بیسویں صدی سامراجی اقوام کے غلبے کے خلاف بغاوت کی صدی تھی۔ بغاوت اور انقلاب کے لیے محکوم اقوام کو جس سطح کے جوش و جذبے اور اعتماد کی ضرورت تھی، ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے سے اسی سطح کے جوش و جذبے اور حریت پسندی کو محکوم اقوام کا شعار بنا دیا۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف کا اردو ادب بھی ایسی تخلیقی کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ اسی صدی کے دوسرے نصف میں نو آزاد اقوام کے سامنے اپنی آزادی کی بقا کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کی دریافت کا مہیب مسئلہ آ کھڑا ہوا تو ادیبوں اور شاعروں نے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایک بار پھر اپنا کردار نہایت سرگرمی سے ادا کیا۔ اردو ادب میں جن شعرا اور ادبا نے اس سلسلے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں، احمد ندیم قاسمی ان میں بہت بڑا اور نہایت معتبر نام ہے۔ واضح ترقی پسند رجحانات کے باوجود احمد ندیم قاسمی اپنے ہم عصر ترقی پسندوں کے مانند خارجیت کے اسیر نہیں رہے۔اس لیے ندیم کی شاعری اور نثر میں حقیقت نگاری کے ہمراہ تخیل کی طلسمی فضا بھی موجود ہے ۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے موضوعات ، اور پھر جس طرح انھوں نے ان موضوعات کے ساتھ انصاف کیا ، اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ وہ جہاں مقتضیاتِ فن سے آگاہ تھے، وہاں انھیں ادیب اور شاعر کے منصب کے سماجی تقاضوں کا بھی بھر پور ادراک حاصل تھا۔ ندیم جانتے تھے کہ نوآزاد اقوام کی بقا اور ان کی مقامی ثقافت کی دریافت کے لیے جوش و جذبے کی نہیں بلکہ ہوش، متانت اور تحمل کی ضرورت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ندیم کی شاعری اور افسانے ، نعروں میں نہیں ڈھل سکے۔ المیہ یہ ہے کہ سنگ زنی کرنے والے یار لوگ، شاعری اور نثر کی اس سطح کو ہی معیار مانے ہوئے ہیں جو نوآبادیاتی دور کی پیداوار اور ضرورت تھی، حالانکہ اب اسے اعزاز کے ساتھ دفنا دیا جانا چاہیے ۔
احمد ندیم قاسمی کے مخالفین انھیں ترقی پسندوں کی صف میں کھڑا کرکے ان کی تخلیقات کو ایک خاص زاویے سے دیکھتے ہیں، اس لیے دنیا اور زندگی میں کوئی فرق قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ندیم کی شاعری اور افسانوں میں دنیا نہیں بلکہ زندگی کا بیان ہے۔ زندگی سے یہی رغبت ان کے تخلیقی رویے کی اصل روح ہے ۔ دیہات اور اس سے وابستہ ایک خاص ثقافت حقیقت میں زندگی کی علامات ہیں ۔ یہ علامات ندیم کے قاری کو ڈھونڈنی نہیں پڑتیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زندگی ہر دم ، شہیدِ التفات نہیں رہتی۔ یہ درد اور چوٹیں بھی پہنچاتی ہے۔ انسان کو آنسوؤں کے مزار پر بھی لا بٹھاتی ہے ۔ ایسے مزار کی مجاوری کے لیے ترقی پسند ہونا شرط نہیں، انسان ہونا کافی ہوتا ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ احمد ندیم قاسمی جیسا ترقی پسند انسان ، انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور پھر اس استحصال کو فنکارانہ سطح پر داد وتحسین کی خاطر فنی معانی پہنائے جانے پر قدرے تلخ ہو کر کچھ یوں کہہ سکتا ہے :
کب تک میں روایات کی بات کرتا
فاقوں میں کرامات کی بات کرتا
تم زخم کو بھی پھول سمجھ لیتے ہو
کب تک میں کنایات کی بات کرتا
زندگی اور زندگی کے حقائق کو دھیمے، متین، سنجیدہ اور شائستہ لہجے میں بیان کرنے والا اردو ادب کا یہ عظیم شاعر اور ادیب ۱۰ جولائی ۲۰۰۶ کے سورج کی شعاعوں سے الجھتے ہوئے اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
دن شعاعوں سے الجھتے گزرا
رات آئی تو کرن یاد آئی