قرآن کے متن کی حفاظت اور استناد سے متعلق گزشتہ دنوں جو بحث چھیڑی گئی، اس میں کسی دوست کی پوسٹ میں اختلافات قراءت کے حوالے سے یاسر قاضی صاحب کا یہ تبصرہ پڑھا کہ عمومی طور پر اہل علم کی طرف سے اس مسئلے کی جو تفہیم بیان کی جاتی ہے، اس میں کچھ خلا ہیں اور وہ آج کے تعلیم یافتہ اور تاریخی معلومات رکھنے والے ذہن کو مطمئن نہیں کرتی، اس لیے اس سوال کو بہتر انداز میں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے خیال میں یہ بنیادی طور پر درست تجزیہ ہے، البتہ اس تجزیے کا معروض اصلاً مروج دینی تعبیرات یا مواقف کو قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ جہاں تک اعلیٰ سطحی علمی روایت کا تعلق ہے تو اس کی صورت حال ہماری رائے میں مختلف ہے۔ بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سوال کا تعلق دراصل دینی روایت کے اس عمومی انتظام سے بنتا ہے کہ بہت سی چیزوں کی ایک تفہیم عام مسلمانوں کی ذہنی سطح اور استعداد کے لحاظ سے کر دی جائے جو ان کی دینی ضروریات کے لیے کافی ہو، جبکہ علمی سطح پر اس مسئلے کی جو پیچیدگیاں ہیں، ان پر گفتگو اہل علم تک محدود رہے اور عام مسلمانوں کو تفصیلات میں زیادہ نہ الجھایا جائے۔
یہ طریقہ قرآن مجید کے متن کی قراءت کے علاوہ دیگر معاملات مثلاً دینی اعتقادات کی تشریح، قرآن اور حدیث کے براہ راست مطالعہ، صحابہ کے دور کے سیاسی اختلافات اور فقہی مسائل میں اجتہاد وغیرہ کے حوالے سے بھی اختیار کیا گیا اور خاص تاریخی حالات میں عملاً کارگر بھی رہا ہے۔ تاہم جدید دور کی بنیادی تبدیلیوں، خصوصاً معلوماتی انقلاب اور عام آدمی کے لیے خود غور وفکر اور فیصلہ کرنے جیسے رجحانات کے زیر اثر یہ بندوبست زیادہ موثر نہیں رہا۔ ان تبدیلیوں کے پیش نظر مذکورہ تمام دائروں میں اہل مذہب کے مواقف اور انداز فکر میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے اور عام آدمی کے لیے معلومات یا قابل غور سوالات کی تحدید کا زاویہ نظر سکڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
تجربہ یہی ہے کہ جدید عہد کے پیدا کردہ سوالات کا سامنا کرنے کے لیے جہاں بھی اپالوجیٹک طرز فکر اختیار کیا گیا ہے، چاہے وہ دینی مصادر کے دائرے میں ہو یا اسلامی تاریخ یا مذہبی وفقہی احکام کے دائرے میں، اس کا الٹا ہی اثر مرتب ہوا ہے، کیونکہ ہر طرح کی معلومات تک رسائی کی وجہ سے جب تاریخی معلومات مختلف شکل میں تنقیدی ذہن رکھنے والے فرد یا طبقے کے سامنے آتی ہیں تو اس سے ’’مستند’’ مذہبی بیانیوں اور مواقف کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ علمی اخلاقیات اور دعوت کی حکمت عملی، دونوں لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ گمراہی اور انتشار کے ڈر سے عام آدمی کے علم اور معلومات کے ’’حدود’’ طے کرنے اور فتوے بازی کے ہتھیار سے مخصوص مواقف کی ’’اجارہ داری’’ برقرار رکھنے کی سعی لاحاصل چھوڑ کر دینی روایت کے اعلی سطحی مباحث کو، جنھیں علمی اشرافیہ کے لیے خاص مانا جاتا ہے، عام تعلیم یافتہ ذہن کے لیے صحیح تناظر میں قابل فہم بنانے کی کوشش کی جائے۔ دور انتشار میں انتشار کو مصنوعی طریقوں سے روکا تو نہیں جا سکتا، لیکن بہتر حکمت عملی سے اس کے مفاسد کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم