’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ : ایک مطالعہ

حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا سفرنامۂ اندلس ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ پڑھا۔ جو چند باتیں فوری طور پر ذہن میں جگہ پاگئی ہیں، اُنھیں ایک امانت خیال کرتے ہوے معرضِ تحریر میں لانے کی کوشش کررہاہوں۔ 

سب سے پہلی اور نمایاں بات تو یہ ہے کہ پونے تین سو صفحات کے اِس سفرنامے میں، جو کہ سرزمینِ یورپ کے دو ممالک کے سفر کی روداد ہے، ایک جگہ پر بھی کوئی خاتون در نہیں آئی-- نہ اِشارتاً نہ صورتاً۔ یہ بات نمایاں اِس لیے ہے کہ اردو میں سفرنامہ لکھنا جب سے ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کرگیا ہے، Marketing کا یہ اُصول کہ ہر چیز کی تشہیر عورت کے ذریعے سے ہو، ہر سفرنامے کا بنیادی جزو بن گیا ہے۔ ہر سفرنامے کے بالعموم ہر دوسرے صفحے پر کسی اصلی یا خیالی نامحرم خاتون کا چٹخارے دار ذکر ہوتا ہے۔ کچھ ایسے شیردل سفرنامہ نگار بھی موجود ہیں جو اِس صفت سے متصف اپنے سفرناموں کا انتساب بھی اپنی بیگمات کے نام کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ میں اپنے نہایت محدود مطالعے کی روشنی میں دورِ حاضر میں لکھے گئے صرف ایک سفرنامے، ’جہانِ دیدہ‘ کو اِس علت سے پاک پاتا ہوں جس میں سفرنامے کے تمام ادبی لوازم بھی موجود ہیں اور معلومات کا تنوع اور رنگارنگی بھی، جب کہ مذکورۂ بالا ’’تشہیری عنصر‘‘ سے اِس کا دامن آلودہ نہیں ہے۔ میرے مطالعے میں آنے والا دوسرا سفرنامہ اِس باب میں یہی ہے۔ 

ہاں! سفرنامۂ حج و عمرہ کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ جو قلم کار حج یا عمرہ کا سفر کرتے ہیں اُنھیں عموماً اِس مخلوق سے پالا نہیں پڑتا۔ لیکن یہ صرف اِس سفر کا اعجاز ہوتا ہے، وگرنہ اِنھی میں سے کسی کے کسی دوسرے سفر کی روداد پڑھ لیجیے، یہ مخلوق ہر ہر قدم پر دامن گیر ملے گی، الاماشاء اللہ۔ حدیثِ پاک میں جن کم تر نیت کو لے کر عازمِ سرزمینِ حجاز ہونے والے لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے، اُن میں نام و نمود کی طلب والے لوگ بھی شامل ہیں۔ فی زمانہ شاید اِن لوگوں سے ’’سفرنامۂ حج و عمرہ نویس‘‘ ہی مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ 

دوسری بات جو اِس سفرنامۂ اندلس میں ہر ہر سطر سے عیاں ہے، شاعرِمشرق علامہ محمد اقبالؒ کی محبت کی بکھری ہوئی خوشبو ہے۔ ایک اقبال شناس جب اقبال کے خوابوں کی سرزمین، اندلس میں اقبال ہی کے حوالے سے جمع ہونے والے عالم بھر کے اقبال شناسوں میں ایک مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو ہوگا تو ہر حوالہ اقبال ہی کو مشیر ہوناچاہیے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ پوری کتاب میں ایسی جگہ شاذ کے حکم میں ہے جہاں اقبال کے کسی شعر یا فلسفیانہ خیال کا استعمال آورد معلوم ہوتا ہو۔ کئی مصرعے تو ایسے برجستہ استعمال ہوئے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ 

سفرناموں میں طویل نویسی کی ایک ٹیکنیک یہ بھی ہوتی ہے کہ معلومات کا تذکرہ کرنے کے بجاے قاری کو معلومات کے بوجھ سے لادنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں ایک سفرنامۂ حج کا ذکر مثال کے طور پر کروں گا۔ جن لوگوں کو اللہ نے حج کی سعادت نصیب فرمائی ہے وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ جنت البقیع کا سارا علاقہ آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کی طرف ہے۔ اِس میں ایک مختصر لمبائی کا احاطہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ میں سے نو اَزواجِ مطہراتؓ کی قبریں ہیں جو آپس میں اِس قدر قریب ہیں کہ ایک دوسری میں تقریباً پیوست ہیں۔ اِس باب میں علم معدوم ہے کہ یہ قبریں کس ترتیب سے ہیں۔ ہمارے ایک قلم کار کے سفرنامۂ حج کا تقریباً بیس فی صد حصہ اَزواجِ مطہراتؓ کی قبور پر فاتحہ خوانی کی روداد پر مشتمل ہے۔ اور بہت سی باتوں کے علاوہ ہر اُم المومنینؓ کی حضورِپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی تفصیل اور اُن کے اور اُن کے خاندان کے فضائل اور بعض تاریخی واقعات بھی فاتحہ خوانی کے اِس موقع پر بیان کیے گئے ہیں۔ پیرایۂ اظہار اِس تخصیص اور صراحت کے ساتھ یوں ہے کہ ’’میں [فلاں] ام المومنینؓ سے اجازت لے کر [فلاں] ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔۔‘‘ Pedantry کا عالم یہ ہے کہ موصوف نے سفرنامے کے ہر باب کا عنوان کسی مصرعے سے باندھنے کا التزام کیا ہے، گو وہ مصرع کتنا ہی غیرمعروف اور غریب ہو۔ آمدم برسرِمطلب۔ ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ کے مطالعے کے دوران میں مجھے طویل نویسی اور قاری کو معلومات کے بوجھ سے لادنے کی ایسی کوئی کوشش کسی ایک جگہ پر بھی نہیں ملی۔ رواں دواں انداز میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے، اور ہر بات ایک منطقی ترتیب میں ہے۔ جو بات کہنے کی ہے، صرف وہی کہی گئی ہے۔ لیکن ایک بات ضرور عرض کروں گا کہ کچھ چیزیں بلاضرورت محسوس ہوتی ہیں، جیسے ایک جگہ پر دفتری سیاست کا اور ایک اور جگہ پر ملکی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا اقبالیات کے حوالے سے مختصر مختصر تذکرہ، گو یہ زیادہ بوجھل بھی نہیں ہے۔ 

رہا Pedantryکا سوال-- یہ بات واضح ہے کہ جب ایک شخص ایک ایسے سفر کی روداد بیان کرے گا جو اُس کے خوابوں کی سرزمین میں ہوا، تو اُسے اِس بات کا کہاں ہوش ہوگا کہ اندازِبیاں، جملوں کی بُنت اور الفاظ کے چناؤ پر توجہ دے۔ وہ تو بلاتمنّاے ستایش و کلمۂ تحسین اپنی کہے چلا جاے گا۔ اِس فحواے کلام کو دل کی آواز کہتے ہیں۔ ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ میں ہر جگہ یہی انداز ہے۔ مجھے یہاں ہٹلر کی خودنوشت سوانح Mein Kampf [میری جدوجہد] سے ایک بات یاد آرہی ہے۔ اُس نے ایک جگہ پر لکھا ہے کہ اگر دشمن کا کوئی جاسوس پکڑا جاے تو راز اُگلوانے کے لیے اُسے زمین پر ننگے پاؤں کھڑا کرکے دونوں میں سے کسی ایک پاؤں کی سب سے چھوٹی انگلی پر بوٹ کی ایڑی رکھ کر پوری قوت سے گھوم جاؤ۔ ایک چیخ کے ساتھ اُس کی ایک انگلی نکل جاے گی۔ یہ بے اختیار چیخ اُس کی مادری زبان میں ہوگی۔ یہ مثال یہاں پر شاید نادرست اور بے موقع ہے لیکن میرا اِس سے مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ یہ پورا سفرنامہ ہی، کم و بیش، ایک ایسا ہی بے اختیار اور تصنع سے پاک اظہارِ واقعہ ہے۔ 

سفرنامے پر اپنے ابتدائیے ’’حرفِ اوّل‘‘ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے ایک بڑی کمال کی بات کہی ہے جو اگر مکمل بیان نہ کی جاے تو میرا بیان ناقص رہے گا۔ فرماتے ہیں: 

’’میں ہسپانیہ میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں کسی رومانوی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں۔ ’’اندلس میں چند روز‘‘ کے مصنف جسٹس محمد تقی عثمانی کی ایک بات دل کو لگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اختتامِ سفر پر ایک ساتھی نے سوال کیا:’’کیا کبھی مسلمان اِس خطے کو دوبارہ ایمان سے منور کرسکیں گے؟‘‘ عثمانی صاحب کا جواب بہت حقیقت پسندانہ تھا:’’اِس وقت تو مسلمان اپنے موجودہ خِطوں کو ٹھیک سے سنبھال لیں تو بہت ہے کہ وہاں اندلس کی تا ریخ نہ دُہرائی جاے۔‘‘ 

بہت سی چشم کشا باتیں بھی معلومات میں اضافے کا سبب بنیں۔ جہاں ایک طرف ابنِ رشد اور ابنِ حزم وغیرہ مفکرین کے ایسے خیالات جو امتِ مسلمہ کے سوادِ اعظم کے عقائد سے بالکل مختلف بلکہ اہلِ کفر کے خیالات کے مماثل ہیں اور اُن کے بارے میں ایسی باتیں علم میں آئیں جن سے ہم لوگ بُعدِمکانی کی وجہ سے لاعلم ہیں، اور اِن کے معلوم ہوجانے پر دل میں خفگی پیدا ہوئی، وہیں دوسری طرف مرحوم ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کے حقیقت بینی پر مشتمل خیالات اور فرانس کی لائبریری میں سیکڑوں طلبہ و طالبات کے یکسوئی سے مطالعے میں محو ہونے کے بیان نے بے حد متاثر کیا۔ یونیورسٹی میں تعلیم کا آغاز علی الصبح ہونا اور طلبہ و طالبات کا شوق و لگن کے ساتھ وقت پر پہنچنے کی فکر میں ہونا جہاں مصنف کو حیران کن اور کیف آور لگا وہاں مجھے بھی ایک ایسا پرلطف منظر لگا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

یہ بات قابلِ لحاظ ہے اور قابلِ رشک بھی، اور قابلِ صد افتخار بھی کہ یہ سفرنامہ جناب رشید حسن خاں کے مجوزہ اِملا کے مطابق لکھا گیا ہے جو بہت ہی احسن بات ہے۔ اردو املا کی یکسانی کے لیے جناب رشید حسن خاں کی خدمات اور محنت کسی پیمانے سے ناپی تولی نہیں جاسکتیں، کہ ہر پیمایش کی کوئی حد ضرور ہوتی ہے۔ میں اِس بات سے بہت خوش ہوا کہ مجھے پاکستان میں شائع ہونے والی ایک ایسی کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خاں صاحب کے تجویز کردہ اصولِ املا و رموزِاوقاف کی ہر ممکن حد تک پابندی کی گئی ہے۔ 

مرحوم مشفق خواجہ صاحب نے اِس کتاب کے ابتدائیے ’’تقدیم‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ اب سفرنامہ کوئی الگ صنفِ ادب نہیں رہی، اِسے افسانہ نگاری کا بدل بلکہ نعم البدل سمجھاجاسکتا ہے۔ یہ اِس لیے کہ وہ واقعات بھی سفرنامے میں شامل ہوجاتے ہیں جو سفر کا حصہ نہیں ہوتے۔ عرض ہے کہ خواجہ صاحب ادب کے پارکھ ہونے کی وجہ سے ادب کی ایک صنف کا دوسری صنف سے موازنہ کررہے ہیں جب کہ میں ٹیکنالوجی کی دنیا کا باشندہ ہونے کی بناپر ادب کی اِس صنف یعنی سفرنامہ نگاری کا موازنہ ٹیکنالوجی سے کرتے ہوے اِسے ایک باقاعدہ ’’صنعت‘‘ کہہ رہا ہوں۔ بات ایک ہی ہے۔ کہنے والوں نے اپنے اپنے شعبوں کی زبان استعمال کی ہے۔ 

مختصر یہ کہ ’’پوشیدہ تری خاک میں۔۔۔‘‘ کے مطالعے کے دوران میں قاری اکیلا نہیں ہے بلکہ ہر لحظہ اُس مختصر قافلے کے ساتھ ہے جس میں امیرِ سفر جناب سہیل عمر جیسے دین دار آدمی ہیں، مرزا محمد منور مرحوم جیسے مرنجاں مرنج اقبالیات کے عالمِ بے بدل ہیں، اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جیسے ’’فنافی الاقبال‘‘ استادِ ادب۔ دنیا بھر کے بڑے اور اہم اقبال شناسوں کے علاوہ مرحوم ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب سے ملاقات بھی اِس سفرنامے کے قاری کو نصیب ہوتی ہے، جو میرے خیال میں اگر جناب رفیع الدین ہاشمی صاحب کے لیے ’’حاصلِ سفر‘‘ ہے تو قاری کے لیے ’’حاصلِ مطالعہ‘‘۔ زہے نصیب! 

ادبیات

(ستمبر ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter