علامہ اقبال کے نظریہ شعر کا جائزہ لینے سے قبل اس بنیادی اور اصولی بحث سے اعراض ممکن نہیں کہ آخر شعر وادب کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کسی فنی شاہکار اور فن پارے کی عظمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ ۱ انسان کی ابتدائی اور قدیم ترین زندگی میں، جسے پتھروں کا زمانہ کہا جاتا ہے، فن برائے فن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ۲ فن میں مقصدیت کا عمل دخل بھی کوئی نیا اور جدید نہیں ہے۔ یہ اپنی قدامت کے لحاظ سے قدیم یونان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’فن برائے فن‘‘ ۳ یا ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے جمالیاتی تنقید میں معرکہ آرا مسئلے کی صورت اختیار کر لی اور آج تک متنازع فیہ ہے۔ ۴ فن برائے فن کے داعیوں ۵ کا کہنا یہ ہے کہ حسن فن کا خاصہ ہے، حسن بذاتہ ایک ایسی قدر ہے جو مطلق بھی ہے اور ہر قدر سے اعلیٰ اور برتر بھی۔ باقی تمام اقدار مثلاً صداقت اور خیر یا تو حسن کے ماتحت ہیں یا بالکل غیر متعلق۔ اس قدر اعلیٰ ہونے کی بنا پر فن کا وجود بذاتہ مقصود بن جاتا ہے۔ زندگی کی وسعتوں میں اس کی اپنی حدود ہیں اور یہ اپنے مقام پر آزاد اور مکمل ہے۔ نہ اس کی کوئی منزل مقصود ہے اور نہ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کا کام صرف اس قدر ہے کہ فن کار کو حسن محض کے ادراک سے ہم کنار اور کیفیت اہتزاز سے دوچار کرے۔ یہ مقصد خود فن ہی میں داخل ہے اور اس وقت حاصل ہو جاتا ہے جب فن تخلیق پذیر ہو۔ فن کی اپنی قدر کے علاوہ کسی اور مقصد مثلاً اخلاق، تعلیم، روپیہ پیسہ یا شہرت وغیرہ کو اس کے متعلق گرداننا دراصل اس کی اپنی قدر کی نفی ہے۔ یہ مقاصد فن کی قدر وقیمت کو گرا دیتے ہیں، اس میں اضافہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
گوتیر (Goutir) کا قول ہے کہ ہم فن کی آزادی کے قائل ہیں۔ ہمارے نزدیک فن بذات خود ایک مقصد ہے نہ کہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ۔ وہ فن کار جو فن کے بجائے کسی اور مقصد کی تلاش میں ہو، فن کار ہی نہیں۔ ایک اور جگہ اس نے کہا ہے کہ ’’جب کوئی شے مفید بن جاتی ہے تو حسین نہیں رہتی۔‘‘ آسکر وائلڈ کے نزدیک تخلیق کی اولین شرط یہ ہے کہ نقاد اس بات کو خوب جان لے کہ فن اور اخلاق کی حدود ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ ۶ ڈاکٹر عبد الحکیم خلیفہ نے اپنے مقالہ ’’فنون لطیفہ‘‘ میں فرائڈ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’فن لطیف کا کام دل کش نفسیاتی دھوکہ پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصد زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔‘‘ ۷ سید انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے مخصوص انداز میں یہی بات یوں کہی ہے: ’’شعر میں ایک تو شاعری ہوتی ہے، دوسرے جھوٹ اور تیسرے مبالغہ۔ شاعری میں تخیل اور خیال آفرینی ہوتی ہے یعنی حقیقت شے کے آس پاس آنا اور خود اس کو ظاہر نہ کرنا جس کا مقصد اچنبھے میں ڈالنا ہوتا ہے۔‘‘ ۸ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی نے لکھا ہے کہ فن کا اپنا ہی ایک معیار ہے جو اخلاقیات کی قید میں نہیں آ سکتا۔ وہ ایک مفکر کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’شاعری کے لیے حقیقت اور صداقت ضروری نہیں ہے بلکہ شاعری اور آرٹ مبالغے کے جتنا قریب ہوں گے، اتنا ہی پر اثر ہوں گے۔‘‘ ۹
’’فن برائے فن‘‘ سے ملتی جلتی ایک اور تحریک ’’ہیئت برائے ہیئت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حامیوں کے نزدیک فن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بات کہی کیسے جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ کیا کہا گیا ہے تو ان کے نزدیک یہ کوئی اہم شے نہیں۔ جو بات آپ کہتے ہیں، وہ اچھی ہو یا بری، سچ ہو یا جھوٹ، صحیح ہو یا نادرست، فن کی قدر وقیمت پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ اس کا انحصار تو اس ہیئت پر ہے جس میں فن کو وجود ملا ہے اور تمام جمالیاتی خصائص اس سے وابستہ ہیں۔ اس صورت میں ’فن برائے فن‘ کا کلیہ ’ہیئت برائے ہیئت‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ۱۰ اس لحاظ سے ’فن برائے فن‘ اور ’ہیئت برائے ہیئت‘ ایک ہی تحریک کے دو نام ہیں۔
اس تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں فن کو زندگی سے بالا وبرتر مقام دیا گیا ہے اور اس کے داعیوں نے فن کے مافیہ (Content) کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ ۱۱ ظاہر ہے کہ اس حیثیت میں ادب کوئی مفید چیز نہیں ہو سکتا۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرا نظریہ ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حضرات فن برائے فن کے مخالف اور فن کے مافیہ پر بہت زور دیتے ہیں۔ مولانا عبد السلام ندوی فرماتے ہیں کہ ’’فن برائے فن کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل چیز فن برائے زندگی ہے۔‘‘ ۱۲ علامہ اقبال اسی نظریہ کے داعی اور مبلغ ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ فرماتے ہیں: ’’فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ اقبال نہ علم برائے علم کے قائل تھے نہ فن برائے فن کے۔‘‘ ۱۳ آپ کے ہاں زندگی اور فن کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ ان کے نظریہ فن کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ فن زندگی کا خادم ہے۔ ۱۴
ا س تحریک کا باوا آدم افلاطون کو بتایا جاتا ہے۔ ۱۵ اقبال مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر میں افلاطون کے سخت مخالف ہیں، ۱۵ لیکن فن کے سلسلے میں اسی کے پیروکار ہیں۔ دونوں کے نزدیک فن کا ایک ہی مقصد ہے۔ ۱۶ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال افلاطون سے زیادہ حالیؒ سے متاثر ہوئے ہیں۔ نقاد کہتا ہے: ’’حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے اور اس کی حکیمانہ نظر حالی سے زیادہ وسیع اور گہری ہے۔‘‘ ۱۷ شیخ عبد القادر نے دیباچہ بانگ درا میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان کی علمی دنیا میں جتنے نامور اس زمانے میں موجود تھے، مثلاً مولانا شبلی مرحوم، مولانا حالی مرحوم، اکبر مرحوم، سب سے اقبال کی ملاقات اور خط وکتابت تھی ۱۸ اور ان کے اثرات اقبال کے کلام پر اور اقبال کا اثر ان کی طبائع پر پڑتا رہا۔‘‘ ۱۹ یہی بات شیخ عبد القادر نے غالب کے بارے میں فرمائی ہے بلکہ اس ضمن میں تو وہ یہاں تک لکھ گئے ہیں کہ ’’اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ غالب کی روح نے دوبارہ اقبال کا نام پایا۔‘‘ ۲۰
علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں غالب کی حکمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ۲۱ یہ سچ ہے کہ اقبال نے افلاطون، شبلی، حالی اور غالب سے استفادہ کیا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے اپنے نظریہ ادب وشعر کی بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات پر رکھی ہے، چنانچہ آپ نے ۱۹۱۷ء میں ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں دو عربی شاعروں کے موازنہ وتقابل سے فنون لطیفہ اور خصوصاً شاعری کے بارے میں اپنا نظریہ بڑی وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس تحریر سے ایک اقتباس ہم اس مضمون کے آخر میں نقل کریں گے۔
علامہ اقبال نے انجمن ادبی کابل کے سپاس نامہ ۲۲ کے جواب میں فرمایا تھا:
’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ اس ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت اور بزرگی کے بجائے موت کو بڑھا چڑھا کر نہ دکھائیں کیونکہ جب آرٹ موت کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، اس وقت وہ سخت خوفناک اور برباد کن ہو جاتا ہے۔‘‘۲۳
آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ :
’’شاعر اپنے تخیل سے قوموں کی زندگی میں نئی روح پھونکتا ہے۔ قومیں شعرا کی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پاکر مر جاتی ہیں۔ پس مری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعرا اور انشا پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔‘‘ ۲۴
کسی قوم کے ادیب، شاعر اور فن کار اس کی زندگی میں جو مثبت یا منفی کردار ادا کرتے ہیں، اس کو جس شدت سے اقبال نے محسوس کیا، شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
’’کسی قوم کی معنوی صحت زیادہ تر اس روح کی نوعیت پرمنحصر ہے جو اس کے اندر اس کے شعرا اور صاحبان فن پیدا کرتے ہیں ....... کسی اہل ہنر کا مائل بہ انحطاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لیے اٹیلا ۲۵ اور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘‘ ۲۶
سرسری نظر میں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ادیب اور شاعر اپنی شکست خوردہ ذہنیت اور مردہ ضمیری کے ساتھ اپنی قوم کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا سے زیادہ تباہ کن کیسے ثابت ہو تا ہے۔ اس کا جواب فکر اقبال ہی سے یوں دیا جا سکتا ہے کہ عمدہ اور لطیف شاعر کی مثال ساحر اور جادوگر کی سی ہے: ۲۷
جمیل تر ہیں گل ولالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو
وہ اپنی شاعری سے قوم کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔ اس کے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی قوت مفقود اور اس کے اعضا وجوارح قوت عمل سے محروم ہو جاتے ہیں اور قوم بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے جو غلامی سے بھی بد تر بتائی جاتی ہے: ۲۸
یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقین اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
علامہ اقبال نے ’مثنوی اسرار خودی‘ لکھی تو اس میں افلاطون اور حافظ شیرازیؒ پر سخت تنقید کی۔ یہ دراصل اسی نقطہ نظر کی وضاحت تھی کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں۔ اقبال کو حافظ کی شاعرانہ عظمت سے انکار نہیں تھا۔ وہ تو اسے بلند پایہ شاعر سمجھتے تھے۔ ۲۹ ان کو اختلاف اس کیفیت سے تھا جس کو وہ اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی نگاہ میں حافظؒ اپنے شیریں فن کے ذریعے موت کی دعوت دیتے ہیں، ایسی موت جس کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا کا مرہون منت بھی نہیں ہونا پڑتا۔ اقبال کے نزدیک شاعری کا ایک معیار ہے جو فنی اعتبار سے نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ شاعری صنائع بدائع کے محاسن سے مزین ہو، ۳۰ بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں کس قدر ممد ومعاون ہیں۔ اقبال اپنے مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ اچھا شاعر ہیں اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبارات سے مضرت رساں ہے۔ ہر شاعر کم وبیش گردوپیش کی اشیا، عقائد، خیالات ومقاصد کو حسین وجمیل بنا کر دکھانے کی قابلیت رکھتا ہے اور شاعری نام ہی اس کا ہے کہ اشیا ومقاصد کو اصلیت سے حسین تر بنا کر دکھایا جائے تاکہ اوروں کو ان اشیا ومقاصد کی طرف توجہ ہو اور قلوب ان کی طرف کھنچ آئیں۔ ان معنوں میں ہر شاعر جادوگر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کا جادو کم چلتا ہے، کسی کا زیادہ۔ خواجہ حافظ اس اعتبار سے سب سے بڑے ساحر ہیں۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے مقصد یا حالت یا خیال کو محبوب بناتے ہیں۔ وہ ایسی کیفیت کو محبوب بناتے ہیں جو اغراض زندگی کے منافی ہے بلکہ زندگی کے لیے مضر ہے۔ جو حالت خواجہ صاحب اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ حالت افراد واقوام کے لیے جو اس زمان ومکان کی دنیا میں رہتے ہیں، نہایت ہی خطرناک ہے۔ حافظ کی دعوت موت کی طرف ہے جس کو وہ اپنے کمال فن سے شیریں کر دیتے ہیں تاکہ مرنے والے کو اپنے دکھ کا احساس نہ ہو۔‘‘ ۳۱
اورنگ زیب عالمگیر نے، جو بڑا متشرع بادشاہ تھا، حکم دیا کہ اتنی مدت تک تمام طوائفیں نکاح کر لیں ورنہ کشتی میں بھر کر تمام کو دریا برد کر دیا جائے۔ جب تعمیل حکم میں ایک دن باقی رہ گیا تو ایک طوائف جو شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کے پاس آئی تھی، آخری سلام کے لیے حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا۔ شیخ نے کہا کہ تم حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو: ۳۲
در کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند
گر تو نمے پسندی تغییر کن قضا را
اور کل جب تمھیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلند اس شعر کو پڑھتی جاؤ۔ ان طوائفوں نے اس کو یاد کر لیا اور جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش الحانی سے بڑے درد انگیز لہجے میں اس شعر کو پڑھنا شروع کر دیا۔ جس جس نے سنا، دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کانوں میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا، سب کو چھوڑ دو۔ ۳۳
اس واقعے سے کلام حافظ کی تاثیر کا اندازہ فرمائیں۔ کیا ان معنوں میں حافظ کو ساحر کہنا کوئی بے جا بات تھی؟ یہ حافظ کا حسن کلام نہیں ہے بلکہ اقبال اس کو حافظ کا قبح قرار دیتے ہیں۔ ۳۴ اس لیے کہ اقبال کے خیال میں اس شعر میں حافظ نے مسئلہ تقدیر کی غلط اور حیات کش تعبیر کی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ:
’’مسئلہ تقدیر کی ایسی غلط مگر دل آویز تعبیر سے حافظ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو، جو آئین حقہ شرعیہ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا، قلبی اعتبار سے اس قدر ناتواں کر دیا کہ اسے قوانین اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی۔‘‘ ۳۵
اقبال نے شعر عجم کی جو تنقید فرمائی ہے، اس کا پس منظر حافظ شیرازی کی شاعرانہ جادوگری ہے۔ اقبال نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بعض عجمی تصورات اور افکار نے اسلام کے چشمے کو گدلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ایران کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی اور صرف ان ایرانی شعرا کے کلام کو اہمیت دی جو شعر وتصوف کی صحت مند تحریکات کے علمبردار تھے۔ ۳۶ اقبال نے رومی کو اپنا مرشد بنایا لیکن حافظ شیرازی کو ساحر اور جادوگر کہا اور اس سے بہرحال گریز کی تلقین کی: ۳۷
بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گوسفنداں الحذر
ضرب کلیم میں ’’شاعر‘‘ اور ’’شعر العجم‘‘ کے عنوان سے دو نظموں میں انھی خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ یہاں آپ نے ’’عجمی لے‘‘ ۳۸ اور ’’شعر العجم‘‘ کی باقاعدہ اصطلاحیں استعمال کی ہیں اور اس سے اجتناب کی وجہ بھی بیان کر دی ہے: ۳۹
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں ’’عجمی لے‘‘
اسی طرح شعر العجم کی طرب ناکی اور دل آویزی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے افسردگی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے: ۴۰
ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک ودل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
یہاں مختصراً یہ جان لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’خودی‘ سے کیا مراد ہے اور اس کا نظریہ فن سے کیا تعلق ہے؟ ’خودی‘ فکر اقبال کا مرکزی نکتہ ہے ۴۱ جس سے مراد نفس یا تعین ذات ہے۔ ۴۲ کبھی یہ راز درون حیات ہے اور کبھی بیدارئ کائنات۔ ۴۳ یہ ایک خاموش قوت ہے جو عمل کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ زندگی کا نظم اور انسانی شخصیت کی پائیداری اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اقبال خودی کو قوت، حرکت اور جہد مسلسل سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب یہ خودی اپنے ذوق وشوق کا اظہار کرتی ہے تو زمین وآسمان کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ۴۴ اقبال فرماتے ہیں، خودی وہ شراب ہے جس سے قوموں کا فہم تیز ہوتا ہے، جو تنکے کو چھو کر پہاڑ بنا دیتی ہے، جو لومڑی کو شیر، خاک کو ثریا اور قطرے کو سمندر بنا دیتی ہے۔ یہ وہ غیرت ہے جو ممولے اور چکور کو باز سے آمادۂ پیکار کرتی ہے۔ ۴۵ اقبال نے خودی کے مفہوم میں بے انتہا وسعت پیدا کر دی ہے لیکن تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ خودی سے اقبال کی خودی ذوق عمل اور قوت تسخیر ہے اور اس کامقصد فقط اتنا ہے کہ انسان اور خاص طور پر مسلمان غفلت اور تن آسانی کی روش کو چھوڑ کر سخت کوشی اور خطر پسندی کا راستہ اختیار کریں۔ فنون لطیفہ سے اقبال اسی خودی کی تعمیر کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسی خودی کا نام اسرار زندگی ہے۔ دیباچہ مرقع چغتائی میں فرماتے ہیں:
’’مجھے جو کچھ کہنا ہے، اس کا حاصل بس اس قدر ہے کہ میں سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع سمجھتا ہوں۔‘‘ ۴۶
یہی بات اقبال نے ان اشعار میں بیان فرمائی ہے: ۴۷
سرود وشعر وسیاست، کتاب ودین وہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں وافسانہ
ضرب کلیم میں ’’فنون لطیفہ‘‘ کے نام سے ایک نظم موجود ہے۔ اس کے ایک جملہ ’’مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے‘‘ ۴۸ میں تمام فنون لطیفہ کا مقصد بیان کر دیا ہے۔ ایک اور نظم میں شعر کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ۴۹
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جرس ہے یا بانگ اسرافیل
پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس شعر کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’شاعری میں یا تو پاکیزہ خیالات بیان ہوتے ہیں جن کی بدولت قوم میں نیکی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے یا پھر اس میں عمل صالح کی ترغیب ہوتی ہے جس کی بدولت قوم میں جہاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ۵۰
اقبال نے اپنے خطوط میں بھی اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد عالم اسلام اور خاص طور پر مسلمانان ہند میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ آپ نے ۳ ستمبر ۱۹۱۷ کو مولانا گرامی کے نام ایک خط میں لکھا:
’’میرا مقصد کچھ شاعری نہیں ہے بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساس ملیہ پیدا ہو جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ اس قسم کے اشعار لکھنے کی غرض عبادت ہے نہ شہرت ہے۔ کیا عجب ہے کہ نبی کریم کو مری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعہ نجات ہو جائے۔‘‘ ۵۱
۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء کو سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک مکتوب میں ارقام فرماتے ہیں:
’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو۔ بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ ۵۲
اقبال کے ان خطوط سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہ تھی۔ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ اور پردہ تھی: ۵۳
پردۂ تو از نوائے شاعری است
آنچہ گوئی ماورائے شاعری است
اس پردہ میں آپ نے ملت اسلامیہ کو بیداری اور جانبازی کا پیغام دیا ہے۔ ایک یورپی نقاد نے خوب کہا ہے کہ اقبال کا کلام ایک پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۵۴
"Muhammad Iqbal's work is nothing but a message."
اور یہ پیغام خودی اور زندگی کے نام ہے، لہٰذا شعر ہو یا آرٹ کا کوئی اور شعبہ، اقبال کے ہاں اس کی قبولیت کا معیار زندگی اور خودی ہی ہے۔ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا:
’’آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسانی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو، اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہے، قابل نفرت وپرہیز ہے۔ اس کی ترویج حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔‘‘ ۵۵
علامہ اقبال کی ان وضاحتوں کے بعد مزید کسی شرح کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا شاعر ہے، حرکت وجہد کا پیام بر ہے، طاقت وقوت کا مبلغ ہے، افکار وخیالات میں پاکیزگی کا طرف دار اور علم بردار ہے۔ لہٰذا جو ادب بھی، خواہ وہ شعر ہو، موسیقی ہو، مصوری ہو، سنگ تراشی ہو، کوئی ڈراما یا تمثیل ہو، الغرض فنون لطیفہ کی کوئی بھی قسم ہو، اس کا مقصد زندگی کی صحت مند قدروں کی آب یاری ہونا چاہیے۔ اس میں ہمت اور ذوق عمل کا پیغام ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اقبال اپنی نظموں ’’شعر عجم‘‘ اور ’’ہنر وران ہند‘‘ میں مصوری، تمثیل وموسیقی وغیرہ سے نفرت کا اظہار اسی وقت کرتے ہیں جب وہ منفی اقدار کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ فنون لطیفہ کی طاقت کا بھرپور ادراک رکھتے تھے، اسی لیے ان کے مثبت اور تعمیری کردار پر زور دیتے تھے۔ فرماتے ہیں، ’’میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے۔‘‘ ۵۶
اس بحث کو اقبال کے مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ پر ختم کیا جاتا ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کس قسم کی شاعری کے حامی اور کس قسم کی شاعری کے مخالف ہیں:
