دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں

محمد عمار خان ناصر

خود بھی بے خود ہوں کہ یہ سارا جہاں رکھتا ہوں میں؟

ایک لمحہ ہوں کہ عمر جاوِداں رکھتا ہوں میں؟


گو کہ اب باقی نہیں وہ حیرتوں کی جستجو

دِل کے بہلانے کو شوقِ رائیگاں رکھتا ہوں میں


بے غرض رہتا ہے بس تفریقِ خویش وغیر سے

اپنے سینے میں جو احساسِ زیاں رکھتا ہوں میں


حسرتوں کے ساتھ اب یہ نفرتوں کے بوجھ بھی؟

اتنی طاقت اے دلِ ناداں! کہاں رکھتا ہوں میں


جس کا ہر اک رَاہرو تنہا ہوا گرمِ سفر

اَن گنت صدیوں میں پھیلا کارواں رکھتا ہوں میں


اِس کے صدقے دیکھ سکتا ہوں اُفق میں دُور تک

دل میں اِک جو یادِ خاکِ رَفتگاں رکھتا ہوں میں


زبان و ادب

(فروری ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter