کس منہ سے کروں شکر ادا تیرا خدایا
اک بندۂ ناچیز کو گھر اپنا دکھایا
واللہ اس اعزاز کے قابل میں کہاں تھا
یہ فضل ہے تیرا کہ مجھے تو نے بلایا
جس گھر کے ترے پاک نبی نے لیے پھیرے
صد شکر کہ تو نے مجھے گرد اس کے پھرایا
لگتا نہ تھا دل اور کسی ذکر میں میرا
لبیک کا نغمہ مجھے اس طرح سے بھایا
مزدلفہ وعرفات ومنیٰ وصفا مروہ
ہر جا تری رحمت نے گلے مجھ کو لگایا
ہوتی رہی بارش تری رحمت کی بھی چھم چھم
مجھ کو بھی بہت میری ندامت نے رلایا
محشر میں بھی رکھ لینا بھرم اپنے کرم سے
جیسے میرے عیبوں کو ہے دنیا میں چھپایا
محشر میں بھی کوثر کا مجھے جام عطا ہو
جیسے یہاں پانی مجھے زم زم کا پلایا
جیسے یہاں سایہ ترے کعبے کا ملا ہے
محشر میں بھی حاصل ہو ترے عرش کا سایا
مت پوچھیے مکے میں جو گزرے مرے ایام
ہر آن نیا کیف نیا لطف اٹھایا
مکے سے مدینے کے سفر کو جو میں نکلا
بے نام سا اک خوف تھا دل پر مرے چھایا
ہمت نہیں پاتا تھا کروں سامنا ان کا
ہر پل تو بغیر ان کی اطاعت کے گنوایا
وہ تو کہو یاد ان کا کرم آ گیا مجھ کو
ہر رنج والم دل سے لگا اس نے مٹایا
رفتار تھی اس شوق کی پھر دیکھنے والی
خود سے بھی قدم دو قدم آگے اسے پایا
ہونٹوں پہ درودوں کے مچلنے لگے نغمے
جب دور سے ہی گنبد خضرا نظر آیا
کچھ عرض زباں سے تو وہاں کرنا ہے مشکل
حال اپنا بس اشکوں کی زبانی ہی سنایا
جتنا بھی کروں ناز مقدر پہ وہ کم ہے
سرکار نے اپنا مجھے مہمان بنایا
سلمان مرے دل میں جو کعبے کے ہیں جلوے
آنکھوں میں مری گنبد خضرا ہے سمایا