’’یہ وہ عقدہ ہے جس کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان نے اس طرح حل کیا ہے۔ امرؤ القیس نے اسلام سے چالیس سال پہلے کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہمیں بتاتی ہے کہ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت ایک موقع پر حسب ذیل رائے ظاہر فرمائی ہے: اشعر الشعراء وقائدہم الی النار۔ یعنی وہ شاعروں کا سردار تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امرؤ القیس کی شاعری میں وہ کون سی باتیں ہیں جنھوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ رائے ظاہر کروائی۔ امرؤ القیس کے دیوان پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شراب ارغوانی کے دور، عشق وحسن کی ہوش ربا داستانوں اور جاں گداز جذبوں، آندھیوں سے اڑی ہوئی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں، سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخلیقی کائنات ہے۔ امرؤ القیس قوت ارادی کو جنبش میں لانے کی بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ شاعر بہت شعر کہے لیکن وہ شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھا دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کی مشکلات وامتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے وہ فرسودگی وانحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کا تو فرض ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ یہ کہ اٹھائی گیرہ بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے، اس کو بھی ہتھیا لے۔‘‘ ۵۷
حوالہ جات
۱ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مجلہ ’’اقبالیات‘‘ اردو، اقبال اکادمی لاہور، جلد ۳۱، شمارہ ۲۔۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۶
۲ ایضاً، ص ۲۰۵
۳ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱ء، حصہ دوم، باب ۱۱، ص ۲۹۹
۴ وکٹر پیوگو نے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کی اصطلاح کے متعلق لکھا ہے کہ سب سے پہلے اس نے اس کو استعمال کیا، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ شاید اس کو یہ علم نہ تھا کہ اس سے قبل یہی الفاظ وکٹر کوزین نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیے گئے۔ ’’آرٹ مذہب واخلاق کی خدمت کے لیے ہے اور نہ اس کا مقصد مسرت وافادہ ہے ...... مذہب، مذہب کی خاطر ہونا چاہیے، اخلاق، اخلاق کی خاطر اور آرٹ، آرٹ کی خاطر۔ نیکی اور پاک بازی کے راستے سے افادہ اور جمال تک پہنچ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جمال کا مقصد افادہ یا نیکی یا پاک بازی نہیں ہے۔ جمال کا راستہ جمال ہی کی طرف رہبری کر سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر یوسف حسین خان، ’’آرٹ اور اقبال‘‘، مشمولہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ، مرتبہ پروفیسر اے جی نیازی، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، بار اول، مارچ ۱۹۶۵، ص ۱۲۷، ۱۲۸)
۵ فرانس میں فلوبیر (Flaubert)، گوئی اے (Gautier) اور بودلیئر (Baudelair)، امریکہ میں اڈگر ایلن پو (Edger Ellen Poe) اور انگلستان میں آسکر وائلڈ نے فن برائے فن کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ انگلستان میں والٹر پیٹر (Walter Peter) کو فن برائے فن کا عظیم نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ (سید جابر علی، اقبال کا فنی ارتقا، بزم اقبال لاہور، طبع اول، جولائی ۱۹۷۸، ص ۱۹۲)
۶ میاں محمد شریف، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ فلسفہ اقبال، مترجمہ سجاد رضوی، مرتبہ بزم اقبال لاہور، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴، باب ۲، ص ۴۴، ۴۵
۷ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، ’’فکر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، طبع ہفتم جولائی ۱۹۹۰، باب ۱۶، ص ۴۳۱
۸ سید انور شاہ کشمیری، ’’ملفوظات‘‘، مرتبہ مولانا سید احمد رضا بجنوری، اشرف اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۵۱
۹ ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، اقبالیات، جلد ۳۱ شمارہ ۲ تا ۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۸
۱۰ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۴۶
۱۱ ایضاً، ص ۴۸
۱۲ مولانا عبد السلام ندوی، ’’اقبال کامل‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، سن ندارد، ص ۳۷۲
۱۳ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۲
۱۴ پروفیسر اشرف انصاری، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ اقبالیات راوی، مرتبہ ڈاکٹر صدیق جاوید، الفیصل ناشران لاہور، جولائی ۱۹۸۹، ص ۲۵۸
۱۵ علامہ اقبال نے ’اسرار خودی‘ میں افلاطون پر سخت تنقید فرمائی ہے۔ اس کو قدیم زمانے کا راہب اور مسلک گوسفندی کا پیرو کہا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس کا جام خواب آور ہے، وہ زندگی کی نفی کرتا ہے، وہ انسان کے لباس میں گوسفند ہے، اس کا کام باسی تھا، اس کی مستی سے قومیں زہر آلود ہو گئیں، سو گئیں اور ذوق عمل سے محروم ہو گئیں۔ (علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، اشاعت پنجم مئی ۱۹۸۵، صفحات ۳۲ تا ۳۴)
۱۶ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۵۷
۱۷ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۰
۱۸ علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے دسمبر ۱۹۳۴ تک جو خطوط مرقوم فرمائے، ان میں مولانا شبلی کے نام صرف ایک خط ہے جو ۱۲ جنوری ۱۹۱۲ کو لاہور سے لکھا گیا ہے۔ البتہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں مولانا شبلی کا ذکر خوب کرتے ہیں۔ لاہور سے ایک خط محررہ ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں ’’مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں‘‘۔ (کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم ۱۹۹۳ء، ص ۷۰۵)
اسی طرح بعض دیگر ارباب علم کے نام اپنے خطوط میں شبلی کے علاوہ حالی اور اکبر وغیرہ کا نام نہایت عقیدت واحترام سے کیا ہے۔ مثلاً شاعر مدراس کے نام ایک خط میں حالی اور شبلی کو قادر الکلام بزرگوں میں شمار کیا ہے اور ان سے داد حاصل کرنے کو بڑے فخر کی بات بتایا ہے۔ (مکتوب بنام شاعر مدراس محررہ ۲۹ اگست ۱۹۰۸، کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص ۱۵۰)
مولانا الطاف حسین حالیؒ (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) کے نام علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے حالی کی وفات تک کوئی خط نہیں لکھا۔ پھر ۱۹۱۴ میں حالی فوت ہی ہو گئے تھے، البتہ اپنے خطوط میں حالی کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی کے نام آپ کے درجنوں خطوط ہیں۔ ان تمام کے مضامین ’اسرار ورموز‘ کی اشاعت، ترتیب اور مشمولات کے بارے میں ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے حافظ کے بارے میں فکری تنازعہ کا ذکر ان خطوط کا حصہ ہے۔ ان تمام مکتوبات کا عرصہ تحریر ۱۹۱۱ سے ۱۹۱۸ تک ہے۔ (دیکھیے کلیات مکاتیب اقبال،جلد اول)
۱۹ شیخ عبد القادر، دیباچہ بانگ درا، مشمولہ ’’نذر اقبال‘‘، (سر عبد القادر کے مضامین، مقالات، مقدمات اور مکاتیب کا مجموعہ) مرتبہ محمد حنیف شاہد، بزم اقبال لاہور، طبع اول اگست ۱۹۷۲، ص ۴۲، ۴۲
۲۰ ایضاً ص ۳۷، ۳۸
۲۱ دیکھیے کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۱۵
۲۲ یہ اکتوبر، نومبر ۱۹۳۳ کا ذکر ہے جب نادر خان شاہ افغانستان نے علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کو افغان یونیورسٹی کابل کے نصاب کے سلسلے میں دعوت دی۔ اس موقع پر انجمن ادبی کابل نے ان حضرات کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس موقع پر سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے علاوہ علامہ اقبال نے انجمن کے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے ایک تقریر فرمائی۔ یہ اقتباسات اسی تقریر کا حصہ ہیں۔ دیکھیے، ’’مقالات اقبال‘‘، میں کابل میں ایک تقریر، ص ۲۵۹۔ نیز دیکھیے حق نواز کا مرتبہ ’’سفرنامہ اقبال‘‘، اقبال صدی پبلی کیشنز، دہلی، اشاعت اول، ۱۹۷۷، سفر افغانستان ۱۹۳۳۔ مزید دیکھیے، ’’حیات اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘، مرتبہ محمد حمزہ فاروقی، ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانش گاہ پنجاب لاہور، طبع اول مارچ ۱۹۸۸، باب سیر افغان ۱۹۳۳، صفحات ۲۰۰ تا ۲۱۲
۲۳ کابل میں ایک تقریر، ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۵۹
۲۴ ایضاً، ص ۲۶۰
۲۵ Attila of Etzel ، ۴۰۶۔۴۵۳، ہن حملہ آوروں کا سردار تھا جو اپنے آپ کو خدائی قہر کہتا تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا کہ جدھر سے اس کا گزر ہو جائے، وہاں گھاس بھی نہیں اگتی۔ سلطنت روما کے دور انحطاط میں یورپ پر (۴۳۲۔۴۵۳) عفریت کی طرح مسلط رہا۔ مشرقی اور مغربی روم کی حکومتوں کو تاخت وتاراج اور جرمنی و اطالیہ وغیرہ کے علاقوں کو تباہ وبرباد کیا۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا، ص ۱۶۱)
۲۶ دیباچہ مرقع چغتائی، در ’’مضامین اقبال‘‘، مرتبہ تصدق حسین تاج، حیدر آباد دکن، ۱۳۶۲، ص ۱۹۷
۲۷ کلیات اقبال ص ۳۰۵۔ نیز اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۰۷
۲۸ کلیات اقبال اردو، ص ۳۷۳
۲۹ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۶
۳۰ ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۳۰
۳۱ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۷
۳۲ حافظ شیرازی کا یہ شعر دیوان حافظ میں ملاحظہ ہو۔ دیوان حافظ، مقبول اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۳۳
۳۳ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۹، ۲۱۰
۳۴ و۳۵ ایضاً ص ۲۱۰
۳۶ سید عابد علی عابد، ’’شعر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، ستمبر ۱۹۹۳، ص ۱۸۴
۳۷ اقبال کا یہ شعر ان اشعار کا تتمہ ہے جو آپ نے اسرار خودی کی اولین اشاعت ۱۹۱۵ میں حافظ پر لکھے تھے اور بعد ازاں یہ تمام اشعار حذف کر دیے تھے۔ مثنوی کا یہ اولین نسخہ ہے جو حکیم محمد صاحب چشتی نظامی نے یونین سٹیم پریس لاہور سے ۵۰۰ کی تعداد میں شائع کی تھی۔ یہ نسخہ اقبال اکادمی لاہور میں محفوظ ہے۔
۳۸ سید عابد علی عابد ’’عجمی لے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شعر کوئی کی ایک خاص روش ہے جسے اقبال ’’عجمی لے‘‘ کہتے ہیں۔ ’’لے‘‘ اس سلسلے میں بڑا ہی پر اسرار لفظ ہے اور جب تک اس کا صحیح مفہوم متعین نہ ہو، ’’عجمی لے‘‘ کی دلالتیں واضح نہیں ہو سکتیں۔ ’’عجمی لے‘‘ یا عجمی شعر گوئی سے کیسا اسلوب شعر گوئی ملحوظ ہے، اس کا جواب اقبال اسرار خودی میں دے چکے ہیں۔ انھوں نے حافظ کو ’’عجمی لے‘‘ کا نمائندہ شاعر سمجھا تھا کہ بڑے دل کش اور دل فریب پیرایے میں نرم ونازک الفاظ کو لوری دے کر پڑھنے والے کو موت کی نیند سلاتا ہے۔ یہ موت ذہنی ہے اور ذوق عمل کے فقدان سے عبارت ہے۔‘‘ (شعر اقبال، ص ۱۸۷)
۳۹ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۸۹
۴۰ ایضاً ص ۵۹۰
۴۱ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی، پاکستان لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱، ص ۱۵
۴۲ محمد اقبال، دیباچہ مثنوی اسرار خودی، اشاعت اول ۱۹۱۵، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۱۹۹
۴۳ ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو) ص ۴۱۹
۴۴ خودی کی ان تمام تعبیرات کے لیے دیکھیے مثنوی اسرار خودی کا باب ’’اصل نظام عالم از خودی است وتسلسل حیات‘‘
۴۵ تمہید اسرار خودی، کلیات اقبال (فارسی) ص ۸
۴۶ دیباچہ مرقع چغتائی، در مضامین اقبال، ص ۱۹۷
۴۷ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۶۲
۴۸ ایضاً، ص ۵۸۰
۴۹ ایضاً، ص ۵۹۰
۵۰ یوسف سلیم چشتی، ’’شرح ضرب کلیم‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، سن ندارد، ص ۳۲۵
۵۱ سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیات مکاتیب اقبال، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم، جلد اول، ص ۶۵۷
۵۲ ایضاً، اشاعت دوم ۱۹۹۳، جلد دوم، ص ۱۳۷
۵۳ کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۵۵
۵۴ ایڈورڈ میک کارتھی، ’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘، اقبال ریویو (انگریزی) مجلہ اقبال اکادمی کراچی، جلد ۲، شمارہ ۳۰، اکتوبر ۱۹۶۱، ص ۱۸
۵۵ ملفوظات محمود نظامی، ص ۱۴۵
۵۶ دیکھیے اقبال کی ’’کابل میں ایک تقریر ۱۹۲۳‘‘ مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۵۹
۵۷ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال ص ۲۲۹، ۲۳۰