ہماری دینی صحافت

تعمیر حیات لکھنؤ

ہمارے دینی مدارس سے جو اصلاحی اور بامقصد رسائل نکلتے ہیں، ان کی تعداد ما شاء اللہ خاصی اور روز افزوں ہے۔ معیار کے اونچ نیچ کا تعلق ذوق سے ہے اور یہ اضافی شے ہے، جو بات دیکھنے کی ہے وہ یہ کہ ہر ایک کا رخ کتاب و سنت کی ترویج کی طرف ہے۔ بزرگانِ دین کے تذکرے، ان کے دینی کارنامے اور ان کے صبر و ثبات کے واقعات تقریبا" ہر پرچہ کا خاص موضوع ہوتا ہے۔ 

اسی طرح ایک اچھی تعداد عربی میں نکلنے والے رسائل کی ہے۔ عرب ممالک سے سیکڑوں میل دور رہ کر قرآن کریم کی زبان میں ماہنامے یا سہ ماہی پرچے نکالنا بڑی ہمت کی بات ہے۔ جب کہ خود اس ملک میں ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہزار میں ایک بھی نہیں ہے۔ ایسے ملک میں اس طرح کے رسائل کا نکالنا ہی قرآن کریم کی زندہ کرامت ہے۔ اور یہاں اس زبان میں لکھنے والوں کا پایا جانا اسلام کا کرشمہ ہے۔ 

کوئی رسالہ یا شمارہ ایسا نہیں ہے جو ہمت افزائی اور تحسین کا مستحق نہ ہو۔ اولیت یا اسبقیت یا نسبتاً‌ تعدادِ اشاعت کا زیادہ ہونا اور علمائے عرب کے درمیان کسی کا قابلِ اعتناء ہونا بھی ایسی چیز نہیں ہے جس پر کوئی فخر و مباہات کرے۔ یہ سب امتِ مسلمہ کی مشترک میراث ہیں اور یہ تمام رسائل اور ان کے پشت پناہ ادارے اور اس کے سرپرست اور لکھنے والے سب مسلمانوں کے لیے احترام کے مستحق ہیں۔ 

یہ بات جو ابھی کہی گئی، اس میں کسی ظاہر داری کا دخل نہیں ہے کیونکہ ان سطور کا لکھنے والا واقف ہے کہ ہمارے یہ تمام رسائل و مجلّات اپنے خاص محدود حلقوں میں پڑھے جاتے ہیں، غیر تو غیر ہی ہیں، اپنے بھی اپنا اپنا مخصوص حلقہ رکھتے ہیں اور کوئی ایک آواز ایسی نہیں ہے جو دعویٰ کر سکے کہ وہ ہر جگہ سنی جاتی ہے۔ مقابلہ اپنی جماعت کا اپنی ہم عقیدہ دوسری جماعت سے نہ کیجئے۔ ایک مدرسہ کا مقابلہ دوسرے مدرسہ سے نہ کیجئے۔ کسی حمائل کا مقابلہ چوب خط میں لکھے ہوئے تاج کمپنی یا نظامی پریس کے مصحف شریف سے نہ کیجئے۔ مقابلہ کا شوق ہے اور زورِ بازو کی آزمائش مقصود ہے تو ذرا ایک نظر ان رسائل و مجلّات کی مقبولیت و عمومیت پر بھی ڈال لیجئے جن کا مقصد آپ کے ملّی وجود کو نیست و نابود کرنا ہے۔ ان کا حملہ کسی حنفی، شافعی ، اہلِ حدیث کے خلاف نہیں ہے، ان کا حملہ پوری اس عمارت پر ہے جس پر نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کندہ ہے۔ 

وسائلِ اطلاعات کا وہ طوفان جو سیاہ آندھی سے زیادہ سخت اور سیلاب کی طغیانی سے زیادہ شدید ہے، جو ہر طرف سے امت کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے، اور اس کا وار کسی ٹولی یا فرقہ یا کسی مدرسہ فکر پر نہیں، وہ اس بستی کو غرق کرنا چاہتا ہے جس میں یہ مدرسے، یہ دار العلوم، یہ جامعات اور یہ مراکز ہیں۔ ہم میں کم لوگ ہوں گے جن کو معلوم ہو کہ وسائلِ اطلاعات جن کو کہا جاتا ہے، سینما، ریڈیو، ویڈیو اور اب دوشنیا خواہ آپ کے گھروں میں نہ ہوں مگر آپ کے محلے کی گلیوں، بازاروں اور چائے خانوں، ریستورانوں میں موجود ہیں۔ آپ اپنی آنکھیں بند کر لیں، کان میں روئی ڈال لیں، نفرت سے رخ پھیر لیں مگر اپنی نسلوں کو بھی اس سے محفوظ کر سکتے ہیں؟ اکبر الٰہ آبادیؒ نے خوب کہا تھا:

