خواجہ حسن نظامی کی خاکہ نگاری

پروفیسر میاں انعام الرحمن

اردو ادب میں شاید ہی کوئی دوسرا انشاپرداز ہو جو خواجہ حسن نظامی مرحوم (۱۸۷۸۔۱۹۵۵)سے بہتر طور پر ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘ کا مصداق ہو ، حال آں کہ خواجہ صاحب کا شمار اردو ادب کے ان خاکہ نگاروں میں کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اس ادبی صنف کو بال و پر عطا کیے اور یہ صنف ’فن‘ سمجھی جانے لگی ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے ’’خواجہ حسن نظامی: خاکے اور خاکہ نگاری ‘‘ کے عنوان سے تالیف پیش کرکے اس اوجھل پہاڑ کو منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس مدون تالیف میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کے حوصلہ افزا وقیع پیش لفظ کے بعد ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری ’’ شذراتِ تقدیم‘ ‘ کے زیرِ عنوان خواجہ حسن نظامی کی شخصیت و فن کے مختلف پہلو زیرِ بحث لائے ہیں جس کے مطالعہ سے قارئین، خواجہ صاحب کی شخصیت کے تقریباََ تمام ادبی و شخصی پہلوؤں سے متعارف ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری نے خواجہ حسن نظامی کی خود غرضانہ تلون مزاجی کا جو نقشہ ’’شذراتِ تقدیم‘‘ میں کھینچا ہے، ہم بوجوہ اس کا مطالعہ اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی مناسب ہو گا کہ طوالت سے بچنے کی خاطر، ہم آیندہ آنے والی سطور میں صرف اور صرف خواجہ حسن نظامی کے رشحاتِ قلم ، موضوع سخن بنائیں گے۔ 

اس تالیف میں مذکور خاکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ حصہ اول میں مذہبی علمی فنی ادبی شخصیات کے خاکے اور حصہ دوم میں تاریخی و سیاسی شخصیات کے خاکے ہیں۔ حصہ سوم میں’ ’تصویرِ خصایل : ایک نفسیاتی مطالعہ‘ ‘ کے عنوان سے ، قومی، وطنی، طبقاتی، پیشہ وارانہ ، کاروبارِ شیطنت اور فن کار کے دلچسپ خاکے پیش کیے گئے ہیں ۔ آخر میں۲۳ صفحات پر مشتمل ایک ضمیمہ ہے جس میں خود ڈاکٹر صاحب نے’’بہارستانِ ناز‘‘ اور ’’آبِ حیات‘‘ کو ایک نئے رخ سے دیکھتے ہوئے مختلف عنوانات کے تحت خاکہ نگاری کی تاریخ اور اقسام بیان کی ہیں ۔

اس مدون تالیف کا پہلا خاکہ ہی چونکا دینے والا ہے ، اسلوبِ نگارش یا مواد وغیرہ کی یک تائی کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس ہستی کی وجہ سے جس کا خاکہ پیش کرنے کی کاوش کی گئی ہے ۔ یہ کوئی بڑی ادبی شخصیت نہیں ، نہ ہی کوئی قدآور سیاسی مدبر ہے اور نہ ہی تاریخ کا دھارا بدل دینے والا کو ئی نابغہ روزگار۔ یہ ہستی ہے اللہ میاں کی۔ جی ہاں! اللہ میاں۔ خاکے کے لیے اللہ میاں کے چناؤ جیسی خیال کی ندرت اور اسے پیش کرنے کے نرالے ڈھنگ جیسے اسالیب کی بدولت ہی خواجہ صاحب اردو ادب کے غیر روایتی اور عام فہم انشا پرداز ہیں۔عام فہم، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اور اس پہلو سے بھی کہ اللہ میاں سے سارا جہان واقف ہے ، اس لیے عام سطح کا قاری بھی خاکے میں مذکور ہستی کو مستور خیال نہیں کرتا اورپوری طرح لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس اولین خاکے کا عنوان، ایک لحاظ سے خواجہ صاحب کی ان جسارتوں اور بے باکیوں کا نقیب بھی ہے جن سے قارئین کو دیگر خاکوں میں واسطہ پڑتا ہے۔اگر بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن خواجہ صاحب کی خوبات بڑھانے والی ہے۔ وہ اپنے خاکوں کو صوفیانہ مشرب میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے:

’’آگے جا کر جس موجودات اور مخلوقات کے حلیے ایک خاکی بشر کے قلم سے نکل نکل کر کاغذی مجلس میں آراستہ ہوئے ہیں ، بس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان سب کے اندر اللہ میاں کا حلیہ موجود ہے ، کیوں کہ اس نے خود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے :
ان اللہ خلق ادم علےٰ صورتہٖ 
اللہ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۔ جو اس کو مانے وہ بھی ان جان اور جو نہ مانے وہ بھی نادان! لہٰذا یہ کہہ کر ختم کر دینا چاہیے کہ واہ سبحان، واہ سبحان! تو تو بس بے صورت کی ایک مورت ہے‘‘۔ (غیر مرئی وجود: اللہ میاں، ص۱۰۲)

لاادری اور ہمہ اوست کے اس آمیزے کو خاکہ نگاری کی بنیاد کے طور پر ، ادبی اعتبار سے کہاں تک قابلِ قبول قرار دیا جا سکتا ہے ، اس سے قطع نظر کہ اس کا فیصلہ طویل بحث کا متقاضی ہے ، یہاں ایک احساس بہرحال کسی بھی مسلم قاری کو رکنے اوریہ تاثر لینے پر مجبور کر دیتا ہے کہ خاکہ نگار کسی نہ کسی درجے میں ’’صلح کل‘‘ کا پرچار کر رہا ہے اور شاید اس کا قلم مذہبی حد ود کو پامال کرنے سے رک نہ پائے گا ۔ یہ تاثر صفحہ نمبر ۱۶۱ پر قاری کی مذہبی حساسیت کو بیدار کرتا ہے جہاں آنجہانی چوہدری سر ظفراللہ خاں کے خاکے میں لکھا گیا ہے ’’قوم مسلمان، عقیدہ قادیانی‘‘۔ پھر صفحہ نمبر ۱۸۷ پرمولانا محمد علی جوہر کے خاکے میں قادیانیوں کی اسلامیت پر گواہی اس طرح دی گئی ہے : 

’’ تین بھائی ہیں ۔ بڑے بھائی شوکت علی ہیں ، ایک بھائی کا نام ذوالفقار علی ہے، وہ قادیانی ہو گئے ہیں۔ گویا ماں باپ کی تین یادگاریں ہیں اور تینوں دین و قوم و ملک پر قربان ہیں‘‘ ۔

اس کے بعد راہ ہم وار ہونے پر ’’ضمیمہ‘‘ کے عنوان سے صفحہ نمبر ۱۹۱، ۱۹۲ پر تین قادیانیوں کے خاکے، ان کی مذہبی عقل کے اعتراف کے ساتھ دیے گئے ہیں۔کوئی بھی مسلم قاری اس مطالعہ سے دو قسم کے تاثرات لیتا ہے : ایک ، فوری ، دوسراتاخیری۔ فوری تاثر میں خواجہ مرحوم موردِ الزام ٹھہرتے ہیں لیکن ذرا غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں جب یہ خاکے لکھے گئے تھے ، برِ عظیم پاکستان و ہند کے مسلمانوں کی فکری قیادت کرنے والی اکثر شخصیات قادیانیوں کی بابت بہت نرم گوشہ رکھے ہوئے تھیں حتیٰ کہ علامہ اقبال ؒ جیسی صاحبِ بصیرت شخصیت بھی ان کے حق میں رطب للسان تھی۔ یہ بہت بعد میں ہوا کہ اقبالؒ ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے مکالمے کے نتیجے میں قادیانیت کی اصلیت سے آگاہ اور تائب ہوئے۔ لہٰذا تاخیری تاثر میں خواجہ حسن نظامی مرحوم رعایتی نمبر وں سے خلاصی پا جاتے ہیں۔ اب اگر سوال اٹھتا ہے تو فقط اس تالیف کے پیش کار کی آنکھ مچولی کی بابت اٹھتا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے نہیں جیسے اطوار اپنائے ہوئے ہیں۔ موصوف ، تاریخی اعتبار سے ایسے دور میں ہیں جہاں امت کے اجتماعی ضمیر اور ریاستی قانون نے قادیانیت کو نہایت صراحت سے خارج از اسلام قرار دیا ہے، تو پھر وہ غیر محسوس انداز میں ظفراللہ اور ذوالفقار کی اسلام شناسی کی شہادت دے کر ضمیمے کے تھیلے میں سے بلی نکال کر ، کس قسم کی ادبی خدمت سر انجام دینا چاہتے ہیں؟ بہتر تو یہ تھا کہ ڈاکٹر ابوسلمان صاحب sugar coated چھابڑی لگانے کے بجائے قادیانیت کی ’’حقانیت‘‘ کے حق میں مفصل کتب کی دکان سجاتے ۔ ہم برملا کہیں گے کہ اس قسم کی نفسیاتی چھیڑ چھاڑ کا مقصد اگر مسلمانوں کی حساسیت کے گراف کو چیک کرنا ہے اور انہیں آہستہ آہستہ قادیانیت کی قبولیت کے لیے تیار کرنا ہے تو ڈاکٹر صاحب جیسے ’’دور اندیشوں‘‘ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ 

زیرِ نظر تالیف میں اللہ میاں کے خاکے کے بعد حسبِ توقع فرشتوں کا خاکہ ہے جس میں فرشتوں کے بارے میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ اس کے بعد گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا خاکہ ہے جو کافی دلچسپ ہے، ملاحظہ کیجیے: 

’’ فرشتوں کی ملکوت یونی ورسٹی میں پرنسپل بن کر سبق پڑھا چکا ہے۔ ذاتِ اقدس کی تجلیاتِ جباری او رکبریائی میں فنا ہو کر منصور کی طرح انا الخیر (میں اچھا) ہوں، (انا من النار) میں آگ سے بنا ہوں ! نعرے لگا چکا ہے ۔ مگر کوئی مولوی اس وقت عالمِ وجود میں موجود نہ تھا جو اس کی انانیت کو سولی پر چڑھاتا ، اس واسطے خدا نے اس کو خود سولی پر چڑھایا‘‘۔ (غیر مرئی وجود: گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا حلیہ، ص۱۰۳) 

یہ درست ہے کہ مولوی حضرات ’انانیت‘ کو سولی پرچڑھا کر ہی دم لیتے ہیں۔ شاید اسی لیے اقبالؒ نے انانیت کو خودی کا نام دے کر اپنی جان بچائے رکھی اور مولویوں کے تیر و تفنگ کے آگے ’شکوہ‘ کر دیا۔ خواجہ صاحب بھی اکثر ادیبوں کی طرح مولوی پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان کے کئی خاکوں میں بے چارہ مولوی تختہ مشق بنا ہے ، ملاحظہ کیجیے کہ طنز کے تیر کیسے ٹھاہ نشانے پر لگے ہیں:

’’ ان کے والد صوفی تھے ، خود ان کا دل بھی صوفی ہے مگر دل کے اوپر مولویت کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ دوستوں کے ساتھ مروت وخلوص سے پیش آتے ہیں۔ بہت کھانے کا شوق نہیں ہے اور اس لحاظ سے ان کی مولویت میں نقص ہے۔‘‘ (علمائے کرام: مولانا سید سلیمان ندوی، ص۱۱۲) 
’’مزاج میں غرور و تمکنت نہیں ہے، دیکھنے میں مولوی بھی نہیں معلوم ہوتے۔‘‘ (علمائے کرام: مفتی کفایت اللہ، ص۱۱۴)
’’ ملا رموزی بھوپال میں رہتے ہیں ۔ ان کے مضامین سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی مولوی ہیں مگر درحقیقت نئے زمانے کے ایک مہذب نوجوان ہیں۔‘‘ (اردو کے ظرافت نگار، ص۱۲۲)
’’ اگر امریکہ میں ہوتے تو فورڈ موٹر والے سے کوئی بڑا کارخانہ بناتے ۔ ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں ، اس لیے جتنا کماتے ہیں اس سے زیادہ کھلا دیتے ہیں ۔ ذہین ہیں ، حرفتی سمجھ بہت اچھی ہے ۔ کئی بچوں کے باپ ہیں ، مگر کئی بیویوں کے شوہر نہیں ہیں ، حالاں کہ مولوی کے لیے یہ بہت عجیب ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھتا ہو۔‘‘ (تاجر:مولوی محمد ادریس ہاشمی، ص۱۳۸)
’’ اگران کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تو شاید وہ بھی مولویوں کی طرح فقط دعوت کھایا کرتے، کھلانے سے احتیاط کرتے اور مجرد بھی نہ رہتے بلکہ چار نکاح کرتے۔‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونل آف سٹیٹ : سر محمد یعقوب، ص۱۶۵)
’’ اگر وہ انگریز ہوتیں تو لیڈی ولنگٹن کی طرح مشہور ہوتیں اور ہندو ہوتیں تو مسز نیڈو سے زیادہ شہرہ آفاق مانی جاتیں، مگر خدا کے فضل سے مسلمان ہیں اس لیے ان کی قوم دلوں میں تو ان پر فخر کرتی ہے مگر زبان سے کچھ نہیں کہتی کہ ایک تارک پردہ عورت کی تعریف کرے تو مولوی صاحب فتوی نہ دے دیں ۔ جہاں آرا نے ثابت کیا ہے کہ پردہ اٹھانے والی عورتیں ایسی ہو سکتی ہیں۔‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:بیگم میاں شاہ نواز، ص۱۷۸)

مولوی محمد ادریس ہاشمی کے خاکے میں’’حال آں کہ مولوی کے لیے یہ بہت عجیب ہے کہ وہ ایک ہی بیوی رکھتا ہو‘‘ کے بجائے اگر ایسا کہا جاتا کہ ’’حال آں کہ مولوی ہیں‘‘ تو کفایت لفظی کنائے کا لطف بھی دے جاتی۔ بہر حال ! یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ خواجہ صاحب نے تیر برسانے سے قبل انہیں حقیقت کے زہر میں خوب بھگویا ہے ، اب مولوی اگر سخت جان نکلے تو بے چارے خواجہ کا کیا قصور؟ بات مولویوں کی چل نکلی ہے تو اسی رو میں ہم برِ عظیم کے چند معروف علما کے خاکوں کی جھلکیاں پیش کیے دیتے ہیں:

’’ کفر کا فتوی دینے میں بڑی مہارت تھی ۔ ایک شخص کو ایک گناہ کے عوض کئی کئی ہزار کے کفر کے فتوے دیتے تھے اور عجیب و غریب باریکیاں کفر سازی کی ان کے ذہن میں آتی تھیں ‘‘ (علمائے کرام:مولانا احمد رضا خان، ص۱۰۹)

ہمیں تو ایسی ’’کفر ساز مولویانہ خو‘‘ نے قدیم ایتھنز کے مقنن ڈریکو کی یاد دلا دی ہے جس کے بارے میں طنزاََ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے قوانین روشنائی کے بجائے خون سے تحریر کیے تھے، مثلاََ سبزی چور اور توہینِ مذہب دونوں کے لیے موت کی سزا مقرر کی تھی۔جب ڈریکو سے اس سنگ دلی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ خفیف جرایم، سزائے موت ہی کے مستحق ہیں اور رہے بڑے جرم تو ان کی سزا اس مجبوری سے مقرر کئی گئی کہ کوئی اور بڑی سزا ہو نہ سکتی تھی۔ خواجہ حسن نظامی کو خدا کا شکر بجا لانا چاہیے کہ مولانا اور ڈریکو ہم عصر نہ تھے، ورنہ باریک بین اور فربہ نظر مل کر نجانے کیا قیامت ڈھاتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب کی مولانا احمد سعید دہلوی ؒ سے گاڑھی چھنتی تھی اس لیے وہ ان کے بارے میں یہاں تک کہتے ہیں: ’’خلوت میں کچھ اور جلوت میں کچھ اور‘‘۔ یہ تعریف ہے یا تنقیص ؟ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ غالباََ ، جمعیت علما ہند کے ناظم کی حیثیت میں ان کی سیاسی حکمت عملی خواجہ صاحب کو ضرورت سے زیادہ ’’بھا‘‘ گئی ہے، تبھی تو وہ لکھتے ہیں: 

’’ دل میں کچھ اور ہوتا ہے ، کہتے کچھ اور ہیں ۔ ... ان کی زندگی امیر معاویہ کے اصحاب سے مشابہ ہے اس لیے ایک نمونے کی زندگی ہے ، کمان ایک طرف کھینچتے ہیں، تیر دوسری طرف چلاتے ہیں۔‘‘ (علمائے کرام:مولانا احمد سعید، ص۱۱۰)

تقریباََ ہر معروف عالمِ دین سے خواجہ صاحب چونچ لڑاتے نظر آتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زندگی کے مختلف ادوار (۱۹۲۲، ۱۹۳۶، ۱۹۴۳) کے تین خاکے ، خاکہ نگار کی ان سے قلبی قربت اور میلانِ طبع کی غمازی تو کرتے ہی ہیں، لیکن مولاناآزادؒ کی ذاتِ گرامی کے احترام سے بڑھ کر شاید ان کی انشاپردازی کی جولانی کا خوف ہے کہ خواجہ صاحب قلم کو پوری ہوش مندی سے حرکت میں لاتے ہیں ، گو چوٹ کرنے سے باز نہیں آتے : 

’’ تصور کی طاقت ، چیونٹی کی ناک اور چیل کی آنکھ سے بڑھی ہوئی ہے .... اگر ان کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ایک دن کم بارہ مہینے سوتے رہیں ، صرف ایک دن بیدار ہو کر کام کریں کیونکہ یہ کسی کام کو جلدی کرنے کے عادی نہیں ہیں .....سر سٹیفورڈ کرپس کے دل سے کوئی پوچھے تو یہ جواب ملے کہ ہندوستان میں گاندھی جی سیاسی درویش ہیں ، جواہر لال یورپ کی سیاست کا عکس ہیں کیونکہ جو دل میں ہوتا ہے وہی زبان سے کہتے ہیں، حال آں کہ نئے زمانے کی سیاست میں یہ بات گناہ کبیرہ ہے ۔ صرف مولانا ابوالکلام چالیس کروڑ باشندوں میں ایک ایسے ہندوستانی ہیں جو یورپ کی سیاست کو انگریزی نہ جاننے کے باوجود سمجھتے بھی ہیں اور اس کے وار کو بغیر ڈھال کے روکتے بھی ہیں اور مسکرا کر ایک نکیلا سیاسی نشتر حریف کے مارتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’ ’غالباََ کچھ زیادہ تکلیف نہ ہوئی ہو گی ، یہ انجکشن آپ کی بیماری کے لیے بہت ہی مفید ہے‘ ‘ ...... ہوش سنبھالتے ہی مسلم لیگ کو سمجھ لیا تھا ۔ ۱۹۰۸ میں مسٹر زاہد سہروردی کے مکان پر انھوں نے حسن نظامی کے ایک کاغذ پر یہ لکھا تھا ’’ سب باتیں منظور ہیں با ستثنائے شرکتِ مسلم لیگ‘‘ ..... بہرحال مولانا ابوالکلام آزاد موجودہ ہندوستان کے لیے سیاسی سورج ہیں اور سیاسی چاند ہیں ۔ ان کو سیاسی چراغ بھی کہا جا سکتا تھا ، اگر دوسرے سیاسی چراغوں کو روشن کر سکتے ، جس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مولان ابوالکلام آزاد، ص۱۷۲، ۱۷۳، ۱۷۴)

بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر جناح کا خاکہ بھی قارئین کی نذر کر دیا جائے کہ آزاد و جناح کی تقابلی تصویر جو خواجہ حسن نظامی نے کھینچی ہے شاید کسی نگاہ میں جچ جائے:

’’ان کی سیاسی سمجھ مسلمان قوم میں سب سے زیادہ ہے ۔ ان کے ہم نام محمد علی مرحوم اس گہری بات کو جانتے تھے اس لیے اپنے دور میں محمد علی جناح کے میدان میں نمایاں ہونے کی مزاحمت کرتے تھے۔ مگر ان کے جوہرنے اِن کو ان کی زندگی ہی میں نمایاں کر دیا تھا اور اِن کے چودہ نکات مرحوم نے بھی قبول کر لیے تھے .... مولانا ابوالکلام انگریزی جانتے ہوتے تو مسٹر جناح ہوتے اور مسٹر جناح عربی اردو جانتے ہوتے تو مولانا ابوالکلام ہوتے۔‘‘(رہنمایانِ ملک و قوم : مسٹر جناح کی صورت و سیرت، ص۱۷۸، ۱۷۹)

مولانا محمد علی جوہر کے متعلق خواجہ صاحب کے ارشاد نے ہمیں اکسایا ہے کہ یہیں اسی مقام پر ان کے خاکے کی ایک جھلک دکھائی جائے:

’’ قیامت تک زندہ رہیں گے مگر قیامت کے بوریے نہیں سمیٹیں گے..... وہ بڑے وضع دار ہیں۔ جس سے جو برتاؤ شروع ہو جائے تو آخر دم تک نباہنے کا خیال رکھتے ہیں ااور یہی جوہر اصلی مشرقی میں ہونا چاہیے ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مولانا محمد علی ، ص۱۸۷)

اصلی مشرقی کہہ کر شاید علامہ عنایت اللہ مشرقی پر چوٹ کی گئی ہے۔ چوں کہ زیرِ نظر تالیف میں علامہ کا خاکہ نہیں ہے اس لیے اس چوٹ کے زخم پر نمک چھڑکنا یا مرہم لگانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ لہذا چوٹ قیاس کر لینا ہی کافی ہے۔مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی کا خاکہ، جہاں ان کی سادگی کا آئینہ دار ہے وہاں برِ عظیم میں انگریز کے خلاف تحریکِ آزادی میں ان کے سیاسی کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے:

’’ ایک زمانے میں پورے صاحب بہادر تھے اب پورے وحشی مسلمان ہیں ۔ شوکت علی نہ ہوتے تو محمد علی کا کام ادھورا رہتا ۔ مگر بعد کے تجربے سے معلوم ہوا کہ شوکت علی جیسا آدمی مسلمانوں میں پیدا نہ ہوتا تومہاتما گاندھی کی شخصیت بھی ناقص رہ جاتی ...... وہ بولنے میں بونگے اور غیر مدبر معلوم ہوتے ہیں ...... سرسری بات چیت سے آدمی خیال کرتا ہے کہ وہ مہذب و سنجیدہ نہیں ہیں ، لیکن کچھ دیر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدگی کی تہہ میں جو خود پسندی ہوا کرتی ہے اس کو مٹانے کے لیے وہ غیر مہذب باتیں کرتے ہیں ...... انگریزوں میں آج کل قوت پر بھروسہ کرنے والے بہت ہیں ، اپنی ذات و خصلت کی خوبی پر اعتماد کرنے والا کوئی ہوتا تو شوکت علی اس قدر نہ چمکنے پاتے ...... اگرچہ آج کل وہ جیل خانہ میں ہیں مگر ہندوستان کے بچے بچے کو انہوں نے اپنا اسیر بنا رکھا ہے‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:مولانا شوکت علی، ص۱۸۱، ۱۸۲)

دو مختلف جہتوں میں رواں دواں دو مختلف لفظوں(جیل خانہ ، اسیر) کی معنوی تکرار، سلاست کے ساتھ ادبی شان لیے ہوئے ہے اور اس تاریخی حقیقت کی ترجمانی کر رہی ہے کہ آزادی کی تحاریک میں سرکاری جیلوں کے اسیر، ہمیشہ سے جیل سے باہر کے پورے سماج کو اسیر بنائے رکھتے ہیں۔رہی اس فقرے کی بات کہ ’’انگریزوں میں آج کل قوت پر بھروسہ کرنے والے بہت ہیں ، اپنی ذات و خصلت کی خوبی پر اعتماد کرنے والا کوئی ہوتا تو شوکت علی اس قدر نہ چمکنے پاتے ‘‘، خواجہ صاحب قاری کو گومگو میں مبتلا کر جاتے ہیں ا گرچہ انگریز کوواضح طور پر بری طرح لتاڑتے ہیں لیکن شوکت علی کے ساتھ وہی کچھ کر گئے ہیں جو انہوں نے مولانا احمد سعید کے بارے میں کہا ہے کہ’ کمان ایک طرف کھینچتے ہیں اور تیر دوسری طرف چلاتے ہیں‘۔ کیا خیال ہے کہ خواجہ صاحب کے ترکش سے نکلا ہوا تیر شوکت علی کی ’’اسیری پر قایم ہیروشپ‘‘ کے غبارے سے ہوا نکال نہیں دیتا؟

زیرِ نظر تالیف میں مولانا حسرت موہانی کا خاکہ ، ان کے ایثار، خلوص ، حب الوطنی اور بے لوث کردار کی بھر پور نمائندگی کرتاہے، ملاحظہ کیجیے: 

’’ پستہ قد ، گداز جسم ، گندمی رنگ ، گول چہرہ ، لمبی ڈاڑھی ، آنکھیں بڑی بڑی ، آواز عورتوں کی طرح نازک اور گوش نواز ، جلدی جلدی گھبرا گھبرا کر بولتے ہیں ، تیز چلتے ہیں ، جس شہر میں جاتے ہیں وہاں کے ہر اچھے برے ملکی کام کرنے والے سے ملتے ہیں ۔ صبح سے شام تک سڑکوں ، گلیوں اور عام راستوں پر ان کے پیچھے دوڑتے دوڑتے سی آئی ڈی والے سپاہی پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں ااور دل ہی دل میں ان کو اور اپنے خفیہ محکمہ کو گالیاں دیتے ہیں مگر یہ خدا کا آہنی بندہ ذرا نہیں تھکتا اور پنکھے کی طرح برابر گردش میں رہتا ہے ...... جیل خانہ گئے ، گھر نیلام ہوا، پریس ضبطی میں آیا، چکیاں پیسیں۔ مگر جب رہا ہوکر گھر پہنچے تو پھر وہی گناہ گاری کی باتیں کرنے لگے ، معصوم لوگوں کا دل دکھانے لگے ...... مہاتما گاندھی نے ان کو خبطی کا خطاب دیا ہے اور اس میں کچھ شک بھی نہیں کہ ان کی ملکی محبت کا شوق خبط کی حد تک پہنچ گیا ہے ...... چالاک لیڈر آگے بڑھ گئے اور یہ غرارے دار پاجامہ پہننے والا جوتیاں چٹخاتا پیچھے چلتا رہ گیا ، کیونکہ اس کو خفیہ آدمی میسر نہ تھے جو دلالوں کی طرح اس کو بڑاآدمی بڑا آدمی ہر جگہ کہتے پھرتے ‘‘(رہنمایانِ ملک و قوم:مولانا حسرت موہانی، ص۱۷۹، ۱۸۰، ۱۸۱) 

تعجب ہے کہ اس زمانے میں بھی قایدین ’’خفیہ اداروں‘‘ کے پروردہ تھے، آج کل تو خیر سے خفیہ ہاتھ کی مدد کے بغیر قیادت ہو ہی نہیں سکتی۔ مہاتما گاندھی زمینی حقایق کے مطابق پینترے بدلنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ، شاید اسی لیے مولانا کا آئیڈیل ازم ان کی نظر میں خبط ٹھہرا ہے۔خود گاندھی بھی خبط سے مبرا نہیں تھے لیکن ان کے خبط کی نوعیت بہت مختلف تھی، خواجہ حسن نظامی کی زبان سے ہی سنیے: 

’’ان میں ذہنی اور دماغی تدبر اور دور اندیشی کی بہت کمی ہے مگر یہ عیب ان کے خداداد جوہرِ صداقت و استقلال کی چادر میں چھپا رہتا ہے ......وہ توحید و رسالت کا علی الاعلان اقرار کرتے ہیں مگر ہندو ہونے کے فخر کو آخر تک ہاتھ سے نہیں دیتے ...... گاندھی جی کی جیب عمرو عیار کی زنبیل ہے کہ بڑے بڑے موٹے موٹے آدمی ان کی جیب میں آ جاتے ہیں اور وہ خود بھی چھوٹی سے چھوٹی جیب کے اندر سما جاتے ہیں۔‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:مہاتما گاندھی ، ص۱۸۴، ۱۸۵)

مطلب یہ ہوا کہ آنجہانی گاندھی اپنے ہندو ہونے کے فخر کے خبط میں ایسے مبتلا تھے کہ دیکھی ان دیکھی اور سنی ان سنی کر دیتے تھے۔ باقی رہی بات ، بڑے بڑے موٹے موٹے آدمیوں اور گاندھی کی جیب کی، تو تاریخی قراین بتاتے ہیں کہ صرف مولانا شوکت علی مرحوم ہی ماشاء اللہ اتنے لحیم شحیم تھے کہ گاندھی کی جیب چوہے کے بِل کا منظر پیش کرتی ہو گی ، تبھی تو موصوف چھوٹی سے چھوٹی جیب میں سما جاتے ہوں گے۔ اب ذرا ذایقہ بدلنے کے لیے چند ایسے خاکوں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں خواجہ حسن نظامی نیم رضامندی سے کمان گلے میں لٹکا کر قلم سنبھالے دکھائی دیتے ہیں: 

’’ان کے ڈراموں سے ان کے ذوق کی بلندی ہفت افلاک تک پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔ آنے والے ہندوستانی ان کو شیکسپیر سے زیادہ اونچے درجے پر بٹھائیں گے لیکن وہ ہندو ہوں گے کیوں کہ مسلمان یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ ڈرامہ نویس کی عزت ااور قدر کرنی جایز بھی ہے یا نہیں ؟‘‘ (آغا حشر، ص۱۱۹)
’’اردو کے حوصلہ مند اور بہادر سپاہی ، ان کی تحریر ہندی روڑوں کے لیے سڑک دبانے کا بیلن ہے ...... ان کے کریکٹر کی ٹھیک تعریف یہ ہے کہ یہ گنبد کی آواز ہیں کہ جیسی کہو ویسی سنو‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :سید بقائی، ص۱۲۴)
’’ ان کے عقاید وہابی ہیں مگر انہوں نے لقب صوفی رکھا ہے‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :مولانا سالک، ص۱۲۴)
’’قادر الکلام ہیں مگر قادرالمزاج نہیں ہیں ۔ بھک سے اڑ جانے والی ایک قسم کی انسانی بارود ہیں ...... قادیانی ہوتے تو اپنی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی نظموں کو وحی اور الہام کہتے ۔ ہندو ہوتے تو کسی بنیہ کو کنجوس نہ رہنے دیتے ، انگریز ہوتے تو برٹش قوم کا شاہ خرچی سے دیوالا نکال دیتے ‘‘(مدیرانِ اخبارات و رسایل :مولانا ظفر علی خاں، ص۱۲۵)
’’ والیانِ ریاست کی طرح زیادہ سوتے ہیں ۔ ہندوؤں کی طرح کفایت شعار نہیں ہیں‘‘ (مدیرانِ اخبارات و رسایل :مفتی شوکت علی فہمی، ص۱۲۶)
’’باوجود اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے مزاج میں بچوں کا سا بھولپن ہے‘‘(لقمان الملک حکیم نابینا صاحب، ص۱۳۴)
’’ کانوں سے ذرا کم سنتے ہیں اس لیے جب کسی سے بات کرتے ہیں تو اس کو بہرا سمجھ کر آواز سے بولتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر سید سجاد، ڈینٹسٹ، ص۱۳۴)
’’ ان کے دل کی بات اور روپیہ جمع کرنے کے مقصد کو سوائے ان کے دوسرا دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا ‘‘ (ریاست حیدر آباد دکن: حضور نظام، ص۱۴۹)
’’ اردو اور انگریزی کے بہت ماہر مضمون نگار ہیں ۔ اگر وزیرِ اعظم نہ ہوتے تو کسی سرکار پسند اخبار کے ایڈیٹر ہوتے‘‘ (نواب قاضی سر عزیزالدین احمد، ص۱۵۷)
’’ حدِ شرع کے اندر رہ کر عقد کرنا امرائے قدیم کی ایک وضع تھی ، یہ بھی اسی پر عمل کرتے ہیں اور ستر برس کی عمر میں بھی ان کے عقد کی خبریں سنی جاتی ہیں ‘‘ (نواب سر امیرالدین احمد، ص۱۵۹)
’’ مچھلی کی طرح ان کے خیالات کبھی دریا کی تہہ میں جاتے ہیں اور کبھی دریا کی سطح پر اچھلنے لگتے ہیں ۔ اگر یہ اسمبلی میں نہ ہوں تو ایسا معلوم ہو کہ اسمبلی ہال جگر کے بیماروں کا اسپتال ہے کیوں کہ جگر کے مریض ہمیشہ بد مزاج اور ناک بھوں چڑھائے رہتے ہیں اور ان کے اندر خوش طبعی کے جذبات بہت ہی کم پائے جاتے ہیں ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : کبیرالدین احمد، ص۱۶۴)
’’ ہندو ہوتے تو خلوص کے دیوتا اور دھرماتما مانے جاتے، انگریز ہوتے تب بھی سیاسی میدان میں وعدہ پورا کرتے ، کانگرسی ہوتے تو اعتدال پسندوں کے ساتھ رہتے ، صوفی ہوتے تب بھی قوالی نہ سنتے ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : حاجی وجیہ الدین، ص۱۶۶)
’’ انگریز سرکار کے عشق میں قیس عامری ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ قیس کو عشق بے نتیجہ نے لاغر کر دیا تھا اور یہ نتیجہ خیز عشق کے سبب فربہ ہوگئے ہیں۔ قدرت نے ان کو جسم عرض و طول مربع دیا ہے اور جس رخ سے دیکھو مساوی نظر آتا ہے ۔ ایسے ہی دماغ اور دل میں یکسانیت ہے ...... اردو کو انگریزی لباس پہنا کر انگریزی زبان بنا دینا ان کو خوب آتا ہے ۔ مگر میری تحریر کا انگریزی ترجمہ یہ بھی نہیں کرسکتے ، اس لیے جو چاہتا ہوں لکھ ڈالتا ہوں اور جو دل میں آتا ہے کہہ دیتا ہوں ‘‘ (گورنمنٹ کے ستون : سید جعفری، ص۱۶۷) 
’’ ہنستے کم ہیں ، طبی ضرورت سے شاید کبھی مسکرا لیتے ہوں گے ......سنجیدگی اور کم سخنی کے بازوؤں پر ہاتھ کر زندگی کا راستہ چلتے ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم :ڈاکٹر انصاری ، ص۱۷۴، ص۱۷۵)
’’ ان کا کمال یہ ہے کہ کسی قوم کے خلاف یا کسی مضمون کے خلاف تقریر کرتے ہیں تو حریف کسی لفظ کی گرفت نہیں کر سکتا اور یہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں اور حریف مبہوت رہ جاتا ہے ...... وہ اقوام کی دماغی تبدیلی کا گر سب سے زیادہ جانتے ہیں اور چند جملوں میں لاکھوں ، کروڑوں آدمیوں کی ذہنیت بدل دیتے ہیں اس لیے مالوی ہندوؤں کے سب سے بڑے آدمی ہیں‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم :مالوی جی، ص۱۸۶)
’ ’نرم چوب ہیں مگر ایسی نرمی نہیں ، جس کو کیڑا لگ جائے ۔ شریفانہ وضع داری کی ملائمت ہے ۔ سب کو خوش کر سکتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ سب سے خوش رہ بھی سکتے ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم:ڈاکٹر سید محمود، ص۱۸۸)
’’ پہلے ڈاڑھی منڈواتے تھے ، پھر ڈاڑھی بڑھائی ، اور میں نے کئی سال تک ان کی ڈاڑھی کی سال گرہ کے جلسے کیے ، جس میں دہلی کے عماید اور ممبرانِ اسمبلی بھی نہایت لطف و دل چسپی کے ساتھ شریک ہوتے تھے ‘‘ (خان نعمت اللہ خان، ص ۱۸۹)

خواجہ صاحب نے سکندر حیات خان کو شرارتی سیلوٹ کیا ہے ، ذرا دیکھیے: 

’’ پنجاب کے قایم مقام گورنر رہ چکے ہیں ۔ ان کے دادا فوجی افسر تھے ۔ ایک انگریز کی جاں نثاری کے صلے میں اس خاندان کو عروج ہوا ......میں انگریز ہوتا تو ان کو وایسرائے بنادیتا اور اپنی سوسایٹی سے کہتا کہ دیکھو میری حکمت کہ نام ایک ہندوستانی کا ہے مگر کام میری قوم کا ہو رہا ہے ‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ :سر سکندر حیات خاں، ص۱۶۰)

پنجاب کے سر فضل حسین برطانوی ہندوستان کے مرکز اور پنجاب میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ غالباََ مسلمانوں کے لیے ان کی گراں قدر خدمات نے خواجہ صاحب کو خاکہ کشی کی ترغیب دی ہے: 

’’ ہندوؤں میں متعصب مسلمان مشہور ہیں ، لیکن عقل کا کمال تعصب سے اونچا رہتا ہے اس واسطے یہ ہر قسم کے تعصب سے اعلیٰ و برتر ہیں ، البتہ بعض اوقات دل ہی دل میں اپنی عقل پر تعلّی کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (ممبرانِ اسمبلی و کونسل آف سٹیٹ : میاں سر فضل حسین، ص۱۶۴)

سر فضل حسین ، ہندوؤں میں متعصب کیوں مشہور تھے اس کی ایک وجہ ہم بیان کیے دیتے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں مانٹیگو چیمسفورڈ آئینی اصلاحات کی سکیم نافذ کی گئی۔ حال آں کہ یہ مسلمانوں کے حقوق ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں بنائی گئی تھی، لیکن اس کے تحت مسلمانوں کو خاطر خواہ فایدہ ہوا۔ اس سکیم کے تحت پنجاب کے پہلے وزیرِ تعلیم سر فضل حسین (۱۹۲۱۔۱۹۲۶) نے انتظامی اقدامات کے ذریعے سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبا کے ۴۰222 داخلوں کو یقینی بنادیا۔ اس وقت پنجاب کی مسلم آبادی ۵۵222 تھی، اس لحاظ سے یہ ایک معتدل اور قدرے معذرت خواہانہ قدم تھا ، مگر اس پر بھی ہندوؤں نے ہر مرحلے پر اسے سختی سے چیلنج کیا۔خیال رہے کہ اس وقت پنجاب یونی ورسٹی اور اس سے ملحق ادارے غیر مسلم کنٹرول میں تھے اور انہیں اکثر غیر مسلم مفادات کے لیے ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں یہ بیان کرنا بھی بر محل ہو گا کہ اس وقت کے برطانوی ہندوستان میں صرف پنجاب ہی واحد مسلم اکثریتی صوبہ تھا ۔ بنگال میں مسلمان بمشکل ہندوؤں کے برابر تھے۔ ۱۹۰۵ کی تقسیم بنگال کے تحت مشرقی بنگال اور آسام پر مشتمل مسلم اکثریتی صوبہ وجود میں آیا تو ہندوؤں نے اس پر خوب واویلا کیا اور ۱۹۱۱ میں تقسیم کی تنسیخ کرا کے ہی دم لیا۔ 

ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کو خواجہ حسن نظامی ایوارڈ دیا جانا چاہیے، اگرچہ کافی تاخیر ہوگئی ہے لیکن بعد از مرگ، دیر آید درست آید کے مصداق ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن قبل از قیامت کی شرط بھی ضروری ہے۔ قارئین حیران ہو رہے ہوں گے کہ ہم اتنی شدومد کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر مرحوم کو ایوارڈ دینے کی وکالت کیوں کر رہے ہیں، لیجیے خود ہی فیصلہ کیجیے: 

’’ ڈاکٹر ذاکر حسین دو صدی پہلے پیدا ہو جاتے تو ہماری سلطنت غارت نہ ہوتی ۔ وہ سلطنت قایم کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہندوستانیوں کو انسان بنانے کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے ۔ اگر عمر کا منتقل کرنا ممکن ہوتا تو میں اپنی زندگی کے پانچ مہینے ان کو دے سکتا تھا، زیادہ نہیں کیوں کہ میں فضول خرچی کو برا سمجھتا ہوں‘‘ ( ڈاکٹر ذاکر حسین، ص۱۳۵)
حیرت ہوتی ہے کہ خواجہ صاحب غلامی کے دور میں بھی برطانوی پارلیمانی نظام کو اچھی طرح سمجھتے تھے ، جب کہ اچھے اچھوں کو آزادی کے بعد بھی (بلکہ ابھی تک) اس کی الف ب پلّے نہیں پڑی۔مولوی تمیزالدین کیس میں خواجہ صاحب کا درج ذیل خاکہ پیش کیا جاتا تو شاید ’’ماماجج‘‘ درست فیصلہ کر پاتا: 
’’ ان کی حکومت کے اراکین سب کام ان کے نام پر کرتے ہیں اور دنیا کو بے علم سمجھتے ہیں کہ سارا اختیار شہنشاہ جارج کے ہاتھ میں ہے ۔ حال آں کہ سب اختیار اراکینِ حکومت نے آپس میں بانٹ لیے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے دادا جان ایک بڑے پلنگ پر دری چاندنی بچھائے گاؤ تکیے سے لگے بیٹھے ہیں اور ان کے چاروں طرف ان کے بیٹے پوتے جمع ہیں ۔ ایک کہتا ہے کہ ایک کروڑ کے ہوائی جہاز خرید لو ، بادشاہ سلامت کا ارشاد ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ فلاں قوم کے ہتھیار چھین لو ، بادشاہ سلامت حکم دیتے ہیں ۔ تیسرا کہتا ہے ، حضور جہاں پناہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہندوستان ابھی مکمل آزادی کے قابل نہیں ہوا ہے ۔ 
بادشاہ سلامت سب کی باتیں سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ نہ میں نے ایک کروڑ روپے کے ہوائی جہاز خریدنے کے لیے کہا ، نہ میں نے کسی قوم کو ہتھیاروں سے محروم کرنے کا حکم دیا اور نہ میرا یہ خیال ہے کہ ہندوستانی آزادی کے لایق نہیں ہیں! مگر یہ میری اولاد کیسی گستاخ اور دلیر ہے کہ میرے ہی سامنے جھوٹ بولتی ہے ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ میری ساری رعایا آزاد ہو ، میری ساری رعایا امن پسند ہو ، میری ساری رعایا عیش میں ہو ، میں کچھ چاہتا ہوں یہ کچھ کہتے ہیں! پھر بھی غنیمت ہے کہ انہوں نے مجھے گاؤ تکیے سے لگا کر بٹھا تو رکھا ہے ‘‘ (شہنشاہ جارج پنجم کا حلیہ، ص۱۴۴) 

جارج پنجم کے اس خاکے میں نہایت لطیف کنائے میں جمہوریت پر چوٹ بھی کی گئی ہے اور بادشاہت کی وضع دار صفات کی عقدہ کشائی بھی۔ ذرا غور کیجیے کہ جب شہنشاہ ہر پہلو سے اپنی ’’رعایا‘‘ کی بہتری کا خواہاں ہے تو پھر آخر رعایا کے نام پر اقتدار سنبھالنے والے رعایا کا جینا کیوں حرام کیے ہوئے ہیں؟۔ یہ سوال آج بھی اتنا ہی جواب طلب ہے جتنا خواجہ مرحوم کے دور میں تھا۔ زیرِ نظر تالیف میں ایک بہت دل چسپ خاکہ ، خواجہ صاحب کی مشاہداتی حس کی بھر پور نمایندگی تو کرتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ کسی مکروہ حقیقت کو انتہائی مناسب الفاظ میں ڈھال کر سماجی ضمیر کو کچوکے لگانے کے فن کی نیو بھی رکھتا ہے ، بغور پڑھیے: 

’’ ٹھگنا قد جیسے ورزش کا مگدر ، موٹا بدن ، جیسے ڈنلاپ ٹایر کی اشتہاری تصویر ، رنگ نہ گورا نہ کالا ، نہ گندمی نہ سانولا، نہ پھیکا نہ میٹھا، نہ کڑوا نہ کسیلا، بلکہ کالے سفید تلوں کی ملی ہوئی بھوسی کی رنگت ہے۔ چہرہ سلولائٹ ساخت کے کھولوں سے مشابہ ہے ، نہ گول ہے نہ کتابی۔ دیکھنے میں انسانی صورت ہے مگر فرشتوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی نہیں بلکہ شداد نے اپنی بہشت بناتے وقت کسی کمہار سے بنوائی ہو گی۔ آنکھیں مگرمچھ کی طرح چھوٹی چھوٹی، زمین کی طرف جھکی ہوئی ۔ گردن صراحی دار نہیں ہے ، نہ لمبی ہے بلکہ بہت کوتا ہ ہے۔ پیشانی کنجوس کا دل ہے۔ بولنے کا ڈھنگ نہ چینی ہے نہ جاپانی ، ایرانی ہے نہ تورانی۔ جب بولتا ہے تو الفاظ منہ سے اس طرح اچھل اچھل کر، ابل ابل کر، چٹخ چٹخ کرباہر گرتے ہیں جیسے مکئی کے دانے بھاڑ سے بھن بھن کر باہر گرا کرتے ہیں یا جیسے ربڑ کی پچکاری سے جیبی قلم میں روشنائی کے قطرے ٹپکائے جاتے ہیں۔ ازل کے دن جب خندہ پیشانی تقسیم ہو رہی تھی تو یہ ذرا سو گیا تھا اس لیے اس کا منہ ہر وقت غصہ سے سوجا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اپنی عارضی چند روزہ نوکری کی خاطر سے کبھی مسکرانا چاہتا ہے تو اجالے میں اندھیرا ہو جاتا ہے اور کاینات کی زندہ دلی سہم کر چھپ جاتی ہے۔ چلتا ہے تو مکھنے ہاتھی یا ارنے بھینسے کی طرح جھومتا ہوا چلتا ہے اور فارسی کا یہ مصرع پڑھنا پڑتا ہے کہ
مردم بہ ایں طرز خرا میدانِ تو!
عمر چالیس سال سے زیادہ ہے اور خود اس کے کان میں کہا کرتی ہے کہ 
’’چہل سال عمرِ عزیز ت گزشت ۔ مزاجِ تو از حالِ طفلی نہ گشت‘‘ 
تین ہزار روپے ماہوار کماتا ہے مگر تین پیسے ماہوار کی حیثیت میں دکھائی دیتا ہے۔ آدمی ہے مگر آدمیت سے محروم۔ ہندوستانی ہے لیکن اگر اس کے سارے جسم کو کھرچ ڈالا جائے تو تین ماشے چار رتی ہندوستانیت بھی اندر سے نہ نکلے گی مگر نخوت، تکبر، خود پسندی، بے رحمی، مردم آزاری کے برادے کا ایک انبار پایا جائے گا۔ اس کا نام مسلمانوں کا سا ہے مگر اسلامی نام سے نفرت کرتا ہے اور مسلمانوں کو ستانے اور نقصان پہنچانے میں اس کو مزہ آتا ہے۔ نماز پڑھنے والوں کو مکار، روزہ رکھنے والوں کو احمق، زکوۃ دینے والوں کو فضول خرچ ، حج کرنے والوں کوعقل باختہ تصور کرتا ہے ۔ 
اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی مسلمان کو فایدہ پہنچانے کا گناہ نہیں کیا۔ صبح سے شام تک سوچتا رہتا ہے کہ مسلمانوں کو کیوں کر نقصان پہنچائے!‘‘(نئی روشنی کا فرعون: ایک سرکاری آفیسر، ص۱۶۹، ۱۷۰)

خیال رہے زیرِ نظر تالیف میں دہلی کے ایک کمشنر ، دو ڈپٹی کمشنرز اور دو مجسٹریٹس کے خاکے بھی شامل ہیں۔خواجہ صاحب نے ان سبھوں کے اخلاق اور کام میں پختگی کی تعریف کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرکاری آفیسر کا جو خاکہ ابھی آپ نے ملاحظہ کیا ، کسی بیوروکریٹ کا نہیں بلکہ عام چھوٹے موٹے افسر کا ہے۔ ہمیں خواجہ صاحب کی خوش قسمتی پر رشک آرہا ہے کہ ان کے دور میں کم از کم اعلیٰ سرکاری افسران تو بااخلاق اور عوام کے لیے بے لوث کام کرنے والے تھے ، ان کی بدولت نچلے افسران بھی کچھ نہ کچھ عوامی انداز اپنا لیتے ہوں گے۔ جب کہ ہمارے زمانے میں بیورو کریٹس ، ذہنی اعتبار سے اتنے پست ہو چکے ہیں کہ خاکہ پڑھ کر سب سے پہلے انہی کی طرف دھیان جاتا ہے۔ چلیں! یہ تو ہو گیا آج کے بیوروکریٹ کا خاکہ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے عام سرکاری افسر کا خاکہ کس کا قلم کھینچے گا؟

خواجہ صاحب نے ایک مثالی جوڑے کا خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ اس جوڑے کی داخلی دنیا کیسی تھی، اس سے ہمیں زیادہ تعرض نہیں کرنا چاہیے، ویسے خواجہ مرحوم نے خانگی امور کی عمدگی کی بابت بھی دو چار اشارے کیے ہیں ، لیکن اس جوڑے کا جو روپ دنیا کے سامنے تھا ، بلاشبہ قابلِ تعریف اور بے مثال تھا۔ دیکھیے خواجہ نے کتنے دل نشین پیرائے میں خامہ فرسائی کی ہے :

’’بولتے ہیں تو چہرے کے اعصاب کی حرکات میں موسیقی کے پردوں کی جنبش پیدا ہو جاتی ہے اور دل کا مطلب ایک عمدہ شعر کی صورت بن کر ان کے چہرہ پر آ جاتا ہے ...... فرشتوں نے پیرس کی مٹی سے ان کا پتلا بنایا ہو گا اور دہلی اور لکھنو کی خاک سے رنگ آمیزی کی ہو گی‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم : مسٹر آصف علی، ص۱۷۱)
’’ عورت کا غرور ، عورت کی ضد ، عورت کی خود پسندی ، عورت کی نازک مزاجی سے کوسوں دور ہیں ، اس لیے عورتوں کے روپ میں مرد ہیں۔ مرد کی بے وفائی ، مرد کی خود غرضی ، مرد کی حاکمیت ، مرد کی تلون مزاجی نہیں ہے ، اس لیے اصلی اور خالص عورت ہیں ‘‘ (رہنمایانِ ملک و قوم: بیگم آصف علی، ص۱۷۶) 

ہمیں تو ریاست رام پور کے حکم ران کا خاکہ پڑھ کر وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف یاد آگئے جنہیں یار لوگوں نے ’’بلڈ پریشر وزیرِ اعلیٰ‘‘ کا خطاب دے رکھا ہے کہ نہ خود آرام کرتے ہیں اور نہ ہی کام میں ہر وقت جٹے ہوئے معصوم بیورو کریٹس کے آرام کا خیال کرتے ہیں ۔ شاید تاج دارِ رام پور کی روح وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف میں حلول کر گئی ہے ، ملاحظہ کیجیے:

’’ ایک بڑی سڑک بنانے کا حکم دیا کہ آٹھ روز میں تیار ہو جائے! حال آں کہ وہ آٹھ مہینے میں تیار ہونے کے لایق تھی ۔ یہ حکم دیتے ہی انہوں نے محمود و تیمور کی طرح کام کی یلغار شروع کر دی اور آٹھ دن مسلسل کام کراتے رہے اور خود اپنی ذات کا آرام ترک کر دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ سڑک آٹھ روز میں تیار ہو گئی‘‘ (ریاست رام پور: تاج دار رام پور، ص۱۵۳)

لیکن رام پور کے تاج دار ایک لحاظ سے ہمارے وزیرِ اعلیٰ پر کافی بھاری ہیں ۔ ظاہر ہے اتنا مستعد بندہ جسمانی اعتبار سے بھاری نہیں ہو سکتا ، اس لیے وہ کم از کم وزن میں تو بھاری نہیں ہیں ، وہ بھاری ہیں تو صرف اور صرف اپنی صفتِ مردم شناسی میں۔ ان کے مقرر کردہ پولیٹیکل منسٹر کا خاکہ کافی متاثر کن ہے ۔ ایک دو سطریں نمونے کے لیے حاضر ہیں : 

’’ دنیا میں جو دماغی اور ذہنی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان کو اس طرح سمجھتے ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں گویا قدرت نے ان کو اسی کام کے لیے بنایا ہے ‘‘ (انتظامیہ رام پور: زیدی صاحب، ص۱۵۴)

گویا بیسیویں صدی کے پہلے نصف میں دنیا کی سطح پر جو تبدیلیاں ہو رہی تھیں موصوف کی ان پر گہری نظر تھی ، حال آں کہ اس دور کی دنیا گلوبل ولیج بننے سے کوسوں دور تھی ، اس لیے گہری کے بجائے سرسری نظر سے بھی کام چل سکتا تھا۔ جب کہ ہمارے وزیرِ اعلیٰ کی ٹیم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے تقریباََ اختتام پر ، گلوبل ولیج کو بیسویں صدی کے آغاز کی دنیا تسلیم کیے ہوئے ہے۔کاش! زیدی صاحب کی روح بھی کسی ’’بٹ‘‘ میں حلول کر جاتی۔ 

برِ عظیم کی مسلم ریاستوں کے زوال میں مسلم حکم رانوں کے لچھن کس حد تک دخیل تھے ، اس کی ایک جھلک خواجہ حسن نظامی نے ریاست مانگرول کے نواب جہانگیر میاں کے توصیفی خاکے میں جملہ معترضہ کے طور پر پیش کی ہے:

’’ان کی ریاست جونا گڑھ کے برابر ہوتی تو ہندوستان کے ہر صوبے میں ایک قومی یونی ورسٹی اپنے خرچ سے بنا دیتے اور جونا گڑھ کی طرح کتوں میں روپیہ برباد نہ کرتے‘‘ (ریاست مانگرول: نواب صاحب مانگرول، ص۱۵۶)

اب ہم حصہ سوم کے خاکوں کاجایزہ لیتے ہیں جنہیں ’تصویرِ خصایل: ایک نفسیاتی مطالعہ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انگریز وں کو خواجہ مرحوم نے قریب سے دیکھا تھا اس لیے ان کا خاصا دل چسپ اور مبنی بر حقیقت خاکہ سپردِ قلم کیا ہے : 

’’ وہ دبتا ہے تو چیونٹی بن کر کاٹتا ہے، دباؤ سے نکلتا ہے تو بھی ہاتھی بن کر سونڈ ہلاتا ہے ...... اس کو جاہل اور بے عقل آدمیوں سے ایسا کام لینا آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ...... تجارتی مال دکانوں پر سجانے اور ان کے پارسلوں کو عمدہ بنا کر بیچنے میں کمال حاصل ہے‘‘(قومی خصایل: انگریز کے خصایل، ص۱۹۵)

خواجہ صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ ’’اس کو جاہل اور بے عقل آدمیوں سے ایسا کام لینا آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے‘‘، ہمارے لیے حیرت انگیز نہیں ہے ۔ کیوں کہ ہم اس آفاقی سچ سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہر انسان کے اندر’عزتِ نفس‘ نامی ایک میٹر لازماََ لگا ہوتا ہے چاہے وہ جاہل ہو یا عالم۔ اس لیے جس انسان سے کام لینا مقصود ہو ،اگر اس کی عزتِ نفس کو مسلسل ملحوظ رکھا جائے تو ایسا واقعہ استثنائی ہو گا کہ انسان بھر پور لگن ، دل جمعی اور دیانت داری سے کام نہ کرے۔ خواجہ صاحب کی حیرت بھی بجا ہے کیوں کہ مسلم سوسائٹی میں ، چاہے وہ ان کے زمانے کی ہو یا ہمارے عہد کی، سرے سے عزتِ نفس کے وجود سے ہی انکار کیا جاتا ہے چہ جائے کہ اس کا احترام کیا جائے۔اب ذرا ہندو کے خصایل دیکھ لیجیے: 

’’روپے کے معاملے میں بڑا ہوشیار ، پتھر میں جونک لگانے والا، سود لینے میں بے رحم اور ہر سچائی کو چھوڑ سکنے والا ہے ...... ہندو کو کیمیا آتی ہے مگر اس کیمیا کے شوق سے بھاگتا ہے جہاں کچھ خرچ کرنا پڑے‘‘(قومی خصایل: ہندو کے خصایل، ص۱۹۶) 

مسلمان کے خصایل سپردِ قلم کرتے ہوئے خواجہ صاحب کا قلم ڈگمگایا نہیں ، دیکھیے ذرا:

’’لمبی ڈاڑھی، مونچھ کتری ہوئی اور آج کل ڈاڑھی منڈوائے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ پہلے ہندوستان کا حاکم تھا اب انگریزوں اور ہندوؤں سے حکومت مانگا کرتا ہے اور قدیمی ہمت کو بھول گیا ہے۔ مذہب کا دیوانہ ہے ۔ فرہاد سے زیادہ عقیدے کو شیریں سمجھتا ہے ۔ مذہب کی معمولی بات پر جان دے ڈالتا ہے ۔ بڑا بھولا ہے ، ملائی کی رکابی چرا کر لے لو اور اس کے بدلے دھنکی ہوئی روئی رکھ دو مگر ذرا تعریف کر لو تو روئی کو ملائی تسلیم کرکے روکھی روٹی اس کو لگا کر کھا لیتا ہے ’’چکھ ڈال مال دھن کو ، کوڑی نہ رکھ کفن کو‘‘ اس کا مقولہ بھی ہے اور اسی پر اس کا عمل بھی ہے ایک روپے کی آمدنی ہو تو ایک سو روپے خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ عورتوں اور سود خواروں سے تعلق پیدا کرنا اس کی عادت ہو گئی ہے ۔ ...... سیاسی عقل کم زور ہے ۔ تاج و تخت لینے کی بات ہو تو مسجد کے سامنے نفیری بند کرانے کو اپنے لیے کافی سمجھ لیتا ہے اور تاج کی پرواہ نہیں کرتا ۔ دنیا میں سب سے بڑا فضول خرچ مگر سب سے بڑا شجاع ہے ۔ آج کل اس کو غصہ جلدی آ جاتا ہے اور غصہ پی جانے کا قرآنی حکم یاد نہیں کرتا ۔ اس کو مولوی اور سیاسی لیڈر بہت جلدی گرفتار کر سکتے ہیں اس لیے چالاک لوگ مذہب کا نام لے کر اس کو احمق بناتے رہتے ہیں ‘‘ (قومی خصایل : مسلمان کے خصایل ، ص۱۹۶، ۱۹۷) 

خواجہ صاحب کو انگریز پر حیرت تھی لیکن ہمیں مسلمان پر حیرت ہے کہ متلون اشتعالی نفسیات کا مظاہرہ کرنے میں اتنا زیادہ’’ مستقل مزاج‘‘ واقع ہوا ہے کہ استقلال کو اس پر رشک آتا ہے(اگر استقلال مونث ہوتا تو رشک کے بجائے حسد کرتا)۔ کئی عشروں کے بعدبھی اور زمینی حقایق میں انقلابی تبدیلی کے باوجود بھی مسلمان کے خصایل میں بہتری رونما کیوں نہیں ہوئی ، اس کا جواب خواجہ مرحوم کے اسی خاکے میں مل جاتا ہے کہ ’’ اس کو مولوی اور سیاسی لیڈر بہت جلدی گرفتار کر سکتے ہیں اس لیے چالاک لوگ مذہب کا نام لے کر اس کو احمق بناتے رہتے ہیں‘‘ ، مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان کی راہنمائی کر کے صورتِ حال کو بہتر کر سکتے ہیں درحقیقت وہی لوگ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کی خاطر اسے ذہنی پستی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔ 

جب سکھوں کی بات ہو اور کوئی لطیفہ پیش نہ کیا جائے تو اسے بھی لطیفہ ہی سمجھا جاتا ہے ۔ خواجہ صاحب نہایت لطافت سے ’سکھ کے خصایل ‘ میں خاکے کے تقاضے نبھاگئے ہیں:

’’ جسم مضبوط ، دل قوی ، مزاج کا ضدی ، بات کا پورا ، اس کو جس پہلو سے الٹو ہر رخ سے سکھ نظر آتا ہے ...... اس کی عقل جان بل کی طرح ذرا موٹی ہے مگر اس کی جرات کو دیکھ کو سب اس کی عقل کو نازک اندام کہنے لگتے ہیں‘‘ (قومی خصایل : سکھ کے خصایل ،ص ۱۹۷)

پنجاب کے دریاؤں سے اٹھتی ، اس کی زمین سے وابستہ ’’پنجابی‘‘ کی تعریف و تنقیص ملاحظہ کیجیے:

’’پانچ دریاؤں کی زمین میں رہنے کے سبب اس کا خیال بھی پانی کی طرح پتلا ہو جاتا ہے جس میں نئی بات اور نئے عقیدے کا رنگ فوراََ مل جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو نئی تحریکیں ملک میں پیدا ہوتی ہیں ان کو سب سے زیادہ پنجاب میں مقبولیت ہوتی ہے ۔ پنجابی کی محنت و جفا کشی نے اس کو بنگالی کی ذہانت پر غالب کر دیا ہے ۔ وہ دنیا کے ہر ملک اور ہندوستان کے ہر مقام میں موجود ہے اور ہر کام میں اس کا دخل ہے ۔ مگر دریا کی طرح اس کی خصلت میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے‘‘ (وطنی خصایل : پنجاب والہ کے خصایل، ص۱۹۸، ۱۹۹) 

یو پی کے لوگوں کے خصایل بھی خواجہ صاحب نے خوب پیش کیے ہیں:

’’نازک اندام ، نازک خرام، عقل کا پتلا، کام چور، محنت کوخلافِ انسانیت سمجھنے والا۔ سازش میں کامل، ظاہرداری کا بادشاہ، ذکاوت و ذہانت کا خزانے دار، بناؤ سنگار کا شوقین، بول چال کی نفاست کا شیدا۔ پنجابیوں کی جفاکشی کو آدمیت کے خلاف سمجھنے والا۔ قدامت کی خوبیوں کا گرویدہ۔ تقریر و تحریر میں اعجاز دکھانے والا، مگر پنجابی کی طرح تحریروں کا انبار نہیں لگا سکتا‘‘ (وطنی خصایل : یوپی والہ کے خصایل، ص ۱۹۹)

سرکاری افسر کے خاکے کی طرز کی ایک خاصے کی چیز ماڈرن معشوق کے خصایل ہیں، ملاحظہ کیجیے خواجہ کے طرح دار قلم نے انہیں کیسے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے:

’’پہلے سرو کی طرح لمبا، کھجور کی ٹہنی کی مثل دبلا ، گیسو سانپ ، ماتھا چاند ، رخسار سیب ، ٹھوڑی کنواں ، ہونٹ یاقوت اور لعل ، دانت موتی ، گردن صراحی ، چھتیاں سنگ خارا ، کمر غائب ، بھویں کمان ، پلکیں برچھیاں ، آنکھیں شراب کا جام، نظریں تیر تلوارخنجر تھیں اور شاعر ان تشبیہات کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے تھے ، مگر آج کل کے ماڈرن معشوق کا حلیہ اور اس کی تشبیہات یہ ہیں ؛
قد ایسا جیسا اخبار کا کالم ، بال ایسے جیسے تن خواہوں کی تخفیف ، پیشانی ایسی جیسے وہائٹ پیپر ، بھویں ایسی جیسے اسمبلی ہال ، پلکیں لکھنے کا باریک نب ، آنکھیں ایکشا نمبر ون کے ننھے ننھے دو گلاس ، نگاہیں کنزرویٹو گورنمنٹ کی پالیسی ، رخسار بالشویک یا سرحدی سرخ پوش ، تھوڑی برٹش ڈپلومیسی ، ہونٹ انگریزی کھانے کی لال جیلی ، دانت کانگرسی زبان کا جیل خانہ ، گردن جودھ پوری برجس ، چھاتیاں پنیر کی چکتیاں ، کمر ہندوستان کا اتفاق ، بالوں کی کتر شامیانے کی جھالر ، بالوں کا تیل چھچھوندر کے آنسو ، چہرے کا پوڈر ملکی ہم دردی ۔ ایسا نازک جیسے خطاب پرست کا دل ، ایسا ضدی جیسے پولیس کا سپاہی ، ایسا بے وفا جیسے دیسی لیڈر اور ایسا ہرجائی جیسے تمباکو اور ایسا منہ چڑھا جیسے چائے کی پیالی ۔ چلتا ہے تو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح بل کھاتا ہوا ، دیکھتا ہے تو خورد بین بن جاتا ہے ، بولتا ہے تو پیانو معلوم ہوتا ہے ۔ وہ پہلے درخت تھا جانور تھا اور ایک ڈراؤنا ہوّا تھا ۔ اب آدمی تو بن گیا ہے مگر کچھ گورا ہے ، کچھ کالا ہے ، کچھ کچا ہے ، کچھ پکا ہے ۔ 
پہلے فرہاد ، مجنوں اور رانجھا اس کے عاشق تھے اور وہ شیریں ، لیلی ، ہیر کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اب سب عورت مرد معشوق بن گئے ہیں ۔ کیوں کہ ہر شخص مخاطب کو چاہے عورت ہو یا مرد ، ڈیر(پیارا ۔پیاری) کہتا اور لکھتا ہے ۔ گویا معشوقیت میں بھی جمہوریت ہو گئی ہے ۔ 
پہلے جوانی میں یاد آتا تھا ، اب طبی کمپنی دہلی کے فاسفورس کے تیل کی طرح بچپن اور بڑھاپے میں کام آتا ہے ، پہلے رقیب ہی پر مہربان تھا ، شاعر کو بہت ستاتا تھا ۔ اب بہت ملن سار ہو گیا ہے ، اچھوت ذاتوں کے آغوش میں بھی چلا جاتا ہے ، پہلے دل لیتا تھا اب روپیہ لیتا ہے ۔ پہلے گلیوں میں رہتا تھا اب کوٹھیوں اور بنگلوں میں رہتا ہے ۔ پہلے کافر تھااب عیسائی ہو گیا ہے ۔ پہلے بت تھا بولتا نہ تھا اب باتونی ہو گیا ہے ۔ 
نئی روشنی کا یہ معشوق مہنگا نہیں ہے ارزاں ہے ، ہر جگہ مل جاتا ہے۔‘‘ (طبقاتی خصایل :ماڈرن معشوق کے خصایل : ص۲۰۱، ۲۰۲) 

’’ڈاکٹر کے خصایل‘‘ میں خواجہ صاحب نے ضمنی طور پر بعض ایسی باتیں کہی ہیں جن کی عام طور پر اس قسم کی انشا پردازی میں توقع نہیں کی جاتی۔ذرا دیکھیے کہ درآمد و برآمد میں توازن اور زرِ مبادلہ کے ذخایر کی اہمیت سے خواجہ حسن نظامی نہ صرف واقف ہیں بلکہ موقع پا کر مطلب کی بات بھی کہہ گئے ہیں: 

’’ڈاکٹر پڑھتا ہے تو ایسی محنت سے کہ اس کی آنکھ اور اس کا دماغ اور اس کا دل اور اس کا معدہ بیمار ہو جاتا ہے اور پڑھ کر فارغ ہوتا ہے تو ہر مرض کی دوا بن جاتا ہے ...... ڈاکٹر غریب و مفلس ہندوستان میں بہت مہنگا معالج ہے اور اس کی وجہ سے ہر سال ۹۵ کروڑ روپے کی دوائیں اور آلات غیر ملک سے آکر اس ملک میں بِک جاتے ہیں اور ملک کی دولت باہر چلی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر لکیر کا فقیر نہیں ہوتا ‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل؛ ڈاکٹر کے خصایل، ص۲۰۲)

خواجہ صاحب کا یہ کہنا کہ’’ ڈاکٹر لکیر کا فقیر نہیں ہوتا‘‘، جارج برنارڈ شاہ کے فرمودہ سے بالکل مختلف ہے۔ شاہ نے اپنے مضمون Are Doctors Men of Science? میں ڈاکٹرز کے لکیر کے فقیر ہونے کو ثابت کرکے ان کا کافی تمسخر اڑایا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ خواجہ مرحوم نے ڈاکٹرز کے مقابل حکیموں کی خوب درگت بنائی ہے ،ذرا تصور کیجیے کہ اگر برنارڈ شاہ حکیموں پر قلم اٹھاتا تو کیا قیامت ڈھاتا: 

’’کنوئیں کے اندر رہتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا بس یہی ہے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ حکیم کو اس عقیدے پر اتنا اصرار ہے کہ اپنی طب کی ایک لمبی لکیر کا فقیر بنا بیٹھا رہتا ہے ...... حکیم پیشے کی رقابت میں ہر پیشہ ور سے بڑھا ہوا ہے۔ اپنے نسخے کو اکسیر اور دوسرے کے نسخے کو زہر کہتا رہتا ہے اور ڈاکٹری اس کی اس خصلت سے فایدہ اٹھاتی رہتی ہے ...... حکیم مفید دواؤں کو اپنی اولاد سے بھی مخفی رکھتا ہے اور کسی کو نہیں بتاتا اور قبر میں ساتھ لے جاتا ہے ‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل؛ حکیم کے خصایل، ص۲۰۳)

سرجن حضرات کیسے کیسے گل کھلاتے ہیں ، خواجہ صاحب کی زبان سے ہی سنیے:

’’ ہندوستان میں ڈاکٹر اور ڈاکٹری کا جب سے رواج ہے ، بیماریاں بڑھ گئی ہیں ...... یہ بے ضرورت آپریشن یعنی جراحی کرتے ہیں ...... لکھنو کے ایک ڈاکٹر کا حال سنا کہ اس نے ایک مریض کے آپریشن کی فیس تین سو روپے بتائی اور جب معاملہ طے ہو گیا اور مریض کو آپریشن کے کمرے میں میز پر لٹا دیا گیا تو ڈاکٹر نے مریض کے وارثوں سے کہا کہ میں نے فیس کم کہی ، اب مریض کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن بہت بڑا ہے اور پانچ سو روپے سے کم اس کی فیس نہ ہو گی ۔ وارثوں نے مجبوراََ پانچ سو روپے منظور کر لیے اور ڈاکٹر نے مریض کو بے ہوش کر کے پیٹ میں شگاف بھی دے دیے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر کمرے کے باہر آیا اور وارثوں سے کہا کہ شگاف دینے کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ آپریشن بہت پیچیدہ ہے اور اس میں مجھے بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی ورنہ مریض کی جان کا خطرہ ہے ۔ لہذا آپریشن کی فیس ایک ہزار روپے لوں گا ۔ وارثوں نے یہ بات سنی تو اپنے بیمار کی جان بچانے کے لیے بادلِ نخواستہ ہزار روپے فیس منظور کر لی اور تب اس ڈاکٹر نے آپریشن کو مکمل کیا ...... وکالت اور ڈاکٹر اور رنڈی کا پیشہ یہ سب ہندوستان کو مفلس بنانے والے ہیں۔‘‘(پیشہ وارانہ خصایل : آپریشن کے ڈاکٹر، ص۲۰۳، ۲۰۴)

خواجہ صاحب وکیلوں کی خبر لینے سے بھی نہیں چوکے۔ شاید تحریکِ خلافت میں وکلا نے ایسا پرجوش کردار ادا نہ کیا ہو جیسا ہمارے دور میں چیف جسٹس کی بحالی میں ان کا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو ، وکلا حضرات اپنا خاکہ پڑھ کر بغلیں جھانکتے نظر آئیں گے: 

’’اکثر جرایم پیشہ لوگوں کے لیڈر وکیلوں اور بیرسٹروں کے علاوہ رشوت خور پولیس والے بھی ہوتے ہیں لیکن مجرموں کی لیڈری کا بڑا حصہ وکیلوں ہی کے حصے میں آتا ہے ...... ہندوستان میں جتنے سیاسی لیڈر ہیں وہ سب یا اکثر پہلے وکالت کا پیشہ کرتے تھے ، ان میں سے بعض اس پیشے کی برائیوں کو محسوس کرکے تارک ہو گئے ، جیسے کہ گاندھی جی ہیں اور مالوی جی ہیں اور مسٹر سی آر داس تھے اور نہرو جی تھے ۔ مگر بعض لیڈر ایسے ہیں جو اب تک وکالت کا پیشہ بھی کرتے ہیں اور لیڈری بھی کرتے ہیں ...... ہندوستان میں آدھی تباہی رنڈیوں کے ہاتھوں سے ہو رہی ہے اور آدھی تباہی وکیلوں کے اور مقدمے بازیوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔‘‘ (پیشہ وارانہ خصایل : مجرموں کے لیڈر وکیل ، ص۲۰۴، ۲۰۵) 

اب نجانے کون سی بات درست ہے کہ سیاسی لیڈر ، وکالت کے پیشے کی برائیوں کو محسوس کرکے تارک ہوگئے تھے اور ہو جاتے ہیں یا وکالت کی نسبت سیاست میں برائیوں کے زیادہ امکانات کی وجہ سے پورے سیاس ہوگئے تھے اور ہو جاتے ہیں؟ ہم فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔البتہ ایک پتے کی بات گوش گزار کریں گے کہ اگر بیرسٹر اعتزاز احسن کے کرداری پنڈولم پر نظر رکھی جائے تو فیصلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔

خواجہ مرحوم کی خاکہ نگاری کم نگاہی سے مملو نہیں ہے۔ انہوں نے سستی شہرت کے لیبل سے بچنے کی خاطر ایسے متنازعہ موضوعات پر قلم اٹھانے سے گریز نہیں کیا، جن کی بابت مشرقی معاشرے میں کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ، ایک ناول نگار کے مانند زندگی کو اس کی پوری جزئیات سمیت دیکھتے اور قبول کرتے ہیں، یہ جزئیات چاہے کتنی ہی مکروہ ہوں۔ اس لیے ان کے خاکے یک رخے ہونے کے بجائے تنوع کے حامل ہیں ۔ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی، لہذا آنکھیں کھول کر زندگی کے اس روپ کو بھی دیکھیے: 

’’نایکہ ظاہر میں ایک سن رسیدہ ، خاموش اور دنیا سے بے زار عورت معلوم ہوتی ہے ، لیکن وہ شیطان کی خالہ ہے اور گربہ مسکین ہے ۔ دنیا کے تمام سیاسی مدبرین ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں ااور دوسرے پلڑے میں ہندوستان کی کسی نایکہ کو رکھ دیا جائے تب بھی ڈپلومیسی اور فریب کاری اور غلط بیانی میں نایکہ کا پلہ جھک جائے گا ‘‘(کاروبارِ شیطنت : نایکہ کے خصایل ، ص۲۰۶) 

اگر قارئین تصرف کی اجازت دیں تو معروضی حالات کے پیشِ نظر یہاں ’’ ہندوستانی نایکہ‘‘ کے بجائے’’ ہندوستان‘‘ حقیقت کی بہتر ترجمانی کرے گا۔ خیر! یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ خواجہ صاحب نے نایکہ کے کردار کا درست نقشہ کھینچا ہے ...... لیکن اگر اسے نایکہ ہی کا نقشہ تصور کیا جائے ، کیونکہ ذرا غور کرنے سے یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا کے تمام سیاسی مدبرین، فریب کاری اور غلط بیانی میں ایسا یدطولیٰ رکھتے ہیں کہ خاکہ نگار کی نظروں میں نایکہ کی بدکرداری کے ابلاغ کے لیے اور کوئی کردار جچا ہی نہیں ۔ یہ نکتہ پہلودارضرور ہے لیکن دوراز کار ہرگز نہیں ، کیونکہ عمومی طور پر سیاسی مدبرین کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جب کہ نایکہ کا کردار دنیا کے ہر سماج میں منفی اور قابلِ مذمت سمجھا جاتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے کنائے میں سیاسی مدبرین کی ایک نمایاں ’خصوصیت ‘ کاخوب خاکہ اڑایا ہے ۔ اپنے سماج کے مختلف طبقات کے طور اطوار پر خواجہ صاحب کی اتنی کڑی نظر ہے کہ بعض اوقات گمان ہوتا ہے کہ کہیں وہ خود بھی انہی کا حصہ نہ ہوں۔دیکھیے ذرا ، زبان و بیان کی لطافت کا لبادہ اوڑھا کر سماجی کثافت کا اظہار کتنے حقیقی پیرائے میں کیا گیا ہے : 

’’ یہاں ہر رنڈی کے گھر میں ایک مکھی مار کاغذ رہتا ہے جس پر بہت سی عیاش مکھیاں آ کر بیٹھتی ہیں اور چپک کر رہ جاتی ہیں اور بہت عرصے تک جان کنی میں مبتلا رہ کر مر جاتی ہیں ...... یہ رنڈی ہندوستان کی آدھی تباہی کا باعث ہے ۔ جتنی جائیدادیں سود خواروں کے پاس دولت مندوں کی رہن اور بیع کے ذریعے جاتی ہیں ، ان میں زیادہ حصہ رنڈی بازی کی وجہ سے ہوتا ہے ‘‘ (کاروبارِ شیطنت : رنڈی، ص۲۰۷)

آج بھی غیر جانب دارانہ سروے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ وطنِ عزیز کی تباہی کے جملہ عناصر میں رنڈی بازی بدرجہ اتم موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ایک اداکارہ اور ایک سرمایہ دار کی توں تکار میڈیا میں موضوع سخن بنی رہی ۔خواجہ صاحب کی خاکہ کشی سے قطع نظر، حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے اپنے تصورِ خودی کے تناظر میں اداکاری کو پسندیدگی سے نہیں دیکھا تھا کہ اس سے اداکار پنی خودی کو مسل کر شترِ بے مہار بن جاتا ہے ۔ اب اگر پورا سماج ، شترِ بے مہار کی پیروی پر اتر آئے (خیال رہے اتباع و پیروی ، مقصود بھی ہوتی ہے کہ تفریح سے ہٹ کر ، ہر ڈرامے فلم وغیرہ کا مرکزی خیال عام طور پر اصلاحی ہوتا ہے جس کے ابلاغ کے ذریعے معاشرتی سدھار کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ تماشائی، اصلاحی پیغام کے بجائے کسی فن کار کی اداؤں پر فریفتہ ہو جاتے ہیں ، اس کے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے بولنے اور لباس پہننے [معاف کیجیے گا، اتارنے تک] کی اندھا دھند تقلید کرتے جاتے ہیں ، اور اصلاحی مقصد دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے )، تو غور کیجیے گا کہ کتنی خودیوں کا خون ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بڑی خودی کے بے مہابا فروغ کے باعث نہیں ، بلکہ کسی فن کار کی اپنی خودی کی نفی سے۔ خواجہ حسن نظامی نے اسی اقبالی فکر کو اپنے الفاظ کا جامہ اس طرح پہنایا ہے : 

’’ وہ اور اس جیسی سب خوب صورت ایکٹرسیں جب ڈرامہ نوسیوں کے ان الفاظ کو تماشائیوں کے سامنے بولتی ہیں جن میں بیسوا کی برائیاں ہوتی ہیں تو ان کا دل ہنسا کرتا ہے کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان الفاظ سے طوایف بازی کا ذوق کم نہیں ہوتا بلکہ جذبات میں نیکی آمیز گناہ پیدا ہو جاتے ہیں ‘‘ (فن کار : کجن ، ص۲۰۸) 

’’نیکی آمیز گناہ‘‘ پر غور کیجیے کہ اس ترکیب سے ایک نفسیاتی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ انسان اپنے گناہ کے جواز کے لیے عموماََ ایسا افسانہ گھڑ لیتا ہے جس سے اس کا گناہ ، مزین ہو کر اس کے سامنے آتا ہے اور احساسِ گناہ کا تڑپا دینے والا جذبہ رخصت ہو جاتا ہے ۔ایسا نیکی آمیز گناہ ، حقیقی گناہ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس میں ندامت دلانے والی بے کیف رکھنے والی ضمیری رگ کو تھپک تھپک کر سلا دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقی گناہ میں ضمیر کی خلش انسان کو سکون و چین کی نیند نہیں سونے دیتی اور انسان کروٹیں بدل بدل کر بے حال ہو جاتا ہے ۔ 

’’فن‘‘ کے نام پر ’’فن کار‘‘ کیا کیا گل کھلاتے ہیں ، جھوٹ و غلط بیانی کے کتنے لق و دق صحرا ہر روز عبور کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو سراب میں مبتلا کر کے ان کی جمع پونجی اینٹھ کر نو دولتیوں کا ایک جاہل مگر بااثر طبقہ کیسے کھڑا کرتے ہیں، خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے :

’’ عمر تم پوچھو تو سولہ ، وہ پوچھیں تو کبھی سولہ سے کم ، کبھی سولہ سے بہت زیادہ ، ااور کبھی ان جان ہو کر کہے اماں کو معلوم ہے کہ میں کتنے برس کی ہوں ...... اس کا اثر فلم دیکھنے والے ہندوستان کے لیے طاعون اور ہیضے اور ملیریا کے جراثیم سے زیادہ متعدی ہے ۔ وہ اسٹیج کی حکم ران ہے جو توپوں ، ہوائی جہازوں اور تباہ کن کشتیوں کے بغیر سینما دیکھنے والوں پرحکومت کرتی ہے ۔ اس کے دیکھنے میں ، اس کے بولنے میں اور اس کے متحرک ہونے میں ایک جادو چھپا رہتا ہے ...... وہ بولتی ہوئی جھاڑو ہے جو غریب ہندوستانیوں کی جیب صاف کر کے دولت کا سارا کوڑا فلم کمپنیوں کی جیب میں پھینکتی رہتی ہے ‘‘ (فن کار : سلوچنا ، ص۲۰۹)

اس تالیف کو پورب اکادمی اسلام آباد نے نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے ۔ ۲۳۲ صفحات کی اوسط درجے کے کاغذ پر طبع کتاب کی قیمت ۲۲۵روپے بہت زیادہ نہیں ہے۔ آج کل ان پیج کمپوزڈ کتب، پروف ریڈنگ کے اعتبار سے قاری کو مطمئن نہیں کر پا رہی ہیں لیکن اس کتاب میں پروف ریڈنگ کا معیار نہایت اعلیٰ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پورب اکادمی کے ذمہ داران ادبی ذوق رکھنے کے علاوہ جدیدتکنیکی تقاضوں سے بھی کافی آگاہ ہیں، اس لیے پوری کتاب میں ہمزہ کے ترک کے ساتھ ساتھ لفظوں کو ممکن حد تک توڑ کر املا کیا گیا ہے جس پر پورب اکادمی کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ویب سائٹ www.poorab.com.pk ، ای میل:info@poorab.com.pk 

زبان و ادب

(فروری ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter