شہیدانِ بالاکوٹ

حضرت شاہ نفیس الحسینی

قبائے نور سے سج کر، لہو سے باوضو ہو کر

وہ پہنچے بارگاہِ حق میں کتنے سرخروہو کر

فرشتے آسماں سے ان کے استقبال کو اترے

چلے ان کے جلو میں با ادب، با آبرو ہو کر

جہانِ رنگ و بو سے ماورا ہے منزلِ جاناں

وہ گزرے اس جہاں سے بے نیازِ رنگ و بو ہو کر

جہادِ فی سبیل اللہ نصب العین تھا ان کا

شہادت کو ترستے تھے سراپا آرزو ہو کر

وہ رُہباں شب کو ہوتے تھے تو فُرساں دن میں رہتے تھے

صحابہؓ کے چلے نقشِ قدم پر ہو بہو ہو کر

مجاہد سر کٹانے کے لیے بے چین رہتا ہے

کہ سراَفراز ہوتا ہے وہ خنجر در گلُو ہو کر

سرِ میداں بھی استبالِ قبلہ وہ نہیں بھولے

کیا جامِ شہادت نوش انہوں نے قبلہ رو ہو کر

زمین و آسماں ایسے ہی جانبازوں پہ روتے ہیں

سحابِ غم برستا ہے شہیدوں کا لہو ہو کر

شہیدوں کے لہو سے ارضِ بالاکوٹ مُشکِیں ہے

نسیمِ صبح آتی ہے اُدھر سے مُشکبو ہو کر

نفیس ان عاشقانِ پاک طینت کی حیات و موت

رہے گی نقشِ دہر اسلامیوں کی آبرو ہو کر


ادبیات

(فروری و مارچ ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter