پروفیسر منیرالحق کعبی بطور مصنف ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ۔ نثر ، تنقید ، شاعری ...... غرض اردو ادب کی تقریباََ تمام اصناف پر موصوف نے خامہ فرسائی کی ہے اور خوب کی ہے ۔ ان کا موجودہ حمدیہ کلام بعنوان ’’ حریمِ حمد ‘‘ اس وقت پیشِ نظر ہے ۔ کعبی جیسے شخص کا حمد کی طرف اس قدر جھکاؤ کہ پوری تصنیف منظرِ عام پر آجائے ، حیرت انگیز نہیں ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ پچھلے چند سالوں سے ان کی طبع پٹڑی بدلتی دکھائی دیتی ہے ۔ان کے سابقہ مجموعہ ہائے کلام ’’ رگِ خواب‘‘ اور ’’ قربِ گریزاں ‘‘ کی غزلیات سے کسی بھی قاری پر آشکارا ہو جاتا ہے کہ انھوں نے غمِ دنیا کے حوادث کے مقابل غمِ یار کا خیمہ ڈال رکھا ہے اور حسنِ یار کی مالا جپنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ شاید ڈھلتی عمر میں بابِ وصال وا نہ ہونے سے احساسِ زیاں نے انھیں آ گھیرا ہے اور عاقبت سنوارنے کے پیشِ نظر ہمارے شاعرنے مجاز سے حقیقت تک کی مسافت طے کر لینے میں ہی عافیت جانی ہے ۔ حریمِ حمد کے اس شعر سے صورتِ حال کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے :
جسے اندر چھپا کر بھول بیٹھا
اسی کی جستجو کرنے لگا ہوں
’’ قربِ گریزاں‘‘ کا درج ذیل شعر بھی کعبی کے بدلتے رجحانِ طبع کی کی چغلی کھاتا ہے ، اس کے بعد درج بالا شعر آخر کہنا ہی تھا ۔
عذاب ٹھہرا ہر اک سے یہ سلسلہ رکھنا
خدا کے ساتھ بتوں سے معاملہ رکھنا
حریمِ حمد کے مذکورہ شعر کی معنوی اعتبار سے بہت سی پرتیں ہیں ۔ ’’ اندر چھپا کر ‘‘ انسانی نفسیات کے ایک عمومی پہلو کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ فطرتِ انسانی ہے کہ وہ اپنی سب سے پسندیدہ اور محبوب چیز کو بہت سنبھال کر ، دھیان اور احتیاط سے ’’محفوظ‘‘ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ کعبی کے اس مصرعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سابقہ مجموعہ ہائے کلام میں غمِ یار کا بیان اصلی نہیں بلکہ مصنوعی اور بناوٹی ہے ۔ مخصوص طرزِ معاشرت یا خارجی جبر سے دب کر ہمارا شاعر ’’ نیلم آنکھوں ‘‘ کا اسیر رہا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ کعبی کی ’’ اصل ‘‘ نے حسنِ ازل کو احتیاطاً چھپا کر رکھ دیا اور ...... بھلا دیا ۔ خود کعبی نے ’’ حریمِ حمد ‘‘ میں اس کا ذکر یوں کیا ہے :
یہ نیلم بیلم کچھ بھی نہیں اس حسنِ ازل کی بات کریں
اگرچہ ناقدین کہہ سکتے ہیں کہ’’ انگور کھٹے ہیں‘‘ لیکن راقم کی رائے میں کعبی ’’ مجاز ‘‘ کی بے ثباتی سے آشنا ہو گیا ہے اور اسی لمحے حسنِ مطلق بھی ’’ چھو کر حصارِ جسم کو جاں تک اتر گیا ‘‘ جس سے یہ شعر سامنے آیا :
رگ و پے میں سرایت کر رہا ہے
خود اپنی آبرو کرنے لگا ہوں
جی ہاں ! حسنِ ازل کی قربت سے ہی وہ خود شناسی جنم لیتی ہے جس سے انسان اپنی آبرو خود کرنے لگتا ہے ۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں ایک اور لطیف نکتہ مضمر ہے کہ انسان تو خوامخواہ دوسروں کی شکایتیں کرتا پھرتا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان خود اپنی آبرو نہیں کرتا ۔
کعبی کے حمدیہ کلام میں بھی تغزل کا رنگ بہت گہرا ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل ان کی محبوب ترین صنف ہے ۔ ان کی غزل میں زبان کا رچاؤ اور اظہارِ بیان کا رکھ رکھاؤ ملتا ہے ۔ ’’حریم حمد ‘‘میں تغزل کی آمیزش سے نہ صرف شعریت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اثر انگیزی بھی روٹین سے ہٹ کر ہے مثلاََ :
جلا گئی ہے مرے دشت کی ہوا مجھ کو
نہ اور آتشِ ہجراں میں اب جلا مجھ کو
تو بار بار بلاتا رہا مجھے لیکن
بچھڑ کے یاد نہ عہدِ وفا رہا مجھ کو
اگر ان اشعار کی بابت ذکر نہ کیا جائے کہ یہ حمد کے اشعار ہیں تو شاید قاری کا دھیان بھی اس سمت نہ جائے ۔ راقم کی رائے میں حمدیہ کلام میں ایسا اسلوب لائقِ تحسین ہے کیونکہ اس سے جیتے جاگتے زندہ خدا کا تصور ابھرتا ہے اور تجرد دم توڑتا دکھائی دیتا ہے ۔ ورنہ اکثر اوقات حمدیہ کلام میں خدا کی ذات کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے اس کا انسان سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔ راقم کو تجرد اور ماورائیت کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن صرف انھی پر فوکس کرنا ، شاید بہتر نہیں ہے ۔ یہاں یہ بیان کرنا بے محل نہیں ہو گا کہ ’’ حریمِ حمد ‘‘ میں بھی بعض مقامات پر تجرد اور ماورائیت کے سے انداز میں حمدیہ کلام موجود ہے لیکن درج ذیل شعر میں کعبی نے تغزل کی لطافت اور حمد کے تقدس کو یکساں اور کمال خوبی سے نبھایا ہے :
تیر و نشتر ہیں ہمسفر آنکھیں
نام تیرا سپر سپر، مولا
اسی طرح یہ شعر بھی قابلِ غور ہے :
رت جگے اس کی ہی قسمت میں لکھے جاتے ہیں
جان کر اپنا جسے آہِ رسا دیتا ہے
احباب جانتے ہیں کہ غزل کہنے والے غمِ یار میں غمِ دنیا بھی شامل کر لیتے ہیں جس سے تغزل کا نیا آہنگ ابھرتا ہے ۔ کعبی نے اس آہنگ کو بھی اپنے حمدیہ کلام میں جگہ دے کر معتبر بنا دیا ہے :
ہمارا وقت ہے گویا خلا میں آویزاں
مرے کریم ! کسی بھی افق اترتا نہیں
’’ حریم حمد ‘‘ میں ایک دو مقامات پر تضاد سے بھی واسطہ پڑتا ہے مثلاََ :
بشر ہو اور بشر سے وہ خوف خوردہ ہو
یقین مان وہ بندہ خدا کا بندہ نہیں
یہ میری ذات کا اک المیہ ہے کس سے کہوں
کہ آدمی ہوں مگر آدمی سے ڈرتا ہوں
’’ ذات کا المیہ ‘‘ کہہ کر ہمارے شاعر نے جہاں اپنی شخصیت کو گھمبیر بنا دیا ہے ، وہیں مذکورہ تضاد سے گلوخلاصی پانے کی ناتمام کوشش کی ہے ۔ یقیناََ کعبی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نے اظہار و بیان میں تصنع ، بناوٹ اور لیپا پوتی سے کام نہیں لیا ، لہذا اس کی شخصیت کے تضاد کھل کر سامنے آسکتے ہیں ، اس لیے اس شعر سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے :
مرے خدا یہ مری شخصیت تو چاک ہوئی
مری انائے فگاراں کو اندمال ملے
’’ حریمِ حمد ‘‘ میں دعائیہ انداز بھی ملتا ہے جس میں خاصا اچھوتا پن ہے :
اپنی نورانیت سے بکھرا دے
سرکشی کی تنی گھٹا ہوں، خدا
اہلِ محفل سے بن نہ پائی کچھ
اور محفل سے آگیا ہوں، خدا
کعبی کے اس حمدیہ کلام میں فکری اعتبار سے ایک بات کھٹکتی ہے کہ انھوں نے اشتراکی فلسفہ کو دور سے ہی سلام بھیج دیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں کے بیان سے پہلو تہی برتی ہے ۔ شاید کعبی کی فکری نشوونما اس عہد میں ہوئی تھی جب چہار سو اشتراکیت کے خلاف محاذ گرم تھا اور وطنِ عزیز میں بھی سرمایہ دارانہ معیشت کا طوطی بولتا تھا .... اب بھی بولتا ہے اور زیادہ شدت سے بولتا ہے ۔ گلوبلائزیشن کی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام کی موجودہ توسیع انسانیت کش ہے ۔ بہتر ہوتا ، کعبی اس پر بھی سلام بھیج دیتے ..... دور سے نہ سہی کم از کم قریب سے ہی سہی ۔
’’ حریمِ حمد ‘‘ کے ابھی بہت سے پہلو ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے ۔ تاریخی واقعات کی خوبصورت منظر کشی سے لے کر اچھوتی تراکیب تک ، سب کچھ اس میں جا بجا بکھرا ہوا ملتا ہے ۔ ایک اختراع سے اس شعر میں واسطہ پڑتا ہے :
کچھ مجھ کو ہی دنیا کا چلن راس نہیں ہے
کچھ دوست مرے مجھ سے ہیں ساڑو ، مرے مولا
لفظ ’’ ساڑو ‘‘ بڑی مہارت سے فٹ کیا گیا ہے شعر کی روانی متاثر ہوتی نظر نہیں آتی ۔
کعبی جب مدحِ رسالت مآب ﷺ کی طرف آتے ہیں تو شعریت چھلک چھلک جاتی ہے ، ملاحظہ کیجیے:
کچھ اور عالمِ کیف و سرور ہوتا ہے
رسولِ پاک ﷺ کی یادوں میں جب اترتا ہوں
درود پڑھتا ہوں اور اس کے فیض سے کعبی
غبار ِ نور میں ڈوبا ہوا ابھرتا ہوں
’’ رسول پاک ﷺ کی یادوں میں اترنا ‘‘ اور ’’ غبارِ نور میں ڈوبا ہوا ابھرنا ‘‘ ......... کہنا ہی پڑتا ہے کہ ، ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔
آخر میں یہ بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ حمدیہ کلام ، بندے اور خدا کا مکالمہ ہے ....... خلوت میں مکالمہ ۔ اس پر تبصرہ کرنا ، شاید مخل ہونے کے مترادف ہے ۔ راقم یقیناََ مخل نہ ہوتا ، لیکن یہ جناب کعبی کا حکم تھا جس کی تعمیل کے ضمن میں دخل در معقولات کی جسارت کر سکا۔