افتخار عارف کی شاعری

پروفیسر شیخ عبد الرشید

اردو شاعری کی ارتقائی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید اردو شاعری کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی سے ہوا جسے اقبال اور فیض نے بام عروج تک پہنچایا۔ جہاں تک جدید نظم کے ابتدائی سفر، عہد وسطیٰ اور عہد حاضر کا تعلق ہے تو ان تمام سفری مراحل کی منزلیں ن۔ م۔ راشد کے نام پر آ کر رک جاتی ہیں۔ انھوں نے اس صنف کے ضمن میں ایسے تجربات کیے کہ جدید نظم ان کے نام سے منسوب ہو کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ آج کی غزل میں غالب کے مروجہ افکار واسالیب اور ن۔ م۔ راشد کے متنوع اسالیب سے روشنی حاصل کی جا رہی ہے، تاہم تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی قدروں نے نظم اور غزل ہر دو کے مقاصد ومطالب میں واضح تبدیلی اور ضرورت پیدا کی ہے جس سے ایک نیا راستہ نئی منزل کی طرف نکلا ہے۔ افتخار عارف اسی راستے کے تازہ دم مسافر ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’مہر دو نیم‘‘ ۱۹۸۰ کی دہائی میں ادبی حلقوں سے داد وتحسین وصول کر چکا ہے۔ لگ بھگ ایک عشرے کی طویل شعری مسافت کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’حرف باریاب‘‘ مئی ۱۹۹۴ میں شائع ہوا۔ ۱۳۲ صفحات کی اس دلکش کتاب میں ۴۲ غزلیں، کچھ نظمیں اور متفرق اشعار ہیں۔ ’’مہر دو نیم‘‘ کے پس ورق پر فیض نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ افتخار عارف کی شاعری کے مستقبل کا دار ومدار ان کی شعری ریاضت پر ہے، چنانچہ ’’حرف باریاب‘‘ میں افتخار عارف سعادت مندی کے ساتھ فیض کے اس مشورے کو گرہ میں باندھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کلام میں نغمگی، نئے استعاروں کی تلاش اور اظہار میں انفرادیت ریاضت کی واضح دلیل ہے۔ مندرجہ بالا اوصاف کی دلیل میں ان کی شاعری سے کئی اشعار تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

تری بلا سے گروہ جنوں پر کیا گزری
تو اپنا دفتر سود وزیاں سنبھال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ

یہ کثیر المفہوم اشعار ہیں۔ افتخار عارف اپنی سرزمین سے بے پناہ لگاؤ کا واضح اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے ریگ زاروں کو گراں مایہ سرمایہ قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ، ہاتھ میں کشکول لیے کسی فیض کے حصول کے لیے قطار میں کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے۔ 

شعری ریاضت کی کچھ اور مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا

یہ شعر، شاعری میں تلمیح باندھنے کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ یہ شعر دیکھیے:

یہ رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شب غم کے سبب سے واقف ہیں


کسی پندار شکستہ کا بھرم تو رہ گیا
اب یہ بات اور کہ خود قیمت پندار گری

حرف کی حرمت اور توقیر شاعر کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ افتخار عارف نے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اشعار تخلیق کیے ہوں کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے مراعات یافتہ شہروں، لندن اور اسلام آباد میں رہ رہے ہیں، تاہم حرف کی تلاش میں انھوں نے ریگ زاروں کا بھی ایک طویل سفر کیا ہے۔

یہ سارے ادب آداب ہنر یونہی تو نہیں آ جاتے
عمریں تج دینی پڑتی ہیں اک حرف رقم کرنے کے لیے

افتخار عارف، فیض سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فیض کو بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کہیں مضامین میں اور کہیں فکر وفن کے حوالے سے۔ اپنی ایک غزل ’’نذر فیض‘‘ میں فیض سے اپنی عقیدت کا برملا اظہار بھی انھوں نے کیا ہے۔ اس غزل کا ایک لطیف پہلو یہ بھی ہے کہ یہ غزل غالب کی زمین میں کہی گئی ہے۔ پھر اسی زمین میں فیض نے ایک غزل ’’نذر غالب‘‘ کہی ہے۔ غالب نے کہا کہ:

زمانہ سخت کم آزار ہے بجان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے تھے

فیض نے یوں کہا کہ:

غم جہاں ہو، غم یار ہو یا تیر ستم
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

افتخار عارف کہتے ہیں:

جو فیض سے شرف استفادہ رکھتے ہیں
کچھ اہل درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہیں

افتخار عارف کی اس غزل کا مقطع بجائے خود فیض اور غالب سے ان کی عقیدت کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ فکر وفن پر ان کی دسترس کا بآواز بلند اعلان بھی کرتا ہے۔ غالب کا مصرعہ اولیٰ، فیض کا مصرعہ ثانی اور افتخار عارف کا کمال فن یکجا ہو تبھی ایسا شعر تخلیق ہو سکتا ہے۔شعر دیکھیے:

بنام فیض، بجان اسد فقیر کے پاس
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

فیض جیسے شاعر کی تقلید ایک ماہر فن شاعر ہی کر سکتا ہے، تاہم افتخار عارف نے اپنی انفرادیت کے لیے ایک الگ راستے کا تعین بھی کر رکھا ہے اور وہ ہے سعادت مندی کا راستہ جو بہت کم شعرا کے حصے میں آیا ہے۔ اکثر شعرا تو خود ستایشی کے مصنوعی خول سے ہی باہر نہیں نکل پاتے۔ شعر دیکھیے:

زندگی نذر گزاری تو ملی چادر خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
یہ زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کہانی سے تو عزت نہیں ملنے والی

موصوف کی غزلوں کا مزاج وماحول، ان کی لغت، ان کے حسی تجربے اور ان تجربوں کے اظہار کا پیرایہ دوسروں سے مختلف ہے اور روح عصر کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ بھی۔

افتخار عارف بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں، تاہم اپنی نظموں میں بھی انھوں نے جو جدت اپنائی ہے، وہ انھیں اپنے ہم عصر نظم گو شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ نظموں کی بات طوالت کی متقاضی ہے، اس لیے مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق افتخار عارف کی مقبول نظم ’’خوں بہا‘‘ کا یہ آخری بند ملاحظہ کیجیے:

خلق ہم سے کہتی ہے سارا ماجرا لکھیں

کس نے کس طرح پایا اپنا خوں بہا لکھیں

چشم نم سے شرمندہ

ہم قلم سے شرمندہ سوچتے ہیں کیا لکھیں

شاعر کا یہ بند جہاں خلقت کی ان توقعات کی عکاسی کرتا ہے جو وہ تخلیق کار سے جبر وظلم کے خلاف رکھتی ہے، وہیں لوح وقلم کی مجبوری اور خوف سلاسل کا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ فکر ایسے سماج کی عکاسی کر رہی ہے جہاں فریضہ تخلیق اور حرمت قلم کو نبھانا مشکل ہے، اس لیے قلم کار، قلم سے شرمندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس نمونے سے ہی افتخار عارف کی نظموں کے مضامین، مزاج اور لہجے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

حقیقی شاعری احساس کی ریاضت اور وجدان کا وہ بے پایاں خلوص ہے جو فن کا پہلا اور آخری سوال ہے۔ اس ریاضت اور خلوص کی بدولت ہی شاعر محبت کے جان لیوا کرب کو سہہ جاتا ہے۔ افتخار عارف نے غم عشق اور غم زندگی کا صحت مندانہ اور شفا بخش تصور پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کا مجموعی مزاج خالص فکری ہے۔


زبان و ادب

(نومبر ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter