عربی میں ایک لفظ ہے نُکتہ۔ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے: باریک بات، رمز کی بات، گہری بات، عقل کی بات۔ لطیفے یا چٹکلے کو بھی اردو میں نُکتہ کہتے ہیں۔ اسی سے نکتہ رَس کی ترکیب ہے یعنی گہری یا باریک بات تک پہنچنے والا، ذہین۔ باریک بات کو سمجھنے والے کو نکتہ سنج یا نکتہ شناس کہتے ہیں۔ نکتہ سنج کی ترکیب کو سخن شناس یا خوش گفتار کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نکتہ داں یعنی باریک بات یا عقل کی بات کو سمجھنے والا۔
نکتہ چیں اور نکتہ چینی میں بھی یہی نکتہ ہے اور نکتہ چیں کا مطلب ہے جو عیب ڈھونڈے۔ نکتہ چینی یعنی خامیاں چُننے کا عمل۔ لیکن یہ چینی اردو کی چینی یعنی شکر نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کا چیں (چُننے ولا) اور چینی (چُننے کا عمل) ہے۔ نکتہ چینی اسی لیے سب کو بری لگتی ہے کہ اس میں اردو کی چینی نہیں ہوتی۔ غالب نے کہا:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
عربی میں ایک اور لفظ ہے نُقطہ۔ یہ اردو میں بھی مستعمل ہے اور اس کا مطلب ہے وہ باریک نشان جو کاغذ پر قلم رکھنے سے بنتا ہے، جسے ہندی میں بِندی اور انگریزی میں ڈاٹ (dot) کہا جاتا ہے۔ دائرے کے مرکز کو بھی نقطہ کہتے ہیں۔ جو دائرہ پرکار بناتا ہے اس کے وسط کے نشان کو نقطۂ پرکار کہتے ہیں، اقبال کا مصرع ہے:
نقطۂ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقیں
حروف پر جو باریک نشانات لگائے جاتے ہیں ان کا نام بھی نقطہ ہے، مثلاً حرف شین (ش) کے اوپر تین نقطے ہیں لیکن سین (س) پر کوئی نقطہ نہیں۔ جس حرف یا لفظ میں نقطہ ہو اسے منقوط یا منقوطہ کہتے ہیں۔ بغیر نقطے والے حرف یا لفظ کو غیر منقوط یا غیر منقوطہ کہتے ہیں۔ بعضوں نے اپنا زورِ کلام دکھانے کے لیے غیر منقوطہ شاعری بھی کی یعنی ایسی شاعری جس میں نقطے والا کوئی حرف نہیں آتا۔ انشاء اللہ خاں انشا نے صنعتِ غیر منقوطہ میں خاصا کلام کہا ہے، مثلاً ایک شعر دیکھیے:
سلسلہ گر کلام کا وا ہو
سامع دردِ دل کو سودا ہو
اس شعر کے کسی لفظ میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔ یہ غیر منقوط ہے۔ جس پر نشانہ لگایا جائے اسے بھی نقطہ کہا جاتا ہے اور اسی سے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ کی ترکیب بنی جس کا مطلب ہے نظر کا مرکز یا نشانہ اور مراد ہے دیکھنے کا زاویہ اور سوچنے کا انداز، اندازِ نظر، اندازِ فکر، خیال، رائے۔ لیکن بعض اوقات نکتہ اور نقطہ کو گڈمڈ کر دیا جاتا ہے اور بعض لوگ نقطۂ نظر اور نقطۂ نگاہ کو نکتۂ نظر یا نکتۂ نگاہ لکھتے ہیں جو غلط ہے۔ صحیح ترکیب ہے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ۔ نقطۂ عروج اور نقطۂ جوش وغیرہ میں بھی یہی نقطہ ہے اور ایسے مواقع پر نکتہ لکھنا درست نہیں۔
عربی میں نُکتہ کی جمع نِکات (نون کے نیچے زیر) ہے اور اسے نُکات (نون پر پیش) پڑھنا بالکل غلط ہے۔ میر تقی میر کی کتاب کا نام نِکات الشعرا ہے، شیخ مجیب الرحمٰن کے چھے (۶) نِکات تھے، فلاں حکومت کا پنج نِکاتی منصوبہ تھا، ان سب جملوں میں نِکات یعنی نون کے نیچے زیر پڑھنا چاہیے، یہاں نون پر زبر یا پیش پڑھنا صحیح نہیں۔
اصل میں عربی میں الفاظ کی جمع صرفی وزن پر بنائی جاتی ہے اور عربی الفاظ کی جمع کے اوزان میں سے ایک وزن ’’فِعال‘‘ (فے کے نیچے زیر) ہے۔ لہٰذا اس وزن پر جتنی بھی جمعیں بنیں گی سب کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہو گا، مثلاً: جَبَل (یعنی پہاڑ) کی جمع جِبال، رَجُل (یعنی مرد) کی جمع رِجال، بَلَد (یعنی شہر) کی جمع بِلاد، خصلت کی جمع خِصال، روضہ (یعنی باغ) کی جمع رِیاض، کریم کی جمع کِرام، جیسے اساتذۂ کِرام یا صحابۂ کِرام۔ اسی طرح نُکتہ کی جمع نِکات۔
نُقطہ کی ایک جمع عربی میں نِقاط ہے (یہ بھی ’’فِعال‘‘ کے وزن پر ہے) اور دوسری نُقَط، یعنی نون پر پیش اور قاف پر زبر کے ساتھ۔ گویا نِقاط اور نُقَط کا لفظی مطلب ہو گا بہت سے نقطے۔ بے نُقَط کے معنی ہیں بغیر نقطوں کے۔ اردو میں محاورہ ہے بے نُقَط سنانا، یعنی فحش گالیاں دینا، مغلظّات بکنا۔ اس بے نقط کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ بعض لوگ جب گالی لکھتے تھے تو اس پر احتیاطاً نقطے نہیں لگاتے تھے۔
حاصلِ کلام یہ کہ نقطہ کی جمع نِقاط اور نُقَط ہے اور نکتہ کی جمع نِکات۔ نیز یہ کہ صحیح ترکیب نقطۂ نظر ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ ۱۳ مئی ۲۰۲۰ء)