حرم سرا کی حفاظت کو تیغ نہ رہی 
تو کام دیں گی یہ چلمن کی تیلیاں کب تک

فواحش و منکرات کے ذرائع اشاعت کو بھی نظر انداز کیجئے (اگرچہ نظر انداز کرنا کوئی علاج نہیں ہے)  جن کا مہذب نام انفارمیشن میڈیا ہے۔ اخبار و رسائل ہی کو دیکھ لیجئے جہاں سے بات شروع کی تھی۔ آپ یہ اندازہ لگائیے کہ صرف آپ کے دارالعلوم یا جامعہ کا رسالہ نہیں بلکہ تمام مدارس و جامعات اسلامیہ سے نکلنے والے رسائل کی مجموعی اشاعت کیا ہو گی؟ امید و حوصلہ اور حسنِ ظن کو بھی کام میں لائیے جب بھی سونچ لیجئے کہ دس کروڑ مسلمانوں کی آبادی میں یہ سب رسائل و مجلّات کتنے لوگوں کے ہاتھوں میں پہونچتے ہیں اور کتنے لوگ ان کو پڑھتے ہیں؟ مجھے نہ بتائیے، خود اپنے دل میں کوئی تعداد فرض کر لیجئے، ایسی تعداد جو تمناؤں اور آرزوؤں کی پیدا کردہ نہیں بلکہ حقیقت کے مطابق ہو۔ حقیقت کے مطابق نہ ہو تو بہت دور بھی نہ ہو۔ 

اس کے بعد آئیے آپ کو بتاؤں کہ یہودیوں کے دو رسالے جو امریکہ سے نکلتے ہیں ’’ٹائم‘‘ اور ’’نیوز دیک‘‘ ان کی تعدادِ اشاعت کیا ہے؟ صحیح تعداد نہ آپ کو معلوم ہو گی اور نہ مجھے معلوم ہے۔ مگر آپ کے ملک کا کوئی بڑا ہوٹل ایسا ہے جس کے بک اسٹال پر آپ کو یہ پرچہ نہ ملے؟ کوئی انٹرنیشنل فلائٹ ایسی ہے جہاں آپ کے مطالبہ پر ہوسٹس آپ کو یہ پرچے لا کر نہ دے سکے؟ کوئی بین الاقوامی ہوائی اڈہ ایسا ہے جہاں یہ دستیاب نہ ہو؟ کوئی بڑا ریلوے اسٹیشن، دہلی، لکھنؤ، بمبئی، مدراس ایسا ہے جہاں کتاب و رسائل میں یہ پرچہ آپ کو نہ مل سکے؟ 

اور یہ بات صرف اسی ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ جاپان اور کوریا سے لے کر شمالی و جنوبی امریکہ کے کسی شہر میں چلے جائیے۔ مشرقی و مغربی یورپ سے لے کر افریقہ کے جنوبی شمالی، سنٹرل کسی علاقے کے بڑے شہر یا پایہ تخت میں جائیے۔ یہاں تک کہ عربوں کے خاص الخاص علاقے جن کو مسلمانوں کی پناہ گاہ اور اسلام کا قریب ترین وطن کہا جاتا تھا، جیسے یمن، عدن، جن کو نسبتا" پسماندہ کہا جاتا ہے، خلیج عرب کی ریاستیں، کویت سے عمان تک، ہر جگہ یہ زہر خون پیپ سے آلودہ خوشنما اور دلکش شیشوں میں مل جائے گا۔ 

ممکن ہے بلکہ واقعہ ہے کہ وہاں مصر کا کوئی دینی ماہنامہ نہ ملے، سعودی عرب کا کوئی خالص علمی و تحقیقی مجلہ نہ ملے، مگر نیوزویک اور ٹائم ضرور مل جائے گا۔

 اور اس میں کیا ہوتا ہے؟ اعداد و شمار، حقائق و واقعات، پس پردہ اور بیرون پردہ سیاسی واقعات اور ان کے تجزیے، اور اسلام کے خلاف کسی نہ کسی انداز میں نفرت پیدا کرنے والی خبر اور اس کا تجزیہ، اس پر تنقید۔ یہ پرچے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور ملین در ملین لوگ پڑھتے ہیں اور اس کو پڑھنا فیشن سمجھتے ہیں۔ اور یہ تو دور کی بات ہے، خود آپ کے ملک میں برادرانِ وطن کا رخ اور ان کی ترچھی نگاہوں کو دیکھنا ہو تو ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کو دیکھ لیجئے۔ اس کی تعداد جو بھی ہو مگر ہمارے تمام علمی و دینی و اخلاقی مجلّات سب مل کر بھی اتنی تعداد میں نہیں چھپتے جتنا تنہا یہ رسالہ شائع ہوتا ہے۔

شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ انگریزی اور ہندی روزنامے یہاں لاکھوں کے حساب سے شائع ہوتے ہیں جن میں آپ کا مراسلہ بھی مشکل سے شائع ہو سکتا ہے، خواہ آپ نے یہ آبِ زر سے لکھا ہو اور حقائق و واقعات پیش کیے ہوں، الّا یہ کہ وقت کے سر سے آپ کی ’’تان‘‘ مل رہی ہو۔ مسلم جمہور، امتِ اسلام، عقیدۂ اسلامی پر ضرب پڑ رہی ہو۔

(بشکریہ تعمیرِ حیات لکھنو)


زبان و ادب

مشاہدات و تاثرات

(اکتوبر ۱۹۹۵ء)

اکتوبر ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۱۰

حقوق نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علم محنت سے حاصل ہوتا ہے
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہماری دینی صحافت
تعمیر حیات لکھنؤ

ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں
ادارہ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قافلۂ معاد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تبخیر معده
حکیم عبد الرشید شاہد

حضرت عمر فاروقؓ کا خط حضرت عمرو بن عاصؓ کے نام
ادارہ

تلاش

Flag Counter