تین افسانے

محمد بلال

(۱)

گندے نالے میں اپنی پندرہ سالہ بیٹی ثمینہ کی نیم برہنہ لاش دیکھی تو چوکیدار شیر محمد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ دو دنوں سے لاپتا بیٹی اس حالت میں ملے گی،اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ دوسرے ہی لمحے بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔

جب شیر محمد کو ہوش آیا تو اس کی بیٹی کا پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ثمینہ کے ساتھ ایک سے زائد افراد نے زیادتی کی اور پھر ہاتھ پاؤں باندھ کر، منہ میں کپڑا ٹھونس کر اس کی شہ رگ کاٹ دی تھی۔

شیر محمد کو جب رپورٹ کی تفصیل معلوم ہوئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو نہیںآئے بلکہ خون اتر آیا۔ شیر محمد کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ مجرموں کو کسی مشین میں ڈال کر ان کا خون نچوڑ دے، لیکن شیر محمد خود کیا کر سکتا تھا۔ وہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے پولیس کے سامنے چلایا ۔ کھلی کچہری میں جا کر رویا لیکن کئی مہینے گزر گئے، مجرموں کا کوئی سراغ نہ ملا۔ شیر محمد کا خون کھول کھول کر ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس کی بیوی کے آنسو بہہ بہہ کر ختم ہو گئے۔

ایک رات شیر محمد لائبریری کے گیٹ کے پاس کھڑا اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ لائبریری کے ہال میں سیمینار ہو رہا تھا۔ موضوع ’’سزائے موت‘‘ تھا۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے تقریروں کی آواز شیر محمد کو بھی سنائی دے رہی تھی۔ تقریروں میں باربار مجرموں کا ذکر ہو رہا تھا۔ شیر محمد کا دھیان بار بار ثمینہ کے مجرموں کی طرف جا رہا تھا۔

ایک مقرر بول رہا تھا:

’’موت کی سزا ایک غیر انسانی سزا ہے۔ اس کو فوراً ختم کر دینا چاہیے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک یہ کام کر چکے ہیں۔ دراصل سزائے موت جمہوری ثقافت کے منافی ہے۔ سزائے موت انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سب سے بڑی ناانصافی عدالتوں میں ہو رہی ہے۔ مجرم جب کوئی جرم کرتا ہے تو وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہوتا، لیکن ایک عدالت اپنے پورے ہوش و حواس میں اسے قتل کراتی ہے۔ یہ بات یاد ر کھنی چاہیے کہ موت زندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہے۔ لیکن ہم لوگوں میں احساسِ زیاں ہے ہی نہیں۔‘‘

شیر محمد کے ذہن میں قصاص کا لفظ آیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ثمینہ کا خیال ابھرا۔۔۔ اس کے اندر آتش فشاں کا لاوا پکنے لگا۔۔۔ اس کے سر کی نسیں پھٹنے لگیں۔

اُدھر وہ مقرر مسلسل بول رہا تھا:

’’مجرموں سے نفرت نہ کریں۔ ان کے مسائل سمجھیں۔ ان کی اصلاح کریں۔ مجرم بے چارہ کسی ذہنی اذیت یا کرب کا شکار ہوکر جرم کرتا ہے۔ اس لیے مجرم کی نفسیاتی حالت کوسمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔‘‘

اِدھر شیر محمد کی آنکھوں کے سامنے کبھی اپنی ثمینہ کی نیم برہنہ لاش آ رہی تھی اور کبھی اس کے مجرموں کے بھیانک سیاہ ہیولے رقص کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ شیر محمد کو ایسے محسوس ہوا جیسے وہ مقرر اس کی بیٹی کی لاش کی جانب پشت کر کے اس کے مجرموں کو گلے لگا رہا ہے۔ انھیں پیار کر رہا ہے ۔۔۔ شیر محمد کے جذبات اس کے قابو سے باہر ہو رہے تھے۔

اُدھر مقرر مسلسل مجرموں کی حمایت میں بول رہا تھا۔ اِدھر شیر محمد کے اندر پکتا ہوا لاوا پھٹ پڑا۔ وہ یکایک دانت پیستا ہوا ہال کے اندر داخل ہوا۔ اسٹیج پر چڑھا، اُس مقرر کو اس کی ٹائی سے پکڑ کر فرش پر گرایا اور اس کے پیٹ پر بیٹھ کر اسے بری طرح مارنے لگا۔ لوگوں نے شیر محمد کو پکڑ کر مقرر سے الگ کیا اور اسٹیج سے اتار دیا۔ مقرر جب فرش سے اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ اٹھا تو اس نے شیر محمد کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور’’درندے‘‘ کہتا ہوا مارنے کے لیے اس کی طرف بڑھا ،مگر لوگوں نے اسے پکڑ کر بے بس کر دیا۔ اس کے باوجود وہ آگ بگولہ ہو کر اچھل اچھل کر مسلسل چلا رہا تھا:

’’میں اس جانور کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ اس کو اتنی جرأت کیسے ہوئی۔۔۔ ایک گارڈ.....ایک شہری کمی کمین.....اورمیں.....چھوڑ دو مجھے۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔۔‘‘


(۲)

’’ان ملکوں کی سرکشی کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے جہاد ۔مسلمانو! اٹھو اور سمندروں میں، فضاؤں میں، زمین کے ہر خطے میں ان پر ٹوٹ پڑو۔ ظلم اس سطح تک پہنچ چکاہے کہ جہاد اب فرض ہو گیا۔ ان کے جدید اسلحے کی قوت سے نہ ڈرو، یہ یاد رکھو کہ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘

شیرعلی کی اس تقریر کے بعد جلسے کی فضا نعر وں سے گونج اٹھی۔لوگوں نے اس کو کندھوں پر اٹھا لیا۔بہت دیر تک زور دار تالیا ں بجنے کا سلسلہ جاری رہا۔

______________

وہ ایک بھیانک چیخ تھی جس نے شیرعلی کو آدھی رات کے وقت بیدار کر دیا۔ وہ ہڑ بڑا کراٹھا۔ سامنے پانچ مسلح ڈاکو کھڑے تھے۔ اس کی اہلیہ مسلسل چیخیں مار رہی تھی۔ تنگ آکر ایک ڈاکو نے اسے بالوں سے پکڑ کرایک طرف گرایا اور پستول اس کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ اس کا جوان بیٹا یہ براداشت نہ کر سکا۔ وہ آگے بڑھ کر اس ڈاکو سے الجھنے لگا۔ شیرعلی نے اس کا بازو پکڑ لیا او ر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے آہستگی سے کہا: ’’پپ پاگل مت بنو۔ ان سے لڑنا خخ خود کشی کرنا ہے۔‘‘

پھر وہ اپنی اہلیہ کی طرف متوجہ ہوا :’’بب بیگم! خاموش ہو جاؤ۔‘‘

اس کے بعد اس نے ڈاکو کی طرف رخ کیا:’’ اسے چھو ڑ دو ۔ تم جو چچ چاہتے ہو، وہ تمھیں مم مل جا ئے گا۔‘‘

ڈاکو نے اس کی اہلیہ کی کنپٹی سے پستول ہٹا لیا۔ شیر علی نے اپنی بیگم اور بیٹے کو سکون سے رہنے کا اشارہ کیا او ر کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ الماری سے نقدی اور زیورات نکال کر ڈاکوؤں کے حوالے کر دیے۔


(۳)

شادی کے چند دنوں کے بعد جمیلہ میکے آئی تو اس کی بہنوں اور سہیلیوں نے پوچھا: ’’دولہا بھائی کیسے آدمی ہیں ؟‘‘

جمیلہ کے چہرے پر شرم کی لالی ابھری ۔وہ اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولی: ’’اچھے ہیں۔‘‘

پھر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس کے چہرے کی لالی میں ہلکی سی سیاہی کی آمیزش ہوئی۔ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا:

’’لیکن ہر وقت اپنی ماں کے مرید ہی بنے رہتے ہیں۔ ہر کام اس سے پوچھ کر کرتے ہیں۔میں نے کہا: گھر میں گیزر لگوا لیں تو بولے: ماں جی سے بات کروں گا۔ میں نے کہا: کسی پارک میں سیر کرنے چلیں تو بولے: ماں جی سے بات کرتے ہیں، اجازت ملی تو ضرور چلیں گے۔۔۔‘‘

ایک سہیلی بولی: ’’معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ماں سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘

جمیلہ نے اس سہیلی کو ترچھی نظر وں سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے ’ہوں‘کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔

دو سال کے بعد جمیلہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ ادھر وقت نے جمیلہ کے خاوند پر کوئی اثر نہ کیا۔ اس کا اپنی ماں کے ساتھ تعلق اسی طرح قائم رہا۔ جمیلہ بھی ویسی کی ویسی ہی رہی۔ جب بھی وہ میکے جاتی یا اس کی کوئی سہیلی اسے ملنے آتی تو وہ اپنے شوہر کے اس کی ماں کے ساتھ تعلق پر ضرور شکایت کرتی۔ اسے سب سے زیادہ اس بات پر شکوہ رہتا تھا کہ وہ اپنی ساری تنخواہ اپنی ماں کے ہاتھ پر کیوں رکھ دیتے ہیں۔

وقت کا پہیا چلتا رہا۔ ایک دن جمیلہ کے لڑکے کی شادی ہو گئی۔ وہ لڑکا بچپن سے اپنی ماں کی شکایت سن رہا تھا۔ وہ بیوی کے حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ اسے بالکل اسی طرح چاہتا تھا جس طرح جمیلہ بیوی کی حیثیت سے چاہتی تھی کہ اسے چاہا جائے۔ ایک دفعہ اس کی بیوی نے اپنے کمرے میں اے سی لگوانے کی بات کی، اس نے اسی وقت ہامی بھر لی۔ وہ کبھی باہر کھانا کھانے کی خواہش ظاہر کرتی تو وہ ہنسی خوشی مان جاتا اور ماں سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ....... حتی ٰکہ چند ماہ بعد اس نے تنخواہ بھی بیوی کو دینا شروع کر دی۔

وقت کا دریا اسی طرح بہتا رہا۔ ایک دن جمیلہ اپنے گھر کے صحن میں چہرہ لٹکا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ باہر کھانا کھانے گیا ہوا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم ہوا جمیلہ کی ایک پرانی سہیلی اسے ملنے آئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی گرم جوشی سے ملیں۔ پھرگپ شپ شروع ہوئی۔ باتوں باتوں میں جمیلہ کے لڑکے کا ذکر آگیا۔ جمیلہ غمگین ہو گئی۔ اس کے ماتھے پر بہت سی شکنیں ابھر آئیں۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولی:

’’وہ تو ہر وقت اپنی بیوی کا مرید ہی بنا رہتا ہے۔ اس کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ تنخواہ بھی ساری اس کے ہاتھ پررکھ دیتا ہے۔‘‘

سہیلی نے کہا: ’’معلوم ہوتا ہے وہ اپنی بیوی سے بڑی محبت کرتا ہے۔‘‘

جمیلہ نے سہیلی کو ترچھی نظروں سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے ’ہوں‘کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔

زبان و ادب

(اکتوبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter