وطن میرا ہوا آزاد اب آزاد ہوں میں بھی
مجھے اپنے وطن میں جشنِ آزادی منانے دو
غلامی کے گذشتہ مرثیے پڑھنے سے کیا حاصل؟
کھلے دل سے ترانے مجھ کو آزادی کے گانے دو
منافع بے ملاوٹ حسبِ مرضی مل نہیں سکتا
مجھے بے خوف ہر خالص کو ناخالص بنانے دو
گھریلو تربیت میں بھی نہ ہو جائے کہیں غفلت
بلاناغہ حسیں چہروں کو ٹی وی پر دکھانے دو
برات اب آنے والی ہے یہاں میرے بھتیجے کی
درِ مسجد پہ بے چون و چرا باجا بجانے دو
بلا رشوت ملازم کا گزارا ہو نہیں سکتا
انہیں مِن فضلِ رَبی کی کمائی سے بھی کھانے دو
یہ آزادی کے رسیا بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے
یہ چوپائے کھڑے ہو کر ہی کھاتے ہیں تو کھانے دو
وہ دو شیزائیں دیکھو بیٹھ کر جانے لگیں بس میں
ہمیں بھی سیٹ پر ان کے مقابل بیٹھ جانے دو
لٹا کر اپنا سب کچھ تب کہیں جا کر بنا ممبر
مزے مجھ کو بھی عیشِ جاودانی کے اٹھانے دو
رہیں محروم کیوں اس نعمتِ عظمٰی سے مولانا
انہیں مادام کی دُھن میں نئی نعتیں سنانے دو
مٹھائی، کھیر، حلوہ روز کھانا بن گئی فطرت
انہیں مسجد میں ہر ہفتہ کسی کا دن منانے دو
جھنجوڑا کارواں نے جب تو میرِ کارواں بولے
ابھی کچھ اور دن کم بخت گل چھرے اڑانے دو
جرائم بڑھتے جاتے ہیں کمی ہونے نہیں پاتی
رئیس الملک کے اغماض پر آنسو بہانے دو
یہ سب بیماریاں ہو جائیں گی یکم رفوچکر
شریعت کا نظام اس ملک میں اک بار آنے دو