کے نصیب میں وہی کچھ لکھا جائے گا جو اس نے سوچا ہوگا۔ اس لیے اپنے گمان اور گویائی کو اچھے انداز میں استعمال کرو اس لیے کہ بسا اوقات انسان کو اس کے قول کے مطابق نوازا جاتا ہے